Sunday, 12 September 2021

کیا طلبِ عافیت سب سے بہتر اور جامع دعاء ہے؟

کیا
طلبِ عافیت  
سب سے بہتر اور جامع دعاء ہے؟

ترمذی شریف اور دیگر کتبِ احادیث میں حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے ایک روایت منقول ہے، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک جامع دعا نقل کی گئی ہے۔ اس دعاء کے الفاظ اگرچہ انتہائی مختصر ہیں، مگر اس کے مفہوم میں دنیا وآخرت کی تمام بھلائیوں اور اچھائیوں کی طلب اور تمام مصائب و مشکلات سے پناہ شامل ہے۔ ذیل میں مذکورہ روایت کا ترجمہ، حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا مختصر تعارف اور مذکورہ دعا سے متعلق فوائد ذکر کئے جاتے ہیں: 
’’عَنِ العَبَّاسِ بْنِ عَبْدِالْمُطَّلِبِ رضی اللہ عنہ، قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! عَلِّمْنِی شَیْئًا أَسْأَلُہُ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ: سَلِ اللّٰہَ العَافِیَۃَ، فَمَکَثْتُ أَیَّامًا ثُمَّ جِئْتُ فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ! عَلِّمْنِيْ شَیْئًا أَسْأَلُہُ اللّٰہَ، فَقَالَ لِیْ: یَا عَبَّاسُ! یَا عَمَّ رَسُوْلِ اللّٰہِ! سَلِ اللّٰہَ العَافِیَۃَ فِيْ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ۔‘‘ (ترمذی، ابواب الدعوات، ج: ۲، ص: ۱۹۱، ط: قدیمی)
’’حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ارشاد فرماتے ہیں کہ: میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے ایسی چیز بتائیے جو میں اللہ تعالیٰ سے مانگوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اللہ سے عافیت مانگو۔ میں کچھ دن ٹھہرا رہا اور پھر دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گیا اور میں نے کہا: یا رسول اللہ! مجھے ایسی چیز بتائیے جو میں اللہ تعالیٰ سے مانگوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے کہا: اے عباس! اے رسول اللہ کے چچا! اللہ سے دنیا وآخرت میں عافیت مانگا کرو۔‘‘
حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ: 
حضرت عباس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہیں اور عمر میں آپ سے دو سال بڑے تھے، اسلام کی دولت سے مشرف ہونے سے قبل بھی حضرت عباس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت اور حمایت میں پیش پیش رہتے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہمیشہ فکرمند ہوتے۔ ہجرت سے قبل موسمِ حج میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف قبائل کے افراد کو دینِ اسلام کی دعوت دیتے اور اس دوران مدینہ منورہ کے قبائل کے لوگ اسلام میں داخل ہوتے گئے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ اقدس پر بیعت بھی کرتے رہے، اس سلسلہ کی ایک بیعت سن ۱۳ ہجری میں منعقد ہوئی، جسے ’’بیعتِ عقبہ ثانیہ‘‘ کہا جاتا ہے، اس سال حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ سے مسلمانوں کا ایک قافلہ لے کر حج کے لئے مکہ آئے، جن میں تقریباً پچھتر افراد تھے، ان حضرات نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس منیٰ کی گھاٹی میں تشریف لے گئے، اس دوران حضرت عباس رضی اللہ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ انصار کے اس قافلے سے مخاطب ہوکر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت فرمایا تھا کہ: 
’’محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنی قوم میں نہایت عزت اور وقعت والے ہیں، اور ہم ان کے حامی اور مددگار ہیں، اور وہ تمہارے یہاں (مدینہ) آنا چاہتے ہیں، اگر تم ان کی پوری پوری حمایت اور حفاظت کرسکو اور مرتے دم تک اس پر قائم رہو تو بہتر ہے، ورنہ ابھی سے صاف جواب دے دو۔‘‘ (سیرۃ المصطفیٰ، انصار کی دوسری بیعت، ج: ۱، ص: ۳۴۱ ،۳۴۲، ط: الطاف اینڈ سنز)
پھر انصار کی یہ جماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم کلام ہوئی، اور باہمی عہد وپیمان باندھے گئے اور آخر میں بیعت کی گئی۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اعلانیہ طور پر فتح مکہ سے کچھ قبل اسلام کا اظہار فرمایا۔
ادب کا لحاظ رکھنا:
حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نہایت ہی محبت اور والہانہ تعلق تھا، اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا ہی ادب کیا کرتے تھے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ چونکہ عمر میں سرکارِدو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے دو سال بڑے تھے، لیکن عمر کے اس تفاوت کو کبھی اس انداز میں بیان نہیں کرتے تھے، جس سے ظاہری طور پر بھی کسی قسم کی بے ادبی کا اندیشہ ہو۔ جواب دینے کا انداز ہی نرالا اور کمالِ ادب پر مبنی ہوتا تھا، اگر کوئی شخص ان سے سوال کرتا کہ: ’’أَیُّمَا أَکْبَرُ أَنْتَ أَمِ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’آپ بڑے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؟‘‘ اس سوال کا آسان جواب تو یہ تھا کہ فرماتے: ’’میں عمر میں بڑا ہوں۔‘‘ لیکن بجائے اس جواب کے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے جواب کا انداز یہ ہوتا تھا کہ: ’’ہُوَ أَکْبَرُ مِنِّي، وَأَنَا وُلِدْتُ قَبْلَہٗ‘‘ بڑے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں، ہاں! پیدا پہلے میں ہوا تھا، یعنی میری پیدائش پہلے کی ہے، باقی بڑے تو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ دیکھئے! کس قدر مؤدبانہ اندازِگفتگو اور جواب ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا یہ ایک نمونہ ہے۔ ظاہری گفتگو میں بھی آداب اور محبت کا کس قدر لحاظ فرمایا کرتے تھے، رضي اللّٰہ عنہم أجمعین۔
حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا مقام پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا بڑا احترام فرماتے تھے، اور لوگوں کو بھی ان کے اکرام وتعظیم کا حکم دیتے تھے۔ ترمذی شریف میں ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں شکوہ کیا کہ یارسول اللہ! بعض لوگ آپس میں تو بڑی بشاشت کے ساتھ ملتے ہیں اور جب ہم سے آمنا سامنا ہوتاہے تو وہ بشاشت ان کے چہروں پر باقی نہیں ہوتی، ہم سے ملاقات کے وقت ان کے چہروں سے مسکراہٹ ختم ہوجاتی ہے، یعنی ہم سے اس طرح کا سلوک کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض ہوئے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ انور سرخ ہوگیا اور پھر ارشاد فرمایا: ’’وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہٖ لاَ یَدْخُلُ قَلْبَ رَجُلٍ الإِیْمَانُ حَتّٰی یُحِبَّکُمْ لِلّٰہِ وَلِرَسُوْلِہٖ۔‘‘۔۔۔۔۔ ’’ اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، تم میں سے کسی شخص کے دل میں ایمان اس وقت تک داخل نہیں ہو سکتا، جب تک وہ تمہیں اللہ اور اس کے رسول کے لیے محبوب نہ رکھے۔‘‘ یعنی جب تک دل میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر اہلِ بیت کی عظمت موجود نہ ہو، اس دل میں ایمان داخل نہیں ہوسکتا۔ نیز یہ بھی ارشاد فرمایا کہ: ’’یَا أَیُّہَا النَّاسُ مَنْ آذٰی عَمِّيْ فَقَدْ آذَانِيْ فَإِنَّمَا عَمُّ الرَّجُلِ صِنْوُ أَبِیْہِ۔‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’اے لوگو! جس نے میرے چچا کو تکلیف پہنچائی، اس نے مجھے تکلیف پہنچائی، اس لیے کہ کسی بھی شخص کا چچا باپ کی مانند ہوتا ہے۔‘‘ (ترمذی، مناقب ابی الفضل عم النبی صلی اللہ علیہ وسلم وھو العباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ، ج:۲، ص:۲۱۷، ط: قدیمی)
یہ یاد رہے کہ اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کی محبت بھی ہمارے ایمان کاحصہ ہے اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت بھی ہمارے ایمان کا جزو ہے۔ ہم اہلِ بیت رضي اللّٰہ عنہم أجمعین سے محبت کی آڑ میں صحابہ رضي اللّٰہ عنہم أجمعین کی تنقیص یا ان پر تنقید کو روا نہیں سمجھتے اور اہلِ بیت عظام رضي اللّٰہ عنہم أجمعین سے متعلق دل میں کوئی بات رکھنے کو بھی ایمان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ یہ حضرات سب کے سب بڑے اونچے لوگ تھے، اللہ تعالیٰ نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کی برکت سے انہیں بڑا اونچا مقام نصیب فرمایا تھا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہاں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا مقام:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی عظمت کے معترف تھے اور ان کی خوب قدر وعزت فرمایا کرتے تھے۔ امیرالمؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعا مانگا کرتے تھے،بخاری شریف میں ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: جب کبھی بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط سالی ہوتی تو امیرالمؤمنین عمربن خطاب رضی اللہ عنہ دعا کرتے: ’’اللّٰہُمَّ إِنَّا کُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَیْکَ بِنَبِیِّنَا فَتَسْقِینَا۔‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’اے اللہ! ہم تیرے نبی کے وسیلہ سے تجھ سے دعا کرتے تھے، پس تو ہمیں سیراب کرتا تھا۔‘‘ اور اب پیغمبر تو دنیاسے تشریف لے گئے ہیں: ’’وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَیْکَ بِعَمِّ نَبِیِّنَا فَاسْقِنَا۔‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’اب ہم آپ سے اپنے نبی کے چچا کے وسیلہ سے دعا کرتے ہیں، پس تو ہمیں سیراب کر۔‘‘ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: (اس دعا کی برکت سے) بارش ہوجاتی تھی۔ علماء نے لکھا ہے کہ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے دعا مانگتے تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ بارگاہِ الٰہی میں ہاتھ اُٹھاتے اورفرماتے کہ: ’’اے پروردگار! تیرے پیغمبر کی اُمت نے میرا وسیلہ اختیار کیا ہے، خداوند! تو میرے اس بڑھاپے کو رسوا مت کر اور مجھے ان کے سامنے شرمندہ نہ کر۔‘‘ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ و دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی دعا اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ان الفاظ میں اتنی تاثیر ہوتی تھی کہ جلدہی بارش شروع ہو جاتی تھی۔ بہرکیف! مذکورہ روایت میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے دو بار سوال کیا اور دونوں بار جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے محبوب چچا کو عافیت کی دعا مانگنے کا حکم دیا۔ اس سے عافیت کی دعا مانگنے کی اہمیت اور فضیلت معلوم ہوتی ہے۔
عافیت کیا ہے؟
اب سوال یہ ہے کہ عافیت کے معنی کیا ہیں؟ جس کے مانگنے کا حکم دیا گیا ہے۔ علماء نے لکھا ہے کہ: عافیت نہایت ہی مختصر اور جامع لفظ ہے، اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خصوصیت بلکہ آپ کے معجزات میں سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ’’جوامع الکلم‘‘ یعنی ایسے مختصر کلمات عطا فرمائے تھے جن کے معانی انتہائی گہرے اور عمیق ہوں۔ ایک طویل حدیث میں خود رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: اللہ تعالیٰ نے مجھے جو خصوصیات عطا فرمائی ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ: ’’وَأُوْتِیْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمِ۔‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’مجھے جامع کلمات عطا ہوئے ہیں۔‘‘ اور اس کامطلب یہ ہے کہ دین کی حکمتیں اور احکام، ہدایت کی باتیں، مذہبی ودنیاوی امور سے متعلق دوسری چیزوں کو بیان کرنے کا ایسا مخصوص اسلوب اللہ نے مجھے عطا فرمایا ہے جو نہ پہلے کسی نبی اور رسول کو عطا ہوا اور نہ دنیا کے کسی بھی بڑے سے بڑے فصیح وبلیغ انسان کو نصیب ہوا! اور اس اسلوب کی خصوصیت یہ ہے کہ انتہائی مختصر سے الفاظ کے ایک چھوٹے سے جملہ میں معانی ومفہوم کا ایک گنجینہ پنہاں ہوتا ہے۔ اگر اس جملہ کو پڑھیں اور لکھیں تو چھوٹی سی سطر بھی پوری نہ ہو، لیکن اس کا فہم اور وضاحت اور تشریح بیان کریں تو کتاب کی کتاب تیار ہوجائے، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وارشادات میں اس طرح کے کلمات کی ایک بڑی تعداد ہے جن کو ’’جوامع الکلم‘‘ کہا جاتا ہے، لہٰذایہ عافیت کی دعا بھی ’’جوامع الکلم‘‘ میں سے ہے، یعنی جامع دعاؤں میں سے ہے، اس لیے ہر انسان کو اسے یاد کرنا چاہیے اور ہمہ وقت اللہ سے عافیت کی دعا مانگتے رہنا چاہیے۔
