Saturday, 19 March 2022

حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ کی طرف منسوب ایک واقعے کی حقیقت



حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ کی طرف منسوب ایک واقعے کی حقیقت
---------------------------------
----------------------------------
مذہب، مسلک، رنگ، نسل زبان وتہذیب کی تفریق کے بغیر تمام ہی انسانوں کے ساتھ محبت، مودت، نرمی، مہربانی، شرافت، اخلاق وانسانیت  کے ساتھ پیش آنا، دکھ درد میں کام آنا اسلام کی تعلیم وہدایت ہے اور اس کا امتیاز بھی۔ کفار کے ساتھ  رواداری اور خیرخواہی بالکل عام بھی نہیں ہے؛ بلکہ اس کے بھی حدود و قیود ہیں۔ ان کے مذہبی ودینی امور میں اشتراک وتعاون مداہنت فی الدین اور حق پوشی پر مبنی ہونے کی وجہ سے تعلیمات اسلام کے خلاف ہے، جسے ہمارا مذہب ناجائز وحرام کہتا ہے۔ کنزالعمال میں ہے:  
من کثر سواد قوم فھو منھم، ومن رضي عمل قوم کان شریکا في عمله‘‘۔ (۹/۱۱، الرقم: ٢٤٧٣٠)
حضرات فقہاء اسلام فرماتے ہیں: 
ویکفر بخروجه إلی نیروز المجوس، والموافقة معهم فیما یفعلونه في ذلك الیوم وبشرائه یوم نیروز شیئًا لم یکن یشتریه قبل ذلك تعظیما للنیروز لا للأکل والشرب وبإهدائه ذالك الیوم للمشرکین ولو بیضة تعظیما لذلک الیوم۔ (مجمع الأنہر ۲/۵۱۳، کتاب السیر والجہاد، قبیل باب البغاۃ)
برادران وطن کے خالص مذہبی معاملات اور شعار کو اپنانا صریح "مذہبی اشتراک وتعاون" ہے، جس کی قطعی گنجائش نہیں ہے۔ شیخ الاسلام حضرت مدنی جیسی عظیم علمی واصلاحی و تجدیدی تاریخ رکھنے والی نابغہ روزگارہستی  کی طرف ایسی باتوں کا انتساب بادی النظر میں ناقابل تسلیم ہے، حضرت مدنی کی دیگر اولاد واحفاد کی طرف سے واقعے کی تصدیق سامنے آئے بغیر اس حیرت انگیز انکشاف کی کوئی وقعت نہیں، ناقابل اعتبار واعتناء ہے، مذہبی رواداری وہم آہنگی بھی تحفظ ودعوت دین کے مقصد سے ہی بطور وسیلہ گوارا کی جاتی ہے، جہاں موضوع ہی الٹ جائے، دینی حدود کے ہی قلع قمع ہوجائیں تو پھر ایسی کسی رواداری کا ہمارا مذہب روادار نہیں ہے۔ حضرت مولانا سید اسجد مدنی صاحب مدظلہ نہ جانے کن مقاصد کے تحت ایسے لاطائل اور ہیجان انگیز چیزوں کو سامنے لارہے ہیں؟ خطابات و بیانات کے لئے اور بھی بہتیرے موضوعات پڑے ہوئے ہیں، غیرمناسب وقت میں ناقابل وثوق واعتبار انکشافات قابل تحسین نہیں؛ قابل مذمت ہے، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ کے خانوادے کو معاملے کا بروقت نوٹس لینا چاہئے.
مركز البحوث الإسلامية العالمي 
شعبان ١٥، ١٤٤٣ هجرية (S_A_Sagar# )
https://saagartimes.blogspot.com/2022/03/blog-post_14.html


