سوال: مشہور ہے کہ غزوۂ تبوک سے واپسی پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ:
(رجعنا من الجہادالاصغر الی الجہادالاکبر)
کیا یہ صحیح ہے؟
الجواب باسم ملہم الصواب:
O اولا: سوال میں ذکر کردہ حدیث کےالفاظ، یہ روایت بالمعنی ہے، اصل الفاظ اس طرح نہیں ہیں۔
O ثانیا: اس باب میں روایات دو طرح کی ہیں: مرفوعہ، مقطوعہ:
مرفوعہ: یعنی الفاظ کی نسبت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی گئی
مقطوعہ: یعنی مذکورہ الفاظ کسی تابعی کی طرف خود انہیں کے الفاظ مانتے ہوئے نسبت کی گئی۔
O ثالثا: مرفوعہ روایت کے راوی صرف حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ مذکور ہیں۔
O رابعا: سوال میں جو الفاظ مذکور ہیں، وہ مقطوعہ روایت کے قریب ہیں، بعینہ پھر بھی نہیں ہیں۔ جبکہ مرفوعہ روایت کے الفاظ بالکل الگ ہیں۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے:
۞ مرفوعہ روایت ۞
عن جابر قال: قَدِمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَوْمٌ غُزَاةٌ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
"قَدِمْتُمْ خَيْرَ مَقْدَمٍ قَدِمْتُمْ مِنْ جِهَادِ الأَصْغَرِ إِلَى جِهَادِ الأَكْبَرِ" . قِيلَ: وَمَا جِهَادُ الأَكْبَرِ؟ قَالَ: "مُجَاهَدَةُ الْعَبْدِ هَوَاهُ".
تنبیہ: روایت کے الفاظ اسی طرح ہیں، (جہاد) کا لفظ بلا الف لام کے ہیں، اور(الاصغر۔ الاکبر) صفت ہے، جس کا موصوف محذوف ہے، والتقدیر: (جہاد العدوّ الاصغر۔ جہاد العدوّ الاکبر)۔
التخريج:
یہ حدیث دو اسانید سے کتب حدیث وتاریخ میں وارد ہے، دونوں میں مدار سند (لیث بن ابی سُلیم ) ہیں، پھر ان سے روایت کرنے والے دو راوی ہیں:
۱۔ یحیی بن یعلیٰ بن حرملہ، ابو المحیاۃ التیمی۔
۲۔ یحیی بن العلاء الرازی البجلی۔
O پہلے راوی (یحیی بن یعلی ابوالمحیاہ) کےطریق سے یہ روایت مندرجہ ذیل کتابوں میں منقول ہے:
1- "الفوائد المُنتقاة" من مرويات أبي بكر الشافعي، لأبي حفصٍ البصري (الجزء 13 رقم الحديث: 62):
نا مُحَمَّدُ بْنُ غَالِبٍ، قَالَ: نا عِيسَى بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْبِرَكِيُّ، قَالَ: نا يَحْيَى بْنُ يَعْلَى، قَالَ: نا لَيْثٌ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَدِمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَوْمٌ غُزَاةٌ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "قَدِمْتُمْ خَيْرَ مَقْدَمٍ قَدِمْتُمْ مِنْ جِهَادِ الأَصْغَرِ إِلَى جِهَادِ الأَكْبَرِ " . قِيلَ : وَمَا جِهَادُ الأَكْبَرِ؟ قَالَ: "مُجَاهَدَةُ الْعَبْدِ هَوَاهُ".
