Wednesday, 28 February 2018

مجھے پیشاب کے بعد پیشاب کے قطرے آتے ہیں؟

سوال: السلام علیکم محترم مفتی صاحب بعض اوقات پیشاب کے بعد قطرے محسوس ہوتے ہیں اور کبھی نماز بھی محسوس ہوتے ہیں تو اس صورت میں نماز پڑھنا کیسا ہے.؟ طالب الدین تورغر
جواب: کبھی کبھار اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ شخص شرعی معذور کے حکم میں نہیں ہے اس لئے ان کو چاہئے کہ اچھی طرح استنجاء کر لے یعنی پیشاب کے بعد ہاتھ پیر ہلانا کھانسنا وغیرہ کرکے پھر وضو کرکے نماز پڑھے لیکن نماز میں قطرہ نکل گیا تو صاف کرکے وضو کے بعد دوبارہ نماز پڑھے.
....................
سوال: 143710200028
مجھے پیشاب کے بعد پیشاب کے قطرے آتے ہیں اس کا کوئی حل بتائیں۔
مجھے پیشاب کے بعد پیشاب کے قطرے آتے ہیں اس کا کوئی حل بتائیں۔
جواب: آپ نے تفصیل ذکر نہیں کی کہ آیا قطرے مسلسل آتے رہتے ہیں یا پیشاب کے کچھ وقفے سے آکر بند ہوجاتے ہیں۔ اگر قطرے اتنے تسلسل سے آتے ہیں کہ ایک فرض نماز بھی اس کے بغیر ادا نہیں کرسکتے اس صورت میں معذور کہلائیں گے اور ہر فرض نماز کے وقت وضوکرکے اس سے فرض، سنت اور نوافل ادا کریں گے، اگر کوئی اور وضو توڑنے والی چیز پیش نہ آئے۔ اور کوئی کپڑا یا ٹشو استعمال کریں جس سے قطرے کپڑوں پر نہ لگیں۔
اور اگر پیشاب کے بعد وقتی طور پر قطرے خارج ہوتے ہیں بعد میں بند ہوجاتے ہیں اس صورت میں نماز سے کافی دیر پہلے فارغ ہوجایا کریں اور جب قطرے بند ہوجائیں پھر کپڑے بدل کر، یا کوئی زائد کپڑا لنگی وغیرہ یا ٹشو استعمال کریں اور اسے تبدیل کرکے نماز ادا کرلیا کریں۔
فقط واللہ اعلم
دارالافتاء جامعہ اسلامیہ بنوری ٹاؤن۔
http://www.banuri.edu.pk/readquestion/%D9%BE%DB%8C%D8%B4%D8%A7%D8%A8-%DA%A9%DB%92-%D8%A8%D8%B9%D8%AF-%D9%82%D8%B7%D8%B1%D9%88%DA%BA-%DA%A9%D8%A7-%D8%A2%D9%86%D8%A7/29-07-2016
............
سوال # 56813
میرے ساتھ پیشاب کے بعد پیشاب کے قطرے آنے کی بیماری ہے جس کی وجہ سے نماز پڑھنے میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس حوالہ سے جو فتوی وغیرہ پڑھے ہیں ان میں بڑی آسانی سے یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ نماز سے آدھا یا ایک گھنٹہ پہلے بیت الخلا سے فارغ ہوکر ٹشو پیپر کا ٹکڑا رکھ لیں اور نماز سے پہلے اس ٹشو پیپر کو نکال کر پھینک دیں مگر حقیقت میں ہر وقت ایسا نہیں ہو سکتا کیوں کہ اکثر مرتبہ نماز سے کچھ دیر پہلے بیت الخلاء کی حاجت ہوتی ہے اور خاص کر رمضان میں سحری کھانے کے بعد تو نماز کا وقت قریب ہوتا ہے۔ میں گھر میں رہتے ہوئے جب بیت الخلاء جاتا ہوں تو اس کے بعد مخصوص شلوار یا ٹراؤزر پہن لیتا ہوں تو چلنے پھرنے میں عضو کی حرکت کی وجہ سے پندرہ سے بیس منٹ تک قطرے آ کر ختم ہوجاتے ہیں لیکن جب میں آفس میں یا باہر کہیں اور ہوتا ہوں اور بیت الخلاء سے فارغ ہوکر پیشاب کے قطرے کم از کم ایک گھنٹہ کے بعد جاکر آنا ختم ہوتے ہیں وہ بھی اس وقت جب دو سے تین بار بیت الخلاء جاکر عضو کو حرکت دے کر قطرے نکال نہ لوں کیونکہ انڈر ویئر پہننے کی وجہ سے چلنے پھرنے میں بھی عضو کی حرکت نہیں ہوپاتی۔ تفصیلی جواب درکار ہے۔
Published on: Dec 1, 2014
جواب # 56813
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 75-75/Sd=2/1436-U
مرد کے لئے پیشاب کے بعد استبراء کرنا ضروری ہے، یعنی اس بات کا اطمینان کرلینا کہ پیشاب کے قطرے آنا بند ہوگئے ہیں، طبعی اطمینان کے بعد ہی استنجاء کرنا چاہئے، اس لیے کہ اگر بعد میں قطرہ آگیا، تو اس سے کپڑا بھی ناپاک ہوگا اور پہلا استنجاء بھی بیکار ہوجائے گا، استنجے میں ڈھیلے یا ٹشوپیپر استعمال کرنے کی اسی لئے تاکید کی جاتی ہے کہ اس سے اطمینان ہوجاتا ہے اور پاکی اچھی طرح حاصل ہوجاتی ہے۔ آپ نے جو تفصیلات لکھی ہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کو قطرات کا مرض ہے، آپ کسی طبیب حاذق سے اس کا علاج کروائیں، پیشاب کے بعد قطرے بند ہونے کا اطمینان کرلینا بہرحال ضروری ہے۔ قال في الہندیة: والاستبراء واجب حتی یستقر قلبہ علی انقطاع العود کذا في الظہیریة․․․ والصحیح أن طباع الناس مختلفة فمتی وقع في قلبہ أنہ تم استفراغ ما في السبیل یستجي (الہندیة: ۲/ ۴۹) 
نوٹ: سوال میں آپ کی یہ تعبیر ”بڑی آسانی سے یہ کہہ دیا جاتا ہے الخ“ آداب استفتاء کے خلاف ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Taharah-Purity/56813
........
پیشاب کے قطروں کے مریض کے لیے نمازوں کی قضا کا حکم
سوال : 143505200004
مجھے کافی عرصے سے شک تھا اور اب یقین کے ساتھ علم ہوا ہے کہ مجھے پیشاب کے قطرے آنے کی شکایت ہے۔ سوال یہ یے کہ مجھے کتنے عرصے کی نمازیں لوٹانی ہونگی؟
جواب: اگرسائل شرعی معذور ہے (یعنی جب یہ شکایت شروع ہوئی تو اس وقت ایک فرض نماز کی ادائیگی کے برابر وقت بھی پیشاب کے قطرے نہیں رکتے تھے اور اس کے بعد بھی تاحال قطرے جاری ہیں اور کسی نماز کا وقت پاکی کی حالت میں نہیں گزرا) اور سائل ہر نماز کے وقت وضوکرتا رہا ہے تو اسے نمازوں کی قضا کرنے کی ضرورت نہیں ہے، کیوں کہ سائل شرعاً معذور ہے۔ اور اگر سائل شرعی معذور نہیں ہے اور ناپاکی کی حالت یا ناپاک کپڑوں میں نماز ادا کرتا رہا ہے تو اندازہ کرکے غالب گمان کے مطابق جب سے یہ شکایت ہے اتنی نمازوں کی قضا کرلے۔ 
فقط واللہ اعلم
http://www.banuri.edu.pk/readquestion/%D9%BE%DB%8C%D8%B4%D8%A7%D8%A8-%DA%A9%DB%92-%D8%A8%D8%B9%D8%AF-%D9%82%D8%B7%D8%B1%D9%88%DA%BA-%DA%A9%D8%A7-%D8%A2%D9%86%D8%A7/29-07-2016
.......
س 3: یونیورسیٹی کا ایک طالب علم ہے اسے وضو کرنے میں بڑی دشواری ہوتی ہے، جب بھی وہ ٹائلٹ میں جاتا ہے تو آدھے گھنٹہ سے زیادہ بیٹھا رہتا ہے، اور جب باہر نکلتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ پیشاب کے قطرے باہر نکل رہے ہیں۔ کیا وہ سلس البول (پيشاب کے قطرے کا ٹپکنا) کے مریضوں کے زمرے میں آئيگا؟ اور کیا اس پر علاج کروانا واجب ہے یا نہیں؟
ج 3: اگر وضو کے بعد حقیقۃً لگاتار پیشاب کے قطرے نکلتے ہوں تو سلس البول کی بیماری ہے، اور یہ بیماری مخفی نہیں ہوتی، لیکن اگرصرف وہم ہے، جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے تو وسوسہ ہے، اور ایسی صورت میں اس کی طرف دھیان نہ دینا واجب ہے، اور اللہ کے ذريعہ شیطان رجیم سے پناہ مانگنا ضروری ہے؛ کيونکہ يہ شيطان کی طرف سے ہے۔ رہی بات سلس البول کے علاج کروانے کی، تو جائز دواء سے علاج کروانا مشروع ہے، اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علاج کروانے کی ہدایت کی ہے، اور آپ کے اہل اور اصحاب میں سے جسے مرض لاحق ہوتا اسے علاج کروانے کا حکم فرماتے، مسند احمد، سنن ابی داؤد، ترمذی اور سنن ابن ماجہ میں صحیح سند سے حضرت اسامہ بن شریک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہتے ہیں: میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ چند دیہاتی آئے، اور کہنے لگے: یا رسول اللہ کیا ہم اپنا علاج کرواسکتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اے اللہ کے بندو! اپنا علاج کرواؤ، یقیناً اللہ تعالی نے تمام بیماریوں کی شفاء پیدا کر رکھی ہے، سوائے ایک بیماری کے، تو انہوں نے دریافت کیا کہ وہ بیماری کون سی ہے؟ تو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایا: بڑھاپا-

وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
http://alifta.com/Fatawa/fatawaDetails.aspx?languagename=ur&BookID=3&View=Page&PageNo=1&PageID=9725
................
پیشاب پاخانہ کرنے سے متعلق چار ہدایات:
قضائے حاجت کے وقت کس طرف منہ کیا جائے؟
          (۱ )     قضائے حاجت کے وقت اس طرح بیٹھا جائے کہ قبلے کی طرف نہ منہ ہو اور نہ ہی پیٹھ۔ یہ حکم قبلہ کے ادب و احترام اور تقدس کی خاطر تھا کہ کوئی بھی ذی شعور انسان جو لطیف اور روحانی حقیقتوں کا ادراک کرنے والا ہو وہ اس موقع پر کسی مقدس اور محترم چیز کی طرف منہ یا پشت کرنے کو بے ادبی شمار کرتے ہوئے اس طرز کے اپنانے سے گریز کرے گا۔
استنجاء کس ہاتھ سے کیا جائے؟
          (۲)      دوسری ہدایت یہ دی گئی کہ اس عمل کے لیے اپنا دایاں ہاتھ استعمال نہ کیا جائے،اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر فوقیت دی ہے، اس ہاتھ کو اعلی،محترم ، مقدس، صاف ستھرے اور نفیس کاموں کے لیے تو استعمال کیاجا سکتا ہے ،گھٹیا اور رذیل کاموں کے لیے نہیں؛ چناں چہ ! دائیں ہاتھ کے شرف و احترام کی وجہ سے استنجا کرتے ہوئے استعمال نہیں کیا جائے گا۔
کتنے ڈھیلوں سے استنجاء کیا جائے؟
          (۳)     تیسری ہدایت یہ کی گئی ہے کہ استنجے کے لئے کم از کم تین ڈھیلوں کو استعمال کیا جائے، اس کی وجہ یہ تھی کہ عام طور پر صفائی تین پتھروں سے کم میں پوری طرح نہیں ہوتی؛ اس لئے حکم دیا گیا کہ تین پتھر استعمال کر کے اچھی طرح اور مکمل صفائی کی جائے؛ چناں چہ اگر کسی شخص کی صفائی تین پتھروں سے حاصل نہ ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ تین سے زائد پتھر استعمال کرے تاکہ کامل صفائی ہو جائے۔ نیز حدیثِ مذکور میں پتھر کا ذکر کیا گیا ہے، یہ اس زمانے میں ملنے والی عام چیز کی وجہ سے تھا، موجودہ دور میں شہروں میں بنے ہوئے پختہ بیت الخلاء میں ٹوائلٹ پیپر استعمال کیا جائے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں؛ اسی طرح ہر وہ پاک چیز جس سے صفائی کا مقصد حاصل ہو سکتا ہو اور اس کا استعمال اس کام کے لیے موضوع بھی ہو اور جسم کے لئے نقصان دہ بھی نہ ہو۔
جانوروں کے فضلات سے استنجاء کرنے کا حکم
          (۴)     چوتھی ہدایت یہ دی گئی ہے کہ استنجا کے لئے کسی جانور کی گری پڑی ہڈی یا ان کے فضلے (لید، گوبر وغیرہ) کو استعمال نہ کیا جائے، دراصل اس طرح زمانہٴ جاہلیت میں کرلیا جاتا تھا؛ حالانکہ یہ فطرتِ سلیمہ کے خلاف ہے۔ احادیثِ مبارکہ میں متفرق طور پر قضائے حاجت سے متعلق بہت سے احکامات مذکور ہیں، نیز! فقہاء کرام نے ان احادیث کی روشنی میں بہت سے مسائل کتب ِ فقہ میں ذکر کیے ہیں، ذیل میں قضائے حاجت سے متعلق مختلف اہم مسائل نقل کیے جاتے ہیں؛ تاکہ ہم اپنا یہ عمل بھی شریعت کے مطابق انجام دے سکیں۔
http://www.darululoom-deoband.com/urdu/magazine/new/tmp/02-Qazae%20Hajat_MDU_02_February_13.htm
.......................
علاج بھی کروالے
ایک سو گرام تل خرید لے اور گُڑ بھی لے لے پچاس گرام 
گُڑ کو ایک چمچ گھی میں ابال لے
تل کو الگ سے سرخ ہونے تک بھون کر گُڑ میں ملا لے 
اس میں سے ایک چمچ کے برابر گولیاں بنالے
روزانہ صبح شام خالی پیٹ ایک ایک گولی کھالے
ہفتہ دس دن میں ٹھیک ہو جائیگا
ان شاء الله تعالی
بشرطیکہ یہ شخص کمزور ہونے کے باوجود کثرت صحبت کا عادی نہ ہو اور مشت زنی کا عادی نہ ہو.

والمسبوق من سبقه الامام بها اوببعضها و هو منفر حتى يثنى ويتغوذ

والمسبوق من سبقه الامام بها اوببعضها و هو منفر حتى يثنى ويتغوذ
يفسر هذا العبا رت بلسانكم يا اخي الكريم

الْمَسْبُوقُ َهُوَ مَنْ سَبَقَهُ الإِمَامُ بِكُلِّ الرَّكَعَاتِ أَوْ بَعْضِهَا "
(الموسوعة الفقهية " (3/353)
و ما يدركه المسبوق مع إمامه هو آخر صلاته، وما يقضيه بعد سلام إمامه هو أولها. ويروى ذلك عن ابن عمر، ومجاهد، وابن سيرين، ومالك، والثوري، وحُكي عن الشافعي، وأبي حنيفة، وأبي يوسف. ذكره في (الشرح الكبير)
واستدل أصحاب هذا القول بما روي من حديث أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "إذا سمعتم الإقامة فامشوا وعليكم السكينة والوقار، ولا تسرعوا، فما أدركتم فصلوا، وما فاتكم فاقضوا"
والقول الثاني: أن ما يدركه المأموم مع إمامه أولُ صلاته، وما يقضيه آخُرها. وهو رواية عن الإمام أحمد، وبه قال سعيد بن المسيب، والحسن، وعمر ابن عبد العزيز، وإسحاق. وهو قول الشافعي، ورواية عن الإمام مالك. واختاره ابن المنذر. واستدل القائلون بهذا بالرواية الأخرى من الحديث الذي أورده أصحاب القول الأول؛ وهي قوله صلى الله عليه وسلم في حديث أبي هريرة السابق: "وما فاتكم فأتموا"
فعلى القول الأول؛ إذا دخل المسبوق مع الإمام لا يستفتح، ولا يستعيذ إن لم يقرأ، ولا يقرأ السورة بعد الفاتحة، ويتورك مع إمامه في التشهد الأخير. فإذا قام لقضاء ما فاته استفتح بسبحانك اللهم...، ونحوها، واستعاذ، وقرأ السورة بعد الفاتحة. كالمنفرد .ولو كان مسبوقا بصلاة العيد كبر فيما يقضيه ست تكبيرات؛ لأنها المشروعة في الركعة الأولى. إلا أنه لو أدرك ركعة من المغرب، فإذا قام ليقضي ما فاته بعد سلام إمامه وصلى ركعة، جلس للتشهد الأول.
وهذا موافق للرواية الأخرى. قالوا: لئلا يفضي إلى تغيير هيئة الصلاة؛ لأنه لو تشهد عقب ركعتين لزم منه قطع المغرب على شفع، وليست كذلك.
ومثله: لو أدرك ركعة من الرباعية، فإنه يتشهد عقب ركعة أخرى؛ لئلا يلزم منه قطع الرباعية على وتر، وليست كذلك.
والقول الثاني بخلاف ذلك كله؛ فيستفتح فيما يدركه مع إمامه، ويستعيذ، ويقرأ السورة بعد الفاتحة. وإذا قام لقضاء ما فاته اكتفى بالاستفتاح المتقدم.
والله أعلم بالصواب
شكيل منصور القاسمي

کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا؟

سوال: وہ حدیث مطلوب ہے جس میں نبی علیہ الصلوۃ والسلام  نے ایک صحابی سے فرمایا جبکہ انہوں نے کلمہ پڑھنے کے باوجود میدانِ جنگ میں ایک شخص کو قتل کردیا تھا، کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا؟ او کما قال



جس شخص نے کلمہ پڑھ لیا وہ معصوم الدم ہوگیا
راوی: وعن أسامة بن زيد قال : بعثنا رسول الله صلى الله عليه و سلم إلى أناس من جهينة فأتيت على رجل منهم فذهبت أطعنه فقال : لا إله إلا الله فطعنته فقتلته فجئت إلى النبي صلى الله عليه و سلم فأخبرته فقال : " أقتلته وقد شهد أن لا إله إلا الله ؟ " قلت : يا رسول الله إنما فعل ذلك تعوذا قال : " فهلا شققت عن قلبه ؟ "
(2/285)
3451 – [ 6 ] ( صحيح )
وفي رواية جندب بن عبد الله البجلي أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " كيف تصنع بلا إله إلا الله إذا جاءت يوم القيامة ؟ " . قاله مرارا . رواه مسلم
اور حضرت اسامہ بن زید کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں قبیلہ جہینہ کے لوگوں کے مقابلہ پر بھیجا چنانچہ ( ان کے مقابلہ کے دوران ) میں ایک شخص پر جھپٹا اور اس پر نیزہ کا حملہ کرنا چاہا کہ اس نے (لاالہ الا اللہ) کہہ دیا لیکن میں نے اس میں اپنا نیزہ پیوست کر کے اس کو قتل کر دیا ۔ پھر جب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں واپس آیا اور آپ سے یہ واقعہ بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (صد افسوس) کہ تم نے اس صورت میں قتل کر دیا جب کہ اس نے (لاالہ الا اللہ) پڑھ تھا ؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا اس نے محض قتل سے بچنے کے لئے کلمہ پڑھا تھا ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو تم نے اس کا دل چیر کر کیوں نہیں دیکھا لیا تھا؟ ۔ اور جندب ابن عبداللہ بجلی نے جو روایت نقل کی ہے اس میں یہ الفاظ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب قیامت کے دن کلمہ (لا الہ الا اللہ) اپنے پڑھنے والے یعنی (مقتول ) کی طرف سے جھگڑتا ہوا تمہارے پاس آئے گا تو اس وقت تم اس کو کیا جواب دو گے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (خوف دلانے کے لئے ) یہ الفاظ کئی بار ارشاد فرمائے ۔" (مسلم)
تشریح: تو تم نے اس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا؟ " آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد اس شخص کے باطن کے مطابق فرمایا کہ اگر تم اس شخص کے باطن پر مطلع ہو سکتے تھے تو تم اس کا دل چیر کر دیکھ لیتے اور یہ معلوم کرتے کہ آیا اس شخص نے محض اپنے آپ کو ہلاکت سے بچانے کے کلمہ (لا الہ الا اللہ) پڑھا تھا یا واقعۃ یہ کلمہ اس کے قلب کے صدق اخلاص کے ساتھ اس کی زبان سے نکلا تھا! لیکن ظاہر ہے کہ تم نہ اس کے دل کو چیر کر اس کے باطن کو دیکھ سکتے تھے اور نہ فوری طور پر اس کے باطن کا حال کسی اور ذریعہ سے تمہیں معلوم ہو سکتا تھا اس لئے معقول بات تو یہ تھی کہ تم اس کے ظاہر پر حکم لگاتے یعنی اس کے کلمہ پڑھ لینے کی وجہ سے اس کو مؤمن سمجھ لیتے اور اس کو قتل کرنے سے باز رہتے ۔ ادھر حضرت اسامہ نے یہ گمان کیا کہ ایسی حالت میں جب میرا نیزہ موت بن کر اس کے سر پر پہنچ چکا ہے اب اس کا ایمان قبول کرنا فائدہ مند نہیں ہے اس لئے انہوں نے اس شخص کا کام تمام کر دیا ، یہ گویا ان کا اجتہاد تھا، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر یہ تو ظاہر فرما دیا کہ تم سے اجتہادی خطاء ہو گئی ہے لیکن ان پر دیت لازم نہیں کی کیوں کہ مجتہد اپنی خطاء اجتہاد میں معذور ہوتا ہے ہاں اس بات کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہر حال اپنی خفگی کا بھی اظہار فرمایا کہ اس کی اصل حیثیت وحقیقت ظاہر ہونے تک تم پر توقف لازم تھا لیکن تم نے توقف نہ کر کے اپنے اجتہاد پر عمل کیا۔
مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ قصاص کا بیان ۔ حدیث 622
http://www.hadithurdu.com/09/9-3-622/
.....................
96 ( 158 ) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ ح وَحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ كِلَاهُمَا، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي ظَبْيَانَ ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ ، وَهَذَا حَدِيثُ ابْنِ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ : بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَرِيَّةٍ، فَصَبَّحْنَا الْحُرَقَاتِ مِنْ جُهَيْنَةَ، فَأَدْرَكْتُ رَجُلًا، فَقَالَ : لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَطَعَنْتُهُ، فَوَقَعَ فِي نَفْسِي مِنْ ذَلِكَ، فَذَكَرْتُهُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَقَالَ : لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَقَتَلْتَهُ ؟ " قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّمَا قَالَهَا خَوْفًا مِنَ السِّلَاحِ. قَالَ : " أَفَلَا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِهِ حَتَّى تَعْلَمَ أَقَالَهَا أَمْ لَا ؟ " فَمَا زَالَ يُكَرِّرُهَا عَلَيَّ حَتَّى تَمَنَّيْتُ أَنِّي أَسْلَمْتُ يَوْمَئِذٍ، قَالَ : فَقَالَ سَعْدٌ : وَأَنَا وَاللَّهِ لَا أَقْتُلُ مُسْلِمًا حَتَّى يَقْتُلَهُ ذُوالْبُطَيْنِ - يَعْنِي أُسَامَةَ - قَالَ : قَالَ رَجُلٌ : أَلَمْ يَقُلِ اللَّهُ : { وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلَّهِ }، فَقَالَ سَعْدٌ : قَدْ قَاتَلْنَا حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ، وَأَنْتَ وَأَصْحَابُكَ تُرِيدُونَ أَنْ تُقَاتِلُوا حَتَّى تَكُونُ فِتْنَةٌ.(صحيح مسلم | كِتَابٌ : الْإِيمَانُ  |
بَابٌ : تَحْرِيمُ قَتْلِ الْكَافِرِ بَعْدَ قَوْلِ الشَّهَادَةِ)

