Friday, 31 August 2018

حرف ضاد (ض) کو ادا کرنے کا درست طریقہ کیا ہے؟

حرف ضاد (ض) کو ادا کرنے کا درست طریقہ کیا ہے؟
سوال: حرف ضاد (ض) کو ادا کرنے کا درست طریقہ کیا ہے؟ کیا اس کو دال (د) یا ظاء (ظ) پڑھ سکتے ہیں؟
جواب: ضاد کے مخرج کو چھوڑ کر دال یا ظاء کے مخرج سے ادا کرنا جائز نہیں اور ضاد کا مخرج حافة اللسان یعنی زبان کی کروٹ اور اوپر کی داڑھوں کی جڑ ہے اور ظ کا مخرج زبان کی نوک ثنایا علیا کا کنارہ ہے۔ (مستفاد: کفایت المفتی قدیم ۲؍۹٦، زکریا مطول ۲؍٤٧٠، جدید زکریا مطول ۲؍٤٧٠)
أعلٰی حافة اللسان وما یحاذیہا من الضراس العلیا، یخرج منه الضاد المعجمة بشرط اعتماد رأس اللسان برأس العلیین الخ (زبدہ ترتیل القرآن ص:۳ - فتاوی قاسمیہ ٥٤١/٣)

○ کتاب النوازل (١٥٧/٢) میں ہے کہ
حرف ضاد کا ایک مستقل مخرج (حافۂ لسان یعنی زبان کی کروٹ) اور ایک خاص آواز ہے، اسی کے مطابق پڑھنا لازم وواجب ہے، اس لئے اگر کوئی شخص جان بوجھ کر ’"ضالین" کو دالین پڑھے گا، تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی، ہاں اگر کسی سے حرفِ ضاد ادا ہی نہ ہوتا ہو اور کافی کوشش کے باوجود دال نکل جائے، تو بحالت معذوری اس کی نماز ہوجائے گی؛ پس جان بوجھ کر ’"ضالین" کو "دالین" پڑھنا درست نہیں؛ لہٰذا پوری کوشش کی جائے کہ ضاد کو اس کے مخرج سے ادا کرے۔ (فتاویٰ رشیدیہ ۳۲۱، کمال الفرقان علی ہامش جمال القرآن ۳۰-۳۱)
استفتاء من علماء الحرمین الشریفین………
الجواب من شیخ القراء بالمدینۃ المنورۃ……، أن نہایۃ القول في الضاد ہو أنہا أقرب إلی الظاء فقط کما في الرعایۃ، وجُہد المقل وغیرہما، فقراء ۃ الفرقۃ الثالثۃ المسئولۃ في الاستفتاء صحیح، وأما کون الضاد شبیہۃ بالدال أو الغین، فما سمعنا بہ قط، ولا وُجد في کتاب، فمن صلی خلف الإمام یعتقد ذٰلک فصلاتہما باطلۃ۔ واللّٰہ علی ما نقول۔
والجواب من علماء المکۃ المکرمۃ……
فنقول إن الذي استقر علیہ رأي جمیع أہل الأداء من کتبہم أں الضاد والظاء اتفقتا في الاستعلاء والإطباق والتفخیم والجہر والرخاوۃ، واختلفتا في المخرج، وانفردت الضاد بالاستطالۃ، فإذاأعطیت للضادہٰہنا من مخرجہا وصفاتہا، فقد أوتیت بالثواب الذي لا محید عنہ عند علماء القراء ۃ، وحینئذ یکون بہا أثر شبہہ الظاء في التلفظ کما في نہایۃ القول المفید، وأما کون الضاد قریبۃً من الدال أو الغین في التلفظ فبعید عن الحق، واللّٰہ أعلم۔
*(رسالۃ إعلام العباد بحقیقۃ النطق بالضاد مع استفتاء علماء الحرمین الشریفین ونظم الضاد ۲۷-۲۸، رفع التضاد في أحکام الضاد للمفتي محمد شفیع العثماني ۱۱، فتاویٰ محمودیہ ڈابھیل ۳؍٤٨٨)

○ فتاوی ریاض العلوم (٢٦٤/٢) میں ہے کہ
الغرض حرف ضاد اپنے مخرج اور صفات کے اعتبار سے ظاء خالص اور دال پُردونوں سے بالکل جدا ایک الگ حرف ہے، اس کو جس طرح دال سے بدل کر عوام کی طرح پڑھنا غلطی ہے،اسی طرح ظاء خالص سے بدل کر (بعض قراء زمانہ کی طرح) پڑھنا صریح غلطی ہے، لیکن فساد نماز کے بارے میں فتویٰ اس پر ہے کہ اگر جان بوجھ کر یا بے پروائی سے باوجود قادر بالفعل ہونے کے، ایسا تغیر کرے کہ ضاد کی جگہ دال یا ظاء خالص پڑھے، تو نماز فاسد ہوجائے گی، اور اگر بوجہ ناواقفیت اور عدم تمیز ایسا سرزد ہوجائے اور وہ اپنے نزدیک یہی سمجھے کہ میں نے حرف ضاد پڑھا ہے تو نماز صحیح ہوجائے گی۔ (جواہر الفقہ:۱؍۳۳۸)
○ نظام الفتاوی (١٤٦/٥) میں ہے کہ
"ضاد" ایک مستقل حرف ہے جس کا ایک متعین مخرج ہے اور مستقل آواز ہے جو ظاء، دال، ذال، سب سے الگ ہے اور ’’دواد‘‘ کوئی حرف عربی میں نہیں اور نہ ’’دواد‘‘ پڑھنا صحیح ہے پس جو شخص ’’ضاد‘‘ کو اس کے صحیح مخرج سے پڑھتاہے تواس کی نماز خود اس کے پیچھے تمام مقتدیوں کی نماز بے شبہ صحیح ہوجاتی ہے اگر ’’ضاد‘‘ کو صحیح مخرج سے ادا کرتے ہیں تھوڑی سی مشابہت ’’ظاء‘‘ وغیرہ کی محسوس ہو لیکن یہ بھی محسوس ہوجائے کہ ’’ظاء‘‘ یا ’’دال‘‘ یا ’’ذال‘‘ یا’’ ز‘‘ نہیں ہے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
○ فتاوی دارالعلوم دیوبند (جواب ١٢٣٦٠) میں ہے کہ
ضاد، ایک مستقل حرف ہے اس کا مخرج دیگر حروف سے الگ ہے، بالقصدضاد کو نہ ظ پڑھنا جائز ہے اور نہ دال کی آواز سے نکالنا درست ہے، ضاد کو اپنے مخرج سے ادا کرنا لازم ہے، اور اس کی مشق ضروری ہے، البتہ اگر کوئی بالقصد ایسا نہ کرے بلکہ عدم تمیز اور ادائیگی پر قدرت نہ ہونے کی وجہ سےضاد کو ظ یا دال کی آواز کے ساتھ پڑھ دے تو فساد نماز کا حکم نہیں ہے اور صحیح ادائیگی کی کوشش ومشق کرتا رہے۔
واللہ اعلم بالصواب
-------------------------
حرف ضاد کاصحیح تلفظ اور مخرج
قرآن ِ کریم؛ اللہ تعالیٰ کا کلام بھی ہے اور اسی کی طرف سے نازل شدہ آخری کتاب بھی اور تاقیامت ہدایت و نجات کا ذریعہ بھی۔ اس کو پڑھنا ، پڑھانا ، سننا ،سنانا ، سمجھنا ، سمجھانا اور سب سے بڑھ کر اس پر عمل پیرا ہونارضائے الہی کا باعث ہے۔
قرآن کریم کے حروف کے صحیح تلفظ اور ادائیگی میں بالکل سستی نہیں برتنی چاہیے ، بہت سی صورتوں میں لفظ کی غلط ادائیگی میں ایک حرف دوسرے حرف میں بدل جاتا ہے اور نماز تک کے فاسد ہونا کا اندیشہ ہوتا ہے۔ انہی میں سے ایک صورت حرف” ضاد“ کی ہے۔ ایک حرف کو دوسرے حرف سے بدلنے یا ضاد کو ظاء سے بدل کر پڑھنے کا فقہی اختلاف متقدمین اور متاخرین فقہاء کرام میں مشہور چلا آرہا ہے لیکن بعض کم علم لوگ فقہاء کرام کے اختلاف کا ذکر کئے بغیرفقہ کی ایک مشہور کتاب محیط برہانی کا ایک حوالہ پیش کر کے لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جو آدمی حرف ضاد کو حرف ظاء کےمشابہ ادا کرتا ہے اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں۔
لیکن یہاں مسئلہ صرف ائمہ کا نہیں بلکہ عوام الناس کا ہے کیوں کہ حروف کی تصحیح صرف ائمہ نہیں بلکہ ہر ایک نمازی کے ذمہ ہے۔ اگرچہ اس مسئلہ میں بہت پرانا اختلاف ہے لیکن عموم بلویٰ)عوام کا اس میں کثرت سے مبتلا ہونے کی وجہ سے ( کی وجہ سے متاخرین فقہاء کے نزدیک اس خطا سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ عام لوگ اس میں مبتلاہیں اور وہ بغیر مشقت کے حروف کو درست ادا نہیں کر سکتے۔
امام حافظ الدین محمد بن محمد المعروف بابن البزاز الکردری الحنفی م827ھ لکھتے ہیں: ضابطہ یہ ہے کہ دو حرفوں میں اگر بلا تفریق فرق کرنا ممکن ہو جیسے صاد اور طا میں مثلاً صالحات کی جگہ طالحات پڑھ دیا تو سب کے نزدیک نماز فاسد ہوگی۔ اگر مشقت کے بغیر ممکن نہ ہو مثلاً ظاء اور ضاد ،صاد اور سین ، طاء اور تا اس میں فقہاء کا اختلاف ہے اکثر کے نزدیک نماز فاسد نہ ہوگی کیونکہ اس میں عموم بلویٰ ہے۔
)فتاویٰ بزازیہ ج1ص46(
چنانچہ علامہ محمد ابن عابدین الشامی الحنفی م 1252ھ لکھتے ہیں : جب دو حرفوں میں نہ تو اتحاد مخرج ہو اور نہ قرب؛ مگراس میں عموم بلویٰ) عام لوگ مبتلا ہوں( جیسے ذال کی بجائے ضاد یا ظاء کی بجائے ذال یا ظاء کی بجائے ضاد پڑھ دینا تو بعض مشائخ کے نزدیک نماز فاسد نہ ہوگی۔ پھر آگے فرماتے ہیں۔اگر جان بوجھ کر ایک حرف کو دوسرے حرف کی جگہ پڑھا تو نماز فاسد ہوگی۔ مختار قول یہی ہے اور فتاویٰ بزازیہ میں ہے : کہ درست تر اور مختار قول یہی ہے۔
)شامی زلۃ القاری ج1ص486(
نوٹ: یہی بات فتاویٰ عالمگیری جلد1ص83 فتاویٰ قاضی خان جلد1 ص70 پر بھی موجود ہے۔
ظاء اور ضاد میں فرق کرنا بہت مشکل ہے اور ان کی ادائیگی میں خاصی مشقت ہوتی ہے اس لیے فقہاء کے نزدیک نماز فاسد نہیں ہوگی۔ باقی حتی الوسع انسان کوشش کر ے کہ ہر حرف کو اس کے مخرج اور صفات کا خیال کرتے ہوئے ادا کرے۔
حضرات مفسرین نے بھی یہی بات تحریر کی ہے کہ اگر اس میں کوئی کمی رہ جاتی ہے تو معاف ہے کیونکہ یہ دونوں حروف قریب المخرج ہیں۔
)تفسیر ابن کثیر ج1ص30 روح المعانی وغیرہ(
شیخ القراء الشیخ مکی نصر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ضاد اور ظاء دونوں سننے میں ایک دوسرے کے مشابہ ہیں اور ان دونوں میں کوئی فرق نہیں بجز اس کے کہ ان دونوں کے مخرج جدا جدا ہیں اور ضاد کو پڑھتے وقت آواز لمبی کرنی پڑتی ہے۔ اگر یہ فرق نہ ہوتا تو دونوں ایک ہی حرف سمجھے جاتے۔
)ملخصاً نہایۃ القول المفید فی علم التجوید ص58(
امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ضاد اور ظا ءکے درمیان فرق کرے اگر نہیں کر سکتا تو جائز ہے۔
) اکسیر ہدایت اردو ترجمہ کیمیائے سعادت ص91(
ضاد کا مخرج :
حافۂِ لسان اور اوپر کی پانچ داڑھیں اس سے ضاد ادا ہوتا ہے۔ یعنی زبان کی کروٹ جب اوپر کی داڑھوں سے ٹکراتی ہے بائیں طرف یا دائیں طرف اور دونوں طرف سے بھی ادا کیا جا سکتا ہے مگر بہت مشکل ہے۔ بائیں طرف سے آسان ہے اس حرف کو ”حافیہ“ کہا جاتا ہے۔ اس حرف میں اکثر لوگ غلطی کرتے ہیں اس لیے کسی مشاق اور مجوّد قاری سے اس کی مشق کرنا ضروری ہے۔اس حرف کو پُر دال یا باریک دال یا دال کے مشابہ جیسا کہ آج کل اکثر لوگوں کے پڑھنے کی عادت ہے ایسا ہر گز نہیں پڑھنا چاہیے یہ بالکل غلط ہے۔
اسی طرح خالی ظا ءپڑھنا بھی غلط ہے البتہ اگر ضاد کو اس کے صحیح مخرج سے صحیح طور پر نرمی کے ساتھ آواز کو جاری رکھ کر اور تمام صفات کا لحاظ کر کے ادا کیا جائے تو اس کی آواز سننے میں ظاء کی آواز کے ساتھ بہت زیادہ مشابہ ہوتی ہے۔ دال کے مشابہ بالکل نہیں ہوتی۔ علم تجوید اور قرأت کی کتابوں میں اسی طرح لکھا ہے۔
)جمال القرآن ص 8(
فقہاء، مفسرین اور قراء کرام کی اس وضاحت کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ ضاد کی آواز ظاء کے مشابہ ہوگی نہ کے دال کے مشابہ۔ مختلف فنون و علوم کی متعدد ماخذ ، مراجع اور مصادرکتب اس بات پر دلالت کرتی ہیں ، چنانچہ خیر ا لزاد فی سیر الضاد ص 5 پر ساٹھ سے زائد کتابوں کے حوالہ سے یہ بات ثابت ہے کہ ضاد یہ ظاء کے مشابہ ہے، ان کتابوں میں جزریہ ، شاطبیہ ، تفسیر کبیر ، تفسیر بیضاوی ، فتاویٰ عالمگیری ، فتاویٰ قاضی خان، درمختار، خلاصۃ الفتاویٰ، فتح القدیر وغیرہ شامل ہیں۔ اگرچہ ان دونوں میں فرق کرنا ایک مشکل اور دشوار امر ہے۔ لیکن محال ہر گز نہیں نہ عقلاً نہ عادۃً ان دونوں حرفوں کا آپس میں تشابہ اور بعض وجوہ میں اشتراک ایک واضح حقیقت ہے۔
چنانچہ شیخ القراء شیخ مکی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: بلا شبہ ضاد معجمہ اور ظا ءمعجمہ ) یعنی نقطوں والے( صفات جہر ، رخوت، استعلاء، اور اطباق میں دونوں شریک ہیں اور مخرج کے اعتبار سے دونوں جدا جدا ہیں اور صفت استطالت میں ضاد ممتاز ہے ) ظاءمیں یہ صفت نہیں( اور مرعشی ) کتاب کا نام( میں رعایۃ سے نقل کیا گیا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ دونوں حرف ضاد اور ظاء سننے میں ایک دوسرےکے مشابہ ہیں اور ان دونوںمیں سوائے اس کے اور کوئی فرق نہیں کہ ان کا مخرج جدا جدا ہے۔ اور ضاد میں صفت استطالت ہے اور ظا ء میں نہیں اگر یہ دونوں باتیں نہ ہوتیں تو دونوں ایک حرف ہوجاتے۔ تو ضاد بنسبت ظاء کے قاری پر زیادہ مشکل اور شاق ہوتا ہے یہاں تک کہ اگر قاری حرف ظاء کی تجوید میں ذرا سی کوتاہی کرے تو وہ ضاد بن جاتا ہے۔
)نہایۃ القول المفید فی علم التجوید ص 58(
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ضاداور ظاء کے مخرج میں فرق بہت مشکل ہے اس علاقہ میں رہنے والے اکثر پڑھنے والے ان دونوں کو ایک طرح سے نکالتےاور پڑھتے ہیں کہ نہ ضاد؛ ضاد رہتا ہے اور نہ ظاء؛ ظاء۔قرآن کریم پڑھنے والے کے لیے ضروری ہے کہ ان دونوں حرفوں کے مخرج کو جدا جدا پہچانے۔
)تفسیر عزیزی پارہ عمَّ تحت آیت وماھو علی الغیب بضین(
ان تمام حوالہ جات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ باوجود ہر دو حرفوں کے مخرج کے جداجدا ہونے کے ضاد سننے میں ظاء کے مشابہ ہے نہ کہ دال کے اور ان دونوں میں فرق خاصا مشکل ہے اور حضرت شاہ رحمہ اللہ کے حوالہ سے یہ بات بھی واضح ہوگئی ہے کہ ان کے زمانہ میں دہلی وغیرہ شہروں کے لوگ ضاد کو مشابہ ظا ء کے پڑھتے تھےنہ کہ دال کے۔
ضاد اور دال میں فرق:
ضاد اور دال میں سات صفات میں فرق ہے۔
ضاد رخوہ اور دال شدیدہ
ضاد مستعلیہ اور دال مستفلہ
ضاد مطبقہ اور دال منفتحہ
ضاد مخفمہ اور دال مرققہ
ضاد مستطلیہ اور دال قصیرہ
ضادمنفوخہ؛دال غیر منفوخہ
اورضاد ساکنہ اور دال قلقلہ
جبکہ ضاد اور ظاء میں مشابہت، تفسیر ، تجوید وقرات ، فقہ اورفتاویٰ وغیرہ کی ساٹھ سے زائد کتب سے ثابت ہے ،جن میں سے چند ایک اوپر نقل کر دی گئی ہیں۔
فقہ کا قاعدہ:
جن دو حرفوں میں فرق باآسانی ممکن ہو اس کے بدل جانے سے نماز فاسد ہوجاتی ہے اگر فرق کرنا مشکل ہو تو اکثر کے نزدیک نماز فاسد نہیں ہوتی اور یہی مذہب متاخرین کا ہے جو بہت معتدل اور پسندیدہ ہے۔ چنانچہ فتاویٰ قاضی خان میں ہے:اگر ولا الضالین کو ظا یا ذال سے پڑھا تو نماز فاسد نہ ہوگی اوراگرالدالین دال سے پڑھا تو نماز فاسد ہوجائےگی۔
)فتاویٰ قاضی خان ج1ص49(
ضاد مستقل حرف ہے اس کو کسی دوسرے حرف کے مشابہ قصداً نہیں پڑھنا چاہیے ظا ء کے ساتھ صفات میں زیادہ اشتراک ہے نماز کی صحت اور فساد معنیٰ کی صحت اور فساد اور قدرت ِ ادا پر موقوف ہے۔ جو شخص ضاد کو صحیح طور پر ادا کرنے پر قادر ہوکر اس جگہ دال پڑھے گا اس کی نماز نہیں ہوگی۔
)فتاویٰ محمودیہ ج7ص129سوال نمبر 3238(
ضاد کوڈال پڑھنے سے نماز نہ ہوگی کیونکہ ڈال عربی زبان کا حرف نہیں ، ضاد کی مشابہت دال یا ڈال سے بالکل نہیں کیونکہ ضاد حروف رخوہ میں سے ہے جن میں جریان صوت لازم ہے اور دال حروف شدیدہ میں سے ہے جن میں جریانِ صوت ممکن ہی نہیں دنیا بھر میں کوئی شخص بھی ضاد کو دال سے مشابہت دیکر اس میں جریان صوت نہیں کرسکتاعلم تجوید کے اصول کے مطابق یہی ایک دلیل کافی ہےجس کا جواب قیام قیامت تک ممکن نہیں اس اصولی دلیل کے بعد کسی دلیل کی ضرورت نہیں کسی میں طاقت ہے تودال میں جریان صوت کر کے دکھلائے۔(احسن الفتاویٰ ج3 ص90)
اس کے بعد جزریہ کی عبارت پیش کی ہے اس میں بھی یہی ہے کہ ضاد اور ظاء میں تمیز ضروری ہے۔ یہ بھی تشابہ کو مستلزم ہے اس کے بعد شرح فقہ اکبر اور جامع الفصولیین کی عبارات سے ثابت کیا ہے کہ ضاد کو ظاء پڑھنا جائز نہیں اور عمداً پڑھنا کفر ہے۔ ہمارا بھی یہی مسلک ہے کہ بلا عذر پڑھنا جائز نہیں۔
(احسن الفتاویٰ ج3 ص92)
مولانا محمد اشفاق ندیم


