Tuesday, 30 October 2018

فرعون کا دعوائے الوہیت

فرعون کا دعوائے الوہیت
مصری زبان میں "فارا" بمعنی :محل، اور "اَوْہ" بمعنی اونچا، کے مجموعے کو "فرعون" کہا جاتا ہے، لغوی اعتبار سے "عظیم محل" پہ اس کا اطلاق ہوتا ہے لیکن اس سے مراد شاہِ مصر کی ذات ہوا کرتی تھی۔
لفظ فرعون کسی خاص شخص کا نام نہیں بلکہ شاہان مصر کا لقب تھا۔ جس طرح روم کے بادشاہ کو قیصر، چین کے بادشاہ کو خاقان اور روس کے بادشاہ کو زار، ایران کے بادشاہ کو کسریٰ کہتے تھے اسی طرح مصر کے بادشاہ کو فرعون کہتے تھے۔
علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَفِرْعَوْنُ عَلَمٌ عَلَى كُلِّ مَنْ مَلَكَ مِصْرَ كَافِرًا مِنَ الْعَمَالِيقِ وَغَيْرِهِمْ، كَمَا أَنَّ قَيْصَرَ عَلَمٌ عَلَى كُلِّ مَنْ مَلَكَ الرُّومَ مَعَ الشام كافرا، وكسرى لمن مَلَكَ الْفُرْسَ، وَتُبَّعٌ لِمَنْ مَلَكَ الْيَمَنَ كَافِرًا، وَالنَّجَاشِيُّ لِمَنْ مَلَكَ الْحَبَشَةَ، وَبَطْلَيْمُوسَ لِمَنْ مَلَكَ الْهِنْدَ، وَيُقَالُ: كَانَ اسْمُ فِرْعَوْنَ الَّذِي كَانَ فِي زَمَنِ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَامُ الْوَلِيدُ بْنُ مُصْعَبِ بْنِ الرَّيَّانِ، وَقِيلَ مُصْعَبُ بْنُ الرَّيَّانِ، فكان من سلالة عمليق بن الأود بْنِ إِرَمَ بْنِ سَامِ بْنِ نُوحٍ، وَكُنْيَتُهُ أبو مرة، وأصله فارسي من إصطخر، وأيّا ما كان فعليه لعنة الله.
(تفسیر ابن کثیر، البقرہ ۴۹/۵۰)

قرآن ن مجید میں حضرت موسیٰ کے قصّے کے سلسلہ میں دو فرعونوں کا ذکر آتا ہے۔ ایک وہ جس کے زمانہ میں آپ 
علیہ السلام پیدا ہوئے اور جس کے گھر میں آپ علیہ السلام نے پرورش پائی۔ دوسرا وہ جس کے پاس آپ اسلام کی دعوت اور بنی اسرائیل کی رہائی کا مطالبہ لے کر پہنچے اور وہ بالآخر بحیرہ احمر میں غرق ہوا۔ موجودہ زمانہ کے محققین کا عام میلان اس طرف ہے کہ پہلا فرعون رعمسیس دوم تھا جس کا زمانہ حکومت سن 1292 قبل مسیح سے سن 1225 قبل مسیح تک رہا۔ اور دوسرا فرعون منفتہ یا منفتاح تھا جو اپنے باپ رعمسیس دوم کی زندگی ہی میں شریک حکومت ہوچکا تھا اور اس کے مرنے کے بعد سلطنت کا مالک ہوا۔
حضرت موسی علیہ السلام کے زمانے میں غرق ہونے والا یہی فرعون "منفتہ" یا "منفتاح" تھا۔
بعض نے اور نام بھی بتائے ہیں۔
یہ اصلاً ایک کافر، مشرک، دہریہ، منکر خدا اور الحادی ذہن فکر کا حامل شخص تھا، کائنات کا کوئی خالق نہیں مانتا تھا، برساتی حشرات وگھانس پہونس کے مانند از خود عالم کے وجود وفناء کا عقیدہ رکھتا تھا
بڑا ہی جابر، سرکش، متکبر ومتجبر حکمراں تھا
اہم امور میں مشاورت کے لئے وہ اپنی ایک "کانگریس" (الملاء) بنا رکھی تھی، اپنی کانگریس حواریوں اور مشیروں کی باتوں
کی تعمیل کو وہ ضروری سمجھتا تھا
ہر برے وقت میں مشیر ان سے مشورے طلب کیا کرتا تھا "فماذا تامرون"
یہ مشرک ودہریہ تھا
سلطنت، حکمرانی اور مال ودولت کی بہتات سے اس میں جبر ونخوت کوٹ کوٹ کر بھر گئی تھی، خود کو سب سے بڑا مُطاع، واس رائے اور فرماں روائے اعلی (رب) تصور کرتا تھا
اس کے مذہبی عقائد کے بارے میں علامہ قرطبی لکھتے ہیں:
فرعون بتوں کی عبادت کرتا تھا، پس وہ خود عبادت کرتا تھا اور اس کی عبادت کی جاتی تھی۔
سلیمان تمیی نے کہا ہے: مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ فرعون گائے کی پوجا کرتا تھا۔ تیمی نے کہا ہے: میں نے حسن سے پوچھا کیا فرعون کسی شے کی عبادت کرتا تھا ؟ تو انہوں نے کہا: ہاں، بلاشبہ وہ ایک شے کی عبادت کرتا تھا اور وہ اسے اپنی گردن میں ڈال لیتا تھا۔
امام بغوی آیت:
وَقَالَ الْمَلَأُ مِنْ قَوْمِ فِرْعَوْنَ أَتَذَرُ مُوسَى وَقَوْمَهُ لِيُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ قَالَ سَنُقَتِّلُ أَبْنَاءَهُمْ وَنَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قَاهِرُونَ
7:127
(وقال الملا من قوم فرعون) فرعون کو کہنے لگے (اتدر موسیٰ وقومہ لیفسدوا فی الارض) یہاں فساد سے ان کی مراد لوگوں کو فرعون کی عبادت سے ہٹانے کی دعوت دینا ہے (ویذرک والھتک) نہ وہ تیری عبادت کریں گے اور نہ تیرے بتوں کی۔)
کے ذیل میں لکھتے ہیں:
ابن عباس (رضی اللہ تعالٰی عنہ) فرماتے ہیں کہ فرعون اپنی ایک گائے کی عبادت کرتا تھا اور جہاں کہیں کوئی خوبصورت گائے دیکھتا تو اس کی عبادت کا لوگوں کو حکم دیتا۔ اس لئے سامری نے ان کے لئے بچھڑا بنادیا تھا۔ حسن (رحمہ اللہ) فرماتے ہیں کہ گردن پر صلیب لٹکائی ہوئی تھی اس کی عبادت کرتا تھا اور سدی (رحمہ اللہ) فرماتے ہیں کہ فرعون نے اپنی قوم کے لئے بت بنائے تھے ان کی عبادت کا حکم دیتا تھا اور قوم کو کہتا تھا یہ تمہارے معبود ہیں یعنی میں تمہارا اور تمہارے معبودوں کا رب ہوں کہ ان کو میں نے بنایا ہے اس لئے تو وہ کہتا تھا: "انا ربکم الاعلی"
وَنَادَى فِرْعَوْنُ فِي قَوْمِهِ قَالَ يَا قَوْمِ أَلَيْسَ لِي مُلْكُ مِصْرَ وَهَذِهِ الْأَنْهَارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي أَفَلَا تُبْصِرُونَ
043:051
اور فرعون نے اپنی قوم کو پکار کر کہا کہ اے میری قوم! کیا یہ مصر کی حکومت میری نہیں اور یہ نہریں میرے (محل کے) نیچے بہہ رہی ہیں تو کیا تمہیں نظر نہیں آتا؟
فرعون کے اس اعلان خسروی کا مضمون یہ تھا کہ حکومت، جائز وقانونی حکومت مصر بھر اور اس کے توابع پر میری ہے، یعنی میری ماتحتی میں، میرے احکام کے مطابق اب سارے امور انجام پائیں گے ،میرے اذن وحکم سے سر مو انحراف کی طاقت اب کسی میں نہیں
یہیں سے وہ خود کو واجب الاطاعت سمجھنے لگا
اسی زعم باطل میں اس نے خود کو اپنی رعایا سے "انا ربکم الاعلی" میں تم سب کا سب سے بڑا مطاع وفرماں روا ومنقاد ہوں
کہنے لگا:
رب کے  معنی جہاں خالق ، رفتہ رفتہ پالنے والے کے معنی ہیں وہیں اس لفظ کے معنی مطاع، منتظم، آقا، سردار اور مدبر وفرماں روا کے بھی ہیں!
علامہ ابن الاثیر لکھتے ہیں:
قال ابنُ الأثير: "الرَّبُّ يُطْلَقُ في اللُّغةِ على المالكِ والسَّيِّدِ والمدَبِّرِ والمُرَبِّي والقيِّم والمُنْعِمِ.
ولا يُطلقُ غيرَ مضافٍ إلا على اللهِ تعالى، وإذا أُطْلِقَ على غيرِهِ أُضيفَ، فيقال: رَبُّ كذا"[النهاية (1/ 179)
.
ہاں استعمالی فرق صرف اتنا ہے کہ غیر رب کے معنی میں استعمال کے وقت  اضافت ضروری ہے جیسے رب المال  رب البیت وغیرہ
سورہ یوسف آیت نمبر 41 میں لفظ رب بادشاہ و حکمراں کے معنی میں استعمال ہوا ہے
يَا صَاحِبَيِ السِّجْنِ أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا ۖ وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ فَتَأْكُلُ الطَّيْرُ مِن رَّأْسِهِ ۚ قُضِيَ الْأَمْرُ الَّذِي فِيهِ تَسْتَفْتِيَانِ
(یوسف :۴۱)

فرعون نے جب حضرت موسی علیہ السلام کی مصر میں دعوتی سرگرمیوں کی بابت اپنی کانگریس سے مشاورت کی تو ان کے مشیروں نے جو کچھ کہا وہ بہت ہی قابل غور ہے:
وَقَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِ فِرْعَوْنَ أَتَذَرُ مُوسَىٰ وَقَوْمَهُ لِيُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ۚ قَالَ سَنُقَتِّلُ أَبْنَاءَهُمْ وَنَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قَاهِرُونَ (الاعراف: 127)
موسیٰ (علیہ السلام) آپ کو اور آپ کے 'معبودوں' کو چھوڑ کر فساد کرتے پھریں)
اس بابت صریح ہے کہ
فرعون اگرچہ اپنی قوم کے سامنے خود خدائی کا دعویدار تھا اور اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى کہتا تھا، لیکن خود بتوں کی پوجا پاٹ بھی کیا کرتا تھا۔
اس نے اپنی کانگریس اور اعوان سلطنت کے سامنے کبھی بھی رب اعلی بمعنی خالق کائنات کا دعوی نہیں کیا تھا
بلکہ رب بمعنی مطاع اعلی استعمال کیا تھا
اگر وہ رب بمعنی الٰہ و خالق کا دعوی کرتا تو آج اس کی کانگریس "وآلهتك" کہ کر فرعون کے معبودوں کا تذکرہ کیوں کرتی؟
یہ لفظ اس کے ادعاء الوہیت کی کھلی نفی ہے
ایک موقع سے حضرت موسی علیہ السلام نے بھی دو ٹوک انداز میں فرعون سے فرمایا تھا:
قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ أَنزَلَ هَٰٓؤُلَآءِ إِلَّا رَبُّ ٱلسَّمَٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ بَصَآئِرَ وَإِنِّى لَأَظُنُّكَ يَٰفِرْعَوْنُ مَثْبُورًۭا {10}
ترجمہ: انہوں نے کہا کہ تم یہ جانتے ہو کہ آسمانوں اور زمین کے پروردگار کے سوا ان کو کسی نے نازل نہیں کیا۔ (اور وہ بھی تم لوگوں کے) سمجھانے کو۔ اور اے فرعون میں خیال کرتا ہوں کہ تم ہلاک ہوجاؤگے (سورۃ بنی اسرائیل، آیت 102)
الوہیت وربوبیت کے دعویدار تو تاریخ میں ان گنت گزرے ہیں
لیکن پوری دنیا پہ حکومت کرنے والے دو بادشاہوں نے الوہیت کا دعوی کیا ہے
ایک نمرود بن کنعان
دوسرا بخت نصر بادشاہ
جس کے قتل وخونریزی وسفاکیت وبہیمیت کو سورہ بنی اسرائیل کے ابتدائی رکوع میں بیان کیا گیا ہے
حاکم نے "مستدرک" 2 : 589
میں اور مفسرین نے اپنی تفسیروں میں یہ روایت نقل فرمائی ہے:
قال الإمامُ الطبري في "تفسيره" حدثني المثنى، قال: ثنا أبو حذيفة، قال: ثنا شبل، عن ابن أبي نجيح، عن مجاهد، قال: أنا أحيي وأميت: أقتل من شئت، وأستحيي من شئت ، أدعه حيا فلا أقتله. وقال: ملك الأرض مشرقها ومغربها أربعة نفر: مؤمنان، وكافران، فالمؤمنان: سليمان بن داود، وذو القرنين؛ والكافران: بختنصر ونمرود بن كنعان، لم يملكها غيرهم.
وقال ابنُ كثيرٍ في "البدايةِ والنهاية": "وقال الزبير بن بكار: حدثني إبراهيم بن المنذر، عن محمد بن الضحاك، عن أبيه، عن سفيان الثوري قال : بلغني أنه ملك الأرض كلها أربعة : مؤمنان وكافران، سليمان النبي ، وذو القرنين ، و نمرود ، وبخت نصر. وهكذا قال سعيد بن بشير سواء .
وقال السيوطي في "الدر المنثور" : "وأخرج عبد بن حميد وابن جرير عن مجاهد في قوله: "قال أنا أحيي وأميت" قال: أقتل من شئت، وأستحيي من شئت، أدعه حيا فلا أقتله، وقال: ملك الأرض مشرقها ومغربها أربعة نفر: مؤمنان وكافران، فالمؤمنان: سليمان بن داوود وذو القرنين، والكافران: بختنصر ونمرود بن كنعان، لم يملكها غيرهم.
وقال أيضاً: "قال مجاهد: ملك الدنيا مشارقها ومغاربها أربعة: مؤمنان وكافران، فالمؤمنان (سليمان بن داود) و (ذو القرنين) والكافران (نمرود) و (بختنصر).
وقال السيوطي في "الحاوي" : "وأخرج (ك) ابن الجوزي في تاريخه عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : "ملك الأرض أربعة مؤمنان و كافران فالمؤمنان ذو القرنين وسليمان والكافران نمروذ وبخت نصر وسيملكها خامس من أهل بيتي" .
فرعون کے دعوائے الوہیت کی قلعی اس وقت کھل گئی جب سمندر میں غرقاب ہوتے ہوئے یہ کہا:
وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُهُ بَغْيًا وَعَدْوًا ۖ حَتَّىٰ إِذَا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ آمَنتُ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنُو إِسْرَائِيلَ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ (یونس :90)
ان دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ فرعون نے حقیقی معنوں میں 'رب' و'الٰہ' ہونے کا دعوی نہیں کیا، جہاں اس کے حوالے سے 'رب' یا 'الہ' جیسے الفاظ استعمال ہوئے ہیں تو ان کے معنی وائس رائے اور فرماں روا و حکمراں کے ہیں
ان کلمات میں یہ معانی مراد لئے جانے کی گنجائش بھی ہے
واللہ اعلم
شکیل منصور القاسمی