فقہ حنفی کسے کہتے ہیں

فقہِ حنفی کسے کہتے ہیں؟ اور اُس کا منہجِ اِستنباط کیا ہے؟؟؟

بقلم: مولانا مدثر جمال تونسوی

فقہِ حنفی سے مراد وہ مسائل ہیں جو امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کے منہجِ استنباط کے مطابق اَخذ کیے جاتے ہیں۔ اور ’’منہجِ استنباط‘‘ سے مراد وہ طریقہ ہے جس کے ذریعے اس مسلک سے وابستہ اہلِ علم نِت نئے مسائل کا شرعی حل دریافت کرتے ہیں۔ اس معنیٰ کے لیے دوسرا مشہور لفظ ’’اُصولِ اجتہاد‘‘ ہے، جس کی تفصیلات ’’علمِ اصولِ فقہ‘‘ کی کتب میں بیان کی جاتی ہیں۔ بحث آگے بڑھانے سے قبل مناسب ہے کہ اس عنوان کی تعریف ذکر کردی جائے۔ ’’مَنْہَج‘‘ کہتے ہیں ’’واضح راستے‘‘ کو، اور ’’مَنْہَج‘‘ کی جمع ’’مَنَاہِج‘‘ ہے۔ ’’استنباط‘‘ کا معنی ہے: ’’الاستخراج بفہمٍ و اجتہادٍ‘‘ یعنی سمجھ بوجھ اور کوشش کر کے کسی چیز کو نکالنا۔ فقہ میں اس کا معنی ہے: ’’استخراج المجتہد المعانيَ و الأحکامَ الشرعیۃَ من النصوص و مصادر الأدلۃ الأخرٰی‘‘ یعنی مجتہد کا الفاظ سے معانی، اور نصوص اور دیگر دلائل سے احکامِ شرعیہ حاصل کرنا۔ 
پھر ’’منہجِ استنباط‘‘ کی لقبی تعریف کی جائے تو وہ کچھ یوں بنے گی: ’’ھو علم یعرف فیہ الدلائل التي یستنبط منہا الأحکام الشرعیۃ العملیۃ۔‘‘ یعنی ایسا علم جس کے ذریعے اُن دلائل کی معرفت حاصل ہو، جن کی بنیاد پر اَحکامِ شرعیہ عملیہ کو سمجھ بوجھ اور محنت و کوشش سے معلوم کیا جاتا ہے۔ 
(۱) حنفی مذہب اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کا جامع تعارف:
حنفی مذہب کے امام، امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت  رحمۃ اللہ علیہ ہیں، جن کی ولادت کوفہ میں سن ۸۰ ہجری میں، اور وفات بغداد میں سن ۱۵۰ ہجری میں ہوئی اور اس وقت جہاں آپ کی قبر ہے، اس علاقے کو ’’اعظمیہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ آپ کے زمانے میں اہلِ سنت کے اہلِ علم دو گروہوں میں تقسیم تھے:
اہلِ حدیث: ..... اس سے مراد وہ لوگ تھے جن کی توجہ اور کاوشوں کا اصل محور احادیثِ نبویہ تھیں، اور اجتہادی مسائل کی طرف توجہ بس ضرورت کے کم سے کم درجے تک محدود تھی۔ 
اہلِ رائے:..... اس سے مراد وہ لوگ تھے جن کی توجہ اور کاوشوں کا اصل محور فقہی مسائل اور اجتہادی مباحث تھیں، اور اسی لیے یہ حضرات عموماً انہی احادیثِ نبویہ تک اپنی توجہ مبذول رکھتے تھے، جن کا تعلق مسائل و احکام سے ہوتا تھا۔ 
یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ امام فخرالاسلام علی بن محمد البزدوی الحنفی رحمۃ اللہ علیہ  (متوفیٰ: ۴۸۲ھ) کا بہترین تبصرہ نقل کردیا جائے، آپ تفقہ فی الدین کی فضیلت بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’و أصحابنا -رحمہم اللہ- ھم السابقون في ھٰذا الباب و لہم الرتبۃ العلیا و الدرجۃ القصویٰ في علم الشریعۃ و ھم الربانیون في علم الکتاب و السنۃ و ملازمۃ القدوۃ و ھم أصحاب الحدیث و المعاني۔ أما المعاني فقد سلم لہم العلماء حتی سموھم: أصحابَ الرأيِ، و الرأيُ: اسم للفقہ الذي ذکرنا۔‘‘
’’تفقہ فی الدین کے باب میں ہمارے اصحاب (حنفیہ) سب سے آگے ہیں، اور علمِ شریعت کے بارے میں اُنہی کو بلند مرتبہ اور انتہائی فضیلت حاصل ہے، کتاب وسنت کے علم اور قابلِ اقتداء لوگوں کی پیروی میں یہی علمائے ربانی ہیں اور حق یہ ہے کہ ہمارے اصحاب‘ حدیث کے بھی ماہر ہیں اور اُن کے معانی کے بھی، چنانچہ فقہِ حدیث کی مہارت کا اس سے بڑھ کر ثبوت کیا ہوگا کہ علماء نے انہی کو ’’اہل الرائے‘‘ کا لقب دیا ہے اور یہ بات ہم ذکر کرچکے ہیں کہ ’’رائے‘‘ فقہ کا ہی نام ہے۔ ‘‘
اس کے بعد چند دلائل اس بات کے بیان کیے ہیں کہ علمائے حنفیہ احادیثِ نبویہ کو بھی سب سے زیادہ مقدم رکھنے والے ہیں، چنانچہ لکھتے ہیں:
’’وھم أولیٰ بالحدیث أیضًا، ألا یری أنہم جوزوا نسخ الکتاب بالسنۃ لقوۃ منزلۃ السنۃ عندہم، و عملوا بالمراسیل تمسکًا بالسنۃ والحدیث، و رأوا العمل بہٖ مع الإرسال أولٰی من القیاس بالرأي، وقدموا روایۃ المجہول علی القیاس، و قدموا قول الصحابيؓ علی القیاس۔ ‘‘
’’ہمارے اصحاب‘ حدیث کو بھی سب سے زیادہ لینے والے ہیں، کیا دِکھتا نہیں کہ ہمارے ہاں سنت کا اتنا مضبوط درجہ ہے کہ اس کی بنیاد پر قرآنی حکم کانسخ بھی جائز رکھا گیا ہے۔ پھر ہمارے علماء مرسل احادیث کو بھی قبول کرتے ہیں، تاکہ سنت وحدیث سے تعلق مضبوط رہے، اور قیاس کے مقابلے میں حدیثِ مرسل کو زیادہ قابلِ عمل سمجھتے ہیں، اسی طرح غیرمعروف صحابیؓ کی حدیث کو بھی قیاس پر ترجیح دیتے ہیں، حتیٰ کہ صحابیؓ کے قول کو بھی قیاس پر ترجیح دیتے ہیں ۔‘‘
پھر امام محمد رحمۃ اللہ علیہ  کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’قال محمد -رحمہ اللہ تعالٰی- في کتاب ’’أدب القاضي‘‘: لا یستقیم الحدیث إلا بالرأي و لا یستقیم الرأي إلا بالحدیث، حتی أن من لا یحسن الحدیث أو أعلم الحدیث و لایحسن الرأي : قال: لایصلح للقضاء و الفتویٰ۔‘‘
’’امام محمد  رحمۃ اللہ علیہ  نے کتاب ’’أدب القاضي‘‘ میں لکھا ہے: حدیث‘ فقہ کے بغیر درست نہیں ہوسکتی اور فقہ‘ حدیث کے بغیر درست نہیں ہوسکتی، چنانچہ جو شخص حدیث بہتر نہ جانتا ہو یا فقہی اصول کا ماہر نہ ہو تو وہ قاضی بننے یا فتویٰ دینے کا صحیح اہل نہیں ہوسکتا۔‘‘ (اصول البزدوی، ص:۹۳-۹۴، بتحقیق الدکتورسائد بکداش)
امام ابوحنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  نے کسی نئے طریقے کو رائج نہیں کیا تھا، بلکہ آپ کا علمی سلسلہ سندِ متصل کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے جڑا ہوا ہے، البتہ آپؒ نے اپنے اساتذہ سے چلے آنے والے سلسلے کو زمانی وسعتوں کے پیشِ نظر اس قدر وسیع اور مضبوط بنایا کہ یہ سلسلہ آپ کی طرف ہی منسوب ہوا۔ بات آگے بڑھانے سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے متصل علمی سلسلے کا ایک اجمالی نقشہ پیش کردیا جائے: 
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے استاذ            
امام حماد بن ابوسلیمان رحمۃ اللہ علیہ (متوفیٰ: ۱۲۰ھ)
امام حماد بن ابو سلیمانؒ کے استاذ         
امام ابراہیم نخعیؒ (متوفیٰ: ۹۵ھ)
امام ابراہیم نخعیؒ کے استاذ             
امام علقمہ بن قیس نخعیؒ (متوفیٰ:۶۲ھ)
امام علقمہ بن قیس نخعیؒ کے استاذ         
حضرت عبداللہ بن مسعود صحابی رضی اللہ عنہ (متوفیٰ: ۳۲ھ)
اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، نبی کریم سرورِکونین  صلی اللہ علیہ وسلم  کے معروف صاحبِ علم اور صاحبِ فقہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں شمار ہوتے ہیں۔ اس سلسلے کے تمام افراد علم و فقہ کے مایہ ناز اور قابلِ فخر افراد ہیں، بلکہ امام شمس الدین محمد بن احمد الذہبی الشافعی رحمۃ اللہ علیہ کی تعبیر کے مطابق یہ حضرات علومِ نبویہ کے جامعین اور سرچشمے ہیں۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ  کے اصولِ اجتہاد کا بہترین خاکہ وہ ہے جو خود امام صاحبؒ سے منقول ہے اورجو دیگر متعدد کتابوں کے علاوہ خطیب بغدادی شافعیؒ نے بھی نقل کیا ہے، چنانچہ خود امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:
’’آخذ بکتاب اللہ ، فما لم أجد فبسنۃ رسول اللہ ﷺ، فإن لم أجد في کتاب اللہ و لا سنۃ رسول اللہ ﷺ أخذت بقول أصحابہ ، آخذ بقول من شئت منہم، و أدع من شئت منہم، و لا أخرج من قولہم إلٰی قول غیرہم ۔ فأما إذا انتہی الأمر إلٰی إبراہیم و الشعبي و ابن سیرین و الحسن و عطاء و سعید بن المسیب و عدد رجالا، فقوم اجتہدوا ، فأجتہد کمااجتہدوا۔‘‘
(تاریخ بغداد، ج:۱۵، ص:۵۰۴، بہٰذا اللفظ ، رواہ بسندہ عن یحیٰی بن ضریس عن سفیان الثوري عن أبي حنیفۃؒ۔ قال محقق الکتاب: د-بشار: ہٰذا خبر إسنادہ صحیح و رجالہ ثقات معروفون)
’’میں سب سے پہلے کتاب اللہ کی طرف رجوع کرتا ہوں، پھر جو بات نہ ملے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت کی طرف رجوع کرتا ہوں، پھر اگر مجھے وہ بات نہ تو کتاب اللہ میں ملے اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت میں تو میں صحابہ کرامؓ کے اقوال کی طرف رجوع کرتا ہوں، اور ان میں سے جس کے قول کو چاہتا ہوں لے لیتا ہوں اور جس کے قول کو چاہتا ہوں چھوڑ دیتا ہوں، لیکن صحابہؓ کے اقوال سے باہر نہیں نکلتا، اور پھر جب معاملہ ابراہیم نخعیؒ، شعبیؒ، ابن سیرینؒ، حسن بصریؒ، عطاء بن ابی رباحؒ، سعید بن مسیبؒ وغیرہ تک پہنچتا ہے تو یہ ایسے لوگ تھے جنہوں نے خود اجتہادات کیے، تو جس طرح انہوں نے اجتہادات کیے‘ میں بھی اجتہاد کرتا ہوں۔‘‘ اس قول کی روشنی میں امام ابو حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  کا جو منہجِ استنباط سامنے آتا ہے، وہ نمبروار یوں بنتا ہے:
۱:- قرآن کریم        
۲:- سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم 
۳:- قولِ صحابیؓ        
۴:- اجتہاد
پھر یہ جو چوتھی چیز اجتہاد ہے، اس میں درج ذیل بڑے مناہج شامل ہیں:
۱:- اجماع      
 ۲:- قیاس
۳:- اِستحسان       
 ۴:- عُرف
اس طرح گویا امام ابو حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  کے منہجِ استنباط میں کل سات چیزیں ہیں اور آپ انہی کی روشنی میں اِستنباط فرماتے ہیں۔ 
قرآن کریم اور سنتِ نبویہ کا حجت اور اصولِ اجتہاد میں سے ہونا روزِ روشن کی طرح واضح ہے۔ 
البتہ عام طور سے قولِ صحابیؓ کو اصولِ اجتہاد اور مناہجِ استنباط میں ذکر نہیں کیا جاتا تو مناسب ہے کہ اس بارے میں حنفیہ کا موقف ایک جامع حوالہ کے طور پر نقل کردیا جائے۔ 
امام ابو الثناء محمود بن زید اللامشی الحنفی الماتریدی رحمۃ اللہ علیہ (توفي في أوائل سنۃ۶۰۰ ھ) اپنی کتاب ’’کتاب في أصول الفقہ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’تقلید التابعي علی الصحابيؓ المجتہد ھل ھو واجب؟ أکثر أصحابنا قالوا: إنہ واجب، …وجہ قول العامۃ قولہ ﷺ: ’’اقتدوا باللذین من بعدي أبي بکر و عمرؓ‘‘، و الأمر للوجوب۔ و قال ﷺ: ’’إنما مثل أصحابي مثل النجوم في السماء، بأیہم اقتدیتم اھتدیتم‘‘، بین أن في الاقتداء بھم اھتداء و المعقول وھو أن اجتہاد الصحابيؓ أقرب إلی الصواب من اجتہاد التابعي لما لہم من الدرجۃ الزائدۃ علی ما قال النبي ﷺ: خیرالناس قرني الذین أنا فیہم، ثم الذین یلونہم، ثم الذین یلونہم و قال ﷺ: أنا أمان لأصحابي و أصحابي أمان لأمتي و لأن لہم زیادۃ احتیاط في ضبط الأحادیث و حفظہا و زیادۃ جد في التأمل فیہا و البحث عن معانیہاو لہم زیادۃ جہد و حرض في طلب الحق۔‘‘ (اصول الفقہ للامشی، ص: ۱۵۴-۱۵۵)
’’تابعی پر مجتہدصحابیؓ کی تقلید لازم ہے یا نہیں؟ اس بارے میں ہمارے اکثر اصحاب کا مسلک یہ ہے کہ لازم ہے۔ ہمارے اِن اکثر اصحاب کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے درج ذیل دو فرامین ہیں: ’’میرے بعد ابوبکرؓ اور عمرؓ کی اقتداء کرو۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ فرمان حکم کی شکل ہے اور حکم (امر) وجوب کے لیے ہوتا ہے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ فرمان: ’’میرے صحابہؓ کی مثال آسمان میں موجود ستاروں جیسی ہے، ان میں سے جس کی اقتداء کرو گے ہدایت پاجاؤ گے۔ ‘‘ اس فرمان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے واضح کردیا کہ صحابہ کرامؓ کی اقتداء میں ہدایت ہے۔ نیزاس مسلک کے راجح ہونے کی عقلی دلیل یہ ہے کہ: صحابیؓ کا اجتہادزیادہ درست ہوگا تابعی کے اجتہاد کے مقابلے میں۔ اور اس ترجیح کے اسباب درج ذیل ہیں: صحابہ کرامؓ کو تابعین پر فوقیت حاصل ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے: ’’بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے، پھر ان لوگوں کا جو اُن کے بعد ہوں گے اور پھر اُن کا جو اُن کے بعد ہوں گے۔‘‘ نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کایہ بھی ارشاد ہے: ’’میں اپنے صحابہؓ کے لیے امان ہوں اور میرے صحابہؓ میری امت کے لیے امان ہیں۔‘‘ 
نیزیہ بھی اسباب ہیں کہ احادیث کو ضبط کرنے، انہیں یاد رکھنے، ان میں زیادہ غور و فکر کرنے، ان کے معانی کی جستجو کرنے اور حق کی طلب میں کوشاں ہونے میں صحابہ کرامؓ کو تابعین پر فوقیت حاصل ہے۔ ‘‘
(اور یہ سب باتیں اس کا تقاضا کرتی ہیں کہ ان کا اجتہاد تابعین کے اجتہاد سے زیادہ درست ہوگا، اور جب زیادہ درست ہوگا تو تابعین پر لازم ہوگا کہ وہ اقوالِ صحابہؓ کو حجت بنائیں۔ [مدثر])
حضرات صحابہ کرامؓ کے فتاویٰ کو فقہ حنفی میں جو اہمیت ہے وہ فقہ حنفی کے ماہرین سے مخفی نہیں، چنانچہ فقہ حنفی کے ایسے درجنوں مسائل ہیں جن کی بنیاد کسی نص پر نہیں، بلکہ اقوال و اجتہاداتِ صحابہؓ پر ہے، اور اس میں حنفیہ اکیلے نہیں ہیں، بلکہ دیگر مذاہب میں بھی یہ روایت موجود ہے، مگر فقہ حنفی میں اس کو جو اہم مقام حاصل ہے، اس کی نسبت دیگر مذاہب میں وہ اہمیت نظر نہیں آتی۔ ’’مصنف ابن أبي شیبۃ‘‘، اور ’’کتاب الآثار‘‘ میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ 
استحسان:
استحسان در حقیقت قیاس کا ہی ایک شعبہ ہے، اسی لیے اکثر علمائے اصول نے اسے الگ سے منہجِ استدلال اور اصل کے طور پر نہیں لیا،بلکہ اس کی مباحث کو قیاس کی مباحث کے ضمن میں ہی ذکر کیا ہے، چنانچہ امام فخر الاسلام بزدوی  رحمۃ اللہ علیہ  نے ان دونوں کو ایک ہی باب میں جمع کردیا ہے اور عنوان قائم کیا ہے: ’’باب القیاس و الاستحسان‘‘ اور پھر اس میں استحسان کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’إنما الاستحسان عندنا: أحد القیاسین، لکنہ سمي استحسانا، إشارۃ إلی أنہ الوجہ الأولٰی في العمل بہ، و أن العمل بالآخر جائز۔‘‘     (اصول البزدوی: ۶۱۱)
’’ہمارے نزدیک استحسان قیاس کی دو شکلوں میں سے ایک شکل کا نام ہے، اور اس کا نام استحسان اس لیے رکھا، تاکہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہوجائے کہ اُس قیاس پر عمل کرنا زیادہ بہتر ہے، اگرچہ دوسرے قیاس پر عمل کرنا فی نفسہ جائز ہوتا ہے۔‘‘
الغرض یہاں استحسان کی مباحث ذکر کرنا مقصود نہیں، بلکہ فقط اتنا دکھانا تھا کہ استحسان بھی مذہبِ حنفی کے مناہجِ استدلال میں شامل ہے۔ 
امام ابوحنیفہؒ پر قلتِ حدیث کا اعتراض اور اس کا جواب:
امام صاحبؒ کے مناہجِ استنباط دیکھنے سے واضح ہوا کہ امام صاحبؒ پر یا حنفیہ پرقلتِ حدیث یا مخالفتِ حدیث کا جو الزام عائد کیا جاتا ہے، وہ حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ درج ذیل چند نکات سے صحیح صورت حال کا اندازہ کیا جاسکتا ہے:
۱:- امام صاحبؒ اپنے منہجِ استنباط میںقرآن کریم کے بعد دوسرا درجہ سنتِ نبویہ کو دیتے ہیں۔ اس سے واضح ہے کہ ان پر مخالفتِ حدیث کا الزام بھی حقیقت سے تعلق نہیں رکھتا اور یہ کہنا کہ ’’وہ قلیل الحدیث تھے‘‘ یہ بھی درست نہیں، کیوں کہ اجتہاد کی اساسیات میں جب دوسرا درجہ ہی سنتِ نبویہ کا ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک شخص حد درجہ قلیل الحدیث ہو اور پھر وہ بالاتفاق امام المجتہدین بھی ہو۔ !!
۲:- امام ابو حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  سے منقول احادیث اور مسانید کے مختلف مجموعے بھی اس بات کا ثبوت ہیں کہ ان پر قلتِ حدیث کا جو الزام عائد کیا جاتا ہے، وہ درست نہیں ہے، چنانچہ امام خوارزمی رحمۃ اللہ علیہ  نے ’’جامع المسانید‘‘ کے نام سے تقریباً پندرہ مسانید جمع کی ہیں، جو سب کی سب امام صاحبؒ کی احادیث پر مشتمل ہیں۔ 
۳:- امام ابو حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  نے ’’حدیثِ مرسل‘‘ کو بھی حجت تسلیم کیا ہے، جب کہ بعد کے بہت سے اہلِ علم نے ’’حدیثِ مرسل‘‘ کو حجت تسلیم نہیں کیا۔ (المدخل لشلبی: ص ۱۷۵)
۴:- حدیثِ ضعیف کو قیاس پر ترجیح دینا، چنانچہ فقہ حنفی میں ایسے متعدد مسائل موجود ہیں، جن میں قیاس کو ترک کرکے حدیثِ ضعیف پر عمل کیا گیا ہے، مثلاً نمازی کے قہقہے سے نماز ٹوٹ جانے کا مسئلہ ایسا ہے کہ قیاس کے برخلاف اس مسئلے کی بنیاد حدیثِ ضعیف پر رکھی گئی ہے۔ 
امام صاحبؒ کی روایات کم کیوں ہیں؟
اس کے دو سبب ہیں:
۱:-امام صاحبؒ کا روایتِ حدیث پر کم توجہ دینا، بلکہ درایتِ حدیث پر توجہ مرکوز رکھنا، جس کا منشا اس حدیث سے مستنبط ہوتا ہے:
’’مَنْ یُّرِدِ اللہُ بِہٖ خَیْرًا یُّفَقِّھْہُ فِیْ الدِّیْنِ۔‘‘                    
(متفق علیہ عن سیدنا معاویہؓ)
’’اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ بھلائی کا اِرادہ کرتے ہیں تو اُسے دین کی سمجھ بوجھ عطاء کرتے ہیں۔ ‘‘
۲:- روایتِ حدیث کے لیے سخت شرائط کو ملحوظ رکھنا اور اس کا منشا اس حدیث سے مستنبط ہوتا ہے:
’’من کذب علي متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار۔‘‘     
(متفق علیہ عن سیدنا ابی ہریرہؓ)
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا :جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولے تو وہ جہنم میں اپنا ٹھکانہ پکا کر لے۔ ‘‘
چنانچہ علامہ ابن خلدونؒ فرماتے ہیں:
’’والإمام أبوحنیفۃؒ إنما قلّت روایتہ للحدیث، لما شدّد في شروط الروایۃ والتحمل۔‘‘                                        
(مقدمہ ابن خلدون، ج:۲، ص:۱۲۹)
’’امام ابو حنیفہ  رحمۃ اللہ علیہ  کی روایاتِ حدیث کم اس لیے ہیں کہ ان کے ہاں احادیث‘ روایت کرنے اور انہیں حاصل کرنے کی شرائط بہت سخت تھیں۔‘‘
فقہِ حنفی کی قبولیت و ترویج کا سبب: اجتہاد و استنباط پر کامل توجہ
اگرچہ اہلِ علم نے اس کے مختلف اسباب بیان کیے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کا بنیادی سبب ایک ہے اور وہ ہے: ’’اجتہاد و استنباط پر کامل توجہ‘‘
اس کی کچھ تفصیل یہ ہے کہ انسانی زندگی سے متعلق شرعی احکامات کو درج ذیل اہم شعبوں میں تقسیم کیا جاتا ہے:
1. عبادات        
2. معاملات        
3. اخلاقیات
اب عبادات کو دیکھیں تو ان میں جدید مسائل پیدا ہونے کا کچھ خاص مطلب نہیں، اسی طرح اخلاقیات کا معاملہ ہے، یعنی اخلاقیات بگڑنے کی تو مختلف شکلیں اور اسباب ہوسکتے ہیں، مگر خود عمدہ اخلاقیات جن سے اپنے ظاہرو باطن کو آراستہ کرنا مطلوب ہے تو ان میں بھی نت نئے اخلاق کا پیدا ہونا کوئی خاص واقعہ نہیں ہے، جب کہ اس کے برعکس معاملاتِ زندگی ایسے ہیں جن میں شب و روز نئی نئی صورتیں پیدا ہوتی رہتی ہیں اور یہ سلسلہ قیامت تک چلتا رہے گا۔ 
اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ انسانی زندگی میں اعمال کا جو وسیع ترین دائرہ ہے، وہ ’’معاملات‘‘ ہیں۔ عبادات کا دائرہ بھی محدود ہے اور اخلاقیات کا دائرہ بھی محدود ہے، جب کہ معاملات کا دائرہ کار ان سب سے وسیع ہے اور اس باب میں شریعت کا طرز یہ ہے کہ جو معاملہ جس قدر وسیع اور لامحدود ہے شریعت نے اس کے بارے میں زیادہ تر اصول وکلیات بارے رہنمائی کی ہے اور جزئیات سے کم ہی تعرض کیا ہے۔
دوسری طرف یہ بھی طے شدہ بات ہے کہ حالاتِ زمانہ اور افرادِ زمانہ میں جس قدر تغیر آتا ہے، اسی قدر احکام میں بھی تغیر آتا ہے، جب کہ عبادات و اخلاقیات میں یہ صورت حال نہیں ہے، اس لیے قدرتی بات ہے کہ جو مذہب زیادہ سے زیادہ نصوص تک خود کو محدود رکھے گا، وہ عبادات و اخلاقیات میں تو بہتر رہنمائی کرسکے گا، مگر معاملاتِ زندگی میں اس کا عمل دخل کم سے کم تر ہو جائے گا، اور جو مذہب نصوصِ قرآن وسنت اور اقوالِ صحابہؓ کی روشنی میں اجتہاد و استنباط پر توجہ مرکوز رکھے گا تو یقیناً وہ معاملاتِ زندگی کے نت نئے احکامات بارے زیادہ رہنمائی فراہم کرسکے گا، چنانچہ فقہائے حنفیہ نے اجتہاد و استنباط پر توجہ مرکوز ر کھ کر معاملاتِ زندگی بارے شرعی حل سب سے زیادہ پیش کیا ہے اور یہی چیز سبب بنی اس بات کا کہ فقہِ حنفی نے مسلم معاشرے میں عبادات و اخلاقیات سے لے کر سیاست و معیشت تک اپنی جڑیں سب سے زیادہ مضبوط کیں اور اسی لیے ہر اسلامی دورِ حکومت میں عبادات کے احکامات کے علاوہ سیاسی، معاشی اور عدلیہ کے احکامات میں سب سے زیادہ رہنمائی فقہِ حنفی سے لی گئی ہے اور دیگر مذاہب کے معتبر اہلِ علم نے اس حقیقت کو ہر زمانے میں تسلیم کیا ہے۔ 
دیگر دو باتیں بھی اس سلسلے میں اہم ہیں:
۱:- امام صاحبؒ کا صاحبِ تجارت ہونا: چونکہ امام صاحبؒ خود تجارت سے وابستہ تھے اور بڑے تجار میں شمار ہوتے تھے، اس لیے شب و روز تجارتی معاملات سے آپ کو جس قدر واقفیت رہتی ہوگی وہ بالکل عیاں ہے۔ اس طرح آپ کی فقہ کا دائرہ کار محض درسی مجالس تک محدود نہیں تھا، بلکہ معاشرے کے اہم ترین حصے کے براہِ راست مشاہدے پر مبنی تھا، اور اس چیز نے آپ کے فقہی اجتہادات کا ذخیرہ کافی وسیع کردیا تھا اور اسی کے ساتھ معاشرے کی ضروریات میں بھی دوسروں کی بنسبت زیادہ خود کفیل ہورہا تھا، ایسے میں اگر یہ مسلک زیادہ مقبول ہوا، تواس میں کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ 
۲:- دوسرا سبب یہ ہوا کہ جب امام ابویوسفؒ قاضی القضاۃ بنے تو ظاہر ہے کہ نت نئے مسائل میں انہوں نے جتنے بھی فیصلے کیے، وہ اپنے استاذ امام ابوحنیفہ ؒ کے ہی اصول اور قواعد کی روشنی میں کیے، اگرچہ امام ابویوسفؒ خود بھی مجتہد تھے، مگر بہر حال انہوں نے اپنے اوپر ہمیشہ اپنے استاذ امام ابوحنیفہؒ کی علمی و فقہی تربیت کا رنگ ہی غالب رکھا، اس طرح مسلم معاشرہ فقہِ حنفی کے فیضان سے فیض یاب ہونے لگا اور یہی چیز خود فقہِ حنفی کے لیے بھی بے پناہ وسعت کا سبب ہوئی کہ بہت سے مسائل جو پہلے فقہ حنفی میں موجود نہ تھے، مگر جب وہ وقوع پذیر ہوئے اور فقہ حنفی کے ماہرین نے ان کے شرعی حل مستنبط کیے تو اس سے خود فقہِ حنفی کا تحریری ذخیرہ وسیع تر ہوتا گیا اور اس طرح دیگر فقہی مذاہب کی بہ نسبت فقہِ حنفی معاشرے میں زیادہ اثر انداز ہوتی رہی، جس کا اثر اب بھی علمی حلقوں میں تسلیم کیا جاتا ہے۔ (صححہ: #S_A_Sagar ) https://saagartimes.blogspot.com/2022/03/blog-post_16.html

