صرف دسویں محرم کا روزہ رکھنا
-------------------------------
--------------------------------
جمہور صحابہ وتابعین وعلماء امت کے راجح قول کے مطابق اسلامی تقویم کے پہلے مہینے محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو 'عاشوراء' کہتے ہیں. اسلام کی آمد سے قبل زمانہ جاہلیت میں بھی اس دن کی بڑی عظمت وتکریم تھی. قریش مکہ اس دن خوشیاں مناتے، خانہ کعبہ کا غلاف بدلتے اور روزہ رکھتے تھے
نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسے دین ابراہیمی کی سنت سمجھ کر روزہ رمضان کی فرضیت (سن ۲ ہجری) سے پیشتر یہ روزہ اہتمام کے ساتھ رکھتے اور اپنے اصحاب کو بھی رکھنے کا امر فرماتے تھے. فرضیت رمضان کے بعد اس کی حیثیت استحباب کی رہ گئی. اور رکھنے نہ رکھنے کے تئیں اصحاب کو اختیار دے دیا گیا. حضرت عائشہ، حضرت عبداللہ بن عمر اور متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی روایات صحاح وسنن میں موجود ہیں:
(عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: «كَانَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ تَصُومُهُ قُرَيْشٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُهُ» صحيح البخاري. كتاب الصوم، باب صيام يوم عاشوراء، حديث رقم: (1863، ج7، ص125).
وعنھا: كانَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ يَوْمًا تَصُومُهُ قُرَيْشٌ، في الجَاهِلِيَّةِ وكانَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يَصُومُهُ، فَلَمَّا قَدِمَ المَدِينَةَ صَامَهُ، وأَمَرَ بصِيَامِهِ، فَلَمَّا نَزَلَ رَمَضَانُ كانَ مَن شَاءَ صَامَهُ، ومَن شَاءَ لا يَصُومُهُ. (صحيح البخاري: 3831) .
وسیع تر دعوتی حِکَم ومصالح یا انبیاء سابقین کے ساتھ نبوی اخوت کے اظہار کے پیش نظر غیر منصوص احکام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہلِ کتاب کی موافقت فرماتے تھے ؛ لیکن بعد میں یہ بات منسوخ اورختم ہوگئی اوراہلِ کتاب کی مخالفت کا قولاً اور فعلاً اہتمام کیا جانے لگا تھا جو بہت سی وجہ سے ضروری تھا. حافظ فرماتے ہیں:
قَدْ كَانَ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ مُوَافَقَةَ أَهْلِ الْكِتَابِ فِيمَا لَمْ يُؤْمَرْ فِيهِ بِشَيْءِ وَلَا سِيَّمَا إِذَا كَانَ فِيمَا يُخَالِف فِيهِ أَهْل الْأَوْثَان ، فَلَمَّا فُتِحَتْ مَكَّة وَاشْتُهِرَ أَمْر الْإِسْلَام أَحَبَّ مُخَالَفَةَ أَهْلِ الْكِتَابِ أَيْضًا كَمَا ثَبَتَ فِي الصَّحِيحِ ، فَهَذَا مِنْ ذَلِكَ ، فَوَافَقَهُمْ أَوَّلًا وَقَالَ : نَحْنُ أَحَقُّ بِمُوسَى مِنْكُمْ ، ثُمَّ أَحَبَّ مُخَالَفَتهمْ فَأَمَرَ بِأَنْ يُضَافَ إِلَيْهِ يَوْمٌ قَبْله وَيَوْمٌ بَعْدَهُ خِلَافًا لَهُمْ.(فتح الباري 235/10)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ آتے ہی بلکہ اس سے بھی پیشتر سے عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم عاشوراء کے ساتھ نویں کا روزہ رکھنے کا ارادہ نہیں فرمائے تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف دسویں کا روزہ وفات سے ایک سال پہلے تک رکھا ، جب صحابہ کرام نے ملاحظہ فرمایا کہ ابتدائے بعثت کے احوال کے برعکس اب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اہلِ کتاب کی موافقت کی بجائے قولاً وفعلاً مخالفت کو پسند فرماتے ہیں تو صحابہ کی جانب سے یاد دہانی کرائی گئی کہ حضور ! آپ تو عبادات میں اب اہل کتاب کی مخالفت کو پسند فرماتے ہیں جبکہ دوسری طرف عاشوراء کاروزہ رکھ کر ان کی موافقت بھی ہورہی ہے ؛ کیونکہ یہودی اس دن کی تعظیم کرتے ہیں، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے کہا کہ وہ آئندہ سال سے فی الجملہ مخالفت کی غرض سے نویں کا روزہ (بھی ) رکھیں گے ؛ لیکن اگلے سال کی نویں تاریخ آنے سے پہلے ربیع الاول میں ہی آپ واصل بحق ہوگئے. چونکہ جن حکم ومصالح کے باعث اب تک عاشوراء کے روزے میں یہودیوں کی موافقت کی جاتی رہی اب بظاہر وہ مقاصد حاصل ہوچکے تھے، اسلام کی جڑیں مضبوط ہوچکی تھیں، مکہ فتح ہوچکا تھا، یہودیوں کی ضد آہٹ دھرمی بھی آشکار ہوچکی تھی، اب ان کی موافقت کو مزید باقی رکھنا یہودیوں کی زبان طعن دراز کرنے اور منفی تبصرے کے موقع فراہم کرنا تھا ، اس لئے حکمت متقاضی ہوئی کہ اب عاشوراء کے روزے میں بھی قدر امکان ان کی مخالفت کی جائے. چنانچہ خواہش کا اظہار فرمایا کہ اگر زندگی نے وفاء کی تو آئندہ سال دسویں کے ساتھ نویں کا روزہ بھی رکھوں گا ، تاکہ دسویں کا خیر کثیر بھی حاصل ہوجائے اور نویں کے اضافے سے مخالفت یہود بھی ہوجائے۔ نویں کو دسویں کے ساتھ ملانے کی وجوہات کے تئیں کئی اقوال ہیں، احناف کا موقف یہ ہے کہ یہود صرف دسویں کے روزہ پر اکتفاء کرتے ہیں، نویں کو دسویں کے ساتھ ضم کرلینے سے یہود کے ساتھ مشابہت ختم ہوجائے گی. یعنی دسویں کی ذات میں کوئی خرابی نہیں ہے. خرابی صرف اس لئے در آئی ہے کہ یہود دسویں پر ہی اکتفاء کرلیتے ہیں
اسی اکتفاء کی مخالفت کے لئے ساتھ میں نویں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم ہے. یوں مخالفت یہود پر بھی عمل ہوجائے گا اور دسویں کے روزہ کی فضیلت بھی حاصل ہوجائے گی۔ بعض ائمہ کے یہاں نویں کو ضم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح خاص جمعہ یا ہفتہ کی ذاتی فضیلت سمجھتے ہوئے قصداً تنہا اسی دن روزہ رکھنا مکروہ وناپسندیدہ ہے ، اسی طرح عاشوراء میں مخالفت یہود کے حکم اور منشاء نبوی سامنے آجانے کے بعد تنہا دسویں کا روزہ رکھنا بھی پسندیدہ نہیں. کیونکہ اس سے دسویں یا تنہا ہفتہ یا جمعہ کی ذاتی فضیلت معلوم ہوتی ہے ؛ جبکہ ذاتی فضیلت صرف شہر رمضان کی ہے ، بقیہ ایام میں یہ خصوصیت نہیں ، اگر سہولت ہو تو دسویں ، جمعہ یا ہفتہ سے آگے پیچھے بھی ایک دن روزہ رکھا جائے
علامہ عینی نخب الافکار میں تفصیل فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:
وكذا سائر الأيام إذا أراد أن يصوم فيها لا ينبغي أن يقصد يومًا بعينه لما فيه من التشبيه لأهل الكتاب؛ لأن من عادتهم الصوم في يوم بعينه قصدًا، ولا سيما كانوا يفعلون ذلك في يوم عاشوراء، وكذلك صوم يوم الجمعة بقصد بعينه؛ لما فيه من التشبيه لهم أيضًا، اللهم إلا إذا صام يوما قبله أو يوما بعده، ولكن يستثنى من هذا الحكم شهر رمضان؛ لأن الله تعالى فرض صومه علينا بعينه إلا فيمن كان معذورا بمرض أو سفر، فقصد تعيينه لا يؤثر شيئا في الكراهة؛ لأنه بتعيين الشارع، وذلك لا يوصف بالكراهة، بخلاف غيره من المشهور والأيام حيث يؤثر التعين فيه قصدا في الكراهة لما ذكرنا. (نخب الأفكار في تنقيح مباني الأخبار في شرح معاني الآثار) [بدرالدين العيني 424/8]
بعض علماء کے یہاں عاشوراء کے ساتھ نویں کو ضم کرنے کی خواہش کی حکمت یقینی طور پر عاشوراء کا حصول ہے. کیونکہ آغاز ماہ محرم کی تاریخ میں اشتباہ کی صورت میں حقیقی دسویں تاریخ کو پالینا مشکوک ہوسکتا ہے، حقیقی دسویں کے ادراک کے لئے نویں کو بھی روزہ رکھ لیا جائے تاکہ عاشوراء جیسے افضل ترین دن کی حقیقی تاریخ متیقن طور پر بہر حال ہاتھ آجائے. ان وجوہ متعددہ محتملہ کے باعث حدیث میں دسویں کے ساتھ نویں کو بھی تاکیداً روزہ رکھنے کی خواہش ظاہر کی گئی ہے. احناف سمیت اکثر علماء نے مخالفت یہود والی علت کو راجح کہا اور اسی کو اختیار بھی کیا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ایک مرفوع حدیث میں تصریح ہے:
«خَالِفُوا الْيَهُودَ , وَصُومُوا يَوْمَ التَّاسِعِ وَالْعَاشِرِ» (شرح معاني الآثار للطحاوي ٣٣٠٢)
لیکن دیگر وجوہ کی سرے سے تردید بھی کسی نے نہیں کی ہے. محتمل وہ بھی ہیں. آثار وروایات سے ان کی تائید بھی ہوتی ہے. مثلاً: سنن ابن ماجہ کی روایت نمبر 1709 میں "مَخَافَةَ أَنْ يَفُوتَهُ عَاشُورَاءَ" کا اضافہ ہے:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَئِنْ بَقِيتُ إِلَى قَابِلٍ .. لَأَصُومَنَّ الْيَوْمَ التَّاسِعَ"
قَالَ أَبُو عَليٍّ: رَواهُ أَحْمَدُ بنُ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ زَادَ: مَخَافَةَ أَنْ يَفُوتَهُ عَاشُورَاءَ.