‏اچاریہ کلپنا بہن کی خدمت میں. آخری قسط

 ‏اچاریہ کلپنا بہن کی خدمت میں.  آخری قسط

ظالم کو ظلم سے روکنے کے لئے ہر مذہب میں جہاد کی اجازت دی گئی ہے، ہندو مذہبی تاریخ میں کورؤوں اور پانڈؤوں کی جنگ مشہور ہے، جس میں بے شمار لوگ تہ تیغ کر دیے گئے، شری رام جی نے راون سے جنگ کی، شیواور وشنو کے ماننے والوں کے درمیان ایسی بھیانک جنگ ہوئی، جس نے ڈھیر سارے لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا، رامائن، مہابھارت اور گیتا جنگ کے قصوں سے پُر ہیں، ہندو مذہب کی سب سے معتبر اور قدیم کتاب چار’’ ویدیں ‘‘ہیں، ان ویدوں میں جنگ کی ترغیب، دشمنوں کو نقصان پہنچانے کی تمنائیں اور جنگ میں اپنی کامیابی اور دشمن کو نیست ونابود کرنے کی دعائیں جگہ جگہ موجود ہیں؛ چنانچہ رِگ وید کا ایک منتر ہے: ’’تیر کمان کی مدد سے ہم مویشی حاصل کریں، تیر کمان کی مدد سے ہم لڑائی جیتیں، تیر کمان کی مدد سے اپنی گھمسان کی لڑائیوں میں فتح مند ہوں، تیر کمان دشمنوں کو غمگین کرتی ہے، اس سے مسلح ہو کر ہم تمام ممالک فتح کریں‘‘۔ 4 -1 :75:6) ) رِگ وید ہی میں ہے: ’’مجھ کو اپنے ہم سروں میں سانڈ بنا، مجھ کو اپنے حریفوں کا فتح کرنے والا بنا، مجھ کو اپنے دشمن کا قتل کرنے والا بااختیار حکمراں، مویشیوں کا مالک بنا‘‘، (1:165:10) یجروید میں آگ کے دیوتا سے اس طرح دعاء کی گئی ہے: ’’اے آگ ! تو جس کے شعلے تیز ہورہے ہیں، ہمارے آگے آگے پھیل جا، ہمارے دشمنوں کو جلا دے، اے بھڑکتی ہوئی آگ! جس نے ہمارے ساتھ بدی کی ہے تو اسکو سوکھی لکڑی کی طرح بالکل بھسم کر دے، اے اگنی! اُٹھ ، ان لوگوں کو بھگا دے، جو ہمارے خلاف لڑتے ہیں، اپنی آسمانی طاقت کا مظاہرہ کر‘‘ ۔(13-12:13) سام وید میں ایک منتر میں جنگ پر اُکساتے ہوئے کہا جاتا ہے: ’’اے بہادر! اے مال غنیمت لوٹنے والے! تو آدمی کی گاڑی کو تیز چلا، اے فاتح! ایک مشتعل جہاز کی طرح بے دین دسیوں کو جلا دے‘‘ ۔ (3:20:3:6) اتھرویدد میں کہا گیا ہے: ’’اے اگنی! تو یا تو دھانوں (غیر آریہ دشمنوں) کو یہاں باندھ کر لا اور پھر اپنی کڑک سے ان کے سروں کو پاش پاش کر دے‘‘ ۔ (7:7:1)
ہندو مذہبی مآخذ کے مطالعہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ وہاں ذات پات کی بنیاد پر اور اقتدار حاصل کرنے کے لئے جنگ کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے، ویدوں میں کثرت سے غیر آریہ اور نچلی ذات کے لوگوں کو تباہ وبرباد کر دینے کی ترغیب دی گئی ہے، اور ان سے جنگ کا حکم دیا گیا ہے، اسلام نے کبھی ذات پات کی بنیاد پر جہاد کی اجازت نہیں دی؛ بلکہ ظالموں کے پنجۂ ظلم کو تھامنے کے لئے جہاد کا حکم دیا ہے۔
ڈاکٹر کلپنا نے یہ بات بھی کہی ہے کہ’’ مسلمانوں کو ہمارے وجود ہی سے اختلاف ہے‘‘،— حالاں کہ ایسا نہیں ہے، اگر ایسا ہوتا تو جبراََ غیر مسلموں کو مسلمان بنانے کی اجازت ہوتی؛ لیکن قرآن مجید نے صاف صاف کہا ہے کہ دین کے معاملے میں کسی جبر کی گنجائش نہیں ہے: لا إکراہ في الدین قد تبین الرشد من الغي (بقرہ: ۲۵۶) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا گیا: أفأنت تکرہ الناس حتیٰ یکونوا مؤمنین ( یونس: ۹۹) کیا آپ لوگوں کو اس بات پر مجبور کردیں گے کہ وہ ایمان لائیں؟
قرآن مجید کی نظر میں اگرچہ دین ِحق توحید ہے؛ لیکن اس نے مختلف مذاہب اور مذہبی گروہوں کے وجود کو تسلیم کیا ہے؛ چنانچہ فرمایا گیا:
ولو شاء ربک لجعل الناس أمۃ واحدۃ ولا یزالون مختلفین (ہود: ۱۱۸-۱۱۹)
اگر تمہارا پروردگار چاہتا تو تمام لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا؛ لیکن ان میں برابر اختلاف باقی رہے گا۔
اسی طرح ایک اور موقع پر فرمایا گیا:
ولو شاء اللہ لجعلکم أمۃ واحدۃ، (مائدہ:۴۸)
اگر اللہ چاہتا تو تم لوگوں کو ایک امت بنا دیتا۔
ڈاکٹر کلپنا کو مساجد اورمدارس کے بارے میں بھی فکر ہے کہ مسجدوں اور مدرسوں میں کیا ہو رہا ہے؟ کاش، وہ آر ایس ایس کے کیمپوں کی فکر کرتیں، جہاںماردھار کی تربیت دی جاتی ہے، آر ایس ایس کے اسکولوں کا جائزہ لیتیں، جہاں بالکل بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی تاریخ پڑھائی جاتی ہے، اورمعصوم بچوں کے ذہن میں نفرت کا زہر اُنڈیلا جاتا ہے، مسجدوں اورمدرسوں کے دروازے تو کھلے ہوئے ہیں،کوئی بھی شخص اور کسی بھی وقت وہاں جا کر دیکھ سکتا ہے، مسجد میں سوائے عبادت کے کوئی اور عمل نہیں ہوتا، خدا کی عبادت سے انسان کے اندر تواضع اور جھکاؤ پیدا ہوتا ہے، اور دوسرے انسانوں کے ساتھ حُسن سلوک اور بہتر رویہ کا سبق ملتا ہے، مدرسوں میں جو کتابیں پڑھائی جاتی ہیں، آپ ان کے مضامین دیکھئے، اور صبح سے شام تک اساتذہ اور طلبہ کی جو مشغولیات ہوتی ہیں، انہیں ملاحظہ کیجئے، ان میں کہیں کوئی ایسا عمل نہیں پایا جاتا، جو دوسروں کے خلاف نفرت کے جذبات کو اُبھارنے والا ہو۔
انہوں نے ایک بات یہ بھی کہی ہے کہ اسلام میں ہماری ماؤں اور بہنوں کے ساتھ دُراچار( زیادتی) کے لئے کہا گیا ہے—-یہ کھلی ہوئی افتراء پردازی ہے، اسلام میں بلا امتیازِ مذہب عورتوں کی عزت وآبرو کے احترم کی تعلیم دی گئی ہے،مردوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی نگاہوں اور شرم گاہوں کی حفاظت کریں (نور: ۳۱) اس میں مسلمان اور غیر مسلم عورت کا کوئی فرق نہیں ہے، شریعت میں جو سزا کسی مسلمان عورت کی بے آبرو ئی کی ہے وہی سزا ایک غیرمسلم عورت کی آبروریزی کی بھی ہے، اور خواتین کا اس قدر لحاظ رکھا گیا ہے کہ عین حالت جنگ میں بھی عورتوں پر ہاتھ اُٹھانے سے منع فرمایا گیا ہے۔
اس بات پر بڑا افسوس ہوا کہ اسلام کی مذہبی تعلیمات کے بارے میں تو ڈاکٹر کلپنا کی معلومات بہت کم ہیں ہی؛ لیکن کم سے کم ہندوستان کی تاریخ سے تو ان کو واقف ہونا چاہئے تھا؛ لیکن اس میں بھی ان کے بے بنیاد دعووں سے سچائی کو شرمسار ہونا پڑتا ہے، انہوں نے کہا ہے کہ سارا ہندوستان آزادی کے لئے جوجھ رہا تھا اور مسلمان خلافت کے لئے، یعنی مسلمانوں نے آزادی کی لڑائی میں حصہ نہیں لیا، خلافت کے لئے کوشش کرتے رہے—-غور کیا جائے تو انیسویں صدی کے ختم تک آزادی کی لڑائی میں تشدد کا رنگ غالب رہا، جس میں لوگوں کا بہت زیادہ جانی ومالی نقصان ہوا، اس مرحلہ میں زیادہ تر مسلمانوں نے قربانیاں دیں، بیسویں صدی شروع ہونے کے بعد زیادہ تر پُر امن کوششیں ہوئیں، اور اس میں غیر مسلم بھائیوں کی بھی بڑی تعداد ملتی ہے، اگر ڈاکٹر کلپنا نے کم سے کم ڈاکٹر تارا چند ہی کی ’’تاریخ آزادی ٔ ہند‘‘ پڑھ لی ہوتی تو ایسی بے سروپا بات نہیں کہتیں، اور رہ گیا خلافت آندولن تو یہ تو صرف چند سال رہا، اور یہ بھی آزادی کی لڑائی کا ہی حصہ تھا، دوسری جنگ آزادی میں اتحادی قوتوں کی قیادت برطانیہ کے ہاتھ میں تھی، اور اس کے مقابلہ جرمن، جاپان اور تُرکی بڑی طاقتیں تھیں؛ اس لئے ہندوستان کے لوگوں کو فطری طور پر اِن ملکوں سے محبت تھی اور وہ امید رکھتے تھے کہ اِن ملکوں کی مدد سے انہیں آزادی حاصل ہو سکے گی؛ اس لئے اگر ان کو کوئی بھی ایسا موقع مل جاتا، جس میں برطانیہ کے خلاف ہندوستان کے باشندوں کو جمع کیا جا سکے تو وہ اس سے فائدہ اُٹھاتے تھے، خلافت عثمانیہ کو ختم کرنے میں چوں کہ برطانیہ کا بنیادی کردار تھا، اس پسِ منظر میں تحریک خلافت شروع ہوئی؛ اسی لئے تحریک خلافت میںمسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو بھی شامل ہوئے، اور مہاتما گاندھی جی تو اس تحریک میں قائدانہ رول ادا کر رہے تھے؛ اس لئے یہ کہنا کہ مسلمان جنگ آزادی کو چھوڑ کر تحریک خلافت کے پیچھے پڑے ہوئے تھے، مجاہدین آزادی کے ساتھ بڑا ظلم ہوگا۔
ڈاکٹر کلپنا نے یہ بھی کہا ہے کہ مسلمان چاہتے تھے کہ ایک خلیفہ بٹھائیں اور اسی کا راج چلے،— لیکن انہوں نے غور نہیں کیا کہ مسلمان خلیفہ کس خطہ کے لئے چاہتے تھے؟ انہوں نے ہندوستان کے لئے ایسا نہیں چاہا، تُرکی (جس میں اس وقت بیش تر اسلامی ممالک شامل تھے) میں خلافت کا احیاء چاہتے تھے؛ تاکہ انگریزوں کا زور توڑا جاسکے، اور ظاہر ہے کہ اس میں کوئی برائی کی بات نہیں ہے، کسی بھی ملک میں حکمراں تو ایک ہی ہوگا، اور اسی حکمراں کے تحت پورا نظام حکومت چلے گا، اس میں اعتراض کی کیا بات ہے؟ البتہ ان کو سمجھنا چاہئے کہ خلیفہ کسے کہتے ہیں؟ خلیفہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کا نائب ہو کر اپنی رعایا کے درمیان پورے عدل وانصاف سے حکومت قائم کرے، اور اپنا حکم نہ چلائے؛ بلکہ اللہ کے حکم کو نافذ کرے، یہ نظام انسان کو ڈکٹیٹر بننے سے روکتا ہے، آمریت سے بچاتا ہے،اور یہ تصور پیدا کرتا ہے کہ حکمراں بھی اپنی رعایا کے سامنے جوابدہ ہے ؛ اسی لئے گاندھی جی کہا کرتے تھے کہ اگر ہندوستان کو سوراج حاصل ہو تو اس کو ابوبکر وعمر (رضی اللہ عنہما) کے طرز حکومت کو اپنے لئے مشعل راہ بنانا چاہئے، ایسے ہی حکمراں کو خلیفہ کہتے ہیں۔
ڈاکٹر کلپنا نے بعض وہ باتیں بھی نقل کی ہیں، جو صرف آر ایس ایس کے لوگوں کا پروپیگنڈہ ہے، جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے، جیسے مالابار میں ہندؤوں کا مارا جانا، عورتوں کے ساتھ زیادتی، دودھ پیتے بچوں کا قتل، اولاََ تو یہ سب سنگھ پریوار کے گھڑے ہوئے افسانے ہیں؛ لیکن اگر کچھ مسلمانوں نے ایسا کیا بھی ہو، تو چند شریر لوگوں کے عمل کی ذمہ داری پوری قوم پر عائد نہیں کی جاسکتی، اور نہ مذہب کواس کا قصور وارقرار دیا جا سکتا ہے، اسلامی نقطۂ نظر سے ایسی حرکت کا ارتکاب بالکل غلط ہے، اور ایسا کرنے والا دنیا وآخرت میں سنگین سزا کا مستحق ہے؛ لیکن آرایس ایس تو ۱۹۴۷ء کے فسادات اور بھاگلپور، مرادآباد، جمشیدپور او رگجرات کے دنگوں میں اس کا کئی گنا مظالم ڈھا چکی ہے، تو کیا آر ایس ایس کی غیر انسانی حرکتوں کا تمام ہندؤوں کو قصور وار قرار دیا جا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں، یہ کچھ بدمعاش اور انسان نما درندوں کا کام ہوتا ہے، ان کی وجہ سے پوری قوم کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
اخیر میں ایک درخواست غیر مسلم بھائیوں سے ہے کہ وہ ٹھنڈے دل سے خالی الذہن ہو کر اسلام کو سمجھنے کی کوشش کریں، اگر آدمی پہلے سے سیاہ عینک پہنے ہوا ہو تو اس کو دھوپ کی روشنی بھی سیاہ نظر آئے گی؛ اس لئے خالی الذہن ہو کر مذہب کا مطالعہ کرنا چاہئے؛ تاکہ حقیقت پسندی کے ساتھ مذہب کو سمجھا جا سکے، ہمیں یقین ہے کہ ڈاکٹر کلپنا اور اس طرح کی سوچ رکھنے والے لوگ اگر کھلے ذہن کے ساتھ قرآن وحدیث اور سیرت نبوی کا مطالعہ کریں گے تو محسوس کریں گے کہ اسلام ایک دین رحمت ہے، اور اس نے ہندوستان کو بہت کچھ دیا ہے۔
دوسری درخواست مسلمانوں سے ہے کہ ہم نے اپنے کاروبار ، تجارت اور شخصیت کا تعارف تو برادران وطن سے خوب کرایا ہے، معاشی، سماجی اور سیاسی فائدے بھی اُٹھائے ہیں؛ لیکن اسلام کا تعارف کرانے کی کوئی سنجیدہ اور منظم کوشش نہیں کی، اس غفلت کا نتیجہ ہے کہ جس قوم کو لوگوں کی محبت کا مرکز ہونا چاہئے تھا، وہ نفرت وملامت کا ہدف بنی ہوئی ہے، اب بھی وقت ہے کہ ہم اس بارے میں سوچیں اور غیر مسلم بھائیوں تک اسلام کی صحیح تصویر پہنچائیں، ورنہ وقت جوں جوں گزرتا جائے گا، نفرت کی چنگاری شعلہ اور شعلہ سے آتش فشاں بنتی جائے گی، اور اس کا انجام دینا میں بھی تباہی کی شکل میں ظاہر ہوگا اور آخرت میں بھی جوابدہی ومحرومی کی شکل میں
 حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
(سکریٹری وترجمان آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ)