2- کتاب "الزهد الكبير" للبيهقي - فصل في ترك الدنيا ومخالفة النفس والهوى (حديث: 373):
أخبرنا علي بن أحمد بن عبدان، حدثنا أحمد بن عُبيد، حدثنا تَمْتَام ، حدثنا عيسى بن إبراهيم ، حدثنا يحيى بن يعلى، عن ليث، عن عطاء، عن جابر قال: قَدِمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَوْمٌ غُزَاةٌ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "قَدِمْتُمْ خَيْرَ مَقْدَمٍ قَدِمْتُمْ مِنْ جِهَادِ الأَصْغَرِ إِلَى جِهَادِ الأَكْبَرِ" . قِيلَ: وَمَا جِهَادُ الأَكْبَرِ؟ قَالَ: "مُجَاهَدَةُ الْعَبْدِ هَوَاهُ" .
قال البيهقي: هذا إسناد فيه ضعف اهـ.
O دوسرے راوی (یحیی بن العلاء الرازی البجلی) کےطریق سے مندرجہ ذیل کتابوں میں یہ روایت وارد ہے :
3- "تاريخ بغداد" للخطيب (ت بشار 15/ 685)
(4590) - أَخْبَرَنَا وَاصِلُ بْنُ حَمْزَةَ فِي سَنَةِ خَمْسِينَ وَأَرْبَعِ مِائَةٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو سَهْلٍ عَبْدُ الْكَرِيمِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ بْنِ سُلَيْمَانَ، بِبُخَارَى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ الْخَيَّامُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ مُوسَى، عَنِ الْحَسَنِ هُوَ ابْنُ هَاشِمٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْعَلاءِ، قَالَ: حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَدِمَ النَّبِيُّ، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَزَاةٍ لَهُ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "قَدِمْتُمْ خَيْرَ مَقْدَمٍ، وَقَدِمْتُمْ مِنَ الْجِهَادِ الأَصْغَرِ إِلَى الْجِهَادِ الأَكْبَرِ".
4- "ذم الهوى" لابن الجوزي (ص: 39) بسَنَد الخطيب:
أَخْبَرَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ : أَنْبَأَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ ثَابِتٍ – هو الخطيبُ - قَالَ: أَنْبَأَنَا وَاصِلُ بْنُ حَمْزَةَ الصُّوفِيُّ قَالَ أَنْبَأَنَا أَبُو سَهْلٍ عَبْدُ الْكَرِيمِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ نُعَيْمٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبِي قَالَ حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ مُوسَى عَنِ الْحَسَنِ هُوَ ابْنُ هِشَامٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ الْعَلاءِ قَالَ حَدَّثَنَا لَيْثٌ عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ عَنْ جَابِرٍ ...الحديث.
۞ مقطوعہ روایت ۞
"قَد جِئْتُمْ من الْجِهَاد الْأَصْغَرِ، فَمَا فَعلْتُمْ فِي الْجِهَاد الْأَكْبَر؟"
