Sunday, 23 September 2018

مولانا ابو الکلام کا ایک خط امامِ انقلاب عبیداللّٰلہ سندھی کے نام

مولانا ابو الکلام کا ایک خط امامِ انقلاب عبیداللّٰلہ سندھی کے نام
مولانا ابو الکلام آزاد نے اپنے ایک خط میں امامِ انقلاب عبیداللّٰلہ سندھی کی بے مثل خدمات اور وفات حسرت آیات کا نقشہ کچھ یوں کھینچا ہے،
یہ خط ماہنامہ الرحیم حیدرآباد ماہ جولائی اگست 1968ء میں مطبوعہ ہے اور یہ مولانا سندھی رحمہ اللہ کے نواسے مولانا میاں ظہیر الحق دین پوری کے نام لکھا گیا تھا، ملاحظہ فرمائیں:
’’دہلی
15 ستمبر 47ء
عزیز القدر مولوی ظہیر الحق دین پوری سلمہٗ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ نے آزادی پر مبارک باد کا پیغام بھیجا۔ شکریہ! خط پڑھتے ہی مولانا عبید اللّٰلہ سندھی رحمۃ اللّٰلہ علیہ کی یاد آئی اور اس طرح آئی کہ صدائے درد زبان تک پہنچی اور زبان نے نوک قلم کے حوالہ کیا۔ قصہ بہت طویل ہے اسے مختصر کیا جاتا تب بھی وقت سازگاری نہیں کرتا۔
1914ء کی عالمگیر جنگ کے ایام تھے۔ ولی اللّٰہی قافلہ کے امیر حضرت مولانا محمود حسن قدس سرہٗ نے انتہائی نامساعد حالات میں مولانا عبید اللّٰلہ سندھی کو کابل بھیج دیا۔ ان کو وہاں مختلف ممالک کے سیاسی رہنماؤں سے مل کر کام کرنے کا موقع ملا۔ ان مین جرمن ، فرانسیسی اور جاپانی سیاستدان چند ایک ایسے بھی تھے جو آج اپنے اپنے ملک میں برسر اقتدار ہیں اور عنانِ حکومت انہی کے ہاتھ میں ہے۔یہ لوگ اس وقت کے سیاسی رفیق یا مشیر ہیں کہ جب مولانا نے کابل میں حکومت مؤقتہ قائم کی خود اس کے وزیر ہند منتخب ہوئے اور ریشمی خطوط کی تحریک چلا کر برٹش حکومت کو للکارا اور میدانِ جنگ میں شکست دے کر اپنا مؤقف منوایا۔ برطانوی نمائندہ نے جنگ کے خاتمہ پر مصالحتی دستاویز پر دستخط کرتے ہوئے حکومت کابل کی خود مختاری کا اعلان کیا۔ ہندوستان کے مطالبۂ آزادی کو تسلیم کیا اور بتدریج ہند کو چھوڑ دینے کی وضاحت کر دی۔ اس کا انتقام برٹش حکومت نے امیر امان اللّٰلہ خان سے لے لیا ، مگر مولانا عبید اللّٰلہ سندھی رحمۃ اللّٰلہ علیہ کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔ یہ مولانا کا ذاتی سیاسی اثر تھا جس سے وہ مرعوب تھی۔
پچیس سال کی جلا وطنی کے بعد 1939ء میں جب یہاں پہنچے تو دوسری جنگ کا آغاز تھا۔ انہوں نے اپنی تحریک کانگرس میں پیش کرنے کے لئے میدان ہموار کیا۔ گاندھی جی تک نے اس تحریک کی مخالفت کی۔ اس کے باوجود ہندوستان چھوڑ دو کا نعرہ ہاؤس نے مار دیا اور اس کی گونج بیکنگھم پیلس سے ٹکرائی۔ یہ سب کچھ مولانا نے باہر بیٹھ کر کیا۔ کسی بھی بحث میں حصہ نہیں لیا اور نہ ہی کبھی کسی اجلاس میں شرکت کی، یہ فن صرف وہی جانتے تھے۔
ایک ملاقات میں چائے پر میں نے ان کے چہرہ سے کچھ ایسا تاثر قبول کیا کہ جس کی بنا پر ان سے پوچھ بیٹھا فرمایا کہ چاہتا ہوں سوبھاش اسی وقت باہر چلے جائیں۔ کچھ دیر خاموش ہو کر رخصت ہوئے اور اوکھلے اپنی قیام گاہ پر چلے گئے۔ دوسرے دن اوکھلے سے دہلی کو ملانے والی آٹھ میل لمبی سڑک کے ایک ویران گوشہ میں سوبھاش سے ان کی ملاقات ہو گئی۔ دوسری ملاقات ان کی بالی گنج کلکتہ میں ہوئی۔ اسی ہی ملاقات میں اسے جاپان جانے کیلئے رخصت کیا۔ حکومت جاپان کے نام وزیر ہند حکومت مؤقتہ کی حیثیت سے اسے ایک شناختی کارڈ دیا اور وہاں کے فوجی بورڈ کے سربراہ کے نام اپنا ذاتی پیغام۔ سوبھاش کے وہاں پہنچنے پر حکومت جاپان نے فوج میں ان پر اپنے اعتماد کا اعلان کیا۔ ادھر اعلان ہونا تھا کہ ادھر احمد نگر کے قلعہ سے کانگرس ہائی کمان کی رہائی بلا شرط منظور کر لی گئی ، ورنہ حکومت کا یہ فیصلہ تھا کہ پورے قلعہ کو بمع سیاسی قیدیوں کے بم سے اڑا دیا جائے۔ ساتھ ہی ہند کی آزادی کا اعلان کر دیا اور ہم آزاد ہو گئے ، کون جانتا ہے کہ کس کی قربانیاں ہیں؟
جاپانی حکومت نے حضرت مولانا پر اعتماد کیا۔ اس جرم کی سزا اسے ہیروشیما میں بھگتنی پڑی۔ حضرت مولانا کو ایسا زہر دیا کہ جس نے ان کی ہڈیوں سے کھال کھینچ لی۔پھر ان کی دونوں آنکھیں نکال لیں اور 22 اگست 1944ء کو اس مقام میں پہنچے جو پہلے ہی دن سے اللّٰلہ تعالیٰ نے ان کے لئے اپنے حضور میں مخصوص کر رکھا تھا یُدْخِلُھُمُ الْجَنَّۃَ عَرَّفَھَالَھُمْ۔ اس وقت آسمان اشک بار تھا۔ زمین رو رہی تھی۔ ہندوستان سوگوار تھا۔ جرمن اور جاپان کا علمی اور سیاسی طبقہ بھی شریکِ ماتم تھا , مگر حکومت برطانیہ نے اس خبر کو افواہ سمجھا۔ تاج کے حکم سے وائسرائے ہند کے ذریعہ ایک تحقیقاتی محکمہ قائم ہوا۔ اس نے برطانیہ کے تمام سفارت خانوں سے رابطہ قائم کیا۔ تب کہیں جا کر اطمینان نصیب ہوا اور یکم ستمبر 45ء کو پورے ایک سال نو دن بعد سرکاری طور پر اس امر کی تصدیق کی کہ مولانا واقعی فوت ہو گئے ہیں۔
ایک انقلابی کو ترازو کے ایک پلڑے میں ڈال دیں اور پوری دنیا کو دوسرے پلڑے میں تو وہ ایک پوری دنیا پر بوجھل ہوتاہے۔ اب صرف ایک بات باقی ہے اور اس یاد کے ساتھ غم ، غم صرف اس کا نہیں کہ یہ لوگ جدا ہو گئے۔ غم اس کا ہے کہ وہ دنیا ہی مٹ گئی جس دنیا کی یہ مخلوق تھے۔ ہم اس کاروانِ رفتہ کے پسماندگان رہ گئے ہیں۔ جنہیں نہ تو قافلہ کا سراغ ملتا ہے نہ منزل سے آشنا ہو سکتے ہیں۔ نہ ہمیں کوئی پہچانتا ہے نہ ہم کسی کے شناسا ہیں۔ فَمِنْھُمْ مَنْ قَضَیٰ نَحْبَہٗ وَمِنْہُمْ مَنْ یَّنْتَظِرْ۔ آزادی صد مبارک، ان شہداء کو اور اللّٰلہ تعالیٰ کی کروڑوں رحمتیں ان کی تربت پر ہوں۔ میں خیریت سے ہوں۔ الحمد للّٰلہ اپنی خیریت سے مطلع کرتے رہا کریں۔ والدہ صاحبہ کی خدمت میں سلام عرض کر دیں!
والسلام۔
ابو الکلام۔‘‘

