Thursday, 11 February 2021

صدقہ سے کیا کیا مصیبتیں ٹلتی ہیں؟

صدقہ سے کیا کیا مصیبتیں ٹلتی ہیں؟

فقیہ ابواللیث سمرقندی

فقیہ ابواللیث سمرقندی رحمۃ اللہ علیہ اپنی سند کے ساتھ نقل کرتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک بستی پر سے گزرے۔ وہاں پر ایک دھوبی رہتا تھا۔ بستی والوں نے آپ کے پاس اس کی شکایت کی کہ یہ ہمارے کپڑے پھاڑ دیتا ہے اور اپنے پاس روک بھی رکھتا ہے، اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ یہ اپنی کپڑوں والی گانٹھ سمیت واپس نہ آسکے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ دعاء کردی، اگلے دن دھوبی حسب معمول کپڑے دھونے کے لئے چلاگیا، تین روٹیاں ساتھ تھیں۔ قریب ہی پہاڑوں میں ایک عابد رہتا تھا۔ وہ دھوبی کے پاس آیا اور پوچھا: کیا تیرے پاس کھانے کو روٹی ہے؟ اگر ہے تو ذرا اسے سامنے کردے تاکہ میں اسے دیکھ سکوں یا اس کی بو ہی سونگھ لوں کیوں کہ ایک عرصہ سے کھانا نہیں کھایا۔ دھوبی نے اسے ایک روٹی کھانے کو دے دی۔ عابد نے دعاء دیتے ہوئے کہا کہ: اللہ تیرے گناہ معاف فرمائے اور دل کو پاک کرے۔ دھوبی نے دوسری روٹی بھی دے دی. وہ کہنے لگا: اللہ تعالیٰ تیرے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف کردے۔ دھوبی نے تیسری روٹی بھی پیش کردی۔ عابد بولا: اے دھوبی! اللہ تعالیٰ تیرے لئے جنت میں محل بنائے۔ القصہ شام ہوئی تو دھوبی صحیح وسالم واپس آگیا۔ بستی والوں نے حیران ہوکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بتایا کہ دھوبی تو واپس آگیا ہے؟ آپ علیہ السلام نے دھوبی کو طلب فرمایا اور پوچھا کہ سچ بتا آج تو نے کیا عمل کیا ہے؟ وہ کہنے لگا کہ ان پہاڑوں میں سے ایک عابد میرے پاس آیا، اس کے مانگنے پر میں نے تین روٹیاں اسے دیں اور ہر روٹی کے بدلے اس نے مجھے دعائیں دیں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: ذرا اپنی کپڑوں والی گانٹھ تو کھول کر دکھا، اسے کھولا تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک سیاہ سانپ بیٹھا ہے، منہ میں لوہے کی لگام ہے۔ آپ علیہ السلام نے سانپ کو پکارا تو اس نے لبیک (اے اللہ کے نبی میں حاضر ہوں) یا نبی اللہ کہہ کر جواب دیا۔ فرمایا: کیا تجھے اس شخص کی طرف نہیں بھیجا گیا تھا؟ وہ بولا: بے شک! لیکن اس کے پاس ان پہاڑوں میں سے ایک عابد آیا اور اس سے روٹی مانگی۔ اور ہر روٹی کے بدلے اس کو دعائیں دیتا رہا۔ اور ایک فرشتہ پاس کھڑا آمین کہتا رہا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ بھیجا، جس نے مجھے یہ لوہے کی لگام پہنادی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دھوبی سے فرمایا: اس عابد پر صدقہ کرنے کی بدولت تیرے پچھلے گناہ معاف ہوگئے ہیں، اب نئے سرے سے اعمال شروع کردے۔