یہ حضرت (ابراہیم بن ابی عبلہ) رحمہ اللہ کا قول ہے، جو اُن سے بسند صحیح ثابت ہے ،اور یہ شام کے علاقہ کے رہنے والے مشہور تابعی ہیں، ان کی طرف منسوب روایت مندرجہ ذیل کتابوں میں ہے:
1- النَّسَائِيّ فِي كتاب "الكُنى":- (كما ذكر المِزِّي في "تهذيب الكمال" 2/ 144):
قال النسائي : أخبرني صفوان بن عمرو،أَخْبرنِي أَبُو مَسْعُود مُحَمَّد بن زِيَاد الْمَقْدِسِي، سَمِعت إِبْرَاهِيم بن أبي عَبْلة يَقُول لِأُنَاسٍ جَاءُوا من الْغَزْو : قد جئْتُمْ من الْجِهَاد الْأَصْغَرِ، فَمَا فَعلْتُمْ فِي الْجِهَاد الْأَكْبَر ؟ قَالُوا: يَا أَبَا إِسْمَاعِيل وَمَا الْجِهَاد الْأَكْبَر ؟ قَالَ :جِهَادُ الْقلب . انْتَهَى
2- تاريخ دمشق لابن عساكر (6/438) من طريق النسائي:
قرأت على أبي الفضل بن ناصر، عن أبي الفضل جعفر بن يحيى التميمي، أنا أبونصر الوائلي، نا الخَصيب بن عبد الله بن محمد، أخبرني أبو موسى عبد الكريم بن أحمد بن شعيب، أخبرني أبي أبوعبدالرحمن – هو النسائي - أخبرني صفوان بن عمرو، نا محمد بن زياد أبو مسعود من أهل بيت المقدس ، قال : سمعت إبراهيم بن أبي عَبلة وهو يقول لمن جاء من الغزو ...الحديث
مقطوعہ روایت صحیح السند ہے، صفوان بن عمروثقہ لاباس بہ (تاریخ الاسلام6/98)۔محمد بن زیادالمقدسی،قال أبو حاتم: صالح (الجرح والتعدیل 7/258)۔ وابن ابی عبلہ تابعی ثقہ (سیراعلام النبلاء 6/323)۔
* مرفوعہ روایت کی حیثیت *
* پہلا طریق بروایتِ یحیی بن یعلی:
اس میں صرف ایک راوی ضعیف ہے، اور وہ ہے (لیث بن ابی سُلیم)، جس کے بارے میں نقاد حدیث کے اقوال مختلف ہیں ، لیکن اکثراُن کے ضعفِ حفظ کے قائل ہیں، مگر کسی نے ان پر وضع حدیث کی تہمت نہیں لگائی ہے، بلکہ مسلم نے (صحیح برقم 2066 ) میں بطورِمتابعت ان کی روایت کی تخریج کی ہے، اور بعض علماء ان کی مرویات کی تحسین کے بھی قائل ہیں ، جیساکہ ذہبی نے (سیرالاعلام 6/184 ) میں کہا: بَعْضُ الأَئِمَّةِ يُحَسِّنُ لِلَّيْثِ، وَلاَ يَبلُغُ حَدِيْثُه مَرتَبَةَ الحَسَنِ، بَلْ عِدَادُه فِي مَرتَبَةِ الضَّعِيْفِ المُقَارَبِ، فَيُرْوَى فِي الشَّوَاهِدِ وَالاعْتِبَارِ، وَفِي الرَّغَائِبِ وَالفَضَائِلِ، أَمَّا فِي الوَاجِبَاتِ، فَلاَ ۔
یعنی بعض ائمۂ حدیث لیث کی روایت کو حسن بتاتے ہیں ، لیکن اس کی روایت اس مرتبہ کی نہیں ہے، بلکہ ایسی ضعیف ہےجو حسن کے قریب ہوتی ہے، لہذا شواہد میں ، فضائل اور ترغیبات میں اس سے استدلال کی گنجائش ہے، ہاں واجبات اور احکام میں نہیں۔
لیکن زیرِبحث روایت میں (لیث بن ابی سلیم ) پر اسانید دائر ہیں ،یعنی روایت میں ان کا تفرد ہے، اور کسی راوی نے ان کی متابعت بھی نہیں کی، اگرچہ بعض روایات متنِ حدیث کے لئےشواہد بن سکتے ہیں، جن سے حدیث کے مفہوم کی صحت معلوم ہوتی ہے، لیکن کوئی بات مفہوم کے اعتبار سےچاہے صحیح ہو، تب بھی حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کے لئے معتبر سند کا ہونا ضروری ہے۔
