حرف ضاد (ض) کو ادا کرنے کا درست طریقہ کیا ہے؟
سوال: حرف ضاد (ض) کو ادا کرنے کا درست طریقہ کیا ہے؟ کیا اس کو دال (د) یا ظاء (ظ) پڑھ سکتے ہیں؟
جواب: ضاد کے مخرج کو چھوڑ کر دال یا ظاء کے مخرج سے ادا کرنا جائز نہیں اور ضاد کا مخرج حافة اللسان یعنی زبان کی کروٹ اور اوپر کی داڑھوں کی جڑ ہے اور ظ کا مخرج زبان کی نوک ثنایا علیا کا کنارہ ہے۔ (مستفاد: کفایت المفتی قدیم ۲؍۹٦، زکریا مطول ۲؍٤٧٠، جدید زکریا مطول ۲؍٤٧٠)
أعلٰی حافة اللسان وما یحاذیہا من الضراس العلیا، یخرج منه الضاد المعجمة بشرط اعتماد رأس اللسان برأس العلیین الخ (زبدہ ترتیل القرآن ص:۳ - فتاوی قاسمیہ ٥٤١/٣)
○ کتاب النوازل (١٥٧/٢) میں ہے کہ
حرف ضاد کا ایک مستقل مخرج (حافۂ لسان یعنی زبان کی کروٹ) اور ایک خاص آواز ہے، اسی کے مطابق پڑھنا لازم وواجب ہے، اس لئے اگر کوئی شخص جان بوجھ کر ’"ضالین" کو دالین پڑھے گا، تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی، ہاں اگر کسی سے حرفِ ضاد ادا ہی نہ ہوتا ہو اور کافی کوشش کے باوجود دال نکل جائے، تو بحالت معذوری اس کی نماز ہوجائے گی؛ پس جان بوجھ کر ’"ضالین" کو "دالین" پڑھنا درست نہیں؛ لہٰذا پوری کوشش کی جائے کہ ضاد کو اس کے مخرج سے ادا کرے۔ (فتاویٰ رشیدیہ ۳۲۱، کمال الفرقان علی ہامش جمال القرآن ۳۰-۳۱)
استفتاء من علماء الحرمین الشریفین………
الجواب من شیخ القراء بالمدینۃ المنورۃ……، أن نہایۃ القول في الضاد ہو أنہا أقرب إلی الظاء فقط کما في الرعایۃ، وجُہد المقل وغیرہما، فقراء ۃ الفرقۃ الثالثۃ المسئولۃ في الاستفتاء صحیح، وأما کون الضاد شبیہۃ بالدال أو الغین، فما سمعنا بہ قط، ولا وُجد في کتاب، فمن صلی خلف الإمام یعتقد ذٰلک فصلاتہما باطلۃ۔ واللّٰہ علی ما نقول۔
والجواب من علماء المکۃ المکرمۃ……
فنقول إن الذي استقر علیہ رأي جمیع أہل الأداء من کتبہم أں الضاد والظاء اتفقتا في الاستعلاء والإطباق والتفخیم والجہر والرخاوۃ، واختلفتا في المخرج، وانفردت الضاد بالاستطالۃ، فإذاأعطیت للضادہٰہنا من مخرجہا وصفاتہا، فقد أوتیت بالثواب الذي لا محید عنہ عند علماء القراء ۃ، وحینئذ یکون بہا أثر شبہہ الظاء في التلفظ کما في نہایۃ القول المفید، وأما کون الضاد قریبۃً من الدال أو الغین في التلفظ فبعید عن الحق، واللّٰہ أعلم۔
*(رسالۃ إعلام العباد بحقیقۃ النطق بالضاد مع استفتاء علماء الحرمین الشریفین ونظم الضاد ۲۷-۲۸، رفع التضاد في أحکام الضاد للمفتي محمد شفیع العثماني ۱۱، فتاویٰ محمودیہ ڈابھیل ۳؍٤٨٨)
○ فتاوی ریاض العلوم (٢٦٤/٢) میں ہے کہ
الغرض حرف ضاد اپنے مخرج اور صفات کے اعتبار سے ظاء خالص اور دال پُردونوں سے بالکل جدا ایک الگ حرف ہے، اس کو جس طرح دال سے بدل کر عوام کی طرح پڑھنا غلطی ہے،اسی طرح ظاء خالص سے بدل کر (بعض قراء زمانہ کی طرح) پڑھنا صریح غلطی ہے، لیکن فساد نماز کے بارے میں فتویٰ اس پر ہے کہ اگر جان بوجھ کر یا بے پروائی سے باوجود قادر بالفعل ہونے کے، ایسا تغیر کرے کہ ضاد کی جگہ دال یا ظاء خالص پڑھے، تو نماز فاسد ہوجائے گی، اور اگر بوجہ ناواقفیت اور عدم تمیز ایسا سرزد ہوجائے اور وہ اپنے نزدیک یہی سمجھے کہ میں نے حرف ضاد پڑھا ہے تو نماز صحیح ہوجائے گی۔ (جواہر الفقہ:۱؍۳۳۸)
○ نظام الفتاوی (١٤٦/٥) میں ہے کہ