مسئله حقہ، بیڑی، سگریٹ وغیرہ پینا کیسا ہے

مسئله حقہ، بیڑی، سگریٹ وغیرہ پینا کیسا ہے

(سوال ۲۷۰) مجالس الا برار کی تیسویں مجلس میں لکھا ہے کہ حقہ پینا ناجائز اور حرام ہے اور اس کے لئے عقلی ونقلی دلائل پیش کئے گئے ہیں۔ لیکن دور حاضر کا اہل علم طبقہ حقہ نوشی میں مبتلا ہے۔ کیا اب کوئی صورت جواز کی نکل آئی ہے؟ بالتفصیل جواب فرمایئے کہ عام بیماری ہے۔ بینوا توجروا۔

(الجواب) جس حقہ میں ناپاک یا نشہ آور چیزیں نوش کی جاتی ہیں وہ بالا تفاق حرام ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں، لیکن جس حقہ، بیڑی سگریٹ وغیرہ تمباکو نوشی کا رواج ہے اس کی حرمت متفق علیہ نہیں ہے۔ اکثر علماء فقہاء کی رائے جواز کی ہے۔ ’’شامی‘‘ میں ہے۔
فیفھم حکم التنباک وھو اباحۃ علی المختار والتوقف وفیہ اشارۃ الی عدم تسلیم اسکارہ وتفتیرہ واضرارہ (ج۵ ص ۴۰۷ کتاب الا شربۃ)
یعنی اصل اشیاء میں اباحت یا توقف ہے اس قانون کے مطابق تمباکو کا حکم سمجھ سکتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ مختار قول کے مطابق اباحت ہے یا توقف اور اس میں اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ یہ نشہ آور اور فتور پیدا کر نے والا اورضرر رساں نہیں ہے۔(شامی) مگر تمباکو نوشی سے منہ میں بدبو پیدا ہوتی ہے لہذا صحیح ضرورت کے بغیر حقہ نوشی وغیرہ کراہیت سے خالی نہیں۔ تمباکو بنفسہ مباح ہے۔ اس میں کراہیت بدبو کی بنا پر عارضی ہے کراہت تحریمی ہو یا تنزیہی۔ بہر حال قابل ترک ہے۔ اس کی عادت نہ ہونی چاہئے۔ اس کی کثرت اسراف اور موجب گناہ ہے۔ جو لوگ ہر وقت کے عادی ہیں ان کا منہ ہمیشہ بدبو دار رہتا ہے جس سے آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو بہت زیادہ نفرت تھی حدیث میں ہے:۔
عن ابی سعید الخدری ان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم مر علی زراعۃ بصل ھو واصحابہ فنزل ناس منھم فاکلوا منہ ولم یا کل اخرون فرحنا الیہ فدعا الذین لم یاکلوا البصل واخر الا خرون حتی یذھب ریحھا۔
یعنی حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہماجمعین پیاز کے کھیت کے قریب سے گذرے ۔ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وہاں ٹھہر گئے۔ ان میں سے بعض نے اس میں سے کھایا اور بعض نے نہیں کھایا پھر سب بارگاہ نبوی میں پہنچے تو آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہم اجمعین نے پیاز نہ کھانے والوں کو قریب بلایا اور پیاز کھانے والوں کو بدبو زائل ہونے تک پیچھے بٹھایا۔ (صحیح مسلم ج۱ ص ۲۰۹باب نہی عن اکل سوم اوبصل الخ) شریعت میں منہ کی صفائی کے متعلق نہایت تاکید اور فضیلت وارد ہے۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے۔
السواک مطھرہ للفم ومرضاۃ للرب
یعنی۔ مسواک۔ منہ کی پاکی کا ذریعہ ہے اور رب ذوالجلال کی خوشنودی کا سبب۔ (مشکوٰۃ شریف ص ۴۴ باب السواک)
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کا بیان ہے کہ آنحضرت ﷺ جب باہر سے تشریف لاتے تو اولا مسواک کرتے تھے (مسلم شریف ج۱ ص ۱۲۸)
اکثر تمباکو نوش حضرات منہ کی صفائی کا خیال نہیں رکھتے ۔ جب دیکھے منہ میں بیڑی، سگریٹ ہوتی ہے ۔ مسجد کے دروازہ تک پیتے چلے جاتے ہیں بقیہ حصہ کو پھینک کر مسجد میں داخل ہوتے ہیں، شاید کوئی مسواک کرتا ہوگا یا منجن استعمال کرتا ہوگا۔ محض کلی پر اکتفا کر کے نماز شروع کر دیتے ہیں ۔ کہیں ایسوں کے ساتھ نماز پڑھنے کی نوبت آجاتی ہے نماز پڑھنی دشوار ہوجاتی ہے آنحضرتﷺ کا ارشاد ہے کہ جو کوئی اس بدبودار درخت (پیاز یا اس کی آل) کو کھائے وہ (منہ صاف کئے) بغیر (توکا نبائی جائے) ہماری مسجد کے قریب نہ آئے کہ جس چیز سے آدمی کو تکلیف ہوتی ہے فرشتوں کو بھی اس سے تکلیف ہوتی ہے (مسلم شریف ج۱ ص ۲۰۹ ایضاً) فقہاء کرام تحریر فرماتے ہیں کہ بدبو دار چیز کھانے، پینے کے بعد منہ صاف کئے بغیر مسجدو مدرسۂ عید گاہ، نماز جنازہ پڑھنے کی جگہ اور مجلس تعلیم اور وعظ و تبلیغی اجتماعات میں شریک ہونا مکروہ ہے (نووی شرح مسلم ج۱ ص ۲۰۹ ایضاً) مسلمانوں کا کون سا وقت ذکر اﷲ اور ذکر رسول اﷲﷺسے خالی رہتا ہے ۔ قدم قدم پر بسم اﷲ الخ السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ درود ودعا،سبحان اﷲ ،الحمد ﷲ، اﷲ اکبر، ماشاء اﷲ، لا حول ولا قوۃ الا باﷲ ، استغفر اﷲ انا اﷲ الخ مصافحہ کے وقت یغفر اﷲ، چھینک پر الحمد ﷲ یر حمکم اﷲ یہدیکم اﷲ وغیرہ وغیرہ ورد زبان رہتا ہے ، لہذا حتی الوسع منہ کی صفائی ضروری ہے ۔ خدائے پاک کے ہزارہا احسانات اور فضل و کرم ہے کہ اس نے اپنے رسول اﷲ ﷺ کے مقدس و مبارک نام لینے کی ہمیں اجازت دی ہے ۔ --------------------------------------------------
(۶) مفتی عزیز الرحمن صاحب کا دوسر افتویٰ:۔ (الجواب) تمباکو کھانا، پینا، سونگھنا مباح ہے مگر غیر اولیٰ جس کا حاصل یہ ہے کہ مکروہ تنزیہی ہے اور تجارت تمبا کو کی درست ہے۔
(فتاویٰ دارالعوم دیو بند ج۷۔۸ص۲۳۶) ---------------------------------------------
(۷) حضرت مفتی شفیع صاحب کا فتویٰ البتہ اگر بلاضرورت پیئے تو مکروہ تنزیہی ہے اور ضرورت میں کسی قسم کی کراہت نہیں۔ منہ صاف کرنا بدبو سے ہر حال میں ضروری ہے۔ (فتاویٰ درالعلوم دیو بند (ج۷۔۸ ص۲۹۲) فتاوی رحیمہ جلد 10 کا مضمون ہے.

