Wednesday, 31 January 2024
اٹھو کہ اب وقت قیام آیا
انسان کے دماغ میں کمپیوٹر چپ نصب کرنے کا پہلا کامیاب تجربہ
انسان کے دماغ میں کمپیوٹر چپ نصب کرنے کا پہلا کامیاب تجربہ
مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ایکس (سابق ٹوئٹر) کے مالک ایلون مسک کی کمپنی نیور النک پہلی مرتبہ انسانی دماغ میں وائر لیس برین چپ نصب کرنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ اس امر کا اعلان منگل کے روز ایلون مسک نے اپنے ایکس اکانٹ پر پوسٹ کرتے ہوئے کیا جس میں بتایا گیا: کہ پہلے انسان میں نیور النک کا برین چپ امپلانٹ کردیا گیا ہے اور مریض اب ٹھیک ہورہا ہے۔ ایلون مسک نے یہ بھی بتایا کہ ابتدائی نتائج حوصلہ افزا رہے ہیں جس دوران نیورونز کی سرگرمیوں میں اضافے کو دیکھا گیا۔انہوں نے بتایا کہ اس چپ کی مدد سے لوگ اپنے خیالات کے ذریعے موبائل فون، کمپیوٹر سمیت تمام الیکٹرونک ڈیوائس کو استعمال کرسکیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ابتدا میں یہ چپ ہاتھوں پیروں کو استعمال کرنے سے معذور افراد کے دماغ میں نصب کیا جائے گا۔یاد رہے کہ امریکی سٹارٹ اپ نیور النک ٹوئٹر کے مالک ایلون مسک کی کمپنی ہے، جسے 2016 میں بنایا گیا تھا، اس کمپنی کا مقصد ایسی کمپیوٹرائزڈ چپ تیار کرنا ہے، جنہیں انسانی دماغ اور جسم میں داخل کرکے انسان ذات کو بیماریوں سے بچانا ہے۔ گذشتہ سال اپنے امپلانٹ کا پہلا انسانی ٹرائل کرنے کیلئے امریکی ہیلتھ واچ ڈاگ سے کلیئرنس حاصل کی تھی، جس کا مقصد اسے فالج کے مریضوں کی مدد کیلئے استعمال کرنا ہے۔نیورالنک کی ویب سائٹ کے مطابق، کمپنی کا مشن ایک ’عمومی دماغی انٹرفیس‘ بنانا ہے تاکہ ان لوگوں کی خودمختاری بحال کی جا سکے جن کی طبی ضروریات پوری نہیں ہوتیں۔برین امپلانٹ کے پرائم نامی تحقیقاتی ٹرائل میں quadriplegic مریضوں کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی شامل ہوں گے ،جو ریڑھ کی ہڈی کی چوٹوں اور یہاں تک کہ امیوٹروفک لیٹرل سکلیروسیس (ALS) کا شکار ہیں۔اس سے قبل ٹیلی پیتھی کو حقیقت بنانے کی مسک کی کوشش تحقیقات کی زد میں آچکی ہے جب کمپنی کو اس ماہ ٹرائل سیفٹی پروٹوکول کی خلاف ورزی کرنے پر جرمانہ کیا گیا تھا۔پانچ بلین ڈالر کی اس کمپنی پر یہ بھی الزام لگایا گیا تھا کہ وہ ٹیکنالوجی کی حفاظت سے متعلق سرمایہ کاروں کو گمراہ کررہی ہے، جبکہ اس کے ٹیسٹ ٹرائلز کے نتائج میں جانوروں میں فالج، دورے اور دماغ کی سوجن ظاہر ہوئی تھی۔ ( #ایس_اے_ساگر )
Friday, 26 January 2024
ہندو احیا پرستی کی موجودہ یورش: اور اس کا سدّباب
Wednesday, 24 January 2024
خود اعتمادی کیسے انسانی جسم کو بیماری سے لڑنے میں مدد کرسکتی ہے؟
خود اعتمادی کیسے انسانی جسم کو بیماری سے لڑنے میں مدد کرسکتی ہے؟
بہت سے ماہرین کا یہ ماننا ہے کہ اگر آپ اپنے آپ پر یقین رکھتے ہیں تو آپ جسمانی اور ذہنی طور پر مضبوط بن سکتے ہیں اور نہ صرف یہ بلکہ آپ ہر قسم کی مشکل اور مصیبت پر قابو بھی پا سکتے ہیں۔’جب مجھے پتہ چلا کہ مجھے کینسر ہے تو میں چند سیکنڈ کیلئے بے حس ہو گئی تھی۔ لیکن اگلے ہی لمحے، میں نے فیصلہ کیا کہ میں جلد از جلد اس بیماری سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہوں۔یہ الفاظ ہیں دہلی کی سرحد سے متصل غازی آباد کی رہائشی انیتا شرما کے۔ انیتا کہتی ہیں کہ جب انھیں پتہ چلا کہ انھیں چھاتی کا کینسر ہے تو انھیں شدید صدمہ پہنچا مگر ان کے خاندان کی حالت ان سے بھی زیادہ خراب تھی۔وہ بتاتی ہیں کہ ’میں نے اپنے ارد گرد اپنے پیاروں کی حالت دیکھی تو میں نے فیصلہ کیا کہ میں ہار نہیں مانوں گی۔ صرف ایک ہفتہ بعد ہی میرا آپریشن ہوا۔ میں نے کبھی بھی اپنے ذہن میں یہ خیال نہیں آنے دیا کہ مجھے کوئی بہت ہی خطرناک بیماری ہے۔‘انیتا کی 2013 میں سرجری ہوئی تھی لیکن اب وہ معمول کی زندگی گزار رہی ہیں اور بس یہی نہیں بلکہ وہ لوگوں کو مثبت سوچنے کی بھی ترغیب دے رہی ہیں۔
ارتکاز اورمراقبہ کی اہمیت:
انیتا شرما کی قوت ارادی نے انھیں کبھی مایوس نہیں ہونے دیا۔ وہ جانتی تھیں کہ ان کی بیماری چیلنجنگ ضرور ہے، لیکن وہ یہ بھی جانتی تھیں کہ وہ آسانی سے اس کا مقابلہ کرسکتی ہیں۔مسیسپی ا سٹیٹ یونیورسٹی میں اسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر زکری ایم گیلن کا کہنا ہے کہ خود اعتمادی خود کو متحرک کرنے میں مدد دیتی ہے اور اس کے انسانی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔بی بی سی ریلز سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر زکریا کا کہنا تھا کہ ’اس سے ایپینیفرین، ایڈرینالین اور ہارمون نوراڈرین کی سطح میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوتا ہے۔ یہ ہارمونز طاقت کے احساس کو بڑھاتے ہیں اور آپ مشکل سے مشکل وقت میں بھی مثبت سوچنے لگتے ہیں۔ڈاکٹر گیلن کے مطابق ’پورے اعتماد کے ساتھ ورزش کرنے سے پٹھوں کی طاقت میں بہت زیادہ اضافہ ہو سکتا ہے۔ یہی ایک کھلاڑی کی طاقت کا اصل راز ہے۔‘ا±ن کا مزید کہنا ہے کہ ’جتنے بڑے پٹھے ہوتے ہیں، جسم اتنا ہی مضبوط اور طاقتور ہوتا جاتا ہے۔‘
مثبت سوچ اور اعتماد کیوں ضروری ہے؟
