Saturday, 17 September 2022

مسجد کے اندرونی حصے میں کسی بھی چیز کی خرید و فروخت کرنا

مسجد کے اندرونی حصے میں کسی بھی چیز کی خرید و فروخت کرنا
-------------------------------
--------------------------------
السلام علیکم
مسجد کے اندرونی حصے کے اندر کسی بھی چیز کی خرید و فروخت کرنا کیسا ہے... چایے وہ چیز دینی لائن سے ہو.. اس کا کیا حکم ہے؟ تفصیل مطلوب ہے
الجواب وباللہ التوفیق: 
پنج وقتہ نماز کے لئے مخصوص جگہ کو مسجد کہتے ہیں. 
تعمیر مسجد کا بنیادی مقصد:
ادائی فرائض، عبادت خداوندی اذکار واوراد اور کسب اجروثواب ہے. دنیاوی مال ومتاع اور سیم کے حصول کے لئے یہ جگہ نہیں ہے کہ یہاں باضابطہ بازار قائم کردیا جائے. بانیان مسجد نے جہاں تک اس کے حدود طے کردی ہیں. ان حدود واحاطے میں خریدوفروخت جائز نہیں ہے. (مکروہ ہے). ٹوپیاں وغیرہ فروخت کرنے کے لئے، عطرفروش حضرات کو احاطہ مسجد سے باہر اپنا اسٹال لگانا چاہئے اور نمازی حضرات کو بھی اُن سے مسجد میں خریداری سے گریز کرنا چاہئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مساجد میں (فحش) اشعار پڑھنے، خریدوفروخت کرنے اور جمعہ کے دن مسجد میں نماز جمعہ سے پہلے حلقے بناکر بیٹھنے سے منع فرمایا: 
نَهَى عَنْ تَنَاشُدِ الأَشْعَارِ فِي المَسْجِدِ، وَعَنِ البَيْعِ وَالِاشْتِرَاءِ فِيهِ، وَأَنْ يَتَحَلَّقَ النَّاسُ فِيهِ يَوْمَ الجُمُعَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ۔ (ترمذی: 322)
حضرت عطاء بن یسار رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں آتا ہے کہ جب اُن کا کسی ایسے شخص کے پاس سے گزر ہوتا جو مسجد میں فروخت کرتا ہو تو وہ اُس سے فرماتے: تمہارے پاس کیا ہے اور تم کیا چاہتے ہو؟ اگر وہ یہ کہتا کہ میں چیزیں فروخت کرنا چاہتا ہوں تو آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے: تو پھر تم دنیا کے بازار جاؤ (وہاں جاکر چیزیں فروخت کرو) یہ آخرت کے بازار ہیں: 
أَنَّ عَطَاءَ بْنَ يَسَارٍ كَانَ إِذَا مَرَّ عَلَيْهِ بَعْضُ مَنْ يَبِيعُ فِي الْمَسْجِدِ، دَعَاهُ فَسَأَلَهُ مَا مَعَكَ؟ وَمَا تُرِيدُ؟ فَإِنْ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَبِيعَ، قَالَ: عَلَيْكَ بِسُوقِ الدُّنْيَا، وإِنَّمَا هَذَا هوسُوقُ الآخِرَةِ۔ (مؤطاء مالک: 580)
عن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: (إِذَا رَأَيْتُمْ مَنْ يَبِيعُ أَوْ يَبْتَاعُ فِي الْمَسْجِدِ، فَقُولُوا: لَا أَرْبَحَ اللَّهُ تِجَارَتَكَ۔۔۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم کسی کو مسجد میں خرید وفروخت کرتے دیکھو تو اُس سے کہو: اللہ تیری تجارت میں نفع نہ دے اور جب کسی کو مسجد میں اپنی گم شدہ چیز تلاش کرتے دیکھو تو اُس سے کہو: اللہ کرے تجھے تیری چیز نہ ملے، (سُنن الترمذی: 1321) 
واللہ اعلم 
https://saagartimes.blogspot.com/2022/09/blog-post_24.html


ملازمہ کا دیگر کھانوں کے ساتھ خنزیر پیش کرنے کا حکم

ملازمہ کا دیگر کھانوں کے ساتھ خنزیر پیش کرنے کا حکم 
-------------------------------
--------------------------------
السلام علیکم و رحمۃ اللہ 
(غیرملکی) نرسنگ ہوم میں کھانا پیش کرنے والی ملازمہ کو دیگر کھانوں کے علاوہ خنزیر کے گوشت سے تیار کردہ کھانا بھی پیش کرنا ہوتا ہے. کیا ایک مسلمان خاتون کو یہ احازت حاصل ہے کہ وہ باورچی خانے میں خنزیر کے گوشت سے کھانا تیار کرکے اسے نرسنگ ہوم کے عملہ کو پیش کرسکے؟ براہ کرم شرعی راہنمائی عنایت فرمائیں. 
جزاکم اللہ خیرا 
#ایس_اے_ساگر
الجواب وباللہ التوفیق:
اگر وہ خنزیر اور اس کے علاوہ حلال گوشت کی تیاری اور اسے عملہ کو پیش کرنے کا کام کرتی ہو تب تو فتوی کی روء سے (نہ کہ تقوی) اس کی گُنجائش ہے 
لیکن اگر وہ صرف خنزیر کے گوشت پکانے و کھلانے کا کام کرتی ہو تو یہ بالکل ناجائز اور عین معصیت پہ تعاون ہے. خنزیر اور اسے پکانا و کھلانا قطعی حرام ہے 
ایسی نوکری کی اجرت بھی حرام ہوگی، اسے ترک کرے اور حلال نوکری تلاش کرے. 
واللہ اعلم 
https://saagartimes.blogspot.com/2022/09/blog-post_71.html