بخاری نے یہ باب قائم کیا
4546 - بابُ بَعْثِ النبيِّ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم أُسَامَةَ بنَ زَيْدٍ إِلَى الحُرَقاتِ مِنْ جُهَيْنَةَ
وَهَذِه الْغَزْوَة مَشْهُورَة عِنْد أَصْحَاب الْمَغَازِي بغزوة غَالب اللَّيْثِيّ الْكَلْبِيّ، قَالُوا وَفِيه نزلت: {وَلَا تقولوالمن ألْقى إِلَيْكُم السَّلَام لست مُؤمنا}
(النِّسَاء: 94) وَذكر ابْن سعد أَنه كَانَ فِي رَمَضَان سنة سبع وَأَن الْأَمِير كَانَ غَالب بن عبد الله اللَّيْثِيّ، أرْسلهُ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، إِلَى بني عَوَالٍ وَبني عبد بن ثَعْلَبَة وهم بالميفعة وَرَاء بطن نخل بِنَاحِيَة نجد، وَبَينهَا وَبَين الْمَدِينَة ثَمَانِيَة برد. فِي مائَة وَثَلَاثِينَ رجلا (عمدۃ القاری)

دارالعلوم دیوبند؛ شیخ الہند لائبریری

ممتاز دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند نے مصنفین، مؤلفین و اہل علم حضرات سے شیخ الہند لائبریری کو تاریخ ساز بنانے کے لئے تعاون کی اپیل کی ہے۔ دفتر اہتمام دارالعلوم دیوبند کی جانب سے جاری اپیل میں کہاکہ گزشتہ کئی سالوں سے تعمیر کے مختلف مراحل کو مکمل کرکے دارالعلوم دیوبند کی عظیم الشان شیخ الہند لائبریری تقریباً پایہ تکمیل کو پہنچنے والی ہے ،جو سات منزلہ عمارت پر مشتمل اور اس کا کل تعمیری رقبہ دو لاکھ باسٹھ ہزار مربع فٹ پر مشتمل ہے ، اس لائبریری کے تہہ خانہ میں واقع ہال امتحانات اور اوپری دو منزلیں درس حدیث جبکہ چار منزلیں لائبریری کے لئے مخصوص ہیں، یہ لائبریری تمام جدید سہولیات سے آراستہ ہوگی، لائبریری میں اردو ،عربی، انگریزی، ہندی اور دیگر زبان و مذاہب کے لئے مختلف ہال ہوں گے اور ہر ہال میں دینی، سیاسی و سماجی تمام موضوعات و مذاہب کی کتابیں رکھی جائینگی، اس لئے تمام مصنفین،مؤلفین،ناشرین کتب اور اصحاب خیر حضرات سے اپیل کی جاتی ہے کہ دارالعلوم کی اس عظیم الشان لائبریری کے لئے کتابیں وقف فرمائیں، تاکہ یہ دنیا و آخرت میں آپ کی نیک امی اور اجرعظیم کا سبب ہو، نیز آپ کے لئے بہترین صدقہ جاریہ اور دوسروں کے لئے تلقین خیر کا سبب ہے، ایک کتاب کے متعدد نسخے ارسال فرمائیں تاکہ وہ لائبریری کے مختلف ہال میں دستیاب ہو۔دارالعلوم دیوبند کی جانب سے جاری اپیل میں کہا گیاہے کہ دارالعلوم دیوبند میں زیر تعلیم طلباء کو درستی کتابیں عاریہً فراہم کرائی جاتی ہیں، کتابیں بہترین صدقہ جاریہ ہے، جو حضرات اپنی ذاتی لائبریری دارالعلوم دیوبند کو وقف کرناچاہتے ہیں وہ دارالعلوم کو مطلع فرمائیں. اگر وہ چاہیں ان کے نام سے لائبریری میں مستقبل گوشہ بھی بنایادیا جائے گا۔ بتایا گیاہے کہ لائبریری میں ایک ہال فضلائے دارالعلوم کی تصنیفات و تالیفات کا ہوگا ہے. اس لئے تمام فضلاء دارالعلوم اپنی علمی تخلیقات کے متعدد نسخے لائبریری کو ارسال فرمائیں، دارالعلوم کی لائبریری میں مخطوطات کی حفاظت اور رکھنے کا معقول نظم ہے اسلئے جن حضرات کے پاس مخطوط کتابیں ہوں وہ دارالعلوم کو وقف کرسکتے ہیں۔ دارالعلوم دیوبند کی جانب سے اپیل کی گئی ہے کہ لائبریری کے لئے کمپیوٹر، پرنٹر، فوٹو کوپئر، اسکینر وغیرہ کی ضرورت ہے اس کے علاوہ علماء و دینی مجلات اور رسائل کے مدیران حضرات سے بھی اپیل کہ وہ لائبریری میں اعزاری کاپی جاری فرمائیں، جن کے پاس پرانی کتابوں کا ذخیر ہ ہے وہ بھی دارالعلوم دیوبند کو عنایب فرمائیں، دارالعلوم دیوبند ان کو قابل استعمال بنانے کی کوشش کریگا۔ اگر کسی کے پاس کتابوں کا نادر ذخیرہ ہے اور اسے فروخت کرنا چاہتے ہو تو بھی دارالعلوم کو مطلع فرمائیں.

