Tuesday, 27 November 2018
جمعیت علماء اور جماعت تبلیغ ایک واقعہ
زچگی کے وقت کی سہولت کیلئے کچھ وظیفے
◀ درد شروع ھونے سے پہلے کثرت سے سورہ واقعہ کی یہ دو آیت پڑھے۔
(أَفَرَأَيْتُمْ مَا تُمْنُون أَأَنْتُمْ تَخْلُقُونَهُ أَمْ نَحْنُ الْخَالِقُونَ)
◀ جب درد شروع ھوتو تسھیل کیلئے ھر گھنٹہ سورہ یسین پڑھے۔
◀ سورہ عبس کی یہ آیت
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ثم السبیل یسرہ۔
اس کا تعویذ بنا کر پہنا دیں۔ اللہ جل شانہٗ فضل فرمائیں گے. ان شاء اللہ ولادت كے وقت درد کا احساس بھی نہیں ھوگا۔
----------------
اِذَا السَّماء ُ انشَقَّت وأذِنَت لرَبِّہا وَحُقَّت واِذا الأرضُ مُدَّت وألقَت مَا فیہا وَ تَخَلَّت وَ أذِنَت لرَبِّہا وَ حُقَّت؛
نوٹ: قرب ولادت کے وقت حاملہ کو کھلادیں۔ (د)
----------------
حمل کے بعد سورہ مریم پڑھنے سے ولادت میں آسانی کا ہونا مجرب ہے اور بیٹے کی پیدائش اور خوبصورتی کے لئے سورہ یوسف کا پڑھنا بھی مجرب ہے۔ اس لئے والدہ سورہ مریم اور سورہ یوسف پڑھ سکتی ہیں۔
حاملہ کو جب درد زہ شروع ہونے لگے تو حاملہ کی بائیں ران پر گھٹنہ کے نزدیک باندھ دیں کپڑے میں باندھا ہوا تعویذ ٹانگ کے اندر کی طرف اور گانٹھ باہر کی طرف ہو۔ انشاء اللہ 20-15 منٹ کے اندر بچہ جنے گی۔
Tuesday, 20 November 2018
مولانا سلمان ندوی اور ماضی قریب کے "تاریخی حقائق"
مولانا سلمان ندوی اور ماضی قریب کے "تاریخی حقائق"
ایک صاحب نے لکھا ہے کہ مولانا سلمان ندوی کو ـ ـ ـ ہوگیا ہے انھوں نے ایک نیا شگوفہ چھوڑدیا ہے، ساتھ ہی انھوں ایک ویڈیو بھی بھیجا ہے، ویڈیو سننے کے بعد اندازہ ہوا کہ اس میں صرف ایک شگوفہ نہیں بلکہ کئی "عبرتناک شگوفے" ہیں ـ
ویڈیو میں معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے مولانا مودودی سے متعلق ان سے سوال کیا ہے، (ہمیں حسن ظن رکھنا چاہئے کہ واقعی سوال کیا گیا ہوگا ـ) اس کے جواب میں مولانا نے جو گل افشانی فرمائی ہے وہ انتہائی حیرتناک ہے ـ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مولانا کو صدیوں پرانے "تاریخی حقائق" تو ازبر ہیں مگر ماضی قریب اور سامنے کی تاریخی حقیقتیں ذہن سے نکل گئی ہیں (یہ سمجھنا تو ایک عالم کی شان میں گستاخی اور بد گمانی ہوگی کہ موصوف سے جان بوجھ کر غلط بیانی صادر ہوگئی ہے)
ابتدا میں انھوں نے مودودی صاحب کی تعریف کرتے ہوئے ان کی وسعت نظری، مطالعہ، الجہادفی الاسلام اور پردہ جیسی کتابوں کا تعارف کروایا ہے، پھر اس کے بعد مودودی صاحب کی تصنیف "خلافت وملوکیت" پر آگئے ہیں، فرماتے ہیں کہ اس کتاب میں چونکہ صحابیت کے سلسلے "عام علماء" کے رجحان اور ان کی فکر کے خلاف باتیں تھی، تحریر میں شدت بھی تھی اس لئے علماء دیوبند اور سہارنپور نے ان کے خلاف محاذ کھول دیا، چنانچہ مولانا حسین احمد مدنی اور شیخ زکریا (رحمہما اللہ) نے ان کے خلاف کتابیں لکھیں ـ آگے مولانا فرماتے ہیں کہ مولانا تھانوی اور مولانا عبد القادر رائے پوری خاموش رہے انھوں نے خلافت و ملوکیت کی حمایت یا مخالفت میں کچھ نہیں لکھا ـ