تنہا جمعہ کو روزہ رکھنے کے تئیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
(لا يَصُومَنَّ أحَدُكُمْ يَومَ الجُمُعَةِ، إلَّا يَوْمًا قَبْلَهُ أوْ بَعْدَهُ) أخرجه البخاري (1985) واللفظ له، ومسلم (1144)
تنہا ہفتہ کو روزہ کے لئے خاص کرنے کے تئیں ممانعت وارد ہے:
لا تصوموا يوم السبت إلا فيما افترض الله عليكم (الترمذي: ج ٣ / كتاب الصوم باب ٤٣/٧٤٤).
غرض "لَئِنْ بَقِيتُ إِلَى قَابِلٍ .. لَأَصُومَنَّ الْيَوْمَ التَّاسِعَ" کی نبوی خواہش کی حتمی طور پر کوئی متعین علت بیان نہیں کی گئی ہے، تشبہ بالیہود من جملہ وجوہ محتملہ میں سے ایک ہے جسے اکثر محدثین نے راجح کہا ہے؛ لیکن ازروئے شرع اس کا تعین نہیں ہوا ہے. بالفرض کسی زمانے میں تشبہ بالیھود والی وجہ کمیاب یا نایاب ہوجائے تو ضم تاسوعاء
کی دیگر وجوہ محتملہ تو اپنی جگہ بدستور باقی رہیں گی. اور ان علل کے باعث تنہا عاشوراء کے روزہ کو خلافِ افضل وبہتر سمجھا جائے گا. پھر ارشاد نبوی "لَأَصُومَنَّ الْيَوْمَ التَّاسِعَ" منصوص ومؤکد ہے
عزم مؤکد سے ہی اس کی سنیت ثابت ہوگی. شیخ عبدالحق لکھتے ہیں:
ثم إنه -صلى اللَّه عليه وسلم- لم يعش إلى قابل ولم يضم، لكن صار صوم التاسع سنة بهذا القول (لمعات التنقيح في شرح مشكاة المصابيح 472/4)
علامہ طیبی کا کہنا ہے:
"لَمْ يَعِشْ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - إِلَى الْقَابِلِ بَلْ تُوُفِّيَ فِي الثَّانِي عَشَرَ مِنْ رَبِيعِ الْأَوَّلِ فَصَارَ الْيَوْمُ التَّاسِعُ مِنَ الْمُحَرَّمِ صَوْمَ سُنَّةٍ، وَإِنْ لَمْ يَصُمْهُ لِأَنَّهُ عَزَمَ عَلَى صَوْمِهِ" (شرح المشكاة للطيبي الكاشف عن حقائق السنن 606/5)
جو امر منصوص طور پہ ثابت ہو اس میں قیاسات کا دخل نہیں ہوتا "لامساغ للاجتهاد مع المنصوص" علامہ نووی المجموع میں لکھتے ہیں:
وذكر العلماء من أصحابنا وغيرهم في حكمة استحباب صوم تاسوعاء أوجها:
أحدهما: أن المراد منه مخالفة اليهود في اقتصارهم على العاشر، وهو مروي عن ابن عباس.
والثاني: أن المراد به وَصْلُ يومِ عاشوراء بصومٍ، كما نهى أن يُصام يومُ الجمعة وحده، ذكرهما الخطابي وآخرون.
الثالث: الاحتياط في صوم العاشر خَشْية نقصِ الهلالِ، ووقوع غلطٍ؛ فيكون التاسع في العدد هو العاشر في نفس الأمر ( المجموع (7/645).