ڈاکٹر زکری ایم گیلن کے مطابق ’اعضا جسم کی ضروریات کے مطابق کردار ادا کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر ایک عام شخص کا جسم ایک ایتھلیٹ کی طرح کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکتا ہے تو یہ طاقتور بن سکتا ہے اور مسلسل کارکردگی کو بہتر بناسکتا ہے جبکہ اس کے ساتھ ہی مثبت خیالات آپ کو اپنے مقصد کی طرف توجہ مرکوز کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔‘انیتا شرما کے معاملے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ علاج کے دوران ان کے دائیں ہاتھ کو نقصان پہنچا تھا۔انیتا نے بی بی سی کے آر دویدی کو بتایا کہ کیمو کے دوران نامناسب ادویات کی وجہ سے ان کا ہاتھ اچانک سوج گیا اور پھر تین انگلیوں نے کام کرنا بند کر دیا۔انیتا نے بتایا کہ شروع میں انھوں نے سوچا تھا کہ وہ اس ہاتھ سے کچھ نہیں کر سکتیں، لیکن انھوں نے امید نہیں چھوڑی۔ آہستہ آہستہ انھوں نے اپنی انگلیوں کو حرکت دینا شروع کر دی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اب چاہے آٹا گوندھنے کا معاملہ ہو یا کوئی بھاری چیز اٹھانا ہو، ان کی انگلیاں انھیں زیادہ پریشان نہیں کرتیں۔
بے بس محسوس نہ کریں:
انیتا کے مطابق کسی کو کبھی بھی بے بس محسوس نہیں کرنا چاہیے۔ اپنے آپ پر یقین رکھنا سب سے بڑی طاقت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپریشن کے بعد بھی وہ بستر پر لیٹنا پسند نہیں کرتی تھیں۔انیتا کو جولائی 2013 میں چھاتی کے کینسر کی تشخیص ہوئی تھی اور ایک ہفتے کے اندر ان کا آپریشن ہوا تھا۔آپریشن کے دوسرے دن سے ہی وہ اکیلی ہی کسی کی بھی مدد کے بغیر واش روم جانا شروع ہو گئیں تھیں۔وہ مثبت سوچ پر زور دیتی ہیں۔ انھیں لگتا ہے کہ ورزش جسم کو مضبوط بناتی ہے اور مثبت سوچ ذہنی مضبوطی کا باعث بنتی ہے جس کے بعد مشکل ترین چیلنجز بھی خود کو چھوٹا محسوس کرنے لگتے ہیں۔ورزش دماغی بیماری میں بھی مفید ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر ذہنی بیماری کا مسئلہ زیادہ سنگین نہ ہو تو ارتکاز اور ورزش کی مدد سے اس پر بڑے پیمانے پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ دہرادون کے گورنمنٹ دون میڈیکل کالج کے سینیئر ماہر نفسیات ڈاکٹر جے ایس بشت نے بی بی سی کے اسوسی ایٹ آر دویدی کو بتایا کہ ’جسمانی فٹنس آپ کے پٹھوں کو مضبوط کرتی ہے اور آپ کی جسمانی صلاحیت میں اضافہ کرتی ہے۔ یہ دماغی صحت کے لئے بھی بہت اہم ہے۔‘ڈاکٹر بشت کے مطابق ’خوف، ڈپریشن، اضطراب جیسی ذہنی بیماریوں کا مقابلہ کرنے کیلئے باقاعدگی سے ورزش سے زیادہ فائدہ مند کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔‘
کون سی ورزش زیادہ بہترین ہے؟
ڈاکٹر جے ایس بشٹ کے مطابق ذہنی اور جسمانی صحت کو الگ الگ نہیں دیکھا جا سکتا اور اس میں اعتماد بہت بڑا کردار ادا کرتا ہے۔عالمی ادارہِ صحت کی جانب سے کی جانے والی تعریف اور تشریح میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ان کے مطابق تمام نفسیاتی ماہرین اپنے مریضوں کو ادویات کے ساتھ باقاعدگی سے ورزش کرنے کا مشورہ دیتے ہیں، کیونکہ جسمانی طور پر فعال افراد کیلئے ذہنی مسائل سے نمٹنا اور ان پر قابو پانا آسان ہے۔ڈاکٹر جے ایس بشٹ کے مطابق انسان کی عمر چاہے جو بھی ہو اسے ورزش کرنی چاہیے کیونکہ اس کے بہت سے فائدے ہوتے ہیں۔ورزش پٹھوں کو مضبوط بناتی ہے اور ان کی کارکردگی میں اضافہ کرتی ہے۔ باقاعدگی سے جاگنگ، ایروبک، رسی پھلانگنا فائدہ مند ہے۔بیڈمنٹن اور ٹیبل ٹینس جیسے کھیل بھی جسمانی صلاحیت میں اضافہ کرتے ہیں۔اگر زیادہ ممکن نہ ہو تو تیز چہل قدمی کی جاسکتی ہے۔ہلکی پھلکی ورزش بڑھاپے میں اچھی یادداشت کو برقرار رکھنے کیلئے فائدہ مند ہے۔زکری ایم گیلن کے مطابق اگر آپ میں اعتماد ہے تو آپ ورزش سے اپنے پٹھوں کو مضبوط بنا کر ایک ایتھلیٹ کی طرح طاقت حاصل کر سکتے ہیں لیکن حد سے زیادہ اعتماد سے دور رہنا بھی ضروری ہے۔ان کا کہنا ہے کہ مشق کے دوران پٹھوں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ ورزش کریں۔ وزن اٹھانے میں جلدی نہ کریں۔ کوشش کریں کہ کم اور کبھی کبھی زیادہ وزن اٹھائیں تاکہ عضلات جسم کی ضروریات کے مطابق آسانی سے تیار ہوجائیں اور وہ ورزش کے فوراً بعد پروٹین لینے کا مشورہ دیتے ہیں۔
Tuesday, 23 January 2024
مشرکانہ شعائر ورسومات میں شرکت؟
خواتین کے رونے پر مردوں کا غصّہ کم ہوجاتا ہے
خواتین کے رونے پر مردوں کا غصّہ کم ہوجاتا ہے
)ایک حالیہ تحقیق میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ خواتین کے رونے سے مردوں کے غصّے اور جارحیت میں کمی آتی ہے۔ نیو یارک پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیل میں ویزمین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس کی ایک حالیہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ انسانی آنسووں میں پائے جانے والے ایک کیمیائی مرکب سے ایک سگنل خارج ہوتا ہے جو دماغ کے ان مخصوص حصّوں کی سرگرمی میں کمی لاتا ہے جس کی وجہ سے مردوں کو غصّہ آتا ہے۔ محققین نے یہ تجربہ کرنے کے لیے خواتین کو ایسی جذباتی کہانی پر مبنی ایک فلم دکھائی جسے دیکھتے ہوئے وہ رونے لگیں اور اس دوران ان کے آنسوﺅ ں کو جمع کیا گیا جبکہ 31 مردوں کو ایک کمپیوٹر گیم کھیلنے کو کہا گیا جسے غیرمنصفانہ طور پر پوائنٹس کی کٹوتی کرکے مردوں کو غصّہ دلانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ جب مردوں کے اس گروپ کو گیم کھیلتے ہوئے غصہ آگیا تو ان میں سے کچھ مردوں کو نمکین محلول اور کچھ مردوں کو خواتین کے جمع کیے ہوئے آنسو سنگھائے گئے۔ اس تحقیق کے دوران یہ نتیجہ سامنے ایا کہ جن مردوں کو خواتین کے جمع کیے ہوئے آنسو سنگھائے گئے ان کے غصّے اور جارحیت میں 43.7 فیصد کمی ظاہر ہوئی۔ یہ نتیجہ سامنے آنے کے بعد ان مردوں کے دماغ کا سٹی اسکین کیا گیا تو یہ انکشاف ہوا کہ آنسو سونگھنے والے مردوں کے دماغ کے کچھ مخصوص حصّے کی سرگرمی انسووں کی بو سے کم ہوئی جو کہ انسان میں غصّے اور جارحیت کی وجہ بنتی ہے۔ محققین نے مردوں اور بچوں کے آنسووں میں بھی ایسے ہی کیمیائی سگنلز کی موجودگی کی پیش گوئی کی ہے جو انہیں خواتین کے آنسوﺅں میں سے ملے۔ محققین نے یہ بھی بتایا کہ چھوٹے بچے جو بول نہیں سکتے وہ ہمیشہ اپنے والدین کے غصّے کو رو کر کم کرتے ہیں۔تحقیق میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ رونا انسان کا ایک ایسا رویہ ہے جسے جوانی میں جارحیت یا غصّے کو کم کرنے اور ایسی صورتحال میں جب انسان خود کو سامنے والے سے کمزور محسوس کرے تو اپنی حفاظت کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
