(امت مسلمہ کی بدحالی کا حل بتانے والی👇 مفکراسلام کی چشم کشا تحریر )
موجودہ دور میں امت کو ترجیحات کی ضرورت
✍️ علامہ یوسف القرضاوي
ترجیحات کے توازن میں خرابی
اگر ہم اپنی زندگی پر غور کریں اور مادّی، معنوی، فکری، معاشی، معاشرتی اور سیاسی ہر پہلو سے اس پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہمارے ہاں ترجیحات کا توازن مکمل طور پر تہہ و بالا ہو چکا ہے۔ تقریباً تمام اسلامی ممالک میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک عجیب طرح کی افراط اور تفریط ہے۔
فن و تفریح کو تعلیم و تعلم پر ترجیح دی جاتی ہے۔ نوجوانوں کی سرگرمیوں میں جسمانی ورزشوں کو عقل و فکر اور روحانی تربیت پر مقدم کیا جاتا ہے، گویا کہ نوجوانوں کی تربیت کا ایک ہی مطلب ہے کہ ان کی جسمانی تربیت کی جائے۔ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا انسان صرف جسم کا نام ہے یا انسان کی انسانیت اس کے جسم اور عقل کے مجموعے کو کہتے ہیں۔
پرانے زمانے کی بات ہے۔ ہم ابوالفتح البستی کی یہ مشہور نظم یاد کیا کرتے تھے (ترجمہ):
’’اے جسم کے خادم! تو کب تک اس کی خدمت کرتا رہے گا؟ کیا تو اُس چیز سے کمائی کی امید لگائے بیٹھا ہے جس میں نقصان ہی نقصان ہے؟ نفس کی طرف توجہ کر اور اس کے فضائل کی تکمیل کر۔ تُو اگر انسان ہے تو جسم کی وجہ سے نہیں، بلکہ نفس کی وجہ سے ہے.‘‘
اور اس سے پہلے ہم نے زہیر بن ابی سلمیٰ کے معلقہ سے یہ شعر یاد کیا تھا (ترجمہ):
’’نوجوان کی زبان اس کا آدھا حصہ ہے، باقی آدھا اس کا دل و دماغ ہے۔ ] اگر دل و دماغ کو نکال دیں[ تو انسان گوشت پوست کے ایک بت کے سوا کچھ نہیں رہتا‘‘۔
لیکن آج کل ہم دیکھتے ہیں جیسے انسان ہر چیز سے پہلے جسم اور اعصاب کانام ہے۔
عرصہ پہلے ایک موسم گرما میں مصر کے لوگوں کا اس کے علاوہ کوئی موضوع بحث نہیں تھا کہ ایک کھلاڑی کا لباس فروخت کے لیے پیش کیا گیا تھا اور اس کی قیمت تقریباً ساڑھے تین لاکھ جُنَیہُ تک پہنچ گئی تھی۔ کاش، کہ یہ لوگ تفریح کی ان قسموں کا اہتمام کرتے ہوتے جس سے عوام اپنی روزمرہ زندگی میں مستفید ہوسکتے ہیں۔ مگر ان کی ساری توجہ کھیل کے مقابلوں کی طرف ہوتی ہے، خاص طور پر فٹ بال ]اور کرکٹ[ جس میں چند کھلاڑی کھیل رہے ہوتے ہیں اور باقی محض دل بہلانے والے تماشائی ہوتے ہیں۔
معاشرے میں شہرت اور ستاروں کا مقام نامور علماء، ادیبوں اور اہل دین و دانش کو نہیں بلکہ اداکاروں، گلوکاروں اور کھلاڑیوں کو حاصل ہے۔ اخبارات و رسائل، ٹی وی اور ریڈیو کے مذاکروں کا موضوع بحث یہی لوگ ہوتے ہیں۔ میڈیا پر ان کے کھیلوں اور ’’کارناموں‘‘ کی خبریں نشر ہوتی رہتی ہیں، خواہ وہ کتنی ہی غیر اہم کیوں نہ ہوں۔ رہے دوسرے لوگ ] جو کوئی فائدے کا کام کرتے ہیں [ان کا کسی کو سایہ بھی نہیں لگنے دیا جاتا بلکہ وہ طاقِ نسیان میں پڑے رہتے ہیں۔ اگر ایک فن کار فوت ہو جائے تو پوری دنیا میں تہلکہ مچ جاتا ہے اور اخبارات اس کے بارے میں تعریف و توصیف کے دریا بہا دیتے ہیں۔ مگر کوئی عالم، ادیب، یا کوئی بڑا ماہر فن وفات پاتا ہے تو کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
معاشی پہلو سے دیکھا جائے تو کھیل کود اور فن کاری کو فروغ دینے کے لیے، اور حکمرانوں کی ذاتی حفاظت کے لیے تو بڑی بڑی رقمیں خرچ کی جاتی ہیں، جسے ’’ملکی سلامتی‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ کسی میں یہ پوچھنے کی جرأت نہیں ہوتی کہ یہ سب کچھ یوں ہو رہا ہے۔