Tuesday, 28 August 2018

گائے کیوں کھائی؛ کیرالہ میں سیلاب کی وجہ Floods due to slaughtering of cows


گائے کیوں کھائی؛ کیرالہ میں سیلاب کی وجہ
Floods due to slaughtering of cows

ہندستان کی ریاست کیرالہ جب پچھلے دنوں زبردست سیلاب کی زد میں آئی اور لاکھوں لوگ جب انتہائی مشکل حالات میں گھرگئے۔ لیکن اس کا کیا کیجئے کہ بعض ہندو رہنماوں نے کہا کہ پچھلے سال کیرالہ کے لوگ ریاست میں گائے کے گوشت کا فیسٹیول منا رہے تھے۔ بھگوان کی طرف سے یہ اسی کا عتاب ہے۔ ریاست کے سب سے اہم مندر سبری مالا کے ایک پجاری نے کہا کہ مندر کی اصل عبادت گاہ میں خواتین کے داخلے کی اجازت دینے کے سبب یہ تباہی ہوئی ہے۔زمین سے 400 کلومیٹر کی بلندی پر خلا میں معلق بین الاقوامی خلائی اسٹیشن قریب آٹھ کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے دنیا کے گرد پرواز کررہا ہے۔
گذشتہ بدھ کو اس سٹیشن پر موجود امریکی خلا نورد رکی آرنلڈ نے امریکی ریاست ہوائی کے نزدیک سمندر میں بننے والے ایک زبردست طوفان کی تصویر کھینچی اور وہیں سے اسے سوشل میڈیا پر پو سٹ کر دیا۔ سمندر میں بننے والے اس طوفان کی تصویر پوری دنیا میں دیکھی گئی۔ امریکہ نے ہوائی میں ہنگامی حالات کا اعلان کر دیا ہے۔ متاثرہ علاقوں سے ہزاروں افراد کو پہلے ہی نکال لیا گیا ہے۔ انتظامیہ نے طوفان سے نمٹنے کی پہلے ہی تیاری کر رکھی تھی۔امریکہ اور یوروپ میں مصنوعی سیاروں کے سبب موسمیات کی پیش گوئی کا نظام اتنا سائنسی اور مستند ہے کہ بدلتے ہوئے موسم کی پل پل کی پیشگی کی خبر کئی ہفتوں تک کی دی جا سکتی ہے۔وہاں آنے والے سمندری طوفانوں، ٹورنیڈوز، برفانی طوفانوں، خوفناک آندھیوں اور سیلابوں کی بالکل صحیح وارننگ وقت سے پہلے دے دی جاتی ہے۔ مقامی لو گ اور انتظامیہ وقت سے پہلے ہی ان قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کے لئے ساری احتیاطی تدابیر کر لیتے ہیں۔
ہندستان اور پاکستان جیسے ممالک میں بھی سائنسی آلات اور سپر کمپیوٹر کے تجزیوں کی مدد سے موسم کی پیش گوئی کی جانے لگی ہے لیکن ابھی وہ اس میعار تک نہیں پہنچ سکے جس سے موسم کی بالکل صحیح اور مستند پیش گوئی کی جا سکے۔ موسم کی پیش گوئیاں عمومی نوعیت کی ہوتی ہیں اور اکثر آنے والی قدرتی آفات کی نوعیت اور شدت کا کسی کو پتہ نہیں ہوتا۔
قدرتی آفات بالخصوص سمندی طوفان اور سیلاب اتنے تباہ کن اور خطرناک ہوتے ہیں اور انسان ان کے سامنے بالکل بے بس ہوتا ہے۔ماضی میں جب علم اور سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی تو ان قدرتی آفات کو ’خدائی قہر‘ اور ’گناہوں کا عتاب‘ قرار دیا جاتا تھا۔ دنیا کی مذہبی کتابوں اور روایات میں اس طرح کی داستانیں بھری ہوئی ہیں۔قدرتی آفت ایک جغرافیائی اور ارضیاتی عمل ہے اور بیشتر معاملات میں ماہرین ان کے بارے میں پیشگی معلومات حاصل کر لیتے ہیں۔ امریکہ اور یورپ کے ممالک ان آفات کا مقابلہ کرنے کے لئے بہت اچھی طرح تیار ہیں۔ ان کے پاس نہ صرف وسائل ہیں بلکہ انھوں نے ان کا مقابلہ کرنے کے طریقے بھی وضع کر رکھے ہیں۔
اس کے برعکس ہندستان جیسے ممالک میں نسبتاً چھوٹی آفت بھی بڑی جانی اور مالی تباہی مچاتی ہے۔ قدرتی آفات میں ہر برس سینکڑوں جانیں جاتی ہیں اور لاکھوں زندگیاں تباہ ہوتی ہیں۔ اس کا بنیادی سبب ملک کا سیاسی نظام ہے۔اس نظام میں سیاسی قیادت صرف انھی پہلووں پر توجہ مرکوز کرتی ہے جن سے اس کی مقبولیت میں اضافہ ہو اور جن سے اسے آئندہ انتخابات میں ووٹ مل سکے۔سائنسی ترقی، موسم کی بہتر پیش گوئی اور قدرتی آفات سے نمٹنے کی تیاری جیسے اہم معاملات میں اسے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوتی کیونکہ ان پر نہ صرف خاصے اخراجات ہوں گے بلکہ اس سے انھیں کوئی انتخابی فائدہ بھی نہیں ہونے والا ہے۔جب تک ان قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک سانٹیفک اور جامع پروگرام اور منصوبہ نہیں تیار کیا جاتا عوام ان قدرتی آفات کے سامنے اسی طرح بے بس اور مجبور رہیں گے اور ماضی کی جہالت کی طرح مستقبل میں بھی ان آفات کو انسان پر ’آسمانی عتاب‘ اور ’انسانی گناہوں کی سزا‘ سے تعبیر کیا جاتا رہے گا۔
سیلاب سے صرف ایک ہفتہ قبل ایک حکومتی رپورٹ میں تنبیہ کی گئی تھی کہ کیرالہ کی ریاست اپنے آبی وسائل کی مینجمنٹ کے لحاظ سے جنوبی انڈیا کی بدترین ریاستوں میں سے ایک ہے۔اس حکومتی تحقیق کے مطابق غیر ہیمالیائی ریاستوں میں کیرالہ کا درجہ 12واں تھا اور اس کا مجموعی سکور 42 تھا۔ اس معیار سے بہترین ریاستیں گجرات، مدھیا پردیش اور آندھرا پردیش تھیں جن کا سکور بالترتیب 79، 69، اور 68 تھا۔ کیرالہ سے بری کارکردگی والی صرف چار غیر ہمالیائی ریاستیں، چار شمال مشرقی ریاستیں اور ہمالیائی ریاستیں تھیں۔ 
 حکام اور ماہرین کا کہنا ہے کہ کیرالہ میں سیلاب اس قدر شدید نہ ہوتا اگر حکام نے وقت کے ساتھ ساتھ تھوڑا تھوڑا کر کے کم از کم 30 ڈیموں سے پانی کے اخراج کا انتظام کیا ہوتا۔ جب گذشتہ ہفتے سیلاب اپنے عروج پر تھا تو تقریباً 80 ڈیموں سے پانی اکھٹے خارج کیا جا رہا تھا۔ ریاست میں 41 دریا بہتے ہیں۔
جنوبی ایشیا نیٹ ورک آن ڈیمز ریورز اینڈ پیپل سے تعلق رکھنے والے آبی مسائل کے ماہر ہمانشو ٹھاکر کا کہنا ہے کہ: ’’یہ واضح ہے کہ کیرالہ کے بڑے ا سٹوریج ڈیموں سے پانی کا ایک ایسے وقت اخراج جب ریاست میں سیلاب ہے، مسائل میں اضافہ کر رہا تھا۔اس سب سے بچا جا سکتا تھا اگر ڈیم آپریٹر پانی پہلے ہی خارج کر دیتے بجائے اس وقت کے انتظار کرنے کے جب ڈیم بھر گئے اور ان کے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا۔یہ بھی واضح ہے کہ اس کے لئے کافی وقت اور قدرے خشک عرصے بھی تھا جب یہ پانی خارج کیا جا سکتا تھا۔“
وفاقی وزارتِ داخلہ نے بھی امسال ایک جائزہ لیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ کیریلا سیلاب سے متاثر ہونے کے سب سے زیادہ خطرے میں دس ریاستوں میں سے ایک ہے۔اس سب کے باوجود بظاہرکیرالہ کی ریاست نے اس آفت سے بچنے کے لئے کوئی اہم قدم نہیں اٹھایا۔ ادھر جہاں ریاستی حکام پر تنقید کی جا رہی ہے وفاقی حکومت نے بھی کوئی زیادہ بہتر کام نہیں کیا۔خودماہرین کا کہنا ہے کہ مرکزی آبی کمیشن سے کیرالہ کو کوئی تنبیہ جاری نہیں کی جاتی۔ یہ واحد حکومت کمیشن ہے جس کی یہ ذمہ داری ہے۔ ہمانشو ٹھاکر کا کہنا ہے کہ اس حد تک کا سیلاب اور ڈیموں سے پانی کا اخراج سیلاب کی پیشگی اطلاع کے نظام اور مرکزی آبی کمیشن کے ایڈوانس ایکشن کے میں بھی سوالات اٹھاتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ: ’’ہمیں یہ جان کر انتہائی شدید حیرانگی ہوئی کہ مرکزی آبی کمیشن (سی ڈبلیو سی) کے پاس کوئی سیلاب کی تنبیہ کی سائٹ نہیں ہیں، نہ ہی پانی کے مطح اور نہ ہی پانی کی آمد کے حوالے سے۔ کیرالہ میں اس کے پاس صرف سیلاب کی مانیٹرنگ سائٹس ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ چند اہم ڈیموں اور اہم مقامات پر سیلاب کی پیشگی اطلاع کے حوالے سے سائٹس بنائی جائیں۔“ ایک طرف تو ریاست ایسے اقدام کرنے میں پیچھے ہے اور دوسری طرف اس موسون میں بارش بھی انتہائی زیادہ ہوئی ہے۔ریاست میں گذشتہ ڈھائی ماہ میں 37 فیصد اضافی بارش ہوئی جبکہ ماضی میں یہ مقدار پورے سیزن کی ہوا کرتی تھی۔ اتنے کم عرصے میں اس قدر بارش کی وجہ سے لینڈ سلائڈنگ بھی ہوئی جس کی وجہ سے بھی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ ماہرینِ ماحولیات کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ جنگلوں کی کٹائی ہے۔ انڈیا کے دیگر علاقوں میں بھی یہ مسئلہ دیکھا گیا ہے۔ ان میں سے کچھ علاقوں تک رسائی بالکل منقطع ہوگئی ہے کیونکہ جھیلوں جیسی سیلاب سے بچاو کے قدرتی وسائل ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تیزی سے بڑھتی ہوئی شہری آبادی ہے۔ 2015 میں بھی چنائی میں ایسی ہی وجوہات سے مسائل بڑھ گئے تھے۔تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ کیرالہ کے سیلاب سے اس آفت کا ایک اور عنصر سامنے آیا ہے، اور وہ ڈیموں سے خطرہ۔ اگر انھیں درست انداز میں مینیج نہیں کیا جاتا تو جیسا کہ موسماتی تبدیلی کے ماہرین کہہ رہے ہیں، ان آفتوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔ 



