Friday, 27 August 2021

کون کون سے لعنت والے گناہ ‏ہیں؟

کون 
کونسے گناہ 
لعنت کا سبب ہیں؟


قرآن وسنت میں بعض ایسے اعمال کا ذکر ہے جن کے کرنے والے پر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے لعنت فرمائی ہے۔ البتہ یہ واضح رہے کہ قرآن وحدیث میں جس لعنت کا ذکر ہے وہ مسلمان اور کافر کے حق میں یکساں نہیں، بلکہ دونوں میں فرق ہے۔ مسلمان کے حق میں لعنت سے مراد یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اُس رحمت سے محروم ہوگا جو رحمت اللہ تعالیٰ کے نیک اور فرماںبردار بندوں کے ساتھ خاص ہے، اور عدالت وشرافت کا مرتبہ اس سے ختم ہوجائے گا، اور مؤمنین کی زبان سے اس کے حق میں اچھی بات نہیں نکلے گی، نیز جنت میں دخولِ اوّلی سے محروم ہوگا، اگرچہ اپنے گناہوں کی سزا بھگت کر ایمان کی وجہ سے کسی نہ کسی وقت جنت میں داخل ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سایہ میں آجائے گا۔ جب کہ کافر کے حق میں لعنت سے مراد یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور جنت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دور اور محروم ہوجائے گا (۱):
ذیل میں ایسے چند گناہ لکھے جاتے ہیں، تاکہ ان سے بچنے کا خاص طور پر اہتمام کیا جائے۔
۱:- سود کھانا اور کھلانا:
’’عن جابر رضي الله عنه قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم آکل الربا وموکلہٗ وکاتبہٗ وشاہدیہ ، وقال: ہم سواء۔‘‘ (صحیح مسلم: ۳/۱۲۱۹)
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے سود کھانے والے، سود دینے والے اور سودی تحریر یا حساب لکھنے والے اور سودی شہادت دینے والوں پر لعنت فرمائی ہے، اور فرمایا کہ: وہ سب لوگ (گناہ میں) برابر ہیں۔‘‘
حا(۱) قولہ: لعنۃ اللّٰہ: المراد باللعنۃ ہنا البعد عن الجنۃ أول الأمر، بخلاف لعنۃ الکفار، فإنہا البعد عنہا کل الإبعاد أولا وآخرا۔ (عمدۃ القاری: ۲۵/۳۹) قال فی القاموس: لعنہ کمنعہ طردہ وأبعدہ، وقال فی المجمع: اللعنۃ ہی الطرد والإبعاد، ولعن الکافر إبعادہ عن الرحمۃ کل الإبعاد، ولعن الفاسق إبعادہ عن رحمۃ تخص المطیعین، انتہٰی۔ (تحفۃ الأحوذی: ۶/۱۳۷)
۲:- شراب پینا، پلانا اور خریدوفروخت کرنا:
’’عن أبی علقمۃ مولاہم وعبدالرحمن بن عبداللّٰہ الغافقي أنہما سمعا ابن عمر رضي الله عنه یقول: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’لعن اللّٰہ الخمر وشاربہا وساقیہا وبائعہا ومبتاعہا وعاصرہا ومعتصرہا وحاملہا والمحمولۃ إلیہ۔‘‘       
(سنن ابی داؤد، ۳/۳۶۶، والحدیث سکت عنہ ابوداؤد)
’’حضرت ابوعلقمہ اور حضرت عبدالرحمن بن عبداللہ الغافقی رحمہم اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے شراب پر اور اس کے پینے والے پر اور اس کے پلانے والے پر اور اس کے بیچنے والے پر اور اس کے خریدنے والے پر اور شراب بنانے والے اور بنوانے والے پر اور جو شراب کو کسی کے پاس لے جائے اس پر اور جس کے پاس لے جائے ان سب پر لعنت بھیجی ہے۔‘‘
تشریح:۔۔۔۔۔۔ جو لوگ اپنی دکانوں میں شراب بیچتے ہیں، یا اپنے ہوٹلوں میں شراب پلاتے ہیں، وہ اپنے بارے میں غور کرلیں کہ روزانہ کتنی لعنتوں کے مستحق ہوتے ہیں۔ شراب کا بنانے والا تو مستحق لعنت ہے ہی، اس کے ساتھ ساتھ شراب کا بیچنے والا، پینے والا، پلانے والا، اُٹھاکر لے جانے والا سب پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔
۳:- مرد وعورت کا ایک دوسرے کی مشابہت اختیار کرنا:
’’عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما قال: ’’لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم المتشبّہین من الرجال بالنساء، والمتشبّہات من النساء بالرجال۔‘‘ (صحیح البخاری، ۷/۱۵۹)
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت اختیار کریں اور ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اختیار کریں۔‘‘
۴:- تصویر کشی کرنا:
’’حدثنا عون بن أبی جحیفۃ عن أبیہ، قال: ’’لعن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم الواشمۃ والمستوشمۃ، وآکل الربا وموکلہٗ، ونہی عن ثمن الکلب، وکسب البغي، ولعن المصورین۔‘‘ (صحیح البخاری، ۷/۶۱)
’’حضرت ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جسم گودنے اور گدوانے والیوں پر، اور سود کھانے اور کھلانے والے پر لعنت فرمائی ہے، اور کتے کی قیمت اور زنا کی کمائی سے منع فرمایاہے اور تصویر بنانے والے پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔‘‘
۵:- غیراللہ کے نام پر ذبح کرنا:
۶:- بدعت ایجاد کرنے والے کی پشت پناہی کرنا:
۷:- والدین کو بُرابھلا کہنا:
۸:- زمین کی حد بندی کے نشانات کو مٹانا:
’’عن أبی الطفیل قال: قلنا لعلي بن أبی طالب أخبرنا بشیء أسرہ إلیک رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، فقال: ما أسر إلي شیئًا کتمہ الناس ولکنی سمعتہٗ یقول: لعن اللّٰہ من ذبح لغیر اللّٰہ ولعن اللّٰہ من آوٰی محدثا ولعن اللّٰہ من لعن والدیہ ولعن اللّٰہ من غیرالمنار۔‘‘ (صحیح مسلم، ۳/۱۵۴۷)
’’حضرت ابوالطفیل رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو آپ کو راز کی باتیں بتائی ہیں وہ تو ہمیں بتایئے! تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے چھپاکر مجھے کوئی راز کی بات نہیں ارشاد فرمائی، لیکن میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ: اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے جو غیراللہ کے نام پر ذبح کرے اور اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے اس شخص پر جو کسی بدعت کے ایجاد کرنے والے کو سہارا دے (یعنی پشت پناہی کرے) اور اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے جو اپنے والدین کو برا بھلا کہے اور اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر لعنت فرمائی ہے جو زمین کی حدبندی کے نشانات کو مٹائے۔‘‘
تشریح:۔۔۔۔۔۔ غیراللہ کے نام پر ذبح کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کے نام پر جانور ذبح کیا جائے، جیسے: کسی بت کے نام پر، یا حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نام پر، یا کعبۃ اللہ کے نام پر وغیرہ۔ یہ حرام ہے اور اس طرح جو جانور ذبح کیا جائے وہ حلال نہیں ہوتا، چاہے ذبح کرنے والا مسلمان ہو یا یہودی یا عیسائی۔
بدعت کرنے والے کو سہارا دینا، یعنی اس کی حمایت اور پشت پناہی کرنا بھی ایسے ہی گناہ اور لعنت کا سبب ہے، جیسے کہ خود بدعت کا ارتکاب کرنا گناہ ہے۔
والدین کو برا بھلا کہنے کی دو صورتیں ہیں: ایک یہ کہ صراحۃً واضح طور پر براہِ راست والدین کو برا بھلا کہے، اور دوسری صورت یہ ہے کہ کسی دوسرے شخص کے والدین کو برا بھلا کہے جس کے جواب میں بدلہ لیتے ہوئے وہ اس کے والدین کو لعن طعن کرے۔
زمین کی حد بندی کے نشانات کو مٹانے کا مطلب یہ ہے کہ اپنی ملکیتی حدود میں تبدیلی کرکے دوسرے کی زمین کو اپنی ملکیت میں شامل کرنے کی کوشش کی جائے، گویا یہ دوسرے کی زمین پر ناحق قبضہ کرنے کی صورت ہے اور حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو دوسرے کی زمین کا ایک بالشت بھی ناحق لے گا قیامت کے دن اس کو سات زمینوں سے نکال کر اس کی گردن میں طوق بناکر ڈالا جائے گا۔
۹:- لڑکوں کے ساتھ بدفعلی کرنا:
’’عن ابن عباس رضي الله عنه أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ’’لعن اللّٰہ من عمل عمل قوم لوط، لعن اللّٰہ من عمل عمل قوم لوط، لعن اللّٰہ من عمل عمل قوم لوط۔‘‘ (السنن الکبری للنسائی، ۶/۴۸۵، قال المنذری فی الترغیب، ۳/۱۹۶: رواہ ابن حبان فی صحیحہ والبیہقی)
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اس پر جو قوم لوط والا عمل کرے، اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اس پر جو قوم لوط والا عمل کرے، اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اس پر جو قومِ لوط والا عمل کرے۔‘‘
۱۰:- صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہنا:
’’عن ابن عمر رضي الله عنه قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’إذا رأیتم الذین یسبون أصحابی، فقولوا: لعنۃ اللّٰہ علی شرکم۔‘‘ (سنن الترمذی، ۵/۶۹۷)
’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کو برا بھلا کہہ رہے ہیں تو تم کہو کہ تمہارے شر اور برائی پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔‘‘
’’عن عائشۃ رضي الله عنها، قالت: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’لاتسبوا أصحابی، لعن اللّٰہ من سب أصحابی۔‘‘    
(المعجم الأوسط، ۵/۹۴، قال الہیثمی فی المجمع، ۹/۷۴۶، فیہ عبداللہ بن سیف الخوارزمی وہو ضعیف) (۱) حاشیہ: (۱) وما روي فی ہذا الباب یتقوی بعضہا ببعض
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: میرے صحابہ (کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) کو برا بھلا مت کہو، اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو اس پر جو میرے صحابہؓ   کو برا بھلا کہے۔‘‘
۱۱:- رشوت لینا، دینا اور رشوت کے لین دین کا واسطہ بننا:
’’عن ثوبان رضي الله عنه قال: ’’لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الراشی والمرتشی والرائش‘‘ یعنی: الذی یمشی بینہما۔‘‘ (مسند احمد، ۳۷/۸۵، قال الہیثمی فی المجمع، ۴/۳۵۸: فیہ ابوالخطاب وہو مجہول)
’’حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے رشوت دینے اور لینے والے پر، اور ان کے درمیان واسطہ بننے والے پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘
۱۲:- مومن کو تکلیف پہنچانا یا دھوکہ دینا:
’’عن أبی بکر الصدیق (رضي الله عنه) قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’ملعون من ضار مؤمنًا أو مکر بہٖ۔‘‘ (سنن الترمذی، ۴/۳۳۲، ہذا حدیث غریب)
’’حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: اس آدمی پر لعنت ہے جو کسی مؤمن کو تکلیف پہنچائے یا اس کے ساتھ دھوکہ کرے۔‘‘
۱۳:- عورتوں کا قبرستان جانا:
۱۴:- قبروں کو سجدہ گاہ بنانا اور وہاں چراغ رکھنا:
’’عن ابن عباس رضي الله عنه، قال: ’’لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم زائرات القبور، والمتخذین علیہا المساجد والسرج۔‘‘ (سنن ابی داؤد، ۳/۲۱۸، اخرجہ الترمذی، ۲/۳۶ (۳۲۰) وقال حدیث حسن)
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے قبروں پر جانے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے اور ان لوگوں پر بھی لعنت فرمائی ہے جو قبروں کو سجدہ گاہ بنائیں اور وہاں چراغ رکھیں۔‘‘
تشریح:۔۔۔۔۔۔ عورتوں کے قبروں پر جانے کے بارے میں اکثر اہل علم حضرات کی رائے یہ ہے کہ یہ ناجائز ہے، کیونکہ عورتیں ایک تو شرعی مسائل سے کم واقف ہوتی ہیں، دوسرے ان میں صبر، حوصلہ اور برداشت کم ہوتا ہے، ان کے حق میں غالب اندیشہ یہی ہے کہ وہ قبرستان جاکر جزع وفزع کریں گی یا کوئی بدعت کریں گی، اسی لئے انہیں قبرستان جانے سے منع کردیا گیا۔
۱۵:- پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا:
’’إِنَّ الَّذِیْنَ یَرْمُوْنَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوْا فِیْ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۔‘‘ (النور: ۲۳)
’’یادرکھو! جو لوگ پاک دامن بھولی بھالی مسلمان عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں، ان پر دنیا اور آخرت میں پھٹکار پڑچکی ہے، اور ان کو اس دن زبردست عذاب ہوگا۔‘‘
۱۶:- قطع رحمی کرنا:
’’ہَلْ عَسَیْتُمْ إنْ تَوَلَّیْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوْا فِیْ الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوْا أَرْحَامَکُمْ أُولٰئِکَ الَّذِیْنَ لَعَنَہُمُ اللّٰہُ فَأَصَمَّہُمْ وَأَعْمٰی أَبْصَارَہُمْ۔‘‘ (محمد: ۲۲،۲۳)
’’پھر اگر تم نے (جہاد سے) منہ موڑا تو تم سے کیا توقع رکھی جائے؟ یہی کہ تم زمین میں فساد مچاؤ اور خونی رشتے کاٹ ڈالو، یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے اپنی رحمت سے دور کردیاہے، چنانچہ انہیں بہرا بنادیا ہے اور ان کی آنکھیں اندھی کردی ہیں۔‘‘
۱۷:- چوری کرنا:
’’عن أبی ہریرۃ رضي الله عنه عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال:’’لعن اللّٰہ السارق یسرق البیضۃ فتقطع یدہٗ، ویسرق الحبل فتقطع یدہٗ۔‘‘ (صحیح البخاری، ۸/۱۵۹)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے چور پر لعنت فرمائی ہے جو ایک انڈہ چوری کرتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیاجاتاہے اور رسی چوری کرتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جاتا ہے۔‘‘
۱۸:- نابینا کو راستہ سے بھٹکانا:
۱۹:-جانور کے ساتھ بدفعلی کرنا:
’’عن ابن عباس رضي الله عنه قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’ملعون من سَبَّ أباہ، ملعون من سَبَّ أمَّہٗ، ملعون من ذَبَحَ لغیر اللّٰہ، ملعون من غَیَّرَ تُخُومَ الأرض، ملعون من کَمَّہَ أعمٰی عن الطریق، ملعون من وَقَعَ عَلٰی بہیمۃٍ ، ملعون من عَمِلَ عَمَلَ قوم لوط۔‘‘ قالہا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مرارًا ثلاثًا فی اللوطیۃ۔‘‘ (مسند احمد، ۵/۸۳-۸۴، اخرجہ الحاکم فی المستدرک ۴/۳۹۶ (۸۰۵۲) وقال صحیح الاسناد ولم یخرجاہ واقرہ الذہبی)
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایاکہ: وہ شخص ملعون ہے جو اپنے باپ کو برا بھلا کہے، وہ شخص ملعون ہے جو اپنی ماں کو برا بھلا کہے، وہ شخص ملعون ہے جو غیراللہ کے لئے ذبح کرے، وہ شخص ملعون ہے جو زمین کی حدود بدل دے، وہ شخص ملعون ہے جو اندھے کو راستے سے بھٹکادے، وہ شخص ملعون ہے جو جانور کے ساتھ جماع کرے، وہ شخص ملعون ہے جو قومِ لوط والا عمل کرے، قوم لوط والی بات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے تین مرتبہ ارشاد فرمایا۔‘‘
۲۰:- بیوی سے پیچھے کے مقام میں ہمبستری کرنا:
’’عن أبی ہریرۃ رضي الله عنه، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’ملعون من أتٰی امرأتہٗ فی دبرہا۔‘‘ (سنن ابی داؤد، ۲/۲۴۹، سکت عنہ ابوداؤد)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: اس شخص پر لعنت ہے جو بیوی سے پائخانہ کے مقام میں ہمبستری کرے۔‘‘
۲۱:- بلاعذر شوہر کو صحبت سے انکار کرنا:
’’عن أبی ہریرۃ رضي الله عنه قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’إذا دعا الرجل امرأتہ إلٰی فراشہٖ فأبت فبات غضبانَ علیہا لعنتہا الملائکۃ حتی تصبح۔‘‘ (صحیح البخاری، ۴/۱۱۶)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: جب مرد اپنی بیوی کو ہم بستری کی طرف بلائے اور بیوی (بلا کسی عذر کے) انکار کرے، جس کی وجہ سے شوہر غصہ ہوکر سو جائے تو ایسی عورت پر فرشتے صبح تک لعنت کرتے ہیں۔‘‘
۲۲:- حقیقی والد کے علاوہ کسی اور کی طرف نسبت کرنا:
’’عن أنس بن مالک رضي الله عنه، قال: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، یقول:’’من ادعی إلی غیر أبیہ، أو انتمٰی إلٰی غیر موالیہ، فعلیہ لعنۃ اللّٰہ المتتابعۃ إلٰی یوم القیامۃ۔‘‘ (سنن ابی داؤد،۴/۳۳۰، سکت عنہ ابوداؤد واصلہ فی البخاری، ۵/۱۵۶ (۴۳۲۶)
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جس شخص نے اپنے حقیقی والد کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنے آپ کو منسوب کیا یا جس غلام اور باندی نے اپنے آقا کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنی نسبت کی، اس پر قیامت تک مسلسل اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے۔‘‘
۲۳:- لوگوں کی ناپسندیدگی کے باوجود امام بننا:
۲۴:- بیوی کا خاوند کو ناراض کرکے سونا:
۲۵:- اذان کی آواز سن کر جواب نہ دینا:
’’عن الحسن قال سمعت أنس بن مالک رضي الله عنه، قال: ’’لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ثلاثۃً: رجل أم قومًا وہم لہ کارہون، وامرأتہٗ باتت وزوجہا علیہا ساخط، ورجل سمع حي علی الفلاح ، ثم لم یجب۔‘‘ (سنن الترمذی،۲/۱۹۱، قال الترمذی: وحدیث انس لایصح) ای لم یذہب الی المسجد للصلاۃ مع الجماعۃ من غیر عذر (تحفۃ الاحوذی، ۲/۲۸۸)
’’حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے تین آدمیوں پر لعنت فرمائی ہے:
۱:- ایک وہ شخص جس کو لوگ (کسی معتبر وجہ سے) ناپسند کرتے ہوں اور وہ ان کی امامت کروائے۔
۲:- وہ عورت جو اس حال میں رات گزارے کہ اس کا شوہر اس سے ناراض ہو۔
۳:- تیسرے وہ آدمی جو ’’حي علی الفلاح‘‘ کی آواز سنے اور جواب نہ دے۔‘‘
تشریح:۔۔۔۔۔۔ امام سے متعلق مذکورہ حدیث کا حکم اس وقت ہے جب لوگ کسی دینی وجہ سے مثلاً: اس کی بدعت، جہل یا فسق کی وجہ سے ناپسند کرتے ہوں، لیکن اگر ان کی ناپسندیدگی کسی دنیوی عداوت اور دشمنی کی وجہ سے ہو تو یہ حکم نہیں۔
اذان کا جواب دو طرح کا ہوتا ہے: ایک تو یہ کہ اذان کی آواز سن کر مسجد کی طرف چل دیا جائے، اسے اجابت بالقدم کہتے ہیں اور یہ واجب ہے۔ دوسرے یہ کہ زبان سے مؤذن کی طرح الفاظ کہے جائیں، اسے اجابت باللسان کہتے ہیں اور راجح قول کے مطابق یہ مستحب ہے۔ مذکورہ حدیث کاتعلق اجابت بالقدم سے ہے، یعنی جو آدمی اذان سننے کے بعد کسی معتبر عذر کے بغیر مسجد میں جماعت سے نماز پڑھنے کے لیے حاضر نہ ہو، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے لعنت فرمائی ہے۔
۲۶:- بدنظری کرنا:
’’عن عمرو مولی المطلب أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لعن الناظر والمنظور الیہ (یعنی إلی عورۃ)۔‘‘ (المرسیل لابی داؤد، ص:۳۳۰، رواہ البیہقی فی السنن الکبری، ۷/۱۵۹ عن الحسن، وقال ہذا مرسل)
’’حضرت عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے (غیرمحرم کی طرف) دیکھنے والے اور جس کی طرف دیکھا جائے دونوں پر لعنت فرمائی ہے (یعنی وہ عورت جو بے پردہ ہو اور بدنظری کا سبب بنے)۔‘‘
۲۷:- نوحہ کرنا اور سننا:
۲۸:- گریبان چاک کرنا اور واویلا کرتے ہوئے موت مانگنا:
’’عن أبی سعید الخدري رضي الله عنه، قال: لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم النائحۃ والمستمعۃ۔‘‘ (سنن ابی داؤد، ۳/۱۹۴، سکت عنہ ابو داؤد، وقال المنذری فی مختصرہ ۳/۱۵۲: فی إسنادہ محمد بن الحسن بن عطیۃ العوفی عن أبیہ عن جدہ وثلاثتہم ضعفاء)
’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے نوحہ کرنے والی اور نوحہ سننے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘
’’عن أبی أمامۃ رضي الله عنه أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم لعن الخامشۃ وجہہا، والشاقۃ جیبہا، والداعیۃ بالویل والثبور۔‘‘    (سنن ابن ماجہ، ۱/۵۰۵، قال البوصیری فی المصباح، ۲/۴۶، ہذا اسناد صحیح)
’’حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے چہرہ نوچنے والی، اپنا گریبان چاک کرنے والی، اور واویلا اور موت مانگنے والی عورت پر لعنت فرمائی ہے۔‘‘
۲۹:- راستہ یا سایہ دار جگہ میں پیشاب وپائے خانہ پھیلانا:
’’من سل سخیمتہ علی طریق عامر من طرق المسلمین فعلیہ لعنۃ اللّٰہ وملائکتہ والناس أجمعین۔ طس ک عن أبی ہریرہ رضي الله عنه۔ (کنزالعمال، ۹/۳۶۶، قال الہیثمی فی المجمع، ۱/۴۸۳: وفیہ محمد بن عمرو الأنصاری ضعفہ یحیی بن معین ووثقہ ابن حبان وبقیۃ رجالہ ثقات)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس نے مسلمانوں کے راستوں میں سے کسی راستے پر پاخانہ پھیلایا اس پر اللہ تعالیٰ کی، فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہو۔‘‘
’’اتقوا اللاعنَین الذی یتخلی فی طریق الناس أو فی ظلہم ۔ حم م د عن أبی ہریرۃ رضي الله عنه۔‘‘ (کنزالعمال، ۹/۳۶۵، صحیح مسلم، ۱/۲۲۶)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایسی دو چیزوں سے بچو جو لعنت کا باعث ہیں: 
۱:- لوگوں کے راستہ میں پیشاب کرنا،
۲:- لوگوں کے سایہ کی جگہ میں پیشاب کرنا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اور سب مسلمانوں کو لعنت والے کاموں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2021/08/blog-post_27.html




