روز قیامت نبیوں کا نفسی نفسی کہنا؟
-------------------------------
--------------------------------
قیامت کا دن اس قدر دہشت ووحشت کا ہوگا کہ بچے بوڑھے ہوجائیں:
يَجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِيبًا (المزمل 17)
تمثیلی پیرائے میں کہا جائے تو اگر کوئی حاملہ ہو تو شدت گھبراہٹ سے حمل ساقط کردے اور اگر کوئی دودھ پلانے والی ہو تو شدت ہول وخوف سے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے:
وَتَضَعُ كُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَهَا (الحج 2)
لوگوں کے دل کانپ رہے ہونگے:
قُلُوبٌ يَوْمَئِذٍ وَاجِفَةٌ (النازعات 8)
آنکھیں خوف زدہ ہونگی:
(أَبْصَارُهَا خَاشِعَةٌ[ النازعات: 9)
لوگ گھٹنوں کے بل گرے ہونگے:
وَتَرَىٰ كُلَّ أُمَّةٍ جَاثِيَةً (الجاثية 28)
لوگوں کو لب ہلانے کی بھی اجازت نہ ہوگی :
هَٰذَا يَوْمُ لَا يَنطِقُونَ (المرسلات - 35)
انتہائی مشکل ترین دن ہوگا:
فَذَٰلِكَ يَوْمَئِذٍ يَوْمٌ عَسِيرٌ (9 المدثر)
کوئی جاے پناہ نہ ہوگی:
مَا لَكُم مِّن مَّلْجَإٍ (الشورى 47)
پریشانی شدید تر ہو جائےگی، لوگ پسینے سے بہہ جائیں گے۔ ایسی عمومی پریشانی ، گھبراہٹ اور دہشت ووحشت کے لمحات میں انسان حساب کتاب اور غضب وجلال خداوندی میں آسانی اور ازالہ گھبراہٹ کے لئے اولو العزم انبیاء ورسل سے شفاعت کی گہار لگاتے پھریں گے. اس روز ہر انسان اپنی ذات کے بارے جھگڑتا ہوا آئے گا، ہر ایک “نفسی نفسی” کہتا ہوگا اور سب کو اپنی اپنی پڑی ہوگی:
يَوْمَ تَأْتِى كُلُّ نَفْسٍۢ تُجَٰدِلُ عَن نَّفْسِهَا وَتُوَفَّىٰ كُلُّ نَفْسٍۢ مَّا عَمِلَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
(النحل - 111)
جھگڑے سے مراد یہ ہے کہ ہر ایک اپنے دنیوی عملوں کے بارے میں عذر بیان کرے گا. حضرت عبداللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن لوگوں میں جھگڑا یہاں تک بڑھے گا کہ روح اور جسم میں بھی جھگڑا ہوگا، روح کہے گی: یارب! (جسم میں داخل ہونے سے پہلے) نہ میرے ہاتھ تھے کہ میں ان سے کسی کو پکڑتی، نہ پاؤں تھے کہ ان کے ذریعے چلتی، نہ آنکھ تھی کہ اس سے دیکھتی (گویا میں قصور وار نہیں؛ بلکہ جسم ہی قصور وار ہے) جسم کہے گا: یارب! تو نے مجھے لکڑی کی طرح پیدا کیا، نہ میرا ہاتھ پکڑسکتا تھا ، نہ پاؤں چل سکتا تھا،نہ آنکھ دیکھ سکتی تھی، جب یہ روح نوری شعاع کی طرح آئی تو اس سے میری زبان بولنے لگی، آنکھ بینا ہوگئی اور پاؤں چلنے لگے، (جو کچھ کیا اُس نے کیا ہے) ۔ اللّٰہ تعالیٰ ایک مثال بیان فرمائے گا کہ ایک اندھا اور ایک لنگڑا دونوں ایک باغ میں گئے، اندھے کو توپھل نظر نہیں آتے تھے اور لنگڑے کا ہاتھ ان تک نہیں پہنچتا تھا تواندھے نے لنگڑے کو اپنے اوپر سوار کرلیا اس طرح انہوں نے پھل توڑے تو سزا کے وہ دونوں مستحق ہوئے (اس لئے روح اور جسم دونوں ملز م ہیں )اور تم دونوں کو عذاب ہوگا۔ تفسیر قرطبی میں ہے:
قوله تعالى يوم تأتي كل نفس تجادل عن نفسها وتوفى كل نفس ما عملت وهم لا يظلمون قوله تعالى : يوم تأتي كل نفس تجادل عن نفسها أي تخاصم وتحاج عن نفسها ; جاء في الخبر أن كل أحد يقول يوم القيامة : نفسي نفسي ! من شدة هول يوم القيامة سوى محمد - صلى الله عليه وسلم - فإنه يسأل في أمته . وفي حديث عمر أنه قال لكعب الأحبار : يا كعب ، خوفنا هيجنا حدثنا نبهنا . فقال له كعب : يا أمير المؤمنين ، والذي نفسي بيده لو وافيت يوم القيامة بمثل عمل سبعين نبيا لأتت عليك تارات لا يهمك إلا نفسك ، وإن لجهنم زفرة لا يبقى ملك مقرب ولا نبي منتخب إلا وقع جاثيا على ركبتيه ، حتى إن إبراهيم الخليل ليدلي بالخلة فيقول : يا رب ، أنا خليلك إبراهيم ، لا أسألك اليوم إلا نفسي ! قال : يا كعب ، أين تجد ذلك في كتاب الله ؟ قال : قوله - تعالى - : يوم تأتي كل نفس تجادل عن نفسها وتوفى كل نفس ما عملت وهم لا يظلمون . وقال ابن عباس في هذه الآية : ما تزال الخصومة بالناس يوم القيامة حتى تخاصم الروح الجسد ; فتقول الروح : رب ، الروح منك أنت خلقته، لم تكن لي يد أبطش بها ، ولا رجل أمشي بها ، ولا عين أبصر بها ، ولا أذن أسمع بها ولا عقل أعقل به ، حتى جئت فدخلت في هذا الجسد ، فضعف عليه أنواع العذاب ونجني; فيقول الجسد : رب ، أنت خلقتني بيدك فكنت كالخشبة ، ليس لي يد أبطش بها ، ولا قدم أسعى به، ولا بصر أبصر به، ولا سمع أسمع به، فجاء هذا كشعاع النور ، فبه نطق لساني ، وبه أبصرت عيني ، وبه مشت رجلي ، وبه سمعت أذني، فضعف عليه أنواع العذاب ونجني منه . قال: فيضرب الله لهما مثلا أعمى ومقعدا دخلا بستانا فيه ثمار، فالأعمى لا يبصر الثمرة والمقعد لا ينالها ، فنادى المقعد الأعمى ايتني فاحملني آكل وأطعمك ، فدنا منه فحمله ، فأصابوا من الثمرة ; فعلى من يكون العذاب ؟ قال : عليكما جميعا العذاب ; ذكره الثعلبي. (التفسیر القرطبی النحل - 111)
میدان محشر میں حساب کتاب شروع ہونے سے قبل زبان حال یا مقال سے ہرفردِ بشر بجز محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اپنی فکر میں “ نفسی نفسی “ کہتا پھرے گا
کوئی دوست کسی دوست کو نہیں پوچھے گا. نفسی نفسی زبان حال یا مقال سے سیدالانبیاء کے علاوہ ہر فرد بشر(بہ شمول انبیاء) کا دہرایا جانے والا عام مقولہ ہوگا
یہ مقولہ بصراحت صحیحین چند اولوالعزم انبیاء کی زبانی موجود ہے (البخاري (4712)، ومسلم (194)
