ایپ BURSE سے روپیہ کمانے کا تفصیل حکم
آج کل BURSE نامی ایک ایپ رائج ہے، جس سے عام مسلمان، خصوصا نوجوان طبقہ، جانے انجانے میں روپیہ کما رہا ہے،
اس ایپ کی کچھ تفصیل اس طرح ہے کہ اس ایپ میں آرڈر کی شکل میں صرف خریداری کا نظام ہے، حقیقت میں خریداری نہیں ہے، حقیقت جس کی یہ ہے کہ اس ایپ کو اوپن کرنے کے بعد صرف یہ چیزیں شو ہوتی ہے، گنگن، کوکر، ورزش کی مشین اور دو، چار قسم کی فریج ۔۔۔۔ اور ہرایک کے نیچے آرڈر کا بٹن ہوتا ہے، آرڈر کے بٹن پر ٹاسک کرنے کے بعد ریٹرن کا بٹن نمودار ہوتا ہے، پھر ریٹرن کے بٹن پر ٹاسک کرنا ہوتا ہے، یہ ایک مرتبہ کا عمل ہوا
اس طرح یومیہ کم از کم تیس مرتبہ کرنا ہوتا ہے، اگر اس سے کم ٹاسک ہوئے تو وہ نفع کا مستحق نہیں ہوگا
اس ایپ میں چار مرحلے ہیں
(1) کچھ بھی روپیہ جمع کئے بغیر ۱۰۰ روپیہ یا اس سے کم قیمت والی چیز پر آرڈر دینا ہوتا ہے، پھر اس آرڈر کو ریٹرن کرنا ہوتا ہے، جس کے نتیجہ میں صارف کا وہ اکاؤنٹ جو ایپ میں ہے، اس میں نفع کے نام سے معمولی روپیہ جمع ہوتا ہے، پھر صارف اگر چاہے تو نفع کے عنوان سے دئیے گئے ان روپیوں کو اپنے بینک اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کرسکتا ہے۔
(2) ۵۰۰ روپیہ جمع کرکے ۵۰۰ روپیہ یا اس سے کم قیمت والی چیز پر سابق عمل کرنا ہوتا ہے،
اس مرحلہ میں اول کے مقابلہ میں نفع کے نام سے کچھ زیادہ روپیہ جمع ہوتا ہے
(3) ۵۵۰۰ روپیہ جمع کرنا ہوتا ہے، جس میں سے ۵۰۰ روپیہ ممبرشپ کے عنوان سے کٹ جاتا ہے، پھر اس میں بھی ۵۰۰۰ روپیہ یا اس سے کم قیمت والی چیز پر سابق عمل کرنا ہوتا ہے اور اس مرحلہ میں نمبر دو سے، زائد روپیہ نفع کے نام سے جمع ہوتا ہے
(4) اکتیس ھزار روپیہ جمع کرنا ہوتا ہے، جس میں سے ایک ھزار روپیہ ممبرشپ کے عنوان سے کٹ جاتا ہے، پھر اس میں تیس ھزار روپیہ یا اس سے کم قیمت والی چیز پر بھی سابق عمل کرنا ہوتا ہے اور اس مرحلہ میں درجہء سوم کے مقابلہ میں زیادہ روپیہ، نفع کے نام سے جمع ہوتا ہے
پھر یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ اول مرحلے کا صارف نمبر دوم، سوم اور چہارم کی چیز پر آرڈر کرنا کا عمل کرنا چاہے، تو نہیں کرسکتا، اس کے سامنے ان تین آپشن میں سے کوئی آپشن کھلیگا ہی نہیں، اسی طرح نمبر دو والے کے لئے تیسرا اور سوم مرحلہ والے کے لئے چوتھا آپشن کھلے گا ہی نہیں، جب تک کہ ایپ کی طرف سے متعین کردہ مخصوص رقم جمع نہ کروائے اور ممبرشپ کے عنوان سے متعین کردہ رقم نہ کٹوائے،
زیادہ نفع کا حصول ۔۔۔۔
پھر اگر کوئی صارف زیادہ روپیہ حاصل کرنا چاہے تو آگے کسی کو ممبرشپ دے سکتا ہے، ممبرشب کی وجہ سے اس کو مزید روپیہ ملیگا، پھر نمبر دو کا ممبر یہ ممبرشپ آگے منتقل کرے گا اور دوم نمبر والا ممبر کمپنی کے اپنے اکاؤنٹ میں ریچارج کرے گا تو اس کی وجہ سے دوم نمبر والے کو تو نفع ملے گا ہی، ساتھ نمبر اول والے کو بھی نفع ملے گا، اگرچہ درجہء سوم کے ممبر کو اول درجہ کا ممبر جانتا اور پہچانتا نہ ہو، اس تیسرے ممبر کی وجہ سے اول کو دوم کے مقابلہ میں کم روپیہ ملے گا، لیکن ملے گا ضرور۔۔۔ اسی طرح یہ سلسلہ اور کڑی نیچے کی طرف چلتی رہے گی، اور نیچے کے ممبران کے ریچارج کرنے کی صورت میں اوپر کے تمام ممبران کو ایپ کی طرف سے متعین کردہ تناسب کے حساب سے ہرایک کو کمیشن ملتا رہے گا۔