صاحبِ مظاہرِحق علامہ نواب قطب الدین خان دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ عافیت مانگنے کو بہت پسند کرتا ہے، اس کے برابر اور کسی چیز کے مانگنے کو پسند نہیں کرتا۔ عافیت کے معنی ہیں: دنیا و آخرت کی تمام ظاہری و باطنی غیرپسندیدہ چیزوں، تمام آفات و مصائب، تمام بیماریوں اور تمام بلاؤں سے سلامتی و حفاظت، لہٰذا عافیت‘ دنیا و آخرت کی تمام بھلائیوں پر حاوی ہے۔ جس نے عافیت مانگی، اس نے گویا دنیا وآخرت کی تمام ہی بھلائیاں مانگ لیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ عافیت مانگنے کو پسند کرتا ہے، (نسأل اللّٰہَ العافیۃَ)۔‘‘
حضرت ڈاکٹر عبدالحی عارفی رحمۃ اللہ علیہ قریب کے زمانہ میں بڑے بزرگ گزرے ہیں، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے، وہ فرمایا کرتے تھے کہ:
’’عافیت بہت بڑی چیز ہے، بہت اونچی نعمت ہے، اور عافیت کے مقابلے میں دنیا کی ساری دولتیں ہیچ ہیں، کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتیں۔ نیز وہ فرماتے تھے کہ: عافیت دل ودماغ کے سکون کو کہتے ہیں، اور یہ سکون اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ دولت اللہ تعالیٰ بغیر کسی سبب اور استحقاق کے عطا فرماتے ہیں۔ عافیت کوئی آدمی خرید نہیں سکتا، نہ روپیہ پیسے سے عافیت خریدی جاسکتی ہے، نہ سرمایہ سے اور نہ ہی منصب سے کوئی عافیت حاصل کرسکتا ہے۔ عافیت کا خزانہ صرف اور صرف خدا تعالیٰ کے پاس ہے، اس کی ذات کے سوا کوئی عافیت نہیں دے سکتا۔‘‘
اذان اور اقامت کے درمیان عافیت کی دعا مانگنے کا حکم:
کچھ اوقات اور کچھ مقامات قبولیتِ دعا کے لیے خاص ہیں، ان اوقات میں سے ایک اذان اور اقامت کے درمیان کا وقت بھی ہے، لہٰذا اس وقت میں آدمی کو اپنے لیے، اپنے اہل وعیال، متعلقین اور پوری اُمتِ مسلمہ کے لیے، دینی اور دنیاوی مقاصد کے لیے خوب دعا کرنی چاہیے، اور اس وقت عافیت کی دعا بھی مانگنی چاہیے، چنانچہ ترمذی شریف میں ہی حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یہ روایت بھی منقول ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’الدُّعَائُ لاَ یُرَدُّ بَیْنَ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَۃِ۔‘‘ اذان اور اقامت کے درمیان کی جانے والی دعا رَد نہیں کی جاتی، حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم نے سوال کیا کہ یہ قبولیت کے اوقات میں سے ایک اہم وقت ہے، ہمیں موقع ملے تو اللہ تعالیٰ سے اس قبولیت کے وقت میں کیا دعا مانگیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’سَلُوا اللّٰہَ الْعَافِیَۃَ فِيْ الدُّنْیَا وَالْأٰخِرَۃِ۔‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’اس وقت بھی اپنے رب سے دنیااور آخرت کی عافیت کی دعا مانگا کرو۔‘‘
صبر اور سزا کے بجائے عافیت مانگیں:
صبر کی بجائے آدمی کو اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگنی چاہیے، احادیثِ مبارکہ میں ہمیں یہی حکم دیاگیا ہے، چنانچہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جو یہ دعا مانگ رہا تھا: ’’اللّٰہُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُکَ الصَّبْرَ‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’اے اللہ! میں آپ سے صبر مانگتا ہوں۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے منع فرمادیا کہ: ’’سَأَلْتَ اللّٰہَ الْبَلاَئَ ۔‘‘ صبر تو بلاء ومصیبت پر ہوتا ہے،’’فَسَلْہُ العَافِیَۃَ‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’تم اللہ سے صبر کی دعا مانگنے کی بجائے عافیت کی دعا مانگو۔‘‘
مشکوٰۃ شریف میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ایک واقعہ منقول ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے، وہ شخص پرندے کے بچے کی طرح لاغر اور کمزور ہوچکے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ: ’’أَمَا کُنْتَ تَدْعُوْ؟ أَمَا کُنْتَ تَسْأَلُ رَبَّکَ الْعَافِیَۃَ؟‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’کیا تم دعانہیں کرتے تھے؟ کیا تم اللہ سے عافیت نہیں مانگتے تھے؟ انہوں نے عرض کیا کہ: میں اللہ سے دعا کرتا تھا کہ اے اللہ!جو عذاب تو نے مجھے آخرت میں دینا ہے، وہ دنیا ہی میں دے دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سُبْحَانَ اللّٰہِ!‘‘ تم اس کی طاقت نہیں رکھتے تھے اور تم میں اتنی استطاعت ہی نہیں، تم یہ دعا کیوں نہیں کرتے تھے: ’’اللّٰہُمَّ أٰتِنَا فِيْ الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِيْ الْأٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔‘‘ یعنی ’’اے اللہ! ہمارے ساتھ دنیا و آخرت میں بھلائی کا معاملہ فرما اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔‘‘ معلوم ہوا کہ انسان کو ہمیشہ دنیاوآخرت کی بھلائی اور عافیت کی دعا مانگنی چاہیے۔
سب سے افضل دعا عافیت کی طلب ہے:
سننِ ابن ماجہ میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ :ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ: ’’یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! أَيُّ الدُّعَائِ أَفْضَلُ؟‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’اے اللہ کے رسول! کون سی دعا افضل ہے؟‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سَلْ رَبَّکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِيْ الدُّنْیَا وَالْأٰخِرَۃِ‘‘ اپنے رب سے دنیا وآخرت میں عفو اور عافیت کا سوال کرو، پھر دوسرے روز بھی یہی سوال وجواب ہوا، پھر تیسرے دن یہ شخص حاضر ہوا اور کہنے لگا: ’’یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! أَيُّ الدُّعَائِ أَفْضَلُ؟‘‘۔۔۔۔۔ ’’اے اللہ کے نبی! کون سی دعا افضل ہے؟‘‘ ۔۔۔۔۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سَلْ رَبَّکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِيْ الدُّنْیَا وَالْأٰخِرَۃِ فَإِذَا أُعْطِیْتَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِيْ الدُّنْیَا وَالْأٰخِرَۃِ فَقَدْ أَفْلَحْتَ۔‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’اپنے رب سے دنیا وآخرت میں عفو اور عافیت کا سوال کرو، جب تمہیں دنیا وآخرت میں عفو اور عافیت مل جائے تو تحقیق تم کامیاب ہوگئے۔‘‘