Floods due to slaughtering of cows?

Known for making controversial remarks, Vijayapura’s BJP MLA Basanagouda Patil Yatnal has kicked up a fresh row by saying the devastating floods in Kerala occurred because of slaughtering of cows in the open.

“In Kerala, people openly slaughter cows. What happened? Within a year, a situation like this (flood) arose. Whoever hurts the Hindu religious beliefs will face such consequences,” he told reporters on the sidelines of a function at Vijayapura on Saturday.

The BJP MLA was apparently referring to an incident in Kerala last year, where a group of men slaughtered a cow in the open, triggering a controversy. Yatnal said Hindus had sentiments attached to cows and that nobody should hurt others’ religious beliefs.

He added that if the BJP came to power in Karnataka, cow slaughter will be stopped. Known for making controversial statements, the BJP MLA had last month said if he was the home minister, he would have the intellectuals shot dead as they worked for the human rights of terrorists and not the soldiers who laid down their lives to protect the country. 

روہنگیا نسل کشی پر اقوام متحدہ کی مہر Myanmar Rohingya Genocide


روہنگیا نسل کشی پر اقوام متحدہ کی مہر
بالآخر اقوام متحدہ کی جانب سے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ہونے والی کارروائی پر کی جانے والی تحقیقاتی رپورٹ جاری کر دی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ملک کے اعلی ترین فوجی افسران سے ’روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی‘ اور ’انسانیت کے خلاف جرائم‘ کے حوالے سے تفتیش کی جانی چاہیے۔روہنگیا بحران کیسے شروع ہوااور یہ بحران تادم تحریر کن ادوار سے گزر چکا ہے، اس پر روشنی ڈالنے سے قبل واضح کردیں کہ اقوام متحدہ کی یہ رپورٹ 100 سے زائد تفصیلی انٹرویوز پر مبنی ہے اور عالمی ادارے کی جانب سے میانمار کے حکام کے خلاف اب تک روہنگیا مسلمانوں کے معاملے میں کی گئی سب سے کڑی تنقید ہے۔
اس رپورٹ میں میانمار کی فوج کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان کی جنگی حکمت عملی ’مستقل طور پر سیکورٹی خدشات سے غیر متناسب حد تک بڑھ کر جارحانہ تھی۔‘ اس رپورٹ میں فوج کے چھ اعلی افسران کے نام دیے گئے ہیں جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان پر مقدمہ چلنا چاہیے۔اس رپورٹ میں امن کا نوبل انعام جیتنے والی میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی کو بھی نہیں بخشا گیا ان پر سخت تنقید کی گئی تھی اور کہا گیا کہ وہ روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو روکنے میں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔اس رپورٹ میں تجویزپیش کی گئی کہ یہ معاملہ انٹرنیشنل کرمنل کورٹ میں بھیجا جائے۔
عجیب بات تو یہ ہے کہ میانمار کی حکومت کی جانب سے مسلسل یہ موقف اختیار کیا جاتا رہا ہے کہ فوجی کارروائی شدت پسندوں کے خلاف کی جاتی ہے۔ لیکن اس دعوی کے برعکس اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان کی تفتیش کے مطابق جو جرائم مرتکب ہوئے ہیں، وہ’اس لیے اتنے حیران کن ہیں کہ ان کی بڑے پیمانے پر نفی کی جاتی رہی ہے، ان جرائم کو معمول کی کارروائی سمجھا گیا ہے اور بلادریغ کیا گیا ہے۔ 'فوجی کارروائیاں، چاہے وہ کتنی ہی ضروری کیوں نہ ہوں، ایسا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے کہ اندھا دھند لوگوں کو قتل کیا جائے، خواتین کا گینگ آبروریزی کیا جائے، بچوں پر حملہ کیا جائے یا گاو ¿ںکو نذر آتش کردیاجائے۔‘
اقوام متحدہ نے کیا لگائے ہیں الزامات؟
اقوام متحدہ کا خود مختار بین الاقوامی فیکٹ فائنڈنگ مشن برائے میانمار مارچ 2017 میں قائم کیا گیا تھا تاکہ وہ ملک کی ریاست رخائن میں روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مبینہ مظالم کی تفتیش کر سکے۔ اس مشن نے اپنا کام میانمار کی حکومت کی اس کارروائی سے پہلے شروع کیا تھا جب اس نے رخائن میں روہنگیا شدت پسندوں کی جانب سے کیے گئے حملوں کے جواب میں آپریشن شروع کیا۔ حکومت کے اس آپریشن کے بعد سے اب تک سات لاکھ روہنگیا مسلمان ملک چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حالات اس نہج پر 'دہائیوں سے درپیش صورتحال' کے بعد پہنچے ہیں اور’خاص منصوبہ بندی، اور پیدائش سے لے کر موت تک کیے جانے والا جبر‘ اس کی بڑی وجہ ہیں۔ رپورٹ میں کچن، شان اور رخائن میں ہونے والے جرائم کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہاں قتل و غارت، قید، اذیت، آبروریزی، جنسی قیدی اور دیگر ایسے جرائم شامل ہیں جو کہ’بلاشبہ بین الاقوامی قوانین کے تحت گھناو ¿نے ترین جرائم میں تصور کیے جاتے ہیں۔‘
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ تفتیش سے یہ معلوم ہوا ہے کہ: ”ریاست رخائن میں لوگوں کو ان کے گھروں سے نکالے جانے کا سلسلہ اسی طرز کا ہے جیسا اور مقامات پر نسل کشی کرنے کے حوالے سے ہوتا ہے۔“اقوام متحدہ نے واضح کیا کہ رپورٹ کی تیاری میں انھیں میانمار جانے کی اجازت نہیں تھی لیکن انھوں نے عینی شاہدین سے انٹرویو کیے جبکہ سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر سے بھی مدد لی۔اقوام متحدہ کے مشن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ تفصیلی رپورٹ اگلے ماہ کی 18 تاریخ کو شائع کریں گے۔واضح رہے کہ ماضی میں اقوام متحدہ نے میانمار کی فوجی کارروائیوں کے بارے میں کہا تھا کہ وہ ”ان کی کارروائیاں نسل کشی کی بالکل کتابی تشریح کی مانند ہیں۔“
کیسے شروع ہواروہنگیا بحران؟
آج لاکھوں روہنگیا کی اپنے گھروں سے بےدخلی کو دنیا کا سب سے تیزی سے پھیلتا پناہ گزینوں کا بحران قرار دیا جا رہا ہے۔لیکن کیا یہ رپورٹ یکلخت وجود میں آگئی؟ اس کے لئے واقعات کی ترتیب پر غور کرنا ضروری ہے۔
اہم واقعات کی ٹائم لائن:
24 اگست 2017
مقام شمالی رخائن، برما
تفصیلات ایک روہنگیا تنظیم اراکان روہنگیا سالویشن آرمی نے شمالی رخائن صوبے میں میانمار کی سرحدی پولیس پر حملہ کیا، جس میں 11 اہلکار مارے گئے۔ میانمار کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس رات پولیس کے 20 کیمپوں پر بیک وقت حملہ کیا گیا۔
25 اگست 2017
مقام کوکس بازار
تفصیلات ہزاروں روہنگیا پناہ گزینوں نے کوکس بازار کے اکھیا اور تیکناف علاقوں میں پناہ لی۔ انھوں نے بتایا کہ میانمار کی فوج لوگوں کو قتل کر رہی ہے۔
26 اگست 2017
مقام بنگلہ دیش
تفصیلات بنگلہ دیش نے میانمار کے ڈھاکہ میں سفیر کو وزارتِ خارجہ میں طلب کر کے بحران پر تشویش ظاہر کی۔ اسی دن بنگلہ دیش کی سرحدی فوج نے بنگلہ دیش میں داخل ہونے والے متعدد روہنگیا پناہ گزینوں کو گرفتار کر لیا۔ اس وقت ہزاروں روہنگیا سرحد کے اس پار پھنس کر رہ گئے۔
31 اگست 2017
مقام بنگلہ دیش
تفصیلات اقوامِ متحدہ کے مطابق 27 ہزار کے قریب روہنگیا ایک ہفتے کے اندر اندر بنگلہ دیش پہنچ گئے
3 ستمبر 2017
مقام تفصیلات میانمار کے لیے اقوامِ متحدہ کے خصوصی ایلچی یانگ ہی لی نے رخائن کی صورتِ حال کو 'ہولناک‘ قرار دیا۔ لی نے میانمار کی رہنما آنگ سان سو چی پر بھی تنقید کی
5 ستمبر 2017
مقام تفصیلات میانمار کی رہنما آنگ سان سو چی نے ترک صدر اردوغان سے فون پر بات کرنے کے بعد کہا کہ رخائن کی صورتِ حال کو میڈیا توڑ مروڑ کر پیش کر رہا ہے۔ اسی دن انڈونیشیا کی وزیرِ خارجہ روہنگیا کے مسئلے پر بات کرنے کے لیے میانمار سے ہوتی ہوئی بنگلہ دیش پہنچیں۔
6 ستمبر 2017
مقام تفصیلات اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے سلامتی کونسل کو خط لکھ کر روہنگیا بحران پر تشویش کا اظہار کیا۔
7 ستمبر 2017
مقام تفصیلات ترک خاتونِ اول اور وزیرِ خارجہ نے کوکس بازار پہنچ کر روہنگیا کیمپوں کا معائنہ کیا۔
11 ستمبر 2017
مقام تفصیلات اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل نے روہنگیا کے استحصال کو 'نسل کشی کی نصابی مثال‘ قرار دیا
12 ستمبر 2017
مقام کوکس بازار
تفصیلات بنگلہ دیش کی وزیرِ اعظم شیخ حسینہ نے کوکس بازار میں اکھیا کے پناہ گزین کیمپ کا دورہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ حکومت نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر انھیں پناہ دے رکھی ہے۔
13 ستمبر 2017
مقام کوکس بازار
تفصیلات 40 کے قریب سفارت کاروں اور تنظیموں کے نمائندوں نے بنگلہ دیش کی وزارتِ خارجہ کے زیرِ اہتمام کوکس بازار کا دورہ کیا۔ اس کا مقصد میانمار حکومت پر زور ڈالنا تھا کہ وہ پناہ گزینوں کو واپس وطن جانے دے۔ اس وفد میں امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین، روس، چین اور انڈیا کے سفیر شامل تھے۔
21 ستمبر 2017
مقام تفصیلات بنگلہ دیش کی وزیرِ اعظم شیخ حسینہ نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے روہنگیا بحران کے حل کے لیے پانچ نکاتی سفارشات پیش کیں۔ ان میں روہنگیا کا قتلِ عام روکنا، ان کی واپسی، اور ریاست رخائن میں ان کے گھروں کی تعمیرِ نو شامل تھے۔
27 ستمبر 2017
مقام تفصیلات اقوامِ متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے کے مطابق بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزینوں کی تعداد پانچ لاکھ ہو گئی۔
28 ستمبر 2017
مقام نیویارک
تفصیلات اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے آٹھ برسوں بعد روہنگیا کے بحران کا جائزہ لیا۔ اجلاس میں امریکی مندوب نکی ہیلی نے میانمار پر تنقید کی۔
6 نومبر 2017
مقام نیویارک
تفصیلات اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک بیان جاری کیا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ روہنگیا بحران ختم کیا جائے۔ اقوامِ متحدہ نے میانمار کی حکومت پر زور دیا کہ وہ روہنگیا پر ظلم و ستم اور نسلی تفریق ختم کرے۔ چین نے بھی اس بیان کی تائید کی۔
18 نومبر 2017
مقام ڈھاکہ
تفصیلات چین کے وزیرِ خارجہ وانگ یی نے ڈھاکہ کا دورہ کر کے بنگلہ دیش کے وزیرِ خارجہ محمود علی سے روہنگیا کے بحران پر بات کی۔
23 نومبر 2017
مقام نیپیادو
تفصیلات بنگلہ دیش اور میانمار نے مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کیے جس میں کہا گیا تھا کہ روہنگیا کو واپس وطن میں آباد ہونے دیا جائے گا۔ میانمار نے کہا کہ وہ شناخت کی تصدیق کے بعد ایسا کرے گا۔ فیصلہ ہوا کہ میانمار ہر روز 300 پناہ گزینوں کو واپس لے گا۔ حکام کے مطابق یہ عمل اگلے دو برسوں میں مکمل ہو گا۔
30 نومبر 2017
مقام ڈھاکہ
تفصیلات پوپ فرانسس نے ڈھاکہ کا دورہ کیا۔ اس موقعے پر انھوں نے ڈھاکہ کے ایک چرچ میں روہنگیا بحران کے بارے میں بات کی۔ اس سے قبل انھوں نے میانمار کے دورے کے دوران لفظ روہنگیا استعمال نہیں کیا تھا۔
16 فروری 2018
مقام ڈھاکہ
تفصیلات بنگلہ حکومت نے برمی حکومت کو آٹھ ہزار روہنگیا کی فہرست فراہم کی جنھیں واپس میانمار بھیجا جانا تھا۔ بعد میں میانمار نے فہرست میں سے صرف 374 لوگوں کو قبول کرنے پر رضامندی دی۔
29 اپریل 2018
مقام بنگلہ دیش
تفصیلات اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک وفد نے روہنگیا کیمپوں کا دورہ کیا۔ سلامتی کونسل نے کہا کہ یہ بحران جلد حل نہیں کیا جا سکتا۔ وفد میں شامل روسی نمائندے نے کہا کہ روہنگیا بحران کا کوئی جادوئی حل نہیں ہے۔
2 جولائی 2018
مقام کوکس بازار
تفصیلات اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرش اور ورلڈ بینک کے صدر جم ینگ نے کوکس بازار کا دورہ کیا۔ گوتیرش نے کہا: 'روہنگیا انصاف چاہتے ہیں اور بحفاظت وطن واپس جانا چاہتے ہیں۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ان کا دل روہنگیا کی حالتِ زار دیکھ کر ٹوٹ گیا ہے۔