سالم بن ابی الجعد رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ایک عورت باہر نکلی، گود میں چھوٹا سا بچہ تھا، ایک بھیڑیا آیا اور عورت سے بچہ اُچک کر لے گیا۔ عورت پیچھے ہوئی، راستہ میں ایک سائل ملا، عورت کے پاس ایک روٹی تھی، وہ سائل کو دے دی۔ اتنے میں بھیڑیا ازخود بچے کو واپس لے آیا اور ایک پکارنے والے کی آواز سنائی دی کہ یہ لقمہ اس سائل والے لقمہ کے بدلہ میں واپس ہے۔

جناب معتب بن سمعی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے ایک راہب نے ساٹھ سال تک اپنے معبد میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کی، ایک دن جنگل کی طرف نظر دوڑائی، زمین خوش نما معلوم ہوئی۔ جی میں آیا کہ اترکر زمین کے مناظر سے لطف اندوز ہونا چاہئے۔ چلنا پھرنا چاہئے اتر آیا، ایک روٹی بھی ساتھ تھی۔ ایک عورت سامنے آئی بے قابو ہوکر گناہ میں مبتلا ہوگیا۔اس اثنا میں موت کے حالات طاری ہوگئے، ایک سائل نے آواز دی، راہب نے روٹی اسے دے دی اور خود مرگیا۔ ادھر اس کے ساٹھ سال کے اعمال ترازو کے ایک طرف اور اس کا یہ گناہ دوسری طرف رکھا گیا۔ ساٹھ سال کی عبادت پر یہ گناہ بھاری ثابت ہوا، پھر اس کی وہ روٹی اعمال والے پلڑے میں رکھی گئی، جس سے گناہ کے مقابلہ میں وہ پلڑا بھاری ہوگیا۔

مشہور ہے کہ صدقہ برائی کے ستر دروازے بند کرتا ہے۔ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ زمین میں جب بھی کوئی صدقہ کیا جاتا ہے تو ستر شیطان اس سے دور کیے جاتے ہیں، جن میں سے ہر ایک اس کے لیے رکاوٹ بنا ہوا تھا۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے سنا ہے کہ صدقہ گناہ کو یوں ختم کرتا ہے جیسے پانی آگ کو۔

صدقہ کو ناپسند کرنے کا نتیجہ:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ بیٹھی ہوئی تھیں کہ ایک عورت آئی، اس نے ہاتھ آستین میں چھپا رکھا تھا ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا ہاتھ باہر کیوں نہیں نکالتی؟ اس نے جواب سے گریز کیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ضرور بتانا ہوگا۔ تو کہنے لگی: ام الموٴمنین! قصہ یہ ہے کہ میرے والد صاحب صدقہ کا شوق رکھتے تھے اور والدہ اتنا ہی ناپسند سمجھتی تھی اور کبھی دیکھنے میں نہ آیا تھا کہ اس نے چربی کے ٹکڑے کسی پرانے کپڑے کے سوا کچھ صدقہ کیا ہو۔ قضائے الہٰی سے دونوں فوت ہوگئے، میں نے خواب میں دیکھا کہ قیامت قائم ہے۔ اور میری ماں بھری خلقت میں یوں کھڑی ہے کہ پرانے کپڑے سے پردہ کا بدن چھپایا ہوا ہے۔ اور چرپی کا ٹکڑا ہاتھ میں لیے چاٹ رہی ہے اور ہائے پیاس پکار رہی ہے۔ ادھر میرا والد ایک حوض کے کنارے بیٹھا لوگوں کو پانی پلارہا ہے اور یہی عمل میرے والد کو دنیا میں بھی بہت محبوب تھا۔ میں نے ایک پیالہ پانی کا لے کر اپنی والدہ کو پلایا، اتنے میں اوپر سے آواز آئی، جس نے اسے پانی پلایا ہے اس کا ہاتھ شل ہوجائے۔ چناں چہ میں بیدار ہوئی تو ہاتھ شل تھا۔

مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ کی بیوی کا قصہ:

کہتے ہیں کہ ایک دن مالک بن دینار رحمۃ اللہ علیہ بیٹھے ہوئے تھے، ایک سائل نے آکر کچھ مانگا، گھر میں کجھوروں کی ٹوکری پڑی تھی۔ بیوی سے منگواکر نصف سائل کو دے دی اور نصف واپس کردی۔ بیوی کہنے لگی: سبحان اللہ! تیرے جیسے بھی زاہد کہلاتے ہیں؟ کیا ایسا شخص بھی دیکھا ہے جو بادشا ہ کے حضور ناقص ہدیہ بھیجے؟ مالک رحمۃ اللہ علیہ نے سائل کو واپس بلالیا اور بقیہ کھجوریں بھی اس کو دے دیں، پھر بیوی کی طرف متوجہ ہوکر فرمانے لگے: اری! محنت کیاکر اور خوب ہمت سے کام لے، اللہ پاک کا ارشاد ہے:

﴿خُذُوہُ فَغُلُّوہُ ،ثُمَّ الْجَحِیْمَ صَلُّوہُ،ثُمَّ فِیْ سِلْسِلَةٍ ذَرْعُہَا سَبْعُونَ ذِرَاعاً فَاسْلُکُوہُ ﴾․ (سورہ الحاقہ، آیت: 32-30)

ترجمہ: اس شخص کو پکڑو اور اس کے طوق پہنادو پھر دوزخ میں اس کو داخل کرو، پھر ایک ایسی زنجیر میں، جس کی پیمائش ستر گز ہو، اس کو جکڑ دو۔

سوال ہوگا یہ سختی کس وجہ سے ہے؟ تو جواب ملے گا۔

﴿إِنَّہُ کَانَ لَا یُؤْمِنُ بِاللَّہِ الْعَظِیْمِ،وَلَا یَحُضُّ عَلَی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ﴾․ (سورہ الحاقہ، آیت: 34-33)

ترجمہ: یہ شخص خدائے بزرگ برتر پر ایمان نہ رکھتا تھا اور غریب آدمیوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا تھا۔

اے اللہ کی بندی! خوب جان لے کہ ہم نے اس وبال کا ایک حصہ تو ایما ن لاکر اپنی گردن سے اتار دیا ہے اور دوسرا حصہ صدقہ خیرات کے ذریعہ اتارنا چاہئے۔

ایک بدوی کا قصہ:

محمد بن افضل رحمۃ اللہ علیہ یہ روایت کرتے ہیں کہ ایک بدوی کے پاس بکریاں تھیں، مگر وہ صدقہ وغیرہ بہت کم کرتا تھا۔ ایک دفعہ اس نے ایک بکری کا لاغر بچہ صدقہ میں دیا۔ خواب میں دیکھتا ہے کہ اس کی تمام بکریاں جمع ہیں اور اسے سینگ ماررہی ہیں اور وہ لاغر بچہ اس کی مدافعت کررہا ہے۔ یہ بیدار ہوا تو کہنے لگا: بخدا! ہمت ہوئی تو تیرے ساتھی بڑھاؤں گا۔ پھر اس کے بعد خوب صدقہ خیرات کرنے لگا۔

حضرت عدی رضی اللہ عنہ بن حاتم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ تم میں سے ہر شخص کی اپنے رب سے گفتگو ہوگی۔ اور وہ اپنی دائیں بائیں اپنے آگے بھیجے ہوئے اعمال کو دیکھے گا اور سامنے نظر کرے گا تو دوزخ دکھائی دے گی۔ لہٰذا آگ سے بچو، اگر چہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعہ سے ہی سہی۔

دس اچھی خصلتیں:

فقیہ فرماتے ہیں کہ دس خصلتیں ایسی ہیں جن سے آدمی اچھے لوگوں میں شامل ہوتا ہے اور درجے پاتا ہے۔ 