تصوف کیا بلا ہے؟

تصوف کیا بلا ہے؟
شیخ الحدیث حضرت مولا نا محمد زکریا کاندھلوی مہاجر مدنی 
رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں:
”ایک مرتبہ 10 بجے صبح کو میں اوپر اپنے کمرہ میں نہایت مشغول تھا، مولوی نصیر نے اوپر جاکر کہا کہ رئیس الاحرار (حضرت مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ جن سے حضرت شیخ 
رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی بے تکلفی تھی) آئے ہیں، رائے پور جارہے ہیں، صرف مصافحہ کرنا ہے، میں نے کہا: جلدی سے بلادے۔
مرحوم اوپر چڑھے اور زینے پر چڑھتے ہی سلام کے بعد مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھاکر کہا: رائے پور جارہا ہوں اور ایک سوال آپ سے کرکے جارہا ہوں، اور پرسوں صبح واپسی ہے، اس کا جواب آپ سوچ رکھیں، واپسی میں جواب لوں گا، یہ تصوف کیا بلا ہے؟ اس کی کیا حقیقت ہے؟
میں نے مصافحہ کرتے کرتے یہ جواب دیا کہ: صرف تصحیح نیت، اس کے سوا کچھ نہیں، جس کی ابتداء
"انما الاعمال بالنّیّات"
سے ہوتی ہے اور انتہا
"ان تعبد اللّٰہ کانک تراہ"
ہے، میرے اس جواب پر سکتہ میں کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے: دلّی سے یہ سوچتا آرہا ہوں کہ تُو یہ جواب دے گا تو یہ اعتراض کروں گا، اور یہ جواب دے گا تو یہ اعتراض، اس کو تو میں نے سوچا ہی نہیں،
میں نے کہا: جاؤ تانگے والے کو بھی تقاضا ہوگا، میرا بھی حرج ہورہا ہے، پرسوں تک اس پر اعتراض سوچتے رہیو۔ اس بات کا خیال رہے کہ دن میں مجھے لمبی بات کا وقت نہیں ملنے کا، دو چار منٹ کو تو دن میں بھی کرلوں گا، لمبی بات چاہوگے تو مغرب کے بعد ہوسکے گی۔
مرحوم دوسرے ہی دن شام کو مغرب کے قریب آگئے اور کہا کہ: کل رات کو تو ٹھیرنا مشکل تھا، اس لئے کہ مجھے فلاں جلسہ میں جانا ہے، اور رات کو تمہارے پاس ٹھیرنا ضروری ہوگیا اس لئے ایک دن پہلے ہی چلاآیا اور یہ بھی کہا کہ تمہیں معلوم ہے، مجھے تم سے کبھی نہ عقیدت ہوئی نہ محبت،
میں نے کہا: علیٰ ہٰذا القیاس۔
مرحوم نے کہا: مگر تمہارے کل کے جواب نے مجھ پر تو بہت اثر کیا، اور میں کل سے اب تک سوچتا رہا، تمہارے جواب پر کوئی اعتراض سمجھ میں نہیں آیا،
میں نے کہا: انشاء اللہ مولانا اعتراض ملنے کا بھی نہیں۔ "انما الاعمال بالنّیات" سارے تصوف کی ابتداء ہے اور "ان تعبد اللّٰہ کانک تراہ" سارے تصوف کا منتہا ہے، اسی کو نسبت کہتے ہیں، اسی کو یاد داشت کہتے ہیں، اسی کو حضوری کہتے ہیں۔ ؎
حضوری گر ہمی خواہی، ازو غافل مشو حافظ
متی ما تلق من تہوی دع الدنیا وامہلہا

میں نے کہا: مولوی صاحب سارے پاپڑ اسی لئے پیلے جاتے ہیں، ذکر بالجہر بھی اسی واسطے ہے، مجاہدہ مراقبہ بھی اسی واسطے ہے اور جس کو اللہ جل شانہ اپنے لطف و کرم سے کسی بھی طرح سے یہ دولت عطا کردے، اس کو کہیں کی بھی ضرورت نہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نظر کیمیا اثر سے ایک ہی نظر میں سب کچھ ہوجاتے تھے اور ان کو کسی چیز کی بھی ضرورت نہ تھی، اس کے بعد اکابر اور حکماء امت نے قلبی امراض کی کثرت کی بنا پر مختلف علاج جیسا کہ اطباء بدنی امراض کے لئے تجویز کرتے ہیں، روحانی اطباء روحانی امراض کیلئے ہرزمانے کے مناسب اپنے تجربات جو اسلاف کے تجربات سے مستنبط تھے، نسخے تجویز فرمائے ہیں جو بعضو ں کو جلد نفع پہنچاتے ہیں، بعضوں کو بہت دیر لگتی ہے، پھر میں نے مرحوم کو متعدد قصے سنائے۔“
(یاد ایام حصہ اول آپ بیتی 2 ص 49،50 طبع ساہیوال)
تصوف کی حقیقت:
احسان یا بالفاظ متعارف تصوف کیا ہے؟ انسانی روح کا اپنے مطلوبِ حقیقی سے ملنے کا شدید اشتیاق؟ تصوف کیا ہے؟ اخلاق کی جان اور ایمان کا کمال، شریعت اسلامی اس کی اساس اور قرآن و حدیث اس کا سرچشمہ، چناں چہ سید الطائفہ شیخ جنید بغدادی کا بڑے واضح الفاظ میں اعلان ہے کہ:
”ایں راہ کسے یابد کہ کتاب بردست راست گرفتہ باشد وسنت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بردست چپ و در روشنائی ایں دوشمع می رود تانہ در مغاک شبہت افتد نہ درظلمت بدعت۔“
اس راہ کو وہی پاسکتا ہے جو کتاب اللہ کو داہنے ہاتھ میں اور سنت رسول کو بائیں ہاتھ میں لیے ہواور ان دونوں چراغوں کی روشنی میں راہِ سلوک طے کرے تاکہ گمراہی اور بدعت کی تاریکی میں نہ گرے۔
حضرت سہل بن عبداللہ تستری جو متقدمین صوفیاء میں امتیازی مقام و مرتبہ کے حامل تھے فرماتے ہیں: اصولنا سبعة اشیاء التمسک بکتاب اللّٰہ والاقتداء بسنة رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم واکل الحلال وکف الاذی واجتناب المعاصی والتوبة واداء الحقوق (التاج المکلل) ہمارے سات اصول ہیں کتاب اللہ پر مکمل عمل، سنت رسول کی پیروی، اپنی ذات سے کسی کو تکلیف نہ پہنچنے دینا، گناہوں سے بچنا، توبہ واستغفار، اور حقوق کی ادائیگی۔
سلطان الہند شیخ معین الدین اجمیری رحمہ اللہ کا یہ مقولہ تاریخِ اجمیر میں درج ہے۔
”اے لوگو تم میں سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ترک کرے گا وہ شفاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محروم رہے گا۔“
حضرت میر سید اشرف سمنانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ مدفون کچھوچھا ضلع فیض آباد فرماتے ہیں:
”یکے از ہم شرائط ولی است کہ تابع رسول علیہ السلام قولاً وفعلاً واعتقاداً بود (الطائف اشرفی)
ولی کی شرائط میں سے یہ بھی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے قول، فعل اور اعتقاد میں پیروہو۔“
تصوف دراصل وہ رہنما ہے جو سالک کو ہر آن باخبر رکھتا ہے کہ دیکھنا کہیں مقصود نگاہ سے اوجھل نہ ہوجائے وہ ہدایت کرتا ہے کہ جب تو بارگاہِ خداوندی میں نماز کے لیے کھڑا ہو اور یہ دیکھے کہ قبلہ رو ہے یا نہیں، جائے نماز اورکپڑے پاک ہیں یا نہیں، تو اسی کے ساتھ یہ بھی دیکھ کہ تیرا تصور پاک ہے یا نہیں، دل مالک کائنات کی طرف ہے یا نہیں، غرض تصوف ہر ہر قدم پر سالک کو خبردار رکھتا ہے کہ مقصود اصلی خدائے ذوالجلال والاکرام کے خیال سے دل غافل نہ ہونے پائے، ایک مرتبہ امام احمد بن حنبل کے تلامذہ نے ان سے سوال کیا کہ آپ بشر حانی رحمہ اللہ کے پاس کیوں جاتے ہیں وہ تو عالم ومحدث نہیں ہیں؟ توامام صاحب نے فرمایا کہ میں کتاب اللہ سے واقف ہوں مگر بشر اللہ سے واقف ہیں۔ عارف ہندی اکبرالہ آبادی مرحوم نے بہت خوب کہا ہے:
قرآن رہے پیش نظر، یہ ہے شریعت
اللہ رہے پیش نظر، یہ ہے طریقت
اس حقیقت کویوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ فقیہ بھی ہدایت کرتا ہے کہ، اے بندے اللہ کا نام لے، اور صوفی بھی یہی کہتا ہے کہ اللہ کا نام لے مگر اس طرح کہ وہ تیرے دل میں اتر جائے، یعنی صوفی کا کہنا یہ ہے کہ صرف زبان سے اللہ کا نام لینا کافی نہیں ہے، زبان کے ساتھ تیرا دل بھی ذاکر ہونا چاہیے، حاصل کلام یہ نکلا کہ تصوف یا احسان دل کی نگہبانی کا اصطلاحی نام ہے، حدیث جبرئیل میں ”ان تعبد اللّٰہ کانک تراہ فان لم تکن تراہ فانّہ یراک“ کا جملہ اسی دل کی نگہبانی کی انتہائی بلیغ اور پیغمبرانہ تعبیر ہے،امام العرفاء سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مختصر جملے سے احسان یا تصوف کی پوری حقیقت بیان فرمادی ہے کیوں کہ راہِ تصوف کے تمام جہد و عمل، ذکر وفکر، محاسبہ و مراقبہ وغیرہ کا منشاء و مقصد یہی ہے کہ دل مشاہدہ و حضور کی متاعِ عزیز سے ہم کنار ہوجائے۔
تصوف کی مستند کتابوں مثلاً قوت القلوب از شیخ ابوطالب مکی، طبقات الصوفیہ از شیخ عبدالرحمن سلمی، حلیة الاولیا از ابو نعیم اصفہانی، الرسالة القشیریة از امام قشیری کشف المحجوب ازشیخ علی بن عثمان ہجویری مدفون لاہور، تذکرة الاولیاء از شیخ فرید الدین عطار، عوارف المعارف از شیخ سہروردی، فوائد الفواد ملفوظات شیخ نظام الدین اولیاء، خیرالمجالس ملفوظات شیخ نصیرالدین چراغ دہلوی وغیرہ کے صفحے کے صفحے الٹ جائیے صرف زبانی ہی نہیں بلکہ عملاً بھی کتاب و سنت کی تلقین ملے گی،اور معتمد طور پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اکابر صوفیاء کے مجاہدات، ریاضات اور مراقبات کی اساس و بنیاد قرآن وحدیث کی تعلیمات ہی ہیں، اور ان کی پاکیزہ زندگیاں اسلام کی جیتی جاگتی تصویریں تھیں۔
اسلامی تعلیمات میں محبت الٰہی، مکارم اخلاق اور خدمت خلق کو بنیادی حیثیت دی گئی ہے، تصوف کی تعلیمات بھی انھیں ارکانِ ثلثہ پر مبنی ہیں، تاریخی شواہد کی بنیادپر بلا خوف تردید یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ حضرات صوفیاء ہی نے اپنی عملی جدوجہد کے ذریعہ ہر زمانے میں اسلام کے اخلاقی و روحانی نظام کو زندہ رکھا، صوفیاء سے بڑھ کر تبلیغ اور تعمیرِ سیرت کا فریضہ کسی جماعت نے انجام نہیں دیا، متکلمین، معتزلہ اور حکماء نے صرف دماغ کی آبیاری کی جب کہ صوفیاء نے دماغ کے ساتھ دل کی تربیت اوراصلاح کی اہم ترین خدمت بھی انجام دی اوریہ بات کسی بیان و تشریح کی محتاج نہیں ہے کہ اسلام میں اصلی چیز دل ہے نہ کہ دماغ اگر دل فاسد ہوجائے تو دماغ کا فاسد ہوجانا یقینی ہے، چناں چہ نبی صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”الا ان فی الجسد مضغة اذا صَلحت صلح الجسد کلہ واذا فسدت فسد الجسد کلہ الا وہی القلب“ انسان کے جسم میں ایک عضو ہے اگر وہ صالح ہوجائے تو سارا جسم صالح ہوجائے اوراگر وہ فاسد ہوجائے تو سارا جسم فاسد ہوجائے، آگاہ ہوجاؤ وہ قلب ہے۔
حضرات علمائے کرام نے علمی و نظری دلائل سے اسلام کی حقانیت کو واضح کیا جب کہ حضرات صوفیاء نے اپنے اعمال و اخلاق اور سیرت و کردار سے اسلام کی صداقت کو مبرہن اور آشکارا کیا، اس لئے تصوف یا طریقت شریعت سے الگ کوئی چیز نہیں ہے بلکہ صحیح معنوں میں تصوف اسلام کا عطر اور اس کی روح ہے، لیکن کوئی انسانی تحریک خواہ وہ کتنی اچھی کیوں نہ ہو جب افراط و تفریط عمل و رد عمل کا بازیچہ بنتی ہے تواس کی شکل مسخ ہوئے بغیر نہیں رہتی، چناں چہ متکلمین نے اسلام کو یونانی فلسفہ کی زد سے بچانے میں بڑی قابلِ قدر خدمت انجام دی ہیں، لیکن آگے چل کر جب علم کلام کو شکوک و شبہات پیدا کرنے کا ذریعہ بنالیا گیا تو یہی علم کلام مسلمانوں میں ذہنی انتشار برپا کرنے کا سبب بن گیا، یہی حال تصوف کا بھی ہوا کہ تصوف کی ہمہ گیر مقبولیت اور ہر دلعزیزی دیکھ کر جاہل یا نقلی ارباب غرض صوفیوں کے بھیس میں اس جماعت صوفیہ صافیہ میں درآئے اور اپنی مقصد برآری کے لیے شریعت و طریقت میں تفریق کا نظریہ شائع کردیا، مجاز پرستی، قبرپرستی، نغمہ و سرود کو روحانی ترقی کا لازمی جزو بنادیا اور دنیاپرستی سے گریز کو رہبانیت کی شکل دیدی مگر ہمیں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ محققین صوفیا نے ہمیشہ ان گمراہیوں کے خلاف آواز بلند کی ہے، اور ان فاسد عناصر کو تصوف سے خارج کرنے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے ہیں۔
اس جعلی اور غیر اسلامی تصوف کی بنا پر سرے ہی سے تصوف کا انکار کردیا جائے اوراسے نوع انسانی کے لیے بمنزلہٴ افیون بتایاجائے اورالزام عائد کیا جائے کہ تصوف زندگی کے حقائق سے گریز کی تعلیم دیتا ہے اوراس نے مسلمانوں کے قوائے عمل کو مضمحل یا مردہ بنادیا ہے تو یہ سراسر ناانصافی اور اسلامی تصوف پر ظلم ہوگا۔
بدقسمتی سے خود مسلمانوں کا ایک طبقہ جو براہ راست اسلام اوراسلامی مآثر کا مطالعہ کرنے کی بجائے مستشرقین اور عیسائی مصنّفین کے واسطہ اورانھیں کی مستعار عینک سے اسلامی علوم و معارف کو دیکھنے کا عادی ہے، اسلامی تصوف پر اسی قسم کے بیجا اور غلط اعتراضات کرتا رہتا ہے، یہ بات حق و صداقت اورانصاف و عدالت سے کس قدر بعید ہے کہ ہدفِ ملامت تو بنایا جائے اسلامی تصوف کو اور قبائح مدنظر رکھی جائیں غیراسلامی تصوف کی، اسلام کے ان نادان دوستوں نے اپنے اس رویہ سے نہ صرف علم و تحقیق کا خون کیا بلکہ لاکھوں بندگانِ خدا کو تصوف کی حسنات و برکات سے محروم کردیا۔ 
فالی اللّٰہ المشتکی․