ستائیس رجب کی عبادات وروزہ کا حکم؟

ستائیس رجب کی عبادات وروزہ کا حکم؟

---------------------------------

حضرت مفتی صاحب،

السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ، 

دریافت طلب مسئلہ یہ ہے کہ میرا تعلق ایسی جگہ سے ہے، جہاں رضاخانیوں کی اکثریت ہے، ٢٧/ رجب کی عبادت شب بیداری، اور روزہ کا اہتمام خوب کرتے ہیں، اور بیان و تقریر کے ذریعہ دوسروں کو ترغیب بھی دیتے ہیں، اسی تناظر میں کسی نے مجھ سے مسئلہ معلوم کیا کہ شب میں عبادت اور روزہ رکھنے میں ثواب ہے یا نہیں، سائل کے جواب میں کہا گیا کہ شب بیداری اور روزہ رکھنے میں گناہ ہے اور نہ کرنے اور نہ رکھنے میں ثواب ہے، میرا اس طرح کہنے کا مقصد صرف اس لئے تھا، تاکہ بدعت کو فروغ نہ ملے، دریافت یہ کرنا ہے کہ میرا مذکورہ بالا جملہ کہنا درست ہے یا نہیں، مدلل جواب سے نوازیں.

سائل : سہیل اختر قاسمی، جوگیا / کھگڑیا

الجواب وباللہ التوفیق:

شب معراج کی فضیلت کی نیت وعقیدے سے روزہ وعبادات انجام دینے والوں کے لئے تو آپ کا یہ جواب چلے گا؛ لیکن بلا تفصیل مطلق یہ کہنا کہ رات کی عبادت اور دن کے روزہ رکھنے میں گناہ اور نہ رکھنے میں ثواب ہے؛ محل نظر ہے 

کیونکہ محقق تھانوی کے بقول: (امدادالفتاویٰ:۲/۸۵ ) ”․․․․․دوسری حیثیت رجب میں صرف ”شہر ِحرام“ ہونے کی ہے، جو اس (رجب) میں اور بقیہ اشہرحُرم میں مشترک ہے، پہلی حیثیت سے قطعِ نظر صرف اس دوسر ی حیثیت سے اس میں روزہ رکھنے کو مندوب فرمایا گیا“۔ انتہی 

اسی لئے ہمارے فقہاء لکھتے ہیں کہ اگر کسی شخص کی عادت پیر اور جمعرات کے روزے رکھنے کی ہو اور 27 رجب پیر یا جمعرات کو آجائے تو ایسے شخص کے لیے اس دن روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہوگا اور ایسا شخص صرف نفل روزے کی نیت سے اس دن کا روزہ رکھے گا، ستائیس رجب یعنی یوم معراج کے روزے کی نیت نہیں کرے گا۔

روزہ فی نفسہ نیک عمل ہے، اشہر حرم رجب کے انضمام کے ساتھ اہمیت اور  دو چند ہوجاتی ہے، صوم یوم معراج کے معہود فضائل وعقیدے سے قطع نظر اشہر حرم میں نفس صوم کے عقیدے کے ساتھ روزہ رکھے تو باعث اجر و ثواب ہوگا۔ اسے باعث گناہ کہنے میں احتیاط ضروری ہے۔ واللہ اعلم بالصواب 

شکیل منصور القاسمی 

https://saagartimes.blogspot.com/2022/03/blog-post_97.html (S_A_Sagar#)