مشکوٰۃ شریف میں بحوالہ ترمذی یہ حدیث مذکور ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مَنْ فُتِحَ لَہٗ مِنْکُمْ بَابُ الدُّعَائِ فُتِحَتْ لَہٗ أَبْوَابُ الرَّحْمَۃِ وَمَا سُئِلَ اللّٰہُ شَیْئًا یَعْنِيْ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِنْ أَنْ یُسْأَلَ الْعَافِیَۃَ۔‘‘ یعنی ’’تم میں سے جس کے لیے دعا کے دروازے کھولے گئے، اس کے لیے رحمت کے دروازے کھول دیئے گئے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس سے عافیت مانگنا ہر چیز مانگنے سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘
مسند احمد بن حنبل میں امیرالمؤمنین سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے ایک طویل روایت میں یہ منقول ہے، ارشاد فرماتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ’’لَمْ تُؤْتُوْا شَیْئًا بَعْدَ کَلِمَۃِ الْإِخْلَاصِ مِثْلَ الْعَافِیَۃِ فَسَلُوْا اللّٰہَ الْعَافِیَۃَ۔‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’کہ تمہیں کلمۂ اخلاص (کلمۂ شہادت) کے بعد عافیت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں دی گئی، لہٰذا تم اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کیا کرو۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی بڑی کثرت سے رب العالمین سے عافیت کی دعا مانگا کرتے تھے، احادیثِ مبارکہ میں مختلف الفاظ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عافیت کی دعائیں مانگنا منقول ہے، اس دعا کو آپ ہمیشہ اپنے معمولات میں شامل فرماتے تھے، چنانچہ ابوداؤد شریف اور دیگرحدیث کی کتابوں میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے یہ روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صبح وشام نہایت پابندی سے ان الفاظ کے ذریعہ دعا مانگتے: ’’اَللّٰہُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُکَ الْعَافِیَۃَ فِيْ الدُّنْیَا وَالْأٰخِرَۃِ اَللّٰہُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِيْ دِیْنِيْ وَدُنْیَايَ وَأَہْلِيْ وَمَالِيْ اَللّٰہُمَّ اسْتُرْ عَوْرَتِيْ۔‘‘ بہتر تو یہی ہے کہ یہ پوری دعا یاد کی جائے اور صبح و شام اس کے پڑھنے کو معمول بنایا جائے، تاہم مکمل یاد نہ ہوتو کم ازکم ’’اللّٰہُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُکَ الْعَافِیَۃَ فِيْ الدُّنْیَا وَالْأٰخِرَۃِ۔‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’اے اللہ! میں آپ سے دنیاوآخرت کی عافیت طلب کرتا ہوں۔‘‘ نہایت ہی مختصر سے الفاظ ہیں، ان الفاظ کے ساتھ اس دعا کو یاد کرلینا چاہیے، اور اگر عربی الفاظ یاد نہ ہوں تو اُردو میں یہ دعا مانگ لیا کریں۔ یہ دعااللہ رب العزت کو بڑی پسند ہے، بندے اپنے پروردگار سے عافیت مانگتے رہیں، اللہ تعالیٰ اس مانگنے کو سب سے زیادہ پسند فرماتے ہیں۔
حضرت یوسف علیہ السلام کا جیل جانا:
حضرت یوسف علیہ وعلیٰ نبیناالصلوات والتسلیمات جلیل القدر پیغمبر ہیں، ان کا طویل واقعہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی سورۂ یوسف میں ذکر فرمایا ہے، ان پر جو آزمائش آئی تھی‘ جس میں وہ ثابت قدم رہے، اس کا بھی مفصل تذکرہ قرآن کریم میں موجود ہے۔ زلیخا نے جب یوسف علیہ السلام کو بہلاناپھسلانا چاہا اور کہاکہ میری بات نہ مانی تو میں جیل بھجوادوں گی۔ یوسف علیہ السلام نے اس موقع پر دعا کی: ’’رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا یَدْعُوْنَنِیْ إِلَیْہِ۔‘‘ کہ ’’اے میرے پروردگار! یہ عورتیں مجھے جس کام کی طرف دعوت دیتی ہیں‘ اس سے تو مجھے جیل خانہ زیادہ پسند ہے۔‘‘ اس آیت کے تحت بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ: بعض روایات میں ہے جب یوسف علیہ السلام قید میں ڈالے گئے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آئی: ’’یَا یُوْسُفُ أَنْتَ حَبَسْتَ نَفْسَکَ حَیْثُ قُلْتَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إلَيَّ وَلَوْ قُلْتَ الْعَافِیَۃُ أَحَبُّ إلَيَّ لَعُوْفِیْتَ‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’اے یوسف! آپ نے قید میں اپنے آپ کو خود ڈالا ہے ،کیونکہ آپ نے کہا تھا: ’’اَلسِّجْنُ اَحَبُّ إِلَيَّ‘‘۔۔۔۔۔ ’’میرے رب! مجھ کو جیل خانہ زیادہ پسند ہے۔‘‘ اور اگر آپ عافیت مانگتے تو آپ کو مکمل عافیت مل جاتی۔‘‘ اور اس آزمائش سے نجات بھی مل جاتی۔ 
اس سے معلوم ہوا کہ کسی بڑی مصیبت سے بچنے کے لیے دعا میں یہ کہنا کہ اس سے تو یہ بہتر ہے کہ فلاں چھوٹی مصیبت میں مجھے مبتلاکر دے، ایسی دعا بھی مناسب نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ سے ہر مصیبت اور بلاء کے وقت عافیت ہی مانگنی چاہیے۔
کثرتِ دولت سے عافیت افضل ہے:
کثرتِ دولت ہر فرد کے حق میں مفید نہیں ہوتی، سوائے ان لوگوں کے جنہیں اللہ تعالیٰ کثرتِ دولت کے ساتھ ساتھ دین کی نعمت اور اپناخوف بھی نصیب فرمائیں اور وہ مال کے تمام حقوق ادا کرنے والے بنیں، ورنہ تموُّل یعنی دولت کی فروانی انسان کو ہزاروں فکروں اور پریشانیوں میں ڈال دیتی ہے۔ عافیت کے بغیر مال ودولت ہیچ ہیں۔ لکھنؤ کے ایک نواب کا واقعہ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس نواب کا معدہ اتنا کمزور ہوگیا تھا کہ کوئی کھانے کی چیز معدہ ہضم نہیں کر پارہا تھا، حتیٰ کہ ململ کے کپڑے میں قیمہ رکھ کر چوسا کرتا تھا، وہ بھی ہضم نہیں ہوتا تھا۔ اسی شہر کے کنارے ایک لکڑہارے (جوجنگل سے لکڑیاں جمع کرکے لاکر شہر میں فروخت کرتا ہے) کا مکان تھا، اس نواب صاحب نے ایک دن دیکھاکہ وہ لکڑہارا لکڑیاں سرپر اُٹھاکر لارہاہے اور گھر پہنچ کر اس نے لکڑیوں کا گٹھا سر سے اُتارا، ہاتھ منہ دھوئے اور اپنے پاس تھیلی سے دو روٹیاں نکالیں، پیاز سے کھانا کھایا اور وہیں سوگیا۔ اس نواب صاحب کو نیند بھی نہیں آتی تھی۔ لکڑہارے کی یہ صورت حال دیکھ کر نواب صاحب اپنے دوستوں سے کہنے لگا کہ: میں دل سے راضی ہوں اگر میری یہ حالت ہوجائے، یعنی پیاز سے ہی روٹی کھاکر میں ہضم کرسکوں اور اس طرح جلدی پُرسکون نیند مجھے مل جائے، تو اس کے عوض میں اپنی ساری نوابی اور ساری ریاست دینے کو تیار ہوں۔ نواب کے پاس سب کچھ تھا، حتیٰ کہ ان کے کتے بھی سب کچھ کھاتے تھے، لیکن نواب صاحب اس نعمت سے محروم تھے۔ اس لیے انسان کثرتِ مال واسباب کی بجائے اپنے رب سے عافیت اور سکون مانگے، عافیت اور سکون میسر ہو تو تھوڑا بہت بھی کافی ہوجاتا ہے اور انسان کی زندگی پُرسکون گزرتی ہے، ورنہ ساری دولت کے موجود ہوتے ہوئے انسان اس سے کچھ فائدہ نہیں اُٹھاسکتا، وہ انسان کے کسی کام کی نہیں۔ اس لیے بعض بزرگوں کا یہ قول کتابوں میں منقول ہے کہ: ’’القلیل مع العافیۃ خیر من الکثیر مع القوارع۔‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’عافیت کے ساتھ تھوڑا مال اُس زیادہ مال سے بہتر ہے جو مصیبتوں کے ساتھ ہو۔‘‘ البتہ انسان کی لالچ، طمع کے بغیر اگر اللہ تعالیٰ کچھ عطا فرمادیں تو وہ اللہ کی نعمت ہے، انسان پھر اس کا حق ادا کرے۔
ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ علیہ کی انگوٹھی کا نقش:
بہرحال! عافیت بہت بڑی دولت ہے، اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، اور تمام بزرگانِ دین عافیت کی دعا مانگا کرتے تھے۔ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ علیہ - جو بڑے محدث گزرے ہیں- کے بارے میں نقل کیا ہے کہ انہوں نے ایک انگوٹھی بنوا رکھی تھی اور اس انگوٹھی میں یہ عبارت کندہ کروائی تھی، یعنی یہ نقش انگوٹھی میں لکھوا رکھا تھا ’’محمد یسأل اللّٰہَ العافیۃَ‘‘ کہ ’’محمد اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کرتا ہے۔‘‘ ان کا نام محمد بن شہاب زہری ہے، انہوں نے یہ دعا لکھوائی ہوئی تھی کہ: ’’محمد اللہ تعالیٰ سے عافیت کا سوال کرتا ہے۔‘‘
انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو صحت نصیب ہوتی ہے، بلاؤں، پریشانیوں اور امراض سے انسان محفوظ رہتا ہے، یہ بھی عافیت کا حصہ ہے، صحت کے زمانہ میں اس عافیت کی دولت کی قدر ہمیں نہیں ہوتی، اسی لیے عقل مندوں کا یہ قول ہے کہ: ’’العافیۃ تاج علٰی رؤوس الأصحاء لایراہ إلا المرضٰی۔‘‘ کہ ’’عافیت تو ایک تاج ہے جو تندرست لوگوں کے سروں پر سجا ہوا ہے، وہ خود تو اس تاج کو نہیں دیکھ سکتے، ہاں! جو مریض ہوں‘ وہ اس تاج کو تندرستوں کے سروں پر دیکھ رہے ہوتے ہیں۔‘‘
ایک بزرگ کا ہمہ وقت عافیت کا سوال کرنا:
ایک اللہ والے کے بارے میں منقول ہے کہ وہ ہمیشہ یوں کہا کرتے تھے: ’’(اے اللہ!) عافیت، عافیت (عطا فرما)۔‘‘ ایک بار اُن سے پوچھا گیا: ’’مَا معنٰی ہٰذا الدُّعاء؟‘‘ اس دعا کا کیا مطلب ہے؟ آپ ہمیشہ عافیت کی طلب میں لگے رہتے ہیں۔ وہ کہنے لگے: میں پہلے بار برداری کا کام کرتا تھا، یعنی مزدور تھا، سامان بوجھ وغیرہ اُٹھایا کرتا تھا، ایک دن میں آٹے کا بھاری بھرکم بوجھ اپنے اوپر لادے ہوئے تھا، جس کی وجہ سے مجھے بہت مشقت اور تکلیف ہوئی، میں نے تھک کر کچھ دیر کے لیے اس بوجھ کو رکھا، تاکہ تھوڑا دم لے لوں، اس وقت میں اللہ سے یوں دعامانگنے لگا: ’’یا رب! ولو أعطَیتَنیْ کلّ یوم رغیفین من غیر تعب لکنتُ أکتفي بِہِمَا‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’پروردگار! اگر تو مجھے روزانہ صرف دو روٹیاں بغیر محنت ومشقت کے عطا کردے تو میرے لیے کافی ہیں، میں اسی پر قناعت کیے رہوں گا۔‘‘ اتنے میں ٗمیں نے دیکھا کہ دو آدمی لڑ رہے ہیں، میں ان کے درمیان صلح صفائی کی غرض سے آگے بڑھا ہی تھا کہ اچانک ایک آدمی نے غلطی سے میرے سر پر کوئی چیز دے ماری، جو وہ دوسرے آدمی کو مار رہا تھا، مگر غلطی سے میرے سر پر لگ گئی، چنانچہ میرا چہرہ خون آلود ہوگیا، پولیس والا پہنچا اور اس نے ان دونوں آدمیوں کو پکڑلیا، جب اس نے مجھے خون آلود دیکھا تو یہ سمجھا کہ میں بھی اس لڑائی میں ملوث ہوں، اس نے مجھے بھی مجرم سمجھ کر گرفتار کرلیا، چنانچہ مجھے بھی جیل پہنچادیا۔ ایک مدت تک میں جیل میں رہا، جہاں مجھے روزانہ دو روٹیاں ملا کرتی تھیں۔ ایک رات خواب میں ٗمیں نے ایک ہاتف غیبی (غیب سے آواز لگانے والے) کو سنا کہ وہ مجھ سے مخاطب ہوکر یہ کہہ رہا ہے: ’’إنّک سألتَ الرّغیفین کلَّ یومٍ من غیر نصب، ولَمْ تسأل العافیۃَ!‘‘ تو نے روزانہ کی دو روٹیاں بلامشقت مانگی تھیں، عافیت نہیں مانگی تھی! تو میں نے تجھے تیرا مانگا دے دیا، یعنی اللہ سے عافیت مانگنی چاہیے تھی کہ اے اللہ! اس کام میں بہت محنت، مشقت اور تکلیف ہے، مجھے آسان ذریعۂ معاش نصیب فرما اور عافیت دے۔ اس دعاکے بجائے تو نے یہ کہا تھا کہ: ’’دوروٹیاں مل جائیں‘‘ لہٰذا دو روٹیوں کی طلب تجھے جیل تک لے آئی۔ بزرگ کہتے ہیں کہ مجھے اس وقت ہوش آیا اور سمجھ آئی کہ مجھے عافیت مانگنی چاہیے، تو اَب میں فوراً یوں ہی کہنے لگا: عافیت، عافیت۔ چنانچہ میں نے دیکھا کہ جیل کا دروازہ کھٹکا اور پوچھا گیا: ’’أین عمر الحمال؟‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’عمر باربردار کہاں ہے؟‘‘ میں نے کہا: میں ہوں۔ عافیت کی دعاء کے بعد مجھے جیل سے نجات اور رہائی مل گئی۔ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ سے پریشانی اور مشقت کے ازالے کے لیے عافیت کی دعا مانگنی چاہئے کہ اے اللہ! میں کمزور ہوں، مجھے عافیت نصیب فرما۔ اب عافیت میں ساری بھلائیاں اور سہولیات شامل ہوجائیں گی، لہٰذا ہم ہر لحاظ سے اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگتے رہیں، اپنی ذات کے لحاظ سے بھی، اپنے اہل وعیال کے لحاظ سے بھی، دنیاوی واُخروی زندگی کے لحاظ سے بھی۔ (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2021/09/blog-post_12.html