لہٰذا جب رسول کریم کی سنت سے ضم تاسوعاء ثابت ہوگیا اور ابن عباس کی ایک حدیث مرفوع میں بصیغہ امر اسے بیان بھی کردیا گیا. ہزاروں سالوں سے تعامل امت بھی اس پر چلا آرہا ہے. تشبہ بالیہود کے ماسوا ضم کے دیگر علل محتملہ بھی باقی ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ جس نویں کے روزے کی خواہش کا اظہار تاکیدی طور پہ نبی نے کی ہو اسے بلا عذر ومجبوری
ترک کرنے کو بہتر سمجھا جائے. بلکہ تشبہ ہو یا نہ ہو ہر زمانے میں تا قیامت ضم تاسوعاء کی افضلیت ثابت رہے گی۔ بلاوجہ اسے ترک کرنا خلافِ اولیٰ (مکروہ تنزیہی) سمجھا جائے گا. ثابت بالنص احکام کو انتفاء علت کے باعث حذف کرنے کا سلسلہ اگر شروع کردیا جائے تو نہ جانے کتنے احکام اس کی زد میں آئیں گے اور کتنوں پہ ہاتھ صاف کردینا پڑے گا اور یوں شریعت کے احکام میں تغیر کی راہ کھل جائے گی. رہ گئی یہ بات کہ کیا یہود اسلامی تقویم کی پیروی کرتے ہیں یا نہیں ؟
اگر نہیں کرتے تو عاشوراء کے دن ان کا روزہ رکھنے کا کیا مطلب ہے؟ پھر عاشوراء میں ان کی مشابہت یا مخالفت کیسے ممکن ہوگی؟ تو عرض یہ ہے کہ
{يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأهِلَّةِ قُلْ هِيَ مَوَاقِيتُ لِلنَّاسِ ... سورة البقرة : 189}
{وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ.{يونس:5}.
{إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنا عَشَرَ شَهْراً فِي كِتابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّماواتِ وَالْأَرْضَ مِنْها أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۔ سورة التوبة (٩): آية ٣٦}.
جیسی آیات کے عموم مثلاً پہلی آیت میں "مواقيت للناس" میں الناس کا عموم
اسی طرح تیسری آیت "عدة الشهور" میں الشهور سے مراد قمری مہینے پہ مفسرین کا اجماع واتفاق بتاتا ہے کہ
قمری حساب وکتاب ہی دنیا کے تمام لوگوں کے لئے مشروع ہوا تھا ؛ لیکن یہودی اپنی سرشت کے مطابق اس میں تغیر وتبدل کرنے سے کب باز رہنے والے تھے؟ جن کے خرد برد سے ان کی مقدس کتابیں محفوظ نہ رہ سکیں تو قمری تقویم کی کیا مجال ہے کہ محفوظ رہ سکے؟ لہٰذا اصلی قمری مہینے میں انہوں نے اپنی طرف سے کمی بیشی کردی
تاہم یہودیوں کے یہاں بھی سب سے مشہور تقویم قمری ہی ہے، لیکن اس میں بہت سے اضافے اور ترمیمات کردی گئی ہیں، اور ان کا اس دن کو عید منانا جس دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو بچایا اور فرعون کو غرقاب کیا تھا، ہمارے وقت (عاشوراے محرم) کے مطابق نہیں ہے۔ الموسوعة العربية العالمية میں ہے:
تعتمد السنة العبرية على القمر، وهي في العادة مكونة من 12 شهراً. وهذه الأشهر هي : تشْري، مرحشوان، كسلو، طبت، شباط، أدار، نيسان ، أيار، سيوان، تموز، آب، أيلول. تتكون الأشهر من 30 و 29 يومًا بالتبادل. في خلال كل 19 عامًا، يضاف شهر إضافي قوامه 29 يومًا سبع مرات بين شهري أدار ونيسان، ويطلق على هذا الشهر اسم فيادار. وفي الوقت ذاته يصبح أدار 30 يومًا بدلاً من 29 يومًا. اهــ .