جنت کی ضمانت کیا ہے؟

جنت کی ضمانت کیا ہے؟
اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو اعضاء عطاء فرمائے 
ہیں ان کو کہاں، کب اور کیسے استعمال کرنا ہے؟؟؟
اس کا طریقہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھلایا ہے. اگر تعلیماتِ نبوی کے عین مطابق ان اعضاء کو استعمال کیا جائے تو اس پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی ضمانت دی ہے. ہر مسلمان خواہ وہ عملی طور پر کتنا ہی کمزورہواور گناہگار ہو اس کی خواہش اور تمنا ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے جہنم سے بچاکر جنت عطا فرمائیں. کس قدر خوش نصیبی کی بات ہے کہ ہماری یہ خواہش پوری ہوسکتی ہے اور اس کے پورا ہونے کی ضمانت بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود دیتے ہیں. آئیے اس بارے ایک حدیث مبارک کو عمل کے جذبے سے پڑھتے ہیں:
عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:اِضْمَنُوْا لِيْ سِتًّا مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَضْمَنْ لَكُمُ الْجَنَّةَ: اُصْدُقُوا إِذَا حَدَّثْتُمْ وَأَوْفُوْا إِذَا وَعَدْتُّمْ وَأَدُّوْا إِذَا اؤْتُمِنْتُمْ وَاحْفَظُوْا فُرُوْجَكُمْ وَغُضُّوْا أَبْصَارَكُمْ وَكُفُّوا أَيْدِيَكُمْ۔ (السنن الکبری للبیہقی، رقم الحدیث: 12691)
ترجمہ: حضرت عبادہ بن صامت انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دو اس کے بدلے میں آپ لوگوں کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں.
1: جب بات کرو تو سچی بات کرو.
2: جب وعدہ کرو تو اسے پورا کرو۔
3: جب تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو اس کو صحیح طور پر واپس کرو۔
4: اپنی شرم گاہوں کی (گناہوں سے) حفاظت کرو۔
5: اپنی نگاہوں کو (ناجائز اور حرام چیزیں دیکھنے سے بچاؤ).
6: اپنے ہاتھوں کو (یعنی خود کو کسی پر ظلم وغیرہ کرنے سے) روکو.
سچ بولو:
پہلی چیز جس کی ضمانت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے لی ہے وہ یہ ہے کہ جب بھی بولیں، سچ بولیں۔ کبھی جھوٹ نہ بولیں۔ اسلامی تعلیمات میں سچ کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ سچ بولنا ایسی اچھی صفت ہے کہ مذہب سے ہٹ کر دیگر امور میں بھی اس صفت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے. چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ کاروبار میں جو تاجر اور دکاندار سچا اور زبان کا پکا ہوتا ہے لوگ اس پر اعتماد کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے کاروبار سے خوب نفع حاصل کرتا ہے۔ اسی طرح دیگر جس قدر باہمی معاملات ہیں ان میں سچائی اپنا رنگ دکھاتی ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو یہ صفت اپنانے کی نہ صرف ترغیب دیتا ہے بلکہ اس کو لازمی قرار دیتا ہے کہ ہر حال میں اس کو اپنایا جائے خواہ وہ دینی معاملات ہوں یا دنیاوی سب میں سچ بولنے کو ضروری قرار دیتا ہے. اس لئے جنت کی خواہش رکھنے والے ہر مسلمان کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ تعلیم دیتے ہیں کہ:
عَنْ عَبْدِاللهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِى إِلَى الْبِرِّ وَإِنَّ الْبِرَّ يَهْدِى إِلَى الْجَنَّةِ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَصْدُقُ حَتَّى يُكْتَبَ صِدِّيقًا وَإِنَّ الْكَذِبَ يَهْدِى إِلَى الْفُجُورِ وَإِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِى إِلَى النَّارِ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَكْذِبُ حَتَّى يُكْتَبَ كَذَّابًا. (صحیح مسلم، رقم الحدیث: 6803)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سچ بولنا ایسا عمل ہے جو نیکی کی راہ پر چلاتا ہے اور نیکی والا راستہ سیدھا جنت جاتا ہے اور یقینی بات ہے کہ آدمی سچ بولتا رہتا ہے بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ ”صدیق“ بن جاتا ہے. اور جھوٹ بولنا ایسا عمل ہے جو برائی کی راہ پر چلاتا ہے اور برائی والا راستہ سیدھا جہنم جاتا ہے اور یقیناً جب کوئی آدمی جھوٹ کی عادت ڈال لیتا ہے وہ جھوٹ بولتا رہتا ہے بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ”کذّاب“ لکھ دیا جاتا ہے۔
نوٹ: صدق وسچائی کے بارے تفصیل سے وعظ و نصیحت جلد اول ص 51 تا 60 ملاحظہ فرمائیں۔
وعدہ پورا کرو:
دوسری چیز جس کی ضمانت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے لی ہے وہ یہ ہے کہ جب کوئی وعدہ کرو تو اسے ضرور پورا کرو. آج کے دور میں بھی ایفائے عہد کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور وعدہ خلافی کو برا سمجھا جاتا ہے۔ قرآن کریم نے اس عمل کو علامت تقویٰ قرار دیا ہے اور ایسے شخص کو اللہ کا محبوب قرار دیا ہے.
فَاَتِمُّوۡۤا اِلَیۡہِمۡ عَہۡدَہُمۡ اِلٰی مُدَّتِہِمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُتَّقِیۡنَ سورۃ التوبۃ، رقم الآیۃ: 4
ترجمہ: اپنے وعدوں کی مدت کو پورا کرو. یقیناً اللہ تعالیٰ متقین سے محبت فرماتے ہیں. اس عمل کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے قرآن کریم کہتا ہے کہ:
وَ اَوۡفُوۡا بِالۡعَہۡدِ ۚ اِنَّ الۡعَہۡدَ کَانَ مَسۡـُٔوۡلًا (سورۃ بنی اسرائیل، رقم الآیۃ: 34)
ترجمہ: وعدہ پورا کرو، یقیناً وعدہ کی پاسداری کے بارے تم سے سوال کیا جائے گا۔
عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَرْبَعٌ مَّنْ كُنَّ فِيهِ كَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا وَمَنْ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِّنَ النِّفَاقِ حَتَّى يَدَعَهَا إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ وَإِذَا حَدَّثَ كَذَبَ وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ۔ (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 34)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : چار (عادات و صفات) جس شخص میں ہوں وہ پکا منافق ہے اور جس میں ان صفات میں سے ایک صفت ہوتو اس میں نفاق اسی کے بقدر ہے یہاں تک کہ وہ اس کو چھوڑ دے۔ جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے، جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو اس کی خلاف ورزی کرے اور جب جھگڑا وغیرہ ہوجائے تو گالم گلوچ پر اتر آئے.
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جَمَعَ اللّهُ الأَوَّلِينَ وَالآخِرِينَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرْفَعُ لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ فَقِيلَ هَذِهِ غَدْرَةُ فُلاَنِ بْنِ فُلاَنٍ۔ (صحیح مسلم، رقم الحدیث: 4627)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی قیامت کے دن اولین و آخرین کو جمع کریں گے پھر ہر اس شخص کے لیے ایک جھنڈا گاڑیں گے جو بدعہدی کرنے والے ہیں اور کہا جائے گا: یہ فلاں بن فلاں کی بدعہدی (کا نشان) ہے۔
امانت ادا کرو:
تیسری چیز جس کی ضمانت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے لی ہے وہ یہ ہے کہ جب تمہارے پاس کوئی شخص امانت رکھوائے تو اس کو وہ چیز صحیح صحیح طریقے سے واپس کرو. اس میں کوئی خیانت وغیرہ نہ کرو۔ آج کے دور میں بھی امانت داری کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور خیانت کو برا سمجھا جاتا ہے.
عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَرْبَعٌ إِذَاكُنَّ فِيْكَ فَلَا عَلَيْكَ مَا فَاتَكَ مِنَ الدُّنْيَا: حِفْظُ أَمَانَةٍ وَصِدْقُ حَدِيثٍ وَحُسْنُ خَلِيقَةٍ وَعِفَّةٌ فِي طُعْمَةٍ۔ (مسند احمد، رقم الحدیث : 6652)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہےکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب چار عادتیں تم میں پیدا ہوجائیں تو دنیا کی پریشانیاں تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ وہ چار عادات یہ ہیں: امانت داری، صدق، حسن خلق اور حلال رزق۔ معراج کی رات جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت و جہنم کا مشاہدہ فرمایا اس موقع پر آپ کو بطور مثال وہاں کے لوگ بھی دکھائے گئے. چنانچہ اسی سفر معراج کے مشاہدات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایسے شخص پر ہوا جس نے لکڑیوں کا بھاری گٹھا جمع کر رکھا اور اس میں اُٹھانے کی ہمت نہیں پھر بھی لکڑیاں جمع کر کرکے گٹھے کو بڑھا رہا ہے. پوچھنے پر جبرائیل علیہ السلام نے بتایا یہ وہ شخص ہے جو صحیح طور پر امانت ادا نہیں کرتا۔
شرمگاہوں کی حفاظت کرو:
چوتھی چیز جس کی ضمانت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے لی ہے وہ یہ ہے کہ تم اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو یعنی شرعا حرام اور ناجائز موقعوں پر استعمال نہ کرو ۔ ناجائز جنسی ملاپ سے اپنی حفاظت کرو. جو چیزیں شرمگاہوں کے ناجائز استعمال کا سبب ہیں ان کا اجمالی تذکرہ اس طرح ملتا ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لِكُلِّ بَنِي آدَمَ حَظٌّ مِنَ الزِّنَا فَالْعَيْنَانِ تَزْنِيَانِ وَزِنَاهُمَا النَّظَرُ وَالْيَدَانِ تَزْنِيَانِ وَزِنَاهُمَا الْبَطْشُ وَالرِّجْلَانِ تَزْنِيَانِ وَزِنَاهُمَا الْمَشْيُ وَالْفَمُ يَزْنِي وَزِنَاهُ الْقُبَلُ وَالْقَلْبُ يَهْوَى وَيَتَمَنَّى وَالْفَرْجُ يُصَدِّقُ ذَلِكَ أَوْ يُكَذِّبُهُ۔
مسند احمد، رقم الحدیث: 8526
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر شخص کا زنا سے کچھ نہ کچھ واسطہ پڑتا رہتا ہے آنکھیں زنا کرتی ہیں اور ان کا زنا بدنظری کرنا ہے، ہاتھ بھی زنا کرتے ہیں اور ان کا زنا (شہوت کے ساتھ شرمگاہ کو اور غیرمحرم کو) پکڑنا ہے، پاؤں بھی زنا کرتے ہیں اور ان کا زنا (شہوت کی جگہوں کی طرف) چلنا ہے، منہ بھی زنا کرتا ہے اور اس کا زنا (غیرمحرم یا شرعاً ناجائز مقامات کا) بوسہ لینا ہے۔ دل خواہش اور آرزو کرتا ہے اور شرمگاہ اس کے ارادے کو کبھی پورا کرتی ہے اور کبھی نہیں کرتی۔
نگاہوں کو حفاظت کرو:
پانچویں چیز جس کی ضمانت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے لی ہے وہ یہ ہے کہ اپنی نگاہوں کی حفاظت کرو. غیرمحرم اور اجنبی خواتین اور تمام ناجائز مناظر نہ دیکھیں. اس سے فحاشی، عریانی اور بے حیائی پھیلتی ہے. قرآن کریم نے یہ نہیں کہا کہ تم زنا نہ کرو بلکہ اسے بے حیائی اور بہت برا راستہ قرار دے کر اس کے قریب جانے سے بھی روک دیا ہے۔ یعنی تمام ایسی باتوں سے خود کو بچانے کا حکم دیا جن کی وجہ سے انسان زنا جیسی لعنت میں گرفتار ہو سکتا ہے یعنی نامحرم کے ساتھ بے حجابانہ گفتگو، تنہائی، بوس و کنار وغیرہ۔ عموماً بدنظری سے شروع ہونے والا سفر بدکاری تک جاکر ہی تمام ہوتا ہے۔ معراج کی رات جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت و جہنم کا مشاہدہ فرمایا اس موقع پر آپ کو بطور مثال وہاں کے لوگ بھی دکھائے گئے. چنانچہ اسی سفر معراج کے مشاہدات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے بھی ہوا جن کے سامنے ایک ہانڈی میں پکا ہوا گوشت ہے اور ایک ہانڈی میں کچا اور سڑا ہوا گوشت رکھا ہے، یہ لوگ سڑا ہوا گوشت کھارہے ہیں اور پکا ہوا گوشت نہیں کھارہے ہیں۔ دریافت کیا یہ کون لوگ ہیں؟ جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس حلال عورت موجود ہے مگر وہ زانیہ اور فاحشہ عورت کے ساتھ رات گزارتے ہیں اور صبح تک اسی کے ساتھ رہتے ہیں اور وہ عورتیں ہیں جو شوہر کو چھوڑکر کسی زانی اور بدکار شخص کے ساتھ رات گزارتی ہیں۔
خود کو ظلم سے روکو:
چھٹی چیز جس کی ضمانت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے لی ہے وہ یہ ہے کہ کسی پر ظلم نہ کریں۔ عام طور پر چونکہ ظلم ہاتھوں سے سرزد ہوتا ہے. اس لئے حدیث مبارک میں ہاتھوں کو روکنے کا حکم دیا گیا ہے.
عَنِ ابْنِ شِهَابٍ أَنَّ سَالِمًا أَخْبَرَهُ أَنَّ عَبْدَاللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، أَخْبَرَهُ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:اَلمُسْلِمُ أَخُو المُسْلِمِ لاَ يَظْلِمُهُ وَلاَ يُسْلِمُهُ وَمَنْ كَانَ فِي حَاجَةِ أَخِيهِ كَانَ اللهُ فِي حَاجَتِهِ وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ كُرْبَةً فَرَّجَ اللهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرُبَاتِ يَوْمِ القِيَامَةِ وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللهُ يَوْمَ القِيَامَةِ۔ (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 2442)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مسلمان؛ مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم و زیادتی کرتا ہے، نہ اس کو اوروں کے سپرد کرتا ہے۔ جو اپنے مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں لگا رہتا ہے. اللہ پاک اس کی ضرورتیں پوری فرماتے ہیں اور جو کوئی کسی مسلمان کی مصیبت دور کرتا ہے اللہ پاک اس سے قیامت کے دن کی مصیبتیں دور فرمائیں گے اور جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے اللہ پاک قیامت کے روز اُس کی پردہ پوشی فرمائیں گے۔ ہم سے جن چیزوں کی ضمانت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لی ہے اگر ہم واقعتاً ان کی ضمانت دے دیں یعنی ان کی پابندی کریں تو یقین مانیے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چیز کی ضمانت دی ہے وہ ضرور مل کر رہے گی ۔ اور وہ چیز جنت ہے ۔ اور یہی ہر مسلمان کی خواہش اور تمنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں وہ سب اعمال کرنے کی توفیق نصیب فرمائیں جن کی ہم سے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ضمانت لینا چاہتے ہیں اور اپنے کرم سے ہمیں وہ عطا فرمائیں جس کی اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ضمانت دی ہے.
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمد الیاس گھمن. جمعرات، 9 جنوری، 2020ء (صححہ: #S_A_Sagar )