Saturday, 11 September 2021

فقر اور تنگدستی دور کرنے متعلق ایک روایت کی تحقیق

عنوان: فقر اور تنگدستی دور کرنے متعلق ایک روایت کی تحقیق
سوال: ایک صحابی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا نے مجھ سے پیٹھ پھیرلی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تجھے وہ تسبیح یاد نہیں، جو تسبیح فرشتوں اور مخلوق کی ہے، جس کی برکت سے روزی دی جاتی ہے،جب صبح صادق طلوع ہوتو یہ تسبیح 100 مرتبہ پڑھا کرو، (سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم استغفراللہ) دنیا تمھارے پاس ذلیل ہوکر آئیگی،وہ شخص چلا گیا،کچھ مدت ٹھہرکر دوبارہ حاضر خدمت ہوا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میرے پاس اس کثرت سے آئی کہ میں حیران ہوں کہ کہاں اٹھاؤں اور کہاں رکھوں۔ بحوالہ الخصائص الکبری للسیوطی، ج 2، ص 299 مفتی صاحب! اس کی تصدیق فرمادیں۔
جواب: سوال میں ذکر کردہ روایت کو امام دیلمی نے "مسند فردوس"(ج: 2، ص: 389، ط: دارالکتب العلمیہ) اورعلامہ سیوطی نے الخصائص الکبری (ج: 2، ص: 299، ط: دارالکتب العلمیہ) میں خطیب بغدادی کی "رواة مالک" کے حوالے سے نقل کیا ہے اور حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے "لسان المیزان" (ج: 3، ص: 435، ط: دارالمعارف النظامیہ) میں عبدالرحمن بن محمد الیحمدی کے تذکرے میں اس روایت کو مختلف طرق سے نقل کیا ہے اور پھر فرمایا: ﻭﻗﺪ ﺭﻭاﻩ ﺟﻤﺎﻋﺔ ﺑﺄﺳﺎﻧﻴﺪ ﻛﻠﻬﺎ ﺿﻌﺎﻑ۔
کہ ایک جماعت نے اس روایت کو مختلف اسانید سے نقل کیا ہے اور سارے کے سارے ضعیف ہیں۔
خلاصہ کلام:
اس روایت کو ضعف کی نشاندہی کئے بغیر بیان نہ کیا جائے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
لما فی لسان المیزان:
"ﻋﺒﺪاﻟﺮﺣﻤﻦ" ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ اﻟﻴﺤﻤﺪﻱ ﻭﻳﻘﺎﻝ اﻟﺘﻤﻴﻤﻲ ﺷﻴﺦ ﻣﺠﻬﻮﻝ ﺭﻭﻯ ﻋﻨﻪ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻏﺎﻟﺐ اﻟﻤﻌﺮﻭﻑ ﺑﻐﻼﻡ ﺧﻠﻴﻞ ﻭﻫﻮ ﺗﺎﻟﻒ ﻭﺃﺧﺮﺝ اﻟﺪاﺭﻗﻄﻨﻲ ﻓﻲ اﻟﺮﻭاﺓ ﻋﻦ ﻣﺎﻟﻚ ﻋﻦ ﺩاﻭﺩ ﺑﻦ ﺣﺒﻴﺐ ﻋﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻏﺎﻟﺐ ﻋﻨﻪ ﻋﻦ ﻣﺎﻟﻚ ﻋﻦ ﻧﺎﻓﻊ ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﻤﺮ ﻗﺎﻝ: ﻗﺎﻝ ﺭﺟﻞ ﻳﺎ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺇﻥ اﻟﺪﻧﻴﺎ ﺃﺩﺑﺮﺕ ﻋﻨﻲ ﻓﻘﺎﻝ: "ﺃﻳﻦ ﺃﻧﺖ ﻣﻦ ﺻﻼﺓ اﻟﻤﻼﺋﻜﺔ ﻭﺗﺴﺒﻴﺢ اﻟﺨﻼﺋﻖ ﻭﺑﻪ ﻳﺮﺯﻗﻮﻥ ﻗﻞ ﻋﻨﺪ ﻃﻠﻮﻉ اﻟﻔﺠﺮ ﺳﺒﺤﺎﻥ اﻟﻠﻪ اﻟﻌﻈﻴﻢ ﻭﺑﺤﻤﺪﻩ ﺳﺒﺤﺎﻥ اﻟﻠﻪ اﻟﻌﻈﻴﻢ اﺳﺘﻐﻔﺮاﻟﻠﻪ ﻣﺎﺋﺔ ﻣﺮﺓ ﺗﺄﺗﻚ اﻟﺪﻧﻴﺎ ﺻﺎﻏﺮﺓ ﺭاﻏﻤﺔ" ﻭﺃﺧﺮﺟﻪ اﻟﺨﻄﻴﺐ ﻣﻦ ﻃﺮﻳﻖ ﺃﺑﻲ اﻟﻔﺘﺢ اﻷﺯﺩﻱ ﻋﻦ ﻋﺒﺪاﻟﻠﻪ اﺑﻦ ﻏﺎﻟﺐ ﻋﻦ ﻏﻼﻡ ﺧﻠﻴﻞ ﻋﻦ ﻋﺒﺪاﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ اﻟﺘﻤﻴﻤﻲ ﺑﻪ ﻭﺃﺧﺮﺝ ﻣﻦ ﻃﺮﻳﻖ ﺃﺑﻲ ﺣﻤﺔ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﻮﺳﻒ ﻋﻦ ﻳﺰﻳﺪ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺣﻜﻴﻢ ﻋﻦ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﺑﻦ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ اﻟﻄﻬﻮﻱ ﻋﻦ ﻣﺎﻟﻚ ﻧﺤﻮﻩ ﻭﻗﺎﻝ ﻻ ﻳﺼﺢ ﻋﻦ ﻣﺎﻟﻚ ﻭﻻ ﺃﻇﻦ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﻟﻘﻲ ﻣﺎﻟﻜﺎ ﻭﻗﺪ ﺭﻭاﻩ ﺟﻤﺎﻋﺔ ﺑﺄﺳﺎﻧﻴﺪ ﻛﻠﻬﺎ ﺿﻌﺎﻑ ﺛﻢ ﺃﺧﺮﺝ ﻣﻦ ﻭﺟﻪ ﺁﺧﺮ ﻋﻦ اﻟﻤﻔﻀﻞ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﻋﻦ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﺑﻦ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ اﻟﻄﻬﻮﻱ ﻋﻦ ﻋﺒﺪاﻟﻠﻪ اﺑﻦ اﻟﻮﻟﻴﺪ ﻋﻦ ﻣﺎﻟﻚ ﻭﻣﻦ ﻃﺮﻳﻖ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﺟﻌﻔﺮ ﻋﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺃﻳﻮﺏ ﻋﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﺮﺏ ﻋﻦ ﻋﺒﺪاﻟﻠﻪ اﺑﻦ اﻟﻮﻟﻴﺪ ﺛﻢ ﺫﻛﺮ ﺃﻧﻪ ﺭﻭﻯ ﻋﻦ ﻋﺒﺪاﻟﻤﺠﻴﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪاﻟﻌﺰﻳﺰ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺭﻭاﺩ ﻋﻦ ﻣﺎﻟﻚ ﺑﺰﻳﺎﺩﺓ ﻓﻴﻪ. (ج: 3، ص: 435، ط: دارالمعارف النظامیہ)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب. دارالافتاء الاخلاص، کراچی (102240-No) (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2021/09/blog-post_81.html