Tuesday, 24 August 2021

تو میرے ضرورت مند بندوں پر خرچ کر، میں تجھے خزانہ سے دیتا رہوں گا." حدیث کی تحقیق

عنوان: 
تو میرے ضرورت مند 
بندوں پر خرچ کر، میں تجھے 
خزانہ سے دیتا رہوں گا." حدیث کی تحقیق

سوال: السلام علیکم، مفتی صاحب! کیا مندرجہ ذیل حدیث درست ہے؟ ہر بندے کو پیغام ہے کہ اے ابن آدم! تو میرے ضرورت مند بندوں پر اپنی کمائی خرچ کر، میں اپنے خزانے سے تجھ کو دیتا رہوں گا۔ (صحیح البخاری: حدیث نمبر، ۵٠٣٧)
جواب: سوال میں ذکر کردہ الفاظ بخاری شریف میں موجود ایک روایت کا حصہ ہے، لیکن سوال میں روایت کے الفاظ کا حاصل مفہوم بیان کیا گیا ہے، ترجمہ اس طرح نہیں ہے، ذیل میں حدیث شریف بمع ترجمہ کے ذکر کی جاتی ہے۔
عن ابي هريرة رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: قال الله عزوجل:
"انفق، انفق عليك، وقال: يدالله ملاى لا تغيضها نفقة سحاء الليل والنهار، وقال: ارايتم ما انفق منذ خلق السماء والارض، فإنه لم يغض ما في يده، وكان عرشه على الماء، وبيده الميزان، يخفض، ويرفع".
(بخاری شریف، حدیث نمبر: 4684)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بندو! (میری راہ میں) خرچ کرو تو میں بھی تم پر خرچ کروں گا اور فرمایا، اللہ کا ہاتھ بھرا ہوا ہے۔ مسلسل رات اور دن خرچ کرنے سے بھی اس میں کم نہیں ہوتا اور فرمایا: تم نے دیکھا نہیں جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے، مسلسل خرچ کئے جا رہا ہے، لیکن اس کے ہاتھ میں کوئی کمی نہیں ہوئی، اس کا عرش پانی پر تھا اور اس کے ہاتھ میں میزان عدل ہے, جسے وہ جھکاتا اور اٹھاتا رہتا ہے۔
https://saagartimes.blogspot.com/2021/08/blog-post_38.html

سلطان اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ ‏کون ‏تھے؟

سلطان 

اورنگ زیب عالمگیر 

رحمۃ اللہ علیہ کون تھے؟


بقلم: محمد سلمان بیگ نقشبندی مجددی 

مشاہدی امام نقشبندی جامع مسجد سہاڑہ کھنڈوہ اہم پی انڈیا

وصال: بروز جمعۃ المبارک، 28 ذیقعدہ

1118ھ، بمطابق 20 فروری 1707ء، بوقتِ صبح، (90 سال کی عمر میں)

نام ونسب: 

اسمِ گرامی: اورنگ زیب عالمگیر۔

کنیت: ابوالمظفر۔

لقب: محی الدین، سلطان المعظم، سلطان الہند۔ 

پورا نام: سلطان المعظم ابوالمظفر محی الملۃ والدین محمد اورنگ زیب عالمگیر (رحمۃ اللہ علیہ) 

سلسلہ نسب اس طرح ہے: سلطان اورنگ زیب عالمگیر، بن سلطان شاہ جہاں، بن نورالدین جہانگیر

تاریخِ ولادت: بروز ہفتہ، 15 ذیقعدہ 1027ھ، بمطابق 24 اکتوبر 1618ء کو "مالوہ" اور گجرات کی آخری سرحد پر "دوحد" کے مقام پر پیدا ہوئے۔

تحصیلِ علم: آپ علیہ الرحمہ سلاطینِ مغلیہ میں سے واحد شخصیت ہیں، جو حافظِ قرآن تھے۔ آپ کی خوش قسمتی ہےکہ آپ کو اپنے وقت کے جید مشائخ اور اساتذہ کی صحبت کا موقع ملا جن میں شیخ ِجلیل شیخ محمد معصوم سرہندی بن مجد الفِ ثانی شیخ احمد سرہندی فاروقی، اورشیخ احمد معروف بہ ملاجیون (صاحبِ تفسیراتِ احمدیہ)۔ ان کے علاوہ میر محمد ہاشم گیلانی، ملا موہن بہاری، علامۂ زمان سعد اللہ وزیرِاعظم شاہجہاں بادشاہ، مولانا سید محمد قنوجی، دانشمند خان (علیہم الرحمہ)۔ 3 ذوالحج 1045ھ کو 18 سال؛ 10 دن کی عمر میں تمام علومِ مکتسبہ وفنونِ متعارفہ، عربی، فارسی، ترکی اور ہندی زبانوں میں پوری مہارت حاصل کی۔ عربی اور فارسی خط (نسخ ونستعلیق) میں کمال حاصل کیا۔ علومِ دینیہ تفسیر، حدیث، فقہِ حنفیہ، عقائدِ اصلیہ ومسائلِ فرعیہ، کتبِ طریقت مثلاً: احیاء العلوم، کیمیاء سعادت، کشف المحجوب اور کثیر کتب کا مطالعہ بچپن میں کرلیا تھا۔ اس کے ساتھ فنونِ حربیہ، ملکی آئین، طریقِ جہانبانی ودستورِفرمانروائی کا وہ بہترین سلیقہ اس قلیل عمر میں مکمل کرلیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ عالمگیر کے زمانے میں درس وتدریس کو جو ترقی ملی ایسا کسی عہد میں نہیں ہوا۔ حفظِ قرآنِ مجید کی سعادت 43 سال کی عمر میں ہوئی۔ اس موقع پر ایک شاعر نے کہا تھا:

؎ تو حامیِ شرع وحامیِ تو شارع تو حافظِ قرآن وخداحافظِ تو

بیعت وخلافت: شیخ سیف الدین نبیرہ حضرت مجدد الفِ ثانی، اور خواجہ محمد سعید خلف الرشید حضرت مجدد الفِ ثانی نے روحانی تربیت فرمائی، اور حضرت خواجہ محمد معصوم سرہندی بن مجد الفِ ثانی کے ذریعے تکمیل ہوئی۔ (علیہم الرحمۃ رحمۃ ًواسعۃً)۔ حضرت خواجہ محمد معصوم سرہندی نے آپ کے بارے میں فرمایا: میں نے بادشاہ (عالمگیر) کے معاملات میں نظر کی ہے۔ ان کا ظاہر تو امورِسلطنت میں مصروف ہے، مگران کا باطن اللہ جل جلالہ کے ذکر میں مصروف ہے۔ (مکتوب: 220) ؎ دست بکار کن، ودل بیارکن۔

سیرت وخصائص: سلطان المعظم، حامیِ سنت، ماحیِ بدعت، دین پرور، محی الملۃ والدین، حامیِ شرع متین، صاحبِ اوصافِ کثیرہ محی الدین ابوالمظفر سلطان محمد اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ۔ آپ کی دین پروری، دینداری، تقویٰ وپرہیزگاری، علم وفضل، عدل ومساوات، علم دوستی، "خدمتِ دین" اور عظیم کارناموں کی وجہ سے "بارہویں صدی کا مجدد کہا جاتا ہے"۔ اتنی وسیع سلطنت کے سلطان ہونے کے باوجود آپ نے کبھی بھی عبادت وریاضت میں کمی نہیں آنے دی۔ آپ ہر وقت باوضو رہتے تھے۔ کلمہ طیبہ اور ادعیہ ماثورہ درودشریف اور ذکراللہ سے زبان تر رہتی تھی۔ نماز صفِ اول میں باجماعت ادا کرتے تھے۔ تمام سنن ونوافل اور مستحبات خشوع وخضوع کیساتھ ادا کرتے تھے۔ شب زندہ دار تھے۔ سال کے اکثر حصے میں روزے سے رہتےتھے۔ ڈاکٹربر نیز نے 1665 میں آپ کو دیکھا تھا۔ وہ لکھتا ہے: "اس کی زندگی بالکل سادی اور زاہدانہ تھی۔ اس کا جسم نحیف ہوگیا تھا، اور اس لاغری وکمزوری میں اس کی روزہ داری نے اور اضافہ کردیا تھا"۔ نمازِجمعہ وعیدین عام مسلمانوں کیساتھ بغیر کسی شاہی پروٹوکول کے ادا کرتے تھے۔ اہل اللہ کی صحبت کو پسند کرتے تھے۔ رمضان المبارک کے عشرہ اخیرہ میں معتکف رہتے تھے۔