https://saagartimes.blogspot.com/2024/01/blog-post_23.html
Saturday, 20 January 2024
قدرتی غذائیں کھانے سے خواتین 11 بیماریوں سے رہ سکتی ہیں محفوظ
Thursday, 18 January 2024
خواتین کی صحت پر کم تحقیق سے دنیا کو ایک کھرب ڈالر کا نقصان
خواتین کی صحت پر کم تحقیق سے دنیا کو ایک کھرب ڈالر کا نقصان
برصغیر ہندپاک کے علاوہ دنیا کے بیشتر ممالک میں صنف نازک کی ناقدری کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں ہے۔ دریں اثناء سوئٹزر لینڈ کے شہر ڈیووس میں ہونے والے ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس میں بتایا گیا ہے کہ خواتین اور مردوں کی صحت کے مسائل سے نمٹنے کے طریقہ کار میں بہت زیادہ فرق ہے جس سے دنیا بھر میں سالانہ ایک کھرب کا نقصان ہوتا ہے۔ مردوں کے مقابلے میں خواتین اپنی زندگی کا ایک چوتھائی سے زیادہ حصہ خراب صحت کے باعث تکلیف میں گزار دیتی ہیں۔ جس کی ایک وجہ مردوں کی صحت پر زیادہ ہونے والی تحقیق، بیماری کی تشخیص اور علاج کا ممکن ہونا ہے۔ ڈیووس میں پیش ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر مردوں اور خواتین کی صحت کے حوالے سے اس فرق کو ختم کر دیا جائے تو سنہ 2040 تک عالمی معیشت میں سالانہ ایک کھرب ڈالر کا اضافہ ہوگا۔ اس کا مطلب ہے کہ خواتین مجموعی ملکی پیداوار میں 1.7 فیصد کی ترقی کا سبب بن سکیں گی۔ رپورٹ کے مطابق خواتین کی صحت پر لگائے گئے ہر ایک ڈالر پر معاشی ترقی کی مد میں تین ڈالر واپس آئیں گے۔ اس معاشی ترقی کی ایک بڑی وجہ بیمار خواتین کا تندرست ہوکر ورک فورس میں واپس شامل ہونا ہے۔ خواتین میں یوٹرس سے جڑے مسائل پر مفصل تحقیق سے سال 2040 تک عالمی مجموعی پیداوار میں 130 ارب ڈالر کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ جیسے کہ اینڈومیٹریوسس کی بیماری کا شکار خواتین میں سے نصف سے بھی کم میں اس بیماری کی درست طریقے سے تشخیص کی گئی ہے۔ ڈیووس میں پیش ہونے والی رپورٹ میں اس بات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے کہ علاج اور تشخیص سے کس طرح سے مردوں کو خواتین کے مقابلے میں زیادہ فائدہ پہنچا ہے۔ جیسے کہ سانس کی بیماری استھما کیلئے استعمال ہونے والا انحیلر مردوں کے مقابلے میں خواتین کے کیس میں کم موثر ثابت ہوا ہے۔ ماضی میں ہونے والی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ 700 ایسی مختلف بیماریاں ہیں جن کی خواتین میں تشخیص دیر سے ہوتی ہے جبکہ مردوں میں جلد ہوجاتی ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کے ہیلتھ کیئر کے سربراہ شیام بشن کا کہنا ہے کہ تجزیے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ خواتین کی صحت پر خرچ کرنا ہر ملک کی ترجیح ہونا چاہئے۔ اس موقع پر ورلڈ اکنامک فورم نے خواتین کی صحت کیلئے عالمی اتحاد بنانے کا اعلان کیا جس کے تحت پانچ کروڑ پچاس لاکھ ڈالر خواتین کی صحت پر خرچ کرنے کا عہد کیا گیا ہے۔
Wednesday, 17 January 2024
وفات یافتہ اشخاص کی فکری انحرافات کو بیان کرنا مصلحتِ شرعیہ کے تحت جائز ہے
Sunday, 14 January 2024
ورزش کرنے کیلئے دن کا بہترین وقت کونسا ہے؟
ورزش کرنے کیلئے دن کا بہترین وقت کونسا ہے؟
اس بات کے بڑھتے ہوئے ثبوت مل رہے ہیں کہ دن کے جس وقت ہم ورزش کرتے ہیں اس سے ہماری کارکردگی اور صحت پر فرق پڑتا ہے، لیکن کیا ہم اپنے جسم کو دن کے مختلف اوقات میں بہترین نتائج کیلئے تربیت دے سکتے ہیں؟چند ہی مہینوں میں، دنیا کے چوٹی کے کھلاڑی پیرس میں جمع ہوں گے تاکہ دنیائے کھیل کے سب سے بڑے انعام کیلئے مقابلہ کر سکیں، یعنی اولمپک گولڈ میڈلز۔ ان لوگوں کیلئے جو ریکارڈ توڑ کارکردگی دکھانا چاہتے ہیں، وہ شاید اپنی ورزش اور مقابلے کے اوقات پرغور کرنا چاہیں گے۔ ایتھنز (2004)، بیجنگ (2008)، لندن (2012) اور ریو (2016) میں ہونے والے چار اولمپک کھیلوں میں، 144 تمغے جیتنے والے تیراکوں کے تیراکی کے اوقات کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ ا±ن میں سے شام کے اوائل میں مقابلہ کرنے والے سب سے تیز پائے گئے۔ خاص طور پر وہ جنھوں نے شام 5:12 بجے کے قریب مقابلوں میں حصہ لیا۔ اس بات کے بڑھتے ہوئے شواہد مل رہے ہیں کہ جسمانی کارکردگی دن کے وقت سے متاثر ہوتی ہے۔اور یہ صرف اولمپینز میں نہیں پایا جاتا ہے- تفریحی سائیکل سوار بھی شام کے وقت ہی سب سے تیز ٹائم ٹرائل مکمل کرتے ہیں۔
پٹھوں کی طاقت کو بڑھانے والی ورزشوں کے نتائج پرخصوصی طور پر اثر پڑتا ہے کہ وہ دن کے کس وقت کی جاتی ہیں۔ ان ورزشوں کیلئے موزوں ترین وقت تقریباً شام چار بجے سے رات آٹھ بجے کے درمیان ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ورزش کرنے کے اوقاتِ کار مردوں اور عورتوں کو مختلف انداز سے متاثر کرتے ہیں۔لیکن کیا کریں اگر آپ کا روزمرہ کا معمول ایسا ہو کہ آپ کے پاس صرف صبح سات بجے ورزش کرنے کا وقت ہو؟ تحقیقات میں کچھ ایسے اشارے بھی ملے ہیں کہ ایتھلیٹک کارکردگی کیلئے بہترین وقت کو ایڈجست کرنا ممکن ہے۔