کیا اسلام نے زانی بندر کو سنگسار کرنے کا حکم دیا ہے؟

چھترول برائے دیسی لبرل و ملحدین

کیا اسلام نے زانی بندر کو سنگسار کرنے کا حکم دیا ہے؟

بخاری کی ایک حدیث پہ منکرین حدیث و ملحدین کا اعتراض اور اس کا جواب

تحریر: احید حسن

حدیث میں ہے:

عن عمرو بن ميمون قال رايت فى الجاھلية قردة اجتمع عليھا قردة قد زنت فرجموھا فرجمتھا معھم۔

”عمرو بن میمون کہتے ہیں کہ جاہلیت میں مَیں نے دیکھا کہ ایک بندریا جس نے زنا کیا تھا دوسرے بندروں نے اکٹھے ہوکر اسے سنگسار کیا، میں نے بھی ان کے ساتھ اس بندریا کو سنگسار کیا۔“

اب یہ حدیث پڑھیں اور بتائیں اس میں ایک واقعہ بیان ہورہا ہے یا بندروں کے رجم یعنی زانی بندر کو سنگسار کرنے کا حکم دیا گیا ہے؟

بخاری میں ایک صحابی نے اپنا زمانہ جاہلیت کا ایک واقعہ بیان کیا ہے اور بس جس سے منکرین حدیث و ملحدین کو غلط فہمی ہوگئی کہ بندروں کو رجم کرنے کا حکن نازل ہوگیا ہے۔

وہ جاہل بندر بھی مار دیتے تھے اگر زنا کرتا دیکھ لیں۔ اس لئے جگہ دی ہے اسے امام بخاری نے بخاری میں۔

منکرین حدیث اس حدیث کو بھی اپنے اعتراض کا موضوع بناتے ہیں اور حدیث کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ کیا بندروں کے یہاں بھی نکاح و طلاق اور حدود و تعزیرات کا نظام لاگو ہے؟

پہلا جواب تو یہ ہے کہ بندروں کی شکل میں وہ جن تھے اور وہ بھی شریعت کے مکلف ہیں ۔ تورات میں رجم کا حکم تھا اور نص قرآنی سے ثابت ہے کہ جنوں کی ایک جماعت شریعت موسوی کی پابند تھی۔ (دیکھئے الاحقاف: ۲۶) یہاں محض ایک صحابی نے اپنا واقعہ بیان کیا۔ لیکن یہاں یہ حکم تو نہیں دیا گیا کہ بندر کو بھی سنگسار کردو.

دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر بندروں نے کسی بندریا کو اُس کی آوارگی پر پتھروں سے ہلاک کردیا تو اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں یہ کون سی عجیب بات ہوگئی جسے عقل و مشاہدہ قبول نہیں کرسکتے۔ جبکہ ماہر عمرانیات کی تصریحات موجود ہیں کہ بندر کے جسم کے ساتھ ساتھ اس کی سوچ بھی انسانوں سے مشابہت رکھتی ہے۔ جانوروں میں غیرت کا پایا جانا ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے، لہٰذا اُنھیں بھی غیرت آتی ہے۔

اس واقعہ میں نصیحت یہ ہے کہ انسان کے اندر غیرت ہونی چاہئے کیوں کہ اس معاملے میں جانور بھی پیچھے نہیں ہیں اور سزائے رجم فطری سزا ہے کہ ایک حیوان اپنی نفسیاتی پاکیزگی کے لیے رجم کرسکتا ہے تو کیا انسان کے لئے یہ سزا نامناسب ہے؟

تیسرا جواب یہ ہے کہ امام بخاری رحمه الله نے اس واقعہ کا ذکر حیوان کو مکلف ٹھہرانے کے لیے نہیں کیا بلکہ یہ ثابت کرنے کے لئے کیا ہے کہ عمرو بن میمون مخضرم تابعی ہیں۔ اس کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ امام بخاری رحمه الله نے زیربحث روایت کو التاریخ الکبیر میں عمرو بن میمون کے ترجمے کے تحت ذکر کیا ہے اور اہل فن اس سے بخوبی واقف ہیں کہ تراجم کی کتابوں میں احادیث و روایات کے ذکر سے ترجمہ ہی کے متعلق کوئی اطلاع بہم پہنچانا مقصود ہوتا ہے۔

بخاری میں ایک واقعہ بیان ہوا آپ نے اس کو شرعی حکم بنادیا؟ منکرین حدیث و ملحدین جو اسلام کا حکم ہے ہی نہیں اسے حکم کہتے ہے۔ جو حدیث زمانہ جاہلیت کا ایک واقعہ بیان کررہی ہے اسے شریعت کا حکم بنا کے اس کو اسلام پہ اعتراض کے لیے پیش کرتے ہیں۔