* سندِحدیث کے بقیہ رجال ِسند سب معتبر موثوق بہم ہیں:
علي بن احمد بن عبدان: شيخ البيهقي، ثقة (تاریخ بغداد13/232) وأخطأ من زعم أنه ضعيف۔
احمد بن عُبيدالصفار: كَانَ ثِقَةً ثَبْتاً (سیراعلام النبلاء13/439) ۔
محمد بن غالب تمتام: كَانَ ثقة حافظًا (تاریخ الاسلام6/819) ۔
عيسى بن ابراهيم البرکی: صدوق، لا بأس به (تہذیب الکمال 22/581 ) ۔وقول الحافظ فی التقریب :صدوق ربما وھم، تسامح منہ ، قلد فیہ صاحب الکمال،کما وضحہ فی (تحریر التقریب 3/136)۔
يحيى بن يعلی ابو المحیاۃ: وَثَّقَهُ ابْنُ مَعِينٍ، وَغَيْرُهُ (تاریخ الاسلام 4/775)۔
عطاءبن ابی رباح: تابعي ثقة مشهور۔
* دوسرا طریق بروایتِ یحیی بن العلاء:
اس میں (لیث کے علاوہ) کئی رجالِ سند میں کلام ہے:
۱۔ خلف بن محمد الخيام البخاري: ضعيف جداً رَوى متونا لا تُعرف (لسان المیزان 3/372) ۔
۲۔ عیسی بن موسی (لعلہ غُنجار) : يروي عَنِ المجاهيل والكذابين أشياء كثيرة حتى غَلب على حديثه المناكيرُ لكثرة روايته عَنِ الضعفاء والمتروكين (تہذیب الکمال23/39) ۔
۳۔ الحسن بن ھاشم : مجهول۔
۴۔ یحیی بن العلاء الرازی : متَّهم بالکذب والوضع (میزان الاعتدال4/397)۔
تو یہ روایت واہی، ضعیف جدا ہے۔
*رجالِ سند کے متعلق چند اشکالات مع جوابات *
O پہلا اشکال: سندمیں یحیی بن یعلی ہے (جیساکہ بیہقی کی سند میں ہے) کہ یحیی بن العلاء (جیساکہ خطیب کی سند میں) ہے؟
* البانی نے الضعيفہ (5/ 478 برقم 2460) میں یہ اشکال کیا ہے، قال:
ويحيى بن أبي العلاء لعله يحيى بن العلاء الكذاب، ولكن يغلب على الظن أنه يحيى بن يعلى المذكور في سند أبي بكر الشافعي والبيهقي، تحرف اسمُ أبيه على ناسخ " التاريخ "، فإنه المذكور في الرواة عن ليث. ويؤيده أن السيوطي أورد الحديث في " الدرر " (ص 170) من رواية الخطيب متعقّبا به على الحافظ ابن حجر جَزْمَه بأن الحديث من قول إبراهيم بن أبي عبلة، فلوكان في سند الخطيبِ الوضاعُ المذكورُ؛ لما تعقّب به السيوطي إن شاء الله تعالى.
البانی کا کہنا ہے کہ: خطیب کی سند میں یحیی بن العلاء جو ہے، شاید (تاریخ بغداد) کے ناسخ سے اس کے نام کی کتابت میں تسامح ہوا ہوگا، اور صحیح (یحیی بن یعلی ) ہوگا، جیساکہ بیہقی اور ابوبکر شافعی کی سند میں ہے۔
البانی نے اپنی بات کی تایید میں دو دلیلیں پیش کیں:
ایک یہ کہ: لیث بن ابی سلیم سے روایت کرنے والوں میں یحیی بن یعلی کا نام مذکور ہے (تہذیب الکمال) میں ،نہ کہ ابن العلاء۔