آپ نے امورِسلطنت سنبھالتے ہی ہندوؤں اور مسلمانوں کی فضول رسمیں ختم کیں، اور فحاشی کا انسداد کیا اور خوبصورت مقبروں کی تعمیر و آرائش ممنوع قرار دی۔ قوال، نجومی، شاعر موقوف کردئیے گئے۔ شراب، افیون اور بھنگ بند کردی۔ درشن جھروکا کی رسم ختم کی، اور بادشاہ کو سلام کرنے کا اسلامی طریقہ رائج کیا۔ سجدہ کرنا اور ہاتھ اٹھانا موقوف ہوا۔ سکوں پر کلمہ لکھنے کا دستور بھی ختم ہوا۔ کھانے کی جنسوں پر ہرقسم کے محصول ہٹادیئے۔ آپ کے دورِحکومت میں حکمرانوں اور عمالوں کی نگہبانی کا بہترین نظام تھا۔ قومی خزانے سے ذاتی خرچ کے لئے ایک پائی بھی نہ لی۔ قرآن مجید لکھ کر ٹوپیاں سی کر گزارا کرتے تھے۔ نظامِ سلطنت چلانے کیلئے ایک مجموعہ فتاوٰی تصنیف کیا گیا جسے "فتاوی عالمگیری" کہا جاتا ہے۔ فتاویٰ عالمگیری فقہ اسلامی میں ایک ممتاز مقام رکھتا ہے۔ آپ کے زمانے میں علم بیچا نہیں جاتا تھا، تعلیم جیسے مقدس شعبے کی تجارت نہیں ہوتی تھی۔ بلکہ ہر شہر اور ہر قصبے میں سرکاری مدارس کی بنیاد رکھی جہاں ہر قسم کی تعلیم فری ہوتی اور اس کے ساتھ علماء وطلباء کو وظائف اور روزینے مقرر تھے۔ جس کی وجہ سے مطمئن ہوکر تعلیم وتعلم میں مشغول رہتے تھے۔

آپ نے تجہیز وتکفین سے متعلق یہ وصیت فرمائی تھی: "چار روپیہ، دو آنے جو ٹوپیوں کی سلائی سے حاصل ہوئے، ان سے میری تجہیزوتکفین ہو۔ تین سو پانچ روپے قرآن نویسی کی اجرت کے محفوظ ہیں، وفات کے دن مساکین میں تقسیم کردئیے جائیں"۔ (آپ کے تحریر کردہ قرآن ِمجید کے چھ نسخے اور ایک پنج سورہ مختلف کتب خانوں میں موجود ہیں۔ آپ جس کلامِ مجید میں تلاوت کرتے تھے، وہ اس وقت کولمبیا یونیورسٹی (امریکہ) کے قبضے میں ہے)۔ (علماء ہند کا شاندارماضی: 557)

وصال: بروز جمعۃ المبارک، 28 ذیقعدہ 1118ھ، بمطابق 20 فروری 1707ء، بوقتِ صبح، 90 سال کی عمر میں کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے واصل بحق ہوئے۔ خلدآباد، ضلع اورنگ آباد، صوبہ مہاراشٹر (انڈیا) احاطہ درگاہ حضرت زین الدین علیہ الرحمہ میں مدفون ہیں۔ 

ماخذ و مراجع: علماء ہند کا شاندارماضی۔ اردو دائرہ معارفِ اسلامیہ۔

محمد سلمان بیگ نقشبندی مجددی مشاہدی امام نقشبندی جامع مسجد سہاڑہ کھنڈوہ اہم پی انڈیا (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)



Sunday, 22 August 2021

بے شمار عوارض کا ایک ہی علاج

بے شمار 
عوارض کا ایک ہی علاج
اپنے پاؤں کے تلوؤں پر تیل لگالیا کریں
1۔ ایک خاتون نے لکھا کہ میرے نانا 87 سال کے فوت ہوئے، نہ کمر جھکی، نہ جوڑوں میں درد، نہ سر درد، نہ دانت ختم ، ایک بار باتوں باتوں میں بتانے لگے کہ مجھے ایک سیانے نے مشورہ دیا تھا اس وقت جب میں کلکتہ میں ریلوے لائن پر پتھر ڈالنے کی نوکری کررہا تھا کہ سوتے وقت اپنے پاؤں کے تلوؤں پر تیل لگالیا کریں بس یہی عمل میری شفاء اور فٹنس کا ذریعہ ہے۔
2۔ ایک اسٹوڈنٹ نے بتایا کہ میری والدہ اسی طرح تیل لگانے کی تاکید کرتی ہیں پھر خود بتایا کہ بچپن میں میری یعنی والدہ کی نظر کمزور ہوگئی تھی. جب یہ عمل مسلسل کیا تو میری نظر آہستہ آہستہ بالکل مکمل اور صحت مند ہوگئی۔
3۔ ایک صاحب جو کہ تاجر ہیں نے لکھا میں چترال میں سیرو تفریح کرنے گیا ہوا تھا وہاں ایک ہوٹل میں قیام کیا. مجھے نیند نہیں آرہی تھی. میں نے باہر نکل کر ٹہلنا شروع کردیا. رات کے وقت باہر بیٹھے ہوئے ایک بوڑھے چوکیدار نے مجھ سے کہا. کیا بات ہے ؟ میں نے کہا: نیند نہیں آرہی! وہ مسکرا کر کہنے لگا: آپ کے پاس کوئی تیل ہے؟ میں نے کہا: نہیں. وہ گیا اور تیل لایا اور کہا اپنے پاؤں کے تلوؤں پر چند منٹ مالش کریں بس پھر کیا تھا میں خراٹے لینے لگا اب میں نے اسے اپنا معمول بنالیا ہے۔
4۔ میں نے رات کو سونے سے پہلے پاؤں کے تلوؤں پر تیل کی مالش کا یہ نسخہ آزمایا. اس سے نیند بہت اچھی آتی ہے اور تھکاوٹ ختم ہو جاتی ہے۔
5۔ مجھے معدے کا عارضہ تھا. پاؤں کے تلوؤں پر تیل کی مالش سے 2 دن میں ہی میرا معدے کا عارضہ دور ہوگیا۔
6۔ واقعی! اس عمل میں جادو جیسا اثر ہے میں نے رات کو سونے سے پہلے پاؤں کے تلوؤں پر تیل کی مالش کی اس عمل کی وجہ سے مجھے بہت پرسکون نیند آئی۔
7۔ میں یہ علاج تقریباً پچھلے 15 سال سے کررہی ہوں مجھے اس سے بہت پرسکون نیند آتی ہے. میں اپنے چھوٹے بچوں کے پاؤں کے تلوؤں پر بھی تیل سے مالش کرتی ہوں. اس سے وہ بہت خوش ہوتے ہیں اور صحت مند رہتے ہیں ۔
8۔ میرے پاؤں میں درد رہتا تھا میں نے روزانہ زیتون کے تیل سے رات کو سونے سے پہلے 2 منٹ پاؤں کے تلوؤں کی مالش کرنا شروع کردی. اس عمل سے میرے پاؤں کا درد ختم ہو گیا ۔
9۔ میرے پاؤں میں ہمیشہ سوزش رہتی تھی. جب چلتی تھی تو تھکن سے چور ہو جاتی تھے میں نے رات کو سونے سے پہلے پاؤں کے تلوؤں پر تیل کی مالش کا یہ عمل شروع کیا صرف 2 دنوں میں میرے پاؤں کی سوزش دور ہو گئی ۔
10۔ رات کو سونے سے پہلے پاؤں کے تلوؤں پر تیل کی مالش کا ٹوٹکہ دیکھ کر اسے کرنا شروع کر دیا اس سے مجھے بہت سکون کی نیند آتی ہے۔
11۔ زبردست کمال کی چیز ہے۔ پرسکون نیند کیلئے نیند کی گولیوں سے بہتر کام کرتا ہے. یہ نسخہ میں اب روزانہ رات کو پاؤں کے تلوؤں پر تیل کی مالش کرکے سوتی ہوں۔
12۔ میرے دادا حضور کے تلوؤں میں بہت گرمی اور  جلن نیز سر میں درد رہتا تھا. جب سے انہوں نے لوکی کا تیل تلوؤں میں لگانا شروع کیا تکلیف سرے سے دور ہوگئی۔
13۔ میں تھائیرائیڈ کی مریضہ تھی. میرے ٹانگوں میں ہر وقت درد رہتا تھا پچھلے سال مجھے کسی نے رات کو سونے سے پہلے پاؤں کے تلوؤں پر تیل کی مالش کا یہ ٹوٹکہ بتایا میں مستقل کر رہی ہوں اب میں عموماً پر سکون رہتی ہوں ۔
14۔ میرے پاؤں سن ہورہے تھے. میں چار دن سے رات کو سونے سے پہلے پاؤں کے تلوؤں پر تیل سے مالش کر رہا ہوں بہت زیادہ فرق ہے۔
15۔ بارہ تیرہ سال پہلے مجھے بواسیر تھی، میرا بھائی مجھے ایک حکیم صاحب کے پاس لے گیا جن کی عمر 90 سال تھی  انہوں نے مجھے دوا کے ساتھ ساتھ رات کو سونے سے پہلے پاؤں کے تلوؤں پر انگلیوں کے درمیان، ناخنوں پر اور اسی طرح ہاتھوں کی ہتھیلیوں، انگلیوں، کے درمیان اور ناخنوں پر تیل کی مالش کرنے کا مشورہ دیا اور کہا ناف میں چار پانچ قطرے تیل کے ڈال کر سونا ہے میں نے حکیم صاحب کے اس مشورے پر عمل کرنا شروع کردیا. اس سے میرے خونی بواسیر میں کافی حد تک آرام آ گیا اس نسخے سے میرا قبض کا مسئلہ بھی حل ہو گیا میرے جسم کی تھکاوٹ بھی دور ہو جاتی ہے اور پر سکون نیند آتی ہے اور بقول حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کے ناک کے اندر سرسوں کا تیل لگا کر سونے سے خراٹے آنے بند ہوجاتے ہیں۔
16۔ پاؤں کے تلوؤں پر تیل کی مالش کایہ ٹوٹکہ میرا آزمودہ ہے۔
17۔ پاؤں کے تلوؤں پر تیل کی مالش کرنے سے مجھے بہت پرسکون نیند آئی ۔
18۔ میرے پاؤں اور گھٹنوں میں درد رہتا تھا. جب سے پاؤں کے تلوؤں پر تیل کی مالش کا ٹوٹکہ پڑھا اب میں یہ روزانہ کرتا ہوں اس سے مجھے پرسکون نیند آتی ہے.
19۔ مجھے کمر میں بہت درد تھا جب سے میں نے رات کو سونے سے پہلے پاؤں کے تلوؤں پر تیل کی مالش کا یہ ٹوٹکہ استعمال کرنا شروع کیا ہے کمر کا درد کم ہوگیا ہے اور اللہ پاک کا شکر ہے بہت اچھی نیند آتی ہے.
وہ مغلیہ راز درج ذیل ہے:۔
وہ راز بالکل آسان نہایت مختصر، ہر جگہ اور ہر شخص کے لئے کرنا بہت آسان ۔کوئی سا بھی تیل سرسوں یا زیتون وغیرہ پاؤں کے تلوؤں اور پورے پاؤں پر لگائیں خاص طور پر تلوؤں پر تین منٹ تک دائیں پاؤں کے تلوے اور تین منٹ بائیں پاؤں کے تلوے پر رات کو سوتے وقت مالش کرنا کبھی نہ بھولیں، اور بچوں کی بھی اسی طرح مالش ضرور کریں ساری زندگی کا معمول بنالیں پھر قدرت کا کمال دیکھیں آپ ساری زندگی سر میں کنگھی کرتے ہیں جوتے صاف کرتے ہیں ، تو سوتے وقت پاؤں کے تلوؤں پر تیل کیوں نہیں لگاتے۔ قدیم چینی طریقہ علاج کے مطابق بھی پاؤں کے نیچے 100 کے قریب Acupressure Points (ایکوپریشر پوائنٹ) ہوتے ہیں۔ جن کو دبانے اور مساج کرنے سے بھی انسانی اعضاء صحت یاب ہوتے ہیں۔ اس کو
Foot Reflexogy کہا جاتا ہے۔ پوری دنیا میں پاؤں کی مساج تھراپی سے علاج کیا جاتا ہے۔ (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2021/08/blog-post_24.html

تلاوت کو چھوڑ کر تعلیمی حلقہ میں شرکت کی ترغیب دینا

تلاوت 
کو چھوڑ کر تعلیمی 
حلقہ میں شرکت کی ترغیب دینا

سوال: میں ایک حافظ قرآن ہوں اور میں بعد نمازِظہر اور بعد نمازِعصر تلاوت کرتا ہوں، جب میں تلاوت میں مشغول ہوجاتا ہوں تو بعض تبلیغی حضرات مجھے کہتے ہیں کہ یہ انفرادی عمل ہے اور وہاں پر ہمارا اجتماعی عمل ہے؛ لہذا اس کا یعنی قرآنِ کریم کا ثواب کم ہے اور وہ اجتماعی عمل کا ثواب بہت زیادہ ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ قرآن کی تلاوت قطرہ ہے اور تبلیغی عمل کا ثواب مثل دریا ہے۔ اور بعض تو اس حد تک کہتے ہیں کہ جب اجتماعی عمل شروع ہو تو قرآن کی تلاوت کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ براہ مہربانی میری راہ نمائی کریں؟
جواب: جو آدمی جماعت میں نکل کر وقت لگارہا ہو تو اسے چاہئے کہ جماعت کے اجتماعی اعمال کو اپنے انفرادی اعمال پر ترجیح دے، تاہم عام حالات میں اگر کسی جگہ تعلیم یا وعظ ونصیحت کاحلقہ لگا ہوا ہو اور کوئی شخص اس دوران الگ جگہ پر بیٹھ کر تلاوت، ذکر و اذکار یا انفرادی نوافل میں مشغول ہو تو اسے زبردستی تعلیم کے حلقے میں بٹھانا درست نہیں ہے، ہر آدمی جماعت کے اجتماعی اعمال میں جڑنے کا مکلف نہیں ہے؛ لہذا اگر آپ تعلیم کے وقت میں اپنی تلاوت کا معمول پورا کرنا چاہیں تو بلا کراہت کرسکتے ہیں، تلاوت بھی بعثتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقاصد میں سے ہے۔
﴿رَبَّنَا وَٱبْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا۟ عَلَيْهِمْ ءَايَـٰتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ ٱلْكِتَـٰبَ وَٱلْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ﴾ [البقرة: 129]
ترجمہ: اے ہمارے رب! اور بھیج ان میں ایک عظیم الشان رسول ان ہی میں سے جو ان کے سامنے آپ کی آیات تلاوت کرے، اور انہیں کتاب و حکمت سکھائے، اور ان کا تزکیہ کرے، بلاشبہ آپ ہی زبردست حکمت والے ہیں۔
ہاں اتنا اہتمام کرلیں کہ تعلیم کی جگہ سے ہٹ کر بیٹھ جایا کریں؛ تاکہ اس میں خلل نہ آئے۔
’’دارمی‘‘ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مسجدِ نبوی میں دو مجلسوں پر گزر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دونوں ہی خیر پر ہیں، البتہ ان میں سے ایک افضل ہے دوسری سے، (ایک مجلس والوں کے حوالے سے فرمایا:) جہاں تک ان لوگوں کی بات ہے تو یہ اللہ سے دعا کررہے ہیں اور اس کی طرف رغبت رکھتے ہیں، سو اللہ چاہے تو انہیں عطا کرے اور چاہے تو عطا نہ کرے، اور (دوسری مجلس کے بارے میں فرمایا:) جہاں تک ان کا تعلق ہے تو یہ فقہ یا علم سیکھ رہے ہیں، اور جاہلوں کو سکھارہے ہیں، لہٰذا یہ افضل ہیں، اور مجھے بھی معلم بناکر بھیجا گیا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی مجلس میں تشریف فرما ہوئے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں بھی مسجدِ نبوی میں مختلف لوگ مختلف نیک اعمال میں مشغول ہوتے تھے، اور ان پر کسی قسم کی نکیر نہیں کی جاتی تھی، انہیں انفرادی نیک اعمال سے نہیں روکا جاتا تھا، چناں چہ جو لوگ ذکر و دعا میں مشغول تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے انہیں روکا نہیں کہ آپ بھی تعلیم و تعلم کی مجلس میں آجائیں، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی مجلس میں تشریف فرما ہیں، اور افضل مجلس بھی یہی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ دین کے ہر حکم میں اعتدال ہے، یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ اجتماعی عمل اور امت کی فکر اور ناواقفوں کو کلمہ اور دین کے مسائل سکھانا انفرادی عمل سے کہیں بڑھ کر اجر و ثواب رکھتاہے، لیکن انفرادی نیک اعمال اور نوافل کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے،  ہر عمل اور بات کا ایک موقع ہوتا ہے، وقت کے تقاضے اور حکمت و تدبیر کو ملحوظ رکھنا بھی دعوت و اِصلاح کی بنیادی شرائط میں سے ہے، حدیثِ قدسی میں ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ۔۔۔ میرا بندہ میرے مقرر کردہ فرائض سے زیادہ کسی ایسی چیز سے میرے قریب نہیں ہوسکتا جو مجھے محبوب ہو، اور میرا بندہ مسلسل نفلی اعمال کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اسے محبوب بنالیتا ہوں ۔۔۔ الخ  یعنی فرائض کے اہتمام کے ساتھ نفلی اعمال کی یہ فضیلت ہے کہ اس سے بندہ اللہ تعالیٰ کا محبوب بن جاتا ہے۔ 
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144107200415
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2021/08/blog-post_22.html