مولانا سلمان ندوی کو یا تو معلوم نہیں تھا یا وہی ماضی قریب کی "تاریخی سچائیوں" کو بھولنے کی عادت، ....... مودودی صاحب کی خلافت وملوکیت 1965 میں ان کے رسالے ترجمان میں قسط وار چھپنا شروع ہوئی تھی اور 1966 یا 1967 میں کتابی شکل میں شائع ہوئی ـ حضرت تھانوی (رحمہ اللہ) کا وصال اس سے کہیں پہلے 1943 میں ہوچکا تھا، حضرت مدنی کی وفات 1957 میں ہوئی اور حضرت رائے پوری نے 1962 میں رحلت فرمائی ہےـ کتاب چھپنے سے پہلے یہ حضرات اس کتاب پر کیسے تنقید وتبصرہ کرسکتے تھے یہ شیخ سلمان صاحب ہی بتاسکتے ہیں ـ
دوسری قریبی سچائی جو شیخ کے ذہن میں نہیں رہی کہ مودودی صاحب اور علماء کا اختلاف ان کے افکار اور نظریات کو لے کر خلافت ملوکیت کی اشاعت سے قبل سے ہی رہا ہے، چنانچہ حضرت مدنی نے اپنی وفات سے قبل "مودودی دستور وعقائد کی حقیقت" نامی رسالہ تحریر فرمایاتھا، مولانا علی میاں اور مولانا منظور نعمانی، امین احسن اصلاحی جیسے علماء بھی اس کتاب کی اشاعت سے قبل ہی مودودی صاحب سے الگ ہوچکے تھے ـ
آگے مودودی صاحب کی سیاسیات کا ذکر کرتے ہوئے سلمان صاحب فرماتے ہیں کہ پاکستانی انتخابات میں مولانا مودودی نے محمد علی جناح کی بہن (مولانا سلمان ان کو جناح کی بیٹی بتاتے ہیں) فاطمہ جناح کی حمایت کی تھی اس کی وجہ سے بھی مودودی صاحب کو ہند، پاک میں روایتی علماء کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ـ ........ آگے مولانا نے علماء پر طنز کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ وہی علماء جو فاطمہ جناح کی حمایت پر مودودی صاحب کے خلاف ہنگامہ کررہے تھے سب بے نظیر بھٹو، حسینہ واجد اور خالدہ ضیاء کے ساتھ بیٹھے نظر آئے ـ
ہندوستانی سیاست میں مولانا نے جمیعۃ علماء کا نام لیا اور حضرت مولانا اسعد مدنی صاحب پر بغیر نام لئے یوں تیر اندازی فرمائی، کہ جن کے والد محترم نے فاطمہ جناح کے سلسلے میں مودودی صاحب کی مخالفت کی تھی انھیں کے فرزند ارجمند نے اندرا گاندھی کی حمایت کی اور جب اندرا کو گرفتار کیا گیا تو ان کو بچانے کے لئے ملک بچاؤ تحریک چلائی جس میں علماء اور طلبا مدارس کا بھی استعمال کیاگیا، مولانا یہ آیت بھی پڑھی ہے "تلک الایام نداولھا بین الناس" ـ
یہاں پھر حد ادب کا خیال کرتے ہوئے ہم یہ نہیں کہہ پارہے ہیں کہ اتنا بڑا عالمی سطح کا نامور عالم "تلبیس" سے کام لے رہا ہے، مگر ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ شاید مولانا کو اپنی ضروری وغیر ضروری مصروفیات کی وجہ سے مولانا مودودی کے افکار ونظریات سمجھنے کا موقع نہیں ملا ـ