Saturday, 22 September 2018

مشکلوں پریشانیوں، غموں، تفکرات سے بچاؤ کی دعائیں

مشکلوں پریشانیوں، غموں، تفکرات سے بچاؤ کی دعائیں


[۱] اَللّٰہُمَّ عَافِنِیْ فِیْ بَدَنِیْ اَللّٰہُمَّ عَافِنِیْ فِیْ سَمْعِیْ اَللّٰہُمَّ عَافِنِیْ فِیْ بَصَرِیْ لَا إِلٰہَ إلاَّ أَنْتَ.

اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْکُفْرِ وَالْفَقْرِلَا إِلٰہَ إِلاَّ أَنْتَ.

اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ لَا إِلٰہَ إِلاَّ أَنْتَ.

اَللّٰہُمَّ رَحْمَتَکَ أَرْجُوْ فَلَا تَکِلْنِیْ إِلٰی نَفْسِیْ طَرْفَۃَ عَیْنٍ وَأَصْلِحْ لِیْ شَأْنِیْ کُلَّہُ لَا إِلٰہَ إِلاَّ أَنْتَ.(سنن ابی داؤد، رقم ۵۰۹۰)

اے اللہ، میرے بدن میں راحت وعافیت دے، اے اللہ، میرے کانوں اور میری آنکھوں میں آرام دے۔ تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں۔

اے اللہ، میں کفر اور فقر سے تیری پناہ میں آنا چاہتا ہوں۔ تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں۔

اے اللہ، میں عذاب قبر سے تیری پناہ میں آنا چاہتا ہوں۔ تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں۔

اے اللہ، میں تیری رحمت کا امیدوار ہوں، تو پلک جھپکنے کے برابر وقت کے لیے بھی مجھے میرے قابو میں نہ کر، میرے سارے کے سارے معاملے کو درست فرما دے۔ تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں۔

یہ پہلی دعا ہے۔یہ چار دعاؤں پر مشتمل ہے۔ اس میں اپنے معاملات کی درستی کے لیے دعا ہے۔جسم اور اس کے بعض حصوں کی عافیت کی دعا اس میں مانگی گئی ہے۔ غربت اور اس سے پیدا ہونے والی ناشکری سے پناہ مانگی گئی ہے۔

دنیا کی تکلیف آخرت کی تکلیف کی یاددہانی ہے، اس لیے عذاب قبر اور دوزخ کے عذاب سے بھی پناہ مانگی گئی ہے۔

تکلیف میں آدمی اپنے جذبات کی رو میں بَہ سکتا ہے۔ آخر میں یہ دعا کی گئی ہے کہ میں ایک لمحے کے لیے اپنے جذبات کی رو میں بہنے نہ پاؤں۔

مختصریہ کہ تکلیف میں دین، ایمان کی سلامتی اور تکلیف کے ازالہ کی دعا ہے۔

[۲] أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ الَّذِیْ لَا إِلٰہَ إِلَّا ہُوَ، اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ. وَاأَتُوْبُ إِلَیْہِ.(المستدرک، رقم ۲۵۵۰)

میں اللہ سے مغفرت چاہتا ہوں، جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ، وہ زندہ و قیوم ہے۔ میں اس کی طرف لوٹتا ہوں۔

تکالیف میں آدمی کو بہت سے مواقع پر محسوس ہوتاہے کہ میرا ہی قصور تھا، اس موقع پر یہ دعا کرسکتا ہے۔

[۳] اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْہَمِّ وَالْحُزْنِ وَالْعَجْزِ وَالْکَسَلِ وَالْبُخْلِ وَالْجُبْنِ وَضَلَعِ الدَّیْنِ وَغَلَبَۃِ الرِّجَالِ.(بخاری، رقم ۲۷۳۶)

اے اللہ، میں غم او ر حزن سے، عاجزی اور کسل مندی سے، بخیلی اور بزدلی سے، قرض کی کثرت اور قرض داروں کے دباؤ سے تیری پناہ میں آنا چاہتا ہوں۔

اس میں نفسیاتی امراض سے شفا کی دعا کی گئی ہے، جن میں غلط قسم کے غم، حزن، بے بسی کی کیفیت،حق گوئی یا حق کی ادائیگی کے معاملے میں بزدلی، عزیزوں اور غریبوں میں مال خرچ کرنے میں بخیلی سے پناہ مانگی گئی ہے۔

دعا کے آخر میں قرض سے نجات کی دعا ہے اور اس بات سے نجات کی دعا ہے کہ وہ لوگ میرے اوپر ہجوم کریں جن کا قرض میں نے دینا ہو۔

[۴] اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ عَبْدُکَ ابْنُ عَبْدِکَ ابْنِ أَمَتِکَ، نَاصِیَتِیْ بِیَدِکَ، مَاضٍ فِیَّ حُکْمُکَ عَدْلٌ فِیَّ قَضَاؤُکَ أَسْأَلُکَ بِکُلِّ اسْمٍ ہُوَ لَکَ سَمَّیْتَ بِہِ نَفْسَکَ أَوْ أَنْزَلْتَہُ فِی کِتَابِکَ أَوْ عَلَّمْتَہُ أَحَدًا مِّنْ خَلْقِکَ أَوِ اسْتَأْثَرْتَ بِہِ فِی عِلْمِ الْغَیْبِ عِنْدَکَ أَنْ تَجْعَلَ الْقُرْآنَ رَبِیعَ قَلْبِیْ وَنُوْرَ بَصَرِیْ وَجِلاَءَ حُزْنِیْ وَذِہَابَ ہَمِّی. (صحیح ابن حبان، رقم۹۷۲)

اے اللہ، میں تیرا بندہ، تیرے ایک بندے ہی کا بیٹا، اور تیری ایک بندی ہی کی اولاد ہوں، میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے، تیرا حکم مجھ پر جاری ہے۔ (یعنی میں تیرا فرمان بردار ہوں،) میرے بارے میں تیر ا ہر فیصلہ عادلانہ ہے(یعنی میں تیری لکھی ہوئی تقدیر پر راضی ہوں)۔ میں تیرے ہر اس نام کے واسطے سے تجھ سے جو نام تو نے اپنے لیے پسند کیا یا اس کو اپنی کسی کتاب میں نازل کیایا اپنی خلق میں سے کسی کو سکھایا یا اسے اپنے غیب کے لیے ہی خاص رکھا، یہ سوال کرتا ہوں کہ توقرآن کو میرے لیے بادبہاری بنا دے،اسے میری آنکھوں کا نور بنادے،میرے غم کو علاج بنا دے، اور میرے ملا ل کا مداوابنا دے۔