اظہارتشکر کے اسلامی ونبوی طریقے

اظہارتشکر کے اسلامی ونبوی طریقے
عجمی تعبیرات اس کی  متبادل ہونگی یا نہیں؟ اصلاح جماعت تحریک گروپ میں ہوئی ایک علمی بحث شکر وکفر شکریہ ادا کرنے کا طریقہ؟
-------------------------------
--------------------------------
الشُّكْرُ: تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل: وهو مقلوب عن الکشر، أي: الکشف، ويضادّه الکفر، وه: نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور: مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل: أصله من عين شكرى، أي:
ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه 
والشُّكْرُ ثلاثة أضرب:
شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة.
وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم.
وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه.
وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [سبأ/ 13]،
(ش ک ر) الشکر کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں۔ شکر کی ضد کفر ہے۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا۔ 
شکر تین قسم پر ہے 
شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا.
شکرلسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا.
 شکربالجوارح. یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکافات کرنا۔ اور آیت کریمہ: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [سبأ/ 13] اے داود کی آل میرا شکر کرو۔ 
كفر (ناشکري)
الكُفْرُ في اللّغة: ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وكُفْرُ النّعمة وكُفْرَانُهَا: سترها بترک أداء شكرها، قال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [الأنبیاء/ 94]. وأعظم الكُفْرِ: جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال: فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [الإسراء/ 99]، فَأَبى أَكْثَرُالنَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [الفرقان/ 50] ويقال منهما: كَفَرَ فهو كَافِرٌ. قال في الکفران: لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [النمل/ 40]، وقال: وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [البقرة/ 152]
(ک ف ر) الکفر 
اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپالیتی ہے۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے۔ کفر یا کفر ان نعمت کے معنی ناشکری کر کے اسے چھپانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے: ۔ 
فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء/ 94]
تو اس کی کوشش رائگاں نہ جائے گی۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اور کفر کا لفظ انکار دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے۔ چنانچہ قرآن میں ہے: ۔ 
فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [الإسراء/ 99] 
تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا، 
فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [الفرقان/ 50] 
مگر اکثر لوگوں نے انکار کرنے کے سوا قبول نہ کیا ۔ اور فعل کَفَر فھو کافرٌ ہر دو معانی کے لئے آتا ہے۔ چناچہ معنی کفران کے متعلق فرمایا: ۔
لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [النمل/ 40] 
تاکہ مجھے آز مائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کرتا ہوں ۔ اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے۔ اور جو ناشکری کرتا ہے ۔ تو میرا پروردگار بےپروا اور کرم کرنیوالا ہے۔ 
وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [البقرة/ 152] 
اور میرا احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا۔ (مفردات القرآن /امام راغب اصفہانی۔ آیت نمبر 027:040 ) 
 شکر گزاری، اورنعمت شناسی کی اس قرآنی حقیقت بیانی اور بلیغ ہدایات کے بعد ارشاد نبوی ملاحظہ فرمائیں: 
1955 حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى ح وَحَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الرُّوَاسِيُّ عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى عَنْ عَطِيَّةَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ يَشْكُرْ النَّاسَ لَمْ يَشْكُرْاللَّهَ وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَالْأَشْعَثِ بْنِ قَيْسٍ وَالنُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ (سنن الترمذي. كتاب البر والصلة 1955)
(جو شخص انسان کا شکریہ ادا نہ کرے وہ اللہ کا بھی شکریہ ادا نہیں کرسکتا)
اس حدیث کی وضاحت میں امام خطابی کا خیال یہ ہے کہ جس شخص کی طبعیت اور مزاج میں انسانوں کی احسان شناسی نہ ہو وہ  لازماً اللہ کی نعمتوں کی ناقدری بھی کرے گا۔ یا مطلب یہ ہے کہ  اللہ اسی شخص کے شکریہ کو قبول فرماتے ہیں جو انسانوں کا شکریہ ادا کرنے کا عادی ہو۔
قال الخطابي: هذا يتأول على وجهين: أحدهما أن من كان من طبعه وعادته كفران نعمة الناس وترك الشكر لمعروفهم كان من عادته كفران نعمة الله تعالى وترك الشكر له، والوجه الآخر أن الله سبحانه لا يقبل شكر العبد على إحسانه إليه إذا كان العبد لا يشكر إحسان الناس ويكفر معروفهم لاتصال أحد الأمرين بالآخر انتهى.
شکریہ ادا کرنے کا طریقہ؟ 
اصل تو یہ ہے کہ انسان کے ساتھ جب کوئی فضل وکرم اور احسان کا معاملہ کرے تو حتی الوسع اس کے اس احسان کی مکافات وجزاء محسوس طور پر ادا کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ تھی کہ جب کوئی کچھ ھدیہ پیش فرماتا تو آپ اس کا برتن خالی واپس نہ فرماتے! یہی محسوس مکافات منعم کی اصل تعریف وثناخوانی ہے۔ شکر فعلی آپ کی سنت مبارکہ تھی۔ تاہم اگر دست بدست حسی طور پہ بدلہ نہ دیا جاسکتا ہو تو کم از کم  زبان سے ہی "جزاک اللہ خیرا" کہدینے سے اس کی نعمت کی مکمل مکافات ہوجائے گی۔ اور اسں منعم کی حقیقی تعریف بھی ہوجائے گی۔
بَاب مَا جَاءَ فِي الثَّنَاءِ بِالْمَعْرُوفِ 
2035 حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ الْمَرْوَزِيُّ بِمَكَّةَ وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ قَالَا حَدَّثَنَا الْأَحْوَصُ بْنُ جَوَّابٍ عَنْ سُعَيْرِ بْنِ الْخِمْسِ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ صُنِعَ إِلَيْهِ مَعْرُوفٌ فَقَالَ لِفَاعِلِهِ جَزَاكَ اللَّهُ خَيْرًا فَقَدْ أَبْلَغَ فِي الثَّنَاءِ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ جَيِّدٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ 
(سنن الترمذي. كتاب البر والصلة)
یعنی جب کسی کے ساتھ احسان کا برتائو کیا جائےاور وہ جواب میں شکر لسانی کرتے ہوئے 'جزاک اللہ خیرا' کہدے تو گویا اس نے محسن کی مکمل شکرگزاری کردی۔) شکریہ کی اصلیت احسان شناسی اور اس کا اعتراف واظہار ہے۔اسلام نے صرف اعتراف واظہار تشکر تک معاملہ محدود نہیں رکھا بلکہ محسن کے ساتھ فعلی احسان و سلوک  اور آخر میں زبانی مکافات کی تعلیم دی ہے۔ جو دراصل محسن کے لئے خدا تعالی سے خیر کی دعا کی طلب ہے۔
صنع أبوالهيثم بن التيهان للنبي صلى الله عليه وسلم طعاما فدعا النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه فلما فرغوا قال أثيبوا أخاكم قالوا يا رسول اللهِ وما إثابته قال إن الرجل إذا دخل بيته فأكل طعامه وشرب شرابه فدعوا له فذلك إثابته.
(عن جابر بن عبدالله، سنن أبي داود: 3853)
اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بصیغہ امر امت کو ہدایت کی ہے کہ کرم فرما کو بدلہ اور دعا دی جائے! شکریہ ادا کرنے کا یہی نبوی اور افضل طریقہ ہے۔اس میں اس بات کا  اعتراف بھی ہے کہ میں تو آپ کے احسان کا بدلہ دینے سے عاجز ہوں۔ اللہ تعالی ہی آپ کو بہتر بدلہ عطا فرمائے۔ جو حقیقت میں دعا ہے جس سے احسان کرنے والے کو دنیا وآخرت میں بھلائی ملیگی۔ شکریہ، شکریہ، آداب وغیرہ جیسے کلمات سے اظہارتشکر ناقص اور ادھورا طریقہ ہے۔ یہ  دعائیہ کلمہ بھی نہیں  ہے کہ جس سے محسن کو دنیا وآخرت میں کچھ بھلا ہوسکے۔ سوبار بھی کوئی اس کا ورد کرنے لگے تو بھلا محسن کو اس سے کیا بھلا ہوگا ؟جبکہ ابھی حدیث گزرچکی ہے کہ اسے بدلہ سے نوازو ۔خواہ دعا کی شکل میں ہی کیوں نہ ہو!
 لہذا اس سے بچتے ہوئے نبوی طریقہ اپنانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ رسم ورواج کے آج کے سونامی لہر کے سامنے "مرغ حرم" کو متاثر نہیں' "موثر" بننے کی ضرورت ہے۔ اسلام ایک مکمل دین وتہذیب ہے کسی دوسرے مذہب وتمدن سے کچھ در آمد کرنے کی ضرورت نہیں۔ اظہار تشکر کرنے والے کے لئے مستحب اور افضل یہ ہے کہ اس عمل کے لئے وہی الفاظ منتخب کرے جو زبان رسالت مآب سے ماثور ومنققول ہیں۔ اس کی نورانیت وروحانیت ہی کچھ اور ہوگی۔ تاہم اگر حالات و تقاضے کی وجہ سے حلقہ اغیار میں اس طرح کا معاملہ درپیش ہوجائے تو ایسی  صورت میں اظہار تشکر کے لئے ایسی تعبیر اختیار کی جاسکتی ہے جو دوسری قوموں کا شعار نہ ہو اور جس سے جاہلیت کے عقائد ورواج کی عکاسی نہ ہوتی ہو۔کیونکہ ایک عاشق اور محب کو "مزاج یار" کا آشنا اور "رمزشناس" ہونا چاہئے۔ تاکہ آداب زندگی میں اسلامی  اصولوں کا محافظ وپاسدار بن سکے۔  موقع محل کی مجبوری کے تحت کوئی مناسب حکمت عملی اور پہلو اختیار کرلے۔ لیکن کوئی بھی طریقہ "جزاک اللہ خیرا" کا متبادل نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ یہ فرمان نبوی "اثيبوا أخاكم"  کی کامل تفسیر ہے۔
واللہ اعلم بالصواب۔
....................
مذکورہ مراسلے میں درج آیات و احادیث میں شکر ادا کرنے کا حکم یا ہدایت دی گئی ہے، البتہ شکریے کے الفاظ صراحتاً مذکور نہیں ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ تشکر آپ کی اپنی زبان میں ہوا کرتے تھے، ظاہر ہے آپ اردو یا فرنگی میں تو ادا نہیں کرتے اس لحاظ سے یہ عمل تعبدی نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ہم اردو میں "شکریہ" یا انگریزوں سے "تھینکس" کہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر عمل ہو گیا کیونکہ آپ نے الفاظ کا تعین کیا اور نہ اس کا مطالبہ کہ فلاں الفاظ میں اظہار تشکر کیا جائے۔
............. شعیب ندوی 
 یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو متعین الفاظ میں شکریہ ادا کرنے کی ہدایت نہیں دی ہے کہ عربی ہی میں شکریہ ادا کیا جائے۔ اس کی بجائے آپ نے طریقہ بتایا کہ اس طرح اظہار تشکر ہو۔
شعیب ندوی 
---------
شکر ایک عبادت ہے، اور بڑی عظیم و اہم عبادت ہے.
♻ جیسا کہ مذکور ہے اس کے لئے الفاظ ہونا ضروری نہیں، سنت نبویہ کا ممتاز پہلو ہے مکافات عمل .... جو آج کل تقریبا مفقود ہے، آنحضرت صلی اللہ علیه وسلم کی عادت مستمرہ تھی احسان کا عملی بدل ادا فرماتے.
♻ شکر کا دوسرا طریقہ ہے زبان سے شکر کرنے کا .....جس میں کوئی تقیید نہیں، کہ کن الفاظ میں ہو اورکن میں نہ ہو.
♻ زبانی شکر کا سب سے بہترین طریقہ ہے وہ ہے جو حدیث پاک میں وارد ہوا ہے، جزاک الله خیرا کہنا.
♻ اس حدیث پاک سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دعا دینا شکر کا ایک طریقہ ہے، گرچہ اعلی و افضل وہی دعا ہے جو وارد ہوئی ہے، تاہم نفس دعا کا ثبوت بھی اسی حدیث سے ملتا ہے.
♻ شکر لسانی چونکہ مطلق ثناء باللسان کے ہیں....نیز حدیث  مذکور کے الفاظ "ابلغ فی الثناء" خود مشیر ہیں کہ انتہائی درجہ کا شکر ہے... یعنی اس کم درجہ بھی موجود ہیں .... مطلب یہ کہ منعم و محسن کی تعریف کرنا یا اس کے احسان کو احسان ماننا خواہ کسی الفاظ میں لسانی شکر میں داخل ہیں.... جس طرح عرب کہتے ہیں: "شکرا" جس کی اصل ہے اشکرک شکرا .... اسی طرح اردو میں شکریہ کہا جاتا ہے....
♻ دوسری زبان کے الفاظ جب تک ایک زبان اور لینگویج تک ہیں تو اس کا استعمال  میں قباحت کی کوئی عام دلیل نہیں ... کوئی دلیل خاص سے ہو یا کوئی خاص لفظ ہو جو خصوصا کسی سبب ممنوع ہو تو اور بات ہے.
♻ البتہ اگر وہ کسی قوم کا شعار ہے تو اس کا کہنا اگر نقل کے قصد سے ہے تو تشبہ ہے اور ناجائز ہے، اور بلا قصد ہے تو مشابہت ہے جو ناجائز نہیں، اختیار کے لائق نہیں.
♻ 'تھینک یو' کہنا بندے کو نہیں لگتا کہ تشبہ یا مشابہت ہی ہے... کیونکہ یہ زبان کا لفظ ہے ... اسے اردو کے شکریہ اور عربی شکرا سا سمجھنا چاہئے.
اور جیسا کہ اوپر آیا کہ اعلی و افضل دعائے مسنونہ سے بڑھ کر اور ہو بھی کیا سکتا ہے.
محمد توصیف قاسمی 
-----------------
یہاں گفتگو میں شاید سائل کی مراد سے تجاوز کیا گیا......اور جو بات مفتی شکیل صاحب نے فرمائی بالکل مسلم ہے کہ دعائے مسنونہ کی اگر "تعجیم" کردی جائے تو عمل کو بچے گا ہی کیا.....لیکن اس قاعدہ کا اطلاق تھنیکس پر اس لئے بعید از قیاس ہے کہ وہ کسی نہ تو ترجمہ ہے اور نہ ہی متبادل....وہ اپنی ایک زبان کا ایک تشکر کا صیغہ ہے.....
هذا ما عندى والله اعلم بالصواب
محمد توصیف قاسمی
.............
لکھنؤ میں ایک مدرسہ میں جانا ہوا مفتی .............. صاحب کے (استاذ ندوة العلماء).... حفظ ناظرہ کی تعلیم ہے ... فقط
ایک چھوٹا سا پروگرام تھا.... بچے دعائیں اس طرح سنارہے تھے
مثلا کھانا کھانے کی دعا..... اللھم کذا و کذا
اردو میں کھانے کی دعا:
یا الله....الخ
انگریزی میں کھانے کی دعا:
O Allah....x...y...z
سن کر سخت افسوس ہوا....موقع ایسا نہیں تھا کچھ کہا جائے.....ندوہ کے کئی بڑے اساتذہ مع نائب مہتمم و مفتی ..... صاحب اور دیگر اساتذہ ندوہ موجود تھے
نیز میں مفتی ...... صاحب (جو مندوب تھے) کے ساتھ بس لد لیا تھا کہ پروگرام دیکھوں کہ کیا ہورہا ہے
مفتی شکیل صاحب کا استدراک فقط خیالی نہیں ...... عملا موجود ہیں
محمد توصیف قاسمی
.............
بحث چونکہ ختم کرچکا ہوں. اس لئے تفصیل دوبارہ چھیڑے بغیر صرف آپ کے تبصرہ پہ تعلیق کے طور پہ مختصرا عرض ہے کہ شکریہ کے تینوں طریقے تفصیل سے عرض کردیئے گئے جس سے واضح ہے کہ جون سا طریقہ چاہیں اختیار کیا جاسکتا یے۔یہ اسلامی موقف ہے. تاہم شکریہ کی ادائی کا سب سے افضل وکامل  طریقہ یہ ہے کہ الفاظ نبوی جزاک اللہ خیرا اختیار کئے جائیں ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس چیز کو ابلغ فی الثناء قرار دیں۔ لامحالہ آپ کا عمل بھی اسی پہ ہوگا۔ پہر کہنا کہ حضور نے طریقہ کی تعیین نہیں کی۔ کتنا تعجب خیز ہے! اس کے علاوہ دوسرا طریقہ ناجائز نہیں ہے بلکہ ناقص ہے. ابلغ فی الثناء سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے. شکریہ یا اس کے ہم معنی الفاظ سے بھی منعم کے احسان کا اعتراف واظہار کیا جاسکتا جاسکتا ہے۔۔۔۔لیکن یہ افضل طریقہ کے خلاف ہوگا. اسلام تو اپنے دامن میں لامتناہی وسعت رکھتا ہے. اسی لئے تو چودہ سو سال گزرنے کے بعد بھی جواں ہے اور تاقیامت جواں رہے گا اس پہ  کہولت یا شیخوخت طاری نہیں ہوسکتی۔ بدلتے ہوئے حالات و تقاضے وچیلنجس کے سامنے علماء دین کتاب وسنت سے ہم آہنگ جدید احکام کا استنباط فرمالیتے ہیں۔ احکام اسلام کسی بھی موڑ پہ زمانے کے تقاضوں کا ساتھ دینے سے انکاری نہیں. تھینکس وغیرہ کہنے کے احکام بھی مخصوص حالات، زمانے اور پس منظر میں ممنوع شرعی نہیں۔ بلکہ مباح ہوسکتے ہیں۔ لیکن یہ بھی کوئی توسع ہوا کہ 'تھنکس' جیسے مجہول النسب معاشرہ کی مجہول النسب اصطلاح کو طریقہ نبوی کے ہم معنی قرار دیدیا جائے!!!! اگر یہ کہنے سے بھی نبوی ہدایت پہ عمل ہوجائے گا. تو عوام  اور سہولت پسند طبائع کو اصل عربی دعا پڑھنے کی کیا ضرورت پڑے گی ؟؟ اور کیا معاملہ پہر یہیں تک محدود رہ جائے گا؟؟؟ دیگر دعائوں السلام علیکم۔ بسم اللہ اموت واحی ۔بسم اللہ وبرکة اللہ جیسے ادعیہ ماثورہ کے ساتھ بھی یہی ظالمانہ حشر روا رکھا جائے گا. یوروپ اور امریکہ میں آکےدیکھیں! دنیادار طبقہ سورہ فاتحہ سمیت ہر آیت، سورہ اور دعا کو رومن کے ذریعہ یاد کرتے ہیں. عربی وہ پڑھ سکتے ہیں اور نہ سمجھ سکتے ہیں. ایسے میں اباحت پسندی کے توپ کا دہانہ تھوڑا سوچ سمجھ کے اور نتائج وعواقب پہ نظر رکھ کے کھولنا چاہئے۔ فقط 
یہ کلمات بحث کا حصہ نہیں. صرف آپ کے تبصرہ پہ ضروری تحشیہ ہیں۔
--------------
ُجزاکمُ الله خيراً، نامعلوم اصل سنت الفاظ کہنے میں کیا گھبراھٹ ہے۔ انگریز مسلمان ہو گا تو نماز انگلش میں پڑھے گا؟ یا جرمن جرمن میں؟ ۔۔۔؟؟؟؟ سلام انگلش میں کرے گا، قرآن انگلش میں پڑھے گا ۔ ۔۔۔؟؟؟؟۔ ھمبستری کی دعا انگلش میں پڑھے گا؟؟؟۔ افسوس اسلام کی عظمت نا ہونے کی وجہ سے ایسی بحث ہوتی ہے۔ مجھے تو کھجوروں پر چاکلیٹ لگا نے سے کھجور کی تو ہین لگتی ہے، مسواک کے ٹوتھ پیسٹ کو مسواک کا بدل بنانے سے بھی دکھ ہو تا ہے، ُجزاکمُ الله خيراً مفتی صاحب، آپکے قریب ہوتا تو آپکے سر کی مالش کرتا۔ کیونکہ آپ نے کافی سر کھپایا۔
شمس الحق صدیقی (صاحب مقیم جرمن)
...........
کل شکر اور شکریے سے متعلق جانبین کے خیالات سے استفادے کا موقع ملا، میں ان دنوں شدتِ مصروفیات کے باعث مباحثات میں حصہ نہیں لے پارہا، تاہم اس حلقے میں آئی ہوئی باتوں پر ایک اچٹتی نگاہ ضرور ڈال لیتا ہوں، مجھے اس سلسلے میں برادرم مفتی شکیل صاحب کا موقف درست لگا، حقیقت یہی ہے کہ شکریہ کے لیے مسنون عمل جزاک اللہ کہنا ہی ہے، اگرچہ دوسرے کلمات سے بھی اظہارِ تشکر جائز ہے، مگر سنت کا ثواب جزاک اللہ کہنے پر ہی ملے گا۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو بھی اعمال و اشغال اثباتاً منقول ہیں، ان پر اسی انداز پر عمل کرنا سنت ہوگا، ترجمہ کی گنجائش ضرور ہے، مگر سنت کا ثواب اس پر نہیں ملے گا، امام اعظم کسی دور میں دورانِ نماز فارسی میں تلاوت قرآن کے قائل تھے، لیکن انہیں رجوع کرنا پڑا، اللہ اجل یا اللہ اعظم سے نماز درست ہے، مگر تکبیر کے لیے مسنون عمل اللہ اکبر ہی ہے، ہمارے علما نے اسی بنا پر خطبہ جمعہ غیرعربی کی اجازت نہیں دی، آپ ترجمہ قرآن ایک کروڑ بار پڑھ جائیے اور متن نہ پڑھیے، قرآن خوانی کے ثواب سے آپ محروم ہی رہیں گے۔۔۔ اصل اصل ہوتا ہے اور تابع تابع، لہذا جزاک اللہ کی جگہ تھینک یو کہنے کی گنجائش ہے، شکریہ بھی کہہ سکتے ہیں، مگر جواز ہی کی حد تک، اس پر سنت کا اطلاق ہرگز نہیں ہوگا۔۔۔ ان شاءاللہ اس موضوع پر قدرے مشرح مضمون خدمت میں عرض کروں گا ۔۔۔ جو لوگ تھینک جیسے الفاظ پر بھی سنیت کے قائل ہیں، ان کا موقف نادرست ہے، بلکہ تہذیبِ حاضر سے مرعوبیت کا غماز بھی ہے۔۔۔
 فضیل احمد ناصری
.................
اسلام ایک مکمل نظام اور سسٹم کا نام ہے۔ عام معاشرتی پہلو میں کسی ایک زباں کے ساتھ گرچہ مختص نہیں ہے لیکن وہ تمام مواضع جہاں معاشرت اپنے ساتھ عبادت کا عنصر لئے ہوئے ہے وہاں تو زبان کی پابندی بہر حال لازم ہوگی۔ اگر اسے بھی مختلف زبانوں کے رحم  و کرم پر چھوڑ دیا جائے تو تہذیب و کلچر کی دنیا میں اسلام کا اپنا تشخص ناپید ہوجائے مثلا۔ اسلامی تعلیمات میں سے ہے کہ عندالملاقات السلام علیکم  کہا جائے۔ اب مسلمان کسی بھی زبان اور علاقہ و خطہ سے تعلق رکھتا ہو اس ابتدائی جملہ ہی سے تاڑ جاتا ہے کہ سامنے والا میرا دینی بھائی ہے اور اگر اس کو وہ اپنی اپنی زبان میں ترجمہ کرکے کہنے لگے تو یہ شناخت مشکل ہوجائے گی۔
(مفتی) شمشیر حیدر قاسمی.
---------------
جواب تو کسی علمی اعتراض کا دیا جاتا ہے. یہاں تو ساری بنیاد ہی مفروضات وقیاسات پہ رکھ دی گئی۔ کل واضح انداز میں کئی بار اپنا موقف بیان کردیا۔ جزاک اللہ خیرا کہنا کامل وافضل طریقہ شکر ہے. اسے فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ دوسرے ہم معنی کلمات کے ذریعہ بھی شکریہ ادا کیا جاسکتا ہے۔ حتی کہ قلبی طور پہ بھی ادا کیا جاسکتا ہے جہاں الفاظ کا نام نشان تک نہیں۔ مخصوص حالات وپس منظر میں کسی بھی زبان میں شکریہ ادا کیا جاسکتا ہے. لیکن thanks  کو جزاک اللہ خیرا کا متبادل قرار دینا حد درجہ کی جدت اور اباحیت پسندی ہے. پھر مزید  اس جرات کا اظہار کہ "نبی سے سے سلسلہ میں کوئی تعیین منقول نہیں." خاصی تشویش ناک بات ہے. ماثور دعائوں کا رسم الخط تک بدلنے کی اجازت علماء اہل سنت والجماعت کے نزدیک نہیں ہے. تو بھلا ماثور دعا: "جزاک اللہ خیرا" کوشکلا صورتا  اور معنی thanks میں ڈھال کر اس پہ بھی سنت کا اطلاق کیسے درست ہوسکتا ہے؟؟؟ یہی میرا موقف ہے. اس پہ دلائل کے ساتھ انشراح قلب کے ساتھ قائم ہوں اور رہوں گا۔ اس موقف پہ کسی کو علمی اعتراض ہو تو دلائل کے ساتھ نجی نمبر پہ تبادلہ خیال کرسکتا ہے. نامعلوم صحافی کی لمبی چوڑی بکواس نما تحریر میں کوئی علمیت اور قوت دلیل رہے. جب تو جواب لکھوں؟ لے دے کے تکبیرتحریمہ والی بات لے آئے۔ جس کی تشفی بخش وضاحت مکرمی ناصری صاحب نے کردی ہے۔ اب مزید کی چنداں ضرورت نہیں.
مركز البحوث الإسلامية (صححہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2022/09/blog-post_17.html