حافظ عسقلانی اپنے زمانہ کے یہودیوں کے بارے لکھتے ہیں کہ وہ لوگ قمری مہینوں کے مطابق ہی اپنے امور صوم انجام دیتے ہیں:
فَإِنَّ الْيَهُود لَا يَعْتَبِرُونَ فِي صَوْمهمْ إِلَّا بِالْأَهِلَّةِ، هَذَا الَّذِي شَاهَدْنَاهُ مِنْهُمْ ، فَيَحْتَمِل أَنْ يَكُون فِيهِمْ مَنْ كَانَ يَعْتَبِر الشُّهُور بِحِسَابِ الشَّمْس لَكِنْ لَا وُجُود لَهُ الْآن، كَمَا اِنْقَرَضَ الَّذِينَ أَخْبَرَ اللَّه عَنْهُمْ أَنَّهُمْ يَقُولُونَ عُزَيْر اِبْن اللَّه. (فتح الباري 181/7)
علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں :
وَقَدْ بَلَغَنِي أَنَّ الشَّرَائِعَ قَبْلَنَا أَيْضًا إنَّمَا عَلَّقَتْ الْأَحْكَامَ بِالْأَهِلَّةِ وَإِنَّمَا بَدَّلَ مَنْ بَدَّلَ مِنْ أَتْبَاعِهِمْ كَمَا يَفْعَلُهُ الْيَهُود فِي اجْتِمَاعِ الْقُرْصَيْنِ، وَفِي جَعْلِ بَعْضِ أَعْيَادِهَا بِحِسَابِ السَّنَةِ الشَّمْسِيَّةِ، وَكَمَا تَفْعَلُهُ النَّصَارَى فِي صَوْمِهَا حَيْثُ تُرَاعِي الِاجْتِمَاعَ الْقَرِيبَ مِنْ أَوَّلِ السَّنَةِ الشَّمْسِيَّةِ وَتَجْعَلُ سَائِرَ أَعْيَادِهَا دَائِرَةً عَلَى السَّنَةِ الشَّمْسِيَّةِ بِحَسَبِ الْحَوَادِثِ الَّتِي كَانَتْ لِلْمَسِيحِ .. (كتاب مجموع الفتاوى 135/25)
علامہ کشمیری کا بھی خیال یہ ہے کہ یہود قمری اور شمسی دونوں تقویموں سے واقف تھے :
وليعلم أن العرب كانوا عالمي الحساب الشمسي والقمري لآيات: {إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ} [التوبة: ٣٧] إلخ على ما فسر الزمخشري في الكشاف أن النسيء هو العمل بالكبيسة أي جعل العام القمري شمسياً……..فإن العرب كانوا يعلمون الحسابين، في المعجم الطبراني بسند حسن عن زيد بن ثابت أن النبي - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - دخل المدينة يوم عاشوراء اليهود وعاشوراءهم تكون عاشرة شهرهم المسمى بتشرين، وعاشوراء المسلمين منقولة من عاشوراء اليهود فدل على أن العرب كانوا عالمى الحسابين (العرف الشذي شرح سنن الترمذي 58/2)
فیض الباری کے حاشیہ میں اس بابت کافی تفصیل موجود ہے ، جس کا ماحصل یہ ہے کہ یہود کا جو فرقہ حق پر تھا ، جس نے قمری تقویم میں تبدیلی نہ کی تھی ، اس فرقے کے مطابق حضور اپنے زمانے میں عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے ، پھر نویں کے اضافے کے بعد اس کی مخالفت کا ارادہ ظاہر فرمایا:
ثم تقييد أبي الريحان البَيرُوني قوله: بجَهَلَة اليهود، يَدُلُّ على أن الحساب في الأصل -بحسب كُتُبهم السماوية أيضًا- كان قمريًا، وإنما هم حوَّلوه إلى الشمسيِّ. وقد وُجِدَ في بعض الزِّيج والتقاويم: أن الحسابَ العِبرِيَّ قمريٌّ من لَدُن آدم عليه الصلاة والسلام إلى يومنا هذا، إلَّا عند من بدَّله إلى الشمسيِّ. وحمل بعضُ المفسِّرين قوله تعالى: {إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ} [التوبة: ٣٧] على هذا التحويل، لأن في هذا التحويل تحويلٌ للأوقات الشرعية، وذلك يُنَاقِضُ أوضاعها.
قال في "الكشاف": وربما زَادُوا في عدد الشهور، فَيَجعَلُونها ثلاثة عشر، أو أربعة عشر، ليتَّسعَ لهم الوقت، ولذلك قال عزَّ وعلا: {إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِنْدَ اللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا} [التوبة: ٣٦]، يعني من غير زيادةٍ زادوها. اهـ. وهكذا حديث: "ألَا إن الزمانَ قد استَدَارَ كهيئته يوم خلق الله السموات والأرض، السَّنةُ اثني عشر شهرًا، منها أربعةٌ حُرُمٌ، ثلاثٌ مُتَوَاليَاتٌ: ذو القَعدة، وذو الحِجَّة، والمُحَرَّم، ورَجَبُ مُضَر، الذي بين جُمَادَى، وشعبان. هـ.