1: پہلی صفت صدقہ کی کثرت ہے۔

2: دوسری تلاوتِ قرآن کی کثرت، 

3: تیسری ایسے لوگوں کے پاس بیٹھنا جو آخرت کی یاد دلائیں اور دنیا سے بے رغبتی سکھائیں۔

4: چوتھی صلہ رحمی کرنا، 

5: پانچویں بیمار کی مزاج پرسی کرنا، 

6: چھٹی ایسے اغنیا سے میل جول نہ رکھنا جو آخرت سے غافل ہوں۔

7: ساتویں آنے والے دن کی فکر میں لگے رہنا۔

8: آٹھویں امیدوں میں کمی اور موت کو بکثرت یاد کرنا۔

9: نویں خاموشی اختیار کرنا اور کلام میں کمی رکھنا اور 

10: دسویں خصلت تواضع ہے اور گھٹیا لباس پہننا۔ فقراء سے محبت کرنا، ان کے ساتھ مل جل کر رہنا، مساکین اور یتیموں کے قریب رہنا اور ان کے سروں پر ہاتھ رکھنا۔

صدقہ کو بڑھانے والی خصلتیں:

کہتے ہیں کہ سات خصلتیں صدقہ کو بڑھاتی ہیں اور اس میں کمال پیدا کرتی ہیں۔ 

1: پہلی یہ کہ حلال مال سے صدقہ کرنا، اللہ کا ارشاد ہے:

﴿أَنفِقُواْ مِن طَیِّبَاتِ مَا کَسَبْتُمْ﴾ (سورہ بقرہ، آیت: 267)

ترجمہ: خرچ کرو عمدہ چیز کو اپنی کمائی میں سے۔

2: دوسری یہ کہ قلیل مال سے بھی بقدر ہمت دینا چاہئے۔

3: تیسری جلدی دینا کہ کہیں موقع نہ جاتا رہے۔

4: چوتھی یہ کہ بہترین اور عمدہ مال سے دینا، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَلاَ تَیَمَّمُواْ الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنفِقُونَ وَلَسْتُم بِآخِذِیْہِ إِلاَّ أَن تُغْمِضُواْ فِیْہِ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ﴾ ․(سورہ بقرہ، آیت: 267) ترجمہ: اور ردی چیز کی طرف نیت مت لے جایا کروکہ اس میں سے خرچ کرو، حالاں کہ تم خود کبھی اس کے لینے والے نہیں، ہاں! مگر چشم پوشی کرجاؤ اور یہ یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ کسی کے محتاج نہیں، وہ تعریف کے لائق ہیں۔ یعنی جس طرح تم نے کسی سے قرض لینا ہو تو ردّی مال نہیں لیتے سوائے اس کے کہ چشم پوشی اور درگزر کرجاؤ۔ 

5: پانچویں یہ کہ ریا سے بچتے ہوئے چھپاکر صدقہ کرو۔

6: چھٹی یہ کہ اس پر احسان بھی نہ جتاؤ کہ اجر باطل ہوجائے۔ 

7: ساتویں یہ کہ اس کے بعد تکلیف نہ پہنچاؤ، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿لاَتُبْطِلُواْ صَدَقَاتِکُم بِالْمَنِّ وَالأذَی﴾․ (سورہ بقرہ، آیت:264) ترجمہ: تم احسان جتا کر یا ایذا پہنچاکر اپنی خیرات کو برباد مت کرو۔ (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)