حلانکہ معمولی پڑھا لکھا آدمی بھی یہ جانتا ہے کہ جماعت اسلامی کے قیام کی غرض "حکومت الہیہ اور خلافت علی منہاج النبوت" کا قیام رہا ہے، اور مولانا اپنے اسی نظریہ کی وجہ سے حضرت معاویہ، حضرت عثمان اور دیگر صحابہ (کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں ـ ....... اس لئے اگر کوئی اعتراض کرتا ہے کہ حکومت الہیہ کا سب سے بڑا داعی ایک عورت کو اسلامی مملکت کا سربراہ کیوں بنا رہا ہے تو اس میں کیا غلط ہے، ......اپنے اس اقدام کی مودودی صاحب نے جو صفائی دی ہے جس طرح دفاع کرنے کی ناکام کوشش کی ہے اس میں بھی اہل نظر کے لئے کافی دلچسپی کا سامان موجود ہے ـ ....... اور صرف فاطمہ جناح کی حمایت ہی نہیں مودودی صاحب کے دوسرے بھی کچھ ایسے اقدامات تھے جو ان کے بنیادی نظریات سے میل نہیں کھاتے تھے، مثلا ایک اشپیشل ٹرین کے ذریعے پورے پاکستان میں غلاف کعبہ کی نمائش کرکے اپنے سیاسی استحکام کی کوشش، جبکہ وہ غلاف پاکستان ہی میں تیار ہوا تھا اور ابھی کعبے کو پہنایا بھی نہیں گیا تھا کہ کعبے کی برکت اس میں حلول کئے ہوتی، اس نمائش کے دوران کیا کیا نہیں ہوا، ہار پھول نقد، بوسے استلام یہ ساری تفصیلات اس زمانے کے اخبارات میں دیکھی جاسکتی ہیں ـ
پڑوسی ملک کی سیاست سے متعلق ہمیں اور کچھ نہیں کہنا وہاں کی سیاست وہاں والے جانیں،......... مگر اپنے ملک کے تعلق سے ہم یہ ضرور عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک مذہبی بنیاد پر قائم نہیں ہے، یہاں ایک سیکولر دستور کے تحت سیکولر حکومت قائم ہے، یہاں سیاسسی اعتبار سے دیگر جمہوریتوں کی طرح مرد و عورت مساوی حیثیت رکھتے ہیں، یہاں اگر کوئی خاتون کسی سیاسی پارٹی کی سربراہ یا حکومت کی سربراہی کرتی ہے تو کوئی تعجب نہیں ہے، اندرا گاندھی نے اپنی سیاسی پارٹی کی سربراہی بھی کی ہے اور ملک کی بھی، اگر ان کی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے لئے جمہوری طور پر احتجاج کرتا ہے، جیل جاتا ہے تو وہ اپنے جمہوری حق کا استعمال کررہا ہے، ویسے جب اندرا گاندھی کی ہندوستان میں حکومت تھی تو مولانا سلمان صاحب بھی بقید ہوش وحواس ہندوستان ہی میں تشریف رکھتے تھے، ہجرت نہیں فرمائی تھی، تاہم مولانا سلمان صاحب کو یہ حق ہے کہ حضرت مولانا اسعد صاحب سے اختلاف رکھیں ـ
مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ مولانا کی یادداشت یہاں بھی دھوکا دے گئی ہے، ابھی بے شمار لوگ حیات ہیں جو بتائیں گے کہ جب اندرا گاندھی کو گرفتار کیا گیا تھا تو کانگریس کے ایک رکن کی حیثیت سے مولانا اسعد مدنی صاحب احتجاجا جیل ضرور گئے تھے مگر علماء اور طلبا مدارس کا استعمال قطعی نہیں ہوا تھا یہ صریح غلط بیانی ہےـ
ہاں مولانا اسعد صاحب نے ملک و ملت بچاؤ تحریک ضرور چلائی تھی جس میں کثیر تعداد میں علماء وعوام نے حصہ لیا تھا، مگر وہ تحریک اندرا کی رہائی کے لئے نہیں تھی اندرا گاندھی ان دنوں جیل میں نہیں تھیں ـ