Friday, 26 October 2018

بری خصلتوں سے بچیں

بری خصلتوں سے بچیں!!
اللہ تعالیٰ نے دنیا کو پیدا فرمایا، اس میں خیر اور شر دونوں رکھ دئے، اب کچھ لوگوں نے برائی کو اپنے لئے پسند کیا تو برے بن گئے اور جس نے اپنے لئے خیر کو پسند کیا وہ اچھے بن گئے۔
چونکہ یہ دنیا  تضادات کا مجموعہ ہے اس میں آدم جیسا نبی ہے تو ابلیس جیسا لعین بھی ہے، یہاں ملائکہ کا نزول ہوتا ہے اور شیاطین جنات کا بسیرا بھی، ابراہیم جیسا خلیل ہے تو نمرود جیسا مردود بھی ہے، موسیٰ جیسا موحد ہے تو فرعون جیسا بدبخت بھی ہے، وجہ تخلیق کائنات خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہیں تو ابوجہل و ابولہب جیسے متمرد بھی ہیں، صحابہ و اہلبیت جیسی پاکیزہ و مقدس شخصیات ہیں تو مشرکین و منافقین جیسے بدکرار بھی۔ رحمان کے بندے ہیں تو شیطان کی اولاد بھی۔
الغرض خیر و شر، نیکی و بدی، اچھائی و بُرائی دونوں ساتھ ساتھ وقت گزاررہی ہیں، اچھے انسانوں کی صفات کا تذکرہ قرآن کریم میں وضاحت کے ساتھ موجود ہے اور ان جیسی صفات کو پیدا کرنے کا حکم  دیا گیا ہے جبکہ برے انسانوں کا تذکرہ رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات میں بڑی شرح و بسط کے ساتھ ملتا ہے اور ان جیسی صفات ختم کرنے کا حکم بھی ملتا ہے۔
عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ الْخَثْعَمِيَّةِ رَضِیَ اللہُ عَنْہَاقَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ تَخَيَّلَ وَاخْتَالَ وَنَسِيَ الْكَبِيرَ الْمُتَعَالِ بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ تَجَبَّرَ وَاعْتَدَى وَنَسِيَ الْجَبَّارَ الْأَعْلَى بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ سَهَا وَلَهَا وَنَسِيَ الْمَقَابِرَ وَالْبِلَى بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ عَتَی وَطَغَى وَنَسِيَ الْمُبْتَدَا وَالْمُنْتَهَى بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ يَخْتِلُ الدُّنْيَا بِالدِّينِ بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ يَخْتِلُ الدِّينَ بِالشُّبُهَاتِ بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ طَمَعٌ يَقُودُهُ بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ هَوًى يُضِلُّهُ بِئْسَ الْعَبْدُ عَبْدٌ رَغَبٌ يُذِلُّهُ
جامع الترمذی، باب ماجاء فی صفۃ اوانی الحوض، حدیث نمبر 2372
ترجمہ: حضرت اسماء بنت عمیس خثعمیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: برا شخص وہ ہے جو خود کو دوسروں سے بہتر سمجھے، تکبر کرے اور اللہ کو بھول جائے۔ برا  شخص وہ ہے جو ظلم کرے فساد کرنے میں حد سے تجاوز کرے اور جبار و قہار رب کو بھول جائے۔ برا شخص وہ ہے جو دین داری کو بھول جائے اور دنیا میں مشغول ہوکر قبروں کی ہولناکیوں کو بھول جائے۔ برا شخص وہ ہے جو فتنہ پرور ہو، نافرمانی میں حد سے گزرگیا ہو اور اپنی آغاز و انجام کو بھول بیٹھا ہو۔ برا شخص وہ ہے جو دنیا کو دین کے ذریعے کمائے۔ برا شخص وہ ہے جو دین میں شبہات پیدا کرکے مشکوک بنانے کی کوشش کرے۔ برا شخص وہ ہے جو لالچی ہو اور لالچ اسے زمانے کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کرے۔ برا شخص وہ ہے جو نفسانی خواہشات کا پابند ہو اور وہ خواہشات اس کو گمراہ کرتی رہتی ہوں۔ برا شخص وہ ہے جو دنیا کے حرص میں مبتلا ہو اور یہ چیز اسے ذلیل کرتی ہو۔
پہلا  بُرا آدمی: بِئْسَ الْعَبْدُ عبدٌ تَخَيَّل واختال، ونَسِىَ الكبيرَ المُتَعالَ۔ 
اس میں تین بڑی خرابیاں ہیں۔
نمبر 1: تخیل …دوسرے کو حقیر سمجھ کر اپنے بارے اعلی و ارفع ہونے کی خوش فہمی میں رہنے والا۔
نمبر2: واختال… غرور اور گھمنڈ میں مبتلا رہنے والا۔
نمبر3: نسی الکبیر المتعال …اپنے کبر و غرور کی وجہ سے اللہ کی بڑائی، عظمت اور جلال کو بھول جانے والا۔
دوسرا  بُرا آدمی: بِئْسَ الْعَبْدُ عبدٌ تَجَبَّرَ واعْتَدَى، ونَسِيَ الجَبَّارَ الأَعْلَى۔ 
کمزوروں اور ماتحتوں پر ظلم و جبر کرنے والا اور لڑائی جھگڑے کو پیدا کرکے حد سے تجاوز کرنے والا یہ اس رب کو بھول بیٹھا ہے جو ظالموں اور جابروں کو کیفر کردار تک پہنچانے والا ہے۔
تیسرا بُرا آدمی: بِئْسَ الْعَبْدُ عبدٌ سَهَا ولَهَا، ونَسِيَ المَقابِرَ والبِلَا۔ 
خدائی احکامات کونظر انداز کرنے والا، نہ عبادات، نہ معاملات نہ اخلاقیات۔ نہ حلال و حرام کی تمیز۔ یہ قبر اور اس میں مدفون لاشوں کو بھلانے والا۔ آج کے مادہ پرست دور میں اہل اسلام کے کثیر افراد اس  بُرائی میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔
چوتھا بُرا آدمی: بِئْسَ الْعَبْدُ عبدٌ عَتَا وطَغَى، ونَسِيَ المُبْتَدَا والمُنْتَهَى 
فتنہ پرور آدمی۔ رشتہ داروں، محلہ داروں اور لوگوں کے مابین نفرتیں پیدا کرنے والا، اخوت و بھائی چارگی کی فضا کو مکدر کرنے والا۔ لگائی بجھائی کو اپنا مشغلہ بنانے والا یہ اپنے آغاز اور انجام کو بھول بیٹھا ہے۔
پانچواں بُرا آدمی: بِئْسَ الْعَبْدُ عبدٌ يَخْتِلُ الدنيا بالدِّينِ۔ 
دنیا کے حصول کے لیے دین کو برباد کرنے والا، اپنی عبادات کو ریا اور دکھلاوے کی بھینٹ چڑھانے والا۔ دین داری ظاہر کرکے مال و زر ہتھیانے والا۔
چھٹا بُرا آدمی: بِئْسَ الْعَبْدُ عبدٌ يَخْتِلُ الدِّينَ بالشُّبُهاتِ۔ 
دینی احکامات میں شبہات پیدا کرنے والا، ایسی باتیں بتلانے والا جس سے دین کے بارے شبہات پیدا ہوتے ہوں لوگوں کے دلوں میں وساوس ڈال کر دین سے دور کرنے والا۔
ساتواں بُرا آدمی: بِئْسَ الْعَبدُ عبدٌ طَمَعٌ يَقُودُه۔ 
لالچی آدمی۔ خواہ لالچ مال و زر کا ہو، جاہ و منصب کا ہو، نام و نمود اور شہرت وغیرہ کا ہو۔ یعنی تقدیر الہٰی پر نا خوش شخص۔
آٹھواں بُرا آدمی: بِئْسَ العبدُ عبدٌ هَوًى يُضِلُّه۔ خواہشات نفس کو ناجائز اور حرام طریقوں سے پوری کرنے والا، اس کے لئے نہ اسے مخلوق کی پروا ہے اور نہ ہی خالق کا خوف۔
نواں بُرا آدمی: بِئْسَ العبدُ عبدٌ رَغَبٌ يُذِلُّه بے شرم آدمی۔ ذلت و خواری کے باوجود لوگوں کے طعن و تشنیع سننے کے باوجود، احساس شرمندگی سے عاری انسان۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ بالا  بُرائیوں کی نشاندہی اس لئے فرمائی کہ میری امت کے لوگ ان سے بچیں اگر ہم اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکیں تو سر شرم سے جھک جاتے ہیں آج ہم میں من حیث القوم ساری بُرائیاں موجود ہیں۔ اس کے باوجود بھی ہم خود کو اچھا اور دوسروں کو  بُرا سمجھتے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ان  بُرائیوں سے نجات پاکر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے غلام بن جائیں۔ آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
وعظ و نصیحت قسط 91
والسلام
محمد الیاس گھمن
وائیاں والی، تحصیل وزیر آباد، ضلع گجرات
جمعرات، 25 اکتوبر ،2018ء

Thursday, 25 October 2018

اسپتالوں میں مرد و زن کے اختلاط کے باوجود طبی تعلیم حاصل کرنے اور شعبہ طب میں کام کرنے کا حکم

اسپتالوں میں مرد و زن کے اختلاط کے باوجود طبی تعلیم حاصل کرنے اور شعبہ طب میں کام کرنے کا حکم
سوال: ہم میڈیکل کالج کے طلبا ہیں، ہم آپ سے یہ دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ ایسے اسپتالوں میں کام کرنے کا کیا حکم ہے جہاں شرعی طور پر حرام خلوت سے بچنے کا خدشات ہونے کے باوجود ڈاکٹر کو مرد و زن سب کا یکساں علاج کرنا پڑتا ہے، ہمارے ملک میں سب اسپتالوں میں یہی نظام رائج ہے، اس لئے کوئی بھی مسلمان ڈاکٹر کسی ایسے اسپتال میں کام نہیں کرسکتا جہاں صرف مرد حضرات ہی ہوں، کیونکہ ایسے اسپتال ہمارے ہاں موجود ہی نہیں ہیں، جس کی وجہ سے کچھ مسلم ڈاکٹروں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ شعبہ طب کو خیرباد ہی کہہ دیا جائے، لیکن ایسا کرنا مناسب بھی نہیں ہوگا؛ کیونکہ شعبہ طب چھوڑنے سے جتنی خرابیاں پیداہوں گی اور مفاد عامہ کو نقصان ہوگا وہ مخلوط اسپتالوں میں کام کرنے سے زیادہ ہوگا، اس لیے ہم شدید تناؤ کا شکار ہیں، ہمیں اس بارے میں کسی کے جواب سے کوئی تشفی نہیں ہوئی، آپ کے سامنے سوال اس لئے رکھا ہے کہ شاید اللہ تعالی ہمیں آپ کی وجہ سے رہنمائی عطا فرمادے۔
جواب:
الحمد للہ:
اول:
سب سے پہلے ہم آپ  کی اس کوشش کو سراہتے ہیں کہ آپ نے ایسے مسئلے کے بارے میں شرعی حکم دریافت کرنے کی کوشش کی ہے جو کہ اس وقت بالکل عام ہوچکا ہے، ہم اللہ تعالی سے اپنے لیے اور آپ کیلئے قول و فعل میں رہنمائی اور کامیابی کا سوال کرتے ہیں۔
دوم:
کسی مرد ڈاکٹر کیلئے عورت کا علاج کرنا صرف اسی حالت میں جائز ہے جب کوئی عورت ڈاکٹر میسر نہ ہو چاہے مسلم ہو یا غیر مسلم، یہی فیصلہ اسلامی فقہی اکیڈمی کی جانب سے ایک قرار داد میں بیان کیا گیا ہے جو کہ درج ذیل ہے:
"اصولی طور پر اگر کوئی خاتون اسپیشلسٹ ڈاکٹر میسر ہو تو پھر وہی خاتون مریض کی تشخیص کرے، اور اگر اسپیشلسٹ ڈاکٹر  میسر نہ ہو تو پھر غیر مسلم لیکن معتمد خاتون جنرل ڈاکٹر  مرض کی تشخیص کرے، اگر وہ بھی میسر نہ ہو تو مسلم مرد ڈاکٹر تشخیص کرے، اور اگر یہ بھی میسر نہ ہو تو پھر غیر مسلم ڈاکٹر  مریض کی تشخیص کرے، بشرطیکہ عورت کے جسم میں سے صرف اتنی جگہ ہی دیکھے جتنی علاج کیلئے ضرورت ہو اس سے زیادہ نہ دیکھے، نیز بقدر استطاعت نظروں کی حفاظت کرے،  نیز مرد ڈاکٹر عورت کا علاج کرے تو عورت کا محرم، یا خاوند یا معتمد خاتون ساتھ ہو تاکہ خلوت کا اندیشہ نہ رہے۔
نیز درج ذیل امور کی سفارش بھی کی جاتی ہے:
محکمہ صحت کی ذمہ داری ہے کہ خواتین کو علوم طب کے تمام شعبہ جات سے منسلک ہونے کیلئے ترغیب دے، خصوصی امراضِ زچہ و بچہ، اور تولید کے شعبہ میں لازمی آئیں؛ اس لئے کہ خواتین کی تعداد ان طبی شعبوں میں بہت کم ہے، اس طرح سے ہمیں مذکورہ بالا استثنائی صورتیں ذکر کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی" انتہی
ماخوذ از: "مجلۃ المجمع" (8/1/49)
ہمیں اس بارے میں جتنے بھی سوالات موصول ہوئے ہیں ہم نے اسی بات پر اعتماد کیا ہے، جیسے کہ سوال نمبر: (2152) اور (20460) میں آپ دیکھ سکتے ہیں۔
سوم:
اگر کسی ملک میں مسلمانوں کو ایسی صورت حال کا سامنا ہو کہ وہاں تمام کے تمام ہسپتال ہی مرد و زن سے مخلوط ہیں تو یہ ایک استثنائی لیکن افسوسناک صورت ہے، ایسی صورت میں سابقہ قواعد و ضوابط لاگو کرنا مشکل ہے؛ کیونکہ خواتین  کو لازمی طور پر ہسپتالوں میں ان کے پاس جانا پڑے گا اور مرد ڈاکٹروں سے میڈیکل چیک اپ کروائیں گی، ایسی صورت میں یہ کہنا کہ نیک سیرت ڈاکٹر ایسے اسپتالوں میں کام نہ کریں، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ برے لوگوں کو وہاں کھلی آزادی دے دی جائے! جنہیں کسی بھی اعتبار سے اللہ تعالی کا ڈر اور خوف بالکل بھی نہ ہو، اسی طرح اس موقف کا مطلب یہ بھی ہوگا کہ انہیں بے روز گار رکھا جائے، یا طبی کالجوں کو دیندار ڈاکٹروں سے خالی کردیا جائے، چنانچہ یہ بات تو مسلّمہ ہے کہ اس طرح سے بہت زیادہ نقصانات لازم آئیں گے جوکہ مرد کی عورت  کے جسم پر ایسی نگاہ پڑنے سے کہیں سنگین ہونگے جو ضرورت کے وقت جائز بھی ہے۔
اس لئے -واللہ  اعلم- ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ آپ ان اسپتالوں میں کام کرسکتے ہیں، لیکن ساتھ میں ان حالات کو بدلنے کیلئے سنجیدہ کوشش بھی جاری رکھیں، یعنی خواتین کیلئے مخصوص طبی مراکز اور ہسپتال قائم کئے جائیں، جہاں پر اختلاط نہ ہو، اور ذمہ داران کو اس بات کا احساس دلائیں کہ کچھ ہسپتالوں کو خواتین کیلئے مختص کرنے کے مثبت نتائج برآمد ہونگے، نیز اس کیلیے ممکنہ حد تک شرعی قواعد و ضوابط کی پابندی کریں، تا کہ خلوت کے مواقع کم سے کم ہوں، مریضہ کی صرف ضروری جگہ پر اپنی نظر پڑنے دیں، بقیہ جگہوں پر بالکل نظر نہ جائے، جیسے کہ ہم پہلے سوال نمبر: (5693) کے جواب میں بتلاچکے ہیں۔
ہمارے اس جواب کے دو بنیادی نکات ہیں:
1- اہل علم کے ہاں یہ بات مسلمہ ہے کہ شریعت مفادِ عامہ کے حصول اور اسے پایہ تکمیل پہنچانے کیلیے بھرپور کوشش کرتی ہے، اسی طرح خطرات و نقصانات کو جڑ سے ختم کرتی ہے یا انہیں کم سے کم  کرتی ہے، یعنی کہ شریعت دو خرابیوں سے میں کم تر خرابی کا ارتکاب کرنے کی اجازت اس وقت دیتی ہے جب کم تر خرابی کی وجہ سے بڑی خرابی کو روکا جاسکتا ہو۔
2- دوسرا - جو کہ پہلے کا ہی نتیجہ ہے- نکتہ یہ ہے کہ کچھ اہل علم نے متوقع نقصانات کو کم سے کم حد تک لانے کیلئے ممنوعہ ملازمتوں پر براجمان ہونے کو جائز قرار دیا ہے، جیسے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ایسے شخص کے بارے میں فتوی دیا جسے ایک علاقے کا سربراہ بناکر لوگوں سے حرام ٹیکس وصول کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے لیکن اس کی حتی المقدور کوشش ہوتی ہے کہ عدل ہو ظلم نہ ہو، جتنا ہوسکے ٹیکس کٹوتی کم سے کم صرف اس لئے کرتا ہے کہ اگر اس کی جگہ کوئی اور آیا تو وہ اس سے بھی زیادہ ظلم کریگا، تو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس کے بارے میں فتوی دیا کہ ایسے شخص کیلئے علاقے کی سربراہی پر قائم رہنا جائز ہے، بلکہ اگر اُسے اس سے اچھی ذمہ داری نہیں ملتی تو اسے چھوڑنے سے زیادہ افضل یہی ہے کہ وہ اس پر قائم رہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ایسے منصبوں پر جمے رہنا اس وقت واجب ہوتا ہے جب کوئی اور اس منصب کا حق ادا نہ کرے۔ اس لئے عدل قائم کرنا اور ظلم ختم کرنا ہر کسی پر اپنی استطاعت کے مطابق فرض کفایہ ہے، چنانچہ شخص اپنی ذمہ داری اور منصب کے لحاظ سے قیامِ عدل اور خاتمۂِ ظلم کیلیےکوشش کرے ۔۔۔" انتہی
"مجموع الفتاوى" (30/356- 360)
یہ بات سب کیلئے عیاں ہے کہ ٹیکس وصولی سخت حرام ہے، بلکہ یہ کبیرہ گناہ ہے؛ لیکن اگر کوئی نیک مسلمان اس منصب کو سنبھالے تو خرابی قدرے کم پیدا ہوتی ہے، اور ممکنہ حد تک ٹیکس وصولی کم کی جاتی ہے تو مسلمان کیلئے یہ منصب سنبھالنا جائز ہوگا۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اس گفتگو پر ایسا ہی تبصرہ فرمایا ہے، ان کا کہنا ہے کہ:
"مفاد عامہ کا خیال رکھنا واجب ہے، مثال کے طور پر اگر نیک لوگ طبی علوم سیکھنا ہی چھوڑ دیں اور یہ کہیں کہ: "ہم نرسوں اور میڈیکل کی دیگر طالبات کے جھرمٹ میں طبی علوم کس طرح حاصل کرسکتے ہیں" تو ہم انہیں کہیں گے کہ اگر آپ طبی علوم حاصل نہیں کرینگے تو  شعبۂِ طب آپ جیسے نیک لوگوں سے خالی ہوجائے گا، اور اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ بد نیت لوگ اس میدان میں آئیں گے اور خرابیاں پیدا کرینگے، لیکن آپ کے طبی علوم سیکھنے پر عین ممکن ہے کہ آپ کے ساتھ اور بھی ساتھی مل جائیں اور پھر اللہ تعالی حکمرانوں کے ہدایت دے تو وہ مردوں اور خواتین کیلئے الگ الگ اسپتال قائم کردیں" انتہی
"شرح كتاب السياسة الشرعية" ص 149
اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"ہم ڈاکٹر حضرات ریاض میں کام کرتے ہیں، ہماری ڈیوٹیوں  کے دوران مرد و خواتین  مریض کی تشخیص کیلئے آتے ہیں، بسا اوقات مریضہ  کو سر درد یا پیٹ درد کی شکایت ہوتی ہے، جس کیلیے مکمل طبی معائنہ ہم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ پہلے سر درد کا سبب معلوم کیا جائے، اسی طرح پیٹ یا سر وغیرہ کا معائنہ کیا جائے، نیز یہ معائنہ اپنی ذمہ داری پوری طرح نبھانے کیلئے بھی ضروری ہوتا ہے؛ کیونکہ اگر مریضہ کا پیٹ یا سر چیک نہ کیا گیا تو اس سے بسا اوقات زیادہ نقصان کا خدشہ نہیں ہوتا ہے، مطلب یہ ہے کہ ذمہ داری سے اچھی طرح ادا نہیں ہوگی، تاہم اپنی پیشہ وارانہ طبی خدمات فراہم کرنے کیلئے مریضہ کو اچھی طرح چیک کرنا ضروری ہوتا ہے۔۔۔"
تو انہوں نے جواب دیا:
"لازمی طور پر اسپتال کی انتظامیہ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ ڈیوٹیوں کے دوران مرد و خواتین دونوں ڈاکٹروں کو رکھا جائے تا کہ اگر کوئی مریضہ تشخیص کیلئے آئے تو اسے خاتون ڈاکٹر کی جانب بھیجا جائے، لیکن اگر اسپتال کی انتظامیہ کی جانب سے اس بارے میں توجہ نہیں دی جاتی  تو پھر آپ خواتین کا چیک اپ کرسکتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ طبی معائنہ کے دوران خلوت اور شہوت  نہ ہو، اسی طرح طبی معائنہ کی ضرورت پڑنے پر ہی معائنہ کیا جائے، لہذا اگر باریک بینی سے طبی معائنہ کو مؤخر کرنا ممکن ہو تو خاتون ڈاکٹر کے آنے تک مؤخر کرنا بہتر ہے، لیکن اگر مؤخر کرنا ممکن نہ ہو تو پھر ضرورت کے تحت مرد مریضہ کا طبی معائنہ کر سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے." انتہی
"لقاءات الباب المفتوح" (1/206)
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ ہمارے اور سب مسلمانوں کے حالات ساز گار بنائے، اور ہمیں ظاہری و باطنی تمام فتنوں سے محفوظ رکھے، بیشک وہ سننے والا ، قریب اور دعائیں قبول کرنے والا ہے۔
واللہ اعلم.