دوسری طرف تعلیمی اور فلاحی ادارے، اسپتال اور شفاخانے اوردعوتِ دین کی تحریکیں وسائل کی کمی کا رونا روتی رہتی ہیں۔ وہ جب اپنی ترقی کے لیے اور عصری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کوئی مطالبہ کرتی ہیں تو ان سے معذرت کی جاتی ہے اور ہزار بہانے بنا کر ان سے جان چھڑائی جاتی ہے۔ آدمی حیران ہو جاتا ہے کہ اُدھر سخاوت کے دریا اوراِدھر ایک گھونٹ کو بھی ترسانا!! جیسے ابن مقنع نے بہت پہلے کہا تھا: ’’میں نے کوئی اسراف نہیں دیکھا مگر ضرور اس میں کسی کا حق مارا جاتا ہے.‘‘
👈 ترجیحات کا مسئلہ اور دین دار طبقہ:
ترجیحات کے معاملہ میں یہ خرابی صرف عوام میں یا بے دین طبقے میں نہیں آئی۔ بلکہ خود دین دار طبقہ بھی طرح طرح کی بے اعتدالیوں کا شکار ہے۔ کیوں کہ ان میں بھی معاملات کے درست فہم اوردین کے صحیح علم کی کمی پائی جاتی ہے۔
صحیح علم تو وہی ہوتا ہے جو آدمی کے سامنے راجح اور مرجوح کو واضح کردے، فاضل و مفضول کے درمیان فرق کو نمایاں کر دے اور اس کے ذریعے معلوم ہو سکے کہ صحیح کیا ہے اور فاسد کیا، مقبول کیا ہے اور مردود کیا۔ وہ اسے بتا سکے کہ کون سی چیز سنت ہے اور کون سی بدعت۔ اسی طرح وہ شریعت کے مطابق ہر چیز کی اصل قدر و قیمت کی پہچان کروائے۔
اکثر اوقات ہم دیکھتے ہیں کہ اس طرح کے لوگ جو علم کے نور سے اور معاملات کی سمجھ سے محروم ہوتے ہیں، وہ مختلف امور کے درمیان قائم حدود کو مٹا دیتے ہیں اوران میں کوئی تمیز نہیں کرتے۔ وہ ان کے بارے میں وہ حکم لگاتے ہیں جو شریعت میں اس کے حقیقی حکم سے مختلف ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ یا تو افراط کرتے ہیں یا تفریط کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس مقام پر دین بے چارہ چکی کے دو پاٹوں کی طرح متشددین اور منحرفین کے درمیان پس جاتا ہے۔
ہم نے کئی بار دیکھا ہے کہ ایسے لوگ (جو اگرچہ پوری طرح مخلص ہوتے ہیں، مگر وہ) راجح کو چھوڑ کر مرجوح پر عمل پیرا ہو جاتے ہیں، اور مفضول میں منہمک ہوکر فاضل سے غفلت اختیار کر جاتے ہیں۔
بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک ہی عمل ایک وقت میں فاضل ہوتا ہے اور دوسرے وقت میں مفضول اور ایک حالت میں وہ راجح ہوتا ہے اور دوسری حالت میں مرجوح۔ لیکن یہ لوگ اپنی کم علمی اور ناسمجھی کی وجہ سے ان دو حالتوں اور الگ الگ اوقات کے درمیان فرق نہیں کرتے۔
میں نے بہت سے نیک طینت مسلمانوں کو دیکھا ہے کہ وہ کسی ایسے شہرمیں مسجد کے لیے عطیہ دیتے ہیں جہاں پہلے سے بے شمار مساجد ہوتی ہیں اور اس پر پانچ دس لاکھ ڈالر یا اس سے بھی زیادہ رقم خرچ کر ڈالتے ہیں۔ مگر جب آپ ان سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ اس کی آدھی یا چوتھائی کے برابر رقم دعوتِ اسلام کی اشاعت میں، کفر و الحاد کامقابلہ کرنے میں یا اسلامی نظام کے نفاذ کی خاطر کی جانے والی کوششوں میں یا اس طرح کے دوسرے عظیم اہداف میں خرچ کریں (جن کے لیے بعض اوقات افراد تو دستیاب ہوتے ہیں مگر مال کی کمی ہوتی ہے) تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ آپ کی آواز صدا بصحراء ثابت ہوگی اور وہ آپ کو کوئی مثبت جواب نہیں دیں گے۔ وہ اینٹوں اور پتھروں کی عمارتیں تعمیر کرتے ہیں مگر انسانوں کی تعمیر ان کی نظر میں فضول ہے۔
ہر سال حج کے دنوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ صاحبِ ثروت مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اسی بات پر بضد ہوتی ہے کہ وہ نفل حج کی سعادت سے محروم نہ ہوں۔ اور بہت سے لوگ ہیں کہ رمضان کے مہینے میں عمرہ کرنا بھی اپنے اوپر لازم سمجھتے ہیں۔ اس میں وہ پوری سخاوت کے ساتھ اپنا مال خرچ کرتے ہیں اور کبھی کبھی اپنے ہی خرچ پر دوست احباب کو بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔ حالانکہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے نہ حج کا مکلف کیا ہوتا ہے اور نہ عمرے کا۔