ہمارے قریبی احباب جانتے ہیں کہ ملک وملت بچاو تحریک جب چلائی گئی تھی تو ہمیں اس سے اتفاق نہیں تھا، حضرت مولانا اسعد مدنی کے بعض دیگر اقدامات کے بھی ہم ناقد رہے ہیں، مگر "تاریخی حقائق" کا اظہار بھی ضروری ہے اس لئے عرض کرتے ہیں کہ مولانا اسعد صاحب نے ملت کے کئی مطالبات کو لے کر چار مرتبہ ملک وملت بچاؤ تحریک کا اعلان کیا، ایک بار مرارجی ڈیسائی کے زمانے میں، دوسری بار چرن سنگھ، تیسری بار خود اندرا گاندھی اور چوتھی بار اٹل بہاری باچپئی کے زمانے میں ...... جب بھی تحریک چلی اندرا گاندھی کبھی جیل میں نہیں تھیں ـ
اپنی اس تحریر کے آخر میں ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ جلد ہی مولانا سلمان صاحب کا ایک اور ویڈیو منظر عام پر آئے گا جس میں مولانا اپنے پورے جاہ وجلال، گرجدار الفاظ اور خطیبانہ آہنگ میں ایک بار پھر اپنی پچھلی باتوں کو دھرائیں گے اور پھر اس کو رجوع کا نام دے دیا جائیگا ـ
محمود دریابادی
Sunday, 18 November 2018
اجینوموٹو؛ حرام ہے یا حلال؟
اجینوموٹو جو چینی کھانے میں استعمال ہوتاہے حرام ہے یا حلال؟
Published on: Jun 16, 2011
جواب # 32757
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ب): 962=802-7/1432
”اجینو موٹو“ نمک ہوتا ہے جس کو چینی لوگ اپنے کھانے میں استعمال کرتے ہیں، اس نمک کے بارے میں ہمیں تحقیق نہیں کہ وہ کن اشیاء سے اور کس طرح تیار ہوتا ہے، اگر وہ حلال وپاک اشیاء سے بنتا ہے تو اس کے کھانے کی مسلمانوں کے لیے بھی گنجائش ہے، اوراگر وہ حرام و ناپاک وحرام چیزوں سے تیار ہوتا ہے تو اس نمک سے مسلمانوں کو اجتناب کرنا چاہئے۔ آپ اس کے اجزاء کی تحقیق فرمالیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
--------
علماء کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے ملک کے بعض مفتی کرام آجی نوموٹو (مونو سوڈیم گلوٹامیٹ MSG) کھانے کو مطلقاً فراہم کررہے ہیں حرمت کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ آجی نو موٹو کو کیڑوں سے بنایا جاتا ہے اور طبی لحاظ سے بھی صحت کے لئے مضر ہے اس کے بارے میں ایک مقامی اخبار میں شائع کردہ ایک طبی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہیں۔ البتہ انٹرنیٹ پر اس کے بارے میں مندرجہ ذیل معلومات درج ہے۔
اجی نوموٹو (چائینیز نمک) کا اصل نام:
سینتھیسز (Synthesis)
بیکٹیریل فرمنٹیشن (Bacterial Fermentation)
تین طریقوں کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:
قدرتی طور پر پروٹین مختلف ایسڈ کا مجموعہ ہوتا ہے جن میں گلوٹامیٹ ایسڈ بھی شامل ہوتا ہے اور اس کا طریقہ میں پروٹین کو تحلیل کرکے اس میں موجود ایسڈز کو جدا جدا کردیا جاتا ہے اور پھر ان ایسڈز میں سے گلوٹامیٹ ایسڈ کو الگ کرکے نکال دیا جاتا ہے۔ اور پھر گلوٹامیٹ ایسڈ کو صاف کرکے نمک کی شکل دے دی جاتے ہے.