حافظ قرآن کسے کہتے ہیں؟




حافظ قرآن کسے کہتے ہیں؟
---------------------------------
----------------------------------
سوال: صرف دو منٹ کی ویڈیو ہے۔ حضرات علماء اسے دیکھ کے عرض فرمائیں کہ 'حافظ قرآن' جیسی خالص علمی واسلامی اصطلاح کی جو تشریح موصوف فرمارہے ہیں وہ کہاں تک درست ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق:
عہدرسالت و صحابہ میں حافظ قرآن کے لئے "قاری" یا "صاحب قرآن" کی تعبیر مستعمل تھی، بعد میں زبانی مکمل قرآن کریم یاد کرنے والے کے لئے حافظ قرآن کی اصطلاح قائم ہوئی اور یہی مستعمل و متعارف بھی ہے۔ پھر حافظ قرآن عرفاً واصطلاحاً اسے کہا جانے لگا جو قرآن پاک زبانی یاد کر رکھا ہو. اور ضرورت وحاجت کے وقت درست پڑھنے پر بھی قادر ہو. لفظ "حفظ" کا لغوی مفہوم حفاظت و نگرانی اور ذہن میں کوئی چیز بٹھانا ہے. موقع، محل استعمال اور سیاق وسباق کے اختلاف سے لفظ کے معنی بدل جاتے ہیں. قرآن کریم یا اس کے کسی جزو کے ساتھ لفظ حفظ کا استعمال ہو تو اس کے معنی زبانی یاد کرنے کے ہی ہیں، مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے:
مَن حَفِظَ عَشْرَ آياتٍ مِن أوَّلِ سُورَةِ الكَهْفِ عُصِمَ مِنَ الدَّجَّالِ. (صحيح مسلم. 809). امام راغب اصفہانی (کتاب المفردات فی غریب القرآن صفحہ 244)  نے قرآن کریم میں وارد لفظ حفظ وحافظ کا احصاء کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پورے قرآن میں کل 44 مقامات پہ یہ لفظ استعمال ہوا ہے، 32 جگہوں میں صیغہ اسم کے ساتھ اور 12 جگہوں میں فعل کے ساتھ. قرآن پاک میں لفظ "حفظ" بنیادی طور پہ چار معانی میں استعمال ہوا ہے. 
۱: علم اور جاننے کے معنی میں: 
{إنا أنزلنا التوراة فيها هدى ونور يحكم بها النبيون الذين أسلموا للذين هادوا والربانيون والأحبار بما استحفظوا من كتاب الله} (المائدة: 44)
قال الطبري: "بما استودعوا علمه من كتاب الله الذي هو التوراة". ومثله قوله تعالى: {وربك على كل شيء حفيظ} (سبأ:21) أي: أنه عالم بكل شيء. ومنه أيضاً قوله عز وجل: {إن ربي على كل شيء حفيظ} (هود: 57) أي: إن ربي على جميع خلقه ذو حفظ وعلم.
۲: عفت و عصمت کی حفاظت کے معنی میں:{فالصالحات قانتات حافظات للغيب بما حفظ الله} (النساء: 34)۔ {والذين هم لفروجهم حافظون} (المؤمنون: 5)
۳: نگرانی اور نگہداشت کے معنی میں: {أرسله معنا غدا يرتع ويلعب وإنا له لحافظون} (يوسف:12)۔ {إنا نحن نزلنا الذكر وإنا له لحافظون} (الحجر: 9)
٤: گواہ اور نگراں ورقیب کے معنی میں: {وإن عليكم لحافظين} (الانفطار: 10)
ان مختلف آیات میں مختلف شکلوں اور ہیئتوں میں وارد لفظ حفظ وحافظ کے معانی موقع محل کے اعتبار سے مختلف ہیں. مذکور الصدر ویڈیو کلپ میں حافظ قرآن کی یہ تشریح کہ: "خدا کے حفاظتی نظام کے سلسلے کو کہتے ہیں." بالکل درست ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں؛ لیکن معاً موصوف نے صاف لفظوں میں جو یہ فرمایا  کہ: "قرآن یاد کرنے والے کو حافظ نہیں کہتے ہیں." بالکل غلط اور ناقابل تسلیم ہے. بدیہی سی بات ہے کہ حافظ قرآن پہلے اپنے سینوں میں قرآن محفوظ و یاد کرتا ہے، اسے بار بار پڑھتا اور مذاکرہ کرتا ہے. نتیجۃً اور مآلاً  قرآن کی حفاظت کے خدائی وعدے کا وہ مظہر جمیل بن جاتا ہے، کیونکہ اللہ تعالی بذات خود حسی و مشاہد طور پہ دنیا میں حفاظت قرآن کے لئے نہیں آسکتے، وہ تو اپنا وعدہ ان حفاظ وعلماء کے ذریعے ہی پورا فرمائیں گے، یوں حفاظ خدائی ہتھیار ہوئے. جن اکابر سے بھی ایسا کچھ منقول ہے وہ اسی تناظر میں ہے. سینوں میں محفوظ کرنے والے کو حافظ قرآن کہنے کی سب سے واضح دلیل یہ آیت قرآنیہ ہے:
بَلْ هُوَ ءَايَٰتٌۢ بَيِّنَٰتٌ فِى صُدُورِ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلْعِلْمَ ۚ وَمَا يَجْحَدُ بِـَٔايَٰتِنَآ إِلَّا ٱلظَّٰلِمُونَ. (العنكبوت 49)
اگر حافظ قرآن کی اصطلاح کو اللہ کے حفاظتی نظام کے سپاہی پر منحصر کردیا جائے پھر تو غیرحافظ مفسر، عالم، فقیہ سب کو ہی حافظ قرآن کہنا درست ہونا چاہئے؛ کیونکہ یہ سب ہی خدائی نظام حفاظت کے سلسلے ہیں! وهذا خلف. لہذا درست بات یہ ہے کہ حافظ قرآن جیسی مخصوص اصطلاح کو زبانی قرآن یاد کرنے والے کے ساتھ خاص رکھا جائے. اشاعت وحفاظت دین کے شعبوں سے مربوط تمام افراد وسیع معنی ومفہوم میں بلا ریب قرآن کی حفاظت کرنے والے اور اللہ کے حفاظتی نظام کے سپاہی کہلائیں گے، تیس پارہ حفظ کرنے والے خوش نصیب حفاظ سے حافظ قرآن جیسے اعزاز وامتیاز کی نفی کرنا کسی طور صحیح نہیں ہے. 
مركز البحوث الإسلامية العالمي 
١٥ شعبان ١٤٤٣ ( S_A__Sagar# )
https://saagartimes.blogspot.com/2022/03/blog-post_37.html





Friday, 4 March 2022

کہاں گم ہوگئیں یہ سب چیزیں؟

نہ جانے کہاں گم ہوگئیں یہ سب چیزیں؟
بہت کم لوگ ہیں جو ان گم شدہ چیزوں کو جانتے ہوں گے۔ دل چاہا نئی نسل کو ان سے روشناس کیا جائے: 
رکابی ..... پلیٹ
سینی ..... گول بڑی پلیٹ یا پلیٹر
سلفچی ..... خوبصورت سا پیتل کا ایک برتن جس میں مہمانوں کے ہاتھ کھانے پہلے دھلوائے جاتے ہیں۔
الگنی ..... وہ رسی جس کو دیوار پہ باندھا جاتا ہے اور اس پہ کپڑے سکھائے جاتے ہیں۔
طاق ..... دیوار میں بنی ایک چھوٹی سی بغیر دروازے کی کھڑکی جس میں سرِشام چراغ جلا کے رکھے جاتے تھے۔
گھڑونچی ..... لکڑی سے بنایا گیا ایک سٹینڈ جس میں اوپر کی جانب دو یا تین بڑے بڑے سوراخ ہوتے ہیں جس میں مٹکوں کے پیندے سما جاتے ہیں تاکہ گرنے سے بچ سکیں۔ 
نعمت خانہ ..... لکڑی سے بنایا گیا ایک خوصورت سا ڈبہ جس کی لمبائی چوڑائی ایک بڑے فریج کے برابر ہوتی ہے لیکن اس کی دیواریں چاروں طرف سے جالی کی لگائی جاتیں ہیں تاکہ اس میں ہوا گزرتی رہے اور میں رکھی کھانے کی چیزیں ٹھنڈی رہیں اور خراب نہ ہوں۔
تلہ دانی ..... چوکور کپڑے کو مثلث نما سیا جاتا ہے اور اس کے ایک کونے پر ایک خوبصورت ڈوری لگائی جاتی ہے جس سے اسے گول کرکے باندھ دیا جاتا ہے۔ یہ عمومًا سوئی دھاگہ ریلیں رکھنے کے کام آتی ہے۔
بگونہ ..... ایک کھلے منہ کی چھوٹے کنارے کی پتیلی جس میں عمومًا چاول پکائے جاتے ہیں۔
بادیہ ..... تانبے کا بنا بڑا سا کھلے منہ کا کٹورہ جس میں بچا ہوا گوندھا آٹا رکھا جاتا ہے۔ 
کٹورہ ..... یہ بھی تانبہ کا بنا ایک خوبصورت کٹ ورک سے بنا برتن ہوتا ہے جس کے اوپر اس کا ڈھکن جو آسانی سے کھولا اور  بند کیا جا سکے۔ اس کی جگہ آج کل ہاٹ پاٹ نے لے لی ہے۔
چھینکا ..... یہ لوہے کے چپٹے تاروں سے بنا جو آج کل کے مکرامے جیسا ہوتا تھا۔ اسے ایک کنڈے میں چھت سے لٹکا دیا جاتا تھا جس میں دودھ کی دیگچی یا سالن کی پتیلیاں وغیرہ رکھ دی جاتی تھیں تاکہ ٹھیک رہیں۔ S_A_Saagar#
https://saagartimes.blogspot.com/2022/03/blog-post_54.html



ساری مخلوق کے نافرمان بن جانے کی صورت میں اللہ تعالی کے ایک جانور کا ان سب کو نگل جانا