ان سے جب آپ کہتے ہیں کہ وہ یہ سالانہ اخراجات فلسطین میں یہودیوں کے مقابلے کے لیے یا بوسنیا اور ہرزی گووینا میں سربوں کے مقابلے کے لیے یا انڈونیشیا، بنگلہ دیش یا دوسرے ایشیائی اور افریقی ممالک میں عیسائی مبلغین کا مقابلہ کرنے کے لیے دے دیں، یا کوئی دعوتی اور تحریکی مرکز قائم کرنے کے لیے، یا ایسے داعیوں کی تیاری کے لیے خرچ کریں جو اس میں تخصص حاصل کر کے اپنے آپ کو اسی کام کے لیے وقف کریں، یا اسے تصنیف و تالیف اور ترجمے یا دینی کتابوں کی اشاعت کا کوئی ادارہ قائم کرنے کے لیے عطیہ کردیں، تو قرآن کے الفاظ میں *لَوَّوْا رُؤُوسَہُمْ وَرَاَیْتَہُمْ یَصُدُّوْنَ وَہُمْ مُّسْتَکْبِرُوْنَ ’’تو سر جھٹکتے ہیں اور تم دیکھتے ہو کہ وہ بڑے گھمنڈ کے ساتھ آنے سے رکتے ہیں‘‘* (المنافقون:۵)
یہ ہے لوگوں کی حالت، اور دوسری طرف قرآن سے یہ بات وضاحت کے ساتھ ثابت ہے کہ جہاد سے متعلقہ اعمال، اُن اعمال سے افضل ہیں جو حج سے متعلق ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی مجاوری کرنے کو اس شخص کے کام کے برابر ٹھیرا لیا ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور روزِ آخرت پر اور جس نے جاں فشانی کی اللہ کی راہ میں! اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالموں کی رہنمائی نہیں کرتا۔ اللہ کے نزدیک تو انہی لوگوں کا درجہ بڑا ہے جو ایمان لائے اور جنہوں نے اس کی راہ میں گھر بار چھوڑے اور جان و مال سے جہاد کیا۔ وہی کامیاب ہیں۔ ان کا رب انہیں اپنی رحمت اور خوشنودی اور ایسی جنتوں کی بشارت دیتا ہے جہاں ان کے لیے پائیدار عیش کے سامان ہیں.‘‘ (التوبۃ: ۱۹۔۲۰)
اور لوگوں کا یہ طرزِ عمل اس صورت میں ہے کہ ان کا حج اور عمرہ نفلی ہوتا ہے، جبکہ کفر و الحاد، لادینیت، اباحیت اور انہیں قوت فراہم کرنے والے دوسرے عوامل کے خلاف جہاد فریضۂ وقت اور لازمی امر ہے۔
پرانی بات ہے ایام حج سے قبل ہمارے دوست اور معروف اسلامی اسکالر استاذ فہمی ہویدی نے اپنے ہفتہ وار مقالے میں وضاحت کے ساتھ مسلمانوں سے یہ بات کہی تھی کہ بوسنیا کی آزادی فریضہ حج پر مقدم ہے۔
جن لوگوں نے یہ مقالہ پڑھا تھا ان میں سے بہت سے لوگوں نے مجھ سے پوچھا کہ یہ بات شرعی اور فقہی نقطہ نظر سے کس حد تک درست ہے۔ میں نے اس وقت کہا تھا کہ ہویدی صاحب کی بات کا ایک درست پہلو موجود ہے، جو فقہی لحاظ سے قابلِ اعتبار بھی ہے۔ شرعی طور پر یہ بات متعین ہے کہ جو فرائض فوری طور پر مطلوب ہوں ان کو ایسے فرائض پر مقدم کیا جائے گا جن میں تاخیر کی گنجائش ہوتی ہے۔ اور فریضہ حج میں تاخیر کی گنجائش موجود ہے۔ بعض ائمہ کے نزدیک یہ واجب عندالتراخی ہے، یعنی اس میں ڈھیل ہوسکتی ہے۔ رہا بوسنیا کے مسلمانوں کو بھوک و افلاس، امراض، سردی اور اجتماعی ہلاکت سے (جس کا انہیں سامنا ہے) بچانا، تو وہ ایک فوری فریضہ ہے، جسے بروقت انجام دینے کی ضرورت ہے اور اس میں نہ تاخیر کی گنجائش ہے اور نہ تراخی یعنی ڈھیل کی۔ کیونکہ یہ فریضۂ وقت ہے اور ساری امت پر آج کا اہم ترین واجب ہے۔
اس میں شک نہیں ہے کہ فریضۂ حج کو قائم کرنا اور موسمِ حج کو معطل ہونے سے بچانا بھی ایک فریضہ ہے۔ اس میں کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ لیکن یہ کام تو حرمین کے باشندوں کے ذریعے بھی انجام پاتا ہے اور ارد گرد کے وہ لوگ بھی اس میں حصہ لے سکتے ہیں جن کے سفری اخراجات زیادہ نہیں ہیں ۔