واضح رہے کہ یہ ممبرشب لازمی نہیں ہے، اختیاری ہے، لیکن زیادہ روپیہ کمانے کے چکر میں تقریبا ہر صارف ممبر زیادہ بنانے کی فکر میں رہتا ہے
یہ نفع کس وجہ سے آتا ہے؟
اس کے متعلق ایپ کے ڈائریکٹر سے بذریعہء واٹس ایپ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ چونکہ آپ نے ہماری تجارت کو فروغ دینے میں اشیاء کا اشتہار کیا، یہ اس اشتہار کی اجرت ہے، جو ہم آپ کو دے رہے ہیں۔
ہم نے اس کی مصنوعات کی تفصیل جاننا چاہی، تو اس نے ایماژون کا حوالہ دیا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ ایپ ایماژون کی اشیاء کا اشتہار کررہا ہے، لیکن بسیار تحقیق کے باوجود اس بات کا واضح ثبوت نہیں مل سکا کہ یہ ایپ ایماژون کے ساتھ کنیکٹ ہے۔
صارفین اور خود کی تحقیق سے مذکورہ بالا طریقہ اور سسٹم کا علم ہوا ہے۔
شرعی لحاظ سے اس میں شریک ہونا اور اس سے روپیہ حاصل کرنا جائز ہے یا نہیں؟
الجواب و باللہ التوفیق
حامدا و مصلیا و مسلما:
اس سلسلہ میں عرض یہ ہے کہ اگر واقعی طریقہء کار یہی ہے جو اوپر سوال میں مذکور ہے تو اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تعلق عقد اجارہ کے ساتھ ہے، لیکن اجارہ کی شرائط نہیں پائی جاتیں۔
اول یہ کہ اس میں معقود علیہ بقول اس کے اشتہار ہے اگر واقعی اشتہار ہی مقصود ہے تو اولا عام طور اشتہار کے لئے کوئی رقم جمع کروانا ضروری نہیں ہوتا، اشتہار کے لئے اصل چیز محنت و عمل ہے، بغیر رقم جمع کروائے بھی اشتہار کا عمل ہوسکتا ہے، بلکہ رقم جمع نہ کرنے کی صورت میں مشتہرین کی تعداد میں کئی گنہ اضافہ ہوگا۔
اور اگر رقم جمع کرنا ضروری ہی ہے تو سو روپیہ والے کو پانچسو روپیہ کی چیز کا، اسی طرح پانچسو روپیہ والے کو پانچ ھزار والی چیز کا اور پانچ ھزار روپیہ والے کو تیس ھزار روپیہ والی چیز کا اشتہار کا موقع کیوں نہیں دیا جاتا ؟ جبکہ اس صورت میں رقم جمع کروانے کے مقابلے میں اشتہار زیادہ ہوگا، لیکن صورتحال ایسی نہیں ہے،
یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ایپ والے کو اشتہار مقصود نہیں ہے، زیادہ سے زیادہ روپیہ جمع کرنا مقصود ہے، اسی وجہ سے اس نے ممبرشپ کا بھی نظام چلا رکھا ہے، تاکہ زیادہ سے زیادہ سرمایہ اکٹھا کیا جاسکے، اس سے اشتہار کا معقود علیہ نہ ہونا متعین ہوگیا، جب معقود علیہ ہی متعین نہیں تو شرعی لحاظ سے یہ اجارہ فاسد ہے۔