آیت مبارکہ (كل نفس تجادل عن نفسها) کا عموم بتاتا ہے کہ اپنے نفس کے اعمال کی جوابدہی اور دفاع کی فکر ہر کسی کو دامن گیر ہوگی، جن انبیاء کے پاس لوگ شفاعت کی غرض سے جائیں گے وہ بھی اپنے بعض اعمال کے ظاہری شکل وصورت کے لحاظ سے جوابدہی کی فکر میں ہونگے اور اس باعث شفاعت سے معذوری ظاہر فرمائیں گے. اور سید الانبیاء کی طرف محول فرمادیں گے۔ ذرا اندازہ لگائیں کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ جیسے جلیل القدر نبی، جن کی حنیفیت، امامت اور صالحیت کے بارے قرآن کریم ناطق ہے:
إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِّلَّهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (120)
{وَآتَيْنَاهُ أَجْرَهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الآخِرَةِ لَمِنِ الصَّالِحِينَ} [العنكبوت: ٢٧]
جب وہ "نفسی نفسی" فرمارہے ہیں جیساکہ صحیحین کی روایت میں موجود ہے تو باقی انبیاء کا کیا پوچھنا؟ حافظ ابن کثیر اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:
وَفِي الْحَدِيثِ الصَّحِيحِ-فِي أَمْرِ الشَّفَاعَةِ-: أَنَّهُ إِذَا طُلِبَ إِلَى كُلٍّ مِنْ أُولِي الْعَزْمِ أَنْ يَشْفَعَ عِنْدَ اللَّهِ فِي الْخَلَائِقِ، يَقُولُ: نَفْسِي نَفْسِي، لَا أَسْأَلُهُ اليومَ إِلَّا نَفْسِي، حَتَّى إِنَّ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ يَقُولُ: لَا أَسْأَلُهُ الْيَوْمَ إِلَّا نَفْسِي، لَا أَسْأَلُهُ مَرْيَمَ الَّتِي وَلَدَتْنِي. وَلِهَذَا قَالَ تَعَالَى: (يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ * وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ * وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ)
(تفسير ابن كثير تحت آية (يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ أَخِيهِ * وَأُمِّهِ وَأَبِيهِ * وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ)
پھر اس ذیل میں خوب واضح انبیاء کرام کا نفسی نفسی کا کہنا عام امتیوں کی طرح ان کی گھبراہٹ کو مستلزم نہیں ہے ؛ بلکہ بموجب آیات کریمہ:
وَلا يَسْأَلُ حَمِيمٌ حَمِيماً يُبَصَّرُونَهُمْ} [المعارج: ١٠، ١١] “ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ يَوْمَئِذٍ شَأْنٌ يُغْنِيهِ (عبس37)
“يَوْمَ تَأْتِى كُلُّ نَفْسٍۢ تُجَٰدِلُ عَن نَّفْسِهَا” ( النحل ۱۱۱)
ہر کسی کو اپنے اعمالِ نفس کی جوابدہی کی فکر ہوگی. سوائے محمد عربی کے کوئی نبی اپنی ذاتی شرافت یا علو مقام کے باوجود اپنے گرد وپیش نظر آنے والے یا بہرِ شفاعت پہنچے کسی عزیز، رشتہ دار یا امتی کو اس روز کی دہشت وخطر ناکی سے بچانے کی پوزیشن میں نہیں ہونگے. اس خصوصی شفاعت کبری کے تاجدار اس روز صرف ہمارے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم ہونگے.