دوسری دلیل: سیوطی نے (الدررالمنتثرہ) میں حافظ ابن حجر کےوثوق سے یہ کہناکہ :یہ حدیث ابراہیم بن ابی عبلہ ہی کا قول ہے، اُن پر استدراک کرتے ہوئے خطیب کی مرفوع روایت پیش کی ہے، اگر سیوطی کے نزدیک خطیب کی سند میں (ابن العلاءکذاب) ہوتا، تو ابن حجر پراستدراک درست نہیں ہوتا۔
مگر البانی کی دونوں دلیلیں درست نہیں ہیں، لیث سے روایت کرنے والوں میں (تہذیب الکمال) میں اگرچہ (یحیی بن العلاء) مذکور نہیں ہے، لیکن اس کی لیث سے روایت (معجم طبرانی کبیر8/ 121حدیث نمبر7555) میں ہے۔
دوسری دلیل کا جواب یہ ہے کہ: سیوطی تصحیح کے باب میں متساہل ہیں ، اور مناوی نے (الفتح السماوی(2/ 514) میں سیوطی سے نقل کیا ہے: لَا أعرفهُ مَرْفُوعا (یعنی خطیب والی روایت کا اعتبارنہیں)۔
* ایک دوسرے باحث (شیخ محمد زیاد التکلہ) نے اپنی کتاب "الدرة اليتيمة في تخريج أحاديث التحفة الكريمة في بيان كثير من الأحاديث الموضوعة والسقيمة ص 65" میں البانی کے برعکس اشکال پیش کیا ہے، فرماتے ہیں:
ويحيى بن العلاء رُمي بالوضع، فأخشى أن تكون الرواية الأولى تصحَّفت عن الثانية، فانقلب اسمُ الراوي من يحيى بن العلاء الكذاب، إلى يحيى بن يعلى، إذ لو كان المتنُ محفوظا عن ليثٍ لكان رُوي وعُرف، واشتَهَر الكلامُ عليه مبكّرا، وما حَكم عليه بعضُ الحفاظ بأنه لا أصلَ له.
یہ اشکال بھی معتبر نہیں ہے، چونکہ یحیی بن یعلی کی لیث بن ابی سلیم سےروایت معروف ومشہور ہے، سنن ترمذی (2800) میں لیث سے ایک روایت وارد ہے، قال الترمذی: (وَأَبُو مُحَيَّاةَ اسْمُهُ: يَحْيَى بْنُ يَعْلَى) اسی طرح ابن ابی شیبہ ،مسند بزار ،معجم طبرانی میں بھی دوسری روایات ہیں۔
ایک اور بات ہے کہ: بیہقی کی سند میں (یحیی بن یعلی) سے ماقبل جتنے رواۃ ہیں، سب ائمہ حفاظ ہیں، ان سے راوی کے نام میں وہم واقع ہونا بعید ہے، جبکہ خطیب بغدادی کی سند میں کمزور ہیں، تو وہاں وہم وغلط واقع ہونا ممکن ہے۔ یعنی شیخ محمد زیاد کے مقابلہ میں البانی کا اشکال معقول ہوسکتا ہے۔
O دوسرا اشکال: یحیی بن یعلی کون ہے، اسلمی یا تیمی؟
* قال الالبانی في الضعيفہ (5/ 478 برقم 2460 ): ويحيى بن يعلى؛ الظاهر أنه الأسلمي، وهو ضعيف أيضا۔
یہ بھی البانی کی مجرد تخمین ہے، ظاہر یہی ہے کہ اسلمی نہیں ہے ، اور اسلمی کی روایت لیث سے معروف بھی نہیں ہے ۔خطیب بغدادی نے (المتفق والمفترق 3/2069) میں دونوں کے درمیاں تفریق کرتے ہوئے یحیی تیمی کے شیوخ میں (لیث بن ابی سلیم) کا نام ذکر کیا، اور پھر ایک روایت لیث ہی کے واسطے سے پیش کی ، جبکہ اسلمی کے مشایخ میں (لیث) کا ذکر نہیں کیا۔
* حافظ ابن حجر کے کلام میں بھی اشکال ہے، حیث قال فی (تخريج أحاديث الكشاف ص 114): هُوَ من رِوَايَة عِيسَى بن إِبْرَاهِيم عَن يَحْيَى بن يعْلى عَن لَيْث بن أبي سليم، وَالثَّلَاثَةُ ضعفاء.