مزید یہ کہ یہ اجارہ مشروط ہے..ایپ والے کو پانچسو روپیہ، یا پانچ ھزار روپیہ یا تیس ھزار روپیہ بطور قرض دینے کے ساتھ۔۔۔ اگر یہ رقم جمع نہیں کی گئی تو اشتہار کا عمل کرنے کی اجازت نہیں ہوگی تو یہاں ایک ہی معاملہ میں دو معاملے ایک ساتھ ہو رہے ہیں، *اجارہ اور قرض*، اور نبئ کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک معاملہ کے ساتھ دوسرا معاملہ کرنے سے منع فرمایا ہے ( یعنی دو معاملے ایک ساتھ کرنے سے۔)
عن أبي هریرۃ رضي اللّٰہ عنه قال: نہی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن بیعتین في بیعة۔ (سنن الترمذي ۱؍۲۳۳)
عن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنه قال: نہی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیه وسلم عن صفقتین في صفقة واحدۃ۔
(المسند لإمام أحمد ۱؍۳۹۸ رقم:۳۷۸۲)
اور صارف کے پاس سے جو رقم جمع کروائی جارہی ہے، اس کے متعلق ڈپاژٹ کی تاویل اس وجہ سے درست نہیں کہ ڈپاژٹ کا حصول، سکیوریٹی کی غرض سے ہوتا ہے اور یہاں ایپ والے کے لئے سکوریٹی کی کوئی ضرورت نہیں، اس لئے کہ صارف، ایپ والے کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا، کنجی تو اسی کے قبضہ میں ہے، پھر سکیوریٹی کا کیا مطلب؟ بلکہ اس کے برعکس ایپ کی طرف سے صارف کو سکیوریٹی کی ضرورت ہے کہ صارف نے شرائط کے مطابق تیس ٹاسک پورے کئے، اس کے باوجود ایپ نے اس کی اجرت نہیں دی تو اب صارف اجرت کہاں سے وصول کرے؟ وصول کرنے کی کوئی صورت ہی نہیں، اگر ڈپاژٹ دیا ہوا ہوتا تو اس میں سے وصول کرنا ممکن تھا، اس تفصیل سے پیشگی جمع کردہ رقم کے متعلق ڈپاژٹ کا نہ ہونا متعین ہوگیا، اس رقم کا قرض ہونا متعین ہے اور اجرت کے نام سے جو روپیہ آرہا ہے، وہ قرض کے بالمقابل ہے، جو سود ہے، حرام ہے۔
دوم یہ کہ جب ان سے سوال کیا گیا کہ آپ کن چیزوں کا اشتہار کروارہے ہیں؟ تو اس نے ایماژون کا حوالہ دے دیا، جبکہ ایماژون کی اشیاء، پس پردہ ہیں، اس لئے کہ اس ایپ میں مذکورہ چار، پانچ چیزوں کے علاوہ کوئی اور چیز نظر نہیں آتی کہ جس کا اشتہار کیا جائے
تو یہاں جس چیز کا اشتہار کروایا جارہا ہے وہ تو پس پردہ ہے، جس کا صارف کو بھی علم نہیں اور یہ غیر متعین ہے، پس یہ بھی مفسد عقد ہے
اور اگر نفس ٹاسک کو ہی عمل قرار دیا جائے، بایں طور کہ صارف کے لئے صرف ٹاسک کرنے کا عمل ہو، قطع نظر اس سے کہ اس کا ٹاسک، کس چیز کے اشتہار کے ساتھ لنک ہے؟ تو یہ بھی درست نہیں، اس لئے کہ ممکن ہے کہ صارف کا یہ ٹاسک، کسی ناجائز چیز، مثلا تصاویر، فحش، شراب، بینک، ٹی وی یا مردار کے گوشت وغیرہ ناجائز چیز کے ساتھ لنک ہو،اور اس کا اشتہار صارف سے کروایا جارہا ہو، اور ناجائز چیز کا اشتہار بنص قطعی حرام ہے
ولا تعاونوا علی الاثم و العدوان (القرآن الکریم)
(وفی البدائع) و منھا بیان محل المنفعة حتی لو قال آجرتك احدی ھاتین الدارین او احد ھذین العبدین او قال استاجرت احد ھذین الصانعین لم یصح العقد لان المعقود علیه مجھول لجہالة محله جہالة مفضیة الی المنازعة فتمنع صحة العقد
(بدائع الصنائع ۴/۲۵ و الفقه الاسلامی و ادلته ۴/۵۳۰)
و فی شرح المجلة:- النوع الثانی، تعیین الماجور (۲/۴۲۰)