نام کے ساتھ محمد یا احمد کا اضافہ؟


نام کے ساتھ محمد یا احمد کا اضافہ؟
-------------------------------
--------------------------------
نام سے انسان کی صرف شناخت ہی نہیں ہوتی ہے، بلکہ اس سے ”ذی نام“ کے رخ، رجحان، وجدان، ذہن، فکر، مزاج اور طبیعت کی غمازی اور عکاسی بھی ہوتی ہے۔ عربی کا مشہور مقولہ ہے ”کل اناء یترشح بما فیہ“ (جس برتن میں جو چیز ہوتی ہے اس سے وہی چیز ٹپکتی ہے) نام اور شخصیت کے مابین وہی ہم آہنگی، گہرا تعلق اور دائمی وابستگی ہے جو جسم اور روح کے درمیان پائی جاتی ہے۔ اگر ایک طرف نام سے ذات کی غمازی ہوتی ہے تو دوسری جانب شخصیت اور ظاہری شکل وصورت سے بھی نام کا اندازہ لگ جاتا ہے۔ (جیساکہ ہم نیچے تحریر کریں گے) اور حقیقت یہ ہے کہ جس طرح جسم کے اچھے اور برے اعمال و حرکات سے روحِ انسانی میں ”ملکیت یا بہیمیت“ پیدا ہوتی ہے ٹھیک اسی طرح نام کے حسن وعمدگی سے روح میں لطافت و بالیدگی پیدا ہوتی ہے۔ انسانی افکار واعمال کی تعمیر ہوتی ہے اور جذبہٴ عمل کو تقویت ملتی ہے۔ اورنام کے قبح سے روح میں کثافت، انسانی اعمال میں آلودگی اور پراگندگی پیداہوتی ہے۔
نام کا اثر کام پر:
حق سبحانہ وتعالیٰ نے ”عبدالعزّی“ کی کنیت ”ابولہب“ رکھی، عاقبت، انجام اور آخرت کے لحاظ سے یہ نام (کنیت) کتنی مسلّمہ حقیقت کی ترجمانی کررہا ہے!۔ ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”ابوالحکم بن ہشام“ کی کنیت ”ابوجہل“ رکھی، تو اس کی شخصیت پر یہ کنیت کتنی مناسب ثابت ہوئی، اور اس کے افکار واعمال پر اس لفظ کے کتنے گہرے اور ان مٹ نقوش چھائے رہے! اور اہل علم کے علم میں یقیناً یہ ہوگا کہ حق وباطل کی سب سے پہلی فیصلہ کن لڑائی ”غزوہ بدر“ میں مشرکینِ عرب کو نہتے مسلمانوں سے جو شرمناک اور بدترین شکست ہوئی، اس کی منجملہ وجوہ کے ایک اہم اور حقیقی وجہ یہ بھی تھی کہ اُن کی طرف سے جو سب سے پہلے مقابلہ کے لئے میدانِ کارزار میں اترے، ان میں 'ولید' 'شیبہ' اور 'عتبہ' نامی تین آدمی تھے۔ ولید کے معنی میں کس قدر ضعف و عجز کا پہلو ہے؟ (پیدائش کے وقت بیحد ناتواں اور کمزور بچہ کو کہتے ہیں) اور ”شیبہ“ تو بڑھاپے کی اس حد کو کہتے ہی ہیں جب انسان کے تمام اعضاء ڈھیلے پڑجائیں اور قویٰ معطل ہوجائیں! اور ”عتبہ“ میں جو عتاب وعذاب اور قہر وغضبِ خداوندی کا ”جہانِ معانی“ نہاں ہے، وہ ”جہاں“ میں کسی سے قابل بیان نہیں! غور کیجئے! جن ”برتنوں“ سے ضعف و کمزوری، عجز وناتوانی اور قہر عتاب ”جھلکتے“ ہوں؟ کیا ان سے قوت وجوانمردی، دلیری وبہادری اور فتح ونصرت ”چھلک“ سکتے ہیں؟؟
ادھر مسلمانوں کی طرف سے جو حضرات ان کے مقابلہ کے لئے آئے تھے ان میں ایک نام ”علی“ کا تھا، جو سراپا ”علو“ سے عبارت تھا، دوسرا نام ”عبیدہ“ کا تھا، جن سے ”عبدیت وبندگی“ ٹپکتی تھی (اللہ کے نزدیک یہ سب سے پیاری صفت ہے، اسی لئے جو نام ”عبد“ سے شروع ہو وہ اللہ کے یہاں بہت پسندیدہ شمار ہوتا ہے) اور تیسرا نام ”حمزہ“ کا تھا جو اپنے ”جلو“ میں شیر کی صلابت رکھے ہوئے تھا، تو علی کے ”علو“، عبیدہ کی ”عبودیت“ اور حمزہ کی ”قوت صلابت“ نے ان کی شخصیتوں کو ایسا متأثر کیا اور نام کی عمدگی سے ان کے کام پہ ایسا اثر مرتب ہوا کہ بے سروسامانی کے عالم میں ایک مسلح اور ہتھیار بند فوج کو صرف چند گھنٹوں میں مولی گاجر کی طرح صاف کردیا۔
تاریخِ اسلام کے اس تابناک واقعہ سے صاف ظاہر ہے کہ ”نام“ سے ”کام“ کتنا متأثر ہوتا ہے۔ اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم، انسان، حیوان، شہر، آبادی اور مکان غرض کہ ہر چیز میں اچھے ناموں کو پسند فرماتے تھے (۱) اور برے ناموں کو سن کر آپ کے دل پر تکدر کی چوٹ لگتی تھی، اور ان تمام چیزوں کے پیچھے یہی غرض مقصود ہوتی تھی کہ اچھے نام پر اچھے نتائج مرتب ہوں گے، اور برے ناموں پر بُرے۔ چنانچہ روایتوں میں آ یا ہے کہ:
(۱) رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم اپنی دودھاری اونٹنی کے دودھ نکالنے کے لئے چند لوگوں کو بلایا، ایک ”مرّہ“ (کرواہٹ) نامی آدمی اس کے لئے کھڑا ہوا، لیکن چوں کہ اس کے نام سے کسی ’شیریں“ نتیجہ کا حصول مشکل تھا، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نام سے نتیجہ کا استنباط فرماتے ہوئے اس کو بٹھادیا، دوسرا شخص کھڑا ہوا، اس کا نام بھی حرب (جنگ وجدال) تھا، اس نام سے بھی کسی مثبت نتیجہ کی امید فضول تھی، اس لئے آپ نے اس کو بھی کہا بیٹھ جاؤ۔ تیسرا شخص کھڑا ہوا، جس کا نام تھا 'یعیش' (زندگی) چوں کہ اس نام سے زندگی اور حیات جیسے امید افزاء معانی سمجھ میں آرہے تھے، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دوہنے کی اجازت دی۔ (۲)
(۲) ایک غزوہ سے واپسی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو پہاڑوں کے درمیان سے گذررہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں پہاڑوں کے نام دریافت کئے. پتہ چلا کہ ایک کا نام ”فاضح“ اور دوسرے کا نام ”مخز“ (ذلیل و رسوا کرنے والا) ہے۔ چوں کہ ان دونوں ہم معنی ناموں سے نامسعود نتیجہ کی عکاسی ہورہی تھی، اس لئے آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے وہ راستہ فوراً بدل دیا-(۳)
(۳) صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ صلى اللہ عليہ وسلم کی خدمت میں سہیل بن عمرو آئے۔ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے محض ان کے نام سے استدلال کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ فرمایا کہ ”ان شآءاللہ مشرکین مکہ کے ساتھ جاری ہماری مصالحتی کوشش بھی ”سہل“ رہے گی اور حقیقت میں ایسا ہی ہوا“ (زادالمعاد ۲/۴) نام سے کام اور انجام کس قدر متأثر ہوتا ہے؟ اس کی مزید وضاحت کے لئے موطا امام مالک رحمۃ اللہ عليہ کی یہ روایت انتہائی ”چشم کشا“ اور ”بصیرت افروز“ ہے۔ حضرت عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے ایک شخص کا نام پوچھا، اس نے کہا: جمرة (چنگاری) باپ کا نام پوچھا، تو کہا: شہاب (بھڑکتی ہوئی آگ) کہا کس قبیلہ سے تعلق رکھتے ہو؟ تو کہا ”حُرقہ“ (جلن، سوزش) سے، کہا گھر کہاں ہے؟ تو کہا: حرة النار (آتشیں محلہ) پھر پوچھا کہ تمہاری رہائش کہاں ہے؟ کہا: ذات لطی (آگ سے دہکتی ہوئی جگہ) جب اس شخص کے تمام ہی ناموں میں ”آتشیں مادہ“ ہی کارفرما تھا، تو حضرت عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہوئے فرمایا: کہ تمہارا گھر ”آتش زنی“ سے نہیں بچ سکتا ہے.“ چنانچہ نام کا اثر ظاہر ہوا، اور وہ شخص جب گھر لوٹا تو دیکھا کہ واقعتا اس کا گھر جل چکا تھا۔(۴)
شخصیت سے بھی نام کی ترجمانی ہوتی ہے:
اوپر کی تفصیلات سے تو یہ واضح ہوگیا کہ نام سے ذی نام کی شناخت ہوتی ہے، لیکن دونوں کے درمیان اتنا مستحکم رشتہ ہے کہ ذات وشخصیت سے بھی نام کا پتہ چل جاتا ہے۔ چنانچہ ایاس بن معاویہ کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ محض شکل وصورت اور عادات واطوار دیکھ کر یہ بتادیتے تھے کہ اس شخص کا نام کیا ہے؟ اور حیرت یہ کہ اس میں کبھی غلطی بھی نہیں ہوتی تھی۔(۵)
الغرض شخصیت سازی، اور اخلاق واعمال کی تعمیر میں ”نام“ اہم اور بنیادی رول ادا کرتا ہے اس لئے معلم اعظم صلى اللہ عليہ وسلم اور امت کو اسرار حیات سمجھانے والے نبی صلى اللہ عليہ وسلم نے اچھے اور پسندیدہ نام رکھنے کی تعلیم فرمائی اور ہمیں اس طرح ”راز حیات“ سمجھا گئے ”تم قیامت میں اپنے اور باپوں کے نام سے پکارے جاؤگے اس لیے تم اپنا نام اچھا رکھا کرو“(۶) یعنی نگاہِ نبوت میں یہ طبعی حقیقت جلوہ گر تھی کہ نام کا اثر کام پر ضروری ہے، تو جب نام اچھا ہوگا تو امتی کے اعمال بھی اچھے ہوں گے اور جب اعمال اور کام سنور جائیں گے تو روزِ قیامت اچھے اوصاف والقاب سے انہیں پکارا جائے گا۔ تحسین اسماء کے سلسلہ میں آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی یہ تعلیم محض سرسری نوعیت کی نہیں تھی، اور نہ ہی صرف وعظ وتلقین کی رسمی حدوں تک محدود تھی! بلکہ آپ نے امت کو اپنے متعدد عملی نمونے بھی دئیے ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے بہتیرے صحابہ و صحابیات کے نامناسب نام از خود بدلے ہیں۔ مثلاً حضرت عاصیہ کا نام بدل کر آپ نے جمیلہ رکھا(۷)۔ اور حضرت برّہ کا نام بدل کر جویریہ رکھا (۸)، حضر اصرم کا نام بدل کر زرعہ، ابوالحکم کا نام بدل کر ابوشریح رکھا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عاص، عزیز، عقلہ، شیطان، غراب، حکم، حباب اور شہاب وغیرہ کے نام بھی تبدیل فرمائے تھے۔(۱۰)
پیغمبروں کے نام رکھنا؟