https://saagartimes.blogspot.com/2021/02/blog-post_11.html



Monday, 8 February 2021

چھ کلموں کی شرعی حیثیت

چھ 
کلموں کی 
شرعی حیثیت

سوال: شش کلموں کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اور یہ کس حدیث سے ثابت ہیں؟
جواب: واضح رہے کہ چھ کلموں میں سے شروع کے چار کلموں کے الفاظ تو بعینہا احادیث سے ثابت ہیں اور  پانچویں اور چھٹے کلمے کے الفاظ مختلف احادیث میں متفرق موجود ہیں اور ان کے الفاظ کو ان مختلف ادعیہ سے لیا گیا ہے جو کہ احادیث میں موجود ہیں۔ جب عقائد کی تدوین ہوئی تو اس زمانہ میں ان کے نام اور مروجہ ترتیب شروع ہوئی، تاکہ عوام کے عقائد درست ہوں اور اُن کو یاد کرکے ان مواقع میں پڑھنا آسان ہوجائے جن مواقع پر پڑھنے کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم دی اور اس پر جو فضائل بیان کیے ہیں وہ بھی حاصل ہوجائیں۔

پہلا  کلمہ ’’کنز العمال‘‘ اور ’’مستدرک حاکم‘‘ میں، دوسرا کلمہ ’’ابن ماجہ‘‘ اور ’’بخاری‘‘ میں ، تیسرا کلمہ ’’مصنف ابن ابی شیبہ‘‘ اور ’’ابن ماجہ‘‘ میں، چوتھا کلمہ ’’مصنف عبدالرزاق الصنعانی‘‘، ’’مصنف ابن ابی شیبہ‘‘اور ’’ سنن ترمذی‘‘ میں موجود ہے اور بقیہ دو کلموں کے الفاظ متفرق مذکور ہیں، احادیث ملاحظہ ہوں:
پہلا کلمہ کنز العمال میں ہے:
’’لما خلق اللّٰه جنة عدن وهي أول ما خلق اللّٰه قال لهما: تکلمي، قالت: لا إلٰه إلا اللّٰه محمد رسول اللّٰه، قد أفلح المؤمنون، قد أفلح من دخل فيها، و شقی من دخل النار‘‘. (کنز العمال،ج:۱،ص:۵۵، باب في فضل الشهادتین، ط:مؤسسة الرسالة، بیروت)
وفیه أیضاً:
’’مکتوب علی العرش "لا إلٰه إلا اللّٰه محمد رسول اللّٰه" لا أعذب من قالهما‘‘. (کنز العمال، ج:۱،ص:۵۷، باب في فضل الشهادتین، ط:مؤسسة الرسالة، بیروت)
’’المستدرک علی الصحیحین للحاکم‘‘میں ہے:
’’حدثنا علی بن حمشاذ العدل إملاءً ثنا هارون بن العباس الهاشمی، ثنا جندل بن والق، ثنا عمروبن أوس الأنصاري، ثنا سعید بن أبي عروبة عن قتادة، عن سعید بن المسیب عن ابن عباس رضی اللّٰه عنه قال:’’ أوحی اللّٰه إلٰی عیسی علیه السلام یا عیسی! آمن بمحمد وأمر من أدرکه من أمتك أن یؤمنوا به، فلولا محمد ما خلقت آدم، ولولا محمد ما خلقت الجنة ولا النار، ولقد خلقت العرش علی الماء فاضطرب فکتبت علیه لا إلٰه إلا اللّٰه محمد رسول اللّٰه فسکن‘‘. هذا حدیث صحیح الإسناد‘‘. (المستدرك علی الصحیحین للحاکم، ج:۲، ص:۶۷۱، حدیث:۴۲۲۷، دار الکتب العلمیة، بیروت)
دوسرا کلمہ ابن ماجہ میں ہے:
’’حدثنا موسٰی بن عبد الرحمٰن قال: حدثنا الحسین بن علی ویزید بن الحباب ’’ح‘‘ وحدثنا محمد بن یحیٰی قال: حدثنا أبو نعیم قالوا: حدثنا عمرو بن عبد اللّٰه بن وهب أبو سلیمان النخعي، قال حدثنی زید العمي عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من توضأ فأحسن الوضوء، ثم قال ثلاث مرات: أشهد أن لا إلٰه إلا اللّٰه وحده لاشریك له وأشهد أن محمدًا عبده ورسوله، فتح له ثمانیة أبواب الجنة، من أیها شاء دخل‘‘.   (ابن ماجه ، ج:۱،ص: ۱۵۹، حدیث:۴۶۹، دار إحیاء الکتب العربیة)
بخاری شریف میں ہے:
’’حدثنا مسدد قال: حدثنا یحی عن الأعمش، حدثني شقیق عن عبد اللّٰه، قال: کنا إذا کنا مع النبي ﷺ في الصلاة، قلنا: السلام على اللّٰه من عباده، السلام على فلان وفلان، فقال النبي صلی اللّٰه علیه وسلم: لاتقولوا السلام علی اللّٰه؛ فإن اللّٰه هوالسلام، ولکن قولوا: التحیات للّٰه والصلوات والطیبات، السلام علیك أیها النبي ورحمة اللّٰه وبرکاته، السلام علینا وعلى عباد اللّٰه الصالحین، فإنکم إذا قلتم أصاب کل عبد في السماء أو بین السماء والأرض، أشهد أن لا إله إلا اللّٰه وأشهد أن محمدًا عبده ورسوله، ثم یتخیر من الدعاء أعجبه إلیه فیدعو‘‘.              
(صحیح البخاري، ج:۱، ص:۱۶۷، حدیث: ۸۳۵، باب ما یتخیر الدعاء بعد التشهد، دار طوق النجاة)
تیسرا کلمہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:
’’حدثنا أبو أسامة عن مسعر عن إبراهيم السکسي عن عبد اللّٰه بن أبي أوفى قال: أتى رجلٌ النبي صلى الله عليه وسلم فذکر أن هلایستطیع أن یأخذ من القرآن وسأله شیئاً یجزئ من القرآن فقال له: ’’قل سبحان اللّٰه والحمد للّٰه ولا إلٰه إلا اللّٰه واللّٰه أکبر ولاحول ولاقوة إلا باللّٰه‘‘. (مصنف ابن أبي شیبة، ج:۶،ص:۵۴،حدیث:۲۹۴۱۹، مکتبة الرشد، ریاض)
سنن ابن ماجہ میں ہے:
’’حدثنا عبدالرحمن بن إبراهيم الدمشقي قال: حدثنا الولید بن مسلم قال: حدثنا الأوزاعي قال: حدثني عمیر بن هانئ قال: حدثني جنادة بن أبي أمية عن عبادة بن الصامت قال: قال رسول اللّه صلى الله عليه وسلم: ’’من تعار من اللیل فقال حین یتقیظ: لا إلٰه إلا اللّٰه وحده لاشریك له له الملك وله الحمد وهو على کل شيءٍ قدیر، سبحان اللّٰه والحمد للّٰه ولا إلٰه إلا اللّٰه واللّٰه أکبر، ولاحول ولاقوة إلا باللّٰه العلي العظیم، ثم دعا رب اغفرلي! غفر له. قال الولید: أو قال: دعا استجیب له، فإن قام فتوضأ ثم صلی قبلت صلا ته‘‘.      
(سنن ابن ماجه، ج:۲، ص:۱۲۷۶، حدیث:۳۸۷۸، دار إحیاء الکتب العربیة)
چوتھا کلمہ ’’مصنف عبدالرزاق الصنعانی‘‘ میں ہے:
’’عن إسماعیل بن عیاش قال: أخبرني عبد اللّٰه بن عبد الرحمٰن بن أبي حسین ولیث عن شهر بن حوشب عن عبد الرحمٰن بن غنم عن رسول اللّٰه صلى الله عليه و سلم أنه قال: ’’من قال دبر کل صلاة‘‘ -قال ابن أبي حسین في حدیثه: وهو ثاني رجله- قبل أن یتکلم-: ’’ لا إلٰه إلا اللّٰه وحده لاشریك له، له الملك وله الحمد، یحیي ویمیت بیده الخیر وهو على کل شيءٍ قدیر‘‘ عشر مرات، کتب اللّه له بکل واحدة عشر حسنات، وحط عنه عشر سیئات، ورفع له عشر درجات‘‘. (مصنف عبد الرزاق ،ج:۲،ص:۲۳۴،حدیث: ۳۱۹۲، المکتب الإسلامي، بیروت)
’’مصنف ابن ابی شیبہ‘‘ میں ہے:
’’أبوبکر قال: حدثنا وکیع، عن البصیر بن عدي، عن ابن أبي حسین قال: قال رسول اللّٰه صلى الله: ’’أکبر دعائي ودعاء الأنبیاء قبلي بعرفة لا إلٰه إلا اللّٰه وحده لاشریك له، له الملك وله الحمد بیده الخیر یحيي ویمیت، وهو على کل شيءٍ قدیر‘‘. (مصنف ابن أبي شیبة، ج:۳، ص:۳۸۲، حدیث:۱۵۱۳۶، مکتبة الرشد، ریاض)
پانچویں کلمہ کے الفاظ یک جا تو موجود نہیں، البتہ متفرق جگہوں پر مذکور ہیں، جس کی تفصیل یہ ہے، ’’بخاری شریف‘‘ میں ہے:
’’حدثنا أبو معمر حدثنا عبدالوارث حدثنا الحسین، حدثنا عبداللّٰه بن بریدة قال: حدثني بشیر بن کعب العدوي قال: حدثني شداد بن أوس رضي اللّٰه عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم ’’سید الاستغفار‘‘ أن تقول: أللّٰهم أنت ربي لا إلٰه إلا أنت خلقتني وأنا عبدك وأنا علی عهدك ووعدك ما استطعت أعوذ بك من شر ما صنعت أبوء لك بنعمتك علی وأبوء لك بذنبي فاغفرلي، فإنه لایغفر الذنوب إلا أنت". (صحیح البخاري، ج: ۸، ص:۶۷، حدیث: ۶۳۰۶، باب أفضل الاستغفار، دار طوق النجاة)
’’مصنف ابن ابی شیبہ‘‘ میں ہے:
’’حدثنا عیسٰی بن یونس، عن الأوزاعی، عن حسان بن عطیة عن شداد بن أوس، أنه قال: احفظوا عني ما أقول: سمعت رسول اللّٰه صلى الله عليه وسلم یقول:’’ إذا کنز الناس الذهب والفضة فاکنزوا هذه الکلمات، أللّٰهم إني أسألك شکر نعمتك وأسألك حسن عبادتك، وأسألك قلبًا سلیمًا وأسألك لسانًا صادقًا، وأسألك من خیر ما تعلم، وأعوذ بك من شر ما تعلم، وأستغفرك لما تعلم، إنك أنت علام الغیوب‘‘. (مصنف ابن أبي شیبة،ج:۶، ص: ۴۶، حدیث: ۲۹۳۵۸، مکتبة الرشد، ریاض) ’’هكذا في الترمذي والنسائي: عن عمران بن حسین … قل: أللّٰهم اغفرلي ما أسررت وما أعلنت وما أخطأت وماتعمدت وما جهلت وما علمت‘‘.    
(۲/۱۲۵۶،حدیث:۳۸۲۴، دار إحیاء الکتب العربیة)
سنن ابن ماجہ میں ہے:
’’حدثنا محمد بن الصباح قال: أنبأنا جریر عن عاصم الأحول، عن أبي عثمان عن أبي موسٰی قال: سمعني النبي صلى الله عليه و سلم وأنا أقول: لاحول ولاقوة إلا باللّٰه، قال: یا عبداللّٰه بن قیس! ألا أدلك علی کلمة من کنوز الجنة؟ قلت: بلى یا رسول اللّٰه! قال: قل: ’’لاحول ولاقوة إلا باللّٰه‘‘.  