Saturday, 21 August 2021

تحقیق حدیثِ سفینۃ رضی ‏اللہ ‏عنہ ‏

تحقیق حدیثِ سفینۃ رضی اللہ عنہ 
بقلم: ابوحنظلہ عبدالاحد قاسمی
اہلسنت والجماعت کا متفقہ نظریہ ہے کہ خلافت علی منہاج النبوہ (خلافتِ راشدہ) کی مدت تیس سال ہے، اور یہ خلفاء اربعہ (ابوبکر، عمر، عثمان، علی رضی اللہ عنہم اجمعین) کا دورِخلافت ہے، یعنی انھیں چار حضرات کو خلفاء راشدین اور انھیں کے دورِخلافت کو خلافتِ راشدہ کہا جاسکتا ہے، شرعی واصطلاحی اعتبار سے ان کے علاوہ بقیہ کسی بھی حکمراں کو خلیفہ راشد اور کسی کے بھی دور کو خلافتِ راشدہ نہیں کہا جاسکتا۔
اہلسنت والجماعت کے اسی متفقہ نظریے وعقیدے کا بیان نہایت صراحت و وضاحت کے ساتھ حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ کی درج ذیل حدیث مرفوع میں موجود ہے۔
اہلسنت کے یہاں تو بحمداللہ یہ روایت بالکل صحیح اور لائق اعتماد ہے؛ لیکن روافض اور نواصب ہر حال میں اس روایت کو ضعیف ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، روافض تو اس لئے کہ وہ خلفاء ثلاثہ رضوان اللہ علیہم اجمعین (ابوبکر، عمر، عثمان رضوان اللہ علیہم اجمعین) کو غاصب اور ناحق سمجھتے ہیں اور ان کی خلافت کو خلافت جائرہ کہتے ہیں، جبکہ یہ روایت خلفاء ثلاثہ کو برحق، سراپا عدل اور ان کے دورخلافت کو خلافت علی منہاج النبوہ اور خلافتِ راشدہ ثابت کرتی ہے، اس کے برخلاف نواصب؛ کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دور فتنوں اور انتشار و افتراق کا دور ہے. اس لئے اس دور پر خلافتِ راشدہ کا اطلاق نہیں کیا جاسکتا، یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ راشد نہیں مانتے، بعض تو صراحت کے ساتھ آپ کے خلیفہ راشد ہونے کا انکار کرتے ہیں، اور بعض بظاہر تو خلیفہ راشد کہہ دیتے ہیں لیکن پھر آپ رضی اللہ عنہ کی خلافت پر سڑے گلے اعتراضات کرکے اپنے خبثِ باطنی کو چھپا بھی نہیں پاتے، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافتِ راشدہ پر طعن کرنے والے یہی نواصب؛ حضرت معاویہ، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم کو خلفاء راشدین ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں؛ بلکہ ان سے بھی آگے بڑھ کر یزید اور مروان جیسے شریر حکمرانوں کو بھی خلفاء راشدین میں شمار کرتے ہیں، چونکہ یہ روایت ناصبیت کی جڑ یں کاٹ رہی ہے اس لئے نواصب کسی بھی صورت اس روایت کو ہضم نہیں کرپاتے اور ضعیف ثابت کرنے کے لئے تنکوں سے بھی کمزور دلائل لیکر میدان میں آدھمکتے ہیں۔
ہم نے اپنی درج ذیل تحریر میں حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت پر تفصیلی کلام کیا ہے اور یہ ثابت کردیا ہے کہ اہلسنت کے یہاں یہ روایت سند و متن ہر اعتبار سے صحیح و قابل اعتماد ہے اور روافض و نواصب کے ڈھکوسلے پرکاہ کی بھی حیثیت نہیں رکھتے ۔
حدیث سفینة:
قال الامام ابوداؤدؒ: حدثنا سوار بن عبدالله بن سوار، ناعبدالوارث بن سعید، عن سعید بن جمھان، عن سفینة قال: قال رسول اللہ صلي الله عليه وسلم: خلافة النبوۃ ثلاثون سنة، ثم یؤتی الله الملک ۔او ملکه۔ من یشاء۔ قال سعید: قال لی سفینة: امسک علیک ابابکر سنتین، و عمر عشراً، وعثمان اثنی عشر، وعلی کذا، (سنن ابی داؤد رقم ۴۶۴۶) 
ترجمہ۔ حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خلافتِ نبوت (خلافتِ راشدہ) تیس سال ہوگی، پھر اس کے بعد اللہ جسے چاہیں گے حکومت دیدیں گے۔ سعید بن جمہان کہتے ہیں: حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حساب لگالو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت دو سال، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی دس سال، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی بارہ سال، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی چھ سال۔ (سب کا مجموعہ تیس سال ہوتا ہے) 
تخریج الحدیث:
والحدیث اخرجه الترمذی ۔ واحمد فی المسند ۱۶/۱۳۶۔ وفی فضائل الصحابۃ ص ۴۸۷رقم۷۸۹۔والنسائی فی الکبریٰ ۷/۳۱۳۔ والطحاوی فی المشکل ۸/۴۱۵۔  وابن حبان فی صحیحه ۱۵/۳۵۔ وابن ابی عاصم فی السنة ۲/۵۶۲رقم۱۱۸۱۔ وعبداللہ بن احمد فی السنة ص۲۳۵۔ والحاکم فی المستدرک ۳/۷۱۔ والطبرانی فی الکبیر ۷/۹۷۔ والبیھقی فی دلائل النبوۃ ۶/۳۴۲۔ والطيالسي ۲/۴۳۰رقم ۱۲۰۳۔ والبزار ۹/۲۸۰رقم۳۸۲۷۔ والروياني ۱/۴۳۸۔ 
توثیق روات:
(۱) سوار بن عبداللہ بن سوار
متفق علیہ ثقہ ہیں، کسی کی جرح ان پر منقول نہیں؛ جبکہ امام احمد بن حنبل، امام نسائی اور ابن حبان رحمہم اللہ وغیرہ متعدد ائمہ نے توثیق کی ہے، ابوداؤد، نسائی اور ترمذی کے شیخ ہیں۔
(۲) عبدالوارث بن سعید بن ذکوان التمیمی۔
 یہ بھی متفق علیہ ثقہ ہیں، امام شعبہ، امام احمد بن حنبل، یحیی بن معین، ابوزرعہ، ابوحاتم، ابن سعد، نسائی وغیرہ متعدد ائمہ حدیث نے ان کو ثقہ، ثبت اور حجت قرار دیا ہے۔ تمام اصحاب صحاح نے آپ سے روایت لی ہے۔
(۳) سعید بن جمہان الاسلمی
امام احمد بن حنبل، امام یحیی بن معین ،امام ابوداؤد، یعقوب بن سفیان، ابن حبان اور ابن خلفون رحمہم اللہ نے آپ کو ثقہ قرار دیا ہے، امام نسائی رحمہ اللہ نے فرمایا: لیس بہ بأس۔ اس میں کوئی خرابی نہیں، امام ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: لابأس بہ. اس میں کوئی خرابی نہیں، خلاصہ یہ کہ جمہور محدثین کے نزدیک سعید بن جمہان ثقہ ہیں، اس لئے بعض حضرات کی مبہم جرح کا کوئی اعتبار نہیں۔ سنن اربعہ کے راوی ہیں۔ (تہذیب الکمال۔ تہذیب التہذیب وغیرہ)
(۴) سفینہ رضی اللہ عنہ مشہور صحابی ہیں
 غرضیکہ روایت کے تمام روات ثقہ و معتمد ہیں، اسی لئے متعدد اکابر محدثین نے صراحت کے ساتھ اس روایت کی تصحیح کی ہے۔
روایت کی تصحیح کرنے والے محدثین کرام:
(۱) امام احمدبن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حدیث سفینة فی الخلافة صحیح والیه اذھب فی الخلفاء۔ خلافت کے بارے میں وارد حضرت سفینہؓ کی حدیث صحیح ہے اور خلفاء کی تحدید کے بارے میں میرا مستدل بھی یہی روایت ہے۔ (جامع بیان العلم لابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ ۱۱۶۹)
(۲) امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ھذا حدیث حسن۔ یہ روایت حسن ہے۔ (ترمذی)
(۳) امام ابوبکر بن ابی عاصم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حدیث سفینة ثابت من جھة النقل۔ حدیث سفینہ ثابت ہے۔ (السنة لابن ابی عاصم ۲/۵۶۲)
(۴) امام ابن حبانؒ نے اپنی صحیح میں اس روایت کی تخریج کی ہے جو ان کے نزدیک صحت کی دلیل ہے۔
(۵) امام ابوعمر بن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ نے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے اس روایت کی تصحیح نقل کی ہے اور پھر خود بھی اس تصحیح کی تائید فرمائی ہے۔ (جامع بیان العلم لابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ ۱۱۶۹)
(۶) امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وقد اسندت ھذہ الروایات باسناد صحیح۔ یہ روایات صحیح سند کے ساتھ نقل کی گئی ہیں۔ (المستدرک ۳/۷۱)
(۷) امام ابن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: واما اولی الاقوال بالصواب عندنا فیمااختلفوا من اولی الاصحاب بالامامة فیقول من قال بما حدثنی ۔۔۔۔۔عن سفینة مولی رسول الله صلي الله عليه وسلم قال: قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: الخلافة فی امتی ثلاثون سنة۔ الخ۔
ترجمہ: خلفاء کے مسئلے میں جو لوگوں نے اختلاف کیا ہے اس بابت ہمارے نزدیک سب سے بہتر اور درست قول وہ ہے جو حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے ثابت ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت میں خلافت تیس سال رہے گی. (الاعتقاد للطبری ۱۵) 
(۸) امام ابوجعفر طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے مشکل الاثار میں مدتِ خلافت کے حصر کے لئے اس روایت کو بڑی قوت کے ساتھ ذکر فرمایا ہے۔ 
(۹) شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں: وھو حدیث مشھور من روایة حماد بن سلمة وعبدالوارث بن سعید والعوام بن حوشب وغیرہ عن سعید بن جمھان عن سفینة مولی رسول اللہ ﷺ ، ورواہ اھل السنة کأبی داؤد وغیرہ، واعتمدعلیه الامام احمد وغیرہ فی تقدیر خلافة الخلفاء الراشدین الاربعة، وثبته احمد واستدل به علی من توقف فی خلافة علی من اجل افتراق الناس علیه ۔الخ۔ ترجمہ۔اور یہ حدیث مشہور ہے، اسے حماد بن سلمہ، عبدالواراث بن سعید، اور عوام بن حوشب وغیرہ نے سعید بن جمہان عن سفینۃ مولی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق سے نقل کیا ہے، اور اس روایت کو ابوداؤد وغیرہ اہل سنت علماء نے روایت کیا ہے، اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ علماء نے خلافتِ راشدہ کی تحدید کے مسئلے میں اسی روایت پر اعتماد کیا ہے، امام احمدؒ نے اس روایت کو نہ صرف ثابت مانا بلکہ حضرت علیؓ کے دور میں لوگوں کے انتشار وافتراق کا بہانہ بناکر آپؓ کو خلیفہ راشد ماننے میں توقف کرنے والے حضرات کے خلاف اس روایت سے استدلال بھی کیا ہے(فتاوی ابن تیمیہ ۳۵/۱۸)
(۱۰)امام ابوبکر بوصیریؒ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ھذا اسناد صحیح ۔یہ سند صحیح ہے (اتحاف الخیرۃ المھرۃ ۵/۱۱)
(۱۱) حافظ ابن حجرعسقلانیؒ اس روایت کے ذیل میں فرماتے ہیں: ھذا حدیث حسن ۔یہ حدیث حسن ہے(موافقة الخبرالخبر۱/۱۴۱)
(۱۲) امام ذہبیؒ نے اس سند کو صحیح قرار دینے میں حاکم کی موافقت کی ہے۔ دیکھئے۔(المستدرک۳/۶۰۶)
(۱۳) حافظ جمال الدین ابوالحجاج مزیؒ نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد امام ترمذیؒ کے حوالے سے اس تحسین نقل کی ہے جس سے پتہ چلا کہ آپؒ بھی امام ترمذی کی تحسین سے متفق ہیں۔ دیکھئے۔(تحفة الاشراف للمزی ۴/۲۲) 
(۱۴) علامہ ناصرالدین البانیؒ نے اس روایت کے تمام طرق شواہد اور متابعات ذکر کرنے کے بعد فرمایا: وجملة القول ان الحدیث حسن من طریق سعید بن جمھان صحیح بھٰذین الشاھدین لاسیما وقدقواہ من سبق ذکرھم ۔الخ۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ حدیث سعید بن جمہان کے طریق سے حسن ہے اور دو متابعات وشواہد سے مل کر صحیح ہے بالخصوص اس وقت جبکہ جن علماء کا ماقبل میں تذکرہ ہوا انھوں نے اس کی تصحیح ہے. (سلسلۃ الصحیحۃ ۱/۸۲۳ رقم ۴۵۹)
(۱۵) مسنداحمد کے محقق علامہ احمدشاکر مصریؒ اس روایت کے ذیل میں فرماتے ہیں: اسنادہ صحیح رجاله ثقات۔اس کی سند صحیح ہے تمام روات ثقہ ہیں۔ (مسنداحمد ۱۶/۱۳۶)
ان کے علاوہ اور بھی متعدد متقدمین و متأخرین ائمہ حدیث نے صراحتاً یا اشارۃً اس روایت کی تصحیح و تحسیین کی ہے ۔
روایت کے شواہد:
اس روایت کے دو شواہد بھی ہیں جو اس کی صحت پر مہر ثبت کرتے ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں۔
قال الامام البیھقیؒ: واخبرنا ابوالحسین بن الفضل، اخبرنا عبداللہ بن جعفر، حدثنا یعقوب بن سفیان، حدثنا محمدبن فضیل، حدثنا مؤمل، حدثنا حماد بن سلمة، عن علی بن زید عن عبدالرحمن بن ابی بکرۃ، عن ابیه قال: سمعت رسول الله ﷺ یقول: خلافة نبوۃ ثلاثین عاماً ثم یؤتی الله الملک من یشاء۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی ۶/۳۴۲) 
اس روایت کی سند کے تمام روات ثقہ ہیں صرف علی بن زید بن جدعان میں محدثین نے کلام کیا ہے لیکن پھر بھی یہ اتنے غیرمعتبر نہیں کہ متابعات و شواہد میں بھی نہ چل سکیں؛ کیونکہ سنن اربعہ کے مصنفین کے علاوہ امام مسلمؒ نے بھی ان کی روایت لی ہے، یعقوب بن شیبہ نے ثقہ کہا ہے، امام ترمذیؒ نے صدوق قرار دیاہے، امام عجلی لابأس بہ کہتے ہیں، امام سفیان بن عیینہؒ نے بھی ان کی تعریف کی ہے، وغیرہ۔ خلاصہ یہ کہ یہ سند بھی حسن درجے کی ہے۔ 
اس کے علاوہ حضرت جابر بن عبداللہؓ کے طریق سے ایک شاہد اور بھی ہے جو علامہ البانیؒ نے واحدی کی ”وسیط“ کے حوالے سے ذکر کیا ہے. (الصحیحۃ ۱/۸۲۳) 
خلاصہ یہ کہ حضرت سفینہؓ کی یہ روایت سند و متن ہر اعتبار سے صحیح ہے اور چونکہ متعدد ائمہ عقائد نے اس روایت سے عقیدۂ خلافت کی تحدید کے عقیدے کو ثابت کیا ہے اس لئے اس روایت کا درجہ صحیح سے بھی بڑھ جاتا ہے جیساکہ علامہ ابن تیمیہؒ نے اس روایت کو ”حدیث مشہور“ قرار دیا ہے۔ 
فقط والله أعلم
https://saagartimes.blogspot.com/2021/08/blog-post_68.html