یہ بیکٹیریا سویا بین میں پایاجاتا ہے اورسویا بین کے دیگرا جزاء سے اس بیکٹیریا کو الگ کرنے کے لیے تحلیل یعنی ہائیڈرولیسز کے عمل سے گزارا جاتا ہے پھر بیکٹیریا کو سویابین کے اجزاء سے الگ کرکے انہی مراحل سے گزارا جاتا ہے جوکہ ذیل میں سی گلوٹا میکم کی تفصیل میں آرہا ہے۔
اس بیکٹیریاکو نشوونما کے لیے ایک چھوٹی سی پلیٹ کی طرح کے برتن میں ڈال دیاجاتاہے جس میں گلوکوز ، نائٹروجن اور کاربن جس کو گروتھ میڈیم یا کلچر میڈیم کہتے ہیں ، مائع حالت میں ہوتا ہے اس دوران اس پلیٹ کو ایک خاص درجہ حرارت میں رکھ کر ایک مخصوص رفتار سے گھمایا جاتا ہے جس سے اس مائع کو گلوٹامیٹ ایسڈ میں تبدیل کرنے اوراس بیکٹیریا کی نشوونما اور بڑھوتری کا عمل تیزی سے وقوع پذیر ہوتا ہے۔ پھر کچھ وقت میں (تقریبا ً 12 گھنٹے) کے بعد جب یہ بیکٹیریا ایک حد تک بڑھ جاتا ہے تو پھر اس عمل کو دوسری مرتبہ اسی طرح کے ایک بڑے برتن میں کیا جاتا ہے اور پھر تیسری مرتبہ ایک بہت بڑے ٹینک میں یہی عمل بڑے پیمانے پر کیا جاتا ہے۔ پھر اس کے بعد گلوٹامیٹ ایسڈ کو فلٹر کرکے ٹینک میں موجود باقی مادوں (چینی، بیکٹیریا، نائٹروجن وغیرہ) سے الگ کردیا جاتا ہے۔ اور پھر اس ایسڈ میں سوڈیم کاربونیٹ ڈال دیا جاتا ہے اور مائع حالت سے ٹھوس حالت میں تبدیل کردیا جاتا ہے، جس کے بعد یہ ایک نمک کی شکل میں آجاتا ہے۔
ماہرین کی تحقیق کے مطابق خنزیر کے لبلبہ سے حاصل ہونے والا اینزائم کسی بھی مرحلہ میں اجینو موٹو کا نہ جزء بنتا ہے اور نہ ہی اس کے کسی جزء میں سرائیت کرتا ہے بلکہ یہ بیکٹیریا کی نشوونما کے ایک خارجی عمل میں تیزی پیدا کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے، تاہم اگر ماہرین کی یہ تحقیق واقعہ نہ ہو اور یہ بات ثابت ہوجائے کہ خنزیر کا مذکورہ جزء اجینو موٹو کا جزء بنتا ہے یا اس کے کسی جزء میں سرائیت کرتا ہے تو اس صورت میں یہ نمک حلال نہیں ہوگا اور نہ اس کا استعمال جائز ہوگا۔
2) مضر صحت اشیاء کا استعمال مکروہ ہے اسی لیے فقہائے کرام نے مٹی کا کھانا مکروہ لکھا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی تصریح فرمائی ہے کہ اگر کسی شخص کو کبھی کبھار مٹی یا کوئی اور مضر صحت چیز کھلانے کا اتفاق ہوجائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں البتہ اگر کوئی مضر صحت چیز کسی شخص کے لیے مہلک ہوتو اس کے لیے اس کا استعمال حرام ہوگا اور اگر کسی حلال چیز کے بارے میں بھی یہ معلوم ہوجائے کہ وہ کسی شخص کے لیے مضر صحت ہے تو اس شخص کو ایسی چیز کے استعمال سے اجتناب کرنا چاہئے۔
3) سگریٹ پینا شریعت میں اگرچہ حرام تو نہیں ہے مگر بلاضرورت اس کی عادت ڈالنا مکروہ اور خلاف اولیٰ ہے۔ تاہم سگریٹ کی کثرت اگر ماہر معالجین کے نزدیک کسی شخص کے لیے مضر صحت ہوتواس کو اس سے بچنا چاہئے۔
واللہ اعلم بالصواب
محمد انس
دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی
https://saagartimes.blogspot.com/2018/11/blog-post_18.html
Friday, 16 November 2018
اولیاء کرام کی اقسام
1۔ سالک
2۔ مجذوب
3۔ قلندر