ہماری جسمانی کارکردگی اور جسم ورزش کا اثر کیسے لیتے ہیں اس کا دارومدار ہماری سرکیڈین تالوں سے ہے- سرکیڈین تالیں جسم کی سالماتی (مولیکیولر) گھڑی سے منسلک ہوتی ہیں جو 24 گھنٹوں کے دوران نیند اور بھوک جیسے عوامل کو منظم کرنے کیلئے ذمہ دار ہے۔دماغ کے ہائپوتھیلمس میں واقع مرکزی گھڑی بصری اعصاب کے ذریعے ملنے والی روشنی کے سگنلز سے چلتی ہے۔
سپرا کیاسمیٹک نیوکلئس، جیسا کہ ہائپوتھیلمس میں سرکیڈین پیس میکر ہوتا ہے، جسم کے دوسرے اعضائ ، پٹھوں کے بافتوں اور چربی کے بافتوں میں پردیی گھڑیوں کو سگنل بھیجتا ہے، اور پورے جسم کو ایک تال میل میں رکھتا ہے۔ تاہم، ان پردیی گھڑیوں کو دوسرے اشاروں جیسے کہ ہم کس وقت کھاتے ہیں یا دیگرسرگرمیاں سر انجام دیتے ہیں کی مدد سے ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے۔ہمارے پٹھوں کی گھڑی ورزش کا اس ہی طرح جواب دیتی ہے، اور اسی طرح مختلف اوقات میں باقاعدگی سے ورزش کرکے اس کو ہم آہنگ کیا جاسکتا ہے۔اگرچہ یہ ہماری کارکردگی کو متاثر کر سکتا ہے، یہ ہماری صحت پر ورزش کے اثرات کو بھی بدل سکتا ہے۔جولین زیراتھ سویڈن کی کیرولنسکا انسٹی ٹیوٹ میں ورزشی فزیالوجسٹ ہیں جو ورزش اور سرکیڈین نظام کے درمیان تعامل پر تحقیق کر رہی ہیں۔زیراتھ اور ان کے ساتھیوں نے اپنی تحقیق میں پایا کہ ایسے چوہے جو صبح کے وقت ورزش کرتے تھے، وہ زیادہ چربی پگھلا پائے۔ ان کا کہنا ہے کہ نتائج سے پتا چلتا ہے کہ دن کے بہترین وقت پر ورزش کرنا ٹائپ 2 ذیابیطس اور موٹاپا جیسے میٹابولک امراض کے شکار افراد کیلئے زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سب اس بات سے متفق ہیں کہ ورزش اچھی چیز ہے، چاہے کسی بھی وقت کی جائے،مگر ورزش کے میٹابولک نتائج کو اس بنیاد پر بہتر بنایا جا سکتا ہیں کہ آپ کس وقت ورزش کرتے ہیں۔
یہ نتائج انسانوں میں ہونے والی ایک حالیہ تحقیق کی عکاسی کرتے ہیں جس میں دیکھا گیا ہے کہ ہفتے میں ایک دن صبح کے وقت ایک گھنٹہ پٹھوں کی طاقت بڑھانے،مختصر وقفوں کے ساتھ ڈورنا، اسٹریچنگ اور برداشت کو بڑھانے والی ورزشیں کرنے سے خواتین پیٹ کی چربی اور بلڈ پریشر کو کم کر سکتی ہیں۔دلچسپ امر یہ ہے کہ خواتین جب یہی ورزشیں شام کو کرتی ہیں تو اس سے ان کی پٹھوں کی کارکردگی میں اضافہ ہوتا ہے۔مردوں کو شام کے اوقات میں ورزش کرنے سے بلڈ پریشر اور جسم کی چربی کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔
لیکن اس بارے میں ہونے والی تحقیقات ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور ماضی میں کئے جانے والے مطالعات کے کچھ حالیہ تجزیوں سے پتہ چلتا ہے کہ ورزش دن کے کسی خاص وقت کئے جانے سے کارکردگی یا صحت پر پڑنے والے اثرات پر کتنا فرق پڑتا ہے، اس کے ثبوت کافی حد تک غیر نتیجہ خیز ہیں۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ تقریباً ہر شخص دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، چوٹی کی ایتھلیٹک کارکردگی کا وقت صبح سویرے اٹھنے والے اور دیر رات تک جاگنے والوں میں مختلف ہوتا ہے۔کیرین ایسرجو کہ امریکہ میں گینزول میں واقع یونیورسٹی آف فلوریڈا میں ماہر طبیعات ہیں کہتی ہیں ہماری جسمانی گھڑیوں کے وقت میں فرق ہوتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ہم میں سے وہ لوگ جو صبح سویرے اٹھتے ہیں، ممکنہ طور پر ان کی جسمانی گھڑی 24 گھنٹے سے تھوڑا کم چلتی ہے اور ہم میں سے وہ افراد جو رات کے ا±لو ہیں، ان کی گھڑی شاید 24 گھنٹے سے کچھ زیادہ چلتی ہے۔لیکن اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کی جسمانی گھڑی آپ کو دستیاب اوقات میں اپنی بہترین کارکردگی دینے کی اجازت نہیں دیتی، تو ورزش آپ کے پٹھوں کی گھڑی کو ’ری سیٹ‘ کرنے میں بھی کار آمد ہو سکتی ہے۔
ایسر کی سربراہی میں کام کرنے والے محققین کے ایک گروپ نے پایا کہ صبح کے وقت چوہوں میں برداشت کی ورزش کی مستقل بنیادوں پر تربیت سے چوہوں کے جسموں کو ورزش کے نئے نظام کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے۔ مشاہدے میں آیا کہ مشق ان کے پٹھوں اور پھیپھڑوں میں موجود سالماتی گھڑیوں کو دن کے جلدی کے اوقات میں منتقل کردیا تھا۔اس گروپ نے اپنی تازہ ترین تحقیق، جو ابھی تک ہم مرتبہ نظرثانی شدہ جریدے میں شائع نہیں ہوئی ہے، میں پایا کہ جن چوہوں کو دوپہر میں تربیت دی گئی ان کے مقابلے میں صبح کے وقت تربیت یافتہ چوہوں میں کارکردگی میں کی جانے والی تبدیلیوں کو جلدی اپنانے صلاحیت پائی گئی۔ چھ ہفتوں کی تربیت کے بعد، صبح اور دوپہر دونوں چوہوں نے ایک جتنی برداشت کی قابلیت حاصل کرلی۔محققین کا ماننا ہے کہ اگر انسانوں میں بھی ایسا ہی اثر پایا گیا، تو کھلاڑیوں کیلئے شاید یہ ممکن ہو جائے کہ وہ اپنے اندرونی ’پٹھوں کی گھڑیوں‘ کو اپنی تربیت کی مناسبت سے دوبارہ ترتیب دے سکیں۔