کیا تعلیم قرآن پہ اجرت منافی ثواب ہے؟

کیا تعلیم قرآن پہ اجرت منافی ثواب ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمة الله و بركاته
قرآن وحدیث یا دینی علوم کی تعلیم پہ اجرت حاصل کرنا شرعا کیسا ہے؟
 کچھ لوگ  اس روایت کو پیش کرکے مدارس کے علماء و مدرسین کی تنخواہ کو زانیہ کی کمائی سے بدتر کہ رھے ھیں ... اور مولوی سعد کے اس ضمن میں بیان کی تائید اس روایت سے کرکے امت کو گمراہ کررھے ھیں 
👇👇👇روایت
حیات الصحابہ جلد دوم۔ 
 از حضرت مولانا محمد یوسف (رح) کاندہلوی متوفی (۱۹۶۴) 
اردو ترجمعہ از مولانا محمد احسان الحق مقیم رائونڈ پاکستان 
صفحہ نمبر 247  
حضرت مجاہد کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی  نے فرمایا اے علم اور  قرآن والو  ، علم اور قرآن پر قیمت مت لو ورنہ زنا کار لوگ تم سے پہلے جنت میں چلے جائیں گے۔
(اخرجہ الخطیب فی الجامع کذافی الکنز ج 1 ص 229 )
احادیث مبارکہ کی روشنی میں مدلل جواب عنایت فرمائیں 
عزیر احمد ممبرا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق: 
قرآن کریم کی تعلیم کی اجرت لینے اور نہ لینے سے متعلق روایات حدیث بظاہر مختلف ہیں۔اسی لئے شراح حدیث اور ائمہ مجتہدین متبوعین کے نقطہائے نظر  بھی اس بابت شروع سے مختلف رہے ہیں۔
متقدمین احناف اور حنابلہ کے صحیح قول کے مطابق تعلیم قرآن پہ اجرت لینا جائز نہیں ہے۔ جبکہ متاخرین حنفیہ، مالکیہ، شافعیہ اور دیگر جمہورعلماء کے یہاں قرآن پڑھانے پہ اجرت لینا جائز ہے۔ (ابن عابدين، محمد أمين، رد المحتار على الدر المختار شرح تنوير الأبصار، تحقيق: عادل وعلي، دار عالم الكتب، الرياض، 1423ه‍/2003م، ج 9، ص75-76. 
المرغيناني، علي بن أبي بكر (ت 593ه‍)، الهداية في شرح بداية المبتدي، تصحيح: الشيخ طلال، دار إحياء التراث العربي، بيروت، لبنان، ط1، 1245ه‍/2004م، ج3، ص238. العيني، محمود بن أحمد بن موس۔ البهوتي، منصور بن يونس، شرح منتهى الإرادات، دارالفكر، ج2، ص366. الرحيباني، مطالب أولى النهى، ج 3، ص 637. 
البهوتي، منصور بن يونس، الروض المربع بشرح زاد المستقنع، دارالجيل، بيروت، ج 2، ص 331. 
ابن قدامه، المغني، ج 5، ص 331۔ المرتضى، أحمد بن يحيى، (ت 840ه‍)، البحر الزخار الجامع لمذاهب علماء الأمصار، صنعاء: دارالحكمة اليمانية، 1409ه‍/1988م، ج 4، ص48. (تصوير عن طبعة 1366ه‍/1947م). اطفيش، محمد بن يوسف، شرح كتاب النيل وشفاء العليل، جدة: مكتبة الإرشاد، ط3، 1405ه‍/1985م، ج 10.ص 47. )
اجرت کو ناجائز تصور کرنے والے  حضرات مختلف احادیث سے استدلال کرتے ہیں۔ جن میں اہم  اور قابل ذکر  یہ حدیث ہے: 
3416 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌوَحُمَيْدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمَنِ الرُّوَاسِيُّ عَنْ مُغِيرَةَ بْنِ زِيَادٍ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ ثَعْلَبَةَ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ عَلَّمْتُ نَاسًا مِنْ أَهْلِ الصُّفَّةِ الْكِتَابَ وَالْقُرْآنَ فَأَهْدَى إِلَيَّ رَجُلٌ مِنْهُمْ قَوْسًا فَقُلْتُ لَيْسَتْ بِمَالٍ وَأَرْمِي عَنْهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ لَآتِيَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَأَسْأَلَنَّهُ فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ رَجُلٌ أَهْدَى إِلَيَّ قَوْسًا مِمَّنْ كُنْتُ أُعَلِّمُهُ الْكِتَابَ [ص:265] وَالْقُرْآنَ وَلَيْسَتْ بِمَالٍ وَأَرْمِي عَنْهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ قَالَ إِنْ كُنْتَ تُحِبُّ أَنْ تُطَوَّقَ طَوْقًا مِنْ نَارٍ فَاقْبَلْهَا حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ وَكَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ قَالَا حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ حَدَّثَنِي بِشْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَسَارٍ قَالَ عَمْرٌو و حَدَّثَنِي عُبَادَةُ بْنُ نُسَيٍّ عَنْ جُنَادَةَ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ نَحْوَ هَذَا الْخَبَرِ وَالْأَوَّلُ أَتَمُّ فَقُلْتُ مَا تَرَى فِيهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَالَ جَمْرَةٌ بَيْنَ كَتِفَيْكَ تَقَلَّدْتَهَا أَوْ تَعَلَّقْتَهَا- (سنن أبي داؤد. كتاب الإجارة)
1 ۔۔۔۔ علَّمتُ ناسًا من أهلِ الصُّفَّةِ الكتابَ والقرآنَ فأهدَى إليَّ رجلٌ منهم قوسًا فقلتُ ليست لي بمالٍ فأرميَ عليها في سبيلِ اللهِ فأتيتُه فقلتُ يا رسولَ اللهِ رجلٌ أهدَى إليَّ قوسًا ممَّن كنتُ أُعلِّمُه الكتابَ والقرآنَ وليست لي بمالٍ فأرميَ عليها في سبيلِ اللهِ فقال إن كنتَ تحبُّ أن تُطوَّقَ طوقًا من نارٍ فاقبَلْها
الراوي: عبادة بن الصامت | المحدث : الصنعاني | المصدر: سبل السلام
الصفحة أو الرقم: 3/127 | خلاصة حكم المحدث: [فيه] مغيرة بن زياد مختلف فيه واستنكر أحمد حديثه وفيه الأسود بن ثعلبة وفيه مقال
(حضرت عبادہ بن صامت کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! ایک شخص نے مجھے بطور تحفہ ایک کمان بھیجی ہے اور وہ شخص ان لوگوں میں سے ہے جنہیں میں کتاب و قرآن کی تعلیم دیا کرتا تھا اور میں سمجھتا ہوں (اس کمان کو قبول کر لینے میں اس لئے کوئی مضائقہ نہیں ہے) کہ کمان کوئی مال نہیں ہے۔ چنانچہ اس کمان کے ذریعے اللہ کے راستہ (یعنی جہاد) میں تیر اندازی کروں گا آپ ﷺ نے فرمایا اگر تمہیں یہ پسند ہو کہ تمہارے گلے کو آگ کا طوق پہنایا جائے تو اسے قبول کرلو (ابوداؤد ابن ماجہ)
اس حدیث میں تعلیم قرآن کے عوض کمان کے حصول پہ جہنم کی وعید آئی ہے۔ جس سے اجرت کا ناجائز ہونا معلوم ہوتا یے۔
قائلین جواز کے دلائل بھی بے شمار ہیں۔ لیکن ان میں چند اہم یہ ہیں:
1۔۔۔۔ [ص: 1968] 
4829 حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ أَنَّ امْرَأَةً عَرَضَتْ نَفْسَهَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ زَوِّجْنِيهَا فَقَالَ مَا عِنْدَكَ قَالَ مَا عِنْدِي شَيْءٌ قَالَ اذْهَبْ فَالْتَمِسْ وَلَوْ خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ فَذَهَبَ ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ لَا وَاللَّهِ مَا وَجَدْتُ شَيْئًا وَلَا خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ وَلَكِنْ هَذَا إِزَارِي وَلَهَا نِصْفُهُ قَالَ سَهْلٌ وَمَا لَهُ رِدَاءٌ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا تَصْنَعُ بِإِزَارِكَ إِنْ لَبِسْتَهُ لَمْ يَكُنْ عَلَيْهَا مِنْهُ شَيْءٌ وَإِنْ لَبِسَتْهُ لَمْ يَكُنْ عَلَيْكَ مِنْهُ شَيْءٌ فَجَلَسَ الرَّجُلُ حَتَّى إِذَا طَالَ مَجْلِسُهُ قَامَ فَرَآهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَعَاهُ أَوْ دُعِيَ لَهُ فَقَالَ لَهُ مَاذَا مَعَكَ مِنْ الْقُرْآنِ فَقَالَ مَعِي سُورَةُ كَذَا وَسُورَةُ كَذَا لِسُوَرٍ يُعَدِّدُهَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْلَكْنَاكَهَا بِمَا مَعَكَ مِنْ الْقُرْآنِ (صحيح البخاري)
2111 حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ عَنْ مَالِكٍ عَنْ أَبِي حَازِمِ بْنِ دِينَارٍ عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَتْهُ امْرَأَةٌ فَقَالَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي قَدْ وَهَبْتُ نَفْسِي لَكَ فَقَامَتْ قِيَامًا طَوِيلًا فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ زَوِّجْنِيهَا إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكَ بِهَا حَاجَةٌ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَلْ عِنْدَكَ مِنْ شَيْءٍ تُصْدِقُهَا إِيَّاهُ فَقَالَ مَا عِنْدِي إِلَّا إِزَارِي هَذَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّكَ إِنْ أَعْطَيْتَهَا إِزَارَكَ جَلَسْتَ وَلَا إِزَارَ لَكَ فَالْتَمِسْ شَيْئًا قَالَ لَا أَجِدُ شَيْئًا قَالَ فَالْتَمِسْ وَلَوْ خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ فَالْتَمَسَ فَلَمْ يَجِدْ شَيْئًا فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهَلْ مَعَكَ مِنْ الْقُرْآنِ شَيْءٌ قَالَ نَعَمْ سُورَةُ كَذَا وَسُورَةُ كَذَا لِسُوَرٍ سَمَّاهَا فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ زَوَّجْتُكَهَا بِمَا مَعَكَ مِنْ الْقُرْآنِ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَفْصِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنِي أَبِي حَفْصُ بْنُ [ص: 237] عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ الْحَجَّاجِ الْبَاهِلِيِّ عَنْ عِسْلٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ نَحْوَ هَذِهِ الْقِصَّةِ لَمْ يَذْكُرْ الْإِزَارَ وَالْخَاتَمَ فَقَالَ مَا تَحْفَظُ مِنْ الْقُرْآنِ قَالَ سُورَةَ الْبَقَرَةِ أَوْ الَّتِي تَلِيهَا قَالَ فَقُمْ فَعَلِّمْهَا عِشْرِينَ آيَةً وَهِيَ امْرَأَتُكَ حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَبِي الزَّرْقَاءِ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ عَنْ مَكْحُولٍ نَحْوَ خَبَرِ سَهْلٍ قَالَ وَكَانَ مَكْحُولٌ يَقُولُ لَيْسَ ذَلِكَ لِأَحَدٍ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (سنن أبي داؤد)
(عبداللہ بن یوسف، مالک، ابی حازم، سہل بن سعد کہتے ہیں کہ ایک عورت نے آپ ﷺ سے آکر کہا کہ میں اپنا نفس آپ کو دے دیا وہ دیر تک کھڑی رہی، ایک صحابی نے عرض یا رسول اللہ! اگر آپ کو اس کی ضرورت نہ ہو تو اس کی شادی مجھ سے کرادیجئے، آپ ﷺ نے پوچھا کہ تیرے پاس مہر دینے کو کچھ ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میرے پاس تہہ بند کے علاوہ کچھ نہیں، آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر وہ چادر اسے دے دے گا تو تو بے تہہ بند کے رہ جائے گا، کچھ اور تلاش کر، اس نے کہا مجھے کچھ نہیں ملا، آپ ﷺ نے فرمایا کچھ ڈھونڈو تو سہی خواہ لوہے کی انگوٹھی ہی ہو، وہ بھی اس کو نہیں ملی، تو آپ ﷺ نے فرمایا کچھ قرآن پڑھا ہے، اس نے چند سورتوں کا نام لے کر بتایا کہ میں نے یہ یہ سورتیں پڑھی ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا کہ قرآن کے حفظ کرنے کے سبب سے میں نے تجھے اس کا شوہر کردیا۔)
حدیث مذکور سے صاف حکم ظاہر ہوتا ہے کہ جب تنگدست شوہر کے لئے قرآن کی کچھ سورتوں کی تعلیم اس کی بیوی کا مہر  بننا جائز ہوگیا تو  بچوں کی تعلیم کے مسئلے میں بھی اس تعلیم  پہ اجرت لینا جائز ہوگا۔۔
(2۔۔) 5405 حَدَّثَنِي سِيدَانُ بْنُ مُضَارِبٍ أَبُو مُحَمَّدٍ الْبَاهِلِيُّ حَدَّثَنَا أَبُو مَعْشَرٍ الْبَصْرِيُّ هُوَ صَدُوقٌ يُوسُفُ بْنُ يَزِيدَ الْبَرَّاءُ قَالَ حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ الْأَخْنَسِ أَبُو مَالِكٍ عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرُّوا بِمَاءٍ فِيهِمْ لَدِيغٌ أَوْ سَلِيمٌ فَعَرَضَ لَهُمْ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْمَاءِ فَقَالَ هَلْ فِيكُمْ مِنْ رَاقٍ إِنَّ فِي الْمَاءِ رَجُلًا لَدِيغًا أَوْ سَلِيمًا فَانْطَلَقَ رَجُلٌ مِنْهُمْ فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ عَلَى شَاءٍ فَبَرَأَ فَجَاءَ بِالشَّاءِ إِلَى أَصْحَابِهِ فَكَرِهُوا ذَلِكَ وَقَالُوا أَخَذْتَ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ أَجْرًا حَتَّى قَدِمُوا الْمَدِينَةَ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخَذَ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ أَجْرًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أَحَقَّ مَا أَخَذْتُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا كِتَابُ اللَّهِ (صحيح البخاري)
ترجمہ: اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ کے صحابہ کی ایک جماعت ایک ایسے گاؤں سے گزری جس میں کسی شخص کو بچھو یا سانپ نے ڈس رکھا تھا چنانچہ اس بستی کا ایک شخص ان صحابہ کے پاس آیا اور ان سے پوچھا کہ کیا آپ لوگوں میں کوئی شخص جھاڑ پھونک کرنیوالا بھی ہے کیونکہ ہماری بستی میں ایک شخص کو بچھو یا سانپ نے ڈس لیا ہے ؟ (اگر ایسا کوئی شخص ہے تو وہ میرے ساتھ چل کر اس شخص پر دم کر دے) چنانچہ ان میں سے ایک صحابی تشریف لے گئے اور انہوں نے بکریوں کے عوض سورت فاتحہ پڑھی۔ یعنی انہوں نے کہا کہ میں اس شخص پر اس شرط کے ساتھ جھاڑ پھونک کروں گا کہ میں اس کے عوض اتنی بکریاں لوں گا اسے بستی والوں نے منظور کر لیا لہذا ان صحابی نے سورت فاتحہ پڑھ کر اس شخص پر دم کیا کیونکہ منقول ہے کہ (فاتحۃ الکتاب شفاء من السم) یعنی سورت فاتحہ زہر کے لئے شفاء ہے لہذا وہ شخص اچھا ہو گیا پھر جب وہ صحابی بکریاں لے کر اپنے ساتھیوں کے پاس آئے تو ان ساتھیوں نے اس کو ناپسند کیا اور کہا کہ بڑے تعجب کی بات ہے کہ تم نے کتاب اللہ پڑھنے پر مزدوری لی ہے یہاں تک وہ سب صحابہ مدینہ پہنچے اور آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! فلاں صحابی نے کتاب اللہ پڑھنے پر مزدوری لی ہے آپ ﷺ نے فرمایا کہ جن چیزوں کی اجرت لیتے ہو ان میں سب سے بہتر کتاب اللہ ہے ( بخاری)