Tuesday, 13 September 2022

کیا دارالعلوم دیوبند موروثی ادارہ بن چکا ہے؟

کیا دارالعلوم دیوبند موروثی ادارہ بن چکا ہے؟
مولانا محمود مدنی دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے رُکن منتخب 
دیوبند سے مورخہ 13 ستمبر  2022 کو موصولہ اطلاعات کے مطابق اسلامی تعلیم کے مرکزی ادارہ دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ نے اہم فیصلہ کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے صدر اور سابق رکن پارلیمنٹ مولانا محمود مدنی کو شوریٰ کا رکن نامزد کیا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے اس کی تصدیق کی ہے۔
پیر کے روز سے ادارے کے گیسٹ ہاؤس میں جاری شوریٰ کے تین روزہ اجلاس میں منگل کی شام بعد نمازمغرب منعقد چوتھی نشست میں شوریٰ نے بڑا فیصلہ کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے سربراہ اور سابق رکن پارلیمنٹ مولانا محمود مدنی کو دارالعلوم دیوبند کی مجلسِ شوریٰ کا رکن منتخب کیا ہے۔
دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی نے ’’دیوبند ٹائمز‘‘ سے بات کرتے ہوئے اس خبر کی تصدیق کی ہے اور بتایا ہے کہ شوریٰ کے ایک رکن کی جگہ خالی تھی جس پر مولانا محمود مدنی کو متفقہ طور پر شوریٰ کا رکن منتخب کیا گیا ہے۔ (رضوان سلمانی/سمیر چودھری) (بشکریہ: دیوبند ٹائمز) 
کیا دارالعلوم دیوبند موروثی ادارہ بن چکا ہے؟
آج بعد نمازمغرب مولانا سید محمود مدنی رکن شوریٰ دارالعلوم منتخب ہوگئے. خیر اس پر حیرت کی کوئی بات نہیں. ابھی پچھلے ہی سال مولانا سید ارشد مدنی کو صدرالمدرسین بناکر شوریٰ میں داخل کروایا گیا ہے اور اب مولانا محمود کو رکن شوریٰ بنایا گیا ہے. سوال یہ ہے کہ کیا سن 1982 میں مولانا اسعد مدنی کا سارا اختلاف اسی پر نہیں ہوا تھا کہ دارالعلوم موروثی ادارہ نہیں؟؟؟
مولانا سالم صاحب قاسمی رحمہ اللہ کو اہم ذمہ داریاں دیے جانے پر وبال ہوگیا تھا لیکن آج خاندان در خاندان نسل بعد نسل مولانا اسعد مدنی کے اعزاء دارالعلوم کے اہم ترین عہدوں پر براجمان کیے جارہے ہیں لیکن ہر طرف خاموشی ہے.
کیا دارالعلوم بھی جمعیت کی طرح مدنی خاندان کی جاگیر بن کر رہ گیا ہے؟؟ کیا کوئی ایسا جرت مند قاسمی زندہ ہے جو اس استحصال اور مؤثر آواز اٹھا سکے ؟؟؟ 
آپ شوریٰ کو دیکھیں تو اکثر ممبران شوریٰ مدنی خاندان کے رشتہ دار ہی ملینگے.
مولانا عبدالعلیم فاروقی کئی طرف سے مولانا ارشد مدنی کے رشتہ دار ہیں. 
مولانا غلام وستانوی مولانا ارشد مدنی کے سمدھی ہیں. مولانا انوارالر حمٰن مولانا محمود مدنی کے بہنوئی. اور بقیہ چند ایسے لوگ ہیں جو انہی حضرات کے رحم و کرم پر چلتے ہیں اپنا کچھ نہیں ہے انکا.
 نہ اپنی رائے ہے نہ اپنا نظریہ نہ اپنا کوئی نصب العین نہ کوئی ہدف.
اب آپ دیکھیں مولانا غلام رسول خاموش کے انتقال کے بعد مولانا کے بیٹے کو رکن منتخب کرلیا گیا.
مزید ملاحظہ فرمائیں. مولانا انوارالر حمٰن انکے والد مولانا مرغوب الرحمٰن مہتمم کے علاؤہ رکن شوریٰ بھی تھے. اور اس سے قبل انکے دادا مشیت اللہ قاسمی بھی رکن شوریٰ تھے. اب اسی لئے انوارالرحمٰن صاحب رکن شوریٰ ہیں کیونکہ انکے ابا اور دادا رکن شوریٰ تھے اور اب آگے انکی اولاد محمد بجنوری تیار ہیں رکن شوریٰ منتخب ہونے کے لئے.
اسی طرح شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ صدر المدرسین ہونے کی حیثیت سے شوریٰ میں جلوہ افروز ہوتے تھے اسکے بعد مولانا سید اسعد مدنی نے جب  قبضہ کیا تو وہ رکن شوریٰ منتخب ہوئے اس کے بعد اب مولانا محمود مدنی رکن شوریٰ منتخب ہوگئے ۔ مطلب اراکین شوریٰ کی فہرست دیکھیں تو  ایک ہی خاندان کے ارد گرد گھومتی نظر آئیگی جبکہ دیوبند میں بانی دارالعلوم حجۃ الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی کا خاندان بھی سکونت رکھتا ہے اور اچھا علمی مقام ہے لیکن وہ لوگ شوریٰ کے رکن منتخب نہیں ہوسکتے اسی طرح حضرت علامہ انور شاہ کشمیری کا خانوادہ بھی اس قابل نہیں اور اسی طرح مزید سیکڑوں صلاحیت مند خانوادے اور انکے علمی وارثین موجود ہیں لیکن وہ سب خاک چھان رہے ہیں جبکہ مدنی خاندان کے لوگ چاہے صلاحیت ہو یا نہ ہو دارالعلوم میں انکا طالب علمی کا ریکارڈ چاہے جیسا رہا ہو لیکن رکن شوریٰ وغیرہ انہی کو منتخب ہونا ہے. یہ کیسا دہرا معیار ہے اگر یہی سب کرنا تھا تو حضرت حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ پر انکی آخری عمر میں ظلم کے پھاڑ کیوں توڑے گئے؟؟؟ آج انکی خدمات کو کھرچ کھرچ کر مٹایا جارہا ہے۔ دیوبندیت کو اس قدر سمیٹ کیوں دیا گیا ہے؟؟؟ آخر کب تک یہ استحصالی نظام چلیگا؟؟؟. 
بندہ عبدالرحیم دیوبندی:
(+974 7715 8695)
 (صححہ: #ایس_اے_ساگر )
http://saagartimes.blogspot.com/2022/09/blog-post_13.html?m=1