Myanmar Rohingya Genocide
A UN report has said top military figures in Myanmar must be investigated for genocide in Rakhine state and crimes against humanity in other areas.
The report, based on hundreds of interviews, is the strongest condemnation from the UN so far of violence against Rohingya Muslims.
It says the army's tactics are "grossly disproportionate to actual security threats". Myanmar rejected the report.
At least 700,000 Rohingya fled violence in the country in the past 12 months.
The report names six senior military figures it believes should go on trial and sharply criticises Myanmar's de facto leader, Nobel Peace Prize laureate Aung San Suu Kyi, for failing to intervene to stop attacks.
It calls for the case to be referred to the International Criminal Court (ICC).
The government has consistently said its operations targeted militant or insurgent threats but the report says the crimes documented are "shocking for the level of denial, normalcy and impunity that is attached to them".
"Military necessity would never justify killing indiscriminately, gang raping women, assaulting children, and burning entire villages," the report says.
The UN mission did not have access to Myanmar for its report but says it relied on such sources as eyewitness interviews, satellite imagery, photographs and videos.
Harder to dismiss now
Jonathan Head, BBC South East Asia correspondent
Genocide is the most serious charge that can be made against a government and is rarely proposed by UN investigators.
That this report finds sufficient evidence to warrant investigation and prosecution of the senior commanders in the Myanmar armed forces is a searing indictment which will be impossible for members of the international community to ignore.
However taking Myanmar to the ICC, as recommended by the report, is difficult. It is not a signatory to the Rome Statute that established the court, so a referral to the ICC would need the backing of the permanent five Security Council members - and China is unlikely to agree.
The report suggests, instead, the establishment of a special independent body by the UN, as happened with Syria, to conduct an investigation in support of war crimes and genocide prosecutions.
The government of Myanmar has until now rejected numerous investigations alleging massive atrocities by its military. This one will be much harder to dismiss.
What crimes does the UN allege?
The UN's Independent International Fact-Finding Mission on Myanmar was set up in March 2017 to investigate widespread allegations of human rights abuses in Myanmar, particularly in Rakhine state.
It began its work before the military started a large-scale operation in Rakhine in August of last year, after deadly attacks by Rohingya militants.
The situation was a "catastrophe looming for decades", the report argues, and the result of "severe, systemic and institutionalised oppression from birth to death".
Crimes documented in Kachin, Shan and Rakhine include murder, imprisonment, torture, rape, sexual slavery, persecution and enslavement that "undoubtedly amount to the gravest crimes under international law".
In Rakhine state, the report also found elements of extermination and deportation "similar in nature, gravity and scope to those that have allowed genocide intent to be established in other contexts".
Who is blamed for the attacks?
The UN mission names army officials who, it says, bear the greatest responsibility. They include Commander-in-Chief Min Aung Hlaing and his deputy.
The military is described as being virtually above the law.
Under the constitution, civilian authorities have little control over the military but the document says that "through their acts and omissions, the civilian authorities have contributed to the commission of atrocity crimes".
Aung Sang Suu Kyi, the report finds, "has not used her de facto position as Head of Government, nor her moral authority, to stem or prevent the unfolding events in Rakhine".
The report says that some abuses were also committed by armed ethnic groups in Kachin and Shan state, and by the Arakan Rohingya Salvation Army (Arsa) in Rakhine.
The mission said it would release a more detailed report on 18 September.
Myanmar's Permanent Representative to the UN, U Hau Do Suan, told BBC Burmese: "As we did not accept the idea of a fact-finding mission from the beginning, we reject their report.
"The human rights abuses are one-sided accusations against us. This is designed at putting pressure on us by the international organisations. Their report is based on one-sided information from the people who fled to Bangladesh and the opposition groups."
How did the situation reach crisis point?
The Rohingya are one of many ethnic minorities in Myanmar and make up the largest percentage of the country's Muslims. The government, however, sees them as illegal immigrants from neighbouring Bangladesh and denies them citizenship.
The military launched its latest crackdown after militants from Arsa attacked police posts in August 2017, killing several policemen.
According to the medical charity MSF, at least 6,700 Rohingya, including at least 730 children under the age of five, were killed in the first month after the violence broke out.
The army exonerated itself in an investigation in 2017.
Rights groups like Amnesty International have long called for top officials to be tried for crimes against humanity over the Rohingya crisis.
How is the world responding to the report?
The UK Foreign Office said the "appalling" violations against the Rohingya must be punished.
"There cannot and must not be impunity for such acts," said Minister of State for Asia Mark Field.
EU spokeswoman Maja Kocijancic told reporters: "We have made clear very consistently those responsible for alleged serious and systemic human rights violations must be held to account."
Facebook has removed 18 Facebook accounts, one Instagram account and 52 Facebook pages linked to the Myanmar military, as part of its work to "prevent the spread of hate and misinformation" on its networks.
Myanmar Rohingya:
What you need to know about the crisis
The plight of hundreds of thousands of Rohingya people is said to be the world's fastest growing refugee crisis. Risking death by sea or on foot, nearly 700,000 have fled the destruction of their homes and persecution in the northern Rakhine province of Myanmar (Burma) for neighbouring Bangladesh since August 2017. According to reports, the United Nations described the military offensive in Rakhine, which provoked the exodus, as a "textbook example of ethnic cleansing". Myanmar's military says it is fighting Rohingya militants and denies targeting civilians.
Who are the Rohingya?
The Rohingya, who numbered around one million in Myanmar at the start of 2017, are one of the many ethnic minorities in the country. Rohingya Muslims represent the largest percentage of Muslims in Myanmar, with the majority living in Rakhine state.
They have their own language and culture and say they are descendants of Arab traders and other groups who have been in the region for generations.
But the government of Myanmar, a predominantly Buddhist country, denies the Rohingya citizenship and even excluded them from the 2014 census, refusing to recognise them as a people.
It sees them as illegal immigrants from Bangladesh.
Since the 1970s, Rohingya have migrated across the region in significant numbers. Estimates of their numbers are often much higher than official figures.
In the last few years, before the latest crisis, thousands of Rohingya were making perilous journeys out of Myanmar to escape communal violence or alleged abuses by the security forces.
Why are they fleeing?
The latest exodus began on 25 August 2017 after Rohingya Arsa militants launched deadly attacks on more than 30 police posts.
Rohingyas arriving in an area known as Cox's Bazaar - a district in Bangladesh - say they fled after troops, backed by local Buddhist mobs, responded by burning their villages and attacking and killing civilians.
At least 6,700 Rohingya, including at least 730 children under the age of five, were killed in the month after the violence broke out, according to Medecins Sans Frontieres (MSF).
Amnesty International says the Myanmar military also raped and abused Rohingya women and girls.
The government, which puts the number of dead at 400, claims that "clearance operations" against the militants ended on 5 September, but BBC correspondents have seen evidence that they continued after that date.
At least 288 villages were partially or totally destroyed by fire in northern Rakhine state after August 2017, according to analysis of satellite imagery by Human Rights Watch.
The imagery shows many areas where Rohingya villages were reduced to smouldering rubble, while nearby ethnic Rakhine villages were left intact.
Rakhine: What sparked latest violence?
Who are the Rohingya group behind attacks?
Human Rights Watch say most damage occurred in Maungdaw Township, between 25 August and 25 September 2017 - with many villages destroyed after 5 September, when Myanmar's de facto leader, Aung San Suu Kyi, said security force operations had ended.
What is the scale of the crisis?
Media captionWatch: Drone footage from the DEC shows the extent of sprawling camps on the Bangladesh border
The UN says the Rohingya's situation is the "world's fastest growing refugee crisis".
Before August, there were already around 307,500 Rohingya refugees living in camps, makeshift settlements and with host communities, according to the UNHCR. A further 687,000 are estimated to have arrived since August 2017.
Most Rohingya refugees reaching Bangladesh - men, women and children with barely any belongings - have sought shelter in these areas, setting up camp wherever possible in the difficult terrain and with little access to aid, safe drinking water, food, shelter or healthcare.
The largest refugee camp is Kutupalong but limited space means spontaneous settlements have sprung up in the surrounding countryside and nearby Balukhali as refugees keep arriving.
While numbers in the Kutupalong refugee camp have reduced from a high of 22,241 to 13,900, the number living in makeshift or spontaneous settlements outside the camp has climbed from 99,495 to more than 604,000.
Most other refugee sites have also continued to expanded - as of mid-April 2018, there were 781,000 refugees living in nine camps and settlements.
There are also around 117, 000 people staying outside the camps in host communities.
What is being done by the international community?
The need for aid is overwhelming. With the monsoon season approaching, work has begun to re-locate some refugees from the camps most at risk of flooding or landslides and in other sites, work has been taking place to improve drainage channels and strengthen shelters.
About 70% of the one million refugees are now receiving food aid, according to the Inter Sector Coordination Group report from mid-April 2018.
Large-scale vaccination programmes have been launched to try to minimise the risk of disease. By mid-January 2018, 315,000 children under 15 years of age had received a five-in-one vaccination, including cover for diptheria, tetanus and whooping cough.
47,639 temporary emergency latrines have been built Bangladesh military
There has been widespread condemnation of the Myanmar government's actions but talk of sanctions has been more muted:
The UN's human rights chief Zeid Ra'ad al-Hussein has said an act of genocide against Rohingya Muslims by state forces in Myanmar cannot be ruled out
The US urged Myanmar's troops to "respect the rule of law, stop the violence and end the displacement of civilians from all communities"
China says the international community "should support the efforts of Myanmar in safeguarding the stability of its national development"
Bangladesh plans to build more shelters in the Cox's Bazaar area but also wants to limit their travel to allocated areas
Myanmar urged displaced people to find refuge in temporary camps set up in Rakhine state. In November Bangladesh signed a deal with Myanmar to return hundreds of thousands of Rohingya refugees, but few details have been released
The UK has pledged £59m in aid to support those fleeing to Bangladesh. UK Prime Minister Theresa May also said the military action in Rakhine had to stop. The UK has suspended training courses for the Myanmar military

وضو کی شرائط کیا ہیں؟

وضو کی شرائط کیا ہیں؟

جواب: 



سنیتا ولیم کے قبول اسلام کی حقیقت

سنیتا ولیم کے قبول اسلام کی حقیقت
یہ خبر کئی سال سے سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہے  کہ سنیتا ولیم پہلی بھارتی خاتون ہیں جنہوں نے چاند پر قدم رکھا اور وہاں ان کو اذان کی آواز سنائی دی اور مکہ اور مدینہ نظر آیا جس کی وجہ سے انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ ان باتوں کی کوئی حقیقت نہیں۔ ۔ ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ خاتون بھارتی خلاباز ہیں انہوں نے خلائی ادارے ناسا کی جانب سے عالمی خلائی اسٹیسن پر قیام کیا تھا جس کی تفصیل ناسا کی ویب سائٹ اور وکی پیڈیا پر موجود ہے۔
(واضح رہے کوئی خاتون چاند پر نہیں گئی)
سنیتا ولیم کے بارے میں جو مشہور ہے کہ انہوں نے وہاں آذان کی آواز سنی اور مکہ اور مدینہ کو چمکتے ہوئے دیکھا جس کی وجہ سے انہوں نے اسلام قبول کیا اس بات کی بھی کوئی حقیقت نہیں یہ بات ویسے ہی مشہور کردی گئی ہے اور نادان مسلمان اس کو بغیر تحقیق کئے شیئر کرتے رہتے ہیں۔
خلا سے آنے کے بعد انہوں نے دو جگہ تقریر کی تھی جس میں انہوں نے ایسی کسی بات کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
تقریر کی ویڈیو یہاں دیکھیں:
احمد آباد کی تقریر:
مزید تفصیل یہاں دیکھیں. 
خبردار: ایسی کسی بھی خبر پر یقین کرنے اور اس کو پھیلانے سے پہلے خوب تحقیق کرلیں کہ یہ خبر ٹھیک بھی ہے یا نہیں؟
آج کل گوگل میں سب واضح ہوجاتا ہے بس گوگل میں دیکھ لیا جائے کہ اس بات کی کیا حقیقت ہے۔ بغیر تحقیق کے کسی خبر کو شیئر کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی جھوٹی بات لوگوں کو بتانا اور اسلام نے اس کو سختی سے منع کیا ہے۔ ایک حدیث میں رسول پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ:
کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو بیان کرتا ہے۔ (مسلم)
اس بات کو خوب شیئر کریں تاکہ ہمارے نادان مسلمان بھائی اس کو سچ سمجھ کر پھیلاتے نہ رہیں.