ابتدائی طور پر کچھ شواہد ملے ہیں کہ ورزش انسانوں میں سرکیڈین تال کو تبدیل کر سکتی ہے، یہ ان لوگوں کیلئے مفید ثابت ہو سکتی ہے جو بدلتے کام کے اوقاتِ کار یا تواتر سے سفر کی وجہ سے ہونی والی جیٹ لیگ جیسے مسائل کا شکاررہتے ہیں۔ایسر کا کہنا ہے کہ اصل بات یہ ہے کہ ہمارے پٹھوں کی گھڑیاں اس بات پر توجہ دیتی ہیں کہ ہم کس وقت ورزش کرتے ہیں۔لگتا ایسا ہے کہ ان سب چیزوں کا اصل دارومدار مستقل مزاجی پر ہے۔ ہمارا جسم کسی بھی تربیت کو اس وقت با آسانی قبول کر لیتا ہے اگر ہم وہ کام روزانہ دن کے ایک ہی وقت پرکریں۔زیراتھ کا ماننا ہے کہ اگر آپ عام شخص ہیں، یا اگر آپ اعلٰی پائے کے ایتھلیٹ بھی ہیں جو مقابلے میں حصہ لینے کی تیاری کر رہے ہیں، تو آپ کی کوشش ہونی چاہیے کہ مقابلے کے دن کی مناسبت سے تیاری کریں۔ یعنی کہ اپنی تربیت دن کے اس وقت کریں جس وقت آپ نے مقابلہ کرنا ہے۔تاہم، زیادہ تر محققین اس بات پر متفق ہیں کہ کسی بھی وقت ورزش کرنا فائدہ مند ہے۔ لیکن، اگر آپ کو کوئی ایسا وقت ڈھونڈ پاتے ہیں جوآپ کیلئے موزوں ہے اور اس پر قائم رہتے ہیں، تو آپ کا جسم آپ کو اضافی برتری دلوا سکتا ہے۔
Saturday, 13 January 2024
بھاری قرضے سے خلاصی
Tuesday, 9 January 2024
ایک لیٹر پانی کی بوتل میں پلاسٹک کے ڈھائی لاکھ ذرات
ایک لیٹر پانی کی بوتل میں پلاسٹک کے ڈھائی لاکھ ذرات
دارالحکومت دہلی ہی نہیں بلکہ المی سطح پر پلاسٹک کی بوتلوں میں پانی فروخت ہورہا ہے۔حال ہی میں ایجاد کی گئی تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے، سائنسدانوں نے پانی کےمقبول برانڈز میں فی لیٹر پانی میں، پلاسٹک کےاوسطاً 240,000 قابل شناخت ٹکڑوں کی گنتی کی ہے جو کہ پہلے تخمینوں سے 10-100 گنا زیادہ ہے۔ اس ریسرچ نے صحت کے ممکنہ خدشات میں اضافہ کیا ہے جن کیلئے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی میں جیو کیمسٹری کے ایک ایسوسی ایٹ ریسرچ پروفیسر اور مقالے کے شریک مصنف بیجھان یان نے اے ایف پی کو بتایا، ”اگر لوگ بوتل کے پانی میں نینو پلاسٹک کے بارے میں فکرمند ہیں تو نلکے کے پانی جیسے متبادل پر غور کرنا ٹھیک ہوگا۔“ لیکن انہوں نے مزید کہا: "ہم ضرورت پڑنے پر بوتل بند پانی پینے کے خلاف مشورہ نہیں دیتے، کیونکہ جسم میں پانی کی کمی کا خطرہ (ڈی ہائیڈریشن) نینو پلاسٹک سے آلودہ ہونے کے ممکنہ اثرات سے کہیں زیادہ ہوسکتا ہے۔"آرکٹک کی برف گلوبل وارمنگ کی وجہ سے تیزی سے پگھل رہی ہے۔حالیہ برسوں میں مائیکرو پلاسٹک پر عالمی توجہ بڑھ رہی ہے، جو پلاسٹک کے بڑے ذرائع سے ٹوٹنے والے ذرات ہیں اور اب قطبی برف کی پرتوں سے لے کر پہاڑی چوٹیوں تک ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ وہ ماحولیاتی نظام میں شامل ہوجاتے ہیں اور پینے کے پانی اور خوراک ہر جگہ داخل ہونے کا راستہ تلاش کرلیتے ہیں۔ اگرچہ مائیکرو پلاسٹک 5 ملی میٹر سے کم کوئی بھی چیز ہوتی ہے، نینو پلاسٹک کو 1 مائیکرو میٹر سے نیچے کے ذرات، یا ایک میٹر کا ’اربواں) حصہ کہا جاتا ہے، جو آپ سمجھ سکتے ہیں کتنا ننھا منا ہوگا--اتنے ننھے منے ذرات نظام ہضم اور پھیپھڑوں سے گزرسکتے ہیں، براہ راست خون میں داخل ہوسکتے ہیں اور وہاں سے دماغ اور دل سمیت انسانی اعضاءتک پہنچ سکتے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ ماں کے پیٹ کے اندر placenta یا نال کو عبور کرکے، پیدائش سے پہلے بچوں کے جسموں میں بھی داخل ہوسکتے ہیں۔ ( #ایس_اے_ساگر )
انسانی دماغ پر40 سال کے بعد کیا گزرتی ہے؟
انسانی دماغ پر40 سال کے بعد کیا گزرتی ہے؟
جیسے جیسے انسان کی عمر میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اس کی جسمانی صلاحیتوں میں بھی کمی آنا شروع ہو جاتی ہے۔ یہ خاص طور پر 40 سے 50 سال کی عمر کے درمیان ہوتا ہے اور عمر کے اس حصے میں ہمارے جسم کے مختلف اعضا میں بگاڑ آنا شروع ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر اِس عمر میں ہمارے پٹھوں کا حجم کم ہو جاتا ہے، بینائی کمزور ہو جاتی ہے اور جوڑوں میں خرابی آنا شروع ہو جاتی ہے۔لیکن دماغ کے لیے یہ عمل تھوڑا مختلف ہوتا ہے۔بگاڑ کے بجائے کہا جا سکتا ہے کہ عمر کے اس حصے میں ہمارے دماغ کے اندر کی ’وائرنگ‘ دوبارہ ہوتی ہے۔ یہ کہنا ہے کہ آسٹریلیا کی موناش یونیورسٹی سے منسلک محققین کی ایک ٹیم کا جنھوں نے انسانی جسم اور دماغ پر بڑھتی ہوئی عمر کے باعث پڑنے والے اثرات ہر ہونے والے 150 مطالعات کا جائزہ لیا ہے۔
موناش یونیورسٹی کی نیوروسائنٹسٹ شرنا جمادار کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ دماغ انسانی جسم کا صرف 2 فیصد ہے، لیکن یہ ہمارے جسم میں داخل ہونے والی گلوکوز کا 20 فیصد حصہ اپنے اندر جذب کرتا ہے۔ لیکن عمر بڑھنے کے ساتھ دماغ گلوکوز کو جذب کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھتا ہے۔‘وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’دماغ اپنے نظام کی ایک طرح سے ری-انجینیئرنگ کرتا ہے تاکہ جن اجزا کو وہ جذب کررہا ہے اس کا بہترین استعمال ہو۔‘سائنسدانوں کے مطابق یہ عمل انقلابی ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں آنے والے سالوں میں نیورانز کا نظام جسم کے ساتھ مزید ہم اہنگ ہوتا ہے جس سے ذہنی سرگرمیوں پر اثر پڑتا ہے۔
لیکن اس تحقیق میں جس چیز نے محققین کو سب سے زیادہ حیران کیا وہ یہ بات تھی کہ یہ ’ری وائرنگ‘ دماغ کی عمر بڑھنے میں رکاوٹ کا کردار ادا کرتی ہے۔شرنا بتاتی ہیں ’ہمارے دماغ میں کیا عمل ہوتے ہیں یہ جاننا ضروری ہے، جو ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دے سکتے ہیں کہ ہم دماغ کی عمر بڑھنے کے منفی اثرات سے کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں۔‘
دماغ کے کچھ افعال عمر بڑھنے کے ساتھ بہتر ہوسکتے ہیں۔ حالیہ دہائیوں میں نیورو سائنسدانوں کی اہم کامیابیوں میں سے ایک یہ ہے کہ انھوں نے کسی حد تک یہ معلوم کیا ہے کہ دماغ کیسے کام کرتا ہے۔بنیادی نتیجہ یہ ہے کہ ہمارا دماغ اکائیوں کے ایک پیچیدہ نیٹ ورک سے بنا ہے جو مختلف علاقوں، ذیلی حصوں اور بعض صورتوں میں انفرادی نیورونز میں تقسیم ہوتے ہیں۔شرنا کہتی ہیں ’اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے، ہماری نشوونما اور جوانی کے دوران یہ نیٹ ورک اور اس کی اکائیاں ایک دوسرے کے ساتھ بہت بہتر رابطے میں ہوتی ہیں۔‘