Tuesday, 6 September 2022

موجودہ دور میں امت کو ترجیحات کی ضرورت

(امت مسلمہ کی بدحالی کا حل بتانے والی👇 مفکراسلام کی چشم کشا تحریر ) 
موجودہ دور میں امت کو ترجیحات کی ضرورت
✍️ علامہ یوسف القرضاوي 
ترجیحات کے توازن میں خرابی
اگر ہم اپنی زندگی پر غور کریں اور مادّی، معنوی، فکری، معاشی، معاشرتی اور سیاسی ہر پہلو سے اس پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہمارے ہاں ترجیحات کا توازن مکمل طور پر تہہ و بالا ہو چکا ہے۔ تقریباً تمام اسلامی ممالک میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایک عجیب طرح کی افراط اور تفریط ہے۔
فن و تفریح کو تعلیم و تعلم پر ترجیح دی جاتی ہے۔ نوجوانوں کی سرگرمیوں میں جسمانی ورزشوں کو عقل و فکر اور روحانی تربیت پر مقدم کیا جاتا ہے، گویا کہ نوجوانوں کی تربیت کا ایک ہی مطلب ہے کہ ان کی جسمانی تربیت کی جائے۔ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا انسان صرف جسم کا نام ہے یا انسان کی انسانیت اس کے جسم اور عقل کے مجموعے کو کہتے ہیں۔
پرانے زمانے کی بات ہے۔ ہم ابوالفتح البستی کی یہ مشہور نظم یاد کیا کرتے تھے (ترجمہ):
’’اے جسم کے خادم! تو کب تک اس کی خدمت کرتا رہے گا؟ کیا تو اُس چیز سے کمائی کی امید لگائے بیٹھا ہے جس میں نقصان ہی نقصان ہے؟ نفس کی طرف توجہ کر اور اس کے فضائل کی تکمیل کر۔ تُو اگر انسان ہے تو جسم کی وجہ سے نہیں، بلکہ نفس کی وجہ سے ہے.‘‘
اور اس سے پہلے ہم نے زہیر بن ابی سلمیٰ کے معلقہ سے یہ شعر یاد کیا تھا (ترجمہ):
’’نوجوان کی زبان اس کا آدھا حصہ ہے، باقی آدھا اس کا دل و دماغ ہے۔ ] اگر دل و دماغ کو نکال دیں[ تو انسان گوشت پوست کے ایک بت کے سوا کچھ نہیں رہتا‘‘۔
لیکن آج کل ہم دیکھتے ہیں جیسے انسان ہر چیز سے پہلے جسم اور اعصاب کانام ہے۔
عرصہ پہلے ایک موسم گرما میں مصر کے لوگوں کا اس کے علاوہ کوئی موضوع بحث نہیں تھا کہ ایک کھلاڑی کا لباس فروخت کے لیے پیش کیا گیا تھا اور اس کی قیمت تقریباً ساڑھے تین لاکھ جُنَیہُ تک پہنچ گئی تھی۔ کاش، کہ یہ لوگ تفریح کی ان قسموں کا اہتمام کرتے ہوتے جس سے عوام اپنی روزمرہ زندگی میں مستفید ہوسکتے ہیں۔ مگر ان کی ساری توجہ کھیل کے مقابلوں کی طرف ہوتی ہے، خاص طور پر فٹ بال ]اور کرکٹ[ جس میں چند کھلاڑی کھیل رہے ہوتے ہیں اور باقی محض دل بہلانے والے تماشائی ہوتے ہیں۔
معاشرے میں شہرت اور ستاروں کا مقام نامور علماء، ادیبوں اور اہل دین و دانش کو نہیں بلکہ اداکاروں، گلوکاروں اور کھلاڑیوں کو حاصل ہے۔ اخبارات و رسائل، ٹی وی اور ریڈیو کے مذاکروں کا موضوع بحث یہی لوگ ہوتے ہیں۔ میڈیا پر ان کے کھیلوں اور ’’کارناموں‘‘ کی خبریں نشر ہوتی رہتی ہیں، خواہ وہ کتنی ہی غیر اہم کیوں نہ ہوں۔ رہے دوسرے لوگ ] جو کوئی فائدے کا کام کرتے ہیں [ان کا کسی کو سایہ بھی نہیں لگنے دیا جاتا بلکہ وہ طاقِ نسیان میں پڑے رہتے ہیں۔ اگر ایک فن کار فوت ہو جائے تو پوری دنیا میں تہلکہ مچ جاتا ہے اور اخبارات اس کے بارے میں تعریف و توصیف کے دریا بہا دیتے ہیں۔ مگر کوئی عالم، ادیب، یا کوئی بڑا ماہر فن وفات پاتا ہے تو کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔
معاشی پہلو سے دیکھا جائے تو کھیل کود اور فن کاری کو فروغ دینے کے لیے، اور حکمرانوں کی ذاتی حفاظت کے لیے تو بڑی بڑی رقمیں خرچ کی جاتی ہیں، جسے ’’ملکی سلامتی‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ کسی میں یہ پوچھنے کی جرأت نہیں ہوتی کہ یہ سب کچھ یوں ہو رہا ہے۔
دوسری طرف تعلیمی اور فلاحی ادارے، اسپتال اور شفاخانے اوردعوتِ دین کی تحریکیں وسائل کی کمی کا رونا روتی رہتی ہیں۔ وہ جب اپنی ترقی کے لیے اور عصری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کوئی مطالبہ کرتی ہیں تو ان سے معذرت کی جاتی ہے اور ہزار بہانے بنا کر ان سے جان چھڑائی جاتی ہے۔ آدمی حیران ہو جاتا ہے کہ اُدھر سخاوت کے دریا اوراِدھر ایک گھونٹ کو بھی ترسانا!! جیسے ابن مقنع نے بہت پہلے کہا تھا: ’’میں نے کوئی اسراف نہیں دیکھا مگر ضرور اس میں کسی کا حق مارا جاتا ہے.‘‘
👈 ترجیحات کا مسئلہ اور  دین دار طبقہ:
ترجیحات کے معاملہ میں یہ خرابی صرف عوام میں یا بے دین طبقے میں نہیں آئی۔ بلکہ خود دین دار طبقہ بھی طرح طرح کی بے اعتدالیوں کا شکار ہے۔ کیوں کہ ان میں بھی معاملات کے درست فہم اوردین کے صحیح علم کی کمی پائی جاتی ہے۔
صحیح علم تو وہی ہوتا ہے جو آدمی کے سامنے راجح اور مرجوح کو واضح کردے، فاضل و مفضول کے درمیان فرق کو نمایاں کر دے اور اس کے ذریعے معلوم ہو سکے کہ صحیح کیا ہے اور فاسد کیا، مقبول کیا ہے اور مردود کیا۔ وہ اسے بتا سکے کہ کون سی چیز سنت ہے اور کون سی بدعت۔ اسی طرح وہ شریعت کے مطابق ہر چیز کی اصل قدر و قیمت کی پہچان کروائے۔
اکثر اوقات ہم دیکھتے ہیں کہ اس طرح کے لوگ جو علم کے نور سے اور معاملات کی سمجھ سے محروم ہوتے ہیں، وہ مختلف امور کے درمیان قائم حدود کو مٹا دیتے ہیں اوران میں کوئی تمیز نہیں کرتے۔ وہ ان کے بارے میں وہ حکم لگاتے ہیں جو شریعت میں اس کے حقیقی حکم سے مختلف ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ یا تو افراط کرتے ہیں یا تفریط کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس مقام پر دین بے چارہ چکی کے دو پاٹوں کی طرح متشددین اور منحرفین کے درمیان پس جاتا ہے۔
ہم نے کئی بار دیکھا ہے کہ ایسے لوگ (جو اگرچہ پوری طرح مخلص ہوتے ہیں، مگر وہ) راجح کو چھوڑ کر مرجوح پر عمل پیرا ہو جاتے ہیں، اور مفضول میں منہمک ہوکر فاضل سے غفلت اختیار کر جاتے ہیں۔
بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک ہی عمل ایک وقت میں فاضل ہوتا ہے اور دوسرے وقت میں مفضول اور ایک حالت میں وہ راجح ہوتا ہے اور دوسری حالت میں مرجوح۔ لیکن یہ لوگ اپنی کم علمی اور ناسمجھی کی وجہ سے ان دو حالتوں اور الگ الگ اوقات کے درمیان فرق نہیں کرتے۔
میں نے بہت سے نیک طینت مسلمانوں کو دیکھا ہے کہ وہ کسی ایسے شہرمیں مسجد کے لیے عطیہ دیتے ہیں جہاں پہلے سے بے شمار مساجد ہوتی ہیں اور اس پر پانچ دس لاکھ ڈالر یا اس سے بھی زیادہ رقم خرچ کر ڈالتے ہیں۔ مگر جب آپ ان سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ اس کی آدھی یا چوتھائی کے برابر رقم دعوتِ اسلام کی اشاعت میں، کفر و الحاد کامقابلہ کرنے میں یا اسلامی نظام کے نفاذ کی خاطر کی جانے والی کوششوں میں یا اس طرح کے دوسرے عظیم اہداف میں خرچ کریں (جن کے لیے بعض اوقات افراد تو دستیاب ہوتے ہیں مگر مال کی کمی ہوتی ہے) تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ آپ کی آواز صدا بصحراء ثابت ہوگی اور وہ آپ کو کوئی مثبت جواب نہیں دیں گے۔ وہ اینٹوں اور پتھروں کی عمارتیں تعمیر کرتے ہیں مگر انسانوں کی تعمیر ان کی نظر میں فضول ہے۔
ہر سال حج کے دنوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ صاحبِ ثروت مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اسی بات پر بضد ہوتی ہے کہ وہ نفل حج کی سعادت سے محروم نہ ہوں۔ اور بہت سے لوگ ہیں کہ رمضان کے مہینے میں عمرہ کرنا بھی اپنے اوپر لازم سمجھتے ہیں۔ اس میں وہ پوری سخاوت کے ساتھ اپنا مال خرچ کرتے ہیں اور کبھی کبھی اپنے ہی خرچ پر دوست احباب کو بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔ حالانکہ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے نہ حج کا مکلف کیا ہوتا ہے اور نہ عمرے کا۔
ان سے جب آپ کہتے ہیں کہ وہ یہ سالانہ اخراجات فلسطین میں یہودیوں کے مقابلے کے لیے یا بوسنیا اور ہرزی گووینا میں سربوں کے مقابلے کے لیے یا انڈونیشیا، بنگلہ دیش یا دوسرے ایشیائی اور افریقی ممالک میں عیسائی مبلغین کا مقابلہ کرنے کے لیے دے دیں، یا کوئی دعوتی اور تحریکی مرکز قائم کرنے کے لیے، یا ایسے داعیوں کی تیاری کے لیے خرچ کریں جو اس میں تخصص حاصل کر کے اپنے آپ کو اسی کام کے لیے وقف کریں، یا اسے تصنیف و تالیف اور ترجمے یا دینی کتابوں کی اشاعت کا کوئی ادارہ قائم کرنے کے لیے عطیہ کردیں، تو قرآن کے الفاظ میں *لَوَّوْا رُؤُوسَہُمْ وَرَاَیْتَہُمْ یَصُدُّوْنَ وَہُمْ مُّسْتَکْبِرُوْنَ ’’تو سر جھٹکتے ہیں اور تم دیکھتے ہو کہ وہ بڑے گھمنڈ کے ساتھ آنے سے رکتے ہیں‘‘* (المنافقون:۵)
یہ ہے لوگوں کی حالت، اور دوسری طرف قرآن سے یہ بات وضاحت کے ساتھ ثابت ہے کہ جہاد سے متعلقہ اعمال، اُن اعمال سے افضل ہیں جو حج سے متعلق ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’کیا تم لوگوں نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی مجاوری کرنے کو اس شخص کے کام کے برابر ٹھیرا لیا ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور روزِ آخرت پر اور جس نے جاں فشانی کی اللہ کی راہ میں! اللہ کے نزدیک تو یہ دونوں برابر نہیں ہیں اور اللہ ظالموں کی رہنمائی نہیں کرتا۔ اللہ کے نزدیک تو انہی لوگوں کا درجہ بڑا ہے جو ایمان لائے اور جنہوں نے اس کی راہ میں گھر بار چھوڑے اور جان و مال سے جہاد کیا۔ وہی کامیاب ہیں۔ ان کا رب انہیں اپنی رحمت اور خوشنودی اور ایسی جنتوں کی بشارت دیتا ہے جہاں ان کے لیے پائیدار عیش کے سامان ہیں.‘‘ (التوبۃ: ۱۹۔۲۰)
اور لوگوں کا یہ طرزِ عمل اس صورت میں ہے کہ ان کا حج اور عمرہ نفلی ہوتا ہے، جبکہ کفر و الحاد، لادینیت، اباحیت اور انہیں قوت فراہم کرنے والے دوسرے عوامل کے خلاف جہاد فریضۂ وقت اور لازمی امر ہے۔
پرانی بات ہے ایام حج سے قبل ہمارے دوست اور معروف اسلامی اسکالر استاذ فہمی ہویدی نے اپنے ہفتہ وار مقالے میں وضاحت کے ساتھ مسلمانوں سے یہ بات کہی تھی کہ بوسنیا کی آزادی فریضہ حج پر مقدم ہے۔
جن لوگوں نے یہ مقالہ پڑھا تھا ان میں سے بہت سے  لوگوں نے مجھ سے پوچھا کہ یہ بات شرعی اور فقہی نقطہ نظر سے کس حد تک درست ہے۔ میں نے اس وقت کہا تھا کہ ہویدی صاحب کی بات کا ایک درست پہلو موجود ہے، جو فقہی لحاظ سے قابلِ اعتبار بھی ہے۔ شرعی طور پر یہ بات متعین ہے کہ جو فرائض فوری طور پر مطلوب ہوں ان کو ایسے فرائض پر مقدم کیا جائے گا جن میں تاخیر کی گنجائش ہوتی ہے۔ اور فریضہ حج میں تاخیر کی گنجائش موجود ہے۔ بعض ائمہ کے نزدیک یہ واجب عندالتراخی ہے، یعنی اس میں ڈھیل ہوسکتی ہے۔ رہا بوسنیا کے مسلمانوں کو بھوک و افلاس، امراض، سردی اور اجتماعی ہلاکت سے (جس کا انہیں سامنا ہے) بچانا، تو وہ ایک فوری فریضہ ہے، جسے بروقت انجام دینے کی ضرورت ہے اور اس میں نہ تاخیر کی گنجائش ہے اور نہ تراخی یعنی ڈھیل کی۔ کیونکہ یہ فریضۂ وقت ہے اور ساری امت پر آج کا اہم ترین واجب ہے۔
اس میں شک نہیں ہے کہ فریضۂ حج کو قائم کرنا اور موسمِ حج کو معطل ہونے سے بچانا بھی ایک فریضہ ہے۔ اس میں کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ لیکن یہ کام تو حرمین کے باشندوں کے ذریعے بھی انجام پاتا ہے اور ارد گرد کے وہ لوگ بھی اس میں حصہ لے سکتے ہیں جن کے سفری اخراجات زیادہ نہیں ہیں ۔
اس کے باوجود میراخیال ہے کہ استاذ ہویدی کا جو مقصد ہے وہ اس کے بغیر بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ وہ اس طرح کہ ہر سال حج میں زیادہ ہجوم ہونے کی ایک بڑی وجہ وہ بہت سے لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے پہلے بھی فریضہ حج ادا کیا ہوا ہوتا ہے۔ پہلی مرتبہ حج پر آنے والوں کی تعداد حاجیوں کی کل تعداد کا زیادہ سے زیادہ ۱۵ فیصد ہوگی۔ اگر حاجیوں کی مجموعی تعداد بیس لاکھ ہو تو ان میں پہلی مرتبہ حج کرنے والے عموماً تین لاکھ سے زیادہ نہیں ہوتے۔
جو لوگ ہر سال نفلی حج ادا کرتے ہیں (اور ان کی تعداد یقینا دوسروں سے زیادہ ہی ہوتی ہے)، اسی طرح وہ لوگ جو سارا سال نفلی عمرے کرتے رہتے ہیں، خصوصاً رمضان کے دنوں میں، کاش! کہ وہ اپنے نفلی حج اور عمرے کی قربانی دیں اور ان کے اخراجات اللہ کی راہ میں دے دیں۔ یعنی اپنے مال کو اپنے ان مسلمان بھائیوں اور بہنوں کو نجات دلانے کے لیے خرچ کریں جو مادّی اور معنوی ہلاکت سے دوچار ہیں، جنہیں بے انتہا ظلم و جبر کا سامنا ہے۔ ان کا دشمن ان کی جان و مال اور عزت و آبروکے درپے ہے، اور چاہتا ہے کہ دنیا سے ان کا نام و نشان مٹ جائے۔ رہی ترقی یافتہ دنیا، تو وہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے اور ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔ کیونکہ یہاں قوت کا حق غالب ہے نہ کہ حق کی قوت ] یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس[۔
میں مصر، قطر اور دوسرے خلیجی ممالک کے بہت سے دین دار دوستوں کو جانتا ہوں جو ہر سال فریضہ حج کی ادائیگی کے بڑے شوقین ہوتے ہیں۔ ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو چالیس سال سے مسلسل حج کرتے آئے ہیں۔ یہ رشتہ داروں، دوستوں اور کاروبار میں شریک بھائیوں کا ایک پورا گروہ ہے جن کی تعداد سیکڑوں تک پہنچتی ہے۔ ایک سال ایسا ہوا کہ میں انڈونیشیا سے ابھی ابھی واپس آیا تھا اور میں نے دیکھا تھا کہ وہاں عیسائی مبلغین کتنے بڑے پیمانے پر اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔ مجھے محسوس ہوا تھا کہ وہاں ان کے بالمقابل تعلیمی، طبی اور اجتماعی ادارے قائم کرنے کی کتنی اشد ضرورت ہے۔ چنانچہ میں نے ان نیک طینت بھائیوں سے کہا: کیا خیال ہے اگر اس سال آپ حضرات حج کا ارادہ مؤخر کر دیں اور اس پر اٹھنے والے اخراجات انڈونیشیا میں عیسائیت پھیلانے کی کوششوں کے مقالہ پر خرچ کریں۔ اگر ایک سو افراد ہوں اور ایک فرد کا خرچہ دس ہزار جُنَیہُ ہوتو اس کا مجموعہ دس لاکھ جُنَیہُ بنتا ہے۔ اس رقم سے ایک بہت بڑے منصوبے کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔ اگر ہم نے اس طرح کے کسی منصوبے کا آغاز کیا اور اس کی تشہیر کی تو دوسرے لوگ بھی ہماری تقلید کریں گے اور ان کے کام میں ہمیں بھی ثواب ملے گا۔
مگر ان دوستوں نے کہا: جب بھی ذوالحجہ کا مہینہ آتا ہے تو ہم اپنے دل میں حج کا ایسا جذبہ محسوس کرتے ہیں جس کا ہم کسی طرح مقابلہ نہیں کرسکتے۔ ہم اپنی روح کو کعبہ کا طواف کرتے ہوئے محسوس کرتے ہیں۔ جب ہم دوسرے لوگوں کے ساتھ حج پر حاضر ہوتے ہیں تو ہمیں اس میں بڑی خوشی محسوس ہوتی ہے۔