(سنن ابن ماجه، ج:۲،ص:۱۲۵۶،حدیث:۳۸۲۴، دارإحیاء الکتب العربیة)
چھٹے  کلمے کے الفاظ  بھی متفرق طور پر احادیث میں موجود ہیں، تفصیل درج ذیل ہے:
’’الادب المفرد‘‘ میں ہے:
’’قال: سمعت معقل بن یسار یقول: انطلقت مع أبي بکر الصدیق إلی النبي صلى الله عليه و سلم فقال: یا أبابکر! الشرك فیکم أخفی من دبیب النمل! فقال أبوبکر: وهل الشرك إلا من جعل مع اللّٰه إلٰهًا آخر! فقال النبي صلى الله عليه وسلم: والذي نفسي بیده الشرك أخفٰی من دبیب النمل! ألا أدلك علی شيءٍ إذا قلته ذهب عنك قلیله وکثیره! قال: قل:’’اللّٰهم إني أعوذ بك أن أشرك بك وأنا أعلم وأستغفرك لما لا أعلم‘‘. 
(الأدب المفرد، ج:۱، ص:۲۵۰، باب فضل الدعاء، دارالبشائر الإسلامیة)
’’کنز العمال‘‘ میں ہے: ’’الصدیق رضي اللّٰه عنه عن معقل بن یسار … قل:’’ أللّٰهم إني أعوذ بك أن أشرك بك وأنا أعلم وأستغفرك لمالا أعلم‘‘. (کنز العمال، ج:۳، ص:۸۱۶، الباب الثاني في الاختلاف المذموم، ط:مکتبة المدینة)
’’الادب المفرد‘‘ میں ہے:
’’قال حدثني عبد الرحمٰن بن أبي بکرة أنه قال لابنه: یا أبت إني أسمعك تدعو کل غداة ’’ اللّٰهم عافني في بدني، اللّٰهم عافني في سمعي … وتقول: ’’اللّٰهم إني أعوذ بك من الکفر والفقر…الخ ‘‘        
(الأدب المفرد، ج:۱، ص:۲۴۴، باب الدعاء عند الکرب، دار البشائر الإسلامیة، بیروت)
’’المعجم الاوسط ‘‘ میں ہے:
’’عن عروة عن عائشة رضي الله عنها أن رسول اللّٰه صلى الله عليه وسلم کان یدعو في الصلاة:’’ أللّٰهم إني أعوذ بك من المأثم والمغرم‘‘، فقالوا: ما أکثر ما تستعیذ من المغرم؟ فقال: إن الرجل إذ غرم حدث فکذب ووعد فأخلف‘‘.   
(المعجم الأوسط،ج:۵، ص:۳۹، باب من اسمه عبد الله، دارالحرمین قاهره)
’’الدعاء للطبرانی‘‘ میں ہے:
’’عن علقمة عن عبد اللّٰه قال: کان رسول اللّٰه صلى الله عليه وسلم إذا صلی أقبل علینا بوجهه کالقمر، فیقول:’’ أللّٰهم إني أعوذ بك من الهم والحزن والعجز والکسل والذل والصغار والفواحش ما ظهر منها وبطن…الخ‘‘ (الدعاء للطبراني، ج:۱،ص:۲۱۰، باب القول عند الأذان، ط: دار الکتب العلمیة، بیروت)
’’المستدرک للحاکم‘‘ میں ہے:
’’عن ابن عباس رضي الله عنه أنه بینما هو جالس عند رسول اللّٰه صلى الله عليه و سلم إذ جاءه علي بن أبي طالب … ثم قل آخر ذلك:’’ أللّٰهم ارحمني أن تکلف مالایعینني وارزقني حسن النظر فیما یرضیك عني…‘‘          
 (المستدرك للحاکم، ج:۱، ص: ۳۱۵، بیرت) 
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر: 144104200089- دارالافتاء: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2021/02/blog-post.html