سوم یہ کہ ممبرسازی کا نظام بھی اس بات کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ اصل مقصود زیادہ سے زیادہ روپیہ جمع کرنا ہے اور نیچے کے ممبران کے توسط سے اوپر کے تمام ممبران کو انھیں کے روپیوں سے کم و بیش کمیشن دینا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں صرف روپیوں کی ہیرا پھیری ہے
خود پھنسو اور دوسروں کو بھی پھنساؤ۔۔۔۔یہ اسکیم معلوم ہورہی ہے
پھر اس رقم سے کون سا کاروبار کیا جاتا ہے؟ یہ بھی واضح نہیں،
اس لیے یہ بظاہر غرر، دھوکہ، قمار اور سودی لین دین ہی کی ایک شکل معلوم ہو رہی ہے۔
حلال کمائی کے لیے کسی بھی ایسے طریقے کو اختیار کرنا چاہیے کہ جس میں اپنی محنت شامل ہو، ایسی کمائی زیادہ بابرکت ہوتی ہے۔
حدیث شریف میں ہے:
شعب الإيمان (2/ 434):
"عَنْ سَعِيدِ بْنِ عُمَيْرٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْكَسْبِ أَطْيَبُ؟ قَالَ: " عَمَلُ الرَّجُلِ بِيَدِهِ، وَكُلُّ بَيْعٍ مَبْرُورٍ".
ترجمہ: آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ سب سے پاکیزہ کمائی کونسی ہے؟ تو آپ ﷺنے فرمایا: آدمی کا خود اپنے ہاتھ سے محنت کرنا اور ہر جائز اور مقبول بیع۔
شرح المشكاة للطيبي الكاشف عن حقائق السنن (7/ 2112):
اس لئے مسلمان کے لئے،بحیثیت مسلمان ہونے کے اس ایپ میں شامل ہوکر اس سے منافع حاصل کرنا اور دوسروں کو اس کی ترغیب دینا اب تک کی تحقیق کے مطابق جائز نہیں۔
اگر کسی نے منافع حاصل کرلئے ہیں تو وہ ایپ میں واپس کردئیے جائیں۔
اگر واپسی کی کوئی صورت نہ ہو تو مستحق زکاة کو دے دئیے جائیں
فقط واللہ اعلم بالصواب و علمه احکم و اتم
اللھم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و ارنا الباطل باطلا و ازقنا اجتنابه۔۔
--------------------------------------------
حررہ وکتبه:- العبد محمد اسماعیل پالن پوری (ماہی)
مدرس و مفتی دارالعلوم چھاپی، شمالی گجرات
۱۸ ربیع الثانی ۱۴۴۲ ھجری
4 دسمبر سن عیسوی 2020
------------------------------
الجواب صحیح
مفتی اسامہ پالن پوری (ڈینڈرولوی)
خادم جامعہ تعلیم الدین، ڈابھیل
الجواب صحیح
مفتی سلمان قاسمی پالن پوری (کھلی)
جامعہ خلیلیہ، ماھی
الجواب صحیح
مفتی سعیداحمد قاسمی پالن پوری (مجادری)
الجواب صحیح
مفتی محمد حارث پالن پوری (میتوی)
مؤمن نگر، جوگیشوری، ممبئی
الجواب صحیح
مفتی یوسف ایلولوی
مفتی دارالعلوم کنتھاریہ، گجرات
---------------------------------------------
نوٹ:-
صارفین کی معاونت اور خود کی تحقیق سے جو حقائق اب تک سامنے آئے، اس کو سامنے رکھ کر خود (محمد اسماعیل) ہی نے سوال مرتب کیا اور جواب لکھا ہے
اور تائید کرنے والے پانچ مفتیان کرام پر جواب بھیج کر انھوں نے جواب غور سے پڑھا اور انھیں کی اجازت سے الجواب صحیح لکھا گیا ہے۔
ان کان الصواب فمن اللہ عز و جل وان کان خطآ فمنی و من الشیطان۔۔۔
اللھم احفظنا و جمیع المسلین من الضلال و الاضلال۔۔۔
https://saagartimes.blogspot.com/2020/12/burse.html