وجملة الكلام: أن النبي - صلى الله عليه وسلم - وَافَقَ في تعيين عَاشُورَاء الطائفةَ التي كانت على الحق منهم، وخالَفَ الذين حَوَّلُوا حسابهم إلى الشمسيِّ، فَضَلّوا وأضلُّوا.(فيض الباري على صحيح البخاري 373/3)
اب رہا یہ مسئلہ کہ کیا یہود کے یہاں دسویں محرم کے روزے کا تصور ابھی بھی ہے یا نہیں؟ تو اس بابت سب سے مضبوط بات یہ ہے کہ راست توریت کی طرف رجوع کرلیا جائے تاکہ حقیقت کا پتہ چل سکے. اہل علم کے علم میں یقیناً یہ ہوگا کہ توریت پانچ کتابوں (اسفار خمسہ) (التكوين، الخروج، اللاويين، العدد، والتثنية) کا مجموعہ ہے. اس میں توریت کا عربی نسخہ اس وقت میرے سامنے ہے جس کے متعدد اسفار کی کئی آیات میں "یوم تذلل" کی تصریح ہے جس کو یوم الکفارہ، یوم الغفران ، یا "یوم کیبور" بھی کہتے ہیں یہودیت میں اس دن کے روزے کی بڑی اہمیت ہے اور اس کا حکم وجوب والزام کا ہے۔ مفسرین علماء یہود اس تذلل کی تفسیر "صوم" سے کرتے ہیں۔ اس میں عبرانی تقویم کے ساتویں مہینے کی دس تاریخ —جو یہود کا عاشوراء ہے اور عاشوراے محرم کے مقابل ہے — میں روزہ رکھنے کا باضابطہ حتمی اور لازمی حکم دیا گیا ہے:
"«وَيَكُونُ لَكُمْ فَرِيضَةً دَهْرِيَّةً، أَنَّكُمْ فِي الشَّهْرِ السَّابعِ فِي عَاشِرِ الشَّهْرِ تُذَلِّلُونَ نُفُوسَكُمْ، وَكُلَّ عَمَل لاَ تَعْمَلُونَ: الْوَطَنِيُّ وَالْغَرِيبُ النَّازِلُ فِي وَسَطِكُمْ." (لاویین16: 29).
سفر اللاويين 23: 27:
«أَمَّا الْعَاشِرُ مِنْ هذَا الشَّهْرِ السَّابعِ، فَهُوَ يَوْمُ الْكَفَّارَةِ. مَحْفَلاً مُقَدَّسًا يَكُونُ لَكُمْ. تُذَلِّلُونَ نُفُوسَكُمْ وَتُقَرِّبُونَ وَقُودًا لِلرَّبِّ.
سفر اللاويين 25: 9:
ثُمَّ تُعَبِّرُ بُوقَ الْهُتَافِ فِي الشَّهْرِ السَّابعِ فِي عَاشِرِ الشَّهْرِ. فِي يَوْمِ الْكَفَّارَةِ تُعَبِّرُونَ الْبُوقَ فِي جَمِيعِ أَرْضِكُمْ.
سفر العدد 29: 7:
«وَفِي عَاشِرِ هذَا الشَّهْرِ السَّابعِ، يَكُونُ لَكُمْ مَحْفَلٌ مُقَدَّسٌ، وَتُذَلِّلُونَ أَنْفُسَكُمْ. عَمَلاً مَا لاَ تَعْمَلُوا.
26 : وكلم الرب موسى قائلا.
27: اما العاشر من هذا الشهر السابع فهو يوم الكفّارة محفلا مقدسا يكون لكم تذللون نفوسكم وتقربون وقودا للرب.
28: عملا ما لا تعملوا في هذا اليوم عينه لانه يوم كفّارة للتكفير عنكم امام الرب الهكم.
29: ان كل نفس لا تتذلل في هذا اليوم عينه تقطع من شعبها.
30: وكل نفس تعمل عملا ما في هذا اليوم عينه ابيد تلك النفس من شعبها.
31: عملا ما لا تعملوا فريضة دهرية في اجيالكم في جميع مساكنكم.
32: انه سبت عطلة لكم فتذللون نفوسكم. في تاسع الشهر عند المساء من المساء الى المساء تسبتون سبتكم.