Monday, 27 August 2018

قرأ حضرات سے معذرت کے ساتھ

قرأ حضرات سے معذرت کے ساتھ!
ایک جگہ بندے کا جانا ہوا،
عشاء سے پہلے نکلنا تھا کہ عشاء کا وقت ہوگیا، میزبانوں کے التماس پر
عشاء پڑھ کے نکلنا ٹھہرا، جماعت تیار ہوئی، کہیں کوئی مہمان جاتے ہیں تو قاریوں کو شاعروں کی طرح اپنی قرات دلنواز سنانے کا ہیضہ ہوتا ہی ہے! اس دن بھی ایسا ہی ہوا پہلی رکعت میں طویل ترین سورت دے ماری اور دوسری رکعت میں حسب توقع ....
القارعة! ماالقارعة؟ وماادرىك ما القارعة
صاحب، دماغ تو پہلے ہی بھنّا گیا تھا! دوسری رکعت میں جب یہ سورت پڑھی تو ایسا لگا جیسے قاری صاحب کچھ یوں کہہ رہے ہوں
میں قاری ہوں، کیسا قاری ہوں؟ آپکو پتہ نہیں کیسا قاری ہوں؟ ایسا کہ لوگ میری قرات پر جھوم جھوم جاتے ہیں، اور پہاڑ کشش ثقل سے آزاد ہوجاتے ہیں، وغیرہ وغیرہ سنو! گوش دل سے میری قرات سنو میں ہی ایک اکیلا قرات جانتا ہوں باقی سب یونہی ہے
اور پھر نعرہ تکبیر لگاکر رکوع میں چلے جاتے ہیں
یقینا یہ ترجمہ نہیں ہے مگر قرات وہ اس طرح پڑھتے ہیں گویا یہی باور کروانا چاہ رہے ہوں! اگر انکو ان آیتوں کے معانی پتہ ہوتے تو ہرگز اپنی آواز کو رقصاں نہ کرتے !
جی ہاں اس طرح کی ترقیص کی ممانعت ہے قرات میں،
ہمارے ایک استاذ تھے شاید وہ پہلے قاری تھے جنہوں نے باقاعدہ قاریوں کی مروجہ "بدعتوں" کے خلاف کتاب لکھی تھی جسکا نام تھا "خوش آوازی کی آڑ میں گلہ بازی" جس میں انھوں نے کتاب و سنت اور دیگر کتب متداولہ سے ثابت کیا ہے کہ مروجہ انداز تلاوت اور صحیح معنوں میں "گلہ بازی" کہیں سے ثابت نہیں!! مگر کیا کیجئے "منجھے ہوئے" قاریوں کا!
بندہ جب نیا نیا کتابوں میں بیٹھا تو ایک ماہر قاری صاحب کے پاس قرات کا گھنٹہ گیا ،دبلے پتلے سے بظاہر ایسا لگتا تھا کہ صاحب خوب ریاضت ومجاہدے کے بعد اس مقام تک پہونچے ہوں،ماہر گردانے جانے والے قرّاء حضرات سخت مزاج تو ہوتے ہی ہیں! جب وہ حبوہ بناکر بیٹھتے تو ایسا لگتا کوئی سانپ "کنڈلی "مارے بیٹھا ہو،، اور چھوٹا سا شیشہ تو کلاس میں لے کر  ہی آنے کا! کیونکہ آپکو اپنے ہونٹوں کے زاویے مخصوص انداز میں ڈھالنا ہے، نہ زیادہ کھلیں نہ بند ہوں بس کسی روبوٹ کی طرح اپنے طبعی اور فطری انداز کو بدل کر عجیب سے ڈھنگ میں سکیڑنا ہے،،،
آپنے تلاوت شروع کی ڈر ڈر کے پھر حکم ہوتا کہ "پھر سے پررھ (پڑھ) جی ہاں انہوں نے عربی الفاظ  پر اتنی محنت کی تھی کہ اردو کا "ڑ" بھی ادا نہیں ہوتا تھا، کمبخت ایسی مشق کیا کام کی جو آپکو "ایلین "ہی بنادے !!
دوسرے سال ان سے بڑے قاری صاحب کے گھنٹہ گیا جنہوں نے اپنی زبان پر اتنی محنت کی تھی کہ "ت" اور "ط" کی جگہ "ٹ" ادا ہوتا تھا اور دال کی جگہ ڈال سوچو! کتنی محنت کی ہوگی! اور اب بھی اسی مسند پر جنم سدھ ادھیکار لگاکر بیٹھے ہیں دنیا کے بڑے سے بڑے قاری کی غلطیاں نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،
بہرحال یہ بات تو ضمنا ذکر کردی گئی،
آجکل قراتوں کے مظاہرے بطرز مشاعرے ہورہے دیکھنے کے قابل ہوتے ہیں آجتک باوجود وقت و فرصت وموقع جانے کا اتفاق نہیں ہوا مگر سنا ہے کہ وہی انداز ہوتا ہے جو مشاعروں کا ہوتا ہے جبکہ مشاعرے میں بھی ایک آدھ بار سے زیادہ جانا نہیں ہوا فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ مشاعرے میں کھڑے ہوکر "سمع خراشی" کی جاتی ہے اور یہاں بیٹھ کر "سامعہ نوازی" ہوتی ہے شاعر کھڑا ہوکر جھومتا، چیختا، چلاتا، گاتاہے اور قاری بیٹھ کر ترقیص، ترعید، تحزین ،تلحین اور تطریب کے جلوے بکھیرتا ہے اور پبلک کا حال یہ ہوتاہے کہ "سبحان اللہ"،  "واہ واہ"، "ماشآء اللہ" کے تشجیعی نعروں سے قاری کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچادیتے ہیں قاری جوش میں آتا ہے اور ایسی قرات پڑھتا ہے گویا وحی کا بوجھ ناقابل برداشت ہوگیا ہو، اور اب وجود پھٹ جائے گا، آنکھوں کے پپوٹے سوج جاتے ہیں گلا رندھ جاتا ہے کہ بس اب روح قفس عنصری سے پرواز چاہتی ہے. یکلخت وقف کرتا ہے کہ مرتے مرتے بچا اور نتجۃ اللہ اکبر کی صدائیں گونج جاتی ہیں، پھر جنریٹر دھیرے دھیرے اسی مرحلے پر پہنچ جاتا ہے
حد ہے یاررررر!
صاحبو!  یاد رکھو!  ائمہ قرات نے صرف پانچ چیزوں کی اجازت دی ہے تحقیق، اشتقاق، تجوید، تمطیط اور حدر کی اور اوپر جو "جلوے" بیان کئے گئے ہیں انکی کوئی گنجائش نہیں!
باقی ان سب کا مطلب خود ہی معلوم کرلینا.                                                             

از سلمان ندیم

Saturday, 25 August 2018

قصة أعجبتنی

قصة أعجبتنی
إن رجلا قرأ (الفاتحة) قبل ذبْح (البقرة) ، وليقتدي بـ (آل عمران) تزوج خير (النساء)، وبينما هو مع أهله في (المائدة) ضحّى ببعض (الأَنْعَام) مراعيا بعض (الأعراف). وأوكل أمر (الأنفال) إلى الله ورسولِه معلنًا (التوبة) إلى الله أسوة بـ (يونس) و (هود) و (يوسف) – عليهم السلام – ، ومع صوت (الرعد) قرأ قصة ( إبراهيم ) و ( حِجْر ) ابنه إسماعيل – عليهما السلام – ، وكانت له خلِيّة ( نحْلٍ ) اشتراها في ذكرى ( الإسراء ) والمعراج، ووضعها في ( كهف ) له، ثم أمر ابنتَه ( مريم ) وابنَه (طه) أن يقوما عليها ؛ ليقتديا بـ ( الأنبياء ) في العمل والجِد. ولما جاء موسم ( الحج ) انطلقوا مع ( المؤمنين ) متجهين إلى حيثُ ( النور ) يتلألأ وحيثُ كان يوم ( الفرقان ) – وكم كتب في ذلك الشعراء ) – ، وكانوا في حجهم كـ ( النمل ) نظامًا ، فسطّروا أروعَ ( قصصِ ) الاتحاد ؛ لئلا يصيبهم الوهن كحال بيت ( العنكبوت ) ، وجلس إليهم يقص عليهم غلبة ( الروم ) ناصحا لهم – كـ ( لقمان ) مع ابنه – أن يسجدوا ( سجدة ) شكر لله ، أن هزم ( الأحزاب ) ، وألا يجحدوا مثل ( سبأ ) نِعَمَ ( فاطرِ ) السماوات والأرض. وصلى بهم تاليًا سورة ( يسٓ ) مستوِين كـ ( الصافّاتِ ) من الملائكة ، وما ( صاد ) صَيْدًا ؛ إذ لا زال مع ( الزُّمرِ ) في الحرَم داعيًا ( غافر ) الذنبِ الذي ( فُصِّلت ) آياتُ كتابه أن يغفر له وللمؤمنين. ثم بدأت ( الشورى ) بينهم عن موعد العودة ، مع الحذر من تأثُّرهم بـ ( زخرفِ ) الدنيا الفانية كـ ( الدُّخان ) ؛ خوفًا من يومٍ تأتي فيه الأممُ ( جاثيةً ) ، فمَرُّوا على ( الأحقافِ ) في حضرموت ؛ لذِكْرِ ( محمد ) – صلى الله عليه وآله وأصحابه – لها ولأَمنِها ، وهناك كان ( الفتح ) في التجارة ، مما جعلهم يبنون لهم ( حُجُراتٍ ) ، وأسّسوا محالّا أسموها محالّ ( قافْ ) للتجارة ، فكانت ( ذارياتٍ ) للخير ذروًا ، وكان قبل هذا ( الطّور ) من أطوار حياته كـ ( النّجم ) ، فصار كـ ( القمَر ) يشار إليه بالبنان بفضل ( الرحمن ). ووقعتْ بعدها ( واقعة ) جعلت حالهم – كما يقال – على ( الحديد ) ، فصبرت زوجته ولم تكن ( مجادلة ) ؛ لعلمها أن الله يعوضهم يوم ( الحشر ) إليه ، وأن الدنيا ( ممتحنَة ) ، فكانوا كـ ( الصّف ) يوم ( الجمعة ) تجاهَ هذا البلاء مجتنبين صفات ( المنافقين ) ؛ لأن الغُبن الحقيقي غبن يوم ( التغابن ) ، فكاد ( الطلاق ) يأخذ حُكْمَ ( التحريم ) بينهم ؛ لعمق المودة بينهم ، فـ ( تبارك ) الذي ألّفَ بينهم كما ألّفَ بين يونس والـ ( ـنُّون ).. وتذكروا كذلك يومَ ( الحاقّة ) في لقاء الله ذي ( المعارج ) ، فنذروا أنفسهم للدعوة إليه ، واقتدَوا بصبر أيوب و ( نوحٍ ) – عليهما السلام – ، وتأسّوا بجَلَدِ وحلم المصطفى ؛ حيث وصلت دعوتُه إلى سائر الإنس و ( الجنّ ) ، بعد أن كان ( المزّمّل ) و ( المدّثّر ) ، وهكذا سيشهدُ مقامَهُ يوم ( القيامة ) كلُّ ( إنسان ) ، إذ تفوقُ مكانتُه عند ربه مكانةَ الملائكة ( المرسَلات ) .. فعَنِ ( النّّبإِ ) العظيم يختلفون ، حتى إذا نزعت ( النازعات ) أرواحَهم ( عبَسَـ ) ـت الوجوه ، وفزعت الخلائق لهول ( التكوير ) و ( الانفطار ) ، فأين يهرب المكذبون من الكافرين و ( المطففين ) عند ( انشِقاق ) السَّمَاءِ ذاتِ ( البروجِ ) وذات ( الطّارق ) من ربهم ( الأعلى ) إذ تغشاهم ( الغاشية ) ؟؟ هناك يستبشر المشاؤون في الظلام لصلاة ( الفجر ) وأهلُ ( البلد ) نيامٌ حتى طلوع ( الشمس ) ، وينعم أهل قيام ( الليل ) وصلاةِ ( الضّحى ) ، فهنيئًا لهم ( انشراح ) صدورِهم ! ووالذي أقسمَ بـ ( التّين ) ، وخلق الإنسان من ( علق ) إن أهل ( القَدْر ) يومئذٍ من كانوا على ( بيّنةٍ ) من ربهم ، فأطاعوه قبل ( زلزلة ) الأَرْضِ ، وضمّروا ( العاديات ) في سَبِيلِ الله قَبْلَ أن تحل ( القارِعة ) ، ولم يُلْهِهِم ( التكاثُر ) ، فكانوا في كلِّ ( عَصْر ) هداةً مهديين ، لا يلفتون إلى ( الهمزة) اللمزة موكلين الأمر إلى الله – كما فعل عبد المطلب عند اعتداء أصحاب ( الفيل ) على الكعبة ، وكان سيدًا في ( قُرَيْش ) – ، وما منعوا ( الماعون ) عن أحدٍ ؛ رجاءَ أن يرويهم من نهر ( الكوثر ) يوم يعطش الظالمون و ( الكافرون ) ، وتلك حقيقة ( النّصر ) الإلهي للنبي المصطفى وأمتِه ، في حين يهلك شانؤوه ، ويعقد في جِيدِ مَن آذَتْهُ حبلٌ من ( مسَد ) ، فاللهم تقبل منا وارزقنا ( الإخلاص ) في القول والعمل يا ربَّ ( الفلَقِ ) وربَّ ( الناس)