حافظ ابن حجر نے تینوں کو ضعیف بتایا ہے، شاید حافظ نے بھی یحیی بن یعلی کو اسلمی سمجھا، جس کا جواب گذرچکا۔ اور عیسی بن ابراہیم کو قرشی ھاشمی قرار دیا، جو ضعیف ہے (میزان الاعتدال 3/308)۔ جبکہ یہاں عیسی بن ابراہیم برکی ہے، جیساکہ ابوبکر شافعی کے فوائد کی سند میں مصرح بہ ہے، مزید بر آں ان کے شاگرد یہاں (محمد غالب تمتام) عیسی برکی ہی سے روایت کرتے ہیں (تہذیب الکمال 22/581)۔
O تیسرا اشکال: یحیی بن العلاء ہے، یا ابن ابی العلاء؟
یحیی بن ابی العلاء ( تاریخ بغداد) کے قدیم نسخے میں ہے (13/498) ۔ بشار عواد کے محقق نسخے میں (15/685) یحیی بن العلاء علی الصواب ہے، اسی طرح ابن الجوزی کی(ذم الہوی ص39) میں بطریق الخطیب: ابن العلاء ہی ہے، کما مر۔
* مرفوعہ روایت کے بارے میں نقاد ِحدیث کا موقف *
ایک ضروری بات اس سلسلہ میں عرض کروں گا کہ: اس طرح کی احادیث جو مرفوع موقوف مروی ہوں، اور اسانید کے مراتب بھی مختلف ہوں (صحیح ،ضعیف، موضوع) تو نقادِ حدیث کے اقوال واحکام نقل کرنے میں احتیاط ضروری ہے ، اصل کلام دیکھے بغیر نقل کرنے میں حدیث پر حکم لگانے میں غلطی ہونے کے امکانات ہیں ۔
زیرِبحث حدیث کے بارے میں بھی بعض باحثین نے متقدمین ومتاخرین کے حوالے سے متناقض اقوال نقل کئے :(فیہ ضعف،ضعیف، غریب، منکر، لا اعرفہ مرفوعا، لا اصل لہ )جن کے نقل کرنے کے بعد حدیث کا مرتبہ معلوم کرنا دشوار ہے۔
لہذا صحیح یہ ہے کہ ہر ناقد کا اصل کلام دیکھا جائے کہ وہ کونسی روایت ، کونسی سند پر کلام کر رہا ہے۔ اسی نکتہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے میں نے ذیل میں نقادِ حدیث کی آراء کو پیش کرنے کی سعی کی ہے، ملاحظہ فرمائیں:
* اولا: بیہقی کی سند بخصوصہ:
1- قال البيهقي في الزهد الكبير(حديث: 373): هذا إسناد فيه ضعف.
۲- قال ابن حجر العسقلاني في (تخريج أحاديث الكشاف ص 114 ) وكما في الفتح السماوي (2/ 851): هُوَ من رِوَايَة عِيسَى بن إِبْرَاهِيم عَن يَحْيَى بن يعْلى عَن لَيْث بن أبي سليم، وَالثَّلَاثَة ضعفاء.
۳- قال الألباني في الضعيفة (5/ 478 برقم 2460): قلت: وهذا سند ضعيف، ليث هو ابن أبي سليم، وهو ضعيف لاختلاطه، ويحيى بن يعلى؛ الظاهر أنه الأسلمي، وهو ضعيف أيضا، وبقية رجاله ثقات.
قلت: عيسى بن إبراهيم هو البِركي، وقد قال فيه الحافظ في "التقريب": "صدوق ربما وهم"، فإطلاقه الضعفَ عليه - كما سبق - ليس بجيد.