"ضاد" ایک مستقل حرف ہے جس کا ایک متعین مخرج ہے اور مستقل آواز ہے جو ظاء، دال، ذال، سب سے الگ ہے اور ’’دواد‘‘ کوئی حرف عربی میں نہیں اور نہ ’’دواد‘‘ پڑھنا صحیح ہے پس جو شخص ’’ضاد‘‘ کو اس کے صحیح مخرج سے پڑھتاہے تواس کی نماز خود اس کے پیچھے تمام مقتدیوں کی نماز بے شبہ صحیح ہوجاتی ہے اگر ’’ضاد‘‘ کو صحیح مخرج سے ادا کرتے ہیں تھوڑی سی مشابہت ’’ظاء‘‘ وغیرہ کی محسوس ہو لیکن یہ بھی محسوس ہوجائے کہ ’’ظاء‘‘ یا ’’دال‘‘ یا ’’ذال‘‘ یا’’ ز‘‘ نہیں ہے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
○ فتاوی دارالعلوم دیوبند (جواب ١٢٣٦٠) میں ہے کہ
ضاد، ایک مستقل حرف ہے اس کا مخرج دیگر حروف سے الگ ہے، بالقصدضاد کو نہ ظ پڑھنا جائز ہے اور نہ دال کی آواز سے نکالنا درست ہے، ضاد کو اپنے مخرج سے ادا کرنا لازم ہے، اور اس کی مشق ضروری ہے، البتہ اگر کوئی بالقصد ایسا نہ کرے بلکہ عدم تمیز اور ادائیگی پر قدرت نہ ہونے کی وجہ سےضاد کو ظ یا دال کی آواز کے ساتھ پڑھ دے تو فساد نماز کا حکم نہیں ہے اور صحیح ادائیگی کی کوشش ومشق کرتا رہے۔
واللہ اعلم بالصواب
سوال: حرف ضاد (ض) کو ادا کرنے کا درست طریقہ کیا ہے؟ کیا اس کو دال (د) یا ظاء (ظ) پڑھ سکتے ہیں؟
جواب: ضاد کے مخرج کو چھوڑ کر دال یا ظاء کے مخرج سے ادا کرنا جائز نہیں اور ضاد کا مخرج حافة اللسان یعنی زبان کی کروٹ اور اوپر کی داڑھوں کی جڑ ہے اور ظ کا مخرج زبان کی نوک ثنایا علیا کا کنارہ ہے۔ (مستفاد: کفایت المفتی قدیم ۲؍۹٦، زکریا مطول ۲؍٤٧٠، جدید زکریا مطول ۲؍٤٧٠)
أعلٰی حافة اللسان وما یحاذیہا من الضراس العلیا، یخرج منه الضاد المعجمة بشرط اعتماد رأس اللسان برأس العلیین الخ (زبدہ ترتیل القرآن ص:۳ - فتاوی قاسمیہ ٥٤١/٣)
○ کتاب النوازل (١٥٧/٢) میں ہے کہ
حرف ضاد کا ایک مستقل مخرج (حافۂ لسان یعنی زبان کی کروٹ) اور ایک خاص آواز ہے، اسی کے مطابق پڑھنا لازم وواجب ہے، اس لئے اگر کوئی شخص جان بوجھ کر ’"ضالین" کو دالین پڑھے گا، تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی، ہاں اگر کسی سے حرفِ ضاد ادا ہی نہ ہوتا ہو اور کافی کوشش کے باوجود دال نکل جائے، تو بحالت معذوری اس کی نماز ہوجائے گی؛ پس جان بوجھ کر ’"ضالین" کو "دالین" پڑھنا درست نہیں؛ لہٰذا پوری کوشش کی جائے کہ ضاد کو اس کے مخرج سے ادا کرے۔ (فتاویٰ رشیدیہ ۳۲۱، کمال الفرقان علی ہامش جمال القرآن ۳۰-۳۱)
استفتاء من علماء الحرمین الشریفین………
الجواب من شیخ القراء بالمدینۃ المنورۃ……، أن نہایۃ القول في الضاد ہو أنہا أقرب إلی الظاء فقط کما في الرعایۃ، وجُہد المقل وغیرہما، فقراء ۃ الفرقۃ الثالثۃ المسئولۃ في الاستفتاء صحیح، وأما کون الضاد شبیہۃ بالدال أو الغین، فما سمعنا بہ قط، ولا وُجد في کتاب، فمن صلی خلف الإمام یعتقد ذٰلک فصلاتہما باطلۃ۔ واللّٰہ علی ما نقول۔
والجواب من علماء المکۃ المکرمۃ……
فنقول إن الذي استقر علیہ رأي جمیع أہل الأداء من کتبہم أں الضاد والظاء اتفقتا في الاستعلاء والإطباق والتفخیم والجہر والرخاوۃ، واختلفتا في المخرج، وانفردت الضاد بالاستطالۃ، فإذاأعطیت للضادہٰہنا من مخرجہا وصفاتہا، فقد أوتیت بالثواب الذي لا محید عنہ عند علماء القراء ۃ، وحینئذ یکون بہا أثر شبہہ الظاء في التلفظ کما في نہایۃ القول المفید، وأما کون الضاد قریبۃً من الدال أو الغین في التلفظ فبعید عن الحق، واللّٰہ أعلم۔
*(رسالۃ إعلام العباد بحقیقۃ النطق بالضاد مع استفتاء علماء الحرمین الشریفین ونظم الضاد ۲۷-۲۸، رفع التضاد في أحکام الضاد للمفتي محمد شفیع العثماني ۱۱، فتاویٰ محمودیہ ڈابھیل ۳؍٤٨٨)
○ فتاوی ریاض العلوم (٢٦٤/٢) میں ہے کہ