اس کے باوجود میراخیال ہے کہ استاذ ہویدی کا جو مقصد ہے وہ اس کے بغیر بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ وہ اس طرح کہ ہر سال حج میں زیادہ ہجوم ہونے کی ایک بڑی وجہ وہ بہت سے لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے پہلے بھی فریضہ حج ادا کیا ہوا ہوتا ہے۔ پہلی مرتبہ حج پر آنے والوں کی تعداد حاجیوں کی کل تعداد کا زیادہ سے زیادہ ۱۵ فیصد ہوگی۔ اگر حاجیوں کی مجموعی تعداد بیس لاکھ ہو تو ان میں پہلی مرتبہ حج کرنے والے عموماً تین لاکھ سے زیادہ نہیں ہوتے۔
جو لوگ ہر سال نفلی حج ادا کرتے ہیں (اور ان کی تعداد یقینا دوسروں سے زیادہ ہی ہوتی ہے)، اسی طرح وہ لوگ جو سارا سال نفلی عمرے کرتے رہتے ہیں، خصوصاً رمضان کے دنوں میں، کاش! کہ وہ اپنے نفلی حج اور عمرے کی قربانی دیں اور ان کے اخراجات اللہ کی راہ میں دے دیں۔ یعنی اپنے مال کو اپنے ان مسلمان بھائیوں اور بہنوں کو نجات دلانے کے لیے خرچ کریں جو مادّی اور معنوی ہلاکت سے دوچار ہیں، جنہیں بے انتہا ظلم و جبر کا سامنا ہے۔ ان کا دشمن ان کی جان و مال اور عزت و آبروکے درپے ہے، اور چاہتا ہے کہ دنیا سے ان کا نام و نشان مٹ جائے۔ رہی ترقی یافتہ دنیا، تو وہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اور ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔ کیونکہ یہاں قوت کا حق غالب ہے نہ کہ حق کی قوت ] یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس[۔
میں مصر، قطر اور دوسرے خلیجی ممالک کے بہت سے دین دار دوستوں کو جانتا ہوں جو ہر سال فریضہ حج کی ادائیگی کے بڑے شوقین ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو چالیس سال سے مسلسل حج کرتے آئے ہیں۔ یہ رشتہ داروں، دوستوں اور کاروبار میں شریک بھائیوں کا ایک پورا گروہ ہے جن کی تعداد سیکڑوں تک پہنچتی ہے۔ ایک سال ایسا ہوا کہ میں انڈونیشیا سے ابھی ابھی واپس آیا تھا اور میں نے دیکھا تھا کہ وہاں عیسائی مبلغین کتنے بڑے پیمانے پر اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ مجھے محسوس ہوا تھا کہ وہاں ان کے بالمقابل تعلیمی، طبی اور اجتماعی ادارے قائم کرنے کی کتنی اشد ضرورت ہے۔ چنانچہ میں نے ان نیک طینت بھائیوں سے کہا: کیا خیال ہے اگر اس سال آپ حضرات حج کا ارادہ مؤخر کر دیں اور اس پر اٹھنے والے اخراجات انڈونیشیا میں عیسائیت پھیلانے کی کوششوں کے مقالہ پر خرچ کریں۔ اگر ایک سو افراد ہوں اور ایک فرد کا خرچہ دس ہزار جُنَیہُ ہوتو اس کا مجموعہ دس لاکھ جُنَیہُ بنتا ہے۔ اس رقم سے ایک بہت بڑے منصوبے کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔ اگر ہم نے اس طرح کے کسی منصوبے کا آغاز کیا اور اس کی تشہیر کی تو دوسرے لوگ بھی ہماری تقلید کریں گے اور ان کے کام میں ہمیں بھی ثواب ملے گا۔
مگر ان دوستوں نے کہا: جب بھی ذوالحجہ کا مہینہ آتا ہے تو ہم اپنے دل میں حج کا ایسا جذبہ محسوس کرتے ہیں جس کا ہم کسی طرح مقابلہ نہیں کرسکتے۔ ہم اپنی روح کو کعبہ کا طواف کرتے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔ جب ہم دوسرے لوگوں کے ساتھ حج پر حاضر ہوتے ہیں تو ہمیں اس میں بڑی خوشی محسوس ہوتی ہے۔
یہ وہی بات ہے جو اس سے بہت پہلے بشرحافی سے کسی نے کہی تھی۔ اگر مسلمانوں میں دین کا فہم صحیح ہوتا اور دین میں ترجیحات درست ہوتیں تو یقیناً وہ اس سے زیادہ خوشی، سعادت اور روحانیت اُس وقت محسوس کرتے جب وہ اپنے نفلی حج و عمرے کے اخراجات کو کسی اسلامی منصوبے کا آغاز کرنے، یتیموں کی کفالت کرنے، بھوکوں کو کھانا کھلانے، جن لوگوں کو ملک بدر کیا گیا ہے ان کو پناہ دینے، مریضوں کاعلاج کرنے، اَن پڑھ لوگوں کو تعلیم دینے اور بے روزگاروں کو روزگار فراہم کرنے میں صَرف کردیتے۔