حائضہ پر ادائے روزہ اور عدمِ ادائے نماز کی وجہ

حائضہ پر ادائے روزہ اور عدمِ ادائے نماز کی وجہ
حضرت ابنِ قیم رحمہ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
وأما إیجاب الصوم علی الحائض دون الصلاۃ فمن تمام محاسن الشریعۃ وحکمتھا ورعایتھا لمصالح المکلفین؛ فإن الحیض لما کان منافیا للعبادۃ لم یشرع فیہ فعلھا، وکان في صلاتھا أیام التطھیر ما یغنیھا عن صلاۃ أیام الحیض، فیحصل لھا مصلحۃ الصلاۃ في زمن التطھیر
بتکررھا کل یوم، بخلاف الصوم؛ فإنہ لا یتکرر، وھو شھر واحد في العام۔ فلو سقط عنھا فعلہ أیام الحیض لم یکن لھا سبیل إلی تدارک نظیرہ، وفاتت علیھا مصلحۃ، فوجب علیھا أن تصوم في طھر؛ لتحصل مصلحۃ الصوم التي ھي من تمام
یعنی حائض پر وجوب روزہ و عدم ادائے نماز کا سبب شریعتِ حقہ کی خوبیوں اور اس کی حکمت اور رعایت مصالحِ مکلفین سے ہے، کیوںکہ جب حیض منافیٔ عبادت ہے تو اس میں عبادت کا فعل مشروع نہیں ہوا اور ایامِ طہر میں اس کی نماز پڑھنا ایامِ حیض میں نماز پڑھنے سے کافی ہوجاتی ہے، کیوںکہ وہ بار بار روز مرہ آتی ہے مگر روزہ روز مرہ نہیں آتا بلکہ سال میں صرف ایک مہینہ روزوں کا ہے۔ اگر ایامِ حیض کے روزے بھی اس سے ساقط کردیے جائیں تو پھر ان کی نظیر کا تدارک نہیں ہوسکتا اور روزہ کی مصلحت اس سے فوت ہوجاتی ہے، اس لیے اس پر واجب ہوا کہ ایامِ طہر میں روزے رکھے تاکہ اس کو روزہ کی مصلحت حاصل ہوجائے جو کہ خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں پر محض رحمت اور احسان سے ان کے فائدہ کے لیے مشروع فرمائے ہیں۔
رحمۃ اللّٰہ بعبدہ وإحسانہ إلیہ بشرعہ، وباللّٰہ التوفیق۔

Wednesday, 24 October 2018

باجماعت نماز میں صفوں کی درستگی

باجماعت نماز میں صفوں کی درستگی
سوال (۷۵۶):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: جماعت شروع کرنے سے پہلے صفوں کی درستگی کی ذمہ داری امام صاحب کی ہے یا نہیں؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
ویسے تو سبھی نمازیوں کو خود ہی صفوں کی درستگی کا اہتمام کرنا چاہئے؛ تاہم امام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ تکبیر کے دوران صفوں کی درستگی کا بھی اہتمام کرے، نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کا خاص اہتمام فرماتے تھے؛ لیکن اس عمل میں اتنی تاخیر نہ ہونی چاہئے کہ اقامت اور تکبیر تحریمہ کے درمیان زیادہ فصل ہوجائے۔
عن سماک بن حرب قال: سمعت النعمان بن بشیر رضي اللّٰہ عنہ یقول: کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یُسوِّینا في الصفوف کما یُقَوَّمُ القِدْحُ حتی إذا ظن أن قد أخذنا ذلک عنہ وفقہنا أقبل ذات یوم بوجہہ إذا رجل منتبذ بصدرہ فقال: لتسون صفوفکم أو لیخالفن اللّٰہ بین وجوہکم۔ (سنن أبي داؤد ۱؍۹۷ رقم: ۶۶۳)
وینبغي أن یأمرہم بأن یتراصوا ویسدوا الخلل ویسووا مناکبہم ویقف وسطاً۔ (درمختار ۱؍۵۶۸ کراچی) 
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ
.......
س… بریلوی مسلک کی مساجد میں جب تکبیر ہو رہی ہوتی ہے تو تمام نمازی اور امام صاحب بیٹھے ہوتے ہیں، صرف تکبیر کہنے والے صاحب کھڑے ہوکر تکبیر کہتے ہیں، جب وہ ”حی علی الصلٰوة“ پر پہنچتے ہیں تو امام اور تمام مقتدی کھڑے ہوجاتے ہیں، نیز ”اشھد ان محمدًا رسول الله“ پر دونوں شہادت کی اُنگلیوں کو چوم کر آنکھوں سے لگاتے ہیں، کیا یہ دونوں کام صحیح ہیں؟
ج… ”حی علی الصلٰوة“ تک بیٹھے رہنا جائز ہے،اور اس کے بعد تأخیر نہیں کرنی چاہئے، لیکن افضل یہ ہے کہ پہلے صفیں دُرست کی جائیں، پھر اقامت ہو، ”حی علی الصلٰوة“ تک بیٹھے رہنے پر اصرار کرنا اور اس کو فرض و واجب کا درجہ دے دینا غلوّ فی الدین ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام نامی پر انگوٹھے چومنا اور اس کو دین کی بات سمجھنا بدعت ہے۔
.......
جب مؤذن ’’اللہ اکبر‘‘ کہے تو نماز کے لئے کھڑے ہوجانا لازم ہے اور جب ’’حی علی الصلوۃ‘‘ کہے تو صفوف کی درستگی ہوجائے۔ اور جب ’’لا الہ الا اﷲ‘‘ کہے تو امام تکبیر تحریمہ کہے۔ اور جمہور علماء اس کے قائل ہیں کہ مؤذن کے تکبیر اور اقامت سے فراغت حاصل کرنے سے قبل امام تکبیر تحریمہ نہ کہے۔
(۷) إن بلالا کان یراقب خروج النبي صلی اللہ علیہ وسلم، فأول ما یراہ یشرع في الإقامۃ قبل أن یراہ غالب الناس، ثم إذا رأوہ قاموا فلا یقوم مقامہ حتی تعدل صفوفہم۔ (زرقاني علی المؤطا، دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱/ ۱۳۴)
زرقانی کی یہ عبارت حضرت جابر ابن سمرہ رضی اﷲعنہ کی روایت کا آخری حصہ ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کا انتظار فرمایا کرتے تھے۔ اور اکثر لوگوں سے قبل حضرت بلال رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری دیکھ لیتے اور فوراً اقامت شروع کردیتے تھے اور لوگ بھی حضور 
علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دیکھ کر کھڑے ہوجاتے اور حضور ﷺ صفوں کو درست کرنے سے قبل اپنی جگہ کھڑے نہیں ہوتے تھے۔
(۸) عن نعمان بن بشیر -رضي اللہ عنہ- قال: کان رسول اللہ ﷺ یسوي یعني صفوفنا إذا قمنا للصلوۃ، فإذا استوینا فکبر۔ (أبوداؤد شریف، باب تسویۃ الصفوف، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۹۷، دارالسلام، رقم: ۶۶۵)
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور 
علیہ الصلوٰۃ والسلام ہماری صفوں کو درست کرنے سے قبل حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نماز کے لئے تکبیر تحریمہ نہیں کہتے تھے ۔
(۹) حضور 
علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے: صفوں کو درست کرنا کمال صلوۃ کے لئے شرط ہے۔
(۱۰) عن عمر -رضي اللہ عنہ- أنہ کان یؤکل رجالًا بإقامۃ الصفوف، ولا یکبر حتی یخبر أن الصفوف قد استوت۔
فتاوی قاسمیہ

Tuesday, 23 October 2018

عورت کے محرم مرد

عورت کے محرم مرد
عورت اپنے محرم مردوں سے پردہ نہیں کرے گی۔
اورعورت کا محرم وہ ہے جس سے اس کا نکاح قرابت داری کی وجہ سے ہیشہ کےلیے حرام ہو (مثلا باپ دادا اور اس سے بھی اوپر والے، بیٹا پوتا اور ان کی نسل، چچا، ماموں، بھائی، بھتیجا، بھانجا) یا پھر رضاعت کے سبب سے نکاح حرام ہو (مثلا رضاعی بھائی، اور رضاعی باپ) یا پھر مصاہرت (شادی) کی وجہ سے نکاح حرام ہوجائے (مثلا والدہ کا خاوند، سسر، اگرچہ اس سے بھی اوپر والی نسل کے ہوں، اور خاوند کا بیٹا اور اس کی نسل) ۔
ذیل میں ہم سائلہ کے سامنے یہ موضوع بالتفصیل پیش کرتے ہیں:
نسبی محرم:
نسبی طور پر عورت کے محرم کی تفصیل کا بیان سورۃ النور کی مندرجہ ذیل آیت میں بیان ہے:
فرمان باری تعالی ہے:
{اوراپنی زینت کوظاہر نہ کریں سوائے اس کےجوظاہر ہے، اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں، اور اپنی زیب وآرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد کے یا اپنے سسر کے یا اپنے لڑکوں کے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کے یا غلاموں کے یا ایسے نوکر چاکرمردوں سے جوشہوت والے نہ ہوں، یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہيں ۔۔۔} النور (31)۔
مفسرین حضرات کا کہنا ہے کہ نسب کی بنا پرعورت کے لیے جو محرم اشخاص ہيں اس کی صراحت اس آیت میں بیان ہوئي ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں:
اول: آباء واجداد:
یعنی عورتوں کے والدین کے آباء اور اوپر کی نسل مثلا والد، دادا، نانا اور اس کا والد اور ان سے اوپر والی نسل، اور سسر اس میں شامل نہیں کیونکہ وہ محرم مصاہرت میں شامل ہے نہ کہ نسبی میں ہم اسے آگے بیان کریں گے ۔
دوم: بیٹے:
یعنی عورتوں کے بیٹے جس میں بیٹے، پوتے، اوراسی طرح دھوتے یعنی بیٹی کے بیٹے اوران کی نسل، اور آیت کریمہ میں جو (خاوند کے بیٹوں) کا ذکر ہے وہ خاوند کی دوسری بیوی کے بیٹے ہیں جوکہ محرم مصاھرت میں شامل ہے، اور اسی طرح سسر بھی محرم مصاھرت میں شامل ہے نہ کہ محرم نسبی میں ہم اسے بھی آگے چل کربیان کريں گے۔
سوم: عورتوں کے بھائی:
چاہے وہ سگے بھائی ہوں یا پھر والد کی طرف سے یا والدہ کی طرف سے ہوں ۔
چہارم: بھانجے اور بھتیجے یعنی بھائی اور بہن کے بیٹے اور ان کی نسلیں۔
پنجم: چچا اورماموں:
یہ دونوں بھی نسبی محرم میں سے ہیں ان کا آيت میں ذکر نہیں اس لیے کہ انہیں والدین کا قائم مقام رکھا گیا ہے، اور لوگوں میں بھی والدین کی جگہ پر شمار ہوتے ہیں، اور بعض اوقات چچا کو بھی والد کہا جاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
{کیا تم یعقوب (علیہ السلام) کی موت کے وقت موجود تھے؟ جب انہوں نے اپنی اولاد کو کہا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کروگے؟
تو سب نے جواب دیا کہ آپ کے معبود کی اور آپ کے آباء واجداد ابراہیم اور اسماعیل، اوراسحاق (علیھم السلام) کے معبود کی جومعبود ایک ہی ہے اورہم اسی کے فرمانبردار رہيں گے} البقرۃ (133)۔
اور اسماعیل علیہ السلام تویعقوب علیہ السلام کے بیٹوں کے چچا تھے ۔
دیکھیں تفسیر الرازی (23 / 206) تفسیر القرطبی (12 / 232 – 233) تفسیر الآلوسی (18 / 143) فتح البیان فی مقاصد القرآن تالیف نواب صدیق حسن خان (6 / 352) ۔
رضاعت کی بنا پر محرم:
عورت کے لئے رضاعت کی وجہ سے بھی محرم بن جاتے ہیں، تفسیر الآلوسی میں ہے:
(جس طرح نسبی محرم کے سامنے عورت کے لئے پردہ نہ کرنا مباح ہے اسی طرح رضاعت کی وجہ سے محرم بننے والے شخص کے سامنے بھی اس کے لیے پردہ نہ کرنا مباح ہے ،اسی اس طرح عورت کے لئے اس کے رضاعی بھائی اور والد سےبھی پردہ نہ کرنا جائز ہے) دیکھیں تفسیر الآلوسی (18 / 143) ۔
اس لئے کہ رضاعت کی وجہ سے محرم ہونا بھی نسبی محرم کی طرح ہی ہے جوکہ ابدی طور پر نکاح حرام کردیتا ہے۔
امام جصاص رحمہ اللہ تعالی نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے:
(جب اللہ تعالی نے آباء کے ساتھ ان محارم کا ذکر کیا جن سے ان کا نکاح ابدی طور پرحرام ہے، جوکہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ جوبھی اس طرح کی حرمت والا ہوگا اس کا حکم بھی یہی حکم ہے مثلا عورت کی ماں، اور رضاعی محرم وغیرہ) دیکھیں احکام القرآن للجصاص (3 / 317) ۔
اورسنت نبویہ شریفہ میں بھی اس کی دلیل ملتی ہے:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
(رضاعت بھی وہی حرام کرتی ہے جونسب کرتا ہے)
تواس کا معنی یہ ہوا کہ جس طرح عورت کے نسبی محرم ہوں گے اسی طرح رضاعت کے سبب سے بھی محرم ہوں گے۔
صحیح بخاری میں مندرجہ ذيل حدیث وارد ہے:
ام المؤمنین عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ:
(ابوقعیس کے بھائي افلح نےپردہ نازل ہونے کےبعد آ کر اندر آنے کی اجازت طلب کی جوکہ ان کا رضاعی چچا تھا تومیں نے اجازت دینے سے انکار کردیا ، اورجب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لائے تو میں نے جوکچھ کیا تھا انہيں بتایا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ میں اسے اپنے پاس آنے کی اجازت دے دوں) صحیح بخاری مع الفتح الباری لابن حجر ( 9 / 150 ) ۔
امام مسلم رحمہ اللہ تعالی نے بھی اس حدیث کوراویت کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہيں :
عروۃ رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا نےانہیں بتایا کہ ان کے رضاعی چچا جس کا نام افلح تھا نے میرے پاس اندرآنے کی اجازت طلب کی تومیں نے انہيں اجازت نہ دی، اورپردہ کرلیا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے بارہ میں بتایا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اس سے پردہ نہ کرو، اس لیے کہ رضاعت سے بھی وہی حرمت ثابت ہوتی ہے جو نسب کی وجہ سے ثابت ہوتی ہے۔
دیکھیں صحیح مسلم بشرح نووی (10 / 22) ۔
عورت کے رضاعی محرم بھی اس کے نسبی محرم کی طرح ہی ہیں :
فقھاء کرام نے جوکچھ قرآن مجید اورسنت نبویہ سے ثابت ہے پر عمل کرتےہوئے اس بات کی صراحت کی ہے کہ عورت کے رضاعی محرم بھی اس کے نسبی محرم کی طرح ہی ہیں، لھذا اس کے لیے رضاعی محرم کے سامنے زینت کی چيزیں ظاہر کرنا جائز ہیں جس طرح کہ نسبی محرم کے سامنے کرنا جائز ہے، اوران کے لیے بھی عورت کے بدن کی وہ جگہیں دیکھنی حلال ہيں جونسبی محرم کےلیے دیکھنی حلال ہيں ۔
مصاھرت کی وجہ سے محرم: (یعنی نکاح کی وجہ سے)
عورت کے لیے مصاھرت کے محرم وہ ہیں جن کا اس سے نکاح ابدی طور پر حرام ہوجاتا ہے، مثلا ، والد کی بیوی، بیٹے کی بیوی، ساس یعنی بیوی کی والدہ۔ دیکھیں: شرح المنتھی (3 / 7)۔
تواس طرح والد کی بیوی کے لیے محرم مصاھرت وہ بیٹا ہوگا جو اس کی دوسری بیوی سے ہو، اور بہو یعنی بیٹے کی بیوی کے لیے اس کا باپ یعنی سسر ہوگا، اور ساس یعنی بیوی کی ماں کے لیے خاوند یعنی داماد محرم ہوگا ۔
اللہ عزوجل نے سورۃ النور کی مندرجہ ذيل آیت میں ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے:
{اوراپنی زیب وآرائش کوکسی کے سامنے ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد کے یا اپنے سسر کے یا اپنے لڑکوں کے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کے یا غلاموں کے یا ایسے نوکر چاکرمردوں سے جوشہوت والے نہ ہوں، ایا ایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہيں ۔۔۔} النور (31)۔
تواس میں سسر اورخاوند کے بیٹے عورت کے لیےمصاھرت کی وجہ سے محرم ہیں، اوراللہ تعالی نے انہيں ان کے باپوں اوربیٹوں کے ساتھ ذکر کیا ہے اورانہيں حکم میں بھی برابر قرار دیا ہے کہ ان سے پردہ نہیں کیا جائے گا۔ دیکھیں المغنی لابن قدامہ المقدسی (6 / 555) ۔
واللہ اعلم .