یہی وجہ ہے کہ نوجوانی اور بچپن کی عمر میں کھیلوں اور نئی زبانوں کو سیکھنے کے ساتھ ساتھ عام طور پر اپنی صلاحیتوں کو فروغ دینا آسان ہوتا ہے۔ موناش یونیورسٹی کی ٹیم کے تجزیے کے مطابق جب ہم 40 کی دہائی تک پہنچتے ہیں تو یہ دماغی سرکٹس یکسر بدل جاتے ہیں۔ شرنا سمجھاتی ہے کہ اس کہ نتیجے میں انسان کی سوچ میں لچک کم ہو جاتی ہے، غیر مناسب رویے کو روکنے اور، لفظی اور عددی استدلال میں کمی آجاتی ہے۔ یہ تبدیلیاں عمر کی اِس نام نہاد پانچویں دہائی کے دوران لوگوں میں دیکھی جاتی ہیں۔ یہ ان نتائج سے مطابقت رکھتی ہیں کہ جب آپ اپنی 40 کی دہائی سے 50 کی دہائی میں جاتے ہیں تو ان نیٹ ورکس کے رابطوں میں تبدیلیاں عروج پر ہوتی ہیں۔‘اس کی وجہ یہ ہے کہ کہ پچھلے سالوں کی نسبت سرکٹس ایسے نیٹ ورکس کے ساتھ زیادہ جڑتے ہیں جو عمومی اور نہ کہ مخصوص تھیمز کی طرف راہنمائی کرتے ہیں۔ نیورو سائنٹسٹ کا کہنا ہے کہ ’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے 40 سال سے پہلے سرکٹ ایسی دماغی اکائیوں سے گزرتے ہیں جو انتہائی پیچیدہ نیٹ ورکس سے منسلک ہوتی ہیں اور 40 سال کے بعد، ہم نے مشاہدہ کیا کہ یہ سرکٹ بلا امتیاز سبھی سرکٹوں سے جڑجاتے ہیں۔‘
Monday, 8 January 2024
أَذْهَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الْحَازِمِ
Friday, 5 January 2024
کھانے کی پسند کا راز کہاں چھپا ہے؟
کھانے کی پسند کا راز کہاں چھپا ہے؟
زبان کے بارے میں بات ہونے جا رہی ہے، اب یہاں دو تین چیزیں واضح کرنی بہت ضروری۔ وضاحتوں کا آغاز اس بات سے کرتے ہیں کہ یہاں نا تو بولی جانے والی زبان کا ذکر ہونے والا ہے اور نا ہی ا±س زبان کا کہ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ فلاں بہت زبان دراز ہے۔تو جناب پھر ذہن میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس زبان کا ذکر ہونے والا ہے؟ تو ہم ذکر کرنے لگے ہے اس زبان کا جو انسان کے منھ میں ہوتی ہے جس کی مدد سے ہم یہ پتہ چلا سکتے ہیں کہ کس کھانے کا ذائقے کیسا ہے۔ابتدائی طور پر اگر کسی بھی فرد کی زبان دیکھی جائے تو زبانوں میں کوئی قابل ذکر فرق نظر نہیں آتا ہے۔تاہم اس پیچیدہ اور نفیس عضو کے تھری ڈی تجزیے سے اب یہ پتہ چلا ہے کہ یہ ایک ایسی ساخت ہے جس کی خصوصیات ہمارے فنگر پرنٹس کی طرح انفرادی ہوتی ہیں۔
ماہرین کی مانیں توفرق نہ صرف پیپیلے (کھانے کو دانتوں سے چبانے کے دوران اس پر گرفت جمائے رکھنے وہ چھوٹے چھوٹے ’ٹیسٹ بڈز‘ جو اس کے بارے میں دماغ کو یہ بتاتے ہیں کہ جو کھانا آپ کھا رہے ہیں اس کا ذائقہ کیسا ہے) کی تعداد میں ہے، بلکہ وہ گوشت دار پروٹین جو ان کی سطح کو ڈھانپتے ہیں، بلکہ ان کی شکل میں بھی ہے۔ اسکاٹ لینڈ کی ایڈنبرا یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کی طالبہ اور اس تحقیق کی سربراہ رینا اینڈریوا نے بتلایا کہ ’ایک پیپیلا سے ہم 48 فیصد درستگی کے ساتھ 15 شرکاءپر مشتمل ایک گروپ میں سے ایک شخص کی شناخت کرنے میں کامیاب رہے۔
ایک پیپیلا کے تجزیے نے کسی شخص کی جنس اور عمر کی پیش گوئی کو معتدل درستگی کے ساتھ 67 سے 75 فیصد تک ممکن بنایا۔اگرچہ ابھی یہ تحقیق جاری ہے، اینڈریوا نے یہ بھی بتایا کہ مطالعے سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ’ہمارا مطالعہ یہ ابتدائی ثبوت فراہم کرتا ہے کہ (زبانیں) بہت منفرد ہیں۔‘ انگلینڈ کی لیڈز یونیورسٹی کے محققین کے تعاون سے کی جانے والی یہ تحقیق سائنسی جریدے سائنٹیفک رپورٹس میں شائع ہوئی ہے۔
زبان کی ساخت میں فرق:
محققین کے مطابق، ہر زبان کے نقوش میں فرق یہ سمجھنے میں بھی کلیدی ہوسکتا ہے کہ ہم کچھ کھانوں کو کیوں پسند کرتے ہیں اور کچھ کو مسترد یا نا پسند کیوں کرتے ہیں۔مثال کے طور پر جن لوگوں کے پاس ’فنگیفارم فارم‘ پیپیلے کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، یعنی جو شکل میں مشروم یا کھمبیوں سے ملتے جلتے ہیں اور زیادہ تر زبان کے کناروں اور نوک پر پائے جاتے ہیں، یہ لوگ وہ ہیں جنھیں ڈارک چاکلیٹ یا لیموں پسند نہیں آتے، کیونکہ ان لوگوں کو ان کے ذائقے عام لوگوں کے مقابلے میں بہت زیادہ شدت کے ساتھ محسوس ہوتے ہیں۔ لیکن جو چیز کھانے کے بارے میں ہمارے تصور کو بھی متاثر کرتی ہے وہ پیپیلے ہیں جو ایک مکینیکل فنکشن کو پورا کرتے ہیں، اور جو زبان کو اس کی ساخت اور رگڑ کو محسوس کرنے کی اجازت دیتا ہے جو ہم کھاتے ہیں۔مثال کے طور پر یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہم کچھ کھانوں کو دوسروں پر کیوں ترجیح دیتے ہیں، یہ بات صحت مند کھانے کی ترکیب بنانے والوں کیلئے فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے۔ اینڈریوا کہتی ہیں کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ ذائقہ بہت اہم ہے، اور یہ سچ بھی ہے، لیکن کھانے کی ساخت بھی ہمیں ایک خوشگوار احساس دلاتی ہے۔‘اور ہر زبان کی انفرادیت اور بیماریوں کے درمیان کیا تعلق ہے؟ کیا پی پیلے کی شکل اور تقسیم کا مطالعہ کر کے تشخیص کرنا ممکن ہے؟اینڈریوا بتاتی ہیں کہ ’یہ ایک ایسی چیز ہے جس کی ہم اگلے مرحلے میں تحقیقات کرنے جا رہے ہیں۔‘ان کا مزید کہنا ہے کہ ’جب ایک فرد مثال کے طور پر آٹومیون نامی بیماری (کہ جس میں انسانی جسم اس بات کا تعین نہیں کر سکتا کہ ان کے جسم میں کون سے خلیے اس کے اپنے جسم کے ہیں اور کون سے جسم کے باہر سے اندر داخل ہوئے ہیں) کا شکار ہوتا ہے کہ جسے ’سجوگرین سنڈروم‘ کہا جاتا ہے (اس بیماری میں انسانی جسم کے اہم حصوں جن میں زبان سرِ فہرست ہے پر سے نمی ختم ہو جاتی ہے)، جہاں ایک قسم کے پیپیلے (فلیفارم پیپیلے) کی شکل زیادہ چپٹی ہوتی ہے۔اس تحقیق میں جہاں بہت سے باتیں واضح ہوئیں وہیں ماہرین اور محققین کا یہ بھی ماننا ہے کہ انسانی زبان کی بناوٹ اور اس کی مدد سے جسم میں موجود طبی مسائل کے بارے میں مزید جاننے کیلئے ابھی مزید مطالعے اور تحقیق کی ضرورت ہے کہ جس کی مدد سے ایسے اعدادو شمار جمع کیے جا سکیں کہ جو آنے والے دنوں میں ہونے والی تحقیقیات میں مدد گار ثابت ہوں۔