میں نے بہت سے نوجوانوں کو دیکھا ہے جو یونیورسٹی کے طبی، زرعی، انجینئرنگ، یا ایجوکیشن کے شعبے میں یا دوسرے نظری یا علمی شعبوں میں پڑھتے تھے۔ وہ ان شعبوں میں کامیاب جارہے تھے، بلکہ دوسروں سے آگے تھے۔ زیادہ عرصہ نہ گزرا ہوگا کہ انہوں نے اپنے اپنے شعبے سے منہ موڑا اور یہ کہتے ہوئے ان کو خیرباد کہہ دیا کہ اس طرح وہ دعوت و ارشاد کے لیے فارغ ہو جائیں گے۔ حالانکہ اگر وہ اپنے تخصص کے شعبے میں کام کرتے (جو ایک فرض کفایہ تھا، اور اگر پوری اُمت اس سے غفلت برتتی ہے تو گناہ گار ہو جاتی ہے)۔ تو وہ اچھی نیت سے اپنے کام کو پوری مہارت کے ساتھ انجام دیتے ہوئے اور ان میں حدود اللہ کی پابندی کرتے ہوئے اسے عبادت اور جہاد میں تبدیل کر سکتے تھے۔
اگر ہر مسلمان اپنے پیشے کو چھوڑ دے تو پھر اُمت کی ضروریات کون پوری کرے گا؟ رسول اللہ ﷺ کو جب دنیا میں مبعوث کیا گیا تو صحابہ کرامؓ مختلف پیشوں سے وابستہ تھے۔ آپ ﷺ نے ان میں سے کسی سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ وہ اپنے ذریعۂ معاش یا پیشے کو چھوڑ کر اپنے آپ کو دعوت کے لیے فارغ کرے۔ ہجرت سے پہلے بھی اور ہجرت کے بعد بھی یہی طریقہ رہا کہ سارے لوگ اپنے اپنے پیشے سے وابستہ رہے۔ مگر جب جہاد کے لیے منادی کی جاتی اور انہیں بلایا جاتا تو سارے لوگ، خواہ ہلکے ہوتے یا بوجھل، اس کی طرف چل پڑتے اور اپنی جان و مال اللہ کی راہ میں پیش کر دیتے تھے۔
امام غزالیؒ نے اپنے دَور میں لوگوں کے لیے یہ بات ناپسند کی کہ ان کے اکثر طالب علم فقہ اور اس طرح کے دوسرے علوم کی طرف متوجہ ہوتے تھے اور دوسری طرف مسلمان ممالک میں کسی یہودی یا عیسائی طبیب کے علاوہ کوئی معالج نہ ہوتا تھا۔ وہ انہی سے اپنے مردوں اور عورتوں کا علاج کراتے تھے اور اپنی جانیں اور عزتیں انہی کے حوالے کر دیتے تھے۔ وہ ان سے ایسے امور بھی معلوم کرتے تھے جن کا تعلق شرعی احکام کے ساتھ ہوتا تھا، جیسے روزہ دار کا روزہ افطار کرنا اور زخمی ہونے کی صورت میں تیمم کرنا وغیرہ۔
میں نے کچھ اور لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ روزانہ ایسے معرکے گرم کرتے ہیں جن کا مقصد جزئی یا اختلافی مسائل پر مناظرے کرنا ہوتا ہے۔ وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ہمارا بڑا معرکہ ایسے دشمن کے ساتھ ہے جسے اسلام سے چڑ ہے، وہ اس سے نفرت کرتا ہے، وہ اس کو کمزور کرنے کی آس لگائے بیٹھا ہے اور اس سے خوف زدہ بھی ہے۔ وہ اسے نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔
یہاں تک کہ امریکا، کینیڈا اور دوسرے یورپی ممالک میں رہائش پذیر مسلمان سوسائٹی میں بھی ہم نے ایسے لوگ دیکھے ہیں جن کے ہاں سب سے اہم مسئلہ جو پوچھنے کے لیے رہ گیا ہے یہ ہے کہ گھڑی دائیں ہاتھ میں پہنی جائے یا بائیں ہاتھ میں۔ کوٹ پتلون کے مقابلے میں سفید کرتا قمیص پہننا فرض ہے یا سنت۔ عورتوں کا مسجد میں جانا حلال ہے یا حرام۔ اسی طرح کھانے کے لیے میز کرسی استعمال کرنا اور چُھری کانٹے سے کھانا تشبُّہ بالکفار میں شامل ہے یا نہیں ہے۔
یہ اور اس طرح کے بے شمار مسائل ہیں جو ہمارے بہت سارے اوقات کو کھا جاتے ہیں، لوگوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیتے ہیں، دلوں کو پارہ پارہ کر دیتے ہیں اور اس سے بہت سی محنتیں اور صلاحیتیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ کیونکہ یہ ایسی کوشش ہے جس کا کوئی ہدف نہیں اور یہ ایسا جہاد ہے جو دشمن کے خلاف نہیں، بلکہ اپنے خلاف کیا جارہا ہے۔