تاریخ نویسی کو مسخ کرنے کی کوشش

تاریخ نویسی کو مسخ کرنے کی کوشش
ٹھاکر اور راجپوت اپنی بیٹیوں کی شادی مغلوں سے کراتے تھے کیوں کہ وہ ان کو خود سے بڑا سمجھتے تھے
بیسوی صدی سے قبل ہندو لفظ کا استعمال کبھی کسی تاریخ اور مذہبی کتاب میں نہیں ملتا ہے
آئی او ایس کے زیر اہتمام منعقدہ سمپوزیم میں ماہرین کا اظہار خیال 
نئی دہلی: 13 اکتوبر (پریس ریلیز) معروف ادارہ انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹو اسٹڈیز کے زیر اہتمام آج ”تاریخ نویسی کو مسخ کرنے کی کوشش“ پر ایک سمپوزیم کا اہتمام کیا گیا جس سے خطاب کرتے ہوئے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ تاریخ کے پروفیسر آر پی بہوگنا نے کہا کہ حالیہ دنوں میں دیگر چیزوں کی طرح اب تاریخ کا چہرہ بھی مسخ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور نظریاتی بنیاد پر تاریخ لکھی جارہی ہے، اسکول میں زیر نصاب کتابوں کو بھی اصل حقائق کے خلاف لکھنے کا سلسلہ جاری ہے جو تاریخ کے ساتھ خیانت ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہندوستان کے بہت سارے غیر مسلم بادشاہ ایسے تھے جن کا نظام مکمل اسلامی تھا، ان کی فوج ،انتظام اور دیگر چیزوں میں مکمل اسلامی رنگ نمایاں تھا۔ انہوں نے اپنے لیکچر میں یہ بھی کہاکہ ٹھاکر اور راجپوت مغلوں کو خود سے بڑا اور فائق سمجھتے تھے اسی لئے ان سے اپنے بیٹیوں کی شادی کرتے تھے۔ نیز اکبر علاہ کے بیشتر مغلوں کی رگوں میں پچاس فیصد راجپوتوں کا خون تھا۔ تاریخ کا مطالعہ کرتے وقت موجودہ فیملی نظام سے علاحدہ ہوکر سوچنا ہوگا کیوں کہ اس وقت کا فیملی سسٹم آج کی طرح نہیں تھا۔ ہندومسلم کا کوئی تصور نہیں تھا۔ پروفیسر پی آر بہوگنا نے یہ بھی کہاکہ ہندوستان کی عوام خود کو ہندو کبھی نہیں کہی نہ ہی کسی تاریخ اور مذہی کتاب میں اس کا تذکرہ ملتا ہے۔ پہلی مرتبہ ہندو لفظ کا استعمال بیسوی صدی میں جغرافیائی بنیاد پر ہوا ہے، اس کے بعد بڑی ذات کے لوگوں نے خود کو ہندو کہا اور اب سبھی ہندوستانی کو ہندو کہنے پر کچھ لوگ بضد ہیں۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تاریخ کے پروفیسرڈاکٹر رضوان قیصر نے کہاکہ سیاست اوردیگر فنون کا ہم خود جائزہ لیتے ہیں اور روزانہ کی بدلتی تصویر کو دیکھتے ہیں لیکن تاریخ کا انحصار صرف مورخین پر ہوتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ مسلمانوں پر ہمیشہ تقسیم پاکستان کا الزام لگتاہے کہ جبکہ سچائی یہ ہے کہ مسلم لیگ کی مخالفت سب سے پہلی مسلمانوں نے ہی کی تھی۔ اپریل 1930 میں جمعیۃ علماءہند ،امارت شرعیہ، مسلم انڈیپینڈینٹ پارٹی، جمعیت احرار اور دیگر کئی مسلم تنظیموں نے مل ایک آل انڈیا آزاد مسلم کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں ہندوستان ٹائمس کی رپوٹ کے مطابق ایک لاکھ مسلمانوں نے شرکت کی تھی اور مسلم لیگ کی مخالفت کی تھی ۔انہوں نے کہاکہ حقائق کے خلاف آج تاریخ بدلی جارہی ہے لیکن یہ سلسلہ زیادہ دنوں تک نہیں چل سکتا ہے اصل تاریخ کا ہی پھر بول بالا ہوگا ۔
سمپوزیم کی صدارت کا فریضہ آئی او ایس کے جنرل سکریٹری پروفیسر زیڈ ایم خان نے انجام دیا جنہوں نے صدارتی خطاب کرتے ہوئے کہاکہ آئی او ایس تاریخ کی از سر نوتدوین اور تحقیق پر کام کرنے کیلئے مستقل ایک سینٹر قائم کررہا ہے اور اس پروجیکٹ پر کام شروع ہوچکا ہے۔ نظامت کا فریضہ پروفیسر جمال احمد نے انجام دیا قبل ازیں مولانا اطہر حسین ندوی کی تلاوت پر سمپوزیم کا آغاز ہوا۔


Friday, 19 October 2018

کیا تعویز کا باندھنا بدعت ہے؟

کیا تعویز کا باندھنا بدعت ہے؟
سوال: کیا تعویز کا باندھنا بدعت ہے، چاہے وہ قرآن کی آیات ہو یا اور کچھ؟ کیا نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے کبھی کسی کو تعویز دیا ہے؟
جواب: رقیہ اور تعویذ تین شرطوں کے ساتھ جائز ہے:
(۱) یہ کہ وہ آیاتِ قرآنیہ اسمائے حسنیٰ وغیرہ پر مشتمل ہو۔
(۲) عربی یا اس کے علاوہ ایسی زبان میں ہو جو معلوم المراد ہو۔
(۳) یہ عقیدہ ہو کہ یہ تعویذ موٴثر بالذات نہیں ہے (اس کی حیثیت صرف دوا کی ہے) موٴثر بالذات صرف اللہ رب العزت ہیں۔
وقال ابن حجر: وقد أجمع العلماء علی جواز الرقی عند اجتماع ثلاثة شروط أن یکون بکلام اللہ تعالی أو بأسمائہ وصفاتہ وباللسان العربی أو بما یعرف معناہ من غیرہ وأن یعتقد أن الرقیة لا تؤثر بذاتہا بل بذات اللہ تعالی (فتح الباري: الطب والرقی بالقرآن والمعوذات: ۵۷۳۵)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحتاً ایسے رقیے اور تعویذ کی اجازت دی ہے جس میں شرک نہ ہو:
عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ: کُنَّا نَرْقِی فِی الْجَاہِلِیَّةِ، فَقُلْنَا: یَا رَسُولَ اللَّہِ، کَیْفَ تَرَی فِی ذَلِکَ؟ فَقَالَ: اعْرِضُوا عَلَیَّ رُقَاکُمْ، لَا بَأْسَ بِالرُّقَی مَا لَمْ یَکُنْ فِیہِ شرکٌ، رواہ مسلم (مشکاة: ۲/۳۸۸)
نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہ کو تعویذ کے کلمات لکھ کر دیے تھے جس کی وجہ سے ان کو پریشان کرنے والا شیطان ہلاک ہوگیا۔
وأخرج البیہقي عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: فَقَالَ لِعَلِیِّ رضي اللہ عنہ اکْتُبْ: بِسْمِ اللہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ. ہَذَا کِتَابٌ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ رَبِّ الْعَالَمِینَ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، إِلَی مَنْ طَرَقَ الدَّارَ مِنَ الْعُمَّارِ وَالزُّوَّارِ وَالصَّالِحِینَ، إِلَّا طَارِقًا یَطْرُقُ بِخَیْرٍ یَا رَحْمَنُ․ أَمَّا بَعْدُ: فَإِنَّ لَنَا وَلَکُمْ فِی الْحَقِّ سَعَةً، فَإِنْ تَکُ عَاشِقًا مُولَعًا، أَوْ فَاجِرًا مُقْتَحِمًا أَوْ رَاغِبًا حَقًّا أَوْ مُبْطِلًا، ہَذَا کِتَابُ اللہِ تَبَارَکَ وَتَعَالَی یَنْطِقُ عَلَیْنَا وَعَلَیْکُمْ بِالْحَقِّ، إِنَّا کُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُونَ وَرُسُلُنَا یَکْتُبُونَ مَا تَمْکُرُونَ، اتْرُکُوا صَاحِبَ کِتَابِی ہَذَا، وَانْطَلِقُوا إِلَی عَبَدَةِ الْأَصْنَامِ، وَإِلَی مَنْ یَزْعُمُ أَنَّ مَعَ اللہِ إِلَہًا آخَرَ لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ کُلُّ شَیْء ٍ ہَالِکٌ إِلَّا وَجْہَہُ لَہُ الْحُکْمُ وَإِلَیْہِ تُرْجَعُونَ یُغْلَبُونَ، حم لَا یُنْصَرُونَ، حم عسق تُفَرِّقَ أَعْدَاء َ اللہِ، وَبَلَغَتْ حُجَّةُ اللہِ، وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللہِ فَسَیَکْفِیکَہُمُ اللہُ وَہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ․ (دلائل النبوة ما یذکر من حرز أبی دجانة: ۷/۱۱۸)
ایک اورحدیث میں ہے:
عَنْ یَعْلَی بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِیہِ، قَال: سَافَرْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ․․․وَأَتَتْہُ امْرَأَةٌ فَقَالَتْ: إِنَّ ابْنِی ہَذَا بِہِ لَمَمٌ مُنْذُ سَبْعِ سِنِینَ یَأْخُذُہُ کُلَّ یَوْمٍ مَرَّتَیْنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَدْنِیہِ فَأَدْنَتْہُ مِنْہُ فَتَفَلَ فِی فِیہِ وَقَالَ: اخْرُجْ عَدُوَّ اللَّہِ أَنَا رَسُولُ اللَّہِ․ (رواہ الحاکم في المستدرک)
اس کے علاوہ صحابہ میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ وغیرہ اور ان کے علاوہ تابعین میں حضرت عطا وغیرہ اس کے جواز کے قائل تھے، اور آج بھی اس پر لوگوں کا عمل ہے:
عن عمرو بن شعیب، عن أبیہ، عن جدہ، أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یعلمہم من الفزع کلمات: أعوذ بکلمات اللہ التامة، من غضبہ وشر عبادہ، ومن ہمزات الشیاطین وأن یحضرون․ وکان عبد اللہ بن عمر یعلمہن من عقل من بنیہ، ومن لم یعقل کتبہ فأعلقہ علیہ․ (أبوداوٴد: ۳۸۹۳، والترمذي: ۳۵۲۸ وقال: حسن غریب، اور علامہ شامی لکھتے ہیں: اخْتُلِفَ فِی الِاسْتِشْفَاء ِ بِالْقُرْآنِ بِأَنْ یُقْرَأَ عَلَی الْمَرِیضِ أَوْ الْمَلْدُوغِ الْفَاتِحَةُ، أَوْ یُکْتَبَ فِی وَرَقٍ وَیُعَلَّقَ عَلَیْہِ أَوْ فِی طَسْتٍ وَیُغَسَّلَ وَیُسْقَی. وَعَنْ النَّبِیِّ -صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ- أَنَّہُ کَانَ یُعَوِّذُ نَفْسَہُ قَالَ - رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ -: وَعَلَی الْجَوَازِ عَمَلُ النَّاسِ الْیَوْمَ، وَبِہِ وَرَدَتْ الْآثَارُ․ (شامي: ۹/۵۲۳)
واضح رہے کہ تعویذ میں جس طرح پڑھ کر دم کرنا جائز ہے اسی طرح قرآنی آیات وغیرہ کو کسی کاغذ پر لکھ کر اس کو باندھنا بھی جائز ہے، علامہ سیوطی تحریر فرماتے ہیں:
وأما قول ابن العربي: السُّنة في الأسماء والقرآن الذکر دون التعلیق فممنوع (فیض القدیر: ۶/۱۰۷)
جہاں تک ان احادیث کا تعلق ہے جن میں تمیمہ کو لٹکانے پر شرک کا حکم مذکور ہے، جیسا کہ امام اسیوطی کی جامع صغیر میں ہے: من تعلق شیئا وکل إلیہ (فیض القدیر: ۶/۱۰۷) اسی طرح دوسری حدیث میں ہے: من علق ودعة فلا ودع اللہ ومن علق تمیمة فلا تمم اللہ لہ (فیض القدیر: ۶/۱۸۱) تو یہ اس صورت پر محمول ہیں جب کہ اسی تعویذ کو نافع وضار سمجھا جائے، جیسا کہ لوگ زمانہ جاہلیت میں اعتقاد رکھتے تھے، یا ان سے مراد ایسے تعاویذ ہیں جن میں الفاظ شرکیہ یا ایسے الفاظ ہوں جن کے معانی معلوم نہ ہوں، ان حدیثوں کی شرح کرتے ہوئے علامہ سیوطی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:
أو المراد من علق تمیمة من تمائم الجاہلیة یظن أنہا تدفع أو تنفع فإن ذلک حرام والحرام لا دواء فیہ وکذا لو جہل معناہا وإن تجرد عن الاعتقاد المذکور فإن من علق شیئا من أسماء اللہ الصریحة فہو جائز بل مطلوب محبوب فإن من وکل إلی أسماء اللہ أخذ اللہ بیدہ․ (فیض القدیر: ۶/۱۰۷)
واللہ تعالیٰ اعلم