یہ وہی بات ہے جو اس سے بہت پہلے بشرحافی سے کسی نے کہی تھی۔ اگر مسلمانوں میں دین کا فہم صحیح ہوتا اور دین میں ترجیحات درست ہوتیں تو یقیناً وہ اس سے زیادہ خوشی، سعادت اور روحانیت اُس وقت محسوس کرتے جب وہ اپنے نفلی حج و عمرے کے اخراجات کو کسی اسلامی منصوبے کا آغاز کرنے، یتیموں کی کفالت کرنے، بھوکوں کو کھانا کھلانے، جن لوگوں کو ملک بدر کیا گیا ہے ان کو پناہ دینے، مریضوں کاعلاج کرنے، اَن پڑھ لوگوں کو تعلیم دینے اور بے روزگاروں کو روزگار فراہم کرنے میں صَرف کردیتے۔
میں نے بہت سے نوجوانوں کو دیکھا ہے جو یونیورسٹی کے طبی، زرعی، انجینئرنگ، یا ایجوکیشن کے شعبے میں یا دوسرے نظری یا علمی شعبوں میں پڑھتے تھے۔ وہ ان شعبوں میں کامیاب جارہے تھے، بلکہ دوسروں سے آگے تھے۔ زیادہ عرصہ نہ گزرا ہوگا کہ انہوں نے اپنے اپنے شعبے سے منہ موڑا اور یہ کہتے ہوئے ان کو خیرباد کہہ دیا کہ اس طرح وہ دعوت و ارشاد کے لیے فارغ ہو جائیں گے۔ حالانکہ اگر وہ اپنے تخصص کے شعبے میں کام کرتے (جو ایک فرض کفایہ تھا، اور اگر پوری اُمت اس سے غفلت برتتی ہے تو گناہ گار ہو جاتی ہے)۔ تو وہ اچھی نیت سے اپنے کام کو پوری مہارت کے ساتھ انجام دیتے ہوئے اور ان میں حدود اللہ کی پابندی کرتے ہوئے اسے عبادت اور جہاد میں تبدیل کر سکتے تھے۔
اگر ہر مسلمان اپنے پیشے کو چھوڑ دے تو پھر اُمت کی ضروریات کون پوری کرے گا؟ رسول اللہ ﷺ کو جب دنیا میں مبعوث کیا گیا تو صحابہ کرامؓ مختلف پیشوں سے وابستہ تھے۔ آپ ﷺ نے ان میں سے کسی سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ وہ اپنے ذریعۂ معاش یا پیشے کو چھوڑ کر اپنے آپ کو دعوت کے لیے فارغ کرے۔ ہجرت سے پہلے بھی اور ہجرت کے بعد بھی یہی طریقہ رہا کہ سارے لوگ اپنے اپنے پیشے سے وابستہ رہے۔ مگر جب جہاد کے لیے منادی کی جاتی اور انہیں بلایا جاتا تو سارے لوگ، خواہ ہلکے ہوتے یا بوجھل، اس کی طرف چل پڑتے اور اپنی جان و مال اللہ کی راہ میں پیش کر دیتے تھے۔
امام غزالیؒ نے اپنے دَور میں لوگوں کے لیے یہ بات ناپسند کی کہ ان کے اکثر طالب علم فقہ اور اس طرح کے دوسرے علوم کی طرف متوجہ ہوتے تھے اور دوسری طرف مسلمان ممالک میں کسی یہودی یا عیسائی طبیب کے علاوہ کوئی معالج نہ ہوتا تھا۔ وہ انہی سے اپنے مردوں اور عورتوں کا علاج کراتے تھے اور اپنی جانیں اور عزتیں انہی کے حوالے کر دیتے تھے۔ وہ ان سے ایسے امور بھی معلوم کرتے تھے جن کا تعلق شرعی احکام کے ساتھ ہوتا تھا، جیسے روزہ دار کا روزہ افطار کرنا اور زخمی ہونے کی صورت میں تیمم کرنا وغیرہ۔
میں نے کچھ اور لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ روزانہ ایسے معرکے گرم کرتے ہیں جن کا مقصد جزئی یا اختلافی مسائل پر مناظرے کرنا ہوتا ہے۔ وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ہمارا بڑا معرکہ ایسے دشمن کے ساتھ ہے جسے اسلام سے چڑ ہے، وہ اس سے نفرت کرتا ہے، وہ اس کو کمزور کرنے کی آس لگائے بیٹھا ہے اور اس سے خوف زدہ بھی ہے۔ وہ اسے نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔
یہاں تک کہ امریکا، کینیڈا اور دوسرے یورپی ممالک میں رہائش پذیر مسلمان سوسائٹی میں بھی ہم نے ایسے لوگ دیکھے ہیں جن کے ہاں سب سے اہم مسئلہ جو پوچھنے کے لیے رہ گیا ہے یہ ہے کہ گھڑی دائیں ہاتھ میں پہنی جائے یا بائیں ہاتھ میں۔ کوٹ پتلون کے مقابلے میں سفید کرتا قمیص پہننا فرض ہے یا سنت۔ عورتوں کا مسجد میں جانا حلال ہے یا حرام۔ اسی طرح کھانے کے لیے میز کرسی استعمال کرنا اور چُھری کانٹے سے کھانا تشبُّہ بالکفار میں شامل ہے یا نہیں ہے۔
یہ اور اس طرح کے بے شمار مسائل ہیں جو ہمارے بہت سارے اوقات کو کھا جاتے ہیں، لوگوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیتے ہیں، دلوں کو پارہ پارہ کر دیتے ہیں اور اس سے بہت سی محنتیں اور صلاحیتیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ کیونکہ یہ ایسی کوشش ہے جس کا کوئی ہدف نہیں اور یہ ایسا جہاد ہے جو دشمن کے خلاف نہیں، بلکہ اپنے خلاف کیا جارہا ہے۔
میں نے بہت سے نوجوانوں کو دیکھا ہے جو اپنے ماں باپ اور اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ سختی سے پیش آتے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ وہ گناہ گار اور دین سے منحرف ہیں۔ وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے، چاہے وہ مشرک ہوں، دین کے معاملے میں جھگڑا کرتے ہوں، اوران کی ہر طرح سے یہ کوشش ہو کہ اپنے بچے کو اسلام سے برگشتہ کردیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اگر وہ تم پر دبائو ڈالیں کہ میرے ساتھ کسی ایسے کو شریک کرو جسے تم نہیں جانتے تو ان کی بات ہر گز نہ مانو۔ البتہ دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرتے رہو.‘‘۔ (لقمان: ۱۵)
اس طرح والدین کی طرف سے اُس پُرزور دباؤ کے باوجود، جسے قرآن نے مجاہدہ علی الشرک کہا ہے، اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ ان کے ساتھ معروف کے ساتھ پیش آیا جائے۔ کیونکہ والدین کا حق ایسا ہے جس پر اللہ کے سوا کسی کا حق فوقیت نہیں رکھتا۔ اسی بناء پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: 
اَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْکَ اِلَیَّ الْمَصِیْرُo ’’میرا شکر کرو اور اپنے والدین کا شکر بھی بجا لائو، میری ہی طرف تمہیں پلٹ کر آنا ہے.‘‘ (لقمان: ۱۴)
مگر شرک میں ان کی اطاعت ممنوع ہے کیونکہ 
لَاطَاعَۃَ لِمَخْلُوْقِ فِیْ مَعْصِیَۃِ اَلْخَالِقِ
"خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی کوئی اطاعت نہیں" رہا معروف کے ساتھ پیش آنے کا معاملہ تو اس سے کوئی چھٹکارا نہیں ہے اور اس سے جان چھڑانے کے لیے کوئی عذر نہیں ہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے رشتہ داروں کے ساتھ صلۂ رحمی کا حکم دیا ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اس خدا سے ڈرو، جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو، اور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کررہا ہے.‘‘ (النساء: ۱)
👈 انحطاط کے دَور میں مسلمان جن بُری عادات کے شکار ہوئے اور اب تک چلے آرہے ہیں ان میں سے چند عادات یہ ہیں:
۱۔ انہوں نے ایسے فرائضِ کفایہ کو بڑی حد تک چھوڑ دیا ہے جن  تعلق بحیثیت مجموعی پوری اُمت کے ساتھ تھا، مثلاً سائنسی، صنعتی اور عسکری برتری، جو اُمت کو اپنے اختیارات کا مالک بناتی ہے اور اسے (صرف دعوے اور قول کی حد تک نہیں بلکہ) حقیقی معنوں میں دنیا کی قیادت دلاتی ہے۔ یا مثلاً فقہی مسائل میں اجتہاد اوراحکامِ شریعت کا استنباط، دعوتِ اسلامی کی نشرواشاعت، شوریٰ کے حکمِ ربانی کو بیعت اور آزادانہ اختیارات کی بنیاد پر قائم کرنا، ظالم اور دین سے منحرف (بلکہ دین دشمن) حکمران کے خلاف جدوجہد کرنا وغیرہ۔
۲۔ انہوں نے بعض ایسے امور کو بھی چھوڑ دیا ہے جو فرضِ عین کے درجے میں ہیں، یا اگر چھوڑا نہیں توکم ازکم یہ ہے کہ انہیں وہ مقام نہیں دیا جو ان کو دینا چاہیے تھا۔ جیسے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ، جسے قرآن نے اہلِ ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے نماز اور زکوٰۃ سے بھی زیادہ اہمیت دی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: 
’’مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں.‘‘ (التوبۃ: ۷۱)
اس فریضے کو اُمت مسلمہ کے بہترین اُمت ہونے کا سب سے پہلا سبب قرار دیا گیا ہے: *’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت اور اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو.‘‘ (آل عمران: ۱۱۰)
اس فریضہ کے ترک کو، بنی اسرائیل کے لیے ان کے نبیوں کی زبان سے لعنت کیے جانے کا سبب بتایا گیا ہے:
’’بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی، ان پر داؤدؑ اور عیسیٰؑ بن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی، کیوں کہ وہ سرکش ہوگئے تھے اور زیادتیاں کرنے لگے تھے۔ انہوں نے ایک دوسرے کو بُرے افعال کے ارتکاب سے روکنا چھوڑ دیا تھا۔ بُرا طرزِ عمل تھا جو انہوں نے اپنایا.‘‘ (المائدہ: ۷۹)
۳۔ بعض ارکان کو بعض دوسرے ارکان پرزیادہ اہمیت دی ہے۔ مثلاً نماز کے مقابلے میں روزے کو زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رمضان میں دن کے وقت مسلمان مرد یا عورت بہت کم کھانا کھاتے ہوئے نظر آتے ہیں، خاص طور پردیہاتی علاقوں میں۔ لیکن بہت سے مسلمان، خصوصاً خواتین، نماز میں غفلت کامظاہرہ کرتی ہیں۔ ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جنہوں نے عمر بھر میں ایک مرتبہ بھی اللہ کے سامنے رکوع اور سجدہ کرنے کی زحمت نہیں کی ہوگی۔ اسی طرح بعض لوگ پائے جاتے ہیں جو نماز کا تو بہت اہتمام کرتے ہیں مگر زکوٰۃ کے معاملے میں کوتاہی کرتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ۲۸ مقامات پر ان دونوں کا ایک ساتھ ذکر کیا ہے۔ یہاں تک کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ ’’ہمیں نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کا حکم دیا گیا ہے اور جو شخص زکوٰۃ نہیں دیتا اس کی نماز، نماز ہی نہیں ہے.‘‘ (المجمع ۳:۶۲۔ طبرانی، الکبیر)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی فرمایا تھا: ’’خدا کی قسم! میں ان لوگوں کے خلاف ضرور لڑوں گا جو نماز اور زکوٰۃ کے درمیان فرق روا رکھتے ہیں.‘‘ (متفق علیہ)
صحابہ کرامؓ مانعینِ زکوٰۃ کے خلاف جہاد پر اسی طرح متفق ہوگئے تھے جس طرح کہ وہ نبوت کے جھوٹے دعوے داروں اور ان کی پیروی کرنے والے مرتدین کے خلاف متفق تھے۔ اس طرح گویا اسلامی حکومت روئے زمین پر وہ پہلی حکومت تھی جس نے غریبوں کے حقوق کی جنگ لڑی۔
۴۔ بعض نوافل کا اتنا اہتمام کیا جاتا ہے جتنا فرائض اور واجبات کا نہیں کیاجاتا۔ اور یہ بات بہت سے دین دار لوگوں میں دیکھی جاسکتی ہے جو ذکر و اذکار اور تسبیحات و اوراد کا بے حد اہتمام کرتے ہیں۔ مگر ان کے ہاں بعض فرائض کے بارے میں یہ اہتمام دیکھنے میں نہیں آتا، خصوصاً معاشرتی فرائض۔ جیسے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک، رشتہ داروں کے ساتھ صلۂ رحمی، پڑوسی کے ساتھ احسان، کمزوروںپر رحم کرنا، یتیموں اور مسکینوں کا خیال رکھنا، منکَر کو روکنا اور اجتماعی و سیاسی ظلم و جبر کے خلاف جدوجہد کرنا۔
۵۔ بعض اوقات انفرادی عبادات،  جیسے جہاد، علم وتحقیق، اصلاح بین الناس، نیکی اور بھلائی کے کاموںمیںتعاون، صبر اور رحم کی تلقین، عدل و انصاف اور شوریٰ کے قیام کی دعوت، عمومی انسانی حقوق کی پاسداری اور خاص طور پر کمزور انسانوں کا خیال رکھنا۔
٦۔ بہت سے لوگ فروعی اعمال کی طرف حد سے زیادہ توجہ دیتے ہیں اور اصول کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ حالانکہ کسی بزرگ کا قول ہے کہ:
مَنْ ضَیَّعَ الْأُصُوْلَ حُرِمَ الْوُصُوُل
(یعنی جس نے بنیاد کو چھوڑ دیا وہ منزل پر نہیں پہنچ سکتا) انہوں نے پوری عمارت کی بنیاد، یعنی عقیدۂ توحید، ایمان باللہ اوراخلاص فی الدین سے غفلت برتی ہوتی ہے۔
۷۔ اسی طرح کے مسائل میں، جن کے درمیان توازن میں خلل پیدا ہوا ہے، ایک بات یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگ مکروہات اور مشتبہ  امور کے خلاف برسرپیکار ہیں مگر انہوں نے کھلی حرام اشیا کے بارے میں اتنی سرگرمی نہیں دکھائی۔ نہ ان واجبات کو قائم کرنے کا کوئی خاص اہتمام کیا ہے جنہیں لوگوںنے چھوڑ کر ضائع کر دیا ہے۔ اسی طرح کا معاملہ یہ بھی ہے کہ بعض لوگ اُن امور پراپنی زیادہ قوتیں صَرف کرتے ہیں جن کی حلت و حرمت میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ جبکہ ان چیزوں کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتے جن کی حرمت قطعی اور یقینی ہے۔ دوسری طرف کچھ لوگ ایسے ہیں جو اسی طرح کے اختلافی مسائل کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں اور انہوں نے اسے زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیا ہے، جیسے تصویر، موسیقی، چہرے کا پردہ اور اس طرح کے دوسرے مسائل۔ گویا کہ ان کا بھی اس کے علاوہ کوئی کام نہیں ہے کہ وہ ان مسائل کے گرد اختلافی جنگ کی بھڑکائی ہوئی آگ کو ایندھن فراہم کریں اور لوگوں کو زبردستی اپنی بات ماننے پر مجبور کریں۔ حالانکہ وہ بڑی اور فیصلہ کن لڑائیوں سے غافل ہیں جن کا تعلق اُمت کے وجود، اس کے انجام، اور دنیا کے نقشے پر اس کی بقا سے ہے۔
اسی طرح کے مسائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بعض لوگ صغائر (چھوٹے گناہ اور چھوٹی خرابیاں) کو ختم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں مگر ہلاکت میں ڈالنے والے کبیرہ گناہوں سے غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں، خواہ وہ دینی لحاظ سے ہلاکت میں ڈالنے والے ہوں (وہ اعمال جن کے سبب عقیدۂ توحید کی شفافیت مکدّر ہو جاتی ہے) یا معاشرتی اور سیاسی طور پر ہلاکت سے دوچار کرنے والے ہوں جیسے (شوریٰ اور عدلِ اجتماعی کا ضائع ہونا، آزادی، انسانی حقوق، احترامِ آدمیت کا نہ ہونا، معاملات کو غیر اہل لوگوں کے سپرد کرنا، انتخابات میں دھاندلی کرنا، قومی دولت لوٹنا، نسلی اور طبقاتی امتیازات کو رواج دینا اور عیش و عشرت کی فراوانی)
٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠🔍٠٠٠🎯٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠
👈 یہ ایک بہت بڑی بیماری ہے جو ترجیحات اور ان کے معیارات کے بارے میں ہماری اُمت کو لاحق ہو چکی ہے۔ بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ
👈 بڑے کو چھوٹا بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور چھوٹے کو بڑا۔
👈 یہ ایک بے حقیقت چیز کو پہاڑ بنا لیا جاتا ہے اور ایک اہم تر معاملے کو بالکل نظرانداز کردیا جاتا ہے۔
👈 پہلے کو آخر پر رکھا جاتا ہے اور آخری کو پہلے لایا جاتا ہے۔
👈 فرضوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور نوافل کی پابندی کی جاتی ہے۔
👈 صغائر کے بارے میں فکرمندی کا اظہار ہوتا ہے اور کبائر کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔
👈 اختلافی مسائل کے لیے میدانِ جنگ گرم کیا جاتا ہے اور متفقہ احکام ضائع ہوتے رہتے ہیں۔

.٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠👇🎯👇٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠٠
یہ ساری باتیں آج کے دَور میں اُمت مسلمہ کو اس ضرورت کا احساس دلاتی ہیں (بلکہ شدت کے ساتھ اس بات کا محتاج بناتی ہے) کہ وہ ترجیحات کے مسئلے کو سمجھے۔ وہ اس کی روشنی میں اپنے طریق کار کا نئے سرے سے جائزہ لے، اس کے بارے میں گفت و شنید کرے، افہام و تفہیم سے کام لے اور ہر ایک کو اپنی بات سامنے رکھنے دے۔ اس کے نتیجے میں ذہنوں اور دلوں کو اطمینان نصیب ہوگا، بصیرت کو روشنی ملے گی اور اس کے بعد اُمت کے ارادے اور عزائم عملِ خیر اور خیرالعمل کی طرف متوجہ ہوں گے- (S_A_Sagar#)
https://saagartimes.blogspot.com/2022/09/blog-post_31.html


پیشگی رقم دیکر سستا موبائل ریچارج کراونا

پیشگی رقم دیکر سستا موبائل ریچارج کراونا
-------------------------------
--------------------------------
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں
ایک کمپنی موبائل کا جو ماہانہ ریچارج ڈیڑھ سو روپے کا کرتی ہے وہی ریچارج زید (جس کا کمپنی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی کمپنی سے اس کو کوئی رعایت یا بونس مل رہا ہے)  سو روپے کا کرتا ہے اس شرط پر کہ عمر، بکر اس کو ایک سال کی یا چھ ماہ کی رقم پیشگی ادا کردیں، بایں طور کہ ماہانہ ریچارج کرکے وہ ما بقایا پانچ ماہ یا گیارہ ماہ کی رقم کو دوسرے کاروبار میں لگاکر اس سے نفع حاصل کرتا ہے اور وہ اس سے اتنا نفع حاصل کرلیتا ہے کہ اس نفع سے عمر، بکر  کے ریچارج کی بھی تکمیل کردیتا ہے اور کچھ نفع خود زید  اپنے لئے بھی بچالیتا ہے، حالانکہ کسٹمر (عمر، بکر) کو اس بات سے کوئی مطلب نہیں کہ ان کا پیسہ کسی کاروبار میں لگایا گیا ہے یا نفع نقصان ہورہا ہے وغیرہ وغیرہ، بلکہ ان کو صرف اتنی خبر ہے کہ جو ریچارج کمپنی ڈیڑھ سو میں کرتی ہے وہ زید سو روپے میں کررہا ہے اب وہ اس پیسے کو کہاں لگارہا ہے، کیسے استعمال کر رہا ہے، کس کاروبار میں لگا رہا ہے اس کا کسٹمر سے کوئی لینا دینا نہیں ہے.
اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا عمر، بکر کے لئے اس طرح سے پیشگی رقم ادا کرکے ریچارج کروانا درست ہے یا نہیں؟ کیونکہ جس طرح سے یہاں پیشگی رقم حاصل کرکے متعین نفع (آفر کی شکل میں بتاکر) پہلے ہی بتایا جارہا ہے تو کہیں یہ سود کے زمرے میں تو نہیں آتا؟ کیوں کہ زید کمپنی سے تو ریچارج خود بھی ڈیڑھ سو میں ہی خرید رہا ہے البتہ عمر، بکر کی ششماہی یا سالانہ رقم کو  حاصل کرکے دوسری جگہ لگاکر اس سے منافع حاصل کررہا ہے اور ان کو سو روپے میں دے رہا ہے. قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل جواب عنایت فرما کر ممنون و مشکور ہوں فقط والسلام
الجواب وباللہ التوفیق:
زید کمپنی سے یک مشت متعینہ مبلغ ریچارج کرواکر اس پہ قبضہ کرکے مالک بن جاتا ہے. پھر وہ مختلف موقع سے گراہک کو ریچارج کرتا ہے. اب موبائل کمپنی جس ریچارج کو ڈیڑھ سو میں کرتی ہے وہی ریچارج زید اگر ایک مشت ویکبارگی پانچ چھ ماہ کے ریچارج کروانے کے باعث اپنے جمع شدہ اور خرید کردہ کریڈٹ سے پچاس روپے کمی کے ساتھ سو روپے میں کرتا ہے تو یہ بائع (زید) کی طرف سے حطّ واسقاط ثمن کی شکل ہے، اور یہ حق بائع کے شرعی طور پہ ثابت ہے:
(الْمَادَّةُ ٣٥٦) حَطُّ الْبَائِعِ مِقْدَارًا مِنْ الثَّمَنِ الْمُسَمَّى بَعْدَ الْعَقْدِ صَحِيحٌ وَمُعْتَبَرٌ مَثَلًا لَوْ بِيعَ مَالٌ بِمِائَةِ قِرْشٍ ثُمَّ قَالَ الْبَائِعُ بَعْدَ الْعَقْدِ حَطَطْت مِنْ الثَّمَنِ عِشْرِينَ قِرْشًا كَانَ لِلْبَائِعِ أَنْ يَأْخُذَ مُقَابِلَ ذَلِكَ ثَمَانِينَ قِرْشًا فَقَطْ إنَّ هِبَةَ الْبَائِعِ مِقْدَارًا مِنْ الثَّمَنِ الْمُسَمَّى لِلْمُشْتَرِي أَوْ حَطَّهُ مِقْدَارًا مِنْهُ عَنْهُ أَوْ إبْرَاءَهُ مِنْ بَعْضِهِ بَعْدَ الْعَقْدِ صَحِيحٌ وَمُعْتَبَرٌ سَوَاءٌ أَكَانَ الْمَبِيعُ قَائِمًا أَمْ هَالِكًا حَقِيقَةً أَمْ حُكْمًا وَسَوَاءٌ أَكَانَ الْبَائِعُ قَدْ قَبَضَ الثَّمَنَ أَمْ لَمْ يَقْبِضْهُ وَلَا يُشْتَرَطُ فِي هَذَا الْحَطِّ قَبُولُ الْمُشْتَرِي لِأَنَّ الْحَطَّ إبْرَاءٌ وَالْإِبْرَاءُ لَا يَتَوَقَّفُ عَلَى الْقَبُولِ حَسَبَ الْمَادَّةِ (٥٦٨ ١) إلَّا أَنَّهُ يُصْبِحُ مَرْدُودًا بِالرَّدِّ (ابْنُ عَابِدِينَ عَلَى الْبَحْرِ) فَذَلِكَ إذَا أَبْرَأَ الْبَائِعُ الْمُشْتَرِي مِنْ بَعْضِ الثَّمَنِ قَبْلَ قَبْضِ الثَّمَنِ فَهُوَ صَحِيحٌ وَبَعْدَهُ لَا يَصِحُّ لَكِنْ يَجُوزُ حَطُّ( (الْمَادَّةُ ٣٥٦) حَطُّ الْبَائِعِ مِقْدَارًا مِنْ الثَّمَنِ الْمُسَمَّى بَعْدَ الْعَقْدِ صَحِيحٌ وَمُعْتَبَرٌ مَثَلًا لَوْ بِيعَ مَالٌ بِمِائَةِ قِرْشٍ ثُمَّ قَالَ الْبَائِعُ بَعْدَ الْعَقْدِ حَطَطْت مِنْ الثَّمَنِ عِشْرِينَ قِرْشًا كَانَ لِلْبَائِعِ أَنْ يَأْخُذَ مُقَابِلَ ذَلِكَ ثَمَانِينَ قِرْشًا فَقَطْ إنَّ هِبَةَ الْبَائِعِ مِقْدَارًا مِنْ الثَّمَنِ الْمُسَمَّى لِلْمُشْتَرِي أَوْ حَطَّهُ مِقْدَارًا مِنْهُ عَنْهُ أَوْ إبْرَاءَهُ مِنْ بَعْضِهِ بَعْدَ الْعَقْدِ صَحِيحٌ وَمُعْتَبَرٌ سَوَاءٌ أَكَانَ الْمَبِيعُ قَائِمًا أَمْ هَالِكًا حَقِيقَةً أَمْ حُكْمًا وَسَوَاءٌ أَكَانَ الْبَائِعُ قَدْ قَبَضَ الثَّمَنَ أَمْ لَمْ يَقْبِضْهُ وَلَا يُشْتَرَطُ فِي هَذَا الْحَطِّ قَبُولُ الْمُشْتَرِي لِأَنَّ الْحَطَّ إبْرَاءٌ وَالْإِبْرَاءُ لَا يَتَوَقَّفُ عَلَى الْقَبُولِ حَسَبَ الْمَادَّةِ (٥٦٨ ١) إلَّا أَنَّهُ يُصْبِحُ مَرْدُودًا بِالرَّدِّ (ابْنُ عَابِدِينَ عَلَى الْبَحْرِ) فَذَلِكَ إذَا أَبْرَأَ الْبَائِعُ الْمُشْتَرِي مِنْ بَعْضِ الثَّمَنِ قَبْلَ قَبْضِ الثَّمَنِ فَهُوَ صَحِيحٌ وَبَعْدَهُ لَا يَصِحُّ لَكِنْ يَجُوزُ حَطُّ بَعْضِ الثَّمَنِ بَعْدَ الْقَبْضِ (کتاب درر الحكام في شرح مجلة الأحكام
[علي حيدر] ج ١، ص ٢٤١)
اب زید کے لئے اپنی مبیع سے حاصل شدہ رقم کو کسی بھی جائز تجارت میں لگاکر منافع کمانے کا حق حاصل ہے 
واللہ اعلم 
https://saagartimes.blogspot.com/2022/09/blog-post_26.html


یوم اساتذہ ——- اور شرعی ہدایات

یوم اساتذہ ——- اور شرعی ہدایات
-------------------------------
--------------------------------
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
معزز علماءکرام ومفتیان عظام، ہرسال یوم اساتذہ (5 ستمبر) کو منایا جاتا ہے یہ دن 'ٹیچرس ڈے' سے موسوم ہے۔ ملک ہندوستان بھرمیں اس روز حکومتی وغیرحکومتی سطح پر مختلف قسم کے پروگرام منعقد ہوتے ہیں۔ میں نے اپنے اسکول میں یہ دیکھا کہ چند اساتذہ پروگرام ہال میں ایک اونچی جگہ پر ڈاکٹر رادھاکرشنن کی تصویر کو بڑے سلیقے سے رکھ کر پہلے پھول کی مالاؤں سے گھیردیا اس کے بعد ایک موم بتی جلاکے دونوں ہاتھ جوڑکر چند منٹ تصویر کے سامنے نظریں جھکائے رہے۔ پھر اساتذہ حضرات یکے بعد دیگرے اس دن کی مناسبت سے تقاریر کیں۔
سوال نمبر (1) از روئے شرع اس تقریب کی حیثیت کیا ہے؟
سوال نمبر (2) مسلم اساتذہ اس پروگرام میں کس حد تک شمولیت اختیار کرسکتے؟
سوال نمبر (3) اسی طرح مذکورہ کی شحض کی تصویر کو یوم اساتذہ کے موقع پر علم کی اہمیت جیسے الفاظ کو جوڑ کر شیئر کرنے کا کیا حکم ہے؟
مدلل جواب عنایت فرمائیں
المستفتی: محمد منصور عالم ہاشمی جنرل سکریٹری جمعیت علماء کھگڑیا
الجواب وباللہ التوفیق:
اساتذہ ومعلمین کی ہمارے مذہب میں بڑی امتیازی حیثیت اور منفرد مقام و مرتبہ ہے، ان کا اکرام وتوقیر ہر آن وہر لمحہ باضابطہ مطلوب ہے، مخصوص زمان ومکان یا تاریخ و ہفتہ کے ساتھ اس کی تحدید اصل میں "مقام اساتذہ" کی تنقیص وتقلیل شان ہے. نسل نو کی تعمیر کے لئے خود کو مٹانے اور اپنی راحت وآرام تج دینے والے ان محسنوں اور بزرگوں کے تئیں عزت و احترام کے جذبات متعلمین کے رگ وپے میں ہمہ وقت موجزن ہوتے ہیں، ان معماران  قوم کی انتھک محنت وجاں فشانی  اور ان کی خدمات وقربانیوں کے اعتراف میں نیک جذبات وخواہشات کا اظہار یا ہدایا کی پیشی میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، اس اظہارِفرح وسرور کے لئے مسلمانوں کا اپنی طرف سے کوئی مخصوص دن متعین کرنا اور اس میں عید کی طرح خوشیوں اور تہنئات کا تبادلہ کرنا درست نہیں ہے کہ یہ سب ایجاد بندہ کے قبیل سے ہے، شریعت اسلامیہ کا دامن اس سے یکسر بَری ہے. مومن اور اللہ کے نیک بندوں کی یہ شان نہیں ہے کہ غیرشرعی محافل میں شریک کار اور حاضر باش بنیں: 
(لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ) [الفرقان: 72]
پانچ ستمبر کو ہمارے ملک میں "یوم اساتذہ" کے نام سے جو دن منایا جاتا ہے یہ دراصل غیرمسلموں، غیرمسلم ریاست کی ایجاد ہے. ملک کے ایک ممتاز فلاسفر، ماہر تعلیم اور صدرجمہوریہ کے یوم ولادت سے اس کا شجرہ نسب جا ملتا ہے. بدقسمتی سے قومی اور نجی تعلیمی اداروں میں اس کا شیوع و عموم اس قدر بڑھا کہ اب یہ کسی مخصوص مذہب یا معاشرے کا شعار باقی نہیں رہا  بلا امتیاز مذہب وملت اکثر لوگ ہی اس میں خواہی نخواہی شریک ہورہے ہیں. آپ نے جو شکل بتائی ہے، اس کیفیت وہیئت کے ساتھ ایسی کسی تقریب میں شرکت، بدعتی بلکہ شرکیہ عمل ہے جوکہ لازمی قابل اجتناب ہے، اسلام حقائق ،واقعات اور سچائی پہ مبنی صاف ستھری تعلیمات وہدایات کا نام ہے، اس میں توہمات ودیومالائی کہانیوں اور داستانوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ علم، اللہ تعالی کی صفت ہے، وہی جسے چاہے اور جتنا چاہے علم عطا کرتا ہے، یوم اساتذہ کے موقع سے کسی مخصوص طریقے سے شمع روشن کرنا تواہم پرستی، دیومالائی طاقتوں اور دیوی دیوتاؤں کو خوش کرنے جیسے شرکیہ عقیدے پر مبنی رسم ہے، ایک خاص مذہب کے لوگوں کا یہ نجی معاملہ ہے، وہ اسے انجام دیں تو یہ ان کا اندرون خانہ نجی معاملہ ہے، ہمیں کسی مذہب کے عمل، طریقہ اور رواج کی تحقیر وتضحیک کی اجازت نہیں ہے 
(كل حزب بما لديهم فرحون … الروم 32)؛ 
لیکن مخصوص سوچ وفکر کے ساتھ ایسا کرنا اسلام کی بنیادی تعلیم "توحید" کے منافی ہونے اور تشبہ بالکفار کی وجہ سے ناجائز ہے، مسلمانوں کے لئے اس کی گنجائش نہیں ہے، بلاضرورت ذی روح کی تصویر کشی و تصویر سازی اسلام میں  حرام ہے، اس پہ سخت ترین وعید آئی ہے۔ غیرشرعی امور اور اس موقع سے روا رکھے جانے والے افراط وتفریط سے اجتناب کی شرط کے ساتھ، سیدھے سادے انداز میں اکرام معلم، تقدیم ہدایا اور اظہار فرح وانبساط کی حد تک شرکت میں مضائقہ نہیں، جہاں اس طرح کی مجالس کے انعقاد میں جبر نہ ہو وہاں ایسی مجالس منعقد نہ کرنا ہی اولی ہے. کسی قومی یا سیاسی وتعلیمی رہنما کی تصویر کے سامنے شمع جلاکر پورے اجلال وتعظیم کے ساتھ قائم ایسی کسی مجلس میں شرکت شریعت اسلامیہ کی روح توحید کے یکسر مغائر ہے، اگر کوئی مسلمان تصویر کے سامنے شمع جلانے اور صاحب تصویر کی تعظیم وتوقیر والی نوعیت میں کہیں گرفتار یا مبتلا ہوجائے تو موقع اور حالات کے لحاظ سے اپنے لئے کوئی پہلو یا حکمت عملی اختیار کرلے: 
تقدیر کے پابند نباتات وجمادات
مومن فقط احکام الہی کا ہے پابند  
واللہ اعلم 
٧ / صفر المظفر ١٤٤٤ھ
5 ستمبر 2022ء
بروز پیر (S_A_Sagar#)
https://saagartimes.blogspot.com/2022/09/blog-post_6.html