قرآن کی کسی آیت یا صحیح حدیث یا کسی صحابی رضی اللہ تعالی عنہ کے قول یا کسی امام کی فقہ یا کسی مستند عالم دین نے آج تک زانی بندر کو سنگسار کرنے کا حکم نہیں دیا۔ لیکن بخاری میں بیان ہونے والے محض ایک واقعے کو منکرین حدیث و ملحدین نے عوام کو دھوکا دے کر اسے اسلام کا حکم بناکر پیش کیا حب کہ اسلام میں جنسی عمل پہ کسی جانور کو سنگسار کرنے کا کوئی حکم موجود نہیں ہے۔ لہذا منکرین حدیث و ملحدین کا حدیث اور اسلام پہ یہ اعتراض اسلام پہ بہتان اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ایک کوشش ہے اور کچھ بھی نہیں۔ (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)

https://saagartimes.blogspot.com/2021/09/blog-post_11.htm





Monday, 6 September 2021

عنوان: یا رب لک الحمد کما ینبغی لجلال وجھک الخ حدیث

عنوان: 
یا رب لک الحمد 
کما ینبغی لجلال وجھک الخ حدیث

سوال: یا رب لک الحمد کما ینبغی لجلال وجھک ولعظیم سلطانک مفتی صاحب! سنا ہے کہ اس کا ثواب فرشتے نہیں لکھ سکتے، بلکہ اللہ تعالیٰ خود اس کا ثواب مرحمت فرمائینگے۔ کیا یہ حدیث صحیح ہے؟
جواب: حدثنا إبراهيم بن المنذر الحزامي،‏‏‏‏ حدثنا صدقة بن بشيرمولى العمريين،‏‏‏‏ قال:‏‏‏‏ سمعت قدامة بن إبراهيم الجمحي  يحدث،‏‏‏‏  انه كان يختلف إلى عبدالله بن عمر بن الخطاب،‏‏‏‏ وهو غلام وعليه ثوبان معصفران،‏‏‏‏ قال:‏‏‏‏ فحدثنا عبد الله بن عمر،‏‏‏‏ ان رسول الله صلى الله عليه وسلم،‏‏‏‏ حدثهم:‏‏‏‏ "ان عبدا من عباد الله،‏‏‏‏ قال:‏‏‏‏ يا رب،‏‏‏‏ لك الحمد كما ينبغي لجلال وجهك،‏‏‏‏ ولعظيم سلطانك،‏‏‏‏ فعضلت بالملكين،‏‏‏‏ فلم يدريا كيف يكتبانها،‏‏‏‏ فصعدا إلى السماء،‏‏‏‏ وقالا:‏‏‏‏ يا ربنا،‏‏‏‏ إن عبدك قد قال مقالة،‏‏‏‏ لا ندري كيف نكتبها،‏‏‏‏ قال الله عز وجل:‏‏‏‏ وهو اعلم بما قال عبده،‏‏‏‏ ماذا قال:‏‏‏‏ عبدي؟ قالا:‏‏‏‏ يا رب،‏‏‏‏ إنه قال:‏‏‏‏ يا رب،‏‏‏‏ لك الحمد كما ينبغي لجلال وجهك،‏‏‏‏ وعظيم سلطانك،‏‏‏‏ فقال الله عز وجل لهما:‏‏‏‏ اكتباها كما قال عبدي،‏‏‏‏ حتى يلقاني،‏‏‏‏ فاجزيه بها".
ترجمہ: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے بیان کیا کہ اللہ کے بندوں میں سے ایک بندے نے یوں کہا:  «يا رب لك الحمد كما ينبغي لجلال وجهك ولعظيم سلطانك» ”اے میرے رب! میں تیری ایسی تعریف کرتا ہوں جو تیری ذات کے جلال اور تیری سلطنت کی عظمت کے لائق ہے“، تو یہ کلمہ ان دونوں فرشتوں (یعنی کراما ً کاتبین) پر مشکل ہوا، اور وہ نہیں سمجھ سکے کہ اس کلمے کو کس طرح لکھیں، آخر وہ دونوں آسمان کی طرف چڑھے اور عرض کیا: اے ہمارے رب! تیرے بندے نے ایک ایسا کلمہ کہا ہے جسے ہم نہیں جانتے کیسے لکھیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میرے بندے نے کیا کہا؟ حالانکہ اس کے بندے نے جو کہا اسے وہ خوب جانتا ہے، ان فرشتوں نے عرض کیا: تیرے بندے نے یہ کلمہ کہا ہے  «يا رب لك الحمد كما ينبغي لجلال وجهك ولعظيم سلطانك» تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اس کلمہ کو (ان ہی لفظوں کے ساتھ نامہ اعمال میں) اسی طرح لکھ  دو جس طرح میرے بندے نے کہا: یہاں تک کہ جب میرا بندہ مجھ سے ملے گا تو میں اس وقت اس کو اس کا بدلہ دوں گا۔ (سنن ابن ماجہ: 405، ط، رحمانیہ کراچی)
مذکورہ بالا حدیث سنن ابن ماجہ میں ذکرکی گئی ہے۔ امام بوصیری رحمہ اللہ نے اس کی سند پر کلام فرمایا ہے۔
هذا إسناد فيه مقال، قدامة بن إبراهيم ذكره ابن حبان في الثقات وصدقه بن بشير لم أر من جرحه ولا من وثقه وباقي رجال الإسناد ثقات. (مصباح الزجاجة في زوائد ابن ماجه: 489، ط دارالکتب العلمیہ بیروت)
اس کی سند میں کلام ہے، قدامہ بن ابراہیم کو علامہ ابن حبان رحمہ اللہ نے ثقہ قراد دیا ہے اور دوسرا روای صدقہ بن بشیر ہے جو کہ مجہول ہے۔
امام طبرانی نے المعجم الاوسط (101/9، رقم الحدیث: 9249, ط دارالحرمین) میں اس روایت کو ایک اور سند سے نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ "لا يروى هذا الحديث عن عبدالله بن عمر إلا بهذا الإسناد، تفرد به صدقة بن بشير. یہ روایت عبداللہ بن عمر سے صرف اسی سند کے ساتھ مروی ہے اور صدقة بن بشير اس کے نقل کرنے میں متفرد ہیں۔
خلاصہ کلام:
یہ روایت سند کے اعتبار سے ضعیف ہے، لیکن دعا کے الفاظ درست ہیں، اور اس قسم کی ضعیف روایات فضائل کے باب میں قابلِ قبول ہیں، اس لئے اس روایت کو ثواب کی نیت سے پڑھ سکتے ہیں، اور اس کو بیان بھی کرسکتے ہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب. دارالافتاء الاخلاص، کراچی (100728-No) (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2021/09/blog-post.html