ويحيى بن أبي العلاء لعله يحيى بن العلاء الكذاب، ولكن يغلب على الظن أنه يحيى بن يعلى المذكور في سند أبي بكر الشافعي والبيهقي، تحرف اسم أبيه على ناسخ " التاريخ "، فإنه المذكور في الرواة عن ليث. ويؤيده أن السيوطي أورد الحديث في " الدرر " (ص 170) من رواية الخطيب متعقبا به على الحافظ ابن حجر جزمه بأن الحديث من قول إبراهيم بن أبي عبلة، فلوكان في سند الخطيب الوضاع المذكور؛ لما تعقب به السيوطي إن شاء الله تعالى.انتهى باختصار
* ثانیا: خطیب بغدادی کی سند بخصوصہ:
1- قال خلدون الأحدب في (تخریج زوائد تاريخ بغداد 9/310) : إسناده تالف ۔
1- قال محمد بن عمرو بن عبد اللطيف في (تبييض الصحيفة۔ القسم الاول: ص 76ـ 78) عن رواية الخطيب: إسناده واه جدا ۔
* ثالثا: حدیث مرفوع کے بارے میں مطلق اقوال:
(رجعنا من الجہاد الاصغر)
کے الفاظ کے بارے میں نقاد حدیث کا موقف
* ابوالمظفر السمعانی فی التفسير (3/458): وَفِي بعض الغرائب من الْأَخْبَار: أَن النَّبِي لما رَجَعَ من غَزْوَة تَبُوك قَالَ: " رَجعْنَا من الْجِهَاد الْأَصْغَر إِلَى الْجِهَاد الْأَكْبَر"۔
* الزيلعی فی تخريج أحاديث الكشاف (2/ 395): عَن النَّبِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم َ أَنه رَجَعَ من بعض غَزَوَاته فَقَالَ (رَجعْنَا من الْجِهَاد الْأَصْغَر إِلَى الْجِهَاد الْأَكْبَر) قلت: غَرِيب جدا ۔
* ابن تيميہ فی الفرقان بين اولياء الرحمن واولياء الشيطان (ص: 56) وفی " مجموع الفتاوی" (11/ 197): "لا أصل له، ولم يروه أحد من أهل المعرفة بأقوال النبي صلى الله عليه وسلم وأفعاله"۔
* ابن حجر العسقلانی فی تسديد القوس كما في الدرر المنتثرة فی الأحاديث المشتهرة (ص: 125):
245 - (حديث) "رَجَعْنَا مِنَ الْجِهَادِ الأَصْغَرِ إِلَى الْجِهَادِ الأَكْبَرِ، قَالُوا وَمَا الْجِهَادُ الأَكْبَرُ؟ قَالَ جِهَادُ الْقَلْب" قال الحافظ بن حجر في تسديد القوس: هو مشهور عَلَى الألسنة، وهو من كلام إبراهيم بن أبي عبلة في الكنى للنسائي ،انتهى.
* السيوطی كما فی الفتح السماوی (2/ 514) :
393 - قَوْله: وَعَلِيهِ قَوْله عَلَيْهِ السَّلَام: رَجعْنَا من الْجِهَاد الْأَصْغَر إِلَى الْجِهَاد الْأَكْبَر.
قَالَ السُّيُوطِيّ لَا أعرفهُ مَرْفُوعا، وَأَقُول(المناوي): هَذَا عَجِيب مِنْهُ مَعَ سَعَة نظره، فقد أخرجه الديلمي فِي مُسْند الفردوس والخطيب الْبَغْدَادِيّ فِي تَارِيخه من حَدِيث جَابر مَرْفُوعا بِلَفْظ: (قدمتم من الْجِهَاد الْأَصْغَر إِلَى الْجِهَاد الْأَكْبَر: جِهَاد النَّفس وهواها)۔
* الألبانی فی الضعيفہ (5/ 478 برقم 2460 ): "رجعنا من الجهاد الأصغر إلى الجهاد الأكبر". منكر۔
* محمد بن عمرو بن عبداللطيف فی (تبييض الصحيفہ باصول الاحاديث الضعيفہ ص 76 رقم الحديث 25 ): ضعيف بغير هذا اللفظ ، ولكن هكذا اشتهر على الألسنة ، ولم أقف عليه به مرفوعا أو موقوفا .