ایک اور روایت میں یوں ہے کہ آپ ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ تم نے اچھا کیا ان بکریوں کو آپس میں تقسیم کر لو اور اپنے ساتھ میرا حصہ بھی لگاؤ۔
اس حدیث میں "جن چیزوں کی اجرت لیتے ہو ان میں سب سے بہتر کتاب اللہ ہے"  محل استشہاد ہے۔
حدیث اگرچہ جھاڑ پہونک سے متعلق ہے ۔لیکن الفاظ حدیث کے عموم کا اعتبار ہوتا ہے کسی مخصوص پس منظر کا نہیں۔ "العبرة لعموم اللفظ لابخصوص السبب" الفاظ حدیث کا عموم بتارہا ہے کہ "علاج معالجہ کے لئےقرآن پڑھنے" پہ اجرت لینا درست ہے۔ اس سے کوئی بحث نہیں کہ  تعلیم کے لئے پڑھا جائے یا تطبب یعنی علاج معالجہ کے لئے۔ 
البتہ اگر تعلیم یا تطبب مقصود نہ ہو تو  پھر محض تلاوت قرآن پہ اجرت لینا جائز نہیں ہے۔
 اور پھر سوچنے کی بات ہے کہ جب جسمانی انفرادی  ضرورت یعنی رقیہ کے لئے قرات قرآن پہ اجرت جائز ہوسکتی ہے تو اجتماعی اور قومی و مذہبی ضرورت کے لئے قرات قرآن (تعلیم دین) پہ اجرت کیوں جائز نہ ہو؟؟ 
امام بخاری کی  مذکورہ بالا روایت  کے الفاظ انتہائی قابل غور ہیں۔اس روایت میں جھاڑ پہونک کرنے والے صحابی رسول کی طرف سے جھاڑ پہونک کا لفظ "رقیہ" نہیں محض "سورہ فاتحہ پڑھنے" کی بات ہے۔ اور اس پہ لطف یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا حصہ رکھنے کی بات ارشاد فرماکر اس کے جواز کی دوٹوک انداز میں تائید وتوثیق فرمادی۔۔امام بخاری کا  انداز بتارہا ہے کہ وہ اس حدیث سے مطلق قرات قرآن پہ جواز اجرت کی تائید فرمارہے ہیں ۔جس کے ذیل میں تطبب بھی ہوسکتا ہے اور تعلیم قرآن بھی ۔۔۔۔ لہذا اس روایت کو صرف رقیہ کی اجرت کے جواز پہ دلیل بنانا اور اجرت تعلیم کے جواز کو اس سے خارج کرنا درست نہیں۔
مانعین اور مجوزین کے بنیادی مستدلات کی ایک جھلک اوپر آچکی ہے۔اس میں تعلیم قرآن کی اجرت کے عدم جواز پہ عبادہ بن صامت کی کمان لینے والی جو روایت پیش کی گئی ہے۔وہ روایت اسنادی حیثیت سے کمزور ہے۔ اس کی سند میں مغیرہ بن زیاد موصلی  ہیں جو متکلم فیہ راوی ہیں ۔امام احمد بن حنبل ان کی مرویات کو پسند نہیں فرماتے۔نیز اس میں دوسرا راوی "اسود بن ثعلبہ" بھی متکلم فیہ ہے۔جبکہ ابن عباس کی صحیحین کی وہ حدیث جس میں سورہ فاتحہ پڑھنے پہ بکریاں بطور اجرت لینے کی بات بیان ہوئی تھی
بالکل صحیح اور صریح ہے۔ تو پھر عبادہ بن صامت کی غیر ثابت حدیث، ابن عباس والی صحیح اور ثابت حدیث کا مقابلہ کیسے کرسکتی ہے ؟اگر تھوڑی دیر کے لئے ان کی حدیث کو صحیح اور ثابت مان بھی لیں جیساکہ البانی وغیرہ نے صحیح کہا ہے تو دیکھنے کی بات یہ ہے کہ حضرت عبادہ بن صامت نے خالصة  لوجہ اللہ اصحاب صفہ کو قرآن پڑھایا تھا۔سورتیں سکھادینے کے بعد اب کمان کی پیش کش ہوئی۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس مخصوص صحابی کے للہ فی اللہ کیے ہوئے کام وطاعت کو معمولی اجرت لے کر ضائع ہونے سے بچایا اور ان کے خلوص کی حفاظت فرماکر کمان لینے سے منع فرمادیا۔۔ہاں اگر تعلیم قرآن سے پہلے بطور اجرت وبدلہ کمان لینے کی بات آتی تو شاید حضور اسے جائز فرماکر ان کے طیب خاطر کے لئے بطور تلطف اس میں بھی اپنا حصہ رکھنے کو فرماتے! جیسے بکری کے معاملہ میں دوسرے صحابی کو فرمایا تھا۔
پھر یہ حضرت عبادہ بن صامت اصحاف صفہ میں سے تھے۔ اور ان کا گزربسر عام مسلمانوں کے صدقات وخیرات پہ ہوتا تھا۔لہذا ان کے لئے اجرت لینے کو حضور نے بہتر نہ سمجھا۔
علاوہ ازیں  شریعت میں ہمیں ایسے ان گنت احکام ملتے ہیں جو حضور کے اہل بیت اور مخصوصین کے لئے خاص ہوتے تھے۔دوسروں کے لئے گنجائش اور رخصت کے پہلو ہوتے تھے جبکہ خاصان رسول کے لئے عزیمت کا پہلو اختیار کیا جاتا تھا۔ عبادہ بن صامت کو کمان کی ممانعت اسی قبیل سے تھی ۔۔۔ لايقاس الملوك بالحدادين.
الغرض صحیحین کی ابن عباس والی روایت سب سے صحیح اور صریح ہے۔ عبادہ بن صامت کی روایت صحت وقوت کے اس درجہ پہ نہیں ہے اس لئے وہ  ابن عباس کی روایت کے معارض نہیں ہوسکتی۔
اسی سے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے اس اثر کا حال بھی معلوم ہوجاتا ہے جو حضرت مجاہد ان سے  نقل فرماتے ہیں۔ جس کا حوالہ آپ نے دیا ہے۔ فرماتے ہیں: 
يا اهل العلم والقرآن! لاتاخذوا للعلم والقرآن ثمنا فتسبقكم الزناة إلى الجنة. كنزالعمال. حدیث نمبر 4179۔ حياة الصحابة عربي 309 /4
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ اثر درج ذیل وجوہ سے ناقابل اعتبار واستدلال ہے: 
1 ۔۔۔۔ یہ اثر صحابی ہے۔ جو ابن عباس کی صحیح اور صریح روایت کے خلاف ہے۔
2 ۔۔۔۔۔۔ حضرت عمر کا یہ قول خود ان کے عمل کے خلاف ہے۔ راوی کا عمل اس کے قول کے خلاف ہوتو باتفاق محدثین عمل کو ترجیح دیجاتی ہے قول کو نہیں۔
3. روي عن سعد بن أبي وقاص رضي الله عنه أنه أعطى قوما قرؤوا القرآن.
4. روي عن عمار بن ياسر رضي الله عنه أنه أعطى قوماً قرؤوا القرآن في رمضان۔
5. روي عن الوضين بن عطاء أنه قال: (كان بالمدينة ثلاثة معلمين يعلمون الصبيان، فكان عمر بن الخطاب رضي الله عنه يرزق كل واحد منهم خمسة عشر كل شهر)
6. روي عن الحكم بن عتيبة قوله: (ما علمت أحداً كره أجر المعلم)
روي عن عبد الجبار بن عمر أنه قال: "كل من سألت من أهل المدينة لا يرى بتعليم الغلمان بالأجر بأساً"
8. روي عن عطاء وأبي قلابة إباحة أجر المعلم على تعليم القرآن۔
9. روي عن الإمام مالك أنه قال: (لم يبلغني أن أحداً كره تعليم القرآن بأجرة)
(حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ قرآن کی تلاوت کرنے والے افراد کو محنتانہ دیتے تھے. (انظر: ابن حزم، المحلى، ج 9، ص 14)
حضرت عمار بن یاسر رمضان المبارک میں قرآن پڑھنے والے کو اکرامیہ دیتے تھے. (انظر: المصدر السابق، ج 9، ص 14.)
حضرت وضین بن عطا فرماتے ہیں کہ مدینہ منورہ میں تین اساتذہ بچوں کو قرآن پڑھاتے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہر ایک کو پندرہ درہم ماہانہ تنخواہ دیتے تھے 
(انظر: المصدرالسابق، ج 9، ص15. ابن أبي شيبة، المصنف، ج 4، ص346، ك: البيوع والأقضية، ب: في أجر المعلم برقم 20828)
حضرت حکیم بن عتیبہ کہتے ہیں کہ مجھے ایک بھی ایسا شخص معلوم نہیں جو تعلیم قرآن کی اجرت کو ناجائز سمجھتا ہو۔
(انظر: ابن حزم، المحلى، ج 9، ص15.)
عبدالجبار بن عمر کہتے ہیں کہ میں نے تعلیم قرآن کی اجرت سے متعلق اہل مدینہ سے مسئلہ معلوم کیا تو مجھے ایک بھی ایسا شخص نہ ملا جو اجرت کے ساتھ تعلیم قرآن میں کچھ حرج سمجھتا ہو۔ (رواه مالك، بن أنس الأصبحي، المدونة الكبرى، تحقيق: حمدي الدمرداش، مكتبة نزار الباز، الرياض، ط1، 1419ه‍/1999م، ج5، ص1691، ك: الجعل والإجارة، ب: في إجارة المعلم)
حضرت عطا اور ابو قلابہ سے اجرت کے ساتھ تعلیم قرآن کا جواز مروی ہے. (انظر: المصدرالسابق، ج 9، ص15. ابن شيبة، المصنف، ج 4، ص 345، ك: البيوع والأقضية، ب: في أجر المعلم برقم 20824 ورقم 20827)
حضرت امام مالک رحمہ اللہ سے مروی ہے۔ فرماتے ہیں کہ مجھے (مدینہ کے) کسی بھی اہل علم کے بارے میں یہ نہیں معلوم ہوا کہ وہ اجرت لے کے تعلیم قرآن کو ناجائز سمجھتے ہوں۔ (انظر: الكشناوي، أسهل المدارك، ج 2، ص 133)
حضرات صحابہ وتابعین کرام کے یہ آثار دوٹوک انداز میں بتارہے ہیں کہ وہ حضرات تعلیم قرآن بالاجرت کو نہ صرف جائز سمجھتے  بلکہ بعض صحابہ عملا اس پہ معلمین کو اجرت بھی دیتے تھے۔ انہی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی ہیں۔
ظاہر ہے کہ صحابہ کرام کا یہ موقف اور عمل حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دیکھنے یا سننے کے بعد ہی انجام پذیر ہوا ہوگا۔ان کی عقل وقیاس کا اس میں کچھ بھی دخل نہ ہوگا۔ (إدريس، الإجارة على تعليم القرآن الكريم، ص 4)
جب حضرت عمر کا خود عمل  یہ تھا کہ وہ قرآن کی اجرت کو نہ صرف جائز سمجھتے بلکہ اس پہ معلمین کو تنخواہ بھرتے۔تو پہر کنز العمال کے حوالے سے حیات الصحابہ میں حضرت مجاہد سے اجرت قرآن کو زانیہ کی اجرت سے بدتر قرار دیا جانے والا اثر ساقط الاعتبار اور ناقابل احتجاج و استدلال ہوگا۔
تعلیم قرآن کی اجرت کا جواز کسی ایک امام کا موقف  نہیں بلکہ ائمہ ثلاثہ (حنابلہ کا بھی ایک قول جواز کا ہے) اور جمہور علماء وشراح حدیث کا راجح اور محقق قول ہے ۔۔۔۔ متاخرین حنفیہ میں اب فتوی بھی جواز ہی پر ہے۔ سلطنت اسلامیہ کے زوال کے بعد جبکہ علماء دین کے گزر بسر اور وظائف کا حکومت کی جانب سے کوئی نظم نہیں بچا۔ ایسے میں تعاون علی الطاعت کی حیثیت سے قرآن وحدیث کی تعلیم پہ محنتانہ وصولنا نہ صرف جائز بلکہ بہتر ہے۔
وبعض مشائخنا رحمہم اللہ تعالیٰ استحسنوا الاستئجار علی تعلیم القرآن الیوم لظھور التوا نی فی الا مورالدینیۃ ففی الامتناع تضییع حفظ القرآن و علیہ الفتوٰی اھ کذافی الھدایہ۔ (ردا لمحتار، کتاب الاجارۃ مطلب تحریر مھم فی عدم جواز الا ستئجار علی التلاوۃ ،۶/ ۵۵ ط۔ سعید)
ومشائخ بلخ جوزوا الا ستئجار علی تعلیم القرآن اذا ضرب لذلک مدۃ وأفتوا بوجوب المسمّی کذا فی المحیط… وکذا جوا ز الا ستئجار علی تعلیم الفقہ و نحوہ المختار للفتویٰ فی زماننا قول ھو لاء کذا فی الفتاوی العتابیۃ (فتاویٰ عالمگیری باختصار)
فتاویٰ عالمگیریۃ کتاب الا جارۃ الباب الخامس عشر، الفصل الرابع ۴/ ۴۴۸ ط ۔ ماجدیۃ)
اور ہمارے بعض مشائخ رحمہم اللہ نے آج کل تعلیم قرآن پر اجرت لینے دینے کا جواز بہتر سمجھا ۔ کیونکہ امور دین میں لوگوں کے اندر سستی پیدا ہوگئی ہے تو ممانعت کے حکم میں اندیشہ ہے کہ حفظ قرآن ضائع ہوجائے گا اور اسی جواز اجرت پر فتویٰ ہے۔ اور مشائخ بلخ نے تعلیم قرآن کے اجرت لینے کو جائز فرمایا ہے جبکہ اس کی مدت معین کی جائے ۔ اور معین شدہ اجرت کے واجب التسلیم ہونے کا فتویٰ دیا ہے۔ اسی طرح تعلیم فقہ اور اس کے امثال (اذان و امامت) پر اجرت لینے کا جواز بھی ہے۔ اور ہمارے زمانے میں فتویٰ کے لئے انہیں لوگوں کا قول مختار ہے۔
مولانا سعد صاحب کا بیان میرے سامنے  ہے اور نہ میں نے سنا ہے۔ تعلیم قرآن کی اجرت کا جواز صرف کسی خاص علاقے کے علماء کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ ائمہ ثلاثہ اور جمہور کا راجح اور مفتی بہ قول ہے۔ اس پہ جملے کسنا یا اسے گمراہی کہنا بہت ہی خطرناک اور گمراہ کن  بات ہے ۔۔۔
تلاوت قرآن یا دیگر عبادات پہ اجرت لینے سے ان کی جہت عبادت ختم  ہوتی ہے اور نہ ہی اخلاص اور اس عمل کے اخروی ثواب میں کوئی کمی آتی ہے۔ جیساکہ بےشمار لوگوں کو یہ مغالطہ ہوا ہے۔کیونکہ اگر مادیات کی شکل میں بدلہ مل جانے سے اجر وثواب ختم ہوجائے تو پہر مال غنیمت کے حصص مل جانے سے جہاد کا ثواب ، خلفاء ، امراء ، قضاة ۔عمال اور مفتیوں کی تنخواہیں مل جانے سے سب کا اجر وثواب ختم ہوجانا چاہئے!! 
لیکن ایسا بالکل نہیں ہے۔بلکہ صلاح نیت کے ساتھ جو بھی عبادت، طاعت، مفاد عامہ کا کام اور تعلیمی، اصلاحی، تبلیغی، دعوتی خدمات انجام دیئے جائیں  تو حسب نیت وخلوص اس پہ ثواب ضرور ملے گا۔
لقول الله تعالى: (فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ) [الزلزلة: 7].
معلمین کو جو کچھ دیا جاتا ہے وہ اکرامیہ، تحفہ، محنتانہ اور عطا وبخشش کے قبیل سے ہوتا ہے ۔بھلے ظاہر میں اجرت سے تعبیر کیا جاتا ہو۔ لیکن حقیقت میں یہ اجرت  وعوض نہیں۔ کیونکہ قرآن کی آیات کی تعلیم کی اجرت  اور عوض حقیقی  ساری کا ئنات بھی نہیں ہوسکتی۔!۔۔ ان کا اصل اجر تو اللہ بروز قیامت دیں گے۔ یہاں تشجیعا تعاون علی الطاعہ کے طور پہ اجرت کے ظاہری نام سے جو کچھ دیا جاتا ہے وہ امراء اور قضاة  وولاة کو بیت المال سے "رزق" کے عنوان سے دیئے جانے والے اکرامیے کی مانند ہے۔ جب ان کا اجر ضائع نہیں ہوا تو معلمین کا اجر کیوں ضائع ہو؟؟ 
اوپر کی سطور میں اجرت کے جواز سے متعلق ائمہ وفقہاء کے جو مذاہب وآراء بیان کیئے گئے ہیں ان کی حیثیت  "فتوی" کی ہے ۔۔۔۔۔ اگر کوئی معلم قرآن "تقوی" پہ عمل کرکے اپنی تعلیمی خدمات پہ کچھ بھی وصول نہ کرے تو ذالك من عزم الأمور
ہذا ما عندی والصواب عنداللہ 
شکیل منصور القاسمی / بیگوسرائے 
9/12/2017 م
https://saagartimes.blogspot.com/2021/08/blog-post_83.html