اگر انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام بنی آدم کے سردار ہیں، ان کے اخلاق سب سے اعلیٰ وافضل ہیں، ان کے اعمال سب سے پاکیزہ، معتبر اور مقبول ہیں تو اس میں کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ ان کے نام بھی افضل و برتر ہوتے ہیں۔ چنانچہ نبی کریم صلى اللہ عليہ وسلم نے جہاں اپنے ارشاد ”تسموا باسماء الأنبیاء“ (۱۱) (ابوداؤد حدیث نمبر ۴۹۵۰، تم پیغمبروں کے نام پہ اپنا نام رکھو) کے ذریعہ اس کی تعلیم و ترغیب دی ہے تو دوسری طرف اپنے جگرگوشہ اور سب سے چھوٹے فرزند کا نام ”ابراہیم“ رکھ کر امت کے لئے اس مسئلہ کی شرعی نقطہ نظر بھی اپنے عمل سے واضح فرمادی(۱۲)۔ اسی لئے مشہور اور جلیل القدر تابعی حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ کی رائے تو یہ ہے کہ پیغمبروں کے نام پہ نام رکھنا سب سے پسندیدہ نام ہے(۱۳)۔ ہر چند کہ جمہور علماء ان سے متفق نہیں ہیں اور ان کی رائے یہی ہے کہ سب سے پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہے(۱۴)۔ تاہم علماء امت کا اجماعی مسئلہ ہے کہ پیغمبروں کے نام رکھنا نہ صرف جائز بلکہ ”عملِ رسول“ کی وجہ سے افضل اور بہتر بھی ہے، جیساکہ حدیث مذکور میں بصراحت اس کی ترغیب دی گئی ہے۔ سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ کے اس تفرد کی وجہ میرے خیال سے شاید یہ ہے کہ رسول اللہ نے ان کے دادا ”حزن“ (سخت ولسنگلاخ زمین) کا نام بدل کر ”سہل“ (نرم و ہموار زمین) رکھا تھا، لیکن انھوں نے اس تبدیلی کو قبول نہیں فرمایا۔ اس لئے وہ کہتے ہیں کہ میرے پورے خاندان کے لوگوں میں ہمیشہ دادا کے اس نام کا اثر (قساوت قلبی) باقی رہا (۱۵)۔ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم کے اس قولی وعملی ترغیب و تحریک کا اثر یہ ہوا کہ علامہ نووی رحمۃ اللہ عليه کے بقول صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک معتدبہ جماعت کا نام پیغمبروں والا تھا (۱۶)، اور مایہ ناز محقق علامہ ابن القیم الجوزیہ رحمۃ اللہ عليہ نے معتبر تاریخی حوالہ سے نقل کیا ہے کہ حضرت طلحہ رضى اللہ تعالى عنه کے دس لڑکے تھے، دسوں کا نام نبیوں والا تھا، اور سب سے بڑے لڑکے کا نام ”محمد“، رسول اللہ نے خود رکھا تھا۔ (۱۷)
محمد نام رکھنا:
جب نبیوں کے نام سب سے افضل واعلیٰ ہیں تو سیدالانبیاء والمرسلین کا نام کتنا اشرف و برتر اور پھر ان کے نام پرنام رکھنا کس درجہ شرف وسعادت کی بات ہوگی؟ چنانچہ حضرت جابر رضى اللہ تعالى عنہ کی حدیث بخاری ومسلم میں منقول ہے کہ: ”ایک انصاری صحابی کے گھر میں لڑکا تولد ہوا، گھروالوں نے ”محمد“ نام رکھنا چاہا، لیکن اس سلسلہ میں مزید تحقیق کے لئے معلم اعظم صلى اللہ عليہ وسلم کے پاس پہنچے اور اپنا ارادہ ظاہر فرمایا، آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے ان کے ارادہ کی تحسین فرمائی اور کہا: میرا نام رکھو، لیکن اس کے ساتھ میرے حین حیات میری کنیت (ابوالقاسم) کو بھی جمع نہ کرو کہ اس سے آواز وپکار کے وقت اشتباہ پیدا ہوتا ہے.“(۱۸)۔ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے تمام ہی محدثین متفق ہیں کہ ”محمد“ نام رکھنا نہ صرف جائز بلکہ افضل اور بہتر ہے۔(۱۹)
رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم کے اسماء گرامی کی تعداد:
رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم کے نام بیشمار ہیں، بعض علماء ۶۰، بعض نے ۹۹، بعض نے ۲۰۰، بعض نے ۳۰۰، بعض نے ۵۰۰، اور بعض نے ایک ہزار تعداد بتائی ہے، بہت سے محققین نے اس موضوع پر مستقل کتابیں تصنیف فرمائی ہیں۔ علامہ جلال الدین سیوطی رحمة اللہ علیہ نے ”البہجة السنیة“ نامی مبسوط و مفصل کتاب تحریر فرمائی ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے ۵۰۰ اسماء گرامی شمار کرائے ہیں جبکہ قاضی ابوبکر بن العربی نے ترمذی کی شرح میں بعض صوفیاء کے حوالہ سے ایک ہزار ”نام گرامی“ نقل کیے ہیں، لیکن ان تمام ناموں میں ”محمد“ اور ”احمد“ سب سے زیادہ مشہور ہیں۔ محمد تو قرآن کریم میں کئی جگہ آیا ہے، اور ”احمد“ کا انجیل اور دیگر آسمانی کتابوں میں ذکر آیا ہے، قرآن کریم میں بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حوالہ سے ”سورة الصف آیت:۶ میں یہ لفظ مذکور ہوا ہے۔ (۲۰)
محمد اور احمد کے معنی!
محمد کے معنی ہیں: جس کی زیادہ تعریف کی جائے اور زیادہ تعریف اچھی خصلتوں کی زیادتی ہی کی وجہ سے ہوتی ہے، تو ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ”محمد“ کے معنی ہیں: جس کی اچھی خصلتیں زیادہ ہوں۔ اور ”احمد“ کے معنی ہیں: جو اپنے رب کی تعریف زیادہ کرے۔ قاضی عیاض رحمة الله عليه فرماتے ہیں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم احمد پہلے ہیں اور ”محمد“ بعد میں۔ اس لئے کہ ولادت باسعادت کے فوراً بعد سے ہی سجدے کی شکل میں آپ صلى اللہ علیہ وسلم اپنے رب کی حمد شروع کردئیے تھے جبکہ لوگوں نے آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی تعریف بعد میں کی ہے، تو آپ احمد پہلے ہوئے اور محمد بعد میں۔ نیز آسمانی کتابوں میں آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی بشارت بنامِ احمد پہلے آئی ہے اور ”محمد“ نام کا تذکرہ قرآن پاک میں بعد میں ہوا ہے۔ اسی طرح آخرت میں بھی آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں حمد کا جھنڈا ہوگا اور آپ بحالت سجدہ اپنے رب کی بہت زیادہ تعریف کریں گے، پھر آپ صلى اللہ علیہ وسلم کو شفاعت عظمیٰ کی اجازت ملے گی، اور آپ صلى اللہ علیہ وسلم تمام مسلمانوں کی شفاعت فرمائیں گے، جس کے بعد لوگ آپ کی بہت زیادہ مدح و تعریف کریں گے، تو یہاں بھی آپ احمد پہلے ہوں گے اور محمد بعد میں۔ (۲۱)
اسم محمد کی عظمت:
قاضی عیاض رحمة اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ نام ”محمد“ کو اللہ تعالیٰ نے ازل سے ”اچھوتا“ بناکر رکھا، پوری تاریخ انسانیت میں اس نام سے کوئی شخص موسوم نہیں ہوسکا، البتہ جب ”بعثت محمد“ کا وقت قریب ہوگیا، اور راہبوں اور کاہنوں نے جب ”محمد“ نامی نبی آخرالزماں کی بعثت کی خوشخبری سنانا شروع کردی، تو عرب کے بہت سے لوگوں نے اپنے بیٹوں کا نام ”محمد“ رکھنا شروع کردیا، تاکہ نبوت سے سرفراز ہوسکے۔ اس امید پر محمد نام رکھے جانے والوں کی تعداد قاضی نے چھ بتائی ہے اور علامہ سہیلی رحمۃ اللہ علیہ نے تین۔ جبکہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق کے بموجب ایسے لوگ پندرہ ہیں۔ یہاں مختصر سے مضمون میں ان ناموں کی تفصیلی فہرست ذکر کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ حافظ بدرالدین عینی نے عمدة القاری میں، اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں جو کچھ لکھا ہے، وہ مسافرانِ علم وتحقیق کے لئے کافی ہے(۲۲) مجھے یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ نام گرامی ”محمد“ کتنا عظیم ترین ہے کہ زمانہٴ جاہلیت میں بھی لوگوں کی اتنی بڑی تعداد اس نام سے موسوم ہوئی۔ بہرحال خواہ محمد نام ہو یا احمد۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے دونوں ناموں پر نام رکھنا باعث شرف وفضیلت ہے۔ محمد بن اسماعیل امیر صنعانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مشہور تالیف ”سبل السلام“ شرح بلوغ المرام میں مسند حارث بن اسامہ کی ایک مرفوع حدیث نقل کی ہے ”جس شخص کے تین لڑکے ہوں اور ان میں سے ایک کا نام بھی محمد نہ رکھے تو اس نے جہالت کا کام کیا“(۲۳) امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، میں نے مدینہ منورہ کے لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ”جس گھر میں بھی محمد نامی شخص ہوگا اس کو رزق خیر سے نوازا جائے گا۔“
امام العصر علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ عليه نے ”عرف الشذی“ میں معجم الطبرانی کی حدیث نقل کی ہے ”جو اپنے بیٹے کا نام محمد رکھے، میں قیامت میں اس کی شفاعت کروں گا.“(۲۴)
جن صحابہ کا نام محمد، آپ نے خود رکھے:
محمد نام رکھنے کے سلسلہ میں آپ نے صرف زبانی ارشاد و ترغیب پر بس نہیں فرمایا، بلکہ متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لڑکوں کے نام ”محمد“ آپ نے خود رکھے ہیں۔ چنانچہ مہاجرین میں سب سے پہلے آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنے چچازاد بھائی جعفر طیار کے فرزند کا نام محمد۔ اور عام مسلمانوں میں سب سے پہلے حاطب کے لڑکے کا نام محمد رکھا۔ اس کے علاوہ متعدد صحابہ کرام کے لڑکوں کے نام محمد آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے خود رکھے ہیں۔ جن میں محمد بن ابی بکر، محمد بن سعد بن ابی وقاص، محمد بن المنذر، محمد بن طلحہ، محمد بن عمرو بن حزم، محمد بن ضمرہ، محمد بن خطاب، محمد بن خلیفہ، محمد بن الجدبن قیس انصاری کے نام خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں(۲۵)۔ مشہور مورخ اسلام علامہ ابن سعد نے اپنے طبقات میں لکھا ہے کہ حضرت علی کی صلبی اولاد میں ۱۴ لڑکے اور ۱۹ لڑکیاں تھیں، چودہ میں سے تین لڑکوں کا نام آپ رضى اللہ تعالى عنہ نے محمد رکھا، خولہ بنت جعفر کے بطن سے پیدا ہونے والے لڑکے کا نام محمد الاکبر رکھا جو ابن الحنفیہ سے بھی مشہور ہوئے۔ امامہ بنت ابی العاص کے بطن سے پیدا ہونے والے لڑکے کا نام محمد الاوسط رکھا، اور اپنی ایک باندی (ام ولد) سے پیدا ہونے والے لڑکے کا نام محمد الاصغر رکھا۔(۲۶)
رسول اللہ، خلفاء راشدین اور عشرة مبشرہ کی اس سنت سے عام صحابہٴ کرام میں محمد نام رکھنے کی ایسی عملی تحریک ملی کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ وسلم کی ”التاریخ الکبیر“ اور حافظ کے ”الاصابہ“ کے اعداد وشمار کے مطابق محمد نامی حضرات صحابہ کی تعداد ۶۰ سے بھی متجاوز ہے۔(۲۷) اور حیرت ہوتی ہے کہ سب سے پسندیدہ نام عبداللہ اور عبدالرحمن ہے! لیکن محمد نام رکھنے کا شوق حضرات صحابہ، تابعین اور تبع تابعین میں اتنا شدید تر ہوچکا تھا کہ محمد نامی صحابہ، تابعین، تبع تابعین (جن سے کسی نہ کسی واسطہ سے حدیث رسول مروی ہے) کی تعداد امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کے حساب و شمار کے مطابق ۱۲۶۶ کے قریب پہنچتی ہے(۲۸)، کسی بھی اور نام کے محدثین صحابہ و تابعین وغیرہم کی تعداد اس درجہ نہیں ہے، بلکہ عبداللہ (جس کی صریح فضیلت حدیثوں میں آتی ہے) کے نام کے محدثین صحابہ و تابعین کی تعداد میرے ناقص تتبع کے مطابق ۵۳۳ ہے(۲۹)، اسی طرح احمد نامی محدثین کی تعداد بھی ۳۹۷ کے قریب ہے (۳۰)۔
فنِ حدیث و اسماء الرجال سے اشتغال رکھنے والے حضرات اہلِ علم بخوبی جانتے ہیں کہ ”المحمدون“ نامی باب کے تحت رواةِ حدیث اس کثرت کے ساتھ ذکر کئے جاتے ہیں کہ جب تک دادا کا نام معلوم نہ ہو کسی محمد نامی راوی کی تحقیق و تلاش دشوار ترین کام ہے۔ صحابہ، تابعین، تبع تابعین، علماء، محدثین اور ائمہ ومشائخ کا اس کثرت و تواتر کے ساتھ ”محمد“ یا ”احمد“ نام رکھنا ہی اس کی افضلیت کی بیّن اور واضح دلیل ہے! پھر اس کے بعد اگر کوئی یہ کہے کہ ”صحابہ کے دور میں اس نام کا رواج کمیاب تھا“ تو شاید یہ کہنے والے کی جہالت، کم علمی اور مصادرِ شریعت سے ناواقفیت کی دلیل ہوگی۔ ہاں! بعض روایتوں میں آیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں محمد نام رکھنے سے لوگوں کو منع فرمادیا تھا، ممکن ہے بعض ”سطحی علم“ اور ”یرقانی نظر“ رکھنے والے کو اسی طرح کی روایت سے حقیقت مسئلہ کے فہم میں مغالطہ ہوا ہو! لیکن جو علم و تحقیق کے خوگر ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جس روایت میں حضرت عمر رضى اللہ تعالى عنہ کی یہ ممانعت آئی ہے وہیں حضرت عمر رضى اللہ تعالى عنہ کا اس سے رجوع بھی ثابت ہے! مسند احمد اور طبرانی کی روایت میں ہے کہ ”حضرت عمر کے سامنے محمد بن زید بن خطاب کو ایک آدمی نازیبا کلمات سے پکار رہا تھا، حضرت عمر کو ”نام محمد“ کے ساتھ یہ گستاخی بہت ناگوار گذری چنانچہ انھوں نے بلاکر کہا: تمہاری وجہ سے رسول اللہ کے نام کی ہتک ہوتی ہے جو میرے لئے ناقابلِ برداشت ہے، آج کے بعد تم کبھی اس نام سے پکارے نہیں جاسکتے ہو! اور ان کا نام عبدالرحمن رکھ دیا“(۳۱)۔ پھر اس کے بعد ہی مدینہ منورہ میں یہ حکم صادر فرمادیا کہ جن کے لڑکے کا نام محمد ہو وہ ان کا نام بدل دیں! لیکن پھر آگے کیا ہوا؟ نہ تو محمد بن زید بن الخطاب نے اپنا نام تبدیل کیا بلکہ امیرالمومنین سے صاف کہا ”رسول اللہ نے میرا نام محمد رکھا ہے! آپ کے کہنے سے کیسے بدلوں؟ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ”قوموا فلا سبیل لی الیکم“ (اگر واقعہ یہ ہے تو میں اس سلسلہ میں کچھ نہیں کرسکتا ہوں)۔ ادھر مدینہ کے محمد نامی لوگوں نے بھی کہا ”ہمیں رسول اللہ نے ان ناموں کی اجازت دی ہے پھر آپ کی یہ شدت کیسی؟؟ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو بھی ان کے حال پر چھوڑ دیا“(۳۲) اس حدیث سے جہاں یہ پتہ چلتا ہے کہ حضرت عمر رضى اللہ عنہ نے اپنے اس حکم سے رجوع فرمالیا وہیں اس سے اس کا بھی پتہ چلتا ہے کہ حضرت عمر کی مذکورہ ممانعت کی غرض اسم گرامی کی عظمت و تقدس کا لحاظ کرنا تھا، نہ کہ محمد نام رکھنے کو وہ ناجائز سمجھتے تھے۔
مرکب نام رکھنا؟
اس ذیل میں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ حضرات صحابہ وتابعین کے نام محمد یا احمد وغیرہ مفرد ہوتے تھے جیسے محمد بن ابی بکر، محمد بن طلحہ وغیرہ۔ جبکہ موجودہ دور میں عجمی ممالک میں اکثر یہ نام مرکب رکھا جاتا ہے جیسے محمد شمشیر اور شکیل احمد وغیرہ۔ تو واضح رہے کہ محمد نام رکھنے کے مذکورہ فضائل میں مفرد یا مرکب کی کہیں تفریق نہیں ملتی ہے۔ جس طرح ”محمد“ مفرد نام رکھنا افضل ہے اسی طرح اگر اس نام کو کسی دوسرے نام کے ساتھ ملاکر رکھا جائے تو اس سے بھی یہ شرف وسعادت حاصل ہوسکتی ہے بالخصوص جبکہ یہ ثابت ہوکہ مرکب نام میں اصل نام ”محمد“ یا ”احمد“ ہی ہوتا ہے دوسرے جزء کا اضافہ ضمناً وتبعاً کسی خاص پس منظر کے تحت کیاجاتا ہے مثلاً بعض لوگ دوسرے ہم نام لگوں سے تمیز کے لئے کرتے ہیں جیسے حضرت علی نے اکبر اوسط اور اصغر کا اضافہ کیا تھا، بعض لوگ اول ثانی، ثالث وغیرہ کا اضافہ کرتے ہیں، اسی طرح بعض لوگوں کا قصد تاریخ و ایام کی طرف اشارہ کرنا ہوتا ہے۔
حافظ ابن القیم جوزی لکھتے ہیں کہ ”جس طرح ایک آدمی کے لئے نام، لقب اور کنیت رکھنا جائز اور ثابت ہے، اسی طرح ایک آدمی کا متعدد نام رکھنا بھی جائز ہے“(۳۳) متعدد نام جس طرح علیحدہ علیحدہ رکھاجاسکتا ہے، اسی طرح مختلف ناموں کو ایک ساتھ جمع کرکے ”مرکب نام“ بھی بنایا جاسکتا ہے۔ جیسے ”محمد اسعد“ یا ”سعید احمد“ دونوں کے احکام برابر ہیں۔
الغرض نام کے ساتھ ”محمد“ یا ”احمد“ کا اضافہ کرنا شرعاً جائز ہی نہیں بہتر اور باعث شرف بھی ہے لیکن اس مقدس نام کی عزت و تکریم بھی ساتھ میں ضروری ہے۔ ہر لحاظ سے اس کی عظمت و تقدس کا خیال ازحد ضروری ہے۔
---------------------------------------
حواشی: (۱) تحفة المودود (باحکام المولود صفحہ ۱۴۴، طبع مکتبہ الباز، مکة المکرمہ۔ 
(۲) زاد المعاد ۲/۴، موطا امام مالک ۲/۷۴۱، الادب المفرد حدیث نمبر ۸۳۵۔ 
(۳) زاد المعاد ۲/۵، سیرت ابن ہشام ۲/۲۵۳۔ 
(۴) موطا مالک ۲/۷۴۱-۷۴۲۔ مصنف عبدالرزاق ، حدیث نمبر ۱۹۸۶۴۔ 
(۵) زاد المعاد ۲/۴۔ 
(۶) ابوداؤد، حدیث نمبر ۴۹۴۸، صحیح ابن حبان حدیث نمبر ۵۷۸۸، فتح الباری ۶۱۹۵، کتاب الادب ۔ 
(۷) مسلم حدیث نمبر ۲۱۲۹۔ 
(۸) مسلم: ۲۱۴۰۔ 
(۹) بخاری حدیث نمبر ۶۱۹۳۔ 
(۱۰) ابوداؤد، حدیث نمبر ۱۴۹۵۲، ترمذی حدیث نمبر ۲۸۳۸، الادب المفرد حدیث نمبر ۸۴۳، تحفة المودود ص۵۔ 
(۱۱) ابوداؤد حدیث نمبر ۴۹۵۰، بخاری حدیث نمبر ۳۵۳۹۔ 
(۱۲) بخاری حدیث نمبر ۳۵۳۹، مسلم حدیث نمبر ۲۱۳۵۔ 
(۱۳) فتح الباری حدیث نمبر ۶۱۹۹، تحفة المودود صفحہ ۱۵۵۔ 
(۱۴) تحفة المودود صفحہ ۱۵۵۔ 
(۱۵) بخاری حدیث نمبر ۶۱۹۳، زاد المعاد ۲/۴-۵۔ 
(۱۶) نووی علی صحیح مسلم حدیث نمبر ۲۱۳۵۔ 
(۱۷) تحفة المودود صفحہ ۱۵۵، فتح الباری حدیث نمبر ۶۲۰۰، بخاری مع الفتح حدیث نمبر ۶۱۸۷۔ 
(۱۸) بخاری مع فتح الباری حدیث نمبر ۶۱۸۷، عمدة القاری، حدیث نمبر ۶۱۸۷، نووی حدیث نمبر ۲۱۳۵۔ 
(۱۹) زاد المعاد ۲/۲، نووی ۲۱۳۵، عینی حدیث نمبر ۶۱۸۷۔ 
(۲۰) عمدة القاری حدیث نمبر ۳۵۳۲، فتح الباری حدیث نمبر ۳۵۳۲، اوجز المسالک حدیث نمبر ۳۰۹۱۔ 
(۲۱) اوجزالمسالک حدیث نمبر ۳۰۹۱، فتح الباری حدیث نمبر ۳۵۳۲، زاد المعاد ۱/۳۳۔ 
(۲۲) فتح الباری حدیث نمبر ۳۵۳۲، عمدة القاری حدیث نمبر ۳۵۳۲، اوجزالمسالک ۳۰۹۱۔ 
(۲۳) سبل السلام شرح بلوغ المرام للحافظ ابن حجررحمة الله عليه۔ 
(۲۴) عرف الشذی شرح ترمذی ۲/۱۱ مطبوعہ: دیوبند، باب اسماء النبی۔ 
(۲۵) الاصابة فی تمییز الصحابة جلد ۵ صفحہ ۷۳ تا ۸۰، التجرید ۲/۵۰ تا ۶۰، اسد الغابة ۴/۲۹۲۔ 
(۲۶) طبقات ابن سعد، علی المرتضی، مولفہ رضا کحالہ۔ 
(۲۷) الاصابة ۵/۷۰-۹۳، التاریخ الکبیر۱/۱-۲۶۶۔ (۲۸) میزان الاعتدال ۶/۳۲۔ 
(۲۹)میزان الاعتدال ۴/۵۶۔ 
(۳۰) میزان الاعتدال ۱/۲۰۹-۳۱۴۔ 
(۳۱) نووی علی صحیح مسلم، حدیث نمبر ۲۱۳۲، الاصابة فی تمییز الصحابة ۵/۸۰، فتح الباری حدیث ۶۱۸۷۔ 
(۳۲) فتح الباری حدیث نمبر ۶۱۸۹، نووی ۲۱۳۲۔(۳۳) تحفة المودود صفحہ ۱۷۶۔
واللہ تعالی اعلم