میں نے بہت سے نوجوانوں کو دیکھا ہے جو اپنے ماں باپ اور اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ سختی سے پیش آتے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ وہ گناہ گار اور دین سے منحرف ہیں۔ وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے، چاہے وہ مشرک ہوں، دین کے معاملے میں جھگڑا کرتے ہوں، اوران کی ہر طرح سے یہ کوشش ہو کہ اپنے بچے کو اسلام سے برگشتہ کردیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اگر وہ تم پر دبائو ڈالیں کہ میرے ساتھ کسی ایسے کو شریک کرو جسے تم نہیں جانتے تو ان کی بات ہر گز نہ مانو۔ البتہ دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرتے رہو.‘‘۔ (لقمان: ۱۵)
اس طرح والدین کی طرف سے اُس پُرزور دباؤ کے باوجود، جسے قرآن نے مجاہدہ علی الشرک کہا ہے، اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ ان کے ساتھ معروف کے ساتھ پیش آیا جائے۔ کیونکہ والدین کا حق ایسا ہے جس پر اللہ کے سوا کسی کا حق فوقیت نہیں رکھتا۔ اسی بناء پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْکَ اِلَیَّ الْمَصِیْرُo ’’میرا شکر کرو اور اپنے والدین کا شکر بھی بجا لائو، میری ہی طرف تمہیں پلٹ کر آنا ہے.‘‘ (لقمان: ۱۴)
مگر شرک میں ان کی اطاعت ممنوع ہے کیونکہ
لَاطَاعَۃَ لِمَخْلُوْقِ فِیْ مَعْصِیَۃِ اَلْخَالِقِ
"خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی کوئی اطاعت نہیں" رہا معروف کے ساتھ پیش آنے کا معاملہ تو اس سے کوئی چھٹکارا نہیں ہے اور اس سے جان چھڑانے کے لیے کوئی عذر نہیں ہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے رشتہ داروں کے ساتھ صلۂ رحمی کا حکم دیا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اس خدا سے ڈرو، جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کررہا ہے.‘‘ (النساء: ۱)
👈 انحطاط کے دَور میں مسلمان جن بُری عادات کے شکار ہوئے اور اب تک چلے آرہے ہیں ان میں سے چند عادات یہ ہیں:
۱۔ انہوں نے ایسے فرائضِ کفایہ کو بڑی حد تک چھوڑ دیا ہے جن تعلق بحیثیت مجموعی پوری اُمت کے ساتھ تھا، مثلاً سائنسی، صنعتی اور عسکری برتری، جو اُمت کو اپنے اختیارات کا مالک بناتی ہے اور اسے (صرف دعوے اور قول کی حد تک نہیں بلکہ) حقیقی معنوں میں دنیا کی قیادت دلاتی ہے۔ یا مثلاً فقہی مسائل میں اجتہاد اوراحکامِ شریعت کا استنباط، دعوتِ اسلامی کی نشرواشاعت، شوریٰ کے حکمِ ربانی کو بیعت اور آزادانہ اختیارات کی بنیاد پر قائم کرنا، ظالم اور دین سے منحرف (بلکہ دین دشمن) حکمران کے خلاف جدوجہد کرنا وغیرہ۔
۲۔ انہوں نے بعض ایسے امور کو بھی چھوڑ دیا ہے جو فرضِ عین کے درجے میں ہیں، یا اگر چھوڑا نہیں توکم ازکم یہ ہے کہ انہیں وہ مقام نہیں دیا جو ان کو دینا چاہیے تھا۔ جیسے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ، جسے قرآن نے اہلِ ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے نماز اور زکوٰۃ سے بھی زیادہ اہمیت دی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں.‘‘ (التوبۃ: ۷۱)
اس فریضے کو اُمت مسلمہ کے بہترین اُمت ہونے کا سب سے پہلا سبب قرار دیا گیا ہے: *’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت اور اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو.‘‘ (آل عمران: ۱۱۰)
اس فریضہ کے ترک کو، بنی اسرائیل کے لیے ان کے نبیوں کی زبان سے لعنت کیے جانے کا سبب بتایا گیا ہے:
’’بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی، ان پر داؤدؑ اور عیسیٰؑ بن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی، کیوں کہ وہ سرکش ہوگئے تھے اور زیادتیاں کرنے لگے تھے۔ انہوں نے ایک دوسرے کو بُرے افعال کے ارتکاب سے روکنا چھوڑ دیا تھا۔ بُرا طرزِ عمل تھا جو انہوں نے اپنایا.‘‘ (المائدہ: ۷۹)
۳۔ بعض ارکان کو بعض دوسرے ارکان پرزیادہ اہمیت دی ہے۔ مثلاً نماز کے مقابلے میں روزے کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رمضان میں دن کے وقت مسلمان مرد یا عورت بہت کم کھانا کھاتے ہوئے نظر آتے ہیں، خاص طور پردیہاتی علاقوں میں۔ لیکن بہت سے مسلمان، خصوصاً خواتین، نماز میں غفلت کامظاہرہ کرتی ہیں۔ ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جنہوں نے عمر بھر میں ایک مرتبہ بھی اللہ کے سامنے رکوع اور سجدہ کرنے کی زحمت نہیں کی ہوگی۔ اسی طرح بعض لوگ پائے جاتے ہیں جو نماز کا تو بہت اہتمام کرتے ہیں مگر زکوٰۃ کے معاملے میں کوتاہی کرتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ۲۸ مقامات پر ان دونوں کا ایک ساتھ ذکر کیا ہے۔ یہاں تک کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’ہمیں نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کا حکم دیا گیا ہے اور جو شخص زکوٰۃ نہیں دیتا اس کی نماز، نماز ہی نہیں ہے.‘‘ (المجمع ۳:۶۲۔ طبرانی، الکبیر)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی فرمایا تھا: ’’خدا کی قسم! میں ان لوگوں کے خلاف ضرور لڑوں گا جو نماز اور زکوٰۃ کے درمیان فرق روا رکھتے ہیں.‘‘ (متفق علیہ)
صحابہ کرامؓ مانعینِ زکوٰۃ کے خلاف جہاد پر اسی طرح متفق ہوگئے تھے جس طرح کہ وہ نبوت کے جھوٹے دعوے داروں اور ان کی پیروی کرنے والے مرتدین کے خلاف متفق تھے۔ اس طرح گویا اسلامی حکومت روئے زمین پر وہ پہلی حکومت تھی جس نے غریبوں کے حقوق کی جنگ لڑی۔
۴۔ بعض نوافل کا اتنا اہتمام کیا جاتا ہے جتنا فرائض اور واجبات کا نہیں کیاجاتا۔ اور یہ بات بہت سے دین دار لوگوں میں دیکھی جاسکتی ہے جو ذکر و اذکار اور تسبیحات و اوراد کا بے حد اہتمام کرتے ہیں۔ مگر ان کے ہاں بعض فرائض کے بارے میں یہ اہتمام دیکھنے میں نہیں آتا، خصوصاً معاشرتی فرائض۔ جیسے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک، رشتہ داروں کے ساتھ صلۂ رحمی، پڑوسی کے ساتھ احسان، کمزوروںپر رحم کرنا، یتیموں اور مسکینوں کا خیال رکھنا، منکَر کو روکنا اور اجتماعی و سیاسی ظلم و جبر کے خلاف جدوجہد کرنا۔
۵۔ بعض اوقات انفرادی عبادات، جیسے جہاد، علم وتحقیق، اصلاح بین الناس، نیکی اور بھلائی کے کاموںمیںتعاون، صبر اور رحم کی تلقین، عدل و انصاف اور شوریٰ کے قیام کی دعوت، عمومی انسانی حقوق کی پاسداری اور خاص طور پر کمزور انسانوں کا خیال رکھنا۔
٦۔ بہت سے لوگ فروعی اعمال کی طرف حد سے زیادہ توجہ دیتے ہیں اور اصول کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ حالانکہ کسی بزرگ کا قول ہے کہ:
مَنْ ضَیَّعَ الْأُصُوْلَ حُرِمَ الْوُصُوُل
(یعنی جس نے بنیاد کو چھوڑ دیا وہ منزل پر نہیں پہنچ سکتا) انہوں نے پوری عمارت کی بنیاد، یعنی عقیدۂ توحید، ایمان باللہ اوراخلاص فی الدین سے غفلت برتی ہوتی ہے۔