ان تمام آیات میں دس تاریخ کو طلب رحمت اور تذلیل نفس کا حتمی حکم دیا گیا ہے جس کی تفسیر ان کے علماء نے روزے سے کی ہے ۔ ساتویں مہینے "تشری" کی دس تاریخ اسلامی ماہ محرم کی دسویں کے مقابل ہے
ان کا روزہ چوبیس سے پچیس گھنٹے کا ہوتا ہے ، نویں کی مغرب سے دسویں کے قبیل المغرب ختم ہوتا ہے
کھانے پینے سے رکنے کے علاوہ بعض دیگر رسم ورواج سے اجتناب بھی ان کے روزے کے مفہوم میں داخل ہے
کتاب مقدس کی مذکورہ بالا آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ عاشوراے محرم کے موافق عاشوراے یہود ( دوسرے نام سے ) ثابت ہے
جب ان کی کتاب میں روزے کا حکم موجود ہے تو کسی زمانے میں دین بیزار یہودیوں کے اس پر ترک عمل حکم میں مؤثر نہیں ہوسکتا ۔ توریت میں محمد عربی کی بشارت آئی ہے. خاتم النبیین کی حیثیت سے ان کی بعثت کا تذکرہ موجود ہے آج کے یہودی اس کے انکاری ہیں ، تو کیا یہ کہنا درست ہوگا کہ توریت میں حضور کا تذکرہ ہی نہیں ہوا؟ اسی طرح سمجھیں، توریت میں عاشوراء کا روزہ موجود ہے. کسی علاقے کے یہودیوں کا اس پر عامل نہ ہونے سے کیا فرق پڑے گا ؟ کوئی نہ کوئی تو اپنی کتاب پر عامل ضرور ہوگا؟ حکم کتابی تصریحات وتشریعات پہ لگے گا. کسی کے عمل یا ترک عمل پر نہیں. لہٰذا دس محرم کا روزہ یہودیت میں موجود ہے. وہ لوگ آج بھی روزہ رکھتے ہیں. عبرانی مہینے تشری کی دسویں کو یہ روزہ رکھتے ہیں. ان کی خرد برد والی طبعیت کے باعث یہ تاریخ کبھی عاشوراے محرم کے موافق ہوجاتی ہے اور کبھی آگے پیچھے ہوجاتی ہے لیکن ان کے یہاں بھی عاشوراء کا مفہوم موجود ہے جسے ہم عاشوراء یہود کہہ سکتے ہیں۔ چونکہ وہ صرف ایک دن ہی روزہ رکھتے ہیں. شریعت محمدی نے ایک دن کے ساتھ دوسرے دن کے اضافے کی صورت میں مخالفت کا حکم دیا ہے
یہ مخالفت نفس روزہ عاشوراء میں نہیں ہے. ایک دن پر اکتفاء میں مخالفت کرنے کا حکم ہے. لہٰذا دسویں کے ساتھ نویں یا گیارہویں کے اضافے سے یہودیوں سے مخالفت ہوجائے گی ۔ یہ حکم ہمیشہ رہے گا. کیونکہ توریت میں تشری کی دسویں کے روزے کا حکم ہمیشہ کے لئے ہے. بلاعذر معقول ترک کرنا بہتر نہیں ہے. اسی کو اکثر فقہاء حنفیہ نے مکروہ تنزیہی (خلافِ اولیٰ) کہا ہے۔ اب رہا یہ خلجان کہ جب حضور نے پوری زندگی تنہا عاشوراء کا روزہ رکھا ، کبھی نویں یا گیارہویں کا روزہ رکھنے کی نوبت نہ آئی تو بھلا یہ خلافِ اولیٰ (مکروہ) کیسے ہوسکتا ہے؟ حافظ کشمیری رحمہ اللہ نے بھی اس خلجان کا اظہار فرمایا ہے:
ووقع في بعض كُتُبِ الحنفية أنه مكروه، وكذا يوم عاشوراء منفردًا، مع كونه عبادةً عظيمةً، وكفَّارةً لسنةٍ واحدةٍ. قلتُ: كيف وقد صامه النبيُّ صلى الله عليه وسلّم عشر سنين، فهل يَجْتَرِىءُ أحدٌ أن يَحْكُمَ بالكراهة على أمرٍ فعله النبيُّ صلى الله عليه وسلّم ( فيض الباري 362/3)
تو عرض یہ ہے کہ بموجب وماينطق عن الهوى مخالفت یہود کا حکم نازل ہونے سے پیشتر صرف عاشوراء کا روزہ رکھنا ہی تشریع خداوندی اور مرضی ربانی تھا ، یہی افضل اور بہتر تھا ، اس وقت یہ خلافِ اولیٰ (مکروہ تنزیہی) کبھی ہو ہی نہیں سکتا ، نزول احکام میں تدریجی ارتقاء ملحوظ رہا ہے. وفات سے چند سال قبل مخالفت یہود کا حکم آجانے اور لأصومنّ التاسِع کے ارشاد گرامی کے بعد اب نویں یا گیارہویں کو ملانا تشریع اور مرضی خداوندی قرار پایا. تشبہ بالیہود یا دیگر وجوہ محتملہ کے باعث دسویں کے ساتھ آگے پیچھے بلاعذر روزہ نہ رکھنا لأصومنّ التاسِع جیسی تاکیدی خواہش نبوی کی عدم رعایت کے باعث خلافِ اولیٰ ہے. جہاں تک علامہ کشمیری رحمہ اللہ کا کراہت تنزیہی کی توجیہ کے ذیل میں "لايحكم بكراهة" فرمانا ہے:
(وحاصل الشريعة أن الأفضل صوم عاشوراء وصوم يوم قبله وبعده، ثم الأدون منه صوم عاشوراء مع صوم يوم قبله أو بعده، ثم الأدون صوم يوم عاشوراء فقط. والثلاثة عبادات عظمى، وأما ما في الدر المختار من كراهة صوم عاشوراء منفرداً تنزيهاً فلا بد من التأويل فيه أي أنها عبادة مفضولة من القسمين الباقيين، ولا يحكم بكراهة فإنه عليه الصلاة والسلام صام مدة عمره صوم عاشوراء منفرداً وتمنى أن لو بقي إلى المستقبل صام يوماً معه، وكذلك في كلام ملتقى الأبحر حيث قال: إن الترجيع مكروه فإن صاحب البحر قد صرح بأن الترجيع في الأذان ليس بسنة ولا مكروه، وكذلك في عبارة النووي حيث قال: إن نهي عمر وعثمان عن القران والتمتع محمول على الكراهة تنزيهاً فلا مخلص في هذه المذكورات من تأويل أنها عبادات مفضولة.( العرف الشذي شرح سنن الترمذي
[الكشميري] 117/2)
تو یہ ان کی اپنی نرالی شان ہے ۔ ان کا مقام بہت بلند ہے. فیض الباری ہو یا عرف الشذی ان کے امالی دروس کی ورق گردانی کرنے والے پہ مخفی نہیں ہے کہ اختلافی مسائل میں اختلاف کی بنیاد اور منشا کو بیان کرنا اور پھر اس کی بنیاد پر فریقین کے دلائل کا بے لاگ محاکمہ کرنا ، اس ذیل میں اپنی دو ٹوک رائے کا اظہار کرنا یا پھر ایسی توجیہ پیش کرنا علامہ کا معمول ہے جو اختلاف کو ختم کرنے یا کم کرنے کا باعث بنے ۔ آپ کے علوم ومعارف کے سچے ترجمان حضرت مولانا سید یوسف بنوری ؒ اس ضمن میں لکھتے ہیں:
و منها أنه كان عني بمنشاء الخلاف بين الأئمة، ولا سيما في المسائل التي تتكرر علي رؤوس الأشهاد، فكان يذكر في ھذا الصدد أمورا تطمئن بها القلوب. (مقدمہ فیض الباری 16/1)
چونکہ تنہا عاشوراء کا روزہ رکھنے کو خلافِ اولیٰ ہونے نہ ہونے میں اختلاف مشائخ حنفیہ کو علامہ کاسانی وغیرہ نے بھی بیان کیا ہے ، علامہ کشمیری نے اس اختلاف کی ایسی توجیہ پیش فرمانے کی کوشش کی ہے جس سے احناف کے مابین اس بابت اختلاف ہی ختم ہوجائے. توجیہ یقیناً عمدہ ہے لیکن اس کے علی الرغم اسے محقق ابن الہمام، حصکفی، شامی، ابن نجیم، طحطاوی جیسے اساطین احناف فوقیت نہیں دی جاسکتی. ان تمام فقہاء احناف نے اسے خلافِ اولیٰ ہی قرار دیا ہے لہٰذا کراہت تنزیہی (خلافِ اولیٰ ) بر قرار رہے گی. جن بنیادوں پر کراہت تنزیہی کی نفی کی جاتی ہے وہ قابل غور ہیں۔ محقق ابن الہمام رحمہ اللہ نو اور گیارہ کے بغیر تنہا دس محرم کے روزہ رکھنے کو مکروہ گردانتے ہوئے لکھتے ہیں:
ويستحب أن يصوم قبله يوماً وبعده يوماً فإن أفرده فهو مكروه للتشبيه باليهود ( شرح فتح القدير (2/349)
ان کی تبعیت میں ممتاز حنفی محققق علامہ طحطاوی بھی مکروہ تنزیہی قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
"حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نورالإيضاح" (ص: 640): [(وأما) القسم السادس وهو المكروه فهو قسمان: مكروه تنزيهًا، ومكروه تحريمًا، الأول الذي كُره تنزيهًا كصوم يوم عاشوراء منفردًا عن التاسع أو الحادي عشر] اهـ..
ملک العلماء علامہ کاسانی رحمہ اللہ تنہا صوم عاشوراء کی کراہت کے تئیں اختلاف احناف ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
عام فقہاء احناف کے یہاں مکروہ نہیں ہے. جبکہ بعض فقہاء حنفیہ تشبہ بالیہود کے باعث مکروہ کہتے ہیں:
وكره بعضهم صوم يوم عاشوراء وحده لمكان التشبيه باليهود، ولم يكرهه عامتهم، لأنه من الأيام الفاضلة، فيستحب استدراك فضيلتها بالصوم (بدائع الصنائع (2/590)
در مختار میں ہے:
والمکروہ ۔۔۔ وتنزیھا کعاشوراء وحدہ۔ (الدر المختار : ۳۷۵/۲)
مذاہب اربعہ میں اس مسئلے پہ مزید تفصیلات کے لئے ملاحظہ کریں:
شرح الزرقاني (2/237) وحاشية الدسوقي (1/516) والشرح الصغير (1/446) ومواهب الجليل (2/49) والمجموع (7/645) ومغني المحتاج (1/446) وكشاف القناع (2/339).
مركز البحوث الاسلامية العالمي
دس محرم الحرام ١٤٤٥ ہجری
۲۸ جولائی ۲۰۲۳