سرزمین شام کا بہترین شہر غوطہ

سوال: غوطہ میں جنگ اور حملے جاری ہیں۔ مشرقی غوطہ میں شامی حکومت کے فضائی حملہ میں دوشنبہ کو ایک ہی خاندان کے 9 لوگوں کی موت ہوگئی۔ اقوام متحدہ کی جنگ بندی کی قرارداد کے باوجود  مشرقی غوطہ میں اتوار کو دیر ایک دھماکہ کے بعد بہت سے لوگوں کو کلورین گیس کا شکار ہونا پڑا جس کی وجہ سے ایک بچہ کی موت ہوگئی۔ اس بمباری کے تناظر میں اوریا مقبول جان رقمطراز ہیں: "شام کی سرزمین پر جو جنگ و جدل اور خونریزی ہے اور جس طرح مغربی طاقتیں امریکا اور روس اس پر قبضے کی جنگ لڑ رہے ہیں، اسی طرح مسلم امّہ کی دو طاقتیں سعودی عرب اور ایران بھی وہاں اپنے غلبے کی لڑائی لڑ رہی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ امریکا اور روس کھل کر اعلان کرتے ہیں کہ یہ ہمارے اس خطے میں مفادات کی جنگ ہے، لیکن سعودی عرب اور ایران اسے مسلک کا لبادہ اوڑھا کر منافقت کرتے ہیں اور اپنے علاقائی ایجنڈے کو حق و باطل کی جنگ بنا کر پیش کرتے ہیں۔
یہ نہ شیعہ کی لڑائی ہے اور نہ سنی کی، یہ وہ قتل و غارت اور خانہ جنگی ہے جس نے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ مارچ 2011ء میں شام کے صدر بشارالاسد کے خلاف بھی ویسی ہی عوامی تحریک اٹھی تھی جیسی مصر، تیونس، مراکش، لیبیا اور یمن میں تحریکیں اٹھیں۔ پہلی جماعت جس نے بشارالاسد کے خلاف تحریک سے جنم لیا اسے حساّن عبود ابو عبداللہ نے منظم کیا، جسے حرکتِ احرار الشام الاسلامیہ کہتے ہیں۔ گیارہ نومبر 2011ء کو اس نے اپنے قیام کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا کسی عالمی جہادی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں۔ اس دوران بشارالاسد کے مظالم اسقدر شدید ہو گئے کہ لاکھوں لوگ ہجرت کر گئے اور بھوک کا عالم یہ تھا کہ لوگ مردہ جانوروں کا گوشت تک کھا کر زندہ رہنے پر مجبور ہو گئے۔
اس ظلم کے ردعمل میں بشار حکومت کے خلاف ہر علاقے میں جہادی گروہوں نے جنم لینا شروع کیا۔ سعودی عرب نے اپنے ایک عالمِ دین امیر زہران علوش کو مکمل امداد کے ساتھ وہاں بھیجا جس نے جیش الاسلام کے نام سے تنظیم بنائی۔ یہ غوطہ شہر پر قابض ہیں اور انھوں نے دمشق پر حملہ کرنے کے لیے درجنوں سرنگیں کھود رکھی ہیں۔ چند ماہ قبل انھوں نے شام کے وزیرِ انصاف کو دمشق کے ریڈ زون سے اغوا کیا اور بدلے میں پانچ سو قیدیوں کو چھڑایا۔ 22 نومبر 2013ء کو حسان عبود نے ان تمام تنظیموں کو اکٹھا کیا اور گیارہ جماعتوں کے اتحاد کے بعد “الجبہۃالاسلامیہ” کا اعلان کردیا۔
اس اتحاد میں کردوں کی بہت بڑی تنظیم الجبہۃ الاسلامیہ کردیہ بھی شامل تھی۔ یہ وہ موڑ تھا جس سے عالمی طاقتوں کو اس کھیل میں کودنے کا موقع ملا۔ سعودی عرب کی جیش الاسلام کی حمایت کے بعد ایران ویسے تو بشارالاسد کی پہلے سے ہی مدد کر رہا تھا، لیکن اب وہ کھل کر سامنے آ گیا۔ اپنے پاسداران اور  بسیج کے نوجوانوں کو وہاں لڑنے کے لیے بھیجا اور دنیا بھر میں اسے حق و باطل کا معرکہ قرار دے کر لوگوں کو وہاں لڑنے کے لیے اکسایا۔ اس وقت وہاں ایران کی مدد سے تین ملیشیا لڑ رہے ہیں جو کہتے ہیں ہم اپنے مقدس مقامات کے تحفظ کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
دوسری جانب دولتِ الاسلامیہ یعنی داعش کو اٹھایا گیا تا کہ کسی طور پر بھی شام کی سنی اکثریت جو دس فیصد علوی بشارالاسد کے پرتشدد عہد میں رہ رہی ہے وہ متحد نہ ہو نے پائے۔ داعش کے قیام میں عراق اور شام کی حکومتوں نے جس طرح تعاون کیا اس کی مثال عراق میں موصل اور شام میں تدمر کے شہروں کی داعش کے ہاتھوں فتح ہے۔ موصل کو چھوڑتے ہوئے عراقی فوجی اپنا اسلحہ، ٹینک، دیگر ساز و سامان داعش کے لیے چھوڑ گئی۔
اسی طرح شام کے شہر تدمر کو جب بشارالاسد کی فوجوں نے خالی کیا تو جدید اسلحہ، گولہ بارود اور ٹینک داعش کے لیے چھوڑ گئے۔ گزشتہ تین سالوں سے شام کی فوج حمص شہر پر قبضے کی کوشش کر رہی ہے لیکن دو ماہ پہلے وہ وہاں سے پیچھے ہٹ گئی ہے اور حیرانی کی بات ہے کہ اب ان سے بشارالاسد کی یہ لڑائی لڑنے کے لیے داعش جا رہی ہے جو حمص سے چند کلو میٹر فاصلے پر ہے۔ شام کے شہر لاتاکیہ میں ایرانی فوج کا جرنیل قاسم سلیمانی پہنچ چکا ہے جس کی تصاویر رائٹرز نے جاری کیں، جب وہ ایرانی پاسداران اور حزب اللہ کے دستوں سے مشترکہ خطاب کر رہا تھا۔
اب یہ میدان بہت گرم ہونے جا رہا ہے، اس کی کئی وجوہات ہیں۔ 3 دسمبر 2014ء کو جب گیارہ جماعتوں کے اتحاد کا اجلاس ادلب میں ہو رہا تھا جس میں حسان عبود سمیت تمام قائدین جمع تھے تو ایک بہت بڑا دھماکا ہوا جس میں سب کے سب جاں بحق ہو گئے۔ یہ سب اس وقت "وحدت الصف" یعنی ایک ساتھ لڑنے کا طریقہ کار طے کررہے تھے۔ اس کے بعد سے ہر کوئی اپنے طور پر لڑرہا ہے۔ اس دوران داعش نے اپنی جگہ بنا لی ہے، کیونکہ اس کا ایک خفیہ اتحاد بشارالاسد کی افواج سے ہے اسی لئے شام میں داعش نے اب تک صرف دیگر جہادی تنظیموں سے ہی جنگ کی ہے۔
روس، عراق اور ایران کے اتحاد اور امریکی حکمتِ عملی کی وجہ سے یہ جنگ بہت طویل بھی ہو سکتی ہے کیونکہ یہ سب طاقتیں مل کر بشارالاسد کو مستحکم اور مضبوط بنا دیں گی۔ یہ جنگ جسے ایران اور سعودی عرب نے حق و باطل کی جنگ بنا کر مسلم امّہ کو ہیجان میں مبتلا کیا ہے، دراصل وہ فساد ہے جس کی نشاندہی میرے آقا سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم نے کی تھی۔ آپ ذرا احادیث کو ترتیب سے دیکھیں تو حیران رہ جائیں گے، چودہ سو سال پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کیسے خبردار کیا تھا۔
فرمایا: "جزیرۃ العرب اس وقت تک خراب نہ ہوگا جب تک مصر خراب نہ ہوجائے (الفتن)، عنقریب تم افواج کو پاؤگے." شام، عراق اور یمن میں ( البیہقی)، خبردار کرتے ہوئے فرمایا: "جب شام میں فساد ہو تو تمھاری خیر نہیں (مسند احمد بن حنبل)۔ حضرت اسحٰق بن ابی یحییٰ الکعبی حضرت اوزاعی سے روایت کرتے ہیں کہ: "جب پیلے جھنڈوں والے مصر میں داخل ہوں تو اہلِ شام کو زمین دوز سرنگیں کھودلینا چاہئیں (السنن الواردۃ الفتن)۔" ان احادیث کو موجودہ زمانی ترتیب سے دیکھ لیں۔ عرب بہار کا آغاز سب سے پہلے مصر سے ہوا اور جیسے وہیں تحریر اسکوائر پر چار انگلیوں والے پیلے رنگ کے جھنڈے بلند ہوئے اور ادھر بشار الاسد کی فضائیہ نے نہتے عوام پر حملے شروع کردیے اور اب تو پوری دنیا شام کے عوام پر حملہ آور ہے جنھیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کے مطابق زمین دوز سرنگیں کھودلینا چاہئیں۔
یہ فساد جو اس وقت برپا ہے اس کا انجام کیا ہوگا۔ ایک تو وہ تجزیہ ہے جو سیاسی، عسکری اور عالمی تجزیہ نگار کرتے ہیں۔ یہی تجزیے آپ کو نیویارک، لندن، تہران اور ریاض کے اخباروں میں ملیں گے۔ ہر کوئی اپنے حساب سے تجزیہ کر رہا ہے۔ لیکن ایک تجزیہ وہ ہے جو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث کی اور پیش گوئیوں کی روشنی میں ہے، اور وہی حق ہے کہ صادق و امین پیغمبر کی زبان سے جاری ہوا ہے۔
اس سارے فساد اور لڑائی سے کسی خیر کی کوئی توقع نظر نہیں آرہی بلکہ اس کے بطن سے شام پر ایک شخص کی حکومت قائم ہوگی."جس کا نام عبداللہ ہوگا اور وہ سفیانی کے نام سے مشہور ہوگا، اس کا خروج مغربی شام میں اندر نامی جگہ سے ہوگا." (الفتن۔ نعیم بن حماد)۔
دوسری روایت، "ام المومنین امِ سلمہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ سے سنا کہ سفیانی کا خروج شام میں ہوگا، پھر وہ کوفہ کی جانب روانہ ہوگا تو مدینہ منورہ کے جانب بھی لشکر روانہ کرے گا، چنانچہ وہ لوگ وہاں لڑائی کریں گے جب تک اللہ چاہے، اور حضرت فاطمہ کی اولاد میں سے ایک پناہ لینے والا حرم شریف میں پناہ لے گا، لہٰذا وہ لشکر اس کی طرف نکلیں گے تو جب یہ لوگ مقامِ بیداء میں پہنچیں گے تو ان سب کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا سوائے ایک شخص کے جو لوگوں کو ڈرائے گا (علل ابن ابی حاتم)۔ اس دھنسانے کے واقعہ کے بعد اس بڑی عالم گیر جنگ کا صحیح آغاز ہوگا۔ اس لئے وہ پناہ لینے والے شخص امام مہدی ہونگے جن کے بارے میں تمام مسالک متفق ہیں۔
امت اس وقت جس انتشار اور فساد میں مبتلا ہے اس کو متحد صرف انھی کی ذاتِ گرامی کرے گی۔ ان کا ہیڈ کوارٹر شام کا شہر غوطہ ہو گا۔ سفیانی کے دھنسائے جانے کے بعد جو جنگ شروع ہوگی اس بارے میں فرمایا: "جب رومی جنگِ عظیم میں اہلِ شام سے جنگ کریں گے تو اللہ دو لشکروں کے ذریعے اہلِ شام کی مدد کرے گا، ایک مرتبہ ستر ہزار سے اور دوسری مرتبہ 80 ہزار اہلِ یمن سے جو اپنی بند تلواریں لٹکائے آئیں گے۔ وہ کہتے ہوں گے ہم پکے سچے اللہ کے بندے ہیں (الفتن)۔" مغرب کی طاقتوں سے یہ جنگ اعماق اور دابق کے مقام پر ہو گی۔ یہ دونوں قصبے شام کے شہر حلب سے پنتالیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "اہلِ روم اعماق اور دابق کے مقام پر پہنچیں گے۔
ان کی جانب ایک لشکر مدینہ کی طرف سے پیشقدمی کرے گا جو اس زمانے کے بہترین لوگوں میں سے ہوگا۔ جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوں گے تو رومی کہیں گے تم ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان سے ہٹ جاؤ جو ہمارے لوگ قید کرکے لائے ہیں، ہم انھی لوگوں سے جنگ کریں گے۔ مسلمان کہیں گے اللہ کی قسم ہم ہرگز تمہارے اور اپنے بھائیوں کے درمیان سے نہیں ہٹیں گے۔ اس پر تم ان سے جنگ کروگے۔ اب ایک تہائی مسلمان بھاگ کھڑے ہوں گے، جن کی توبہ اللہ کبھی قبول نہیں کرے گا، ایک تہائی شہید کردیے جائیں گے، باقی ایک تہائی فتح حاصل کریں گے (مسلم، ابنِ حباّن)۔"
یہ ہے وہ میدانِ جنگ جو سیدنا امام مہدی کی سربراہی میں برپا ہوگا۔ اس وقت امتِ مسلمہ جس افتراق، انتشار، خانہ جنگی اور مسلکی بنیاد پر قتل و غارت کا شکار ہے، ہر کوئی ایک دوسرے کا گلہ کاٹنے کو حق سمجھتا ہے۔ مفادات نے مسالک میں پناہ لے لی ہے۔ ذاتی تعصب کو لوگ حق و باطل کی جنگ سمجھتے ہیں۔
مغرب سے مغلوبیت اور ان کی کاسہ لیسی کو کامیابی تصور کیا جاتا ہے۔ ایسے میں ڈیڑھ ارب مسلمان کیا کسی ایک جگہ اکٹھا ہو سکتے ہیں۔ اس کا جواب نفی میں نظر آتا ہے۔ ہاں صرف اسی وقت اکٹھا ہوں گے جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان کے مطابق سیدنا امام مہدی جیسی قیادت ان کے درمیان موجود ہوگی۔ حالات و واقعات اسی جانب پیش قدمی کررہے ہیں۔ اس فساد نے ظالموں کو ظالموں سے لڑاکر ختم کرنا ہے اور اس کی کوکھ سے اتحاد نے جنم لینا ہے۔"
اہل علم حضرات رہنمائی فرمائیں کہ کیا مذکورہ بالا خیالات درست ہیں؟
ایس اے ساگر