Thursday, 18 October 2018

جمعہ کی کونسی اذان کے بعد لین دین حرام ہے؟

جمعہ کی کونسی اذان کے بعد لین دین حرام ہے؟
Jan 12,2013
Answer: 43343
فتوی: 176-128/L=2/1434
جمعہ کی اذان اول کے بعد خرید وفروخت ناجائز ہے وکرہ تحریما مع صحة البیع عند الأذان الأول (درمختار مع شامی: ۷/۳۰۴)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
______
اذان اول کے بعد نکاح کرنا اور کھانا کھلانا جائز نہیں
س… آ ج کل ہمارے مسلمانوں کا معمول بن چکا ہے کہ شادی، نکاح کا پروگرام جمعہ کے دن طے کرتے ہیں، اور عموما کھانے پینے اور نکاح کا پروگرام بالکل نماز جمعہ کے قریب اذان اول کے بعد منعقد کرتے ہیں، از روئے قرآن و حدیث اس پر روشنی ڈالیں کہ بروز جمعہ اذان اول کے بعد شادی، نکاح اور کھانے وغیرہ کا انتظام کرنا شرعا جائز ہے یا نہیں؟
ج… جمعہ کی اذان کے بعد جمعہ کی تیاری کے علاوہ کوئی دوسرا شغل جائز نہیں۔
آپ کے مسائل اور ان کا حل
______
مسئلہ جمعہ کى پہلى اذان سن کر تمام کاموں کو چھوڑ کر جمعہ کى نماز کے لیے جامع مسجد جانا واجب ہے خریدو فروخت یا کسى اور کام میں مشغول ہونا حرام ہے.
بہشتی زیور
________
وذراو البیع کی تفسیر میں فرمایا کہ اذان جمعہ کے بعد کھانا پینا بھی حرام ہے۔ سو اس مسئلہ کی طرف کسی کا التفات نہیں۔ اذان جمعہ کے بعد جیسے بیع و شراء حرام ہے ویسے ہی کتاب دیکھنا بھی حرام پڑھنا بھی حرام غرض جو چیز مخل سعی ہوگی وہ حرام ہے ہاں یہ مانع جب مرتفع ہوجائے گا حرمت بھی مرتفع ہوجائے گی مثلا دو شخص چلتے چلتے ایک چیز کی بیع کریں تو چونکہ یہ بیع مخل سعی نہں اس لئے حرام بھی نہ ہوگی۔ (الوقت ص۴)
دو خطبوں کے درمیان دعا کا طریقہ
ایک صاحب نے دریافت کیا کہ مابین الخطبتین جب امام جلسہ کرتا ہے تو دعا مانگنا درست ہے یا نہیں فرمایا دل سے دعا بدون حرکت لسان ہو تو جائز ہے سکوت واجب اور دعا اس طرح جمع ہوسکتے ہیں
(حسن العزیز جلد اول) (اشراف الاحکام ص:۱۲۱)

Friday, 12 October 2018

تنبیہات سلسلہ نمبر 50؛ پہلی اولاد کا لڑکی ہونا

تنبیہات سلسلہ نمبر 50؛ پہلی اولاد کا لڑکی ہونا
● سوال: یہ بات بطور حدیث مشہور کی گئی ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جس عورت کی پہلی اولاد لڑکی ہو تو یہ اس عورت کی خوش قسمتی کی علامت ہے، کیا یہ روایت درست ہے؟
▪ الجواب باسمه تعالی:
بچیاں اللہ تعالی کی نعمتوں میں سے ایک خوبصورت نعمت ہیں اور بچیوں اور بہنوں کی تربیت پر آپ علیہ السلام نے فضائل بھی ذکر فرمائے ہیں:
١. قوله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
"مَنْ عَالَ جَارِيَتَيْنِ حَتَّى تَبْلُغَا جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَنَا وَهُوَ وَضَمَّ أَصَابِعَه". (رواه مسلم: 2631).
• ایک حدیث میں آپ علیہ السلام نے فرمایا: جس نے دو لڑکیوں کی تربیت کی تو قیامت کے دن وہ میرے ساتھ اس طرح ہوگا جیسے یہ دونوں انگلیاں جڑی ہوئی ہیں.
٢. قوله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
"مَنْ كَانَ لَهُ ثَلَاثُ بَنَاتٍ أَوْ ثَلَاثُ أَخَوَاتٍ أَوْ ابْنَتَانِ أَوْ أُخْتَانِ فَأَحْسَنَ صُحْبَتَهُنَّ وَاتَّقَى اللَّهَ فِيهِنَّ فَلَهُ الْجَنَّةُ". - رواه الترمذي (1916). -وأبوداود (5147). - وابن ماجه (3669). • جس نے تین بہنوں یا بیٹیوں کی تربیت کی یا دو بہنوں اور دو بیٹیوں کی تربیت کی تو اس کیلئے جنت ہے.
☆ لیکن پہلی اولاد کے بیٹی ہونے کے بارے میں جس قدر روایات منقول ہیں وہ اس حد تک کمزور ہیں کہ محدثین نے اس پر موضوع ہونے کا حکم لگایا ہے.
١. قال الحافظ السخاوي رحمه الله في "المقاصد الحسنة" (1/677): حديث "من يمن المرأة تبكيرها بالأنثى" رواہ الديلمي عن واثلة بن الأسقع مرفوعا بلفظ: "من بركة تبكيرها بالأنثى" ألم تسمع قوله تعالى: {يهب لمن يشاء إناثا} فبدأ بالإناث، ورواه أيضا عن عائشة مرفوعا بلفظ: "من بركة المرأة على زوجها تيسير مهرها وأن تبكر بالإناث" وهما ضعيفان.. انتهى..
• علامہ سخاوی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ یہ روایات ضعیف ہیں.
٢. وقال السيوطي في فتاويه: لا يصح. (انظر: "كشف الخفاء" 2/287).
• امام سیوطی رحمه اللہ نے بھی اس روایت پر غیر صحیح ہونے کا حکم لگایا ہے.
٣. حضرت علی رضی اللہ عنه کی سند أخرجه ابن عدي في "الكامل" (6/302) من طريق شيخه محمد بن محمد بن الأشعث: حدثني موسى بن إسماعيل بن موسى بن جعفر بن محمد: حدثني أبي، عن أبيه، عن جده جعفر، عن أبيه، عن جده علي بن الحسين، عن أبيه، عن علي مرفوعاً. قلت: موضوع، المتهم به هذا الشيخ ؛ فقد ساق له ابن عدي نحو خمسة وعشرين حديثاً من أصل قرابة ألف حديث بهذا الإسناد العلوي، وقال: "وعامتها من المناكير، وكان متهماً".
• ابن عدي نے یہ روایت محمد بن محمد بن الأشعث کی سند سے نقل کی ہے اور اس پر من گھڑت روایات بنانے کا الزام ہے.
٤. وقال الدارقطني: "آية من آيات الله: وضع ذاك الكتاب؛ يعني العلويات". وقد مضى له حديث آخر موضوع في المجلد الرابع رقم (1932).
• دارقطنی اس راوی کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس نے ایک پوری من گھڑت کتاب گھڑ لی تھی جس کا نام "علویات" رکھا.
٥. وقال الذهبي في "الميزان": "وساق له ابن عدي جملة موضوعات" امام ذھبی رحمه اللہ فرماتے ہیں کہ اس راوی کی روایات میں من گھڑت شامل ہے.
٦. واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنه کی سند: رواه مسنداً الخرائطي في "مكارم الأخلاق" قال: "حدثنا محمد بن جابر الضرير، حدثنا مسلم بن إبراهيم العبدي، حدثنا حكيم بن حزام، عن العلاء بن كثير، عن مكحول، عن واثلة بن الأسقع، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من بركة المرأة تبكيرها بالأنثى، أما سمعت الله تعالى يقول: يهب لمن يشاء إناثا ويهب لمن يشاء الذكور، فبدأ بالإناث قبل الذكور». ومن نفس طريقه ابن عساكر في تاريخ دمشق، وكذلك الخطيب في تاريخ بغداد. وقد رواه ابن الجوزي في الموضوعات من طريق الأثرم إلى سالم الوراق قال حدثنا حكيم بن (حزام) هكذا وقع ثم بنحو ما ذكر الخرائطي.
٧. قال ابن الجوزي بعد أن ذكره: "هذا حديث موضوع على رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقد اتفق فيه جماعة كذابون.
• امام ابن جوزی اس روایت کو من گھڑت قرار دیتے ہیں اسلئے کہ اس کی سند میں بہت سے کمزور راوی جمع ہیں:
(ا) أما سالم الوراق: ◇ فقال يحيى: هو كذاب. ¤ ایک راوی سالم ہیں جن کو یحی مدنی نے جھوٹا کہا ہے.
(اا) وأما حكيم: ◇ فقال أبوحاتم الرازي: متروك الحديث. ¤ دوسرے راوی حکیم ہیں جن کو ابوحاتم رازی نے متروک قرار دیا ہے.
(ااا) وأما العلاء بن كثير: ◇ فقال أحمد ويحيى: ليس بشئ. ◇ وقال ابن حبان: يروى الموضوعات عن الاثبات. ¤ تیسرے راوی علاء بن کثیر ہیں. انکے بارے میں امام احمد اور یحیی فرماتے ہیں کہ اس کی کوئی حیثیت نہیں. ابن حبان فرماتے ہیں کہ یہ جھوٹی روایات گھڑتا ہے.
٨. قال ابن حجر تبعاً للذهبي في الميزان: روى سالم عن حكيم بن حزام متروك عن العلاء بن كثير تالف عن مكحول عن واثلة مرفوعاً: "من يمن المرأة تبكيرها بأنثى" وهو سالم بن إبراهيم عن أبي بكر بن عياش...انت هى... والخبر

Tuesday, 9 October 2018

کیا اس حدیث کی صحت صحیح ہے؟

سوال: کیا اس حدیث کی صحت صحیح ہے اور اس کے تشریح کیا ہے؟

جواب: امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب نوادر الاصول فی احادیث الرسول میں یہ حدیث نقل کی ہے اور اس پر یہ عنوان قائم کیا ہے: الاصل المائة والخمسون فی ان من غیر الحق من العلماء یمسخ وسر ما یمسخون بہ۔

حدیث نقل کرنے کے بعد اس کی وجہ نقل کی ہے کہ ان علمائے ناحق اور علمائے سو کے چہرے اس لیے مسخ کردیے جائیں گے کہ انھوں نے حق بات کو بدل دیا اور غلط بات کرکے مخلوق کے دل کو مسخ کیا، لہذا اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ ان کے چہروں کو مسخ کردیں گے۔

اسنادی حیثیت سے پہلی حدیث میں ضعف ہے
ترغیب وترہیب یا فضائل کے باب میں اسے بیان کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں
رواه الحكيم الترمذي في نوادر الأصول(4/ 71 رقم858) من طريق إسماعيل بن عياش عن ليث بن أبي سليم عن ابن سابط عن أبي أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "تكون في أمتي فزعة، فيصير الناس إلى علمائهم، فإذا هم قردة وخنازير".
وإسماعيل بن عياش روايته عن غير أهل بلده ضعيفة وهذه منها، وليث بن أبي سليم ضعيف.

ایک مجلس کی تین طلاق

ایک مجلس کی تین طلاق

احادیث صحیحہ اور آثار صحابہ کی روشنی میں

تین طلاق کا جواز اور وقوع، احادیث صحیحہ اور آثار صحابہ سے ثابت ہے۔

خود کو بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں

آج کل ایک مجلس کی تین طلاق کا مسئلہ پورے ہندوستان بلکہ عالمی پیمانے پر اچھالا جارہا ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاق ایک مانی جائے گی تین نہیں، اور انتہائی جرأت و بے باکی سے کہا جارہا ہے کہ ”حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی ایک حدیث بھی مجلس کی تین طلاق کی حمایت میں نہیں وارد ہوئی ہے، اور طلاق ثلاثہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی منظوری حاصل نہیں ہے“ اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ”طلاق انسان کا بنایا ہوا قانون ہے اور یہ دعویٰ کرنا کہ طلاق کا قانون وحی پر مبنی ہے کھلی بے ایمانی ہے۔“

اس سلسلے میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ شریعت کے نزدیک بیوی کو طلاق دینا انتہائی مبغوض اور مکروہ فعل ہے، طلاق کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابغض الحلال کہا ہے(رواہ ابن ماجہ:۲۰۱۸) اور قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ: اگر میاں بیوی میں ناچاقی پیدا ہوجائے تو (مطلقاً طلاق کے بجائے) باہمی صلح و مصالحت کاطریقہ اختیار کرو بایں طور کہ شوہر کے گھرانے سے ایک ذمہ دار شخص اور عورت کے گھرانے سے ایک ذمہ دار شخص صلح مصالحت کی کوشش کریں۔ (سورہ نساء:۳۵)

لیکن اگر صلح مصالحت سے کام نہ چلے اور میاں بیوی میں اتفاق کی کوئی صورت نظر نہ آئے تو مجبوراً طلاق جیسے مبغوض عمل کی شریعت نے اجازت دی ہے، اب شوہر کتنی طلاق دے، ایک، دو، یا تین۔ نیز تین طلاق دینے کی صورت میں ایک ہی طہر میں تینوں دے یا الگ الگ طہر میں اور اگر ایک طہر میں تین طلاق دے رہا ہے تو ایک مجلس میں دینا چاہئے یا الگ الگ تین مجلس میں۔ ان سب چیزوں کا بیان مندرجہ بالا آیت میں نہیں ہے، بلکہ ان میں سے بعض کا بیان قرآن کریم کی دوسری آیات میں ہے اور بعض چیزوں کا بیان قرآن کریم میں سرے سے ہے ہی نہیں، ان کا ذکر صرف احادیث صحیحہ میں ہے، جس کی تفصیل مالہ و ما علیہ کے ساتھ درج ذیل ہے:

طلاق کی قسمیں

طلاق کی تین قسم ہے:

(۱) طلاق احسن، یعنی شوہر بیوی کو ایک طلاق دے، ایسے طہر میں جو جماع سے خالی ہو اور اسی حالت پر بیوی کو چھوڑ دے تا آں کہ عدت پوری ہوجائے یا رجوع کرنا چاہے تو زمانہٴ عدت میں رجعت کرلے۔

(۲) طلاق کی دوسری قسم طلاق حسن ہے، یعنی مدخول بہا عورت کو تین طلاق الگ الگ طہر میں دے۔

(۳) تیسری قسم کو طلاق بدعی کہتے ہیں۔ اس کی دو صورت ہے: پہلی صورت یہ ہے کہ شوہر بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاق دے اور دوسری صورت یہ ہے کہ ایک ہی طہر میں تین طلاق (الگ الگ مجلس میں) دے۔ (ہدایہ: ۱/۲۲۱، مطبوعہ بیروت، ۱۹۹۵/)

اول الذکر دو قسموں کا ذکر قرآن وحدیث دونوں میں موجود ہے، پہلی قسم کا ذکر قرآن کی اس آیت میں ہے: یا أیہا النبي اذا طلقتم النساء فطلقوہن لعدتہن (سورہ طلاق:۱) اے نبی جب آپ طلاق دیں عورتوں کو تو ان کو طلاق دیجئے ان کی عدت پر۔ یعنی طہر میں طلاق دیجئے تاکہ اسکے بعد والا حیض عدت میں شمار ہوجائے اور حدیث سے یہ قید بھی ثابت ہے کہ اس طہر میں صحبت نہ کی ہو، چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں ایک طلاق دے دی، حضرت عمر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ ناراض ہوگئے اور کہا کہ ابن عمر کو رجعت کرلینا چاہئے اور بیوی کو نکاح میں باقی رکھنا چاہئے تاآں کہ عورت کو دوسرا حیض آجاوے اور اس حیض سے پاک ہوجاوے تو اب اگر ابن عمر کو مناسب معلوم ہو تو بیوی کو ایسے طہر میں طلاق دے جس میں جماع نہ کیا ہو الخ۔ (نسائی۳۳۹۱، بخاری ۵۲۵۱، مسلم ۱۴۷۱، ابن ماجہ ۲۰۱۹)