اس میں خدا کے بارے میں غلط ردعمل سے بچنے کے لیے دعا کی گئی ہے۔اس میں مشکل میں شکوہ کرنے کے بجائے اپنے آپ کو خدا کے سپرد کر دینے کی دعا ہے۔ آخر میں یہ دعا کی گئی ہے کہ اے اللہ، قرآن مجید کے علم کو میرے لیے مفید بنا دے تاکہ میں اپنے غم میں اس کی دی ہوئی بصیرت اور فراست سے مدد لے کر تیر ے اوپر ایمان کی پختگی پاؤں اور دنیا میں اپنی آزمایش میں کامیابی کے لیے ہدایت حاصل کروں۔ اس کے باوجود کہ مشکلیں مجھے چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہوں۔

[۵] اَللّٰہُمَّ أَنْتَ رَبِّیْ لَا إِلٰہَ إِلاَّ أَنْتَ خَلَقْتَنِیْ وَأَنَا عَبْدُکَ وَأَنَا عَلٰی عَہْدِکَ وَوَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ أَبُوْءُ لَکَ بِنِعْمَتِکَ عَلَیَّ وَأَبُوْءُ لَکَ بِذَنْبِیْ فَاغْفِرْ لیْ فَإِنَّہُ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ إِلاَّ أَنْتَ. (بخاری، رقم ۵۹۴۷)

اے اللہ، توہی میرا رب ہے۔ تیرے سوا کوئی الہ نہیں ہے۔تو میرا خالق ہے، سو میں تیرا بندہ ہوں۔جس قدر ہمت ہے میں تیرے ساتھ اپنے وعدے اور معاہدے پر قائم ہوں۔ البتہ (جو خطا کروں) اس کی برائی سے تیری پناہ میں آنا چاہتاہوں۔ اپنے اوپر تیری نعمتوں کا پوری طرح اعتراف کرتا ہوں۔ اپنے گناہوں کا تیرے حضور میں اقرار کرتا ہوں، سو تو مجھے بخش دے۔ (تجھ سے اس لیے کہہ رہا ہوں کہ) تیر ے سوا گناہوں کو کوئی معاف نہیں کرسکتا۔

یہ توبہ اور گناہوں کے اعتراف کی دعا ہے تا کہ جن کوتاہیوں کی وجہ سے آفت آئی ہے، وہ بھی ٹل جائے اور آخر ت میں بھی سرخ روئی حاصل ہو۔دعا کے شروع میں اس بات کا اقرار ہے کہ اس مشکل کے باوجود اے اللہ، میں تیرے ساتھ بندگی کے عہد پر قائم ہوں۔

[۶] أَمْسَیْنَا وَأَمْسَی الْمُلْکُ لِلّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ لَا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ. اَللّٰہُمَّ أَسْأَلُکَ خَیْرَ ہٰذِہِ اللَّیْلَۃِ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ ہٰذِہِ اللَّیْلَۃِ وَشَرِّ ما بَعْدَہَا اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْکَسَلِ وَسُوْءِ الْکِبَرِ اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابٍ فِی النَّارِ وَعَذَابٍ فِی الْقَبْرِ. (مسلم، رقم۲۷۲۳)

شام آئی ہم پر بھی اور خدا کے اس ملک(دنیا )پر بھی۔ خدا کا شکر، وہ اکیلا الٰہ ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ اے اللہ، میں آپ سے اس رات کاخیر طلب کررہا ہوں، اور اس رات میں ہونے والی برائی سے پناہ مانگتا ہوں، اور ہر اس بات کی برائی سے بھی پناہ چاہتا ہوں جو اس رات کے بعد ظاہر ہو۔ اے اللہ، میں کسل مندی اور بڑھاپے کی خرابی سے پناہ چاہتا ہوں۔ اور آگ کے عذاب اور قبر کی سختیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔

اس میں خوف سے نجات کی دعا ہے جو مستقبل میں محسوس ہورہا ہے۔ساتھ ہی کسل مندی سے پناہ مانگی ہے، جو دنیا کمانے اور نیکی کمانے میں رکاوٹ بنتی ہے۔ کسل مندی کی آخری انتہا بڑھاپے کی نا توانی ہے اس سے بھی پناہ مانگی ہے۔ بڑھاپے کی یاد موت کی یاددلاتی ہے، اس لیے پھر مرنے کے بعد کی تکالیف سے نجات کی دعا مانگی ہے۔

[۷] اَللّٰہُمَّ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ عَالِمَ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ لَا إِلٰہَ إِلاَّ أَنْتَ رَبَّ کُلِّ شَیْءٍ وَمَلِیْکَہُ أَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ وَمِنْ شَرِّ الشَّیْطَانِ وَشِرْکِہِ وَأَنْ أَقْتَرِفَ عَلٰی نَفْسِیْ سُوْءً ا أَوْ أَجُرَّہُ إِلٰی مُسْلِمٍ.(ترمذی، رقم۳۵۲۹)

اے اللہ، اے زمین و آسمان کے بنانے والے، اے وہ جو ہر چھپی بات کو بھی جانتا ہے اور ظاہری باتوں کو بھی، تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں تو ہر چیز کا آقا و رب ہے، تجھ سے میں اپنے ہی شر سے پناہ چاہتا ہوں اور شیطان کی برائی اور شرکت سے بھی۔ اور اس بات سے بھی بچنا چاہتا ہوں کہ میں اپنے لیے کوئی برائی کروں یا کسی دوسرے مسلمان سے۔

غم و غصے میںآدمی بسا اوقات اپنا نقصان کرلیتا ہے، اس چیز سے پناہ مانگی گئی ہے اور شیطان کے حملے سے، اس لیے کہ شیطان کے لیے ہمیں گمراہی پر ڈالنے کا بہترین موقع یہی غم و غصہ اورخوف وغیرہ کی حالت ہوتی ہے۔ پھر انسان اپنے لیے اور دوسروں کے لیے بھی نقصان کا باعث بن جاتا ہے۔ دعا کے آخر میں اس سے بھی پناہ کی دعا کی گئی ہے۔

[۸] بِاسْمِ اللّٰہِ الَّذِیْ لَا یَضُرُّ مَعَ اسْمِہِ شَیْءٌ فِی الْأَرْضِ وَلَا فِیْ السَّمَاءِ. وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ. (سنن النسائی الکبری، رقم۹۸۴۳)

اس ذات کے نام سے جس کے سہارے کے ہوتے ہوئے کوئی چیز آسمانوں کی ہو یا زمینوں کی، نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ وہ ہر بات سننے والی اور ہر چیز کوجاننے والی ذات ہے۔

کسی ایسی چیز ، شخص یا عمل جس سے نقصان کا اندیشہ ہو، اس سے پناہ اس انداز میں مانگی گئی ہے کہ اپنا عقیدہ بیان ہو گیا ہے کہ اللہ کے سہارے (اور) عنایت کے ہوتے ہوئے بھلا کون سی چیز اپنا برا اثر ڈال سکتی ہے۔ آخر میں مزید تسلی اس بات سے حاصل کی گئی ہے کہ اللہ ہر چیز سے واقف ہے، یعنی میری حالت سے بھی واقف ہے اور اس چیز سے بھی واقف ہے جس سے مجھے نقصان ہونے والا ہے۔

[۹] أَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ.(مسلم، رقم۲۷۰۸)

میں اللہ کے احکامات کاملہ کے ذریعے سے ہر مخلوق کے شر کی پناہ چاہتا ہوں۔

یہ اللہ تعالیٰ کے کلمات کی پناہ کی دعا ہے۔ اللہ کے کلمات سے مراد کلمۂ کن جیسے الفاظ ہیں، یعنی میں چاہتا ہوں کہ اللہ میری حفاظت اور تکلیف دور کرنے کے لیے اپنے کلمۂ کن سے میری مدد کرے۔