(قدمتم من الجہادالاصغر)
کے الفاظ کے بارے میں نقاد حدیث کا موقف
* ابن رجب فی جامع العلوم والحكم تحقیق ماهر الفحل (2/ 583) :
وقال إبراهيم بن أبي عبلة لقوم جاءوا من الغزو: قد جئتُم من الجهاد الأصغر، فما فعلتم في الجهاد الأكبر؟ قالوا: وما الجهاد الأكبر؟ قال: جهادُ القلب. ويُروى هذا مرفوعاً من حديث جابر بإسناد ضعيف، ولفظه: ((قدمتم من الجهاد الأصغر إلى الجهاد الأكبر)) قالوا: وما الجهاد الأكبر؟ قال: ((مجاهدةُ العبدِ لهواه)) .
* ابن حجر المكی فی الفتح المبين بشرح الاربعين (ص : 379) : وجاء في حديثٍ ضعيفٍ: "قدمتم من الجهاد الأصغر إلى الجهاد الأكبر" قالوا: وما الجهاد الأكبر؟ قال: "مجاهدة العبد لهواه" .
O تحسین حدیث کے قائلین:
۱۔شیخ احمد بن صدیق غماری نے اس حدیث کی تخریج وتحسین پر ایک رسالہ تحریر کیا ہے بعنوان (تحسين الخبر الوارد فی الجهاد الاكبر)۔ وقال فی (المداوی لعلل الجامع الصغير وشرحی المناوی (4/ 622) : والحديث له شواهد كثيرة يمكن جمعها في جزء مفرد، ولنا عزم على ذلك إن شاء اللَّه تعالى، وأعان عليه.
۲۔ ملتقی اہل الحدیث پر ایک اور باحث کی رائے، قال:
إن الحديث حسنُ الإسناد ، فيه ضعفٌ يمكن تجاوزُه والغضّ عنه، وعلى الأخص إذا كان له شواهدُ يرتقي بها معناه جاءت عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في مجاهدة النفس ومخالفة الهوى، وهي كثيرة لا تحصى، نذكر منها:
حديث فَضالة بن عبيد قال: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: الْمُجَاهِدُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ...
وفي رواية الطبراني والحاكم من حديث فضالة أيضاً: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال في حجة الوداع : ثم ألا أخبركم بالمؤمن ؟ من أمِنه الناسُ على أموالهم وأنفسهم، والمسلمُ من سلم المسلمون من لسانه ويده ، والمجاهِد من جاهد نفسَه في طاعة الله.
وعن حَنان بن خارجة قال: قلت لعبد الله بن عمرو بن العاص: كيف تقول بالجهاد والغزو؟ قال: ابدأ بنفسك فجاهدها ، وابدأ بنفسك فاغزُها، فإنك ان قُتلت فارا بعثك الله فارا ، وان قُتلت مرائيا بعثك الله مرائيا ، وان قُتلت صابرا محتسبا بعثك الله صابرا محتسبا. رواه ابن أبي الدنيا في (مُحاسبة النفس /97/) انتهى كلامه ۔
خلاصۃ الحکم علی حدیث
(رجعنا من الجہاد الاصغر الی الجہاد الاکبر)
* یہ حدیث مذکورہ الفاظ سے وارد نہیں ہے، نہ مرفوعا، نہ موقوفا ومقطوعا۔
مرفوع کے الفاظ ہیں: (قَدِمْتُمْ مِنْ جِهَادِ الأَصْغَرِ إِلَى جِهَادِ الأَكْبَرِ)
مقطوع کے الفاظ ہیں: (قَد جِئْتُمْ من الْجِهَاد الْأَصْغَرِ، فَمَا فَعلْتُمْ فِي الْجِهَاد الْأَكْبَر؟)
تو ثابت ہوا کہ (رجعنا من الجہاد ...الخ) روایت بالمعنی ہے، اس میں اکثر بیان کرنے والے پوری روایت بیان نہیں کرتے۔
كتبه محمد طلحة بلال أحمد منيار، عفا عنه الرحيم الغفار
(نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2020/09/blog-post_52.html