طلاق کی دوسری قسم کا ذکر اس آیت میں ہے: الطلاق مرتان، فامساک بمعروف أو تسریح باحسان (سورہ بقرہ: ۲۲۹) طلاق رجعی دوبار ہے، اس کے بعد دستور کے موافق بیوی کو رکھنا ہے یا بھلے طریقے سے چھوڑ دینا ہے۔ یعنی طلاق جس میں رجعت ہوسکے کل دوبار ہے، ایک یا دوطلاق تک تو اختیار دیاگیا کہ عدت کے اندر مرد چاہے تو عورت کو پھر دستور کے موافق رکھ لے یا بھلی طرح سے چھوڑ دے، پھر عدت کے بعد رجعت باقی نہیں رہتی۔ ہاں اگر دونوں راضی ہوں تو وہ دوبارہ نکاح کرسکتے ہیں اوراگر تیسری بار طلاق دے گا تو پھر ان میں نکاح بھی درست نہیں ہوگا جب تک کہ دوسرا خاوند اس سے نکاح کرکے صحبت نہ کرلیوے۔ (ترجمہ شیخ الہند)

اور طلاق کی دوسری قسم کا ذکر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں ہے کہ : سنت طریقے پر طلاق یہ ہے کہ شوہر ایک طلاق دے ایسے طہر میں جس میں جماع نہ کیا ہو، پھر عورت کو حیض آوے اور حیض سے پاک ہوجائے تو دوسری طلاق دی جائے، پھر عورت تیسرے حیض سے بھی پاک ہوجائے تو تیسری طلاق دے اور اب عورت ایک حیض عدت گزارے گی۔ (اخرجہ النسائی ۳۳۹۴، وابن ماجہ ۲۰۲۱)

اور مذکورہ دونوں قسموں کا مجموعی ذکر اس آیت میں ہے : واذا طلقتم النساء فبلغن أجلہن فأمسکوہن بمعروف أو فارقوہن بمعروف (بقرہ: ۲۳۱) جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک طلاق، یا دو طلاق الگ الگ طہر میں دینے کی صورت میں رجعت کا حق صرف عدت تک ہے کہ عدت گزرنے سے پہلے یا تو رجعت کرے (اگر بھلے طریقے پر رکھناہے) یا بھلے طریقے پر چھوڑ دے اورعدت گزرجائے۔

مندرجہ بالا تینوں آیتوں میں اللہ نے یہ بیان کیا ہے کہ دو طلاق تک شوہر کو عدت کے زمانے میں رجعت کا حق باقی رہتا ہے۔ عدت گزرنے کے بعد رجعت کا حق باقی نہیں رہتا ہے بلکہ دوبارہ نکاح کرنا پڑے گا اور تین طلاق دینے کی صورت میں زمانہٴ عدت میں نہ تو رجعت کا حق باقی رہتا ہے اور نہ ہی عدت کے بعد اس سے نکاح درست ہے جب تک دوسرا شوہر اس سے نکاح کرکے صحبت نہ کرلے۔

قرآن کریم میں طلاق کی صرف دو قسموں کو ذکر کرنے کی حکمت و مصلحت دوسری آیات میں ملتی ہیں، ارشاد باری ہے: ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجاً (طلاق:۲) ومن یتق اللہ یجعل لہ من أمرہ یسرًا (طلاق:۴) لا تدری لعل اللہ یحدث بعد ذلک أمرًا (طلاق:۱) یعنی طلاق کی بابت جو اللہ سے ڈرے اوراس کے بنائے ہوئے طریقے کے مطابق طلاق دے تو ممکن ہے کہ اللہ اس پر رحم و کرم اور نرمی کا معاملہ کریں اور کوئی سبیل پیدا فرمادیں بایں طور کہ طلاق کے بعد اللہ تعالیٰ شوہر کے دل میں بیوی کی محبت پیدا کردیں اور شوہر بیوی کو چاہنے لگے اور رجعت کرلے، اور ظاہر ہے کہ تین طلاق دینے کی صورت میں رجعت نہیں کرسکتا۔

مندرجہ بالا آیتوں میں سے کسی ایک بھی آیت میں - تیسری قسم کا بیان ہے ہی نہیں کہ جس نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاق دیدی تو اس کا کیا حکم ہے، قرآن نے اس کا ذکر ہی نہیں چھیڑا ہے بلکہ اس کا ذکر صرف احادیث صحیحہ شریفہ میں آیا ہے، اس لیے ایک مجلس کی تین طلاق کو تین ماننے پر قرآن کریم سے استدلال جس طرح غلط ہے اس سے کہیں زیادہ غلط یہ نظریہ ہے کہ ”ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک مانا جائے، تین ماننا قرآن کے خلاف ہے“ اس لئے کہ جب قرآن میں سرے سے اس کا ذکر ہی نہیں ہے تو ایک ماننے کو قرآن کے حکم کے موافق اور تین ماننے کو قرآن کے خلاف بتانا کہاں کا انصاف ہے؟ اور تمام اصولیین کے نزدیک یہ قاعدہ مسلم ہے کہ جب کوئی حکم قرآن میں مذکور نہ ہو تو احادیث کی طرف رجوع کیاجائے گا اور احادیث کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا اور اس صورت میں حدیث ”جاء بحکم لم یُذکَر فی القرآن الکریم“ کے قبیل سے ہوگی۔

طلاق ثلاثہ اور ائمہ مجتہدین

پہلے ہم ایک مجلس کی تین طلاق کی بابت ائمہ اربعہ رحمہم اللہ (جو اسلام کے سب سے اعلیٰ اور ممتاز ترین ماہر قانون تھے) کا نظریہ ذکر کریں گے کہ ان حضرات نے مجلس کی تین طلاق کو ایک مانا ہے یا تین۔ پھر ان احادیث و آثار کو ذکر کریں گے جن میں ایک مجلس کی تین طلاق کا ذکر ملتا ہے کہ ان احادیث و آثار میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کیا فیصلے اور فتاوے صادر فرمائے ۔

امام نووی ایک مجلس کی تین طلاق کے بارے میں ائمہ اربعہ کا نظریہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ: علماء کا اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے جو اپنی بیوی سے انت طالق ثلاثا کہے (میں تجھے تین طلاق دیتا ہوں) امام شافعی، امام مالک، امام ابوحنیفہ، امام احمد اور جمہور علماء سلف و خلف اس بات کے قائل ہیں کہ تینوں واقع ہوجائیں گی۔ (شرح نووی علی صحیح مسلم: ۵/۳۲۸، تحقیق حازم محمد و اصحابہ، طباعت:۱۹۹۵/)

امام نووی کے اس بیان سے معلوم ہوگیا کہ ائمہ اربعہ نے ایک مجلس کی تین طلاق کو تین ہی مانا ہے، ایک نہیں مانا، لیکن افسوس غیرمقلدین پر نہیں ہے بلکہ حیرت اور تعجب ان لوگوں پر ہے جو اپنے آپ کو مقلد بھی ظاہر کرتے اور کہتے ہیں۔ پھر بھی ائمہ اربعہ کے مسلک کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور مجلس کی تین طلاق کو ایک ماننے پر اصرار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تین ماننا اسلامی انصاف اور قانون کو مسخ کرنا ہے۔ اب ہم ان احادیث کو ذکر کریں گے جن میں ایک مجلس کی تین طلاق کا ذکر ملتا ہے۔

طلاق ثلاثہ اور احادیث

حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ ایک صحابی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں، اس عورت نے دوسرا نکاح کرلیا، دوسرے شوہر نے بھی (قبل الوطی) طلاق دے دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا وہ پہلے مرد کے لیے حلال ہوگئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں جب تک دوسرا شوہر پہلے شوہر کی طرح لطف اندوز نہ ہولے۔ (صحیح بخاری: ۵۲۶۱، صحیح مسلم:۱۴۳۳)

ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک ماننے والے حضرات کہتے ہیں کہ اس حدیث میں ”طلق امرأتہ ثلاثًا“ میں ثلاث سے مراد ثلاث مفرقہ ہے یعنی یہ تینوں طلاقیں ایک مجلس میں نہیں دی گئی تھیں اس لئے اس حدیث سے ایک مجلس کی تین طلاق کے جواز پر استدلال فاسد ہے۔

لیکن ان حضرات کا ثلاث سے ”ثلاثل مفرقہ“ (تین طہر میں ایک ایک کرکے طلاق دینا)مراد لینا غلط ہے بلکہ ثلاث سے مراد ثلاث مجموعہ (ایک ہی دفعہ تینوں طلاق دینا) ہے کہ صحابی نے دفعة واحدہ (ایک مجلس میں) تینوں طلاق دی تھی، ثلاث مفرقہ مراد لینا خلاف ظاہر ہے اوراس پر کوئی قرینہ بھی موجود نہیں ہے، اس کے برعکس ثلاث مجموعہ مراد لینا ظاہر لفظ کے عین مطابق ہے۔ نیز ثلاث مجموع کے متعین ہونے کی تائید امام بخاری جیسے حدیث داں اور محدث کے ترجمة الباب سے ہوتی ہے۔ موصوف اس حدیث پریوں باب قائم کرتے ہیں: باب من جَوّز الطلاقَ الثلاث، اور شارح بخاری حافظ ابن حجر ترجمة الباب کی اس طرح وضاحت کرتے ہیں: ہذا یرجح أن المراد بالترجمة بیان من أجاز الطلاق الثلاث ولم یکرہہ، اس سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ ترجمة الباب کا مقصداس امر کا بیان ہے کہ تین طلاقوں کو جائز قرار دیا اوراس کو مکروہ نہیں سمجھا۔ (فتح الباری: ۹/۳۶۷)

۲- ایک مجلس کی تین طلاق کے جائز اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ رفاعہ قزطی کی بیوی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، اور کہا کہ اے اللہ کے رسول: ان رفاعة طلقنی فَبَتَّ طلاقی کہ رفاعہ نے مجھے طلاق قطعی دیدی (عدت گزرنے کے بعد) میں نے عبدالرحمن بن الزبیر سے نکاح کرلیا لیکن ان کے اندر قوت رجولیت ختم ہوگئی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شاید تمہاری خواہش یہ ہے کہ پھر رفاعہ کی زوجیت میں چلی جاؤ، ایسا نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ (عبدالرحمن) تم سے اور تم اس سے لطف اندوز نہ ہولو۔ (بخاری: ۵۲۶۰)

حضرت عائشہ کی پہلی حدیث اور یہ حدیث دونوں الگ الگ ہے، حافظ ابن حجر نے اسی کو راجح قرار دیا ہے اور دونوں حدیث کو الگ الگ واقعے پر محمول کیا ہے۔

مجلس کی تین طلاق کا انکار کرنے والے اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس میں طلاق البتہ کا ذکر ہے تین طلاق کا ذکر نہیں ہے، لیکن یہ کہنا کم علمی کی دلیل ہے اس لیے کہ خود امام بخاری نے کتاب اللباس میں اس حدیث کو ذکر کیا ہے اور اس میں ”ثلاث تطلیقات“ ہے کہ رفاعہ نے تین طلاق دی تھی۔ طلاق البتہ (مغلظہ) نہیں دی تھی یہ راوی کا اپنا بیان ہے۔

اس کے بعد بھی یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ اس تین طلاق سے کیا مراد ہے، ثلاث مجموعہ مراد ہے کہ ایک ہی مجلس میں تینوں طلاق دی تھی یا ثلاث مفرقہ مراد ہے کہ الگ الگ مجلس میں طلاق دی تھی، مجلس کی تین طلاق کا انکار کرنے والے ثلاث مفرقہ ہی مراد لیتے ہیں؛ لیکن امام بخاری کی تبویب سے معلوم ہوتا ہے کہ رفاعہ نے ایک مجلس میں تینوں طلاق دی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تینوں طلاق کے واقع ہونے کا فیصلہ فرمایا جیسا کہ حلالہ کی بات سے پتہ چلتا ہے، لہٰذا تین طلاق کے منکرین کی بات یہاں بھی غلط ثابت ہوگئی اور مجلس کی تین طلاق کا جواز اور ثبوت اس حدیث سے بھی ثابت ہوگیا۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے ”فتح الباری“: ۹/۳۶۷، ۴۶۸)

۳- فاطمہ بنت قیس کہتی ہیں: طلقنی زوجی ثلاثًا وہو خارج الی الیمن فأجاز ذلک رسول اللہ صلی اللّہ علیہ وسلم (میرے شوہر حفص بن عمرو نے مجھے تین طلاق دیدی اور وہ یمن کے سفر میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جائز یعنی نافذ قرار دیا) اخرجہ ابن ماجہ ۲۰۲۴۔

اس روایت میں اضطراب دکھلانے کی بے جا کوشش کی جاتی ہے کہ بعض روایت میں ہے کہ پہلے فاطمہ کو دو طلاق دی گئی تھی پھرتیسری طلاق دی، اور بعض روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حفص نے طلاق البتہ دی تھی اور بعض روایت میں مطلق طلاق کا ذکر ہے تعداد کا ذکر ہی نہیں ہے۔ (دیکھئے: التعلیق المغنی علی الدار قطنی: ۴/۱۱)

لیکن صحیح بات یہ ہے کہ حفص نے تین طلاق دیا تھا اور ایک ہی مجلس میں تینوں طلاق دیا تھا، اس لیے کہ دار قطنی کی روایت میں ہے کہ ابوسلمہ بن عبدالرحمن کے پاس کچھ لوگوں نے ایک مجلس کی تین طلاق کے مکروہ ہونے کا تذکرہ کیا، ابوسلمہ نے کہا کہ حفص بن عمرو نے فاطمہ بنت قیس کو ایک مجلس میں تین طلاق دیا تھا لیکن کسی روایت سے ہمیں معلوم نہیں ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نکیر فرمائی ہو۔ (اخرجہ الدارقطنی: ۴/۱۱)

الغرض مذکورہ روایت میں اضطراب نہیں ہے بلکہ دار قطنی کی روایت کی وجہ سے تین طلاق کی روایت کو ترجیح دی جائے گی اور حدیث مضطرب میں سے کسی ایک کو دوسرے پر راجح قرار دینے کے بعد اس کا اضطراب ختم ہوجاتا ہے، رہا یہ سوال کہ دارقطنی کی روایت کو ترجیح کیوں دی گئی تواس کا جواب یہ ہے کہ اس صورت میں اس کے الفاظ کا اختلاف ختم ہوجاتا ہے اور ان کے درمیان تطبیق ہوجائے گی ورنہ کم از کم دارقطنی کی روایت کو ترک کرنا پڑے گا اگر ترجیح کی کوئی دوسری صورت اختیار کی گئی۔

نیز امام ابن ماجہ کی تبویب سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ حفص نے ایک ہی مجلس میں تینوں طلاق دی تھی؛ موصوف اس حدیث پر یوں عنوان لگاتے ہیں: من طلق ثلاثًا فی مجلس واحد جس نے ایک مجلس میں تین طلاق دی،اور حضرت فاطمہ بنت قیس کی تطلیق کی مذکورہ روایت کو بہ سند ذکر کیا ہے۔

۴- شروع میں حضرت ابن عمر کی تطلیق (طلاق دینے) کی جو حدیث گزری ہے اس کے بعض طرق میں حدیث کے آخر میں یہ الفاظ ہیں: فقلت (ابن عمر): یا رسول اللّٰہ أرأیت لو أنی طلقتہا ثلاثًا أکان یحل لی أن أراجعہا؟ قال: لا، کانت تبین منسک، وتکون معصیة (اخرجہ البیہقی: ۷/۳۳۴) صحیحین کے الفاظ یہ ہیں: وکان عبداللہ (بن عمر) اذا سئل عن ذلک قال: ان کنت طلقتَہا ثلاثا فقد حرمت علیک حتی تنکح زوجاً غیرہ․

بیہقی کی روایت کی وجہ سے یہ بات متعین ہوجاتی ہے کہ اس میں حضرت ابن عمر نے ثلاث مجموعہ کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا ہے کہ کلمہ واحدہ میں تین طلاق دینے کے بعد رجعت کرنا درست ہے یا نہیں (یعنی تینوں طلاق واقع ہوگئی یا نہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا کہ اب رجعت نہیں کرسکتے؛ اس لیے کہ طلاق کے بعد رجعت کا حق ختم ہوجاتا ہے اور تین طلاق دینا (ایک مجلس میں) گناہ ہے۔