[۱۰] اَللّٰہُمَّ بِکَ أَصْبَحْنَا وَبِکَ أَمْسَیْنَا وَبِکَ نَحْیَا وَبِکَ نَمُوْتُ وَإِلَیْکَ النُّشُوْرُ.(ابی داؤد، رقم۵۰۶۸)

اے اللہ، ہم تیرے نام سے صبح کرتے اور تیرے نام سے شام کرتے ہیں۔ تیرے نام سے زندہ رہیں گے اور تیرے نام سے وفات پائیں گے اور جواب دہی کے لیے سب کو تیری طرف ہی جمع ہونا ہے۔

یہ بھی خدا کے فیصلوں پر راضی رہنے اور صبح و شام اللہ کی عنایتوں کو مانگنے کی دعا ہے۔

[۱۱] اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَسْأَلُکَ خَیْرَ الْمَوْلِجِ وَخَیْرَ الْمَخْرَجِ بِسْمِ اللّٰہِ وَلَجْنَا وَبِسْمِ اللّٰہِ خَرَجْنَا وَعَلَی اللّٰہِ رَبِّنَا تَوَکَّلْنَا.(ابی داؤد، رقم۵۰۹۶)

اے اللہ، میں تجھ سے داخل ہونے اورنکلنے کے مواقع کی بھلائی کا طلب گار ہوں، اللہ ہی کے نام سے ہم داخل ہوئے اور اللہ ہی کے نام سے ہم نکلے، اور ہمارا بھروسا اللہ رب العزت ہی پر ہے۔

یہ گھر یادفتر یا کسی جگہ آتے جاتے وقت کی دعا ہے کہ اللہ ہمیں اس جگہ جاتے وقت اور اس سے نکلتے وقت اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ کاموں کے اندر شمولیت کے وقت بھی یہ دعا کی جاسکتی ہے۔

[۱۲] اَللّٰہُمَّ اہْدِنِیْ وَسَدِّدْنِیْ.(مسلم، رقم۲۷۲۵)

اے اللہ ، مجھے ہدایت بخش اور میرے معاملے کو سیدھا کردے۔

مشکل مواقع پر یا مشکل کاموں میں ہدایت اور معاملات کے صحیح ہونے کی دعا ہے۔

[۱۳] اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَسْأَلُکَ الْعَافِیَۃَ فی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ

اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَسْأَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِیْ دِیْنِیْ وَدُنْیَایَ وَأَہْلِیْ وَمَالِیْ اَللّٰہُمَّ اسْتُرْ عَوْرَتِیْ وَآمِنْ رَوْعَاتِیْ

اَللّٰہُمَّ احْفَظْنِیْ مِنْ بَیْنِ یَدَیَّ وَمِنْ خَلْفِیْ وَعَنْ یَمِینِیْ وَعَنْ شِمَالِیْ وَمِنْ فَوْقِیْ وَأَعُوْذُ بِعَظَمَتِکَ أَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحْتِیْ.(سنن ابی داؤد، رقم۵۰۷۴)

اے اللہ، میں تجھ سے عافیت مانگتا ہوں، اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔

اے اللہ، میں تجھ سے عفو و درگزر اور عافیت کا طلب گار ہوں ، دینی اور دنیوی معاملات میں، اپنے گھر اور اپنے مال کے بارے میں، اے اللہ، میری کمزوریوں کو ڈھانپ اور میرے خوف و حزن کو مامون بنا دے۔

اے اللہ، مجھے میرے دائیں بائیں، آگے پیچھے اور اوپر سے آنے والے خطرات سے بچا اور میں اس سے تیری پناہ میں آتا ہوں کہ پاؤں کے نیچے سے اچانک حادثے کا شکار کردیا جاؤں۔

اس دعا میں دنیااور آخرت کی عافیت مانگی گئی ہے۔ پھر دین اور دنیا کی عافیت طلب کی گئی ہے۔ پھر اپنے گھر والوں کی صحت اور عافیت کی دعا ہے۔ پھر اپنے مال اور کاروبار کی عافیت کی دعا ہے۔

پھر رازوں اور کمزوریوں کے چھپانے کی دعا ہے۔

اس کے بعدیہ دعا کی گئی ہے کہ میرے غم اور خوف سے جو برائی میرے اوپر آسکتی ہے، اس سے مجھے نجات دے۔

اس کے بعد اپنے دائیں ، بائیں، آگے، پیچھے، اوپر، نیچے، بلکہ ہر طرف سے مشکلات اور آفات سے نجات کی دعا مانگی گئی ہے۔

[۱۴] اَللّٰہُمَّ أَلْہِمْنِیْ رُشْدِیْ وَأَعِذْنِیْ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ.(کنز العمال، رقم۵۰۸۴)

اے اللہ، مجھے میری رشد و ہدایت الہام کردے اور مجھے اپنی ہی خرابی سے بچنے کے لیے اپنی پناہ عطا کر۔

آدمی جہالت اور جذبات میں غلط راہ اختیار کرکے یا اپنے غلط اقدام سے اپنے لیے مصیبتیں کھڑی کر لیتا ہے، ان سے پناہ کی دعا کی گئی ہے کہ میں خود ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑی نہ مارلوں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کہتے ہیں: ’أمن یجیب المضطر اذا دعاہ‘، ’’جب اللہ کوکوئی مجبور آدمی پکارتا ہے تو بھلا کون ہے اللہ کے سوا جو اس کا جواب دے گا۔

‘*****المعجم الکبیر۶/ ۵*****

اس کے معنی یہ ہیں کہ مشکلات میں پھنسا ہوا بندہ جب اللہ کو پکارتا ہے تو اللہ اس کی مدد کرتا ہے اور اس کی تکلیف کا ازالہ کردیتا ہے۔ تکالیف میں اللہ کو پکارنا پسندیدہ چیز ہے۔

یہ سب دعائیں مشکلات پریشانیوں سے عافیت (یعنی بچاؤ) کے لئے ہیں اگر اپنی ذہنی پریشانیوں کا اس مختصر سی تحریر سے مداوا کرسکیں تو میرے لیے اللہ بزرگ و برتر سے عافیت دارین کی دعا کریں، اس لیے کہ یہ فقیر اس عافیت کا بہت محتاج ہے۔

اے اللہ، ہمارے لیے اس علم کو نافع بنا دے۔ آمین

اسلام میں کھانے کے کیا آداب ہیں؟

اسلام میں کھانے کے کیا آداب ہیں؟

الحمد للہ:

شریعتِ اسلامیہ میں کھانے پینے کہ آداب مختلف اقسام میں ہیں:

اول: کھانے سے پہلے کے آداب:

1- کھانے سے قبل دونوں ہاتھوں کو دھونا: کھانے سے پہلےدونوں ہاتھوں کو دھونا چاہئے، تا کہ دونوں ہاتھ کھانے کے دوران صاف ستھرے ہوں، کہیں پہلے سے موجود ہاتھوں پر میل کچیل کی وجہ سے نقصان نہ ہو۔