Wednesday, 3 January 2024
پیسے بچانے کے وہ 3 مشورے جو آپ کے بچوں کا مستقبل کر سکتے ہیں تابناک
پیسے بچانے کے وہ 3 مشورے جو آپ کے بچوں کا مستقبل کر سکتے ہیں تابناک
دنیا بھر میں مہنگائی کی شرح میں ہونے والے اضافے کی وجہ سے شاید ہی کوئی طبقہ یا فرد ایسا ہو جسے مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑا رہا ہو۔ اس سب کے بیچ اکثر والدین خاص طور پر اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات کی وجہ سے ذہنی تناو کا شکار رہتے ہیں۔دل و دماغ میں یہی چل رہا ہوتا ہے کہ کیا وہ اپنے بچوں کو باشعور اور مثبت شہری بنانے کیلئے بہتر تعلیم دے پائیں گے؟ کیا ان کے پاس اتنے مالی وسائل ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم اور تربیت کیلئے انھیں کسی اچھے تعلی ادارے میں داخل کروا سکیں۔اب یہاں یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ ہمارے بچوں کے مستقبل کے بارے میں فکر ایک ایسی چیز ہے جس میں تمام والدین شریک ہیں۔پہلی تشویش عام طور پر اچھی صحت کو برقرار رکھنے یا زندگی میں اپنے انتخاب سے خوش رہنے کے بارے میں ہوتی ہے۔لیکن جیسے جیسے وہ انھیں بڑے ہوتے دیکھتے ہیں، ایک تشویش جو اکثر پیدا ہوتی ہے وہ ان کی معاشی خوشحالی کے گرد گھومتی ہے۔برطانیہ میں سٹینڈرڈ لائف کی جانب سے کروائے گئے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہر 10 میں سے سات والدین اپنے بچوں کے مالی مستقبل کے حوالے سے فکر مند ہیں۔اس تشویش کے عام طور پر دو پہلو ہوتے ہیں، ایک یہ کہ اپنے مستقبل کیلئے بچت کیسے کریں، دوسرا یہ ہے کہ کیا وہ اس بچت کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔مطالعات سے پتا چلا ہے کہ کم عمری سے بچت کرنے کی عادت سے بچے مستقبل میں اپنے معاشی معاملات بہتر انداز میں چلا پاتے ہیں۔لیکن یہاں یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ بچت کرنا اتنا آسان نہیں ہے، جیسا کہ امریکہ کی ڈیوک یونیورسٹی کے معاشی ماہر اور مصنف ڈین ایریلی کہتے ہیں: ’پیسے کی خامیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے بارے میں کبھی بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ کب تک کسی کے پاس رہے گا، اسی وجہ سے ہمارے لیے یہ سوچنا بہت مشکل ہے کہ طویل مدت میں اس کا اصل مطلب کیا ہے۔‘بی بی سی کے پوڈ کاسٹ ’منی بوکس‘ میں ان کا کہنا تھا کہ ’جو چیز واقعی اہم ہے وہ یہ ہے کہ انھیں (بچوں کو) کچھ کنٹرول رکھنے اور پیسے کے بارے میں اپنے کچھ فیصلے کرنے کا موقع دیا جائے تاکہ شاید وہ کچھ غلطیاں کر سکیں۔‘معاشی ماہر سٹیفنی فٹزجیرالڈ کا کہنا ہے کہ ’اوہ، کاش میں نے کچھ پیسے بچا لیے ہوتے یا میں نے انھیں کسی ایسی چیز پر خرچ کیا ہوتا جو طویل عرصے تک میرے پاس رہتی۔‘
1۔ طویل مدتی سیونگ اکاوٹس:
چونکہ ہمارے بچوں کو فوری طور پر پیسے کی ضرورت نہیں ہے اور طویل مدتی بچت کی مصنوعات ہمیشہ اعلیٰ فوائد پیش کرتی ہیں، لہذا بینکوں کی طرف سے پیش کردہ اکاونٹس اور ہر ایک پر سود کی شرح کا موازنہ کرنا بہتر ہے۔سٹیفنی کہتی ہیں کہ ’بچوں کے سادہ سے اکاونٹس ہیں اور یہ بچوں کو پیسے کی آمد اور اخراج کے بارے میں سمجھانے کا ایک بہترین طریقہ ہے۔بینک میں اکثر دو قسم کے اکاونٹس ہوتے ہیں، فوری رسائی والے کرنٹ اکاونٹس کے ساتھ آپ کسی بھی وقت رقم نکال سکتے ہیں یا جمع کرواسکتے ہیں لیکن ان میں سود کی شرح محدود یا طویل مدتی سیونگ اکاونٹس سے کم ہوتی ہے۔اس بارے میں سمجھنے کیلئے کہ کون سا بینک بچوں کیلئے اچھے سیونگ اکاونٹ آفر کر رہا ہے، کچھ ’کمپیریزن سائٹس‘ موجود ہیں جہاں آپ مختلف سکیمز کا موازنہ کر سکتے ہیں۔آپ بہت سے بینکس میں ایسے اکاونٹ بھی منتخب کر سکتے ہیں جن تک صرف وہ بچے رہی رسائی حاصل کرسکتے ہوں جن کے نام پر وہ بینک اکاونٹ حاصل کیا گیا ہے، مگر اس میں مزید ایک اچھی بات یہ بھی ہوتی ہے کہ بچے اس اکاونٹ میں جمع ہونے والی رقم کو تب استعمال کر سکتے ہیں جب وہ 18 سال کے ہو جائیں۔سٹیفنی فٹزجیرالڈ کے مطابق ’اس سے کسی کے غیر ضروری طور پر باہر نکلنے یا کسی ایسی چیز کو کوور کرنے کے امکانات محدود ہوجاتے ہیں جس کی ضرورت نہیں ہوتی۔‘لیکن سب سے بڑھ کر، آپ کو انھیں اس لمحے کیلئے تیار کرنا ہوگا اور یہ بات بھی ان کے ساتھ کرنی ہوگی کہ آپ کی ان سے توقعات کیا ہیں کہ آپ کی نظر میں انھیں یہ رقم کب، کہاں اور کس وقت استعمال کرنی ہے۔ جیسے یونیورسٹی میں داخلے کے وقت، مستقبل میں کسی بھی ہنگامی صورتحال کے وقت، یا پھر شاید اپنی پہلی گاڑی کی خریداری کے وقت۔ایک اور مثبت نکتہ یہ کہ جب آپ ان کیلئے بچت کرتے ہیں تو ان سے بات کرنا ضروری ہے کہ غیر متوقع واقعات کیلئے مختص رقم کس طرح انھیں یہ احساس دلائے کے ان کا مستقبل محفوظ ہے۔ بس اگر انھیں کسی چیز پر توجہ دینی ہیں تو وہ ان کی تعلیم ہے۔
2۔ آہستہ آہستہ، پیسے جمع کرنے کیلئے بچت کرنا کبھی بھی آسان نہیں ہوتا:
آج ایک بچے کیلئے بچت اس کے مستقبل کیلئے ایک عظیم تحفہ ہے۔ نہ صرف وہ کچھ رقم کے ساتھ اپنی بالغ زندگی کا آغاز کرسکتے ہیں بلکہ اس عمل میں بچوں کو شامل کرنے سے انھیں پیسے کے بارے میں اہم سبق سیکھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔لیکن اگر آپ کچھ عرصے کیلئے خاندانی صورتحال کی وجہ سے ان کیلئے بچت نہیں کرسکتے ہیں تو، معاملات مشکل میں تو پڑ سکتے ہیں مگر کوشش سے پھر بھی آپ کچھ نہ کچھ کر ہی سکتے ہیں۔ضروری بات یہ ہے کہ قرض نہ لیا جائے یا اس طرح کی کسی چیز کیلئے کریڈٹ کارڈ کا استعمال نہ کیا جائے۔’والدین کیلئے یہ بہت فطری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ان کے بچوں کو بہترین مستقبل ملے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم افراط زر کی وجہ سے زندگی گزارنے کے اخراجات کے بحران سے دوچار ہیں اور لوگوں کی بچت کرنے کی صلاحیت اس وقت واضح طور پر کافی تناو کا شکار ہے۔‘
فنانشل پلانر کرسٹی سٹون کے بھی ایسا ہی خیالات ہیں۔فٹزجیرالڈ کہتے ہیں کہ ’میں واقعی لوگوں کی حوصلہ افزائی کروں گی کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ اپنے بچوں کے مستقبل کیلئے بچت کی امید میں قرض میں نہ جائیں یا اپنے قرضوں میں ڈیفالٹ نہ ہوں۔’آپ کے بچوں کو تکلیف نہیں ہوگی اور اہم بات یہ ہے کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ خاندان اس وقت مالی طور پر محفوظ ہے۔ امید ہے، جیسے جیسے چیزیں بہتر ہوں گی، وہ مستقبل میں مزید بچت کرنے کے قابل ہوں گے۔‘
3۔ کمپاونڈ انٹرسٹ کے جادو کو نظر انداز نہ کریں:
کچھ لوگ اسے ’کمپاونڈ انٹرسٹ‘ کے طور پر بیان کرتے ہیں، کچھ اسے دنیا کے آٹھویں عجائب کے طور پر اور کچھ ایک برف کے گولے کے طور پر بیان کرتے ہیں جو آپ کی توجہ کے بغیر آپ پر بوجھ کو بڑھا دیتا ہے۔یہ سب ایک بچت اکاو¿نٹ سے شروع ہوتا ہے جس میں انٹرسٹ کی شرح ہوتی ہے۔ فرض کریں کہ آپ کے پاس 100 ڈالر یا اس کے مساوی کو ایک اکاونٹ میں ڈالتے ہیں جو آپ کو 5 فیصد سود کی شرح پیش کرتا ہے۔اب اس معاملے کو سمجھنے اور پڑھتے وقت آپ کو تھوڑی توجہ مرکوز کرنا ہو گی، اعداد و شمار پر ایک اچھی اور گہری نظر ڈالیں۔اب معاملے کو لے کر آگے بڑھتے ہیں۔اس اکاو¿نٹ کے ساتھ، پہلے سال کے اختتام پر، آپ کے پاس 105 ڈالر ہوں گے۔100 ڈالر آپ نے اپنی جیب سے نکالے۔اور بینک نے آپ کو ایک اچھا گاہک ہونے اور ایک سال میں اس ڈیپازٹ کو نہ چھونے کیلئے انعام کے طور پر 5 ڈالر دیے۔کلیدی تصور یہ ہے، کہ کمپاونڈ انٹرسٹ کا جادو اس وقت تک ہوتا ہے، یا تب تک سب ک±چھ اچھا لگتا ہے کہ جب تک آپ پیسے منتقل نہیں کرتے۔ نہ تو ابتدائی، نہ ہی وہ جو بینک آپ کو دیتا ہے۔فٹزجیرالڈ کا کہنا ہے کہ ’آپ صرف اکاونٹ میں ایکویٹی رکھ کر مفت پیسہ کما سکتے ہیں۔‘
اب ہم بڑھنے لگے ہیں دوسرے سال کی جانب۔۔۔
آپ کے بچے کے اکاونٹ میں اب 105 ڈالر ہیں، لیکن اس سال آپ کی مالی حالت آپ کو اس میں مزید ڈیپازٹ کرنے کی اجازت نہیں دے رہی، مگر ہو گا کیا؟ ہوگا یہ کہ آپ کے پیسے میں اس کے باوجود اضافہ ہوتا رہے گا۔
لیکن یہاں دماغ چکرا گیا کہ میاں وہ کیسے؟
ہوگا یہ کہ آپ اس سال 5 ڈالر نہیں کمائیں گے۔ مگر پھر بھی اس سال کے آخر تک آپ کے پاس مزید پیسے ہوں گے۔ 5 فیصد کی اسی شرح سود کے ساتھ بینک اب آپ کو زیادہ معاوضہ دینے جارہا ہے۔ اب آپ جو 5 فیصد کماتے ہیں وہ 100 ڈالر کے بارے میں نہیں ہے جو آپ نے شروع میں رکھا تھا۔ انٹرسٹ اب دوسرے سال کیلئے آپ کے اکاونٹ کے کل پر لاگو ہوتا ہے، یعنی 105 ڈالر پر۔دوسرے سال کیلئے سود 5 کی بجائے 5 اعشاریہ 25 امریکی ڈالر ہے۔لیں جناب اب آپ کا بچہ 110.25 ڈالر کے ساتھ تیسرے سال کا آغاز کرتا ہے اور 115.76 ڈالر کے ساتھ اس کا تیسرا مالی سال ختم ہوتا ہے۔اب اسی طرح چوتھا سال 121.55 زالر کے ساتھ۔پانچواں سال 127.63 ڈالر کے ساتھ۔اور جب وہ 18 سال کا ہو جائے گا، تو اس کمپاونڈ انٹرسٹ کی بدولت، اسے 240.66 ڈالر ملیں گے۔چلیں اب تصور کریں کہ شروع میں 100 ڈالر کے بجائے، آپ 1000 ڈالر لگاتے ہیں، جب آپ کا بچہ 18 سال کا ہوجائے گا، تو اس کے پاس 2,406.62 ڈالر ہوں گے۔ ایک وقت میں تھوڑا سا بچائیں اور ریاضی کو باقی کام کرنے دیں اب یہاں یہ بات اہم ہے کہ جو پیسے آپ کے بچے کے اکاوٹ میں بینک ہر سال اپنی جانب سے ڈال رہا ہے وہ اس بات کا انعام ہے کہ آپ نے اس دوران اس اکاونٹ سے کوئی رقم نہیں نکلوائی۔اور اگر آپ اپنے بچے کو مالیات کے بارے میں سکھانا چاہتے ہیں تو انھیں ایک پیگی بینک دیں یعنی غلہ، منی ہیلپر۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بہت چھوٹے بچوں کیلئے ایک اچھا خیال ہے، جنھیں یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ پیسہ کھلونا نہیں ہے اور اسے محفوظ جگہ پر رکھنا چاہئے۔ایک پیگی بینک انھیں مختلف سکوں اور بلوں کی قیمت کو سمجھنے میں مدد کرتا ہے، اور یہ کہ بڑے سکے ضروری طور پر زیادہ قیمتی نہیں ہیں۔یہ اپنے بچے کو جیب خرچ دینا شروع کرنے کا بھی ایک اچھا موقع ہے اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا سکہ ضرور ہوتا ہے مگر اس کی مدد سے بچے کو ایک بڑا اور زندگی کا اہم سبق ملتا ہے۔کیونکہ ہم خود ان کیلئے بچت کرنے کا انتظام کرتے ہیں اس کے علاوہ، یہ ضروری ہے کہ ہمارے بچے میں اس بات کی سمجھ اور فہم پیدا ہو کہ پیسہ کس طرح کام کرتا ہے۔ایک ایسا ہنر یا سبق جو ان کی باقی زندگی کیلئے ان کے ساتھ رہے گا۔