Sunday, 4 September 2022

درود پاک کے کلمات اور فضائل

درود پاک کے کلمات اور فضائل 
سوال: درود شریف کی اقسام اور درود شریف پڑھنے کے فضائل میں جاننا چاہتا تھا. درود شریف کی صحیح اقسام اور تعداد کتنی ہیں؟ اور درود شریف پڑھنے کے فضائل؟ 
جواب: درود پاک کی اہمیت اور قرآنِ مجید میں اس کا حکم:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پاک پڑھنے کا حکم قرآن کریم میں دیا گیا ہے، سورہ احزاب میں اللہ تعالیٰ نے صلوٰۃ  کی نسبت اولاً اپنی طرف فرمائی ہے، اس کے بعد اپنی نورانی مخلوق فرشتوں کی طرف، پھر اہلِ ایمان کو حکم فرمایا کہ اے مؤمنو! تم بھی درود بھیجو، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{إِنَّ اللّٰهَ وَمَلَائِکَتَه یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّ  یَٰأَیُّهَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا}
ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے رحمت بھیجتے ہیں ان پیغمبر پر،اے ایمان والو تم بھی آپ پر رحمت بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو۔ (بیان القرآن)
حدیث شریف میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نے عرض کیا: یارسول اللہ! سلام کاطریقہ تو ہمیں معلوم ہوچکا یعنی التحیات میں جو پڑھتے ہیں: ’’السلام علیك أیها النبي ورحمة اللّٰه وبرکاته‘‘ صلوٰۃ کا طریقہ بھی ارشاد فرمادیجئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درودِ ابرہیمی سکھلایا، یعنی 
’’أللّٰهم صل علٰی محمد وعلٰی أٰل محمد کما صلیت علٰی إبراهیم وعلٰی أٰل إبراہیم إنك حمید مجید أللّٰهم بارك علٰی محمد و علی أٰل محمد کما بارکت علٰی إبراهیم وعلٰی أٰل إبراهیم إنك حمید مجید‘‘.
درود پاک پڑھنا مسلمان پر حق ہے:
دروردِپاک پڑھنا اہل ایمان پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حق ہے، چنانچہ بالغ ہونے کے بعد پوری زندگی میں کم ازکم ایک بار درود پڑھنا ہر مسلمان پر فرض ہے اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں۔ (قرطبی، ص: ۲۳۲) نیز کسی مجلس میں جب ایک سے زیادہ بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہو تو کم ازکم ایک بار درود پڑھنا واجب ہے اور  ہر بار درود پڑھنا افضل اور بہتر ہے۔ (ردالمحتار، ج: ۱، ص: ۵۱۶)
درود شریف کے کلمات:
درود شریف کے بہت سے صیغے اورطریقے منقول ہیں،  علماء نے اس موضوع پر مستقل کتب لکھی ہیں، البتہ یہ ضروری نہیں کہ وہ  تمام کلمات آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بعینہٖ منقول ہوں، بلکہ کسی بھی درست مفہوم پر مشتمل کلمات سے درود پڑھ سکتے ہیں اور اس سے حکم کی تعمیل اور درودوسلام پڑھنے کا ثواب حاصل ہوجاتا ہے، مگر ظاہر ہے کہ جو الفاظ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں وہ زیادہ بابرکت وباعث اجر ہیں۔ (معارف القرآن، ج: ۷، ص: ۲۲۳)
البتہ ان میں درودِ ابراہیمی دوسرے درودوں کی بہ نسبت افضل ترین کلمات پر مشتمل ہے، اور اس کے صیغے تمام درودوں سے زیادہ فضیلت رکھتے ہیں، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازوں کے لئے اس درورد کا انتخاب فرمایا ہے، لہذا نمازوں میں اور نماز کے باہر اس درود پاک کا وِرد زیادہ افضل ہے۔
صحیح بخاری میں حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیؒ سے نقل کیا ہے کہ حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ  سے میری ملاقات ہوئی، انہوں نے مجھ سے فرمایاکہ کیا میں تجھے ہدیہ دوں ؟ ایک دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے، ہم نے عرض کیا: یارسول اللہ! یہ توہمیں معلوم ہوگیا کہ آپ پرکن الفاظ میں سلام بھیجا کریں:
’’السلام علیك ... وبرکاته‘‘  
لیکن آپ پر درود کس طرح بھیجا کریں؟ ارشاد فرمایا کہ یوں کہاکرو: 
’’أللّٰهم صل علٰی محمد وعلٰی أٰل محمد کما صلیت علٰی إبراهیم وعلٰی أٰل إبراہیم إنك حمید مجید أللّٰهم بارك علٰی محمد و علی أٰل محمد کما بارکت علٰی إبراهیم وعلٰی أٰل إبراهیم إنك حمید مجید‘‘. (صحیح بخاری، باب الصلوٰۃ علی النبیﷺ، ج:۲)
درود شریف کے فضائل:
اللہ تعالیٰ درود پڑھنے والے کو بہت سے انعامات اورفوائد سے نوازتے ہیں اور مؤمنین کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھنے کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ بڑھاچڑھاکر اُن پررحمتیں نازل فرماتے ہیں۔ امام نسائی روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن ابی طلحہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک پر خوشی کے آثارتھے، میں نے کہا: آج ہم آپ کے چہرہ پرخوشی کے آثارمحسوس کررہے ہیں! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: میرے پاس حضرت جبرائیل  علیہ السلام تشریف لائے اور کہا: اے محمد! اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ: کیا آپ اس بات سے خوش نہیں کہ جب بھی کوئی شخص آپ پردرودبھیجے تومیں اس پر دس رحمتیں نازل کروں گا اورجب بھی کوئی شخص آپ پر سلامتی بھیجے تو میں دس سلامتی اس پر نازل کروں گا۔ (تفسیر قرطبی، ج: ۱۴، بص: ۲۳۷)
"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو آدمی مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجے گا اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔" (مشکاۃ)
"حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " جو آدمی مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجے گا اللہ تعالیٰ اس پر دس (مرتبہ) رحمتیں نازل فرمائے گا، اس کے دس گناہوں کو معاف کرے گا اور (تقرب الی اللہ کے سلسلے میں) اس کے دس درجے بلند کرے گا." (مشکاۃ)
"حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " قیامت کے دن لوگوں میں سب سے زیادہ مجھ سے قریب وہ لوگ ہوں گے جو مجھ پر اکثر درود پڑھنے والے ہیں۔" (جامع ترمذی)
"حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ کے بہت سے فرشتے جو زمین پر سیاحت کرنے والے ہیں میری امت کا سلام میرے پاس پہنچاتے ہیں۔" (مشکاۃ)
اس روایت کی تشریح میں علامہ قطب الدین خان دہلوی مظاہرحق میں لکھتے ہیں:
"اس حدیث کا تعلق ان لوگوں سے ہے جو روضہ اقدس سے دور رہتے ہیں اور انہیں روضہ مقدس پر حاضری کا شرف حاصل نہیں ہوتا، چنانچہ ایسے لوگ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قلیل یا کثیر تعداد میں سلام بھیجتے ہیں تو فرشتے ان کا سلام بارگاہ نبوت میں بصد عقیدت و احترام پیش کرتے ہیں۔ البتہ وہ حضرات جنہیں اللہ نے اپنے محبوب کے روضہ اقدس پر حاضری کی سعادت سے نواز رکھا ہے۔ جب وہ بارگاہِ نبوت میں سلام پیش کرتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچانے کے لیے فرشتوں کی ضرورت نہیں ہوتی؛ کیوں کہ روضہ اقدس پر حاضر ہونے والوں کے سلام آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود سنتے ہیں۔ اس حدیث سے چند باتوں پر روشنی پڑتی ہے۔ اول یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حیاتِ جسمانی حاصل ہے کہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دنیا میں زندگی حاصل تھی اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر میں بھی زندگی حاصل ہے۔ دوم یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لوگ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوتے ہیں جو سلام بھیجنے والے کے حق میں انتہائی سعادت و خوش بختی کی بات ہے۔ سوم یہ کہ جب فرشتے کسی امتی کا سلام بارگاہ نبوت میں پیش کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ سلام قبولیت کے درجہ کو پہنچ گیا ہے۔ اور اگلی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام بھیجے والے کے سلام کا جواب بھی دیتے ہیں، نیز ایک روایت میں مذکور ہے کہ "جب فرشتے سلام لے کر بارگاہ نبوت میں حاضر ہوتے ہیں تو سلام بھیجنے والے کا نام بھی لیتے ہیں."
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے فرمایا: جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک مرتبہ درود بھیجے گا اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس پر ستر رحمتیں بھیجیں گے۔ رواہ احمد۔ (مشکاۃ)
اس کے علاوہ اوربھی درودشریف کے بہت فضائل احادیث کی روشنی میں معلوم ہوتے ہیں، مزید تفصیل کے لئے شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ کی کتاب فضائل درود شریف ملاحظہ فرمائیں۔
درود شریف کے مختلف صیغے  پڑھنے کے لئے مختصر مجموعے بھی اکابر نے مرتب کئے ہیں، اس کے لئے ’’الحزب الاعظم‘‘  کی ساتویں منزل (بروزِجمعہ) اور ’’زادالخلیل‘‘ پڑھ سکتے ہیں۔  
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144106201217
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن (S_A_Sagar#)
https://saagartimes.blogspot.com/2022/09/blog-post_61.html