یہ سب ولائیت کے مقام پر فائز ہوتے ہیں، ایک مشترک لفظ ’ولی‘ ان سب کے لئے بولا جاتا ہے۔ ان کو پھر ہر درویش نے اپنے انداز سے بیان کیا ہے۔ ان میں سے بعض ظاہری کام پر تعینات ہوتے ہیں۔ اور بعض کو صرف باطنی کام کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ سب اللہ کے دوست ہوتے ہیں۔
1۔ سالک :
راہِ سلوک میں رہ کر ظاہری شرع پر عمل کرنے والا سالک کہلاتا ہے۔ یہ شرع پر کاربند رہتا ہے۔ تقویٰ و طہارت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو کر طریقت کو عام کرتا ہے۔ اس کا مقام انتہائی اہم اور اعلیٰ ہے۔ اس پر تمام کیفیات گزرتی ہیں۔ یہ ہوش میں رہ کر ہوش مندوں کی صحیح تربیت کرتا ہے۔ اس کا سلسلہ ہوتا ہے اور مریدین ہوتے ہیں۔ عوام الناس رجوع کرتے ہیں اور شریعت اور طریقت کی مے انہیں ان کے میخانوں سے پلائی جاتی ہے۔ سلسلے کا معنی اللہ والے سے مل کر اللہ کے راستے کا پتہ چلانا ہے۔
2 ۔ مجذوب :
جذب شدہ۔ اللہ کی محبت میں جذب شدہ ایسا اللہ کا دوست جو اپنی ذات کی نفی کر کے اسی اللہ کی ذات میں ضم ہو گیا ہو۔ اس پر ظاہری شرع ساقط ہو جاتی ہے۔ کیونکہ شریعت ہوش مند پر لاگو ہوتی ہے۔ یہ ظاہری اعتبار سے بے ہوش ہوتا ہے۔
مجذوب کا سلسلہ نہیں ہوتا اور نہ ہی مریدین۔ یہ اپنے باطنی اسرار و رموز میں محو و مست رہتا ہے۔ جو اللہ کی طرف سے عطا کردہ ہوتے ہیں۔
مجذوب مانگنے والا نہیں ہوتا اور نہ ہی کبھی اپنی خواہشِ نفس سے مانگتا ہے ایک سے لے کر دوسرے کو دے دیتا ہے اسی طرح کسی کے پاس زادِ سفر نہ تھا تو مجذوب نے کسی ایک سے لیا اور جِس کے پاس زادِ سفر نہ تھا اس کو دے دیا۔ ان کا ہر عمل، ہر حرکت، ہر ہر ادا مصلحت سے بھرپور ہوتی ہے۔ ہر بات کے پیچھے کوئی تمثیل ہوتی ہے۔ بعض اوقات غیر متوقع بات کر دے گا۔ کسی کو گالی دے دے گا۔ مگر ہر بات کسی مصلحت کی بناء پر ہوتی ہے۔
3۔ قلندر :
یہ سالک اور مجذوب دونوں کے مزاج اور کیفیات کا حامل ہوتا ہے۔ سلوک اور جذب کا مجتمع ہو جانا۔ دونوں کی خصوصیات کا کسی میں مل جانا۔ قلندریت کا حامل کر دیتا ہے۔ قلندر پر جذب غالب ہو تو کیفیات اور ہوتی ہیں۔ ہوش غالب ہو تو کیفیات اور ہوتی ہیں۔ یہ کبھی باہوش اور کبھی بے ہوش ہوتا ہے۔ دو نوں طرح کی عطائیں اِس پر ہوتی ہیں۔
قلندر کا ایک معنی ’’ دین و دنیا سے آزاد ‘‘ بھی لیا جاتا ہے۔ کہ بعض اوقات جذب کی کیفیات غالب آگئیں تو اہل ظاہر کے نزدیک بے ہوش اور دین و دنیا سےآزاد ہے ۔
مفلس کے لئے ہے نہ تونگر کے لئے ہے
کونین کی ہر شے تو قلندر کے لئے ہے
قلندر سے ایک مراد ’ کُل اندر ‘ بھی لیا جاتا ہے۔ کہ عالمین اور کُل جہاں اس کے اندر پوشیدہ ہیں ۔سب کچھ سمیٹے ہوئے ہے ۔
( م ۔ ا )
اولیاء ظاھرین اور اولیاءِ مستورین
حضرت شاہ سید محمّد ذوقی اپنی کتاب " سّرِ دلبراں " میں فرماتے ھیں کہ " اولیاء اللہ کا وجود آدم علیہ السلام سے لے کر نبی آخر الزّماں صلیّ اللہ علیہ و سلّم کے زمانے تک اور اسکے بعد ظہورِ مھدی علیہ السلام اور نزول عیسیٰ علیہ السلام تک رھا اور رھیگا...یہ حضرات دو اقسام پر منقسم ھیں...۱ اولیاء ظاھرین.......۲ اولیاء مستورین...