ساری مخلوق کے نافرمان بن جانے کی صورت میں اللہ تعالی کے ایک جانور کا ان سب کو نگل  جانا
روایت: حضرت موسیٰ علیہ السلان نے اللہ تعالی کی بارگاہ میں عرض کیا کہ یا اللہ! اگر ساری مخلوق آپ کی نافرمان بن جائے تو آپ کیا کریں گے؟ اللہ تعالی نے فرمایا: میں اپنی مخلوقات میں سے ایک جانور کو بھیجوں گا جو ان سب کو ایک لقمہ بناکر کھا جائے گا، موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا کہ وہ جانور کہاں ہے؟ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا کہ وہ میری چراگاہوں میں سے ایک چراگاہ میں چررہا ہے۔
روایت کا مصدر:
امام ثعلبی رحمۃ اللہ علیہ ’’الكشف والبيان‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’وبلغنا أن بعض الأنبياء قال: يا رب! لو أن السماوات والأرض حين قلت لهما ائتيا طوعا أو كرها عصيناك، ما كنت صانعا بهما؟ قال: كنت آمر دابة من دوابي فتبتلعهما، قال: وأين تلك الدابة؟ قال: في مرج من مروجي، قال: وأين ذلك المرج؟ قال: في علم من علمي‘‘
اور ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ ایک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اے رب! اگر آسمان وزمین آپ کی نافرمانی کرتے جس وقت آپ نے آسمان وزمین سے فرمایا تھا کہ تم دونوں خوشی سے آؤ یا زبر دستی، تو آپ ان کے ساتھ کیا کرتے؟ تو اللہ تعالی نے فرمایا: میں اپنی مخلوق میں سے ایک جانور کو حکم دیتا، وہ ان دونوں کو نگل جاتا،
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ وہ جانور کہاں ہے؟ اللہ تعالی نے فرمایا کہ وہ میری چراگاہوں میں سے ایک چراگاہ میں چر رہا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ چراہ گاہ کہاں ہے؟ تو اللہ تعالی نے فرمایا: میرے علوم میں سے ایک علم میں ہے۔
یہی روایت علامہ قرطبی  (المتوفی 427ھ) نے ’’الجامع لأحكام القرآن‘‘ میں امام ثعلبی کے حوالے سے ذکر کی ہے، نیز اسے علامہ شہاب الدین محمد بن احمد اُبشیہی (المتوفی 852ھ) نے ’’المستطرف في كل فن مستظرف‘‘ میں اور علامہ اسماعیل حقی استنبولی l (المتوفی 1127ھ) نے ’’روح البيان‘‘ میں ذکر کی ہے۔
روایت کا حکم:
تلاش بسیار کے باوجودمذکورہ روایت سند اً تاحال ہمیں کہیں نہیں مل سکی، اورجب تک اس کی کوئی معتبر سند نہ ملے اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتساب سے بیان کرنا موقوف رکھا جائے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب صرف ایسا کلام اور واقعہ ہی منسوب کیا جاسکتا ہے جومعتبر سند سے ثابت ہو، واللہ اعلم۔
غیرمعتبر روایات کا فنی جائزہ ٤/٣٨٠
آج کا درس (421)
منجانب: مجلس شوری لمدنی دارالافتاء    
(سرپرست اعلی مفتی  اسجد صاحب قاسمی مد ظلہ العالی)  
 (ناظم اعلی مولانا شیخ سعود عالم صاحب قاسمی)
\نوٹ: اگر آپ اس 'مدنی دارالافتاء' گروپ میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو نیچے دئے گئے نمبروں میں سے کسی بھی ایک نمبر پر اپنا تعارف ..... مکمل نام ...... پتہ .... فراغت .... حالیہ مشغلہ لکھ کر بھیجدیں .......
رابطہ کیلئے نمبر: مفتی اسجد صاحب قاسمی 8306630995 - شیخ سعود عالم صاحب قاسمی 8000969350
قاضی شاہد علی صاحب قاسمی 7013635353 - علامہ طارق صاحب قاسمی  9760349315
مرتبین: معاونین تقویم مدنی دارالافتاء S_A_Sagar#
https://saagartimes.blogspot.com/2022/03/blog-post_19.html


قرآن لعنت کرتا رہتا ہے کی تحقیق

روایت 'رب تال للقران والقرآن یلعنہ' ترجمہ: کتنے قران پڑھنے والے ایسے ہیں جن پر قرآن لعنت کرتا رہتا ہے کی تحقیق 

یہ جملہ دو طرح  منقول ہے "رب تال" اور "رب قاری" مگر دونوں ہی موضوع ہے۔ محدث کبیر علامہ جونپوری رحمۃ اللہ علیہ "الیواقیت الغالیہ ۲/٦٦" میں لکھتے ہیں: یہ کلام قرائے متأخرین کی زبانوں پر مشہور ہے۔ میں نے اس کی تلاش میں بھرپور محنت کی مگر اس کی سند کا پتہ نہ چلا اور نہ یہ معلوم ہوا کہ اسکی تخریج کس محدث نے کی ہے۔ شیخ زکریا الانصاری رحمۃ اللہ علیہ  نے مقدمہ جزریہ کی شرح میں "الدقائق المحکمہ" میں اور ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ "المنح الفکریۃ شرح مقدمۃ الجزریۃ" میں حدیث کے انداز میں ذکر فرمایا ہے، مگر اس کے مخرج کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ "فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ۳/۲۱۳" میں ہے "لیس بحدیث عن النبی صلي الله عليه وسلم" اس کے قریب قریب مضمون پر مشتمل میمون بن مہران تابعی (۱۱۷ھ) کا قل منقول ہے؛ "ان الرجل لیصلی ویلعن نفسہ فی قرائتہ فی الحال: الا لعنۃ اللہ علی الظالمین وانہ لظالم (تفسیر ابن ابی حاتم ٦/۲۰۱۷)
"السنن والمبتدعات" میں ثقیری ذکر فرماتے ہیں: "ھذا لیس ایضا من کلام النبی صلي الله عليه وسلم" (السنن والمبتدعات)
تجوید کی اہمیت کے ذیل میں اس روایت کو  ذکر کیا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ تجوید کی اہمیت قران و سنت کی محکم نصوص سے ثابت ہے اس کے لئے ایسی بے سند باتوں کا سہارا لینے کی کوئی ضرورت نہیں  ہے۔ 
حکم...........موضوع اور من گھڑت ہے.
عمدۃ الاقاویل فی تحقیق الاباطیل ۱۰۸
منجانب: مجلس شوری لمدنی دارالافتاء
(سرپرست اعلی مفتی  اسجد صاحب قاسمی مد ظلہ العالی) (ناظم اعلی مولانا شیخ سعود عالم صاحب قاسمی)
نوٹ .......  اگر آپ اس "مدنی دارالافتاء" گروپ میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو نیچے دئیے گئے نمبروں میں سے کسی بھی ایک نمبر پر اپنا تعارف ..... مکمل نام ...... پتہ .... فراغت .... حالیہ مشغلہ لکھ کر بھیجدیں .......
رابطہ کیلئے نمبر:
مفتی اسجد صاحب قاسمی 8306630995- شیخ سعود عالم صاحب قاسمی 8000969350- قاضی شاہد علی صاحب قاسمی 7013635353-  علامہ طارق صاحب قاسمی 9760349315
مرتبین: معاونین تقویم مدنی دارالافتاء (Sa_Sagar#)
--------------------------------
عنوان: "رب قاریٔ للقرآن والقرآن يلعنه" (بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہوتے ہیں کہ وہ قرآن پڑھ رہے ہوتے ہیں، حالانکہ قرآن ان پر لعنت کررہا ہوتا ہے۔) روایت کی تحقیق
سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب! کیا "رب قارئ یقرء القرآن والقرآن یلعنہ" صحیح حدیث ہے یا نہیں؟
جواب: سوال میں ذکرکردہ الفاظ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہیں، البتہ یہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا اثر اور میمون بن مہران (تابعی) کا قول ہے، جس کو ذیل میں تحقیق کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے۔
(1) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے اثر کو امام غزالی نے اپنی کتاب احیاء علوم الدین میں بغیر سند کے درج ذیل الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
"قال أنس بن مالك رب تال للقرآن والقرآن يلعنه"
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بہت سے قرآن کی تلاوت کرنے والے (ایسے ہوتے ہیں کہ وہ قرآن پڑھ رہے ہوتے ہیں) حالانکہ قرآن ان پر لعنت کررہا ہوتا ہے۔
(2) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اثر کو بغیر سند کے "ابن الحاج مالکی" نے "المدخل" میں ان الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
"وقد قالت عائشة رضي الله عنها: كم من قارئ يقرأ القرآن والقرآن يلعنه يقرأ ألا لعنة الله على الظالمين، وهو ظالم."
(ج:٢،ص:٢٩٥، ط: دارالتراث)
ترجمہ: کتنے ہی قرآن کریم پڑھنے والے ایسے ہیں، جو قرآن کریم پڑھتے ہیں، حالانکہ قرآن کریم ان پر لعنت کرتا ہے، وہ پڑھتا ہے: "الا لعنةالله على الظالمين" (خبردارظالموں پر اللہ تعالی کی لعنت ہے۔) حالانکہ وہ خود ظالم ہوتا ہے۔
(3) مہران بن میمون (جو کہ تابعی ہیں) کا قول امام ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے۔
"حدثنا أبي، ثنا صالح بن عبيدالله الهاشمي، ثنا أبو المليح، عن ميمون بن مهران قال: إن الرجل ليصلي ويلعن نفسه في قراءته فيقول: ألا لعنة الله على الظالمين وإنه لظالم." (تفسيرالقرآن العظيم لابن أبي حاتم، حدیث نمبر:۸۴۸۴، ج: ۵، ص:۱۴۸۲، ط: مكتبة نزار مصطفى الباز)
ترجمہ: میمون بن مہران رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ یقیناً آدمی نماز پڑھتا ہے اور قرأت میں اپنے آپ پر لعنت کرتا ہے، کیونکہ وہ قرآن مجید کی آیت پڑھتا ہے: "الا لعنة الله على الظالمين" (خبردارظالموں پر اللہ تعالی کی لعنت ہے۔) حالانکہ وہ خود ظالم ہوتا ہے۔
تشریح: سوال یہ ہوتا ہے کہ قرآن کریم پڑھنے والے پر تو رحمتیں نازل ہوتی ہیں، تو پھر اس اثر کا کیا مطلب ہے کہ قرآن کریم اپنے بہت سے پڑھنے والوں پر لعنت کرتا ہے؟
جواب: احیاء علوم الدین کی شرح "اتحاف السادۃ المتقین" میں اس قول کی تشریح سے اس اثر کا مطلب واضح ہوجاتا ہے کہ بعض اسلاف نے فرمایا کہ ایک بندہ جب قرآن کریم کی کوئی سورۃ شروع کرتا ہے، تو قرآن کریم اس کے لیے رحمت کی دعا کرتا ہے، یہاں تک وہ بندہ اس کی قرأت سے فارغ ہوجاتا ہے، اور ایک بندہ جب قرآن کریم کی کوئی سورۃ شروع کرتا ہے، تو قرآن کریم اس پر لعنت کرتا ہے، یہاں تک وہ بندہ اس کی قرأت سے فارغ ہوجاتا ہے، تو کہا گیا کہ یہ کیسے ہوتا ہے؟ تو جواب میں فرمایا: جب قرآن کریم کی حلال کردہ چیزوں کو حلال جانے اور حرام کردہ چیزوں کو حرام جانے، یعنی جب اس کے اوامر و احکام کو پورا کرے اور اس کی منع کردہ چیزوں سے اپنے آپ کو روکے، تو قرآن کریم اس کے لیے رحمت کی دعا کرتا ہے، ورنہ لعنت کرتا ہے۔ بعض علمائے کرام نے فرمایا: بندہ (بسا اوقات) تلاوت کرتا ہے، تو اپنے اوپر لعنت کرتا ہے، حالانکہ اس کو اس کا پتہ نہیں ہوتا ہے، (کیونکہ) وہ آیت پڑھتا ہے: "الا لعنةالله على الظالمين" (خبردار ظالموں پر اللہ تعالی کی لعنت ہے۔) حالانکہ وہ خود اپنے اوپر یا دوسروں پر ظلم کرتا ہے، وہ آیت پڑھتا ہے: "الا لعنةالله على الكاذبين" (خبردار جھوٹوں پر اللہ تعالی کی لعنت ہے۔) حالانکہ وہ خود جھوٹوں میں سے ہوتا ہے۔
خلاصہ کلام: مذکورہ بالا الفاظ حدیث کے نہیں ہیں، بلکہ حضرت انس رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا اثر ہے، لہذا س کی نسبت جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا درست نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
احیاء علوم الدین: (274/1، ط: دار المعرفۃ)
قال أنس بن مالك رب تال للقرآن والقرآن يلعنه۔
اتحاف السادة المتقين بشرح إحياء علوم الدين: (469/4، ط: مؤسسۃ التاریخ الاسلامی)
(وقال بعض السلف ان العبد ليفتح سورة) من القرآن (فتصلى عليه حتى يفرغ منها) أى من قراءتها (وان العبد ليفتح سورة) من القرآن (فتلعنه حتى يفرغ منها) قراءة (فقيل له كيف ذلك قال اذا أحل حلالها وحرم حرامها) أى اذا ائتم بامرها وانتهى عن زجرها (صلت عليه والالعنته) نقله صاحب القوت هكذا (وقال بعض العلماء ان العبد لیتلوا والقرآن فیلعن نفسه وهو لا يعلم) بذلك (يقرأ ألا لعنة الله على الظالمين وهو ظالم نفسه) أو غيره (ألا لعنة الله على الكاذبين وهو منهم) أى من المتصفين بالكذب نقله صاحب القوت هكذا وفى هذين القولين تفسير لقول أنس السابق رب تال للقرآن والقرآن يلعنه
تقریب التھذیب: (ص: 585، ط: دارالیسر)
7049 - ميمون بن مهران الجزري أبو أيوب أصله كوفي نزل الرقة ثقة فقيه ولي الجزيرة لعمر بن عبد العزيز وكان يرسل من الرابعة مات سنة سبع عشرة بخ م 4
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب. دارالافتاء الاخلاص، کراچی (108285-No) (Sa_Sagar#)
-----------------------
عنوان: ’’بہت سے تلاوت كرنے والوں پر قرآن كا لعنت كرنا‘‘ حدیث کی تحقق
سوال: کیا مندرجہ ذیل حدیث صحیح سند کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے؟ براہ کرم تصدیق فرما دیں۔ حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللّٰہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: رُبَّ قَارِیٍٴ لِّلْقُرْاٰنِ وَالْقُرْاٰنُ یَلْعَنُہْ، بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ (غلط پڑھنے کی وجہ سے) قرآن اُن پر لعنت کرتاہے۔ (احیاء علوم الدین ، کتاب آداب تلاوة القرآن، الباب الاول، فی ذم تلاوة الغافلین، ۳۶۴/۱) سمیر انصاری ممبئی
جواب نمبر: 602818
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 470-844/M=01/1443
 اس حدیث کو امام غزالی رحمہ اللہ نے إحیاء علوم الدین، کتاب آداب تلاوة القرآن، الباب الأول في فضل القرآن وأہلہ، وذم المقصّرین فی تلاوتہ: 1/274، ط: دارالمعرفة، بیروت) میں موقوفاً (حضرت انس رضی اللہ عنہ کے قول کے طور پر) ان الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے: رُبَّ تال للقرآن والقرآن یلعنہ۔ لیکن صحاح وغیرہا میں یہ روایت نہیں ملی اور نہ مرفوعاً اس کی سند کسی کتاب میں مل سکی۔
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند (Sa_Sagar#) 
https://saagartimes.blogspot.com/2022/03/blog-post_94.html