(يغبطه فيه الأولون والآخرون)
روز قیامت کی ہولناکیوں کے مد نظر اعمال نفس کے دفاع وجوابدہی کی فکر کوئی معیوب شئی نہیں ہے۔ آیات واحادیث شفاعت سے اس کا عموم ثابت ہوتا ہے ۔اسی فکرِ جوابدہی کا تکرار، زبان مقال یا زبان حال سے روز محشر “ نفسی نفسی “ کے پیرائے میں عام ہوگا۔ عام امتی کی گھبراہٹ کی نوعیت الگ ہوگی، انبیاء کرام کے مقولے کا مفہوم مختلف ہوگا۔ مفہوم کے فرق کے ساتھ یہ مقولہ عام ہے، احادیث میں جن انبیاء کا ذکر آیا ہے انہی کے ساتھ خاص نہیں ہے. عموم آیات کریمہ سے اس مقولے کی تعمیم کی گنجائش ہے۔ جب یہ صحیح احادیث ومتعدد آیات کریمہ سے اشارۃً ثابت ہے تو پھر یہ شان انبیاء کے منافی بھی نہیں ہوسکتا اور اوپر بیان کردہ معنی ومفہوم کے پس منظر میں تنقیص آمیز بھی نہیں ہے. احادیث سے ماثور ومنقول صیغوں میں اپنی طرف سے حذف وزیادتی کرنا اور پھر اسے کلام رسول کی حیثت سے بیان کرنا غلط ہے، یہاں بھی غلط ہوگا۔ حدیث کا نام وعنوان دیئے بغیر تشریح وتوضیح کی حیثیت سے اگر کوئی عربی زبان میں ہر نبی کی طرف اس مقولے کی نسبت اگر کررہا ہے تو اس میں (بندہ کے خیال ناقص میں) شرعی مضائقہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس ذیل میں یہ خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ اپنے اعمال کی جوابدہی کی یہ فکر عمومی حساب کتاب شروع ہونے سے قبل کی ہے. حساب کتاب ہوجانے اور جنت وجہنم کے فیصلے ہوجانے کے بعد جنتی کو اب ہول وخوف نہیں ہوگا، فرشتے باب جنت پہ استقبال کے لئے فرش راہ ہونگے:
لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْأَكْبَرُ وَتَتَلَقَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ هَٰذَا يَوْمُكُمُ الَّذِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ[ سورة الأنبياء: 103]
علامہ بغوی معالم التنزیل میں لکھتے ہیں:
(لا يحزنهم الفزع الأكبر) قال ابن عباس: الفزع الأكبر النفخة الأخيرة بدليل قوله عز وجل (ويوم ينفخ في الصور ففزع من في السماوات ومن في الأرض) (النمل 87)، قال الحسن: حين يؤمر بالعبد إلى النار قال ابن جريج: حين يذبح الموت وينادى يا أهل الجنة خلود فلا موت ويا أهل النار خلود فلا موت وقال سعيد بن جبير والضحاك : هو أن تطبق عليهم جهنم وذلك بعد أن يخرج الله منها من يريد أن يخرجه.
تفسیر جلالین میں بھی اس کا محل یہی بتایا گیا ہے:
(لا يحزنهم الفزع الأكبر) وهو أن يؤمر بالعبد إلى النار
جنت کی نعمتوں کو دیکھ کر جنتیوں کے چہرے ہنستے کھلتے اور ہشاش بشاش ودرخشندہ ہونگے جبکہ جہنمیوں کے چہرے غبار آلود اور کالک میلے ہوئے ہونگے، اس نوع کی دیگر کیفیات کا بیان جنت وجہنم کے فیصلے ہوچکنے کے بعد کا ہے ؛ جبکہ عمومی ہول ودہشت آغاز حساب کتاب سے پہلے کا ہے. فلامنافاة!
علماء کرام کو زبانی کلامی درسی بیانات پہ انحصار کی بجائے اصول فقہ میں بیان کردہ استنباط واستخراجِ احکام کے مصادر ومراجع سے استفادے کی کوشش پہ زیادہ توجہ مرکوز رکھنی چاہیے ۔ تضییق وتحجیر اور تمییع وتوسعِ بے جا کے درمیان اعتدال وتوازن کے ساتھ غور وتدبر اور اخذ واستنباط کی ضرورت ہے.
فقط واللہ اعلم
مرکز البحوث الإسلامية العالمي
(پیر 28؍ ربیع الثانی 1445 ھ13؍نومبر 2023ء)