اولیاء ظاھرین کے سپرد خدمتِ ھدایت ِ خلق ھوتی ھے، یہ ظاھر ھوتے ھیں کیونکہ خدمتِ ھدایت ان کو اپنے اظہار پر مجبور کرتی ھے.............
انہی کی شان میں فرمایا گیا ھے کہ " اولیآئی تحتَ قبآئی لا یعرِفُھم غیری " ترجمہ....میرے اولیاء میری قبا کے نیچے ھیں، غیر ان کو نہیں جانتا .......
الٰہی یہ تیرے پُراسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ھے ذوقِ خدائی!
حضرت شاہ سید محمّد ذوقی رح کی کتاب " سّرِ دلبراں "
سے اقتباس
سالکین کی بھی دو قسمیں ہیں یعنی طالبان حق اور طالبان آخرت و بہشت
. پھر طالبان حق کی دو قسمیں ہیں. پہلی متصوفہ دوسری ملامتیہ.
متصوفہ وہ حضرات ہیں جو اپنے نفس کی بعض صفات سے خلاصی حاصل کر لیتے ہیں اور اوصاف حسنہ میں سے بعض اوصاف اور احوال سے متصف ہوجاتے ہیں. لیکن ملامتیہ وہ لوگ ہیں جو اخلاص کی سختی سے نگہداشت کرتے ہیں اور اپنے تمام اوقات میں اخلاص کی تحقیق کی طرف متوجہ رہتے ہیں. جس طرح ایک گنہگار اپنے گناہ کے ظہور سے پرخوف رہتا ہے. اسی طرح یہ لوگ اپنی طاعت کے ظہور سے ڈرتے رہتے ہیں. کیونکہ اس سے ریا کا گمان پیدا ہوتا ہے. اس ملامتیہ فرقہ کے بعض لوگ فرقہ قلندریہ کو بھی اپنے اندر شمار کرتے ہیں.
از "مرأۃ الاسرار" مؤلفه حضرت شیخ عبدالرحمن چشتی قدس سره
تحقیق و ترجمه مولانا الحاج کپتان واحد بخش سیال چشتی صابری
اولیاء الله میں سے چار ہزار تو وہ ہیں جو پوشیدہ رہتے ہیں.وہ نہ تو ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں ، اور نہ اپنے حال کی خوبی و جمال کو جانتے ہیںان کی حالت خود اپنے سے اور تمام لوگوں سے پوشیدہ رہتی ہے.
اولیا کی مختلف جماعتیں:
جو اولیا حق تعالیٰ کی بار گاہ کے لشکری اور مشکلات کو حل کرنے والے اور حل شدہ کو بند کرنے والے ہیں، ان کی تعداد تین سو ہے. ان کو اخیار کہا جاتا ہےاور چالیس وہ ہیں جن کو ابدال اور سات وہ ہیں جن کو ابراراور چار وہ ہیں جن کو اوتاد اور تین وہ ہیں جن کو نقباءاور ایک وہ ہے جسے قطب اور غوث کہا جاتا ہے -
یہ اولیاء وہ ہیں جو ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں اور امور وہ معاملات میں ایک دوسرے کی اجازت کے محتاج ہوتے ہیں. اس پر مروی صحیح حدیثیں ناطق ہیں.