الغرض حرف ضاد اپنے مخرج اور صفات کے اعتبار سے ظاء خالص اور دال پُردونوں سے بالکل جدا ایک الگ حرف ہے، اس کو جس طرح دال سے بدل کر عوام کی طرح پڑھنا غلطی ہے،اسی طرح ظاء خالص سے بدل کر (بعض قراء زمانہ کی طرح) پڑھنا صریح غلطی ہے، لیکن فساد نماز کے بارے میں فتویٰ اس پر ہے کہ اگر جان بوجھ کر یا بے پروائی سے باوجود قادر بالفعل ہونے کے، ایسا تغیر کرے کہ ضاد کی جگہ دال یا ظاء خالص پڑھے، تو نماز فاسد ہوجائے گی، اور اگر بوجہ ناواقفیت اور عدم تمیز ایسا سرزد ہوجائے اور وہ اپنے نزدیک یہی سمجھے کہ میں نے حرف ضاد پڑھا ہے تو نماز صحیح ہوجائے گی۔ (جواہر الفقہ:۱؍۳۳۸)
○ نظام الفتاوی (١٤٦/٥) میں ہے کہ
"ضاد" ایک مستقل حرف ہے جس کا ایک متعین مخرج ہے اور مستقل آواز ہے جو ظاء، دال، ذال، سب سے الگ ہے اور ’’دواد‘‘ کوئی حرف عربی میں نہیں اور نہ ’’دواد‘‘ پڑھنا صحیح ہے پس جو شخص ’’ضاد‘‘ کو اس کے صحیح مخرج سے پڑھتاہے تواس کی نماز خود اس کے پیچھے تمام مقتدیوں کی نماز بے شبہ صحیح ہوجاتی ہے اگر ’’ضاد‘‘ کو صحیح مخرج سے ادا کرتے ہیں تھوڑی سی مشابہت ’’ظاء‘‘ وغیرہ کی محسوس ہو لیکن یہ بھی محسوس ہوجائے کہ ’’ظاء‘‘ یا ’’دال‘‘ یا ’’ذال‘‘ یا’’ ز‘‘ نہیں ہے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
○ فتاوی دارالعلوم دیوبند (جواب ١٢٣٦٠) میں ہے کہ
ضاد، ایک مستقل حرف ہے اس کا مخرج دیگر حروف سے الگ ہے، بالقصدضاد کو نہ ظ پڑھنا جائز ہے اور نہ دال کی آواز سے نکالنا درست ہے، ضاد کو اپنے مخرج سے ادا کرنا لازم ہے، اور اس کی مشق ضروری ہے، البتہ اگر کوئی بالقصد ایسا نہ کرے بلکہ عدم تمیز اور ادائیگی پر قدرت نہ ہونے کی وجہ سےضاد کو ظ یا دال کی آواز کے ساتھ پڑھ دے تو فساد نماز کا حکم نہیں ہے اور صحیح ادائیگی کی کوشش ومشق کرتا رہے۔
واللہ اعلم بالصواب
-------------------------
حرف ضاد کاصحیح تلفظ اور مخرج
قرآن ِ کریم؛ اللہ تعالیٰ کا کلام بھی ہے اور اسی کی طرف سے نازل شدہ آخری کتاب بھی اور تاقیامت ہدایت و نجات کا ذریعہ بھی۔ اس کو پڑھنا ، پڑھانا ، سننا ،سنانا ، سمجھنا ، سمجھانا اور سب سے بڑھ کر اس پر عمل پیرا ہونارضائے الہی کا باعث ہے۔
قرآن کریم کے حروف کے صحیح تلفظ اور ادائیگی میں بالکل سستی نہیں برتنی چاہیے ، بہت سی صورتوں میں لفظ کی غلط ادائیگی میں ایک حرف دوسرے حرف میں بدل جاتا ہے اور نماز تک کے فاسد ہونا کا اندیشہ ہوتا ہے۔ انہی میں سے ایک صورت حرف” ضاد“ کی ہے۔ ایک حرف کو دوسرے حرف سے بدلنے یا ضاد کو ظاء سے بدل کر پڑھنے کا فقہی اختلاف متقدمین اور متاخرین فقہاء کرام میں مشہور چلا آرہا ہے لیکن بعض کم علم لوگ فقہاء کرام کے اختلاف کا ذکر کئے بغیرفقہ کی ایک مشہور کتاب محیط برہانی کا ایک حوالہ پیش کر کے لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جو آدمی حرف ضاد کو حرف ظاء کےمشابہ ادا کرتا ہے اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں۔
لیکن یہاں مسئلہ صرف ائمہ کا نہیں بلکہ عوام الناس کا ہے کیوں کہ حروف کی تصحیح صرف ائمہ نہیں بلکہ ہر ایک نمازی کے ذمہ ہے۔ اگرچہ اس مسئلہ میں بہت پرانا اختلاف ہے لیکن عموم بلویٰ)عوام کا اس میں کثرت سے مبتلا ہونے کی وجہ سے ( کی وجہ سے متاخرین فقہاء کے نزدیک اس خطا سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ عام لوگ اس میں مبتلاہیں اور وہ بغیر مشقت کے حروف کو درست ادا نہیں کر سکتے۔