سرکاری کاغذات کے مطابق بچوں کے نام رکھنے كے متعلق ضروری ہدایات

سرکاری کاغذات کے مطابق بچوں کے نام رکھنے كے متعلق ضروری ہدایات
محمد ظفر ندوی
Muslims names mistakes 
ہندوستان میں کسی بھی آفیشیل ویب سائٹ پر یا آفیشیل فارم کو پُر کرنے کے لیے نام درج کرنے کے آپشن میں 'پہلا نام'، 'دوسرا نام' اور 'تیسرا نام' کا آپشن ہوتا ہے۔ یعنی ایک ہی شخص کے نام کے تین جزئوں کو تین الگ الگ خانے میں لکھنا پڑتا ہے۔ پہلے جزء کو پہلے نام اور دوسرے کو دوسرے نام اور تیسرے جزء کو تیسرے نام کے خانے میں لکھنا پڑتا ہے۔ لیکن ان تینوں خانوں میں سے ہر شخص کے لیے یہ لازم ہوتاہے کہ کم از کم دو خانوں کو ضرور پُر کرے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر شخص کا نام دو جزئوں پر مشتمل ہونا ضروری ہے۔ مثلاً 'اقبال اختر' یہ نام دو جزئوں پر مشتمل ہے، لہذا اس نام کو دو الگ الگ خانوں میں لکھا جائے گا، 'اقبال' کو پہلے خانے میں اور 'اختر' کو دوسرے خانے میں۔ اور اگر کسی شخص کے نام کے تین حصے ہوں مثلاً 'محمد اقبال اختر' تو ایسے میں آپشن میں موجود تینوں خانوں کو پر کیا جاتا ہے۔ اور یہ نام رکھنے کا صحیح طریقہ ہے کہ دو یا تین جزئوں پر مشتمل ہو۔ جس کسی نے ازبخود کوئی بھی فارم مثلاً پین کارڈ، آدھارکارڈ، راشن کارڈ اور پاسپورٹ وغیرہ پُر کیا ہوگا تو اسے بخوبی ان باتوں کا اندازہ ہوگا۔ بہرحال جو بات بتانے کے لیے میں نے اوپر کی تفصیل لکھی وہ یہ کہ ہمارے ہندوستانی معاشرے میں ایک بڑی دشواری یہ ہے کہ عموماً لوگ جب بچوں کا نام رکھتے ہیں یا رکھواتے ہیں تو اس وقت لوگ اس طرف توجہ نہیں دیتے، اور عموماً ایک نام ہی رکھا جاتا ہے مثلاً حامد، طارق، اصغر، اور عموماً اس نام کے پیچھے 'محمد' لگادیتے ہیں مثلاً (محمد حامد، محمد طارق، محمد اصغر وغيره۔ مگردشواری اس وقت ہوتی ہے جب اسکول وغیرہ میں ایڈمیشن کروانا ہوتا ہے، لہذا جب نام پوچھا جاتا ہے تو حامد، طارق بتا دیا جاتا ہے اور چونکہ نام لکھنے والے کو دو خانے پُر کرنا لازمی ہوتا ہے لہذا وہ ازبخود عالم، انصاری یا شیخ وغیرہ لکھ دیتا ہے۔ اور اگر کسی نام کے دو حصے ہوتے بھی ہیں تو وہ لفظ “محمد” ہوتا ہے مثلاً محمد حامد، محمد طارق اور محمد اصغر۔ تو نام لکھنے والا کبھی صرف ایم ڈی حامد یا ایم او ایچ ڈی حامد اور کہیں پورا محمد لکھ دیتا ہے۔ اور اگر ایک جگہ مثلاً اسکول یا مدرسے میں MD ہے تو پین کارڈ میں MOHD اور آدھار کارڈ میں پورا MUHAMMAD لکھا ہوتا ہے، اس طریقے سے ایک ہی شخص کے نام تین جگہوں پر تین طریقوں سے لکھا چلا جاتا ہے۔ اور یہی مسئلہ لڑکیوں کے نام کے ساتھ بھی ہے کہ ان کا بھی ایک ہی نام رکھا جاتا ہے جیسے فاطمہ، عائشہ وغیرہ اور ان کے نام کے آگے یا پیچھے بی بی یا بیگم لگایا جاتا ہے اور کہیں BIBI ہوجاتا ہے، کہیں BEBE کسی دستاویز میں BEGUM اور کسی میں BEGAM اور کسی میں BEGEM۔ اور آگے چل کر یہ ایک بہت بڑی دشواری کا سبب بن جاتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی ڈرائیونگ لائسنس کے لیے اپلائی کرنا چاہتا ہے یا بنک اکاؤنٹ کھلوانا چاہتا ہے یا چاہتی ہے اور بنک اکاؤنٹ میں اسے بالکل صحیح نام اندراج کرانا ہے تو اسے یہ دشواری پیش آتی ہے کہ بنک اکاؤنٹ اوپن کرانے کے لیے اسے پہلے آدھار کارڈ صحیح کروانا ہوگا اور آدھار کارڈ پہلی بار آپ جیسے فارم پُر کریں گے ویسے بن جاتا ہے، لیکن تصحیح کرانے کے لیے آپ کو دسویں کی سرٹیفیکیٹ چاہیے اور دشواری یہ ہے کہ اسکول میں بھی نام درست نہیں لکھوایا گیا تھا لہذا خود دسویں کی سرٹیفیکیٹ محتاج تصحیح ہے۔ اور یہی نہیں جہاں جائیں جس محکمے میں جائیں آپ پریشان رہیں گے۔ اور دوسری اہم بات یہ کہ موجودہ حکومت کی پالیسیوں کی زد میں بھی آجائیں گے کیوں کہ آسام میں جو این آرسی ہوئی ہے میں بذات خود ایک آسامی عالم دين سے ملا ہوں انھوں نے بتایا کہ 95 فیصد وہ مسلمان جن کا این آرسی میں نام نہیں آیا وہ ایسے ہیں جن کے نام کی اسپیلنگ ہر دستاویز میں الگ الگ تھی، مثلاً کسی کا نام جنید ہے تو ایک ڈاکیومنٹ میں محمد جنید دوسرے میں جنید عالم اور کسی میں ایم ڈی جنید تو کسی میں ایم او ایچ ڈی جنید پھر جنید کی بھی انگلش اسپیلنگ کہیں juned, کہیں junaid اور کہیں juneid ہے اور صرف اسی اسپیلنگ کی غلطیوں کی وجہ سے 95 فیصد لوگ این آرسی کی لسٹ سے باہر ہوگئے۔ اور یہ غلطی خود ان کی نہیں ہوتی ہے بلکہ والدین جب بچپن میں نام رکھتے ہیں تو اس وقت توجہ نہیں دیتے اور اسکول وغیرہ میں نام اور تاریخ پیدائش لکھواتے وقت احتیاط سے کام نہیں لیتے۔ تاریخ پیدائش اور والدین کے نام کا بھی یہی حال ہے کہ ہر ڈاکیومنٹ میں الگ الگ ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے اس شخص کو بہت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لہذا انہیں دشواریوں سے محفوظ رکھنے اور آگاہ کرنے کے لیے میں نے ضروری سمجھا کہ اس طرف ذمہ داران اورخصوصاً والدین حضرات کی توجہ مبذول کروائی جائے۔ اس ضمن میں چند ہدایات حسب ذیل ہیں:
(1) نام‌ کے شروع میں محمد نا لگائیں
میں یہ گزارش کرنا چاہوں گا کہ بچوں کے نام رکھتے وقت محمد شروع میں نا لگائیں کیوں کہ محمد لگانا کوئی ضروری اورواجب نہیں ہے۔ ہندوستانی معاشرے میں لاکھوں کروڑوں نام ایسے ہیں جن کے شروع میں محمد ہے۔ اس كى وجہ سے بہت سی دشواریوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے مثلاً جب انگلش میں محمد لکھتے ہیں تو اسپیلنگ طویل ہونے کی وجہ سے اسے MD یا MOHD لکھ کر مختصر کردیتے ہیں اور آپ کو معلوم ہے کہ مدارس کے علاوہ کہیں بھی اردو میں نام لکھنے کا آپشن نہیں ہوتا ہے اور ہر جگہ آپ کو انگلش ہی میں نام لکھنا ہوتا ہے اسی ضرر سے بچنے کے لیے میں یہ کہ رہا ہوں کہ نام کے شروع میں محمد نا لگائیں۔ مگر کوئی لگانا چاہتا ہو تو اس سے یہ گزارش ہے کہ وہ ایم ڈی یا ایم او ایچ ڈی کے بجائے ہرجگہ ہر دستاویز میں مکمل MUHAMMAD لکھیں کیوں کہ نئے ضابطے کے اعتبار سے اگر ایم ڈی یا ایم او ایچ ڈی لکھا ہے تو پاسپورٹ بنانے میں اور دیگر دستاویزات میں بھی کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لہذا یا تو نام سے پہلے محمد نا لگائیں اور اگر لگانا ہی ہے تو ہمیشہ ہر جگہ ہر ڈاکیومنٹ میں مکمل محمد لکھیں۔
(2) نام دو جزئوں پر مشتمل ہو
نام دو جزئوں پر مشتمل ہو مثلاً حامد اختر، طارق انور اور اصغر امام وغيره۔ اور اسی طرح لڑکیوں کے نام بھی دو جزئوں پر مشتمل ہونا چاہیے مثلاً فلک ناز، فاطمہ زہرہ، طیبہ آفرین وغیرہ۔
(3) نام، تاریخ پیدائش اور والدین کے نام
نام کے ساتھ والدین کے نام اور تاریخ پیدائش ہمیشہ ہر ڈاکیومنٹ میں یکساں لکھیں اس میں ایک حرف کا بھی فرق نا ہو۔
(4) تصحیح کی فکر
جو بچے اور بچیاں ابھی اسکول یا مدرسے میں زیرِ تعلیم ہیں ان کے والدین اور وہ بچے اگر تصحیح کی ضرورت ہے اپنے، اپنے والدین اور تاریخ پیدائش کى تصحیح کرانے کی فکر شروع کردیں، کیوں کہ آنے والے ایام میں ان چیزوں کو لیکر لوگ کافی پریشان ہوسکتے ہیں اور اس وقت مشکلات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ (اسکول میں دسویں کے امتحان سے پہلے پہلے اور مدارس یا دیگر اداروں میں فراغت سے پہلے پہلے نام، تاریخ پیدائش اور والدین کے نام میں تصحیح کی گنجائش ہوتی ہے۔ (اس کے بعد بھی گنجائش باقی رہتی ہے لیکن دشواری ہوتی ہے)
(5) مدارس کے ذمہ داران سے ايک گزارش
مدارس کے ذمہ داران سے گزارش ہے کہ وہ ان طلباء کی ایسی درخواستوں کو نظرانداز نا کریں جو نام یا تاریخ پیدائش کی تصحیح کے لیے دے رہے ہوں بشرطیکہ آدھار کارڈ پین کارڈ ڈرائیونگ لائسنس جیسے آفیشیل ڈاکیومنٹ کی بنیاد پر وہ نام، تاریخ پیدائش یا والد کے نام کو تصحیح کرانا چاہتے ہوں۔ کیوں کہ عموماً مدارس میں جدید داخلے کے وقت نام کسی آفیشیل ڈاکیومنٹ کی بنیاد پر نہیں لکھا جاتا ہے، اور اس وقت طلباء میں بھی اتنی سنجیدگی نہیں ہوتی ہے کہ وہ مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے ناموں کا اندراج کروائىں۔
(6) قوم کو بیدار رکھیں
مدارس کے اساتذہ و ذمہ داران اپنے طلباء، مکاتب کے معلمین اپنے بچوں اور علماء و دانشور طبقہ اپنی قوم کی توجہ اس طرف مبذول کرواتے رہیں تاکہ ہماری قوم ایک بڑی دشواری سے حتی المقدور محفوظ رہ سکے۔ کیوں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے دائرۂ حیات کو تنگ کرنے کی کوششیں جاری ہیں، اور خدانخواستہ بعید نہیں کہ CAA اور NRC جیسے قوانین آج ہمیں یا نہیں تو ہماری اگلی نسل کو متاثر کرسکتی ہے۔ لہذا ہمیں اپنے، اپنے بچوں اور جہاں تک ہماری رسائی ہو اپنی قوم کو اس سلسلے میں بیدار کرنے اور عملی طور پر متحرک ہونے اور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ بھی تمام دستاویزات میں نام تاریخ پیدائش وغیرہ کا صحیح ہونا ہر لمحے باعث اطمینان ہوتا ہے۔ نوٹ: اس پیغام کو اپنا فرض سمجھ کر جہاں تک ممکن ہو دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کریں۔ اللہ آپ کو اسکا بہترین بدلہ عطا کریگا. ان شآءاللہ (Sa_Sagar#)
https://saagartimes.blogspot.com/2022/03/blog-post_40.html