۷۔ اسی طرح کے مسائل میں، جن کے درمیان توازن میں خلل پیدا ہوا ہے، ایک بات یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگ مکروہات اور مشتبہ امور کے خلاف برسرپیکار ہیں مگر انہوں نے کھلی حرام اشیا کے بارے میں اتنی سرگرمی نہیں دکھائی۔ نہ ان واجبات کو قائم کرنے کا کوئی خاص اہتمام کیا ہے جنہیں لوگوںنے چھوڑ کر ضائع کر دیا ہے۔ اسی طرح کا معاملہ یہ بھی ہے کہ بعض لوگ اُن امور پراپنی زیادہ قوتیں صَرف کرتے ہیں جن کی حلت و حرمت میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ جبکہ ان چیزوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے جن کی حرمت قطعی اور یقینی ہے۔ دوسری طرف کچھ لوگ ایسے ہیں جو اسی طرح کے اختلافی مسائل کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں اور انہوں نے اسے زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیا ہے، جیسے تصویر، موسیقی، چہرے کا پردہ اور اس طرح کے دوسرے مسائل۔ گویا کہ ان کا بھی اس کے علاوہ کوئی کام نہیں ہے کہ وہ ان مسائل کے گرد اختلافی جنگ کی بھڑکائی ہوئی آگ کو ایندھن فراہم کریں اور لوگوں کو زبردستی اپنی بات ماننے پر مجبور کریں۔ حالانکہ وہ بڑی اور فیصلہ کن لڑائیوں سے غافل ہیں جن کا تعلق اُمت کے وجود، اس کے انجام، اور دنیا کے نقشے پر اس کی بقا سے ہے۔
اسی طرح کے مسائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بعض لوگ صغائر (چھوٹے گناہ اور چھوٹی خرابیاں) کو ختم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں مگر ہلاکت میں ڈالنے والے کبیرہ گناہوں سے غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں، خواہ وہ دینی لحاظ سے ہلاکت میں ڈالنے والے ہوں (وہ اعمال جن کے سبب عقیدۂ توحید کی شفافیت مکدّر ہو جاتی ہے) یا معاشرتی اور سیاسی طور پر ہلاکت سے دوچار کرنے والے ہوں جیسے (شوریٰ اور عدلِ اجتماعی کا ضائع ہونا، آزادی، انسانی حقوق، احترامِ آدمیت کا نہ ہونا، معاملات کو غیر اہل لوگوں کے سپرد کرنا، انتخابات میں دھاندلی کرنا، قومی دولت لوٹنا، نسلی اور طبقاتی امتیازات کو رواج دینا اور عیش و عشرت کی فراوانی)
٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠🔍٠٠٠🎯٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠
👈 یہ ایک بہت بڑی بیماری ہے جو ترجیحات اور ان کے معیارات کے بارے میں ہماری اُمت کو لاحق ہو چکی ہے۔ بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ
👈 بڑے کو چھوٹا بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور چھوٹے کو بڑا۔
👈 یہ ایک بے حقیقت چیز کو پہاڑ بنا لیا جاتا ہے اور ایک اہم تر معاملے کو بالکل نظرانداز کردیا جاتا ہے۔
👈 پہلے کو آخر پر رکھا جاتا ہے اور آخری کو پہلے لایا جاتا ہے۔
👈 فرضوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور نوافل کی پابندی کی جاتی ہے۔
👈 صغائر کے بارے میں فکرمندی کا اظہار ہوتا ہے اور کبائر کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔
👈 اختلافی مسائل کے لیے میدانِ جنگ گرم کیا جاتا ہے اور متفقہ احکام ضائع ہوتے رہتے ہیں۔
.٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠👇🎯👇٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠
یہ ساری باتیں آج کے دَور میں اُمت مسلمہ کو اس ضرورت کا احساس دلاتی ہیں (بلکہ شدت کے ساتھ اس بات کا محتاج بناتی ہے) کہ وہ ترجیحات کے مسئلے کو سمجھے۔ وہ اس کی روشنی میں اپنے طریق کار کا نئے سرے سے جائزہ لے، اس کے بارے میں گفت و شنید کرے، افہام و تفہیم سے کام لے اور ہر ایک کو اپنی بات سامنے رکھنے دے۔ اس کے نتیجے میں ذہنوں اور دلوں کو اطمینان نصیب ہوگا، بصیرت کو روشنی ملے گی اور اس کے بعد اُمت کے ارادے اور عزائم عملِ خیر اور خیرالعمل کی طرف متوجہ ہوں گے- (S_A_Sagar#)
https://saagartimes.blogspot.com/2022/09/blog-post_31.html