میرا پہلا سفرِ حج

میرا پہلا سفرِ حج
آج عازمین حج بیت اللہ کو جو سہولتیں حاصل ہیں انہیں آج سے چالیس سال قبل سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ ابھی ہندستان سے بحری جہازوں پر سفر کا سلسلہ جاری تھا، اس زمانے میں انٹرنیشل پاسپورٹ پر ٹورسٹ ایجنسیوں سے سفر کی سہولت شروع نہیں ہوئی تھی۔ صرف قرعہ اندازی کے ذریعہ ہی سفرحج ممکن ہوا کرتا تھا، اس زمانے میں ممبئی کا حاجی صابو صدیق مسافر خانہ، عازمین حج بیت اللہ کی آماجگاہ تھی، وہاں آکر ہندستان بھر کے عازمین حج ٹکٹ بنوانے کے لئے آکر کبھی ہفتوں ڈیرہ ڈالتے، اسی دور میں بھٹکل کے الحاج محی الدین منیری علیہ الرحمہ کو ان عازمین حج بیت اللہ کی خدمت کا موقع ملا۔ آپ کو ۱۹۴۹ء سے ۱۹۸۰ ء کے اوائل تک تقریبا پینتیس سال خدمت کا موقع ملا، یہاں سے آپ نے مولانا قاضی اطہر مبارکپوری علیہ الرحمۃ کی رفاقت میں ماہنامہ البلاغ جاری کیا۔ اس طویل عرصہ میں پانی جہازوں پر آپ کو امیر الججاج کا منصب  مرحمت ہوتا، آپ نے شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی علیہ، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب علیہ الرحمہ، مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی علیہ الرحمۃ جیسے اکابرین وقت کے اسفار حج میں امیرالحج کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ 1986 ء میں اس ناچیز نے ڈھائی گھنٹے پر مشتمل آپ کے دو ویڈیو انٹرویو مقامی زبان نوائط میں محفوظ کئے تھے، جنہیں آب بیتی کی شکل میں مرتب کیا گیا تھا۔
 الحاج محی الدین منیری علیہ الرحمہ
یہ آب بیتی بڑی ہی دلچسپ ہے۔  اس میں سے حج بیت اللہ کی مناسب سے ایک حصہ پیش خدمت ہے، امید کہ پسند آئے گا:
میرا پہلا سفرِ حج
۱۹۵۱ء میں بمبئی شدید فرقہ وارانہ فسادات کی لپیٹ میں تھا، شہر میں سخت کرفیو نافذ کیا گیا تھا۔ اس دوران حج کا موسم آگیا۔ انجمن خدام النبی ؐ کے حاجیوں میں کپڑوں وغیرہ کی تقسیم کا سلسلہ شروع کیا۔ ہم لوگ دن رات ان کی خدمت میں لگ گئے۔ ان دنوں حاجی احمد غریب سیٹھ، انجمن خدام النبی ؐ کے جنرل سکریٹری تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ثروت ودولت سے مالامال کیا تھا۔ انہوں نے اپنی عمر عزیز حاجیوں کی خدمت کرتے گذار دی۔ میرے کام سے وہ بہت خوش تھے۔ اسی دوران انجمن خدام النبی ؐ نے فیصلہ کیا کہ ہندوستانی حاجیوں میں راشن کی تقسیم کے لئے تین افراد کو مکہ مکرمہ بھیجا جائے۔ آپ نے مجھ سے دریافت کیا کہ مکہ کی سخت دھوپ اور گرمی میں راشن کے بورے اٹھانے پڑیں گے۔ بڑی تکلیفیں برداشت کرنی ہونگی۔ کیا تم اس کام پر جانے کے لئے تیار ہو؟ میں  نے کہا "نورعلیٰ نور". انہوں نے پھر کہا کہ راشن کی تھیلیاں تم سے اٹھائی نہیں جائیں گی۔ میں نے جواب دیا: ایک مرتبہ مجھے حج بیت اللہ پر بھیج کر تو دیکھیں باقی مجھ پر چھوڑدیں۔ بالآخر میرے نام کا قرعۂ فال نکلا اور احمد غریب مرحوم نے مزید دو ساتھیوں کی رفاقت میں مجھے حج بیت اللہ پر بھیجنے کا فیصلہ کرلیا۔ 
خداکی شان دیکھئے، یہ سب اتنی عجلت میں ہوا کہ سفرِ حج سے قبل وطن جاکر اہلِ وعیال سے ملنے کی بھی فرصت نہ ملی۔ مجبوراً والدہ سے ٹیلگرام کے ذریعہ اجازت طلب کرنی پڑی کہ زندگی میں ایک سنہرا موقع نصیب ہوا ہے۔ اس وقت مجھے احمد جانی کی بات باربار یاد آئی کہ منیری! محنت اور اخلاص کے ساتھ کام کرنا جلدی بلاوا آئے گا۔ اور سچ مچ بلاوا آگیا۔ یہ خبر سن کر احمد جانی میرے پاس آئے، پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگے: میں نے نہیں کہا تھا تمھارا جلد بلاوا آئے گا۔ دیکھو، بلاوا آہی گیا، خدمت بھی کرو، عبادت بھی کرو۔ 
سفرِ حج پر جب روانہ ہوا تو عالم یہ تھا کہ مکہ مکرمہ میں اس شدت کی گرمی پڑی ہوئی تھی کہ برداشت سے باہر تھی۔ جدہ سے سیکڑوں راشن کی بوریاں آتیں، جن پر حاجیوں کے نمبر درج ہوتے، اس ڈھیر میں سے حاجیوں کی بوریاں نمبروں کے مطابق تلاش کرکے نکالی جاتیں۔ اس دوران حاجیوں کی صلواتیں سننے کو ملتیں کہ گھنٹہ گذر گیا، اتنی دیر ہوگئی، تم کام کرتے ہوکہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بعض نادان و بے سمجھ تو گالیوں کی بوچھار شروع کردیتے۔ مجھے وہ واقعہ اب بھی یاد ہے کہ ایک حیدرآبادی حاجی اپنی اناج کی بوری لینے کے لئے احرام کی حالت میں میرے پاس آئے تھے۔ ان کے نمبر کی بوری ادھر ادھر ہونے کی وجہ سے تلاش میں جو دیری ہوئی تو انہوں نے مجھے ایسی ایسی گالیاں دینی شروع کیں کہ میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ میں ان کے قدموں پر گرگیا اور ان کا احرام پکڑکر التجا کی کہ حاجی صاحب آپ اتنا سارا خرچ کرکے تکلیفیں اٹھاکر بیت اللہ کے پاس آئے ہیں۔ آپ کی بوری تو دیر سویر مل ہی جائے گی لیکن گالیاں دے کر اپنا یہ حج ضائع نہ کیجئے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ: ’’فَلارَفَثَ وَلا فُسُوقَ وَلاَ جِدَالَ فیِ الحَج‘‘ اگر دورانِ حج اس قسم کا بڑا عمل سرزد ہوا تو ساراحج برباد ہوجائے گا۔ مگر وہ کہاں سننے والے تھے۔ حالتِ احرام میں گالیوں کی بھرمار سے اپنے سارے حج کا ستیاناس کردیا اور اگلے روز آکر معافی تلافی کرنے لگے۔ 
پہلے حج کے دوران دل پر عجیب کیفیت طاری تھی۔ ایک طرف جسم  جھلسادینے والی گرمی۔ اس پر اناج کے بورے پیٹھ پر لادکر ادھر ادھر لے جانے کی محنت۔ کوئی اور ہوتو اپنے ہوش وحواس کھودے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے سب راہیں آسان کردیں، تمام مصائب ومشکلات سے پار کردیا۔ 
اسی دوران ہم لوگوں نے فیصلہ کیاکہ حاجیوں میں مفت برف تقسیم کی جائے۔ احمد غریب اور ان کے خاندان والوں نے منیٰ و عرفات میں وسیع و عریض مکانات رہائش کے لئے کرایہ پر لے لئے تھے۔ مرحوم کو حج کے میدان میں بڑا تجربہ حاصل تھا۔ وہ بڑے ہی نیک جذبات کے مالک انسان تھے۔ بڑی دوڑ دھوپ کے بعد انہوں نے برف حاصل کی اور ڈھیر سارا برف اپنی رہائش گاہ پرجمع کردیا۔ اور ہم لوگ اس کی تقسیم کے لئے کھڑے ہوگئے۔ اکیلے احمد غریب نے سارا خرچ برداشت کیا۔ 
برف کی اس مفت تقسیم کرتے دوچار روز ہی گذرے تھے کہ ایک دن شہزادہ فیصل بن عبدالعزیز جو ابھی سعودی عرب کے فرمانروا نہیں بنے تھے، اچانک ایک کارمیں آکر ہمارے ڈیرے پر رک گئے۔ انہوں نے ہمیں طلب کیا ۔ احمدغریب اور میں ان کے نزدیک گئے ۔ انہوں نے دریافت کیا کہ برف کی یہ تقسیم کس کی طرف سے ہورہی ہے؟ ہم نے بتایا کہ گرمی کی شدت سے حاجی مررہے ہیں، انہیں تھوڑا ساہی سہی آسرا ملے، اس غرض سے ہندوستانی حاجیوں کی خدمت کے لئے قائم تنظیم ’’انجمن خدام النبیؐ‘‘ نے یہ سلسلہ شروع کیا ہے۔ ہماری یہ بات سن کر شہزادہ فیصل بہت خوش ہوئے۔ ہمیں ڈھیر ساری مبارکباددی اور فوراً ہی مکہ جاکر اعلان کردیا کہ تمام برف کے کارخانہ دار اپنا اپنا تیار کردہ پورے کا پورا برف منٰی بھیج دیں اور مختلف مراکز قائم کرکے اسے حاجیوں میں تقسیم کریں۔ 
آج حاجیوں کو جو سہولیات مہیا ہیں اس زمانے میں نہ تھی۔ گرمی کی شدت ناقابل برداشت تھی۔ اس وقت کی پریشانیاں بیان سے باہر ہیں۔ باوجود اس کے ہم شب وروز منٰی و عرفات میں حاجیوں کی خدمت کرتے رہے۔ احمد غریب ان کے بھائی مولوی احمد عبداللہ اور ان کے بعض دوست واحباب خدمت کے موقع کی تلاش میں رہتے تھے۔ ہم سب نے آپس میں ایک دوسرے سے کہہ دیا تھا کہ خدا ہی ہمیں یہاں سے زندہ سلامت وطن واپس پہنچا سکتا ہے، ورنہ حالات ایسے نہیں کہ یہاں سے زندہ بچ سکیں۔ ہماری زبانوں پر کلمہ طیبہ کا ورد جاری رکھ کر حاجیوں کی ضروریات معلوم کرنے کے لئے کیمپوں کی طرف ہم نکل پڑتے۔ 
وہ واقعہ تو اب بھی میرے ذہن میں تازہ ہے جب ہم قربانی دے کر اپنی رہائش گاہ کی جانب لوٹ رہے تھے، ابھی پاؤ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا باقی تھا۔ مجھ پر چلتے چلتے غشی طاری ہونے لگی۔ ٹیکسی وغیرہ کوئی سواری نہیں مل رہی تھی، آج کے دور میں نہیں، اس سستے دور میں بڑی مشکل سے ایک ٹیکسی ملی۔ ڈرائیور نے پاؤ کلومیٹر کے چالیس ریال طلب کئے۔ ایک قدم بڑھانے کی طاقت ہم میں نہ تھی۔ احمد غریب نے ہدایت کی کہ جتنے کی بھی گنجائش ہو لوگ سوار ہوجائیں۔ میں بھی ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ ابھی رہائش گاہ میں قدم رکھتے ہی سب بے ہوش ہوکر پڑگئے۔ یہ خداکا فضل ہی تھا کہ سبھی زندہ بچ گئے۔ 
جب ہم منٰی میں تھے، نمازِ فجر کے بعد حیدرآباد کے معلم بدرالدین نے میرا ہاتھ پکڑکر کہا۔ منیری صاحب! اس وقت اللہ تعالیٰ کا کچھ جلال معلوم ہوتا ہے، شام تک ہمارا کیا حال ہوگا کچھ معلوم نہیں۔ وقت جوں جوں گذرتا گیا گرمی کی شدت اور پریشانی میں اضافہ ہوتا گیا۔ یہ جان کر تمہیں حیرت ہوکہ جوان جوڑے چلتے چلتے بیٹھ گئے، پھر انہیں اٹھنا نصیب نہیں ہوا۔ لیٹتے ہی سانس نے جسم کا ساتھ چھوڑ دیا۔ اسپتال میں ہزاروں لوگ پانی کے ٹبوں میں پڑے ہوئے تھے، کسی کے کان میں پانی ڈالا جارہا تھا کسی کے منھ سے جھاگ اٹھ رہی ہے اور بہت سے اپنے رب کو جواب دے چکے ہیں۔ 
اس سال بھٹکل سے چار افراد شیکرے صائبو، کے یم باشا، ان کی والدہ اور حافظ کا کے والد فریضہ حج انجام دے رہے تھے۔ ان کا کیمپ ہمارے میمن حضرات کے کیمپ سے قریب تھا۔ ہمارے معلم سید سراج ولی تھے۔ اتفاقاً ایک روز دوپہر کے وقت ان کی رہائش گاہ پر جانا ہوا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ حافظکا کے والد پر لُو لگنے کی وجہ سے بے ہوشی طاری ہے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ زندگی کی آخری سانسیں گن رہے ہیں، کے یم باشا حسرت سے کہنے لگے، منیری! برف کا کہیں سے انتظام ہوجاتا تو کتنا اچھا تھا۔ کہیں سے بھی برف کا کوئی ٹکڑا نہیں مل رہا ہے۔ 
ہمارے میمن ساتھی بڑے ہوشیار تھے۔ یہاں پر ان کی دکانیں بھی تھیں، انہیں حج کا بڑا تجربہ تھا۔ انہوں نے برف کی دوسلیں عرفات میں حفاطت سے لاکر رکھیں تھیں۔ جعفر سیٹھ کے بھائی محمد سیٹھ سے میں نے گذارش کی کہ ہمارا ایک شخص بے ہوش پڑا ہوا ہے۔ مہربانی فرماکر برف کا کوئی ٹکڑا دے دیں۔ ۔ ۔ ارے منیری! ہمارے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ان کے لئے یہ ہم لائے ہیں۔ تم بولتے ہوتو ایک چھوٹاسا ٹکڑا لے جاؤ۔ ۔ ۔ ان کے اس جواب سے میری جان میں جان آئی۔ برف کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا لے کر کیمپ گیا اور حافظکا کے والد کے سرہانے بیٹھ کر اسے سینکتا رہا۔ برف کا چھوٹا سا ٹکڑا پانی میں گھول کر انہیں پلاتا رہا۔ اس وقت برف کے اس ننھے سے ٹکڑے کی جو قدرو قیمت تھی موجودہ دورمیں اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ اب تو برف کی بہتات ہے قدم قدم پر ملتی ہے۔ اس زمانے میں عرفات میں کہیں برف کانام و نشان نہیں تھا۔ لوگ گرمی سے تڑپتے تھے، ٹھنڈے پانی کے ایک گلاس کے دام دینا ان کے بس سے باہر ہوتا تھا۔ ایسے عالم میں ان حضرات نے ہماری مدد کی۔ ایک دو گھنٹے برف سینکنے کے بعد حافظکا کے والد کو ذرا ہوش آیا۔ انہوں نے اپنا حج پوراکیا اور مزید پندرہ بیس سال زندگی گزارکر اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے۔ 
اس سفرِ حج سے قبل ہمیں لُو لگنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا، نہ ہی احتیاطی تدابیر کا ہمیں علم تھا۔ البتہ منٰی و عرفات کے بدؤوں کی زبانی سنتے تھے کہ لُو لگنے پر پیاز ہاتھ میں رکھنی چاہئے، اس کا رس لُو زدہ شخص کے کانوں میں گھولنا اور سر پرمَلنا چاہئے۔ احمد غریب نے احتیاط کے تحت دو تین پیاز کے بورے بحفاظت رکھ لئے تھے۔ اب تو بازاروں میں بہت ساری دوائیاں دستیاب ہورہی ہیں، اس زمانے میں یہ سب کچھ نہیں تھا۔ 
میرا پہلا حج شاہ عبدالعزیز ابن سعود کے دور حکومت میں ہوا تھا۔ مکہ معظمہ میں حرم شریف کی عمارتیں ابھی ترکی دور ہی کی پرانی چلی آرہی تھیں، خوشحالی کا دور ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔ سعودی حکومت کو پیسوں کی بہت ضرورت تھی، تمام ملکوں میں اس کے نمائندے اور دلال پائے جاتے تھے، جو حاجیوں کو لاتے۔ ہر حاجی پر ۳۷۴ روپے کا ٹیکس لگتا، جوا نہی ملکوں میں ادا کیا جاتا۔ ٹکٹ کے ہزار ڈیڑھ ہزار روپے الگ سے لگتے۔ معمولی ٹکٹ آٹھ سو روپے میں آتا تھا۔ غریب لوگ حج کے شوق میں بھیک مانگ مانگ کر سفر پر نکلتے۔ کچھ عرصہ بعد حکومت ہند نے ہر حاجی کو اپنے ساتھ دوہزار روپے نقد اور ڈرافٹ کی شکل میں دو ہزار روپے لے جانے کی چھوٹ دے دی۔ اور سفرِ حج پر سہولتوں کے مختلف دور آئے۔ 
اس سفر میں ہمیں بڑی مصیبتوں اور مشقتوں سے گذرنا پڑا۔ زندہ واپسی کی امید نہ تھی۔ لیکن خدانے اپنی امان میں رکھا اور آج انتالیس سال بعد بھی آپ کے سامنے صحیح سالم موجود ہوں۔ اس سفر کی کچھ تصویریں انجمن خدام النبی ؐ کے بمبئی آفس میں موجود ہونگی، جن سے حاجیوں کی اس وقت کی حالتِ زار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس طرح خدا خدا کرکے میرا پہلا سفرِ حج تمام ہوا۔ اور انجمن خدام البنی ؐ میں حاجیوں کی خدمت کرنے میں میری دلچسپی روز بروز بڑھتی چلی گئی۔