دعا کی قبولیت

دعا کی قبولیت
قدرت اللہ شہاب "شہاب نامہ" میں بتاتے ہیں کہ "ایک بار میں کسی دوردراز علاقے میں گیا ہوا تھا. وہاں پر ایک چھوٹے سےگاؤں میں ایک بوسیدہ سی مسجد تھی۔ میں جمعہ کی نماز پڑھنے اس مسجد میں گیا وہاں ایک نیم خواندہ سے مولوی صاحب اردو میں بے حد طویل خطبہ دے رہے تھے۔ ان کا خطبہ گزرے ہوئے زمانوں کی عجیب وغریب داستانوں سے اٹاٹ بھرا ہوا تھا۔ کسی کہانی پر ہنسنے کو جی چاہتا تھا، کسی پر حیرت ہوتی تھی، لیکن ایک داستان کچھ ایسے انداز سے سنائی کہ تھوڑی سے رقت طاری کرکے وہ سیدھی میرے دل میں اترگئی۔ یہ قصہ ایک باپ اور بیٹی کی باہمی محبت واحترام کا تھا۔ باپ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور بیٹی حضرت بی بی فاطمہ (رضی اللہ عنہا) تھیں۔ مولوی صاحب بتارہے تھے کہ حضور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی کوئی درخواست یا فرمائش منظور نہ فرماتے تھے تو بڑے بڑے برگزیدہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاظر ہوکر ان کی منّت کرتے تھے کہ وہ ان کی درخواست حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے جائیں اور اسے منظور کروا لائیں۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دِل میں بیٹی کا اتنا پیار اور احترام تھا کہ اکثر اوقات جب بی بی فاطمہ س ایسی کوئی درخواست یا فرمائش لے کر حاضر خدمت ہوتی تھیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم خوش دلی سے منظور فرما لیتے تھے۔ اس کہانی کو قبول کرنے کے لیے میرا دل بے اختیار آمادہ ہوگیا۔
‎جمعہ کی نماز کے بعد میں اسی بوسیدہ سی مسجد میں بیٹھ کر نوافل پڑھتا رہا۔ کچھ نفل میں نے حضرت بی بی فاطمہ س   کی روح مبارک کو ایصالِ ثواب کی نیّت سے پڑھے۔ پھر میں نے پوری یکسوئی سے گڑگڑا کر یہ دعا مانگی، ”یا اللہ میں نہیں جانتا کہ یہ داستان صحیح ہے یا غلط لیکن میرا دل گواہی دیتاہے کہ تیرے آخری رسول کے دل میں اپنی بیٹی خاتون جنت کے لیے اس سے بھی زیادہ محبت اور عزت کاجذبہ موجزن ہو گا۔ اس لیے میں اللہ سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ حضرت بی بی فاطمہ س کی روح کو اجازت مرحمت فرمائیں کہ وہ میری ایک درخواست اپنے والد گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں پیش کرکے منظور کروالیں۔
‎درخواست یہ ہے کہ میں اللہ کی راہ کا متلاشی ہوں، مجھے روحانیت کے راستے پہ چلنے کی توفیق عطا کر۔۔۔۔
‎اس بات کا میں نے اپنے گھر میں یا باہر کسی سے ذکر تک نہ کیا۔ چھ سات ہفتے گزرگئے اور میں اس واقعہ کو بھول بھال گیا، پھر اچانک سات سمندر پار کی میری ایک جرمن بھابھی کا ایک عجیب خط موصول ہوا۔ جو  مشرف بہ اسلام ہوچکی تھیں اور نہایت اعلیٰ درجہ کی پابندِ صوم و صلوٰة خاتون تھیں۔ انہوں نے لکھا تھا:
‎رات میں نے خوش قسمتی سے فاطمہ رضی اللہ عنہا بنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا انہوں نے میرے ساتھ نہایت تواضع اور شفقت سے باتیں کیں اور فرمایا کہ اپنے دیور قدرت اللہ شہاب کو بتادو کہ میں نے اس کی درخواست اپنے برگزیدہ والد گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردی تھی۔ انہوں نے ازراہ نوازش منظور فرمالیا ہے“۔
‎یہ خط پڑھتے ہی میرے ہوش وحواس پر خوشی اورحیرت کی دیوانگی سی طاری ہوگئی، مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ میرے قدم زمین پر نہیں پڑ رہے بلکہ ہوا میں چل رہے ہیں۔ یہ تصور کہ اس برگزیدہ محفل میں ان باپ بیٹی کے درمیان میر ا ذکر ہوا۔ میرے روئیں روئیں پر ایک تیز وتند نشے کی طرح چھا جاتا تھا، کیسا عظیم باپ صلی اللہ علیہ وسلم! اور کیسی عظیم بیٹی! دو تین دن میں اپنے کمرے میں بند ہوکر دیوانوں کی طرح اس مصرع کی مجسّم صورت بنا بیٹھا رہا۔
‎ع۔ مجھ سے بہتر ذکر میرا ہے کہ اس محفل میں ہے!
‎اس کے بعد کچھ عرصہ تک مجھے خواب میں طرح طرح کی بزرگ صورت ہستیاں نظر آتی رہیں جن کو نہ تو میں جانتا تھا نہ ان کی باتیں سمجھ میں آتی تھیں اور نہ ان کے ساتھ میرا دل بھیگتا تھا پھر ایک خواب میں مجھے ایک نہایت دلنواز اور صاحب جمال بزرگ نظر آئے جو احرام پہنے ایک عجیب سرور اور مستی کے عالم میں خانہ کعبہ کا طواف کررہے تھے، میرا دل بے اختیار ان کے قدموں میں بچھ گیا، وہ بھی مسکراتے ہوئے میری جانب آئے اور مطاف سے باہر حطیم کی جانب ایک جگہ مجھے اپنے پاس بٹھالیا اور بولے: ”میرا نام قطب الدّین بختیار کاکی ہے تم اس راہ کے آدمی تو نہیں ہو لیکن جس دربار سے تمہیں منظوری حاصل ہوئی ہے اس کے سامنے ہم سب کا سر تسلیم خم ہے۔“
(یہ میرا بھی آزمودہ نسخہ ہے کہ خاتون جنت رضی اللہ عنہا کی وساطت سے مانگی گئی دعائیں رد نہیں ہوتیں، خدا ہم سب کو خاتون جنت سیدہ کونین کے صدقے ہر قسم کی پریشانیوں، بلاوں سے محفوظ رکھیں آمین) (منقول: شہاب نامہ) (صححہ: #S_A_Sagar) https://saagartimes.blogspot.com/2022/03/blog-post_4.html


Wednesday, 2 March 2022

بن دیکھے ایمان لانے کی فضیلت

حضور
صلی اللہ علیہ وسلم کو
بن دیکھے ایمان لانے کی فضیلت کیا ہے؟
 
‏‏‏‏وعن ابي هريرة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اتى المقبرة فقال: «السلام عليكم دار قوم مؤمنين وإنا إن شاء الله بكم لاحقون وددت انا قد راينا إخواننا قالوا اولسنا إخوانك يا رسول الله قال انتم اصحابي وإخواننا الذين لم ياتوا بعد فقالوا كيف تعرف من لم يات بعد من امتك يا رسول الله فقال ارايت لو ان رجلا له خيل غر محجلة بين ظهري خيل دهم بهم الا يعرف خيله قالوا بلى يا رسول الله قال فإنهم ياتون غرا محجلين من الوضوء وانا فرطهم على الحوض». رواه مسلم
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قبرستان تشریف لائے تو فرمایا: ”ان گھروں کے رہنے والے مومنوں تم پر سلامتی ہو، اگر اللہ نے چاہا تو ہم بھی یقیناً تمہارے پاس پہنچنے والے ہیں، میری خواہش تھی کہ ہم اپنے بھائیوں کو دیکھتے۔ “ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)! کیا ہم آپ کے بھائی نہیں؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ”تم میرے ساتھی ہو، اور ہمارے بھائی وہ ہیں جو ابھی نہیں آئے۔“ صحابہ (کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) نے پھر عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ اپنی امت کے ان افراد کو کیسے پہچانیں گے جو ابھی نہیں آئے اور وہ بعد میں آئیں گے؟ آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ”مجھے بتاؤ، اگر کسی شخص کا سفید ٹانگوں اور سفید پیشانی والا گھوڑا، سیاہ گھوڑوں میں ہو تو کیا وہ اپنے گھوڑے کو نہیں پہچانے گا؟“ صحابہ نے عرض کیا: کیوں نہیں اللہ کے رسول! ضرور پہچان لے گا، آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ”پس وہ آئیں گے تو وضو کی وجہ سے ان کے ہاتھ پاؤں اور پیشانی چمکتی ہوگی جبکہ میں حوض کوثر پر ان کا پیش رو ہوں گا۔“ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ (مشكوة المصابيح) (كِتَاب الطَّهَارَةِ) (طہارت کا بیان) (1.12. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا امتیوں کو اپنا بھائی قرار دینا) (حدیث نمبر: 298) (تخریج الحدیث: «رواه مسلم») (قال الشيخ زبير على زئي: صحيح) (Sa_Sagar#)
https://saagartimes.blogspot.com/2022/03/blog-post.html