اس روایت میں ثلاث مجموعہ کے متعین ہونے کی وجہ یہ ہے کہ حضرت ابن عمر نے حالت حیض میں بیوی کو ایک طلاق دی، اور آپ کا ارادہ یہ تھا کہ حیض سے پاک ہوجانے کے بعد طہر میں پھر طلاق دوں گا پھر حیض سے پاک ہوجانے کے بعد تیسری طلاق دوں گا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کواس کی اطلاع ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف حیض میں طلاق دینے پر نکیر فرمائی کہ تم کو پہلی طلاق حیض کے بجائے طہر میں دینا چاہئے تھا، سنت طریقہ یہی ہے، تم رجعت کرلو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنت طریقے کی وضاحت بھی فرمادی تاکہ بقیہ دو طلاق کے استعمال میں ابن عمر غلطی نہ کریں اگرچہ ان کا ارادہ پہلے ہی سے تھا کہ بقیہ دو طلاق طہر میں دوں گا۔ (امام ابن تیمیہ نے ”منتقی الاخبار“ میں ابن عمر کے تطلیق کے قصے میں دار قطنی کے حوالے سے جو حدیث ذکر کی ہے اس کا مفاد وہی ہے جو ابھی ہم نے ذکر کیا ہے۔ ملاحظہ ہو: منتقی الاخبار مع شرحہ نیل الاوطار: ۴/۳۲۱، رقم ۲۸۵۲) اس حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ثلاث مفرقہ کا حکم خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی حضرت ابن عمر کو بتادیا تھا، دوبارہ ابن عمر جیسا شخص اس کے بارے میں پھر سوال کرے یہ ممکن نہیں ہے۔

بیہقی کی روایت پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس میں ایک راوی عطاء خراسانی ہے اور یہ ضعیف ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ ابن معین، امام ابوحاتم، امام نسائی، دارقطنی اور ابن سعد وغیرہ نے ان کی توثیق کی ہے اور عطاء سنن اربعہ اور مسلم کے رجال میں سے ہیں، لہٰذا ان کو ضعیف کہنا غلط ہے۔ (دیکھئے ”تہذیب التہذیب:۷/۲۱۳،۲۱۴، عطاء خراسانی کا ترجمہ)

۵- حضرت عویمر عجلانی رضی اللہ عنہ کے لعان کی حدیث صحیحین وغیرہ میں ہے، اس حدیث کے آخر میں حاضر واقعہ حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: فتلاعنا و أنا مع الناس عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فلما فرغا قال عویمر: کذبت علیہا یارسول اللہ ان أمسکتہا، فطلقہا ثلاثًا قبل أن یأمرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (بخاری ۵۲۵۹، مسلم ۱۴۹۲) ابوداؤد کے الفاظ یہ ہیں: فطلقہا ثلاث تطلیقات عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فأنفذہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (سنن ابی داؤد، حدیث ۲۲۵۰)

ترجمہ: حضرت سہل بن سعد کہتے ہیں کہ ان دونوں (عویمر اور ان کی بیوی) نے لعان کیا اور میں بھی لوگوں کے ساتھ حاضر خدمت تھا، جب میاں بیوی لعان سے فارغ ہوگئے تو عویمر نے کہا: اے اللہ کے رسول (…) ! اگرمیں نے اس کو نکاح میں روک لیا تب تو میں نے اس پر غلط الزام لگایا ہے (اور الزام جھوٹا نہ ہونے کی وجہ سے) حضرت عویمر نے بیوی کو تین طلاق دیدی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حکم صادر ہونے سے پہلے ہی۔ اور ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ عویمر نے بیوی کو تین طلاق دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تینوں کو نافذ بھی کردیا۔

یہ حدیث اس بات پر نص ہے کہ حضرت عویمر نے لعان کے بعد ایک ہی مجلس میں تین طلاق دی تھی، جیسا کہ ظاہر لفظ سے پتہ چلتا ہے، لیکن اس پر اشکال یہ ہوتا ہے کہ لعان میں میاں بیوی کے درمیان جدائی نفس لعان سے ہوجاتی ہے طلاق دینے کی ضرورت نہیں ہے اس لیے جب عویمر اور ان کی بیوی لعان سے فارغ ہوگئے تو ان کے درمیان فرقت ہوگئی اب عویمر کا طلاق دینا غیر محل (اجنبیہ) میں تھا۔ (دیکھئے : نیل الاوطار: ۴/۳۲۱، تحقیق عادل عبدالموجود و اصحابہ، مطبوعہ بیروت، طباعت:۲۰۰۰/)

حافظ ابن حجر نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ اس حدیث سے ایک مجلس کی تین طلاق کے جواز پر استدلال اس بات سے ہے کہ جب حضرت عویمر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک مجلس میں تین طلاق دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکیر نہیں فرمائی، اگر تین طلاق دینا (ایک مجلس میں) ناجائز اورحرام ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور نکیر فرماتے، قطع نظر اس سے کہ فرقت تو نفس لعان سے ہوگئی یا نہیں، ان کی بیوی محل طلاق تھی یا نہیں۔ (دیکھئے : فتح الباری: ۹/۳۶۷)

۶- سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ جب حضرت علی شہید کردئیے گئے تو حسن بن علی کی بیوی عائشہ خثعمیہ نے آکر حضرت حسن سے کہا: آپ کو خلافت مبارک ہو، حضرت حسن نے کہا: امیرالمومنین کی شہادت پر مجھے مبارک باد دیتی ہے، جا! تجھے طلاق دیتا ہوں (ایک روایت میں تین طلاق کا ذکر ہے۔ دیکھئے : دارقطنی: ۴/۳۰) اور حضرت حسن نے کہا: اگر میں نے اس کو طلاق بائن نہ دی ہوتی تو میں اس سے رجعت کرلیتا، مگر میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو آدمی اپنی بیوی کو تین طلاق دے ہر طہر میں ایک طلاق، یا ہر مہینے کے شروع میں ایک طلاق یا بیک وقت (ایک مجلس میں) تین طلاق دے تواس کے لیے وہ عورت حلال نہ ہوگی یہاں تک کہ وہ دوسرے شوہر سے نکاح کرلے۔ (اخرجہ الدارقطنی: ۴/۳۱، والبیہقی: ۷/۳۳۶)

اس روایت سے معلوم ہوا کہ اکٹھی تین طلاق دے چکنے کے بعد رجوع کرنا ایسا ہی حرام ہے جیساکہ متفرق طور پر تین طہر میں تین طلاقیں دینے کے بعد حرام ہے، اگر دفعة تین طلاقیں دینے کے بعد بھی رجوع کی کوئی امکانی صورت باقی ہوتی تو حضرت حسن ضرور مراجعت فرمالیتے۔

اس حدیث پر جو اعتراض کیاگیا ہے وہ بقول مولانا شمس الحق صاحب عظیم آبادی غیرمقلد یہ ہے کہ اس کی سند میں دو راوی ضعیف ہیں، پہلا راوی عمروبن ابی قیس ہے اور دوسرا راوی سلمہ بن فضل ہے اور یہ بھی ان کے بقول ضعیف ہے۔ (دیکھئے: التعلیق المغنی علی الدارقطنی: ۴/۳۱)

لیکن غیرمقلد صاحب کا یہ اعتراض اصول حدیث کے پیش نظر کوئی وزن نہیں رکھتا اور مذکورہ حدیث حسن سے کسی طرح کم نہیں ہے؛ کیوں کہ عمروبن ابی قیس سے امام بخاری نے تعلیقاً روایت کیا ہے اور امام ابوداؤد، نسائی، ترمذی اور ابن ماجہ نے ان سے استدلال کیا ہے، ابن حبان اور ابن شاہین ان کو ثقات میں لکھتے ہیں اور امام بزار ان کو مستقیم الحدیث سے یادکرتے ہیں۔ (ملاحظہ ہو: تہذیب التہذیب: ۸/۹۴)

اسی طرح سلمہ بن فضل کی امام ابن معین نے ایک روایت میں توثیق کی ہے، علامہ ابن سعد ان کو ”ثقہ صدوق“ کہتے ہیں، امام ابوداؤد بھی ان کو ثقہ کہتے ہیں، امام احمد فرماتے ہیں کہ مجھے ان کے بارے میں خیر ہی معلوم ہے۔ (دیکھئے : تہذیب التہذیب لابن حجر: ۴/۱۵۳)

آثار صحابہ

ایک مجلس کی تین طلاق کے جواز اور وقوع پر احادیث صحیحہ مرفوعہ سے استدلال کے بعداب ہم صحابہ کرام کے فتاویٰ اورآثار کو ذکر کررہے ہیں کہ صحابہ کرام نے مجلس کی تین طلاق کو ایک نہیں مانا ہے بلکہ تین مانا ہے اور وہ آثار درج ذیل ہیں:

۱- مجاہد کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاق دیدی ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما خاموش رہے، مجاہد کہتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ ابن عباس بیوی کو اس آدمی کے نکاح میں لوٹادیں گے، پھر ابن عباس نے کہا: تم لوگ حماقت کا کام کرتے ہو، پھر آکر چلاتے ہو اے ابن عباس، اے ابن عباس، اللہ فرماتا ہے: ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجاً، اور تم اللہ سے نہیں ڈرے اسلئے میرے یہاں تمہارے لئے کوئی سبیل نہیں ہے، تم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور تمہاری بیوی تم سے جدا ہوگئی۔ (اخرجہ ابوداؤد:۲۱۹۷، والدارقطنی: ۴/۱۳)

۲- حضرت سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاق دیدی، حضرت ابن عباس نے کہا: تمہارے لئے کافی تھا کہ تین طلاق دیدیتے اور بقیہ نو سو ستانوے ترک کردیتے۔ (دارقطنی: ۴/۱۲)

۳- مدینہ میں ایک مسخرے آدمی نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاق دیدی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس استفتاء آیا، آپ نے کہا - کہ کیا تم نے اپنی بیوی کو طلاق دی ہے، اس آدمی نے کہا نہیں، میری نیت طلاق - کی نہیں تھی میں تو مذاق کررہا تھا، حضرت عمر نے اس کو کوڑے لگائے اور کہا کہ تین طلاق دیناکافی تھا۔ (عبدالرزاق فی ”المصنف“ ۱۱۳۴۰، والبیہقی: ۷/۳۳۴)

۴-ایک آدمی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاق دی ہے، آپ نے فرمایا: تین طلاق نے بیوی کو تم پر حرام کردیا۔ یعنی بقیہ نوسو ستانوے لغو ہوگئیں۔ (بیہقی: ۷/۳۳۵)

۵- محمد بن ایاس کہتے ہیں کہ: ابن عباس، ابوہریرہ اور عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہم تینوں سے اس شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے اپنی بیوی کو قبل الدخول طلاق دے دی، تینوں نے کہا: عورت اس کے لیے حلال نہیں ہے جب تک کہ دوسرے شوہر سے شادی نہ کرلے (ابوداؤد:۲۱۹۹) بیہقی کی روایت میں یہ زیادتی ہے کہ : ابن عباس اور ابوہریرہ نے اس آدمی کی مذمت نہیں کی کہ اس نے تین طلاق کیوں دی اور نہ ہی عبداللہ بن عمرو نے یہ کہا کہ تین طلاق دے کر تم نے بہت برا کام کیا۔ (اخرجہ البیہقی: ۷/۳۳۰)

۶- حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی تماضر بنت الاصبغ کو کلمہ واحدة (ایک مجلس میں) تین طلاق دیدی، عبدالرحمن کے شاگرد ابوسلمہ کہتے ہیں کہ کسی روایت سے ہمیں یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ کسی صحابی رسول نے آپ پر نکیر کی ہے۔ (دارقطنی: ۴/۱۲)

۷- مسلمہ بن جعفر احمسی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے استاذ جعفر بن محمد سے پوچھا کہ : بعض حضرات کہتے ہیں کہ جس نے نادانی میں بیوی کو طلاق دے دی تواس کو سنت کی طرف لوٹایا جائیگا، یعنی ایک طلاق واقع ہوگی اور اس بات کو آپ سے روایت کرتے ہیں۔ جعفر بن محمد نے کہا: اللہ کی پناہ چاہتا ہوں، ہم نے اس طرح کی بات نہیں کہی ہے بلکہ جس نے تین طلاق دی تواس کے قول کا اعتبار ہوگا۔ یعنی تین طلاق واقع ہوگی۔ (اخرجہ الامام البیہقی: ۷/۳۴۰)

طلاق ثلاثہ کے ان ناقابل تردید حقائق و شواہد کے باوجود، ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک ماننے پر اصرار کے پس پردہ نفسانی خواہشات کی پیروی کے علاوہ اور کون جذبہ ہوسکتا ہے۔ اور اب تو مسلمانوں کا ایک روشن خیال طبقہ مسلم پرسنل لا میں تبدیلی کا مطالبہ بھی کرنے لگا ہے اور بڑے جذباتی انداز میں تین طلاق کے حکم کو کالعدم قرار دینے اور عورتوں کو طلاق کا حق دینے کی تحریک چلارہا ہے، ایسے تجدد پسندوں میں تقلید کے مخالفین نمایاں نظر آتے ہیں۔

اگر ایسے دانشور حضرات واقعی مسلمانوں کے ہمدرد ہوتے اور اسلام کی حقیقت پر دل سے ایمان رکھتے تو طلاق ثلاثہ کو ختم کرنے کا مطالبہ کرنے کے بجائے مسلمانوں میں دینی بیداری پیدا کرنے کی تحریک چلاتے کہ تین طلاق دینا اگرچہ جائز ہے لیکن اسلام نے اس حرکت کو مبغوض ترین عمل قرار دیا، اس جائز پر عمل نہ کرنا ہی افضل ہے کسی ایسے عمل کے جواز سے جس کی قباحت بھی واضح انداز میں بیان کردی گئی ہے بچنا اصل امتحان اور دینی بیداری کا ثبوت ہے، مگر جدید ذہن کے دانشوروں کو تو اسلام میں تحریف کرنے کا اتنا ارمان ہے کہ وہ کسی طرح سے بھی اسلام کو جدید نصرانیت سے ہم آہنگ کرنے کے مشتاق ہیں ان کو اسلام کی کاملیت اور جامعیت پر فخر نہیں بلکہ مغربیت کی نقالی کرنے اور اسلامی قوانین پر اعتراض کرکے اپنے آپ کو روشن خیال مسلمان ثابت کرنے کا جنون ہے۔

ان حضرات سے میری تو یہی گذارش ہے کہ رسماً اسلام کو تھامے رکھنے کی بجائے یہ نفس پرست مفکرین اپنا کوئی نیا راستہ ہی اختیار کرلیں نہ مسلمانوں کو ان کے مشوروں کی ضرورت ہے نہ اسلام کو ان کی حاجت ہے نہ ہی ایسے افراد مغربیت کیلئے موزوں ہیں اسلئے کہ خمیر میں ہندستانیت ہے، مزاج میں مغربیت ہے، زبان پر مسلمانوں سے ہمدردی اور دل میں لیڈرشپ اور اقتدار کی ہوس۔ یہ زرخرید ذہن والے صرف اخبار کی سرخیوں میں رہنے اور ملت کے نام پر فتنہ انگیزی میں مشغول رہنے کے شوقین ہیں۔ بہرحال یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ایسے افراد ہر دور میں گذرے ہیں۔

جہاں تک عورت کو حق طلاق دینے کی بات ہے تو اسلام نے کب منع کیا ہے، اگر آپ واقعی اتنے حساس ہیں تو اپنی بیوی کو حق طلاق تفویض کردیجئے اپنے بچوں کو حکم دیں کہ وہ نکاح کرتے وقت اپنی بیوی کو طلاق دینے کا اختیار سونپ دیں۔ پھر عورت کی بالادستی کا یورپی منظر اپنے گھروں میں عملاً دیکھیں۔ انشاء اللہ ایک بھی عالم دین نہیں کہنے جائے گا کہ آپ نے عورت کو طلاق دینے کا حق کیوں دیدیا ہے۔

رہ گئی یہ بات کہ علماء کرام قانون بناکر عورتوں کو اسلام کی طرف سے طلاق دینے کا ویسا ہی حق دیدیں جیسا کہ یورپ میں یہ کورٹ میرج میں مرد و عورت دونوں کو ایک دوسرے کو طلاق دینے کا حق ہوتا ہے، تو اسلام بہرصورت ایسا حق عورتوں کو نہیں دے سکتا وہ مردوں کو قوام کہتا ہے تواس کے بعد عورتوں کو قوام بنانا خلاف فطرت بھی ہے اور خلاف عقل بھی ہے۔ پہلے یہ دانشوران قوم مرد و عورت کی تخلیقی حقیقت، مزاج و طبیعت کو سنجیدگی سے مطالعہ و تحقیق کے ذریعہ جانیں پھر اس موضوع پر لب کشائی کریں.
از: ابوطلحہ قاسمی خیرآبادی
http://darululoom-deoband.com/urdu/articles/tmp/1464411231%2004-Ek%20Majlis%20Ki%20Tin%20Talaq_MDU_05_May_2005.htm

____________________________