امام حافظ الدین محمد بن محمد المعروف بابن البزاز الکردری الحنفی م827ھ لکھتے ہیں: ضابطہ یہ ہے کہ دو حرفوں میں اگر بلا تفریق فرق کرنا ممکن ہو جیسے صاد اور طا میں مثلاً صالحات کی جگہ طالحات پڑھ دیا تو سب کے نزدیک نماز فاسد ہوگی۔ اگر مشقت کے بغیر ممکن نہ ہو مثلاً ظاء اور ضاد ،صاد اور سین ، طاء اور تا اس میں فقہاء کا اختلاف ہے اکثر کے نزدیک نماز فاسد نہ ہوگی کیونکہ اس میں عموم بلویٰ ہے۔
)فتاویٰ بزازیہ ج1ص46(
چنانچہ علامہ محمد ابن عابدین الشامی الحنفی م 1252ھ لکھتے ہیں : جب دو حرفوں میں نہ تو اتحاد مخرج ہو اور نہ قرب؛ مگراس میں عموم بلویٰ) عام لوگ مبتلا ہوں( جیسے ذال کی بجائے ضاد یا ظاء کی بجائے ذال یا ظاء کی بجائے ضاد پڑھ دینا تو بعض مشائخ کے نزدیک نماز فاسد نہ ہوگی۔ پھر آگے فرماتے ہیں۔اگر جان بوجھ کر ایک حرف کو دوسرے حرف کی جگہ پڑھا تو نماز فاسد ہوگی۔ مختار قول یہی ہے اور فتاویٰ بزازیہ میں ہے : کہ درست تر اور مختار قول یہی ہے۔
)شامی زلۃ القاری ج1ص486(
نوٹ: یہی بات فتاویٰ عالمگیری جلد1ص83 فتاویٰ قاضی خان جلد1 ص70 پر بھی موجود ہے۔
ظاء اور ضاد میں فرق کرنا بہت مشکل ہے اور ان کی ادائیگی میں خاصی مشقت ہوتی ہے اس لیے فقہاء کے نزدیک نماز فاسد نہیں ہوگی۔ باقی حتی الوسع انسان کوشش کر ے کہ ہر حرف کو اس کے مخرج اور صفات کا خیال کرتے ہوئے ادا کرے۔
حضرات مفسرین نے بھی یہی بات تحریر کی ہے کہ اگر اس میں کوئی کمی رہ جاتی ہے تو معاف ہے کیونکہ یہ دونوں حروف قریب المخرج ہیں۔
)تفسیر ابن کثیر ج1ص30 روح المعانی وغیرہ(
شیخ القراء الشیخ مکی نصر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ضاد اور ظاء دونوں سننے میں ایک دوسرے کے مشابہ ہیں اور ان دونوں میں کوئی فرق نہیں بجز اس کے کہ ان دونوں کے مخرج جدا جدا ہیں اور ضاد کو پڑھتے وقت آواز لمبی کرنی پڑتی ہے۔ اگر یہ فرق نہ ہوتا تو دونوں ایک ہی حرف سمجھے جاتے۔
)ملخصاً نہایۃ القول المفید فی علم التجوید ص58(
امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ضاد اور ظا ءکے درمیان فرق کرے اگر نہیں کر سکتا تو جائز ہے۔
) اکسیر ہدایت اردو ترجمہ کیمیائے سعادت ص91(
ضاد کا مخرج :
حافۂِ لسان اور اوپر کی پانچ داڑھیں اس سے ضاد ادا ہوتا ہے۔ یعنی زبان کی کروٹ جب اوپر کی داڑھوں سے ٹکراتی ہے بائیں طرف یا دائیں طرف اور دونوں طرف سے بھی ادا کیا جا سکتا ہے مگر بہت مشکل ہے۔ بائیں طرف سے آسان ہے اس حرف کو ”حافیہ“ کہا جاتا ہے۔ اس حرف میں اکثر لوگ غلطی کرتے ہیں اس لیے کسی مشاق اور مجوّد قاری سے اس کی مشق کرنا ضروری ہے۔اس حرف کو پُر دال یا باریک دال یا دال کے مشابہ جیسا کہ آج کل اکثر لوگوں کے پڑھنے کی عادت ہے ایسا ہر گز نہیں پڑھنا چاہیے یہ بالکل غلط ہے۔
اسی طرح خالی ظا ءپڑھنا بھی غلط ہے البتہ اگر ضاد کو اس کے صحیح مخرج سے صحیح طور پر نرمی کے ساتھ آواز کو جاری رکھ کر اور تمام صفات کا لحاظ کر کے ادا کیا جائے تو اس کی آواز سننے میں ظاء کی آواز کے ساتھ بہت زیادہ مشابہ ہوتی ہے۔ دال کے مشابہ بالکل نہیں ہوتی۔ علم تجوید اور قرأت کی کتابوں میں اسی طرح لکھا ہے۔
)جمال القرآن ص 8(
فقہاء، مفسرین اور قراء کرام کی اس وضاحت کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ ضاد کی آواز ظاء کے مشابہ ہوگی نہ کے دال کے مشابہ۔ مختلف فنون و علوم کی متعدد ماخذ ، مراجع اور مصادرکتب اس بات پر دلالت کرتی ہیں ، چنانچہ خیر ا لزاد فی سیر الضاد ص 5 پر ساٹھ سے زائد کتابوں کے حوالہ سے یہ بات ثابت ہے کہ ضاد یہ ظاء کے مشابہ ہے، ان کتابوں میں جزریہ ، شاطبیہ ، تفسیر کبیر ، تفسیر بیضاوی ، فتاویٰ عالمگیری ، فتاویٰ قاضی خان، درمختار، خلاصۃ الفتاویٰ، فتح القدیر وغیرہ شامل ہیں۔ اگرچہ ان دونوں میں فرق کرنا ایک مشکل اور دشوار امر ہے۔ لیکن محال ہر گز نہیں نہ عقلاً نہ عادۃً ان دونوں حرفوں کا آپس میں تشابہ اور بعض وجوہ میں اشتراک ایک واضح حقیقت ہے۔
چنانچہ شیخ القراء شیخ مکی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: بلا شبہ ضاد معجمہ اور ظا ءمعجمہ ) یعنی نقطوں والے( صفات جہر ، رخوت، استعلاء، اور اطباق میں دونوں شریک ہیں اور مخرج کے اعتبار سے دونوں جدا جدا ہیں اور صفت استطالت میں ضاد ممتاز ہے ) ظاءمیں یہ صفت نہیں( اور مرعشی ) کتاب کا نام( میں رعایۃ سے نقل کیا گیا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ دونوں حرف ضاد اور ظاء سننے میں ایک دوسرےکے مشابہ ہیں اور ان دونوںمیں سوائے اس کے اور کوئی فرق نہیں کہ ان کا مخرج جدا جدا ہے۔ اور ضاد میں صفت استطالت ہے اور ظا ء میں نہیں اگر یہ دونوں باتیں نہ ہوتیں تو دونوں ایک حرف ہوجاتے۔ تو ضاد بنسبت ظاء کے قاری پر زیادہ مشکل اور شاق ہوتا ہے یہاں تک کہ اگر قاری حرف ظاء کی تجوید میں ذرا سی کوتاہی کرے تو وہ ضاد بن جاتا ہے۔
)نہایۃ القول المفید فی علم التجوید ص 58(
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ضاداور ظاء کے مخرج میں فرق بہت مشکل ہے اس علاقہ میں رہنے والے اکثر پڑھنے والے ان دونوں کو ایک طرح سے نکالتےاور پڑھتے ہیں کہ نہ ضاد؛ ضاد رہتا ہے اور نہ ظاء؛ ظاء۔قرآن کریم پڑھنے والے کے لیے ضروری ہے کہ ان دونوں حرفوں کے مخرج کو جدا جدا پہچانے۔
)تفسیر عزیزی پارہ عمَّ تحت آیت وماھو علی الغیب بضین(
ان تمام حوالہ جات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ باوجود ہر دو حرفوں کے مخرج کے جداجدا ہونے کے ضاد سننے میں ظاء کے مشابہ ہے نہ کہ دال کے اور ان دونوں میں فرق خاصا مشکل ہے اور حضرت شاہ رحمہ اللہ کے حوالہ سے یہ بات بھی واضح ہوگئی ہے کہ ان کے زمانہ میں دہلی وغیرہ شہروں کے لوگ ضاد کو مشابہ ظا ء کے پڑھتے تھےنہ کہ دال کے۔
ضاد اور دال میں فرق:
ضاد اور دال میں سات صفات میں فرق ہے۔
ضاد رخوہ اور دال شدیدہ
ضاد مستعلیہ اور دال مستفلہ
ضاد مطبقہ اور دال منفتحہ
ضاد مخفمہ اور دال مرققہ
ضاد مستطلیہ اور دال قصیرہ
ضادمنفوخہ؛دال غیر منفوخہ
اورضاد ساکنہ اور دال قلقلہ
جبکہ ضاد اور ظاء میں مشابہت، تفسیر ، تجوید وقرات ، فقہ اورفتاویٰ وغیرہ کی ساٹھ سے زائد کتب سے ثابت ہے ،جن میں سے چند ایک اوپر نقل کر دی گئی ہیں۔
فقہ کا قاعدہ:
جن دو حرفوں میں فرق باآسانی ممکن ہو اس کے بدل جانے سے نماز فاسد ہوجاتی ہے اگر فرق کرنا مشکل ہو تو اکثر کے نزدیک نماز فاسد نہیں ہوتی اور یہی مذہب متاخرین کا ہے جو بہت معتدل اور پسندیدہ ہے۔ چنانچہ فتاویٰ قاضی خان میں ہے:اگر ولا الضالین کو ظا یا ذال سے پڑھا تو نماز فاسد نہ ہوگی اوراگرالدالین دال سے پڑھا تو نماز فاسد ہوجائےگی۔
)فتاویٰ قاضی خان ج1ص49(
ضاد مستقل حرف ہے اس کو کسی دوسرے حرف کے مشابہ قصداً نہیں پڑھنا چاہیے ظا ء کے ساتھ صفات میں زیادہ اشتراک ہے نماز کی صحت اور فساد معنیٰ کی صحت اور فساد اور قدرت ِ ادا پر موقوف ہے۔ جو شخص ضاد کو صحیح طور پر ادا کرنے پر قادر ہوکر اس جگہ دال پڑھے گا اس کی نماز نہیں ہوگی۔
)فتاویٰ محمودیہ ج7ص129سوال نمبر 3238(
ضاد کوڈال پڑھنے سے نماز نہ ہوگی کیونکہ ڈال عربی زبان کا حرف نہیں ، ضاد کی مشابہت دال یا ڈال سے بالکل نہیں کیونکہ ضاد حروف رخوہ میں سے ہے جن میں جریان صوت لازم ہے اور دال حروف شدیدہ میں سے ہے جن میں جریانِ صوت ممکن ہی نہیں دنیا بھر میں کوئی شخص بھی ضاد کو دال سے مشابہت دیکر اس میں جریان صوت نہیں کرسکتاعلم تجوید کے اصول کے مطابق یہی ایک دلیل کافی ہےجس کا جواب قیام قیامت تک ممکن نہیں اس اصولی دلیل کے بعد کسی دلیل کی ضرورت نہیں کسی میں طاقت ہے تودال میں جریان صوت کر کے دکھلائے۔(احسن الفتاویٰ ج3 ص90)
اس کے بعد جزریہ کی عبارت پیش کی ہے اس میں بھی یہی ہے کہ ضاد اور ظاء میں تمیز ضروری ہے۔ یہ بھی تشابہ کو مستلزم ہے اس کے بعد شرح فقہ اکبر اور جامع الفصولیین کی عبارات سے ثابت کیا ہے کہ ضاد کو ظاء پڑھنا جائز نہیں اور عمداً پڑھنا کفر ہے۔ ہمارا بھی یہی مسلک ہے کہ بلا عذر پڑھنا جائز نہیں۔
(احسن الفتاویٰ ج3 ص92)
مولانا محمد اشفاق ندیم
قرآن ِ کریم؛ اللہ تعالیٰ کا کلام بھی ہے اور اسی کی طرف سے نازل شدہ آخری کتاب بھی اور تاقیامت ہدایت و نجات کا ذریعہ بھی۔ اس کو پڑھنا ، پڑھانا ، سننا ،سنانا ، سمجھنا ، سمجھانا اور سب سے بڑھ کر اس پر عمل پیرا ہونارضائے الہی کا باعث ہے۔
قرآن کریم کے حروف کے صحیح تلفظ اور ادائیگی میں بالکل سستی نہیں برتنی چاہیے ، بہت سی صورتوں میں لفظ کی غلط ادائیگی میں ایک حرف دوسرے حرف میں بدل جاتا ہے اور نماز تک کے فاسد ہونا کا اندیشہ ہوتا ہے۔ انہی میں سے ایک صورت حرف” ضاد“ کی ہے۔ ایک حرف کو دوسرے حرف سے بدلنے یا ضاد کو ظاء سے بدل کر پڑھنے کا فقہی اختلاف متقدمین اور متاخرین فقہاء کرام میں مشہور چلا آرہا ہے لیکن بعض کم علم لوگ فقہاء کرام کے اختلاف کا ذکر کئے بغیرفقہ کی ایک مشہور کتاب محیط برہانی کا ایک حوالہ پیش کر کے لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جو آدمی حرف ضاد کو حرف ظاء کےمشابہ ادا کرتا ہے اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں۔
لیکن یہاں مسئلہ صرف ائمہ کا نہیں بلکہ عوام الناس کا ہے کیوں کہ حروف کی تصحیح صرف ائمہ نہیں بلکہ ہر ایک نمازی کے ذمہ ہے۔ اگرچہ اس مسئلہ میں بہت پرانا اختلاف ہے لیکن عموم بلویٰ)عوام کا اس میں کثرت سے مبتلا ہونے کی وجہ سے ( کی وجہ سے متاخرین فقہاء کے نزدیک اس خطا سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ عام لوگ اس میں مبتلاہیں اور وہ بغیر مشقت کے حروف کو درست ادا نہیں کر سکتے۔
امام حافظ الدین محمد بن محمد المعروف بابن البزاز الکردری الحنفی م827ھ لکھتے ہیں: ضابطہ یہ ہے کہ دو حرفوں میں اگر بلا تفریق فرق کرنا ممکن ہو جیسے صاد اور طا میں مثلاً صالحات کی جگہ طالحات پڑھ دیا تو سب کے نزدیک نماز فاسد ہوگی۔ اگر مشقت کے بغیر ممکن نہ ہو مثلاً ظاء اور ضاد ،صاد اور سین ، طاء اور تا اس میں فقہاء کا اختلاف ہے اکثر کے نزدیک نماز فاسد نہ ہوگی کیونکہ اس میں عموم بلویٰ ہے۔
)فتاویٰ بزازیہ ج1ص46(
چنانچہ علامہ محمد ابن عابدین الشامی الحنفی م 1252ھ لکھتے ہیں : جب دو حرفوں میں نہ تو اتحاد مخرج ہو اور نہ قرب؛ مگراس میں عموم بلویٰ) عام لوگ مبتلا ہوں( جیسے ذال کی بجائے ضاد یا ظاء کی بجائے ذال یا ظاء کی بجائے ضاد پڑھ دینا تو بعض مشائخ کے نزدیک نماز فاسد نہ ہوگی۔ پھر آگے فرماتے ہیں۔اگر جان بوجھ کر ایک حرف کو دوسرے حرف کی جگہ پڑھا تو نماز فاسد ہوگی۔ مختار قول یہی ہے اور فتاویٰ بزازیہ میں ہے : کہ درست تر اور مختار قول یہی ہے۔
)شامی زلۃ القاری ج1ص486(
نوٹ: یہی بات فتاویٰ عالمگیری جلد1ص83 فتاویٰ قاضی خان جلد1 ص70 پر بھی موجود ہے۔
ظاء اور ضاد میں فرق کرنا بہت مشکل ہے اور ان کی ادائیگی میں خاصی مشقت ہوتی ہے اس لیے فقہاء کے نزدیک نماز فاسد نہیں ہوگی۔ باقی حتی الوسع انسان کوشش کر ے کہ ہر حرف کو اس کے مخرج اور صفات کا خیال کرتے ہوئے ادا کرے۔
حضرات مفسرین نے بھی یہی بات تحریر کی ہے کہ اگر اس میں کوئی کمی رہ جاتی ہے تو معاف ہے کیونکہ یہ دونوں حروف قریب المخرج ہیں۔
)تفسیر ابن کثیر ج1ص30 روح المعانی وغیرہ(
شیخ القراء الشیخ مکی نصر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ضاد اور ظاء دونوں سننے میں ایک دوسرے کے مشابہ ہیں اور ان دونوں میں کوئی فرق نہیں بجز اس کے کہ ان دونوں کے مخرج جدا جدا ہیں اور ضاد کو پڑھتے وقت آواز لمبی کرنی پڑتی ہے۔ اگر یہ فرق نہ ہوتا تو دونوں ایک ہی حرف سمجھے جاتے۔
)ملخصاً نہایۃ القول المفید فی علم التجوید ص58(
امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ضاد اور ظا ءکے درمیان فرق کرے اگر نہیں کر سکتا تو جائز ہے۔
) اکسیر ہدایت اردو ترجمہ کیمیائے سعادت ص91(
ضاد کا مخرج :
حافۂِ لسان اور اوپر کی پانچ داڑھیں اس سے ضاد ادا ہوتا ہے۔ یعنی زبان کی کروٹ جب اوپر کی داڑھوں سے ٹکراتی ہے بائیں طرف یا دائیں طرف اور دونوں طرف سے بھی ادا کیا جا سکتا ہے مگر بہت مشکل ہے۔ بائیں طرف سے آسان ہے اس حرف کو ”حافیہ“ کہا جاتا ہے۔ اس حرف میں اکثر لوگ غلطی کرتے ہیں اس لیے کسی مشاق اور مجوّد قاری سے اس کی مشق کرنا ضروری ہے۔اس حرف کو پُر دال یا باریک دال یا دال کے مشابہ جیسا کہ آج کل اکثر لوگوں کے پڑھنے کی عادت ہے ایسا ہر گز نہیں پڑھنا چاہیے یہ بالکل غلط ہے۔
اسی طرح خالی ظا ءپڑھنا بھی غلط ہے البتہ اگر ضاد کو اس کے صحیح مخرج سے صحیح طور پر نرمی کے ساتھ آواز کو جاری رکھ کر اور تمام صفات کا لحاظ کر کے ادا کیا جائے تو اس کی آواز سننے میں ظاء کی آواز کے ساتھ بہت زیادہ مشابہ ہوتی ہے۔ دال کے مشابہ بالکل نہیں ہوتی۔ علم تجوید اور قرأت کی کتابوں میں اسی طرح لکھا ہے۔
)جمال القرآن ص 8(
فقہاء، مفسرین اور قراء کرام کی اس وضاحت کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ ضاد کی آواز ظاء کے مشابہ ہوگی نہ کے دال کے مشابہ۔ مختلف فنون و علوم کی متعدد ماخذ ، مراجع اور مصادرکتب اس بات پر دلالت کرتی ہیں ، چنانچہ خیر ا لزاد فی سیر الضاد ص 5 پر ساٹھ سے زائد کتابوں کے حوالہ سے یہ بات ثابت ہے کہ ضاد یہ ظاء کے مشابہ ہے، ان کتابوں میں جزریہ ، شاطبیہ ، تفسیر کبیر ، تفسیر بیضاوی ، فتاویٰ عالمگیری ، فتاویٰ قاضی خان، درمختار، خلاصۃ الفتاویٰ، فتح القدیر وغیرہ شامل ہیں۔ اگرچہ ان دونوں میں فرق کرنا ایک مشکل اور دشوار امر ہے۔ لیکن محال ہر گز نہیں نہ عقلاً نہ عادۃً ان دونوں حرفوں کا آپس میں تشابہ اور بعض وجوہ میں اشتراک ایک واضح حقیقت ہے۔
چنانچہ شیخ القراء شیخ مکی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: بلا شبہ ضاد معجمہ اور ظا ءمعجمہ ) یعنی نقطوں والے( صفات جہر ، رخوت، استعلاء، اور اطباق میں دونوں شریک ہیں اور مخرج کے اعتبار سے دونوں جدا جدا ہیں اور صفت استطالت میں ضاد ممتاز ہے ) ظاءمیں یہ صفت نہیں( اور مرعشی ) کتاب کا نام( میں رعایۃ سے نقل کیا گیا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ دونوں حرف ضاد اور ظاء سننے میں ایک دوسرےکے مشابہ ہیں اور ان دونوںمیں سوائے اس کے اور کوئی فرق نہیں کہ ان کا مخرج جدا جدا ہے۔ اور ضاد میں صفت استطالت ہے اور ظا ء میں نہیں اگر یہ دونوں باتیں نہ ہوتیں تو دونوں ایک حرف ہوجاتے۔ تو ضاد بنسبت ظاء کے قاری پر زیادہ مشکل اور شاق ہوتا ہے یہاں تک کہ اگر قاری حرف ظاء کی تجوید میں ذرا سی کوتاہی کرے تو وہ ضاد بن جاتا ہے۔
)نہایۃ القول المفید فی علم التجوید ص 58(
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ضاداور ظاء کے مخرج میں فرق بہت مشکل ہے اس علاقہ میں رہنے والے اکثر پڑھنے والے ان دونوں کو ایک طرح سے نکالتےاور پڑھتے ہیں کہ نہ ضاد؛ ضاد رہتا ہے اور نہ ظاء؛ ظاء۔قرآن کریم پڑھنے والے کے لیے ضروری ہے کہ ان دونوں حرفوں کے مخرج کو جدا جدا پہچانے۔
)تفسیر عزیزی پارہ عمَّ تحت آیت وماھو علی الغیب بضین(
ان تمام حوالہ جات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ باوجود ہر دو حرفوں کے مخرج کے جداجدا ہونے کے ضاد سننے میں ظاء کے مشابہ ہے نہ کہ دال کے اور ان دونوں میں فرق خاصا مشکل ہے اور حضرت شاہ رحمہ اللہ کے حوالہ سے یہ بات بھی واضح ہوگئی ہے کہ ان کے زمانہ میں دہلی وغیرہ شہروں کے لوگ ضاد کو مشابہ ظا ء کے پڑھتے تھےنہ کہ دال کے۔
ضاد اور دال میں فرق:
ضاد اور دال میں سات صفات میں فرق ہے۔
ضاد رخوہ اور دال شدیدہ
ضاد مستعلیہ اور دال مستفلہ
ضاد مطبقہ اور دال منفتحہ
ضاد مخفمہ اور دال مرققہ
ضاد مستطلیہ اور دال قصیرہ
ضادمنفوخہ؛دال غیر منفوخہ
اورضاد ساکنہ اور دال قلقلہ
جبکہ ضاد اور ظاء میں مشابہت، تفسیر ، تجوید وقرات ، فقہ اورفتاویٰ وغیرہ کی ساٹھ سے زائد کتب سے ثابت ہے ،جن میں سے چند ایک اوپر نقل کر دی گئی ہیں۔
فقہ کا قاعدہ:
جن دو حرفوں میں فرق باآسانی ممکن ہو اس کے بدل جانے سے نماز فاسد ہوجاتی ہے اگر فرق کرنا مشکل ہو تو اکثر کے نزدیک نماز فاسد نہیں ہوتی اور یہی مذہب متاخرین کا ہے جو بہت معتدل اور پسندیدہ ہے۔ چنانچہ فتاویٰ قاضی خان میں ہے:اگر ولا الضالین کو ظا یا ذال سے پڑھا تو نماز فاسد نہ ہوگی اوراگرالدالین دال سے پڑھا تو نماز فاسد ہوجائےگی۔
)فتاویٰ قاضی خان ج1ص49(
ضاد مستقل حرف ہے اس کو کسی دوسرے حرف کے مشابہ قصداً نہیں پڑھنا چاہیے ظا ء کے ساتھ صفات میں زیادہ اشتراک ہے نماز کی صحت اور فساد معنیٰ کی صحت اور فساد اور قدرت ِ ادا پر موقوف ہے۔ جو شخص ضاد کو صحیح طور پر ادا کرنے پر قادر ہوکر اس جگہ دال پڑھے گا اس کی نماز نہیں ہوگی۔
)فتاویٰ محمودیہ ج7ص129سوال نمبر 3238(
ضاد کوڈال پڑھنے سے نماز نہ ہوگی کیونکہ ڈال عربی زبان کا حرف نہیں ، ضاد کی مشابہت دال یا ڈال سے بالکل نہیں کیونکہ ضاد حروف رخوہ میں سے ہے جن میں جریان صوت لازم ہے اور دال حروف شدیدہ میں سے ہے جن میں جریانِ صوت ممکن ہی نہیں دنیا بھر میں کوئی شخص بھی ضاد کو دال سے مشابہت دیکر اس میں جریان صوت نہیں کرسکتاعلم تجوید کے اصول کے مطابق یہی ایک دلیل کافی ہےجس کا جواب قیام قیامت تک ممکن نہیں اس اصولی دلیل کے بعد کسی دلیل کی ضرورت نہیں کسی میں طاقت ہے تودال میں جریان صوت کر کے دکھلائے۔(احسن الفتاویٰ ج3 ص90)
اس کے بعد جزریہ کی عبارت پیش کی ہے اس میں بھی یہی ہے کہ ضاد اور ظاء میں تمیز ضروری ہے۔ یہ بھی تشابہ کو مستلزم ہے اس کے بعد شرح فقہ اکبر اور جامع الفصولیین کی عبارات سے ثابت کیا ہے کہ ضاد کو ظاء پڑھنا جائز نہیں اور عمداً پڑھنا کفر ہے۔ ہمارا بھی یہی مسلک ہے کہ بلا عذر پڑھنا جائز نہیں۔
(احسن الفتاویٰ ج3 ص92)
مولانا محمد اشفاق ندیم