دینی امور پر اجرت لینے والے اس کو جائز سمجھنے والے اور ان اجرت لینے والوں کا دفاع کرنے والے

دینی امور پر اجرت لینے والے اس کو جائز سمجھنے والے اور ان اجرت لینے والوں کا دفاع کرنے والے 
مکمل تحریر پڑھیں غور و فکر کریں اور فیصلہ کریں کہ وہ کس طرف جارھے ھیں 
اِنَّ اَلحَمدَ لِلِّہِ نَحمَدہ، وَ نَستَعِینہ، وَ نَستَغفِرہ، وَ نَعَوذ بَاللَّہِ مِن شَرورِ أنفسِنَا وَ مِن سِیَّأاتِ أعمَالِنَا، مَن یَھدِ ہ اللَّہُ فَلا مُضِلَّ لَہ ُ وَ مَن یُضلِل؛ فَلا ھَاديَ لَہ ُ، وَ أشھَد أن لا إِلٰہَ إِلَّا اللَّہ وَحدَہ لا شَرِیکَ لَہ، وَ أشھَد أن مُحمَداً عَبدہ، وَ رَسو لہ
فَاعَوذُ بِاﷲ مِنَ الشَیطَانِ الرَجِیم بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيم يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ كَثِيرًا مِنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ ۗ 
اے ایمان لانے والو، اِن اہل کتاب کے اکثر علماء اور درویشوں کا حال یہ ہے کہ وہ لوگوں کے مال باطل طریقوں سے کھاتے ہیں اور انہیں اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔ (التوبہ۔ 34)
📌مالک کائنات کا بے حد احسان ہے کہ اس نے رہتی دنیا تک انسانوں کی ہدایت کا بندوبست فرمایا اور انہیں گمراہی کی ایک ایک روش اور سمت سے آگاہ کیا۔
قابل افسوس بات یہ ہے کہ انسان رب العزت کے عظیم  احسان سے بے پروہ ہوجاۓ۔
🔹اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ انسان اپنی لگام انہی کے ہاتھوں میں دے ڈالے جن سے بپنے کی تلقین کی گئی تھی۔
یہ انسان کا اپنا ہی قصور ہے کہ قرآن و حدیث کا دعویدار انسان دنیا میں میں مست ہوگیا. اس کے پاس اتنا ہی وقت نہیں کہ ہدایت نامہ کھول کر پڑھ سکے مگر افسوس کہ اس بات کو بھول گئے کہ یہ کلام کوئی عام کلام نہیں ہے یہ بادشاہوں کے باشادہ کا کلام ہے اسی شہنشاہ نے اپنے کلام پر پیسہ ٹکا وصول کرنے سے بڑی شدد سے منع کیا مگر اس کو نظرانداز کرکے بڑی آسانی سے مولوی کے حمایتی بن گئے۔
🔸دینی پیشہ ور مولوی نے اُن کی ذہن سازی کی کہ "ہم کھائیں گے کہاں سے"
تو لہذا "هَٰذَا حَلَالٌ وَهَٰذَا حَرَامٌ" اپنی طرف سے حلال کے فتوے اپنی طرف سے حرام کے فتوے.........
بڑی وضاحت سے ﷲ نے اور اس کے رسول نے دین پر اجرت کو ناجائز فرمایا۔.....
📌اجرت کو جائز قرار دے کر اول منکر مت بنو۔
وَآمِنُوا بِمَا أَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُونُوا أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ ۖ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا وَإِيَّايَ فَاتَّقُونِ
اور میں نے جو کتاب بھیجی ہے اس پر ایمان لاؤ یہ اُس کتاب کی تائید میں ہے جو تمہارے پاس پہلے سے موجود تھی، لہٰذا سب سے پہلے تم ہی اس کے منکر نہ بن جاؤ تھوڑی قیمت پر میری آیات کو نہ بیچ ڈالو او ر میرے غضب سے بچو۔ (البقرہ۔ 41)
📌جو دین کی کمائی کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹوں میں آگ کے انگارے بھر رہے ہیں نہ ﷲ انکو معاف کرۓ گا نہ انکو گناہوں کو پاک کرے گا۔
إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ الْكِتَابِ وَيَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۙ أُولَٰئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
حق یہ ہے کہ جو لوگ اُن احکام کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں ناز ل کیے ہیں اور تھوڑے سے دُنیوی فائدے حاصل کرتے ہیں، وہ دراصل اپنے پیٹ آگ سے بھر رہے ہیں قیامت کے روز اللہ ہرگز ان سے بات نہ کرے گا، نہ اُنہیں پاکیزہ ٹھیرائے گا، اور اُن کے لیے دردناک سزا ہے۔ (البقرہ۔ 174)
📌دین پر اجرت لینا یہودیوں اور عیسائیوں کا کردار رہا ہے۔
وَإِذْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ فَنَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ وَاشْتَرَوْا بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۖ فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُونَ
اِن اہل کتاب کو وہ عہد بھی یاد دلاؤ جو اللہ نے ان سے لیا تھا کہ تمہیں کتاب کی تعلیمات کو لوگوں میں پھیلانا ہوگا، انہیں پوشیدہ رکھنا نہیں ہوگا مگر انہوں نے کتاب کو پس پشت ڈال دیا اور تھوڑی قیمت پر اُسے بیچ ڈالا کتنا برا کاروبار ہے جو یہ کر رہے ہیں۔ (العمران۔ 187)
📌دینی امور پر اجرت کی حیثیت
مَتَاعٌ قَلِيلٌ ثُمَّ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۚ وَبِئْسَ الْمِهَادُ
یہ فائدہ ہے تھوڑا، پھر ٹھکانا انکا جہنم ہے جو بدترین جائے قرار ہے۔ (العمران۔197)
📌جو لوگ ﷲ کے عہد (یعنی قرآن) کے ذریعے دنیا کا فائدہ حاصل کرتے ہیں انکا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔
إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولَٰئِكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
رہے وہ لوگ جو اللہ کے عہد اور اپنے ایمان کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں، تو ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں، اللہ قیامت کے روز نہ اُن سے بات کرے گا نہ اُن کی طرف دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا، بلکہ اُن کے لیے تو سخت دردناک سزا ہے۔ (العمران۔ 77)
📌لوگوں سے نہ ڈرو ﷲ سے ڈرو دین کے ذریعے نہ کماؤ 
فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا ۚ وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُون
تم لوگوں سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو اور میری آیات کو ذرا ذرا سے معاوضے لے کر بیچنا چھوڑ دو جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں۔ (المائدہ۔ 44)
📌جناب محمد رسول ﷲ صلی ﷲ سے ﷲ نے اعلان کروایا کہ میں تم سے اجرت نہیں مانگتا میرا اجر ﷲ کے ذمہ ہے۔
أُولَٰئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ ۖ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ ۗ قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا ۖ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرَىٰ لِلْعَالَمِينَ
اے محمدؐ! وہی لوگ اللہ کی طرف سے ہدایت یافتہ تھے، انہی کے راستہ پر تم چلو، اور کہہ دو کہ میں (اس تبلیغ و ہدایت کے) کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں، یہ تو ایک عام نصیحت ہے تمام دنیا والوں کے لیے۔ (الانعام۔90)
📌نوح علیہ اسلام نے فرمایا میرا اجر ﷲ کے ذمے ہے۔
وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَىٰ رَبِّ الْعَالَمِينَ
میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے۔ (الشعراء۔ 109)
📌ھود علیہ اسلام نے فرمایا میرا اجر ﷲ کے ذمہ ہے۔
وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَىٰ رَبِّ الْعَالَمِينَ
میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے۔ (الشعراء۔ 127)
📌شعیب علیہ اسلام نے فرمایا میرا اجر ﷲ کے ذمہ ہے۔
وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَىٰ رَبِّ الْعَالَمِينَ
میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے۔ (الشعراء 180)
📌لوط علیہ اسلام نےفرمایا میرا اجر ﷲ کے ذمہ ہے۔
وَمَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَىٰ رَبِّ الْعَالَمِينَ
میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے۔ (الشعراء۔164)
📌نوح علیہ اسلام کے الفاظ میں "مال" کا ذکر ہے اور دین پر کام کرنے کا اجر ﷲ کے پاس ہے
وَيَا قَوْمِ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مَالًا ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ ۚ َ
اور اے برادران قوم، میں اِس کام پر تم سے کوئی مال نہیں مانگتا، میرا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے۔ (ھود۔ 29)
📌ھود علیہ اسلام کے ﷲ دیکھیں
يَا قَوْمِ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى الَّذِي فَطَرَنِي ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
اے برادران قوم، اس کام پر میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا، میرا اجر تو اس کے ذمہ ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے، کیا تم عقل سے ذرا کام نہیں لیتے؟ (ھود۔ 51)
📌رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کاروبار کیا کرتے تھے اسی وجہ سے مشرکین مکہ نے اطراض کیا۔
وَقَالُوا مَالِ هَٰذَا الرَّسُولِ يَأْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِي فِي الْأَسْوَاقِ ۙ 
کہتے ہیں "یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے؟۔ (الفرقان۔ 7)
📌مشرکین مکہ کے اطراض کا جواب خود ﷲ نے دیا سب کا اپنا اپنا ذریعہ معاش تھا۔
وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا إِنَّهُمْ لَيَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَيَمْشُونَ فِي الْأَسْوَاقِ ۗ 
اے محمدؐ، تم سے پہلے جو رسول بھی ہم نے بھیجے ہیں وہ سب بھی کھانا کھانے والے اور بازاروں میں چلنے پھرنے والے لوگ ہی تھے۔ (الفرقان۔ 20)
📌بصیرت کی آنکھیں رکھنے والوں پھر رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کا اعلان سنو!
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا مُبَشِّرًا وَنَذِيرًا
اے محمدؐ، تم کو تو ہم نے بس ایک مبشر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے
قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ إِلَّا مَنْ شَاءَ أَنْ يَتَّخِذَ إِلَىٰ رَبِّهِ سَبِيلًا
اِن سے کہہ دو کہ "میں اس کام پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا، میری اُجرت بس یہی ہے کہ جس کا جی چاہے وہ اپنے رب کا راستہ اختیار کر لے." (الفرقان۔ 50-51)
📌دین پر اجرت وصول کرنے والوں کے نام ﷲ کا پیغام
اشْتَرَوْا بِآيَاتِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِهِ ۚ إِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
انہوں نے اللہ کی آیات کے بدلے تھوڑی سی قیمت قبول کر لی پھر اللہ کے راستے میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہو گئے بہت برے کرتوت تھے جو یہ کرتے رہے۔ (التوبہ۔ 9)
📌دین کے معاملے میں دنیا کے حریص لوگوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔
مَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الْآخِرَةِ نَزِدْ لَهُ فِي حَرْثِهِ ۖ وَمَنْ كَانَ يُرِيدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهِ مِنْهَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ نَصِيبٍ
جو کوئی آخرت کی کھیتی چاہتا ہے اُس کی کھیتی کو ہم بڑھاتے ہیں، اور جو دنیا کی کھیتی چاہتا ہے اُسے دنیا ہی میں سے دیتے ہیں مگر آخرت میں اُس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ (الشوری۔ 20)
📌اتنی آیات دیکھ لینے کے بعد بھی جو دنیا کا طالب رہا اسکا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔اور جو اجرت نہیں لیتے انکا آخرت میں اچھا صلہ ہے۔
مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَاءُ لِمَنْ نُرِيدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ يَصْلَاهَا مَذْمُومًا مَدْحُورًا
جو ہے خواہش مند دنیا کے فائدے کا تو جلدی دے دیتے ہیں ہم اسے یہیں جو چاہتے ہیں ہم اور جس کو چاہتے ہیں ہم پھر ٹھرا رکھا ہے ہم نے اس کے لیے جہنم داخل ہوگا وہ اس میں برے حال سے اور راندہ درگاہ ہو کر۔
وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَىٰ لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَٰئِكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُورًا
اور جو آخرت کا خواہشمند ہو اور اس کے لیے کوشش کرے جیسی کہ اس کے لیے کوشش کرنی چاہیے، اور ہو وہ مومن، تو ایسے ہر شخص کی کوشش مقبول ہوگی۔ (بنی اسرائیل۔ 18-19)
📌ایمان والے اجر آخرت میں ﷲ سے لیں گے۔
وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ
اور آخرت کا اجر اُن لوگو ں کے لیے زیادہ بہتر ہے جو ایمان لے آئے اور تقوے کے ساتھ کام کرتے رہے۔ (یوسف۔ 57)
📌رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کا اعلان قیامت تک لوگوں کے نام
وَمَا تَسْأَلُهُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ لِلْعَالَمِينَ
حالانکہ تم اس خدمت پر ان سے کوئی اجرت بھی نہیں مانگتے ہو یہ تو ایک نصیحت ہے جو دنیا والوں کے لیے عام ہے۔ (یوسف۔ 104)
رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کا طرض عمل اپناؤ غور و فکر سے کام لو 
📌قُلْ مَا سَأَلْتُكُمْ مِنْ أَجْرٍ فَهُوَ لَكُمْ ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ ۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ
اِن سے کہو، "اگر میں نے تم سے کوئی اجر مانگا ہے تو وہ تم ہی کو مبارک رہے میرا اجر تو اللہ کے ذمہ ہے اور وہ ہر چیز پر گواہ ہے." (سبا۔ 47)
📌کچھ لوگ کہتے ہیں تھوڑا معاوضہ نہیں لینا چاہیے ذیادہ لینا چاہیے تو ﷲ کا فرمان ہے پوری دنیا بھی لے لی جاۓ وہ بھی قلیل ہے آخرت کے اجر کے مقابلے میں۔
قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ وَالْآخِرَة
ان سے کہو کہ پوری دنیا قلیل ہے آخرت کے مقابلے میں۔ (النساء۔ 77)
أَمْ تَسْأَلُهُمْ خَرْجًا فَخَرَاجُ رَبِّكَ خَيْرٌ ۖ وَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ
کیا تُو ان سے کچھ مانگ رہا ہے؟ تیرے لیے تیرے رب کا دیا ہی بہتر ہے اور وہ بہترین رازق ہے
وَإِنَّكَ لَتَدْعُوهُمْ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ
تُو تو ان کوسیدھے راستے کی طرف بلا رہا ہے
وَإِنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ عَنِ الصِّرَاطِ لَنَاكِبُونَ
مگر جو لوگ آخرت (کے اجر)کو نہیں مانتے وہ راہِ راست سے ہٹ کر چلنا چاہتے ہیں۔ (المومنون۔ 72)
📌سورت یسن میں ﷲ نے ایک مومن کا ذکر کیا کہ جب بستی میں تین نبیوں نے دعوت کا آغاز کیا تو بستی والے انکے مخالف ہو گئے اور سنگسار کرنے کی دھمکی دینے لگے.......شہر کے دوسرے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور کہا...............
اس کا ذکر ﷲ نے کیا......
وَجَاءَ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعَىٰ قَالَ يَا قَوْمِ اتَّبِعُوا الْمُرْسَلِينَ
اتنے میں شہر کے دُور دراز گوشے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آیا اور بولا "اے میری قوم کے لوگو، رسولوں کی پیروی اختیار کرلو
اتَّبِعُوا مَنْ لَا يَسْأَلُكُمْ أَجْرًا وَهُمْ مُهْتَدُونَ
پیروی کرو اُن لوگوں کی جو تم سے کوئی اجر نہیں چاہتے اور ٹھیک راستے پر بھی ہیں۔ (یسن۔ 20-21)
✨✨سارے مولویوں کا منہ بند کیا جارہا ہے اور اہل ایمان کی پہچان بتائی جا رہی ہے کہ وہ دین پر اجرت نہیں لیتے✨✨
وَإِنَّ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَمَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِمْ خَاشِعِينَ لِلَّهِ لَا يَشْتَرُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۗ أُولَٰئِكَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ
اہل کتاب میں بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کو مانتے ہیں، اس کتاب پر ایمان لاتے ہیں جو تمہاری طرف بھیجی گئی ہے اوراُس کتاب پربھی ایمان رکھتے ہیں جو اس سے پہلے خود ان کی طرف بھیجی گئی تھی، اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں، اور اللہ کی آیات کو تھوڑی سی قیمت پر بیچ نہیں دیتے ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور اللہ حساب چکانے میں دیر نہیں لگاتا۔ (العمران۔ 199)
💐💐فرمان نبوی صلی ﷲ علیہ وسلم💐💐
📚عبد الرحمن بن شبلؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا قرآن پڑھو اور اس میں غلو نہ کرو اور اس سے اعراض نہ کرو اس کو ذریعہ معاش نہ بناؤ اور نہ ہی اس سے بہت سے دنیاوی فائدے حاصل کرو۔ (مسند احمد؛ جلد 5؛ صفحہ 444)
📚سنن ابوداؤد؛ جلد اول؛ حدیث نمبر 829 حدیث مرفوع 
احمد بن صالح‛ عبداللہ بن وہب‛ عمروابن لہیمہ بکر بن سوادہ‛ وفاء بن شریح‛ سہل بن سعد بن ساعدی ؓ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لاۓ اس حال میں کہ ہم قرآن کی تلاوت کر رہے تھے یہ دیکھ کر آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا الحمدﷲ کتابﷲ پڑھنے والے سرخ بھی ہیں‛ سفید بھی ہیں‛ کالے بھی ہیں قرآن پڑھو عنقریب ایسی قومیں آئیں گی جو قرآن کے ذیر ذبر کو ایسے سیدھا کریں گی جیسے تیر کو سیدھا کیا جاتا ہے لیکن قرآن کے اجر میں جلدی کریں گے اور اس کو آخرت پر نہ رکھیں گے۔
📚رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اے اہل قرآن! قرآن کو تکیہ نہ بناؤ‛ رات دن اسکی تلاوت کرو جیسے اسکا حق ہے اور اسکو پھلاؤ‛ اس کو خوش الحانی سے پڑھو‛ اس میں غور و فکر کرو تاکہ تم فلاح پاسکو اور اسکے اجر میں جلدی نہ کرو اسکا اجر تو آخرت میں ہے۔ (بیھقی بحوالہ مشکوہ؛باب تلاوت القرآن)
📚موسی بن اسماعیل، حماد، سعید، ابوعلاء، مطرف بن عبداللہ، حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے اپنی قوم کا امام بنا دیجئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا (ٹھیک ہے) تم ان کے امام ہو لیکن کمزور مقتدیوں کا خیال رکھنا۔ اور مؤذن ایسا شخص مقرر کرنا جو اذان پر اجرت نہ لے۔ (سنن ابوداؤد: جلد اول: حدیث نمبر 528) 
📚 ﻋﺒﺎﺩﮦ ﺑﻦ ﺍﻟﺼﺎﻣﺖ ﺳﮯﺭﻭﺍﯾﺖ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺻﺤﺎﺏ ﺻﻔﮧ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﭼﻨﺪ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﻗﺮﺍﻥ ﭘﮍﮬﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﮑﮭﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﻤﺎﻥ ﺗﺤﻔﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﯼ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺧﯿﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺎﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺭﺍﮦ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺗﯿﺮ ﭼﻼﺅﮞ ﮔﺎ، ﻣﯿﮟ ﺭﺳﻮﻝ صلی ﷲ علیہ وسلم ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺍٓﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﻋﺮﺽ ﮐﯽ ﯾﺎﺭ ﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﺟﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻗﺮﺍﻥ ﭘﮍﮬﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﮑﮭﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﻤﺎﻥ ﺗﺤﻔﮧ ﻣﯿﮟ ﺩﯼ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ یہ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺎﻝ ﺗﻮ ﮨﮯ ﻧﮩﯿﮟ، ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺍللہ ﮐﯽ ﺭﺍﮦ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮ ﭼﻼﺅﮞ ﮔﺎ۔ ﺍٓﭖ صلی ﷲ علیہ وسلم ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺍﮔﺮﺗﻮ ﺍٓﮒ ﮐﺎ ﻃﻮﻕ ﭘﮩﻨﻨﺎ ﭼﺎﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﻤﺎﻥ ﮐﻮ ﻟﮯ ﻟﮯ۔ (ﺍﺑﻮﺩﺍﺅﺩ؛ ﮐﺘﺎﺏﺍﻻﺟﺎﺭﮦ؛ باب ﻓﯽ ﮐﺴﺐ ﺍﻟﻤﻌﻠﻢ)
📚رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کسی انسان کی اس سے بہتر روزی نہیں ہوسکتی جو وہ خود اپنے ہاتھ سے کماۓ۔ (صحیح البخاری؛ کتاب البیوع؛ باب کسب الرجل وعملہ بیدہ)
📚ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا جو علم ﷲ کی رضا حاصل کرنے کے لیے سیکھا جانا چاہیے وہ اگر دنیاوی غرض کے لیے حاصل کرے تو قیامت کے دن وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پاسکے گا۔ (ابو داؤد؛ کتاب العلم؛ باب فی طلب العلم لغیر ﷲ)
🔹انبیا علیہ اسلام کے معاش کے متلعق فرمان
📚 رسول ﷲ صلی ﷲ صلی ﷲ علع وسلم نے فرمایا: "کَانَ زَکَرِیَّا نَجَّارًا" زکریا علیہ اسلام بڑھئ تھے." (مسلم؛ کتاب الفضائل؛ باب فضائل زکریا علیہ اسلام)
🔹ﷲ کے نبی داؤد علیہ اسلام جن کو ﷲ نے حکومت و اقتدار سے نوازا تھا وہ اپنی تمام تر شان و شوکت کے باوجود اپنے ہاتھ سے کام کر کے روزی حاصل کرتے تھے.
📚ان داؤد النبي صلي الله عليه وسلم كان لاياكل الا من عمل يده
ﷲ کے نبی داؤد علیہ اسلام صرف اپنے ہاتھ سے کام کرکے روزی کمایا کرتے تھے۔
(صحیح البخاری؛ کتاب البیوع؛باب کسب الرجل عملہ بیدہ)
📚ﺍﺑﻮﮨﺮﯾﺮﮦ ؓ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﷺ ص ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ: ﺍللہ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﺒﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺑﮑﺮﯾﺎﮞ نہ ﭼﺮﺍﺋﯽ ﮨﻮﮞ۔ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺁﭖ ص ﮐﮯ ﺻﺤﺎبہ ﺭﺿﻮﺍﻥ ﺍللہ ﻋﻠﯿﮩﻢ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﯿﺎ ﺁﭖ ص ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﮑﺮﯾﺎﮞ ﭼﺮﺍﺋﯽ ﮨﯿﮟ.؟ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ کہ ﮨﺎﮞ، ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ مکہ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﮑﺮﯾﺎﮞ ﭼﻨﺪ ﻗﯿﺮﺍﻁ ﮐﯽ ﺗﻨﺨﻮﺍﮦ ﭘﺮ ﭼﺮﺍﯾﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔ (ﺻﺤﯿﺢ ﺑﺨﺎﺭﯼ، ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻻﺟﺎﺭۃ)
🔹سب صحابہ کرام محنت مزدوری کیا کرتے تھے اس لیے انکے بدن سے پسینے کی بو آتی تھی۔
📚 ﻋﺎئشہ رض ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎکہ ﺭﺳﻮﻝ ﺍللہ ﮐﮯ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﺎﻡ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﯽ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﻨﺖ ﻭ ﻣﺸﻘﺖ ﮐﯽ ﻭجہ ﺳﮯ ﭘﺴﯿﻨﮯ ﮐﯽ ﺑﻮ ﺁﺗﯽ ﺗﮭﯽ. ﺍﺱ ﻟﺌﮯ ﺍﻥ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮔﯿﺎ کہ ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﻏﺴﻞﮐﺮﻟﯿﺎ ﮐﺮﻭ ﺗﻮ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﻮﮔﺎ۔ (ﺻﺤﯿﺢ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻟﺒﯿﻮﻉ)
📚 ﺍﻧﺲ ﺑﻦ ﻣﺎﻟﮏؓ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟکہ ﮐﭽﮫ ﻟﻮﮒ ﻧﺒﯽ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﭽﮫ ﺍﯾﺴﮯ ﻟﻮﮒ ﺭﻭﺍنہ ﮐﯿﺠﺌﮯ ﺟﻮ ﮨﻤﯿﮟﻗﺮﺍﻥ ﺍﻭﺭ ﺳﻨﺖ ﮐﯽ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﺩﯾﮟ۔ ﻟﮩﺬﺍ ﻧﺒﯽﮐﺮﯾﻢ ص ﻧﮯ ﺍﻧ ﮑﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺍﻧﺼﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺳﺘّﺮ ﻟﻮﮒ ﺑﮭﯿﺞ ﺩﯾﺌﮯ۔ ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺎﻣﻮﮞ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﻣﻞ ﺗﮭﮯ۔ یہ ﻟﻮﮒ ﺭﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﻗﺮﺍﻥ ﺳﮑﮭﺎﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﺳﻤﺠﮭﺎﺗﮯ، ﺍﻭﺭ ﺩﻥ ﻣﯿﮟیہ ﻣﺴﺠﺪ ﮐﮯ ﮔﮭﮍﻭﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﺑﮭﺮﮐﺮ ﻻﺗﮯﺍﻭﺭ ﻟﮑﮍﯾﺎﮞ ﺍﮐﭩﮭﯽﮐﺮﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺑﯿﭻ ﺩﯾﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺭﻗﻢ ﺳﮯ صفہ ﮐﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻣﻨﺪﻭﮞ ﮐﮯﻟﺌﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺧﺮﯾﺪﺗﮯ۔ (ﺻﺤﯿﺢ ﻣﺴﻠﻢ)
👌🏻کیا خوب ترجمانی کی حالی نے انکے حال پر.........
💥نہ سرکار میں کام پانے کے قابل
💥نہ دربار میں لب ہلانے کے قابل
💥نہ جنگل میں ریوڑ چلانے کے قابل
💥نہ بازار میں بوجھ اٹھانے کے قابل
💥نہ پڑھتے تو کھاتے سو طرح کماکر 
💥وہ اور بھی کھو گئے تعلیم پاکر
https://saagartimes.blogspot.com/2021/08/blog-post_21.html