2- جب انسان کھانے پر کسی کی طرف سے مدعو ہو، اور کھانے کے بارے میں نہ جانتاہوتو میزبان سے کھانے کی نوعیت کے بارے میں پوچھ سکتا ہے، خاص طور پر جب اسے پیش کئے جانے والے کھانے کے بارے میں دلی اطمینان نہ ہو، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس وقت تک کھانا تناول نہیں فرماتے تھے جب تک آپکو کھانے کا نام نہ بتلادیا جاتا، اس بارے میں صحیح بخاری میں ہے کہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے -آپ رضی اللہ عنہا ان کی اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی خالہ لگتی ہیں- ان کے پاس بھنا ہوا سانڈا دیکھا، جو اِن کی بہن حفیدہ بنت حارث نجد سے لے کر آئی تھیں، میمونہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سانڈا پیش کیا اور بہت کم ایسا ہوتا تھا کہ آپ اپنا ہاتھ کسی کھانے کی طرف بڑھاتے یہاں تک کہ آپکو کھانے کے بارے میں بتلا دیا جاتاکہ یہ کیا ہے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ سانڈے کی طرف بڑھایا، تو جو خواتین آپ کے پاس موجود تھیں ،ان میں سے ایک نے آپ کو بتایا کہ جو آپ کی بیویوں نے پیش کیا ہے یہ تو سانڈا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ سانڈے سے کھینچ لیا، تو خالد بن ولید نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا سانڈا حرام ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (نہیں) لیکن میری قوم کے علاقے میں یہ نہیں پایا جاتا اور میری طبیعت اسکو ناپسند کرتی ہے، خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے اس کو اپنی طرف کھینچ لیا اور اس کو کھایا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری طر ف دیکھ رہے تھے۔ بخاری ( 5391 ) اورمسلم ( 1946 )

ابن تین کہتے ہیں :آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس لئے پوچھا کرتے تھے کہ عرب کسی چیز کو کھانے میں کراہت محسوس نہیں کرتے تھے، کیونکہ انکے پاس کھانے پینے کی قلت رہتی تھی، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ چیزوں سے کراہت محسوس کرتے تھے، اس لئے آپ پوچھ لیا کرتے تھے، اور اس بات کا بھی احتمال ہے کہ شریعت میں کچھ حیوانات حلال ہیں اور کچھ حرام ، اور عرب کسی جانور کو حرام نہیں جانتے تھے، تو جو چیز بُھون کر یا پکا کر پیش کی جارہی ہے اس کے بارے میں پوچھ کر ہی معلوم کیا جاسکتا تھا اس لئے آپ پوچھتے تھے۔

" فتح الباری " ( 9 / 534 )

3- میزبان کی طرف سے جب کھانا پیش کردیا جائے تو جلدی سے کھانا شروع کردیں، اس لئے کہ مہمان کی عزت افزائی اسی میں ہے کہ جلدی سے اسکے لئے کھانا پیش کردیا جائے، اور میزبان کے سخی ہونے کی علامت ہے کہ وہ جلدی سے کھانے کو قبول کرے، اس لئے کہ اُن کے ہاں اگر کوئی مہمان کھانا نہ کھائے تو اسکے بارے برا گمان کرتے تھے، چنانچہ مہمان پر لازمی ہے کہ وہ میزبان کے دل کو جلدی سے کھانا شروع کرتے ہوئے مطمئن کردے۔

4- کھانے سے قبل بسم اللہ پڑھنا: کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا واجب ہے، اور بسم اللہ سے مراد کھانے کی ابتدا میں صرف "بسم اللہ" ہی ہے، چنانچہ ام کلثوم عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو اللہ کا نام لے، اور اگر اللہ تعالی کا نام لینا ابتدا میں بھول جائے تو کہے: "بِسْمِ اللَّهِ أَوَّلَهُ وَآخِرَهُ"اول و آخر اللہ کے نام سے ) ترمذی ( 1858 ) ابو داود ( 3767 ) وابن ماجه ( 3264 ) ، البانی رحمہ اللہ نے اسے " صحيح سنن ابو داود " ( 3202 ) میں صحیح کہا ہے۔

اسی طرح عمر بن ابو سلمہ سے روایت ہے کہ میں جب چھوٹا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں بیٹھا تھااور میرا ہاتھ پوری تھالی میں گھوم رہا تھا، تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لڑکے! اللہ کا نام لو، اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ، اور جو تمہارے سامنے ہے اس میں سے کھاؤ) بخاری ( 3576 ) ومسلم ( 2022 )

دوم: کھانے کے دوران کے آداب:

1- دائیں ہاتھ سے کھانا: مسلمان پر دائیں ہاتھ سے کھانا واجب ہے، بائیں ہاتھ سے کھانا منع ہے، چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(تم میں سے کوئی بھی بائیں ہاتھ سے نہ کھائےپیئے، اس لئے کہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا اور پیتا ہے) مسلم ( 2020 )

یہ اس شکل میں ہے جب کوئی عذر نہ ہو، لہذا اگر کوئی عذر ہو جسکی وجہ سے دائیں ہاتھ سے کھانا پینا ممکن نہ ہو، جیسے بیماری، یا زخم وغیرہ ہے تو بائیں ہاتھ سے کھانے میں کوئی حرج نہیں۔

نیز اس حدیث میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ انسان اُن تمام کاموں سے پرہیز کرے جو شیطانی کاموں سے مشابہت رکھتے ہوں۔

2- اپنے سامنے موجود کھانے میں سے کھانا:انسان کیلئے مسنون ہے کہ اپنے سامنے موجود کھانے میں سے کھائے، اور دوسروں کے سامنے سے ہاتھ بڑھا کر نہ اٹھائے، اور نہ ہی کھانے کے درمیان میں سے، اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بن ابو سلمہ سے فرمایا تھا: (لڑکے! اللہ کا نام لو، اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ، اور جو تمہارے سامنے ہے اس میں سے کھاؤ) بخاری ( 3576 ) ومسلم ( 2022 )

ویسے بھی کھانے کے دوران اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے افراد کے سامنے سے کھانا کھانا بری عادت ہے، اور مُروَّت کے خلاف ہے، اور اگر سالن وغیرہ ہوتو ساتھ بیٹھنے والا زیادہ کوفت محسوس کریگا، اسکی دلیل ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "برکت کھانے کے درمیان میں نازل ہوتی ہے، اس لئے کھانے کے کنارے سے کھاؤ درمیان سے مت کھاؤ"

ترمذی ( 1805 ) اور ابن ماجہ ( 3277 ) نے اسے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے " صحيح الجامع " ( 829 ) میں صحیح قرار دیا ہے۔

لیکن اگر کھانے کی اشیاء کھجوریں اور دیگر اسی قسم کی دوسری اشیاء ہوں تو علماء کے نزدیک تھالی وغیرہ سے ہاتھ کے ذریعے مختلف کھانے کی اشیاء لی جاسکتی ہیں۔

3- کھانے کے بعد ہاتھ دھونا: کھانے کے بعد صرف پانی سے ہاتھ دھونے پر سنت ادا ہو جائے گی ، چنانچہ ابن رسلان کہتے ہیں: اشنان-ایک جڑی بوٹی- یا صابن سے وغیرہ سے دھونا بہتر ہے۔ دیکھیں: " تحفة الأحوذی " ( 5 / 485 )

کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونا مستحب ہے چاہے انسان باوضو ہی کیوں نہ ہو۔

4- کھانے کے بعد کلی کرنا: کھانے سے فراغت کے بعد کلی کرنا مستحب ہے، جیسے کہ بشیر بن یسار سوید بن نعمان سے بیان کرتے ہیں کہ وہ صہباء نامی جگہ پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے -جو خیبر سے کچھ فاصلے پر ہے- تو نماز کا وقت ہوگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے کیلئے کچھ طلب کیا، لیکن سوائے ستو کے کچھ نہ ملا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی کھا لیا، ہم نے بھی ستو کھایا، پھر آپ نے پانی منگوایا اور کلی کی، اور پھر دوبارہ وضو کئے بغیر نماز پڑھی اور ہم نے بھی نماز ادا کی ۔ بخاری (5390)

5- میزبان کیلئے دعا: اس کے بارے میں انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن عبادہ کی طرف آئے تو انہوں نے آپ کیلئے روٹی اور زیتون کا تیل پیش کیا، آپ نے وہ تناول فرمایا اور پھر دعا دی: " أَفْطَرَ عِنْدَكُمْ الصَّائِمُونَ ، وَأَكَلَ طَعَامَكُمْ الْأَبْرَارُ ، وَصَلَّتْ عَلَيْكُمْ الْمَلائِكَةُ " تمہارے پاس روزہ دار افطاری کرتے رہیں، اور تمہارا کھانا نیک لوگ کھائیں، اور فرشتے تمہارئے لئے رحمت کی دعائیں کریں۔ ابو داود (3854) نے اسے روایت کیا ہے اور البانی نے " صحيح سنن ابو داود " ( 3263 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

6- تین انگلیوں سے کھانا کھانا: سنت یہ ہے کہ تین انگلیوں سے کھانا کھایا جائے، قاضی عیاض کہتےہیں: تین سے زیادہ انگلیاں کھانے کیلئے استعمال کرنا بری عادت ہے، اور ویسے بھی لقمہ پکڑنے کیلئے تین اطراف سے پکڑنا کافی ہے، اور اگر کھانے کی نوعیت ایسی ہو کہ تین سے زیادہ انگلیاں استعمال کرنی پڑیں تو چوتھی اور پانچویں انگلی بھی استعمال کی جاسکتی ہے۔ دیکھیں: " فتح الباری " ( 9 / 578 )

انگلیوں کا استعمال تو اسی وقت ہوگا جب ہاتھ سے کھائے، اور اگر چمچ کا استعمال کرے تو کوئی حرج نہیں ہے، جیسے کہ اسکی تفصیل آگے آئے گی۔

7- گرے ہوئے لقمے کو کھانا: اگر کھانا کھاتے ہوئے لقمہ گر جائے تو لقمہ اٹھا کر اس پر لگی ہوئی مٹی وغیرہ صاف کرکے اسے کھا لے اور شیطان کیلئے مت چھوڑے، کیونکہ یہ کسی کو نہیں پتہ کہ برکت کھانے کے کس حصے میں ہے، اس لئے یہ ممکن ہے کہ اسی لقمے میں برکت ہو جو گر گیا تھا، چنانچہ اگر لقمے کو چھوڑ دیا تو ہوسکتا ہے کہ اس سے کھانے کی برکت چلی جائے، اسکی دلیل انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کھانا کھاتے تو اپنی تینوں انگلیوں کو چاٹتے، اور آپ نے ایک بار فرمایا: (اگر تم میں سے کسی کا لقمہ گر جائے تو اس سے صاف کرکے کھا لے، شیطان کیلئے اسے مت چھوڑے) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ پلیٹ کو انگلی سے چاٹ لیں، اور فرمایا: (تمہیں نہیں معلوم کہ کھانے کے کس حصے میں برکت ہے) مسلم (2034)

8- کھانا کھاتے ہوئے ٹیک مت لگائے: اسکی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میں ٹیک لگا کر نہیں کھاتا) بخاری (5399)، ٹیک لگانے کی کیفیت میں اختلاف ہے ۔

چنانچہ ابن حجر کہتےہیں: "ٹیک لگانے کی کیفیت میں اختلاف کیا گیا ہے، کچھ کہتے ہیں: کھانے کیلئے کسی بھی طرح سے زمین پر پسر جانا اس میں شامل ہے، اور کچھ کہتے ہیں کہ: کسی ایک طرف ٹیک لگاکر بیٹھنا، اور یہ بھی کہا گیا ہےکہ : بائیں ہاتھ کو زمین پر رکھ کر اس پر ٹیک لگا کر بیٹھنا۔۔۔، ابن عدی نے ضعیف سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے کے دوران بائیں ہاتھ پر ٹیک لگا کر بیٹھنے سے ڈانٹ پلائی ہے۔ امام مالک کہتے ہیں کہ یہ ٹیک لگانے کی ایک شکل ہے، میں –ابن حجر-کہتا ہوں کہ: امام مالک کی اس بات میں اشارہ موجود ہے کہ جو بھی شکل ٹیک لگانے میں شامل ہوگی وہ مکروہ ہے، چنانچہ اسکے لئے کوئی خاص کیفیت نہیں ہے" انتہی از "فتح الباری" ( 9 / 541 )

9- کھانا کھاتے ہوئے بلا ضرورت نہ تھوکے۔

10- یہ بھی کھانے کے آداب میں شامل ہے کہ :

• سب مل کر کھانا کھائیں

• کھانے کے دوران اچھی گفتگو کریں

• چھوٹے بچوں اور بیویوں کو اپنے ہاتھ سے کھلائیں

• اپنے لئے کوئی کھانا خاص نہ کرے، ہاں اگر کوئی عذر ہوتو کیا جا سکتا ہے، جیسے کہ دوا کے طور پر، بلکہ بوٹی، نرم گرم روٹی وغیرہ دوسروں کو پیش کرکے اُنہیں اپنے آپ پر ترجیح دے

• مہمان کھانے سے ہاتھ ہٹانے لگے تو میزبان کے کہنے پر دوبارہ کھانا شروع کردے یہاں تک کہ اچھی طرح سیر ہوجائے، اور تین بار سے زیادہ ایسے نہ کرے

• دانتوں میں جو کھانا پھنس جائے اسے تنکے وغیرہ سے نکال دے، اور پھر اسے تھوک دے نِگلے مت۔

سوم: آداب برائے بعد از فراغت:

کھانے سے فراغت کے بعد الحمد للہ، اور دعا پڑھنا مسنون ہے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کھانے سے فارغ ہوتے او دستر خوان اٹھا لیا جاتا تو فرماتے:

• (الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ غَيْرَ مَكْفِيٍّ وَلا مُوَدَّعٍ وَلا مُسْتَغْنًى عَنْهُ رَبَّنَا)

ترجمہ:بہت زیادہ ، پاکیزہ اور برکتوں والی تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں ، لیکن یہ حمدوثناء اللہ کے لیے کافی نہیں ، نہ اللہ کو چھوڑا جاسکتا ہے اور نہ اس سے کوئی بے نیاز ہوسکتا ہے۔ اے ہمارے رب۔ بخاری ( 5458 )

• نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب دودھ کے علاوہ کچھ لیتے تو فرماتے:

" اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيهِ ، وَأَطْعِمْنَا خَيْرًا مِنْهُ "

ترجمہ: "یا اللہ !ہمارے لئے اس میں برکت ڈال دے، اور ہمیں اسے بھی بہتر کھانا کھلا"

• اور جب آپ دودھ نوش فرماتے تو کہتے:

" اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيهِ ، وَزِدْنَا مِنْهُ "

ترجمہ: "یا اللہ! ہمارے لئے اس میں مزید برکت ڈال دے، اور ہمیں اس سے بھی زیادہ عنائت فرما"

ترمذی نے اسے روایت کیا ہے( 3377 ) اور البانی نے اسے" صحيح الجامع " ( 381 ) میں حسن قرار دیا ہے۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جسے اللہ تعالی کھانا کھلائے تو کہے: " اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيهِ ، وَأَطْعِمْنَا خَيْرًا مِنْهُ "

یا اللہ !ہمارے لئے اس میں برکت ڈال دے، اور ہمیں اسے بھی بہتر کھانا کھلا، (اور جسے اللہ تعالی دودھ پلائے تو کہے: " اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيهِ ، وَزِدْنَا مِنْهُ "یا اللہ! ہمارے لئے اس میں مزید برکت ڈال دے، اور ہمیں اس سے بھی زیادہ عنائت فرما)

ترمذی ( 3455 ) نے اسے روایت کیا ہے اور البانی نے صحيح سنن ترمذی ( 2749 ) میں اسے حسن قرار دیا ہے۔

چہارم: کھانے عمومی آداب:

1- کھانے کے عیب نہ نکالے جائیں، چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی کھانے کے عیب نہیں نکالے، اگر اچھا لگا تو کھا لیا، اور پسند نہ آیا تو آپ چھوڑ دیتے تھے۔ بخاری ( 3370 ) اورمسلم ( 2046 )

یہاں کھانے سے مراد ایسا کھانا ہے جسکو کھانا جائز ہے، جبکہ حرام کھانے کے بارے میں اسکی مذمت فرماتے، اور اس سے روکتے بھی تھے۔

نووی کہتے ہیں:

"کھانے کے آداب میں سے ضروری یہ ہے کہ کھانے کے بارے میں یہ نہ کہاجائے: "نمک زیادہ ہے"، "کھٹا ہے"، " نمک کم ہے"، "گھاڑا ہے"، "پتلا ہے"، "کچا ہے"، وغیرہ وغیرہ۔

ابن بطال کہتےہیں:

یہ بہت اچھے آداب میں سے ہے، اس لئے کہ انسان کو کوئی چیز اچھی نہیں لگتی لیکن دوسروں کو پسند ہوتی ہے، جبکہ دونوں ہی شریعت میں جائز ہیں، کسی پر بھی شریعت کی طرف سے کوئی عیب نہیں ہے" " شرح مسلم " ( 14 / 26 )

2- میانہ روی سے کھانا کھانا اور مکمل طور پر پیٹ نہ بھرنا بھی کھانے کے آداب میں شامل ہے، اس کے لئے ایک مسلمان کو اپنے پیٹ کے تین حصے کرنے چاہئیں، ایک تہائی کھانے کیلئے، ایک تہائی پانی کیلئے اور ایک تہائی سانس لینے کیلئے، جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے: "کسی انسان نے اپنے پیٹ سے بُرا برتن کبھی نہیں بھرا ابن آدم کے لیے چند نوالے کافی ہیں جو اس کی کمر سیدھی رکھیں اور اگر زیادہ کھانا ضروری ہو تو تہائی پیٹ کھانے کے لیے، تہائی پینے کے لیے اور تہائی سانس کے لیے مختص کر دے" ترمذی ( 2380 ) ابن ماجہ ( 3349 ) البانی نے اسے صحيح ترمذی ( 1939 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔

جسم کو ہلکا پھلکا اور معتدل رکھنے کیلئے یہ ضروری ہے، کیونکہ زیادہ کھانے سے بدن بھاری ہوجاتا ہے، جس سے عبادت اور کام کرنے میں سستی آتی ہے، اور "تہائی " سے کھانے کی وہ مقدار مراد ہے جس سے انسان مکمل پیٹ بھر لے اسکا تیسرا حصہ ۔

" الموسوعة الفقہیہ الکویتیہ" ( 25 / 332 )

3- کھانے پینے کیلئے سونے اور چاندی کے برتن استعمال نہ کرے ، کیونکہ یہ حرام ہے، اسکی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: (موٹی اور باریک ریشم مت پہنو، اور نہ ہی سونے چاندی کے برتنوں میں پئو، اور نہ ہی اسکی بنی ہوئی پلیٹوں میں کھاؤ، اس لئے یہ کفار کیلئے دنیا میں ہیں اور ہمارے لئے آخرت میں ہیں) بخاری ( 5426 ) ومسلم ( 2067 )

و اللہ اعلم۔

4- کھانے سے فراغت کے بعد اللہ کی تعریف کرنا : اسکی بہت بڑی فضیلت ہے، چنانچہ انس بن مالک سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بے شک اللہ تعالی اپنے بندے سے راضی ہوتا ہے جب وہ ایک لقمہ کھائے تو اللہ کی تعریف کرے، یا پانی کا گھونٹ بھی پئے تو اللہ کی تعریف کرے" مسلم (2734)

اس کیلئے متعدد الفاظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں:

1- بخاری نے ابو امامہ سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دستر خوان اٹھایا جاتا تو فرماتے: " الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ غَيْرَ مَكْفِيٍّ وَلَا مُوَدَّعٍ وَلَا مُسْتَغْنًى عَنْهُ رَبَّنَا " اسے بخاری (5458) نے روایت کیا ہے۔

ابن حجر کہتے ہیں " غَيْرَ مَكْفِيٍّ" کے بارے میں کہا گیا ہے کہ: وہ ذات اپنے بندوں میں سے کسی کی محتاج نہیں ہے وہی اپنے بندوں کو کھلاتا ہے، اور اپنے بندوں کیلئے کافی ہے، اور "وَلَا مُوَدَّعٍ" کا مطلب ہے کہ اُسے چھوڑا نہیں جاسکتا۔

2- معاذ بن انس اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جو شخص کھانا کھائے اور پھر کہے:

"الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنِي هَذَا وَرَزَقَنِيهِ مِنْ غَيْرِ حَوْلٍ مِنِّي وَلَا قُوَّةٍ"

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جس نے مجھے یہ کھانا کھلایا، اور مجھے بغیر کسی مشقت اور تکلیف کے رزق سے نوازا۔اسکے سابقہ سارے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں۔

ترمذی ( 3458 ) وابن ماجہ ( 3285 ) ، البانی نے اسے " صحيح ترمذی " ( 3348 ) میں حسن قرار دیا ہے۔

3- ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کچھ کھاتے یا پیتے تو فرماتے:

(الحمدُ لله الذي أطعَمَ وسَقَى وسَوَّغهُ وجَعَلَ له مَخْرَجَاً)

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جس نے کھلایا اور پلایا اور اسے خوش ذائقہ بنایا، اور پھر اسکے لئے خارج ہونے کا راستہ بنایا۔ ابو داود نے اسے روایت کیا ہے( 3851 ) اور اسے البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔

4- عبد الرحمن بن جبیر کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آٹھ سال تک خدمت کرنے والے خادم نے بتلایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کھانا پیش کیاجاتا تھا آپ کہتے تھے: "بسم اللہ" اور جب فارغ ہوتے تو کہتے: " اللَّهُمَّ أَطْعَمْتَ وَأَسقَيْتَ، وَهَدَيْتَ، وَأَحْيَيْتَ، فَلَكَ الْحَمْدُ عَلَى مَا أَعْطَيْتَ"

ترجمہ: یا اللہ! توں نے ہی کھلایا، پلایا، ہدایت دی، اور زندہ رکھا، چنانچہ تیری ان عنائتوں پر تیرے لئے ہی تعریفیں ہیں ۔

مسند احمد ( 16159 ) اور البانی نے " السلسلة الصحيحة " ( 1 / 111 ) میں اسے صحیح کہا ہے۔

فائدہ: مذکورہ بالا حمدِ باری تعالی کے تمام الفاظ کو باری باری کہنا مستحب ہے، ایک بار ایک انداز سے اور دوسری بار دوسرے الفاظ سے اللہ کی تعریف کی جائے، اس سے ایک تو تمام الفاظ یاد رہیں گے، اور سب الفاظ کی برکت حاصل کر پائیں گے، اور اسکے ساتھ ساتھ ان الفاظ میں موجود معنی بھی ذہن میں رہے گا، کیونکہ جب انسان ایک ہی چیز کو عادت بنا لے تو اسکے معانی زیادہ تر ذہن میں نہیں آتے۔

ماخوذاز کتاب : "الآداب" مؤلف : شہلوب (155)  .
https://islamqa.info/ur/13348