[حضرت داتا گنج بخش علی ھجویری رحمتہ الله علیہ، کشف المحجوب]
عارف اس شخص کو کہتے ھیں جس کو اپنی ذات کا عرفان ھو جائے
عالمِ راز میں عارف کا دل ایک آئینہ ھے، جب وہ اس آئینے میں دیکھتا ھے تو اللہ کو دیکھتا ھے، اس کے دل میں ایک جگہ ایسی ھے کہ سوائے اللہ تعالیٰ کےکوئی اور اس میں جگہ نہیں پاتا
طاھر مقّدسی کا قول ھے کہ اگر لوگ عارف کا نور دیکھ پائیں تو اس میں جل جائیں اور اگر عارف وجود کے نور کو دیکھ لے تو سوخت ھو جائے
.یہ مقامِ عشق ھے مقامِ فنا ھےاس مقام پر عشق، عاشق اور معشوق ایک ھو جاتے ھیں.ذاتِ باری تعالیٰ کے ساتھ تعلّق اسقدر بڑھ جاتا ھے کہ حالتِ محوّیت طاری ھو جاتی ھے..
حضرت نظام الدّین اولیاء رح فرماتے ھیں" عشق آیا، اور میرے رگ و ریشہ میں خون کی طرح داخل ھو گیا، عشق نے مجھے اپنے آپ سے خالی کردیا، اور میرے اندر دوست بھر دیا، میرے وجود کے سب اجزاء دوست نے لے لئے اور میرا نام ھی رہ گیا
باقی سب وھی ھے ...وھی ھے...وھی ھے !!!!!!
قدرت اپنے پیغام کو پہنچانے کے لئے دئیے سے دیا جلاتی رھتی ھے...معرفت کی مشعل ایک ھاتھ سے دوسرے ھاتھ میں منتقل ھوتی رھتی ھے. صوفی، ولی، غوث، قطب، مجذوب، اوتار، قلندر، ابدال.... قدرت کے وہ ھاتھ ھیں جن میں روشنی کی مشعل روشن ھے ... یہ پاکیزہ لوگ اس روشنی سے اپنی ذات کو بھی روشن رکھتے ھیں اور دوسروں کو بھی روشنی کا انعکاس دیتے ھیں...صرف تاریخ کے اوراق ھی نہیں، لوگوں کے دلوں پر بھی ان بزرگوں کی داستانیں اور چشم دید واقعات زندہ اور محفوظ ھیں
ان بندوں میں سے جو قلندر بندے ھیں وہ زمان ومکان کی قید سے آزاد ھو جاتے ھیں...اللہ کے یہ نیک بندے غرض، طمع، حرص اور لالچ سے بے نیاز ھوتے ھیں...مخلوق جب ان کی خدمت میں کوئی گزارش پیش کرتی ھے تو وہ اس کو سنتے بھی ھیں اور اس کا تدارک بھی کرتے ھیں، کیونکہ قدرت نے انہیں اسی کام کے لئے مقررّ کیا ھے.یہی وہ پاکیزہ بندے ھیں جن کے بارے میں اللہ کہتا ھے ...." میں اپنے بندوں کو دوست رکھتا ھوں اور ان کے کان، آنکھ، اور زبان بن جاتا ھوں...پھر وہ میرے ذریعے بولتے ھیں، میرے ذریعے سنتے ھیں ، اور میرے ذریعے چیزیں پکڑتے ھیں..."
ان ازلی سعید بندوں کی تعلیمات یہ ھیں کہ ھر بندہ کا اللہ کے ساتھ محبوبیّت کا رشتہ قائم ھے، ایسی محبوبّیت کا رشتہ جس میں بندہ اپنے اللہ کے ساتھ راز و نیاز کرتا ھے ....!!!!
ستاروں میں کہاں تم کھوجتے ھو....
خدا تو خود درونِِِ ِآدمی ھے !!!
خواجہ شمس الدّین عظیمی ....
...............
گفتہء او گفتہء الله بود
گرچہ از حلقوم عبدالله بود
الله تعالی کے دوستوں کا بولنا دراصل الله تعالی ہی کا بولنا ہے- اگرچہ زبان تو بندے کی ہوتی ہے لیکن اس پہ کلام الله تعالی خود فرماتے ہیں-
مولانا رومی رحمت الله علیہ