الجواب وباللٰہ التوفیق: 
فساد شام  {إذا فسد أهل الشام} کی حقیقت
آدم ثانی حضرت نوح علیہ السلام کے بڑے بیٹے (مشہور قول کے مطابق) "سام" کے نام پہ آباد ہونے والے ملک "شام" کو انگریزی میں "syria" عربی میں "سوریا" اور سریانی میں شام کہتے ہیں۔ طوفان نوح کے بعد سام بن نوح اسی علاقے میں آباد ہوئے تھے۔ اس لئے "شام" کے نام سے یہ علاقہ مشہور ہوگیا۔
قدیم نبوتوں، صحیفوں، قرآنی آیات اور احادیث نبویہ کی روشنی میں "شام" کو بڑی عظمت حاصل ہے۔
اس بابرکت اور باحیثیت ملک کے حدود کافی وسیع تھے۔
جسے اسلام دشمن فرانسیسی  استعماری قوت  نے سنہ 1920 عیسوی میں درج ذیل چار الگ الگ سرحدوں میں بانٹ دیا۔
1 : حالیہ شام (دارالحکومت دمشق) جہاں روافض کا خونی پنجہ مسلم جسم کو نوچ رہا ہے۔
2 : فلسطین =اسرائیل = (دارالحکومت بیت المقدس) جہاں پون صدی سے یہود قابض ہیں،
3 : لبنان (دارالحکومت لبنان) جہاں مسلمانوں کو اقلیت میں رکھا گیا ہے اور مختلف طریقے سے ان کا استحصال کیا جاتا ہے،
4 : اردن (دارالحکومت عمان) جہاں برطانوی استعمار کے پرانے ایجنٹ اور نمک خور مسلط ہیں اور صیہونیوں سے یاری کا حق ادا کرتے ہیں!
غیر منقسم ملک شام پر 636 عیسوی سے 1920 عیسوی تک مسلمانوں کی حکومت رہی۔
1920 میں  شریف مکہ کی غداری کی وجہ سے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا اور 1920 میں شام  فرانس کے قبضہ میں چلاگیا۔
1946 میں فرانسیسی استعماریت سے آزادی ملی۔
اور حافظ امین وہاں کا سربراہ بنا۔ 1970 عیسوی میں حافظ الاسد ایک فوجی بغاوت کے ذریعہ  امین سے زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
2000 میں اس کا انتقال ہوا تو اس کا بیٹا بشار الاسد اس  ملک کا صدر بن گیا اور آج تک اسی کی  قہرمانیوں کی زد میں سرزمین انبیاء ہے۔
بشار الاسد شیعہ نصیری فرقہ سے تعلق رکھتا ہے۔ جو مسلمانوں کا سخت ترین دشمن اور صیہونیوں کا وفادار رہا ہے۔ اس فرقہ کے چند مخصوص عقائد یہ ہیں:
1۔۔۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ میں خداتعالی حلول کئے ہوئے ہیں۔
2۔۔ہندوستانی برہمنوں کی طرح تناسخ ارواح (آوا گون) کا قائل ہے۔ حساب کتاب اور بعث وحشر کا منکر ہے۔
3۔۔دینی فرائض نماز روزہ کی فرضیت کا قائل نہیں۔ مسجدوں کی تعمیر وبناء کا بھی انکاری ہے۔
4۔۔۔محرمات شرعیہ: زناء، شراب نوشی وغیرہ کی حلت کا قائل ہے۔
اسی لئے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنے مختلف رسائل میں یہ فتوی دیا کہ "نہ ان کی عورتوں سے مناکحت جائز ہے۔ نہ ان کا ذبیحہ حلال ہے۔ نہ ان کی میت پہ نماز جنازہ پڑھنا درست ہے۔ اس کے کسی بھی فرد کو اسلامی فوج و لشکر  میں نوکری دینا ایسے ہی خطرناک ہے جیسے بکریوں کے ریوڑ میں بھیڑ کو رکھنا۔ اس لئے اسے مسلم فوجیوں میں ملازمت دینا گناہ کبیرہ ہے۔مسلمانوں کی بجائے صہیونی اور یہودیوں سے ان کے تعلقات رہتے ہیں"۔
انہوں نے صلاح الدین ایوبی کے خلاف صلیبیوں کا، ظاہر بیبرس کے خلاف تاتاریوں کا، اور عثمانیوں کے خلاف صفویوں اور فرانسیسیوں کا ساتھ دیا ہے۔
مذہب اسلام میں اچھا یا برا ہونے کا اصل معیار تو انسانی عمل ہے۔ انسان حسب نسب جاہ وحشمت سے نہیں، بلکہ خود اپنے عمل  سے نیک وبد بنتا ہے۔ لیکن بعض مکانوں اور جگہوں  کے فضائل قرآن وحدیث میں بیان ہوئے ہیں۔
حرمین طیبین  کے بعد سب سے زیادہ اس غیر منقسم بلاد شام کی فضیلت وارد ہوئی ہے۔
سورہ الانبیاء آیت 71+ 81+  میں اس کی برکت واہمیت کی صراحت آئی ہے۔
بعض علماء نے اس کے فضائل پہ مستقل کتابیں لکھی ہیں۔۔۔اور اس کی اہمیت و حیثیت کے حوالے سے ساری روایتیں جمع کی ہیں۔ جس میں رطب ویابس، صحیح وسقیم حتی کہ من گھرت  قسم کی روایتیں بھی در آئی ہیں۔ لیکن ہم  ذیل میں  فضائل شام کی بیس احادیث ذکر کررہے ہیں۔ جنہیں فن حدیث کے ماہرین نے صحیح کہا ہے۔
1- عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «اللهم بارك لنا في شامنا، اللهم بارك لنا في يمننا»، قالوا: "يا رسول الله، وفي نجدنا؟" فأظنه قال في الثالثة: «هناك الزلازل والفتن وبها يطلع قرن الشيطان» (أخرجه البخاري [1037]    
ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ [رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا]: (یا اللہ! ہمارے شام اور یمن میں برکت فرما) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: "اور ہمارے نجد میں بھی؟"
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (یا اللہ! ہمارے شام اور یمن میں برکت فرما)، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: "اور ہمارے نجد میں بھی؟"
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (وہاں زلزلے، فتنے ہونگے اور وہیں سے شیطان کا سینگ رونما ہوگا)
2- عن أبي الدرداء رضي اللَّه عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «بينا أنا نائم إذ رأيتُ عمود الكتاب احتمل من تحت رأسي، فظننتُ أنه مذهوب به، فأتبعته بصري، فعمد به إلى الشام، ألا وإن الإيمان حين تقع الفتن بالشام» (أخرجه أحمد [21733]، وصحّحه الأرناؤوط۔
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں نے خواب میں دیکھا کہ کچھ لوگ عمود الکتاب (ایمان) کو لے گئے اور انہوں نے (ملک) شام کا قصد کیا۔ جب جب بھی فتنے پھیلیں گے تو شام میں امن وسکون رہے گا۔)
3- عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرو بن العاص رضي اللَّه عنهما قَالَ: قَالَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم:  «إني رأيتُ عمودَ الْكِتَابِ انْتُزِعَ مِنْ تَحْتِ وِسَادَتِي، فنظرتُ فَإِذَا هُوَ نورٌ ساطعٌ عُمِدَ بِهِ إِلَى الشَّامِ، أَلا إِنَّ الإِيمَانَ -إِذَا وَقَعَتِ الفتن- بالشام» (أخرجه الحاكم [8554]، وصحّحه على شرط الشيخين ووافقه الذهبي، وصحّحه الألباني في تخريج أحاديث فضائل الشام۔
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب میں سویا ہوا تھا تو میں نے دیکھا کہ عمود الکتاب (ایمان) میرے سر کے نیچے سے کھینچا جارہا ہے۔ میں نے گمان کیا کہ اس کو اٹھالیا جائے گا تو میری آنکھ نے اس کا تعاقب کیا، اس کا قصد (ملک) شام کا تھا۔جہاں پھوٹتا ہوا نور تھا۔ جب جب بھی شام میں فتنے پھیلیں گے وہاں ایمان میں اضافہ ہوگا۔)
4- عن عبد الله بن عمر بن الخطاب رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: قَالَ لنا النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم يومًا: «إني رأيتُ الملائكة في المنامِ أخذوا عمود الكتاب، فعمدوا به إلى الشام، فإذا وقعت الفتنُ فإن الإيمان بالشام» (أخرجه ابن عساكر في تاريخ دمشق [1/110]، وصحّحه الألباني في تخريج أحاديث فضائل الشام لأبي الحسن الربعي۔
ترجمہ تقریبا حسب سابق ہے).
5- عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «رأيتُ عمودًا من نور خرج من تحت رأسي ساطعًا حتى استقر بالشام» (أخرجه البيهقي في دلائل النبوة [6/448]، وابن عساكر في تاريخ دمشق [1/109]، وصحّحه الألباني في المشكاة [6280]۔
ترجمہ تقریبا وہی ہے)
6- عن عبد الله بن حوالة رضي اللَّه عنه: كُنّا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فشكونا إليه العُري والفقر وقلة الشيء، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أبشروا؛ فوالله! لأنا من كثرة الشيء أخوف عليكم من قلته، والله! لا يزال هذا الأمر فيكم حتى يفتح الله عز وجل أرض فارس، وأرض الروم، وأرض حِمير، وحتى تكونوا أجناداً ثلاثة: جنداً بالشام، وجنداً بالعراق، وجنداً باليمن، وحتى يُعطى الرجل المئة فيسخطها». قال ابن حوالة: "فقلتُ: يا رسول الله! اختر لي إن أدركني ذلك؟" قال: «إني أختار لك الشام؛ فإنه صفوة الله عز وجل من بلاده، وإليه يحشر صفوته من عباده. يا أهل اليمن! عليكم بالشام؛ فإنه صفوة الله عز وجل من أرض الشام، ألافمن أبى؛ فليسق من غُدر اليمن -جمع غدير الماء-؛ فإن الله عز وجل قد تكفّل بالشام وأهله» (أخرجه ابن عساكر في تاريخ دمشق [1/75]، وقال الألباني في السلسلة الصحيحة [7/1260]: إسناده صحيح رجاله كلهم ثقات).
حضرت ابن حولہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں کہ  ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس تھے۔ ہم نے فقر وتنگدستی وبرہنگی کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: مجھے تمہارے حوالے سے فقر وتنگدستی سے زیادہ افراط زر سے خوف ہے۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: دین وملت کا یہ نظام چلتا رہے گا یہاں تک  کہ تم مسلمانوں کے جدا جدا کئی لشکر ہوجائیں گے ایک لشکر شام میں ہوگا، ایک یمن میں اور ایک لشکر عراق میں، 
(یہ سن کر) ابن حولہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کیا کہ: یا رسول اللہ! (اگر اس زمانہ میں میں ہوا تو) فرمائیے کہ میں کون سا لشکر اختیار کروں؟ 
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تم شام کو اختیار کرنا کیونکہ شام کی سرزمین اللہ کی زمینوں میں سے برگزیدہ سرزمین ہے (یعنی