وطنی بہن ڈاکٹر کلپنا اچاریہ کی خدمت میں؛ دوم

وطنی بہن ڈاکٹر کلپنا اچاریہ کی خدمت میں؛ دوم
ڈاکٹر کلپنا نے حج پر بھی گفتگو کی ہے، ان کو اعتراض ہے کہ: 
’’حج میں صرف مسلمان کیوں جاتے ہیں، اور دوسرے لوگ کیوں نہیں جاسکتے؟" انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ: 
"حج سے سیکھ کر آتے ہیں، اور یہاں دوسروں کو سکھاتے ہیں، حج کے لئے ہمارے بھائی پیسے بھیجتے ہیں." شاید ان کی مراد یہ ہے کہ: 
"حکومت حج میں سبسیڈی دیتی ہے، جو عوامی پیسہ ہوتا ہے، اور اس میں ہندو عوام کے پیسے بھی شامل ہوتے ہیں.‘‘ 
-- غور کیا جائے تو حج سے متعلق انہوں نے جو باتیں کہی ہیں، ان میں کوئی معقولیت نہیں ہے، ظاہر ہے کہ جو لوگ حج کی عبادت پر یقین رکھتے ہیں، وہی تو حج کے لئے جائیں گے، جو لوگ اللہ کو ایک نہیں مانتے، جن لوگوں کا انبیاء کرام علیہم الصلوۃوالسلام پر ایمان نہیں ہے، جو لوگ پیغمبر اسلام پر ایمان نہیں رکھتے، جن کے طریقہ کے مطابق حج کیا جاتا ہے، وہ حج کے لئے کیوں جائیں گے؟ اگر کسی دوسرے ملک کا شخص کہے کہ ہم بھی تو انسان ہیں، ہم ہندوستان کی پارلیامنٹ کے رکن کیوں نہیں بن سکتے؟ تو ظاہر ہے کہ اس میں کوئی معقولیت نہیں ہوگی؛ کیوں کہ جو لوگ اس ملک کے شہری نہیں ہیں، اور جن کا اس ملک کے دستور پر یقین ہی نہیں ہے، وہ کیسے یہاں کی پارلیامنٹ کے رکن ہوسکتے ہیں؟ ہندو بھائی غور کریں کہ ان کے یہاں تو بعض مندروں میں کسی بھی غیر برہمن کا داخلہ نہیں ہوسکتا، بعض میں دلتوں کا داخلہ نہیں ہو سکتا، بعض میں غیر ہندو کا نہیں ہوسکتا اور بعض میں خواتین کا نہیں ہوسکتا، حد تو یہ ہے کہ ملک کے بعض صدر جمہوریہ اور وزیر اعظم کو بھی ان مندروں میں داخلہ کی اجازت نہیں ملی؛ لیکن مسلمانوں نے کبھی اس پر اعتراض نہیں کیا کہ ہم آپ کی مندروں میں کیوں نہیں جاسکتے؟ اس لئے کہ جب ہم اس مذہب پر یقین نہیں رکھتے تو ہمیں اس کے مقدس مقدمات میں جانے پر اصرار کرنے کا بھی حق نہیں ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ مسلمان حج سے سیکھ کر آتے ہیں، اور دوسروں کو سکھاتے ہیں---یقیناََ مسلمان حج میں بہت کچھ سیکھتے ہیں؛ لیکن وہ نفرت نہیں سیکھتے، محبت سیکھتے ہیں، سیاہ و سفید، ما لدارو غریب، حکمران و محکوم، تعلیم یافتہ اور جاہل، الگ الگ زبانیں بولنے والے اور الگ الگ تہذیبوں سے تعلق رکھنے والے دنیا کے کونے کونے سے حج کے لئے پہنچتے ہیں، نہ ان میں کوئی بڑا سمجھا جاتا ہے نہ چھوٹا، حج کے ہر عمل میں ہرشخص کی شرکت ہوتی ہے، اور انسانی مساوات کا ایسا منظر سامنے آتا ہے کہ شاید ہی دنیا میں کہیں اس کی مثال مل سکے، اور کیوں نہ ہو؛ کہ حج ہی کے اجتماع میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: کسی گورے کو کسی کالے پر، اور کسی عربی کو غیر عربی پر رنگ ونسل کی وجہ سے کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر: ۱۶) یہ سبق مسلمان اپنے اپنے ملکوں میں واپس ہوکر برادران مذہب اور برادران وطن کو دیتے ہیں، اور ہندو بھائیوں کو تو اس پیغام کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، اگر آپ اپنے مسلمان بھائیوں سے یہ سبق سیکھ لیں تو ملک کا کتنا بھلا ہوجائے!
آپ کی کتابِ شریعت ’’منوسمرتی‘‘ میں پیدائشی طور پر انسانی تفریق اور ذات پات کی بنیاد پر اونچ نیچ کی جو تعلیم دی گئی  ہے، شاید ہی پیدائشی نابرابری اور انسان اور انسان کے درمیان تفریق کی ایسی کوئی اور مثال ملتی ہو، جیسے منوجی فرماتے ہیں: شودر کی لڑکی کو اپنے پلنگ پر بٹھانے سے برہمن نرک (دوزخ) میں جاتا ہے۔ (17:3) برہمن کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ شودر کے سامنے وید نہ پڑھے، (99:4) اور نہ شودر کا کھانا کھائے، (211:4) جو شودر کو دھرم کی تعلیم دے گا، وہ بھی اس شودر کے ساتھ جہنم میں جائے گا، (17:3) منو جی کی تعلیمات میں ہے: اگر برہمن بھولے سے شودر کا کھانا کھالے تو تین دن تک روزہ رکھے، اور اگر عمداََ کھالے تو اس کا وہی کفارہ ادا کرنا چاہئے، جو حیض، پاخانہ یا پیشاب پینے اور کھانے والے کے لئے مقرر ہے، (322:4)--- یہ تو چند معمولی نمونے ہیں؛ ورنہ منو سمرتی میں ایسے ایسے اقتباسات موجود ہیں کہ ان کا ذکر کرنا بھی گراں گزرتا ہے، یقیناََ حج میں انسانی مساوات کا جو سبق ملتا ہے، وہ ایسی بات ہے، جس کو ہمارے ملک میں عام کرنے اور ملک کے تمام شہریوں تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔
جہاں تک حج سبسڈی کی بات ہے تو ایسی سہولتیں ہر مذہبی گروہ کے لئے مہیا کی جاتی ہیں، کنبھ کے میلوں اور ہندو بھائیوں کی مختلف یاتراؤں پر اتنی بڑی رقم خرچ کی جاتی ہے کہ حج سبسڈی تو شاید اس کا ہزارواں حصہ بھی نہیں ہو، اس طرح کی رعایت عیسائی بھائیوں کے لئے بھی بیت اللحم (فلسطین) کے سفر کے لئے دی جاتی ہے؛ اور یہ ایک معقول بات ہے؛ کیوں کہ ہر طبقہ کے لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں، اور ہم تمام ہندوستانی بھائی بھائی ہیں، ہمیں ایک دوسرے کو سہولت پہنچاکر خوش ہونا چاہئے نہ کہ ناراض، ملک کے عوام کو بلاامتیازِ مذہب وملت سہولت پہنچانا حکومت کی ذمہ داری ہے؛ لیکن اگر غور کیجئے تو مسلمانوں کو دی جانے والی سبسڈی کی حیثیت ایک خوب صورت دھوکہ سے زیادہ نہیں ہے، پہلے سفر حج کے لئے پانی جہاز کی سہولت تھی، جس میں کم اخراجات آتے تھے، حکومت نے اسے ختم کردیا، اس کے بعد سبسڈی کا سلسلہ شروع ہوا؛ لیکن صورت حال یہ ہے کہ اگر عام مسافروں کے لئے زمانہ حج میں ہوائی جہاز کا کرایہ چوبیس پچیس ہزار ہوتا ہے تو حاجیوں کے لئے پینتالیس پچاس ہزار، حج کمیٹی کو حکومت کی طرف سے اجازت نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی سے بولی لگوائے، اور جو ائیرلائنز سستا ٹکٹ فراہم کرے، اس سے اپنے حاجیوں کو بھیجے؛ بلکہ وہ پابند ہے کہ ایک طرف سے ائیر انڈیا اور دوسری طرف سے سعودی ائیر لائنز ہی کا ٹکٹ حاصل کرے، ائیر انڈیا کی پابندی تو حکومت کی طرف سے ہے؛ لیکن سعودی ائیر لائنز کی پابندی بھی ہندوستان اور سعودی عرب کی ہوائی کمپنی کے باہمی معاہدے کی بنیاد پر ہے، اگر حج کمیٹی ائیر لائنز کے انتخاب میں آزاد ہوتی تو حکومت جتنی سبسڈی دیتی ہے، اس سے بھی کم رقم میں حجاج کا سفر ہوتا، پھر بھی مسلمانوں پر سبسڈی کا احسان رکھنا کیسی ناانصافی کی بات ہے؟
ڈاکٹر کلپنا نے اپنی اس تقریر میں خاص طور پر جہاد کی بات کہی ہے، انہوں نے کہا ہے کہ چودہ سو سال سے جنہوں نے صرف قتل عام کیا ہے، ان کو ہم دھارمک کہتے ہیں، وہ کہتی ہیں کہ مسلمانوں کا ایک ہی مقصد ہے، اور وہ یہ کہ جب تک ایک بھی کافر زندہ ہے، اللہ کا کام رکے گا نہیں، یعنی جہاد جاری رہے گا،  وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ اسلام میں ہر کافر واجب القتل ہے، یہ اللہ کا حکم ہے، اور جو اللہ اور جبرئیل کو نہ مانے وہ کافر ہے----- ڈاکٹر کلپنا کی یہ ساری باتیں خلاف واقعہ اور غلط فہمی پر مبنی ہیں، جہاد کا مقصد کافروں کو ختم کرنا نہیں ہے؛ بلکہ ظلم کو روکنا ہے، مسلمانوں کو اُسی وقت جہاد کی اجازت دی گئی ہے، جب ظلم کیا جاتا ہو، اور انہی لوگوں سے جہاد کرنے کو کہا گیا ہے، جو ظلم ڈھاتے ہوں؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اُذن للذین یقاتَلون بأنھم ظُلموا (الحج: ۳۹)
جن سے جنگ وجدال کی جارہی ہے، ان کو جہاد کی اجازت دی گئی؛ کیوں کہ ان کے ساتھ ظلم کیا گیا ہے۔
جو لوگ کفر پر قائم ہیں؛ لیکن وہ معاشرہ میں امن وامان کے ساتھ رہتے ہیں، دوسروں پر ظلم نہیں کرتے اور انہیں گھر بدر نہیں کرتے، ان کے ساتھ جنگ کا نہیں، حسن سلوک کا حکم ہے:
لاینھا کم اللّہ  عن الذ ین لم یقاتلوکم في الدین ولم یخرجوکم من دیا رکم أن تبروھم وتقسطوا إلیھم إن اللّہ یحب المقسطین (الممتحنہ: ۸)
جو لوگ تم سے دین کے معاملہ میں جنگ نہیں کرتے، اور نہ انہوں نے تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ہے، اللہ تعالیٰ تم کو ان کے ساتھ حسن سلوک اور انصاف برتنے سے نہیں روکتے، بے شک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں۔
قرآن مجید نے صاف صاف کہا ہے کہ جو تم سے جنگ کرے، ان ہی سے جنگ کرنے کی اجازت ہے اور اس میں بھی زیادتی کرنے کی گنجائش نہیں ہے:
قاتلوا في سبیل اللّہ الذین یقاتلونکم ولا تعتدوا إن اللّہ لا یحب المعتدین (بقرہ: ۱۹۱)
اللہ کے راستے میں ان لوگوں سے جنگ کرو، جو تم سے جنگ کر رہے ہیں اور حد سے تجاوز نہ کرو، بے شک اللہ تعالیٰ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے۔
جو غیر مسلم مسلمانوں سے بر سر جنگ نہ ہوں، اس کی زندگی اتنی ہی قابل احترام ہے، جتنی ایک مسلمان کی؛ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من قتل معاھداََ لم یرح رائحۃ الجنۃ، وأن ریحھا یوجد من مسیرۃ أربعین عاما۔( بخاری عن عبد اللہ بن عمرو، حدیث نمبر: ۳۱۶۶)
جس نے کسی معاہد(وہ غیر مسلم جس سے پُرامن زندگی گزارنے کا معاہدہ ہو) کو قتل کیا، وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا؛ حالاں کہ اس کی خوشبو چالیس سال کے فاصلہ سے محسوس کی جا سکتی ہے۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اصولی بات فرمائی کہ غیر مسلموں کے خون ہمارے خون کی طرح اور ان کے مال ہمارے مال کی طرح ہیں:
دماء ھم کدماء نا وأموالھم کأموالنا (نصب الرایہ: ۴؍۳۶۹)
اور اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ جو شخص کسی انسان کو ناحق قتل کر ڈالے؛ چاہے وہ کسی مذہب کو ماننے والا ہو، گویا وہ پوری انسانیت کا قاتل ہے:
من قتل نفساََبغیر نفس أو فساد في الأرض فکأنما قتل الناس جمیعا (مائدہ: ۳۲)
اس لئے یہ سمجھنا کہ ہر کافر اسلام کی نظر میں واجب القتل ہے، بالکل غلط ہے، جہاد ظالموں سے ہے نہ کہ کافروں سے، اگرخود مسلمان ظلم کریں تو ان سے بھی جہاد کا حکم ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عہد میں اس کی مثالیں موجود ہیں، اور اگر غیر مسلم امن وامان اور انصاف کے ساتھ رہیں تو ان سے بھی جہاد جائز نہیں ہے، پس جہاد کی بنیاد ظلم ہے نہ کہ کفر۔(جاری)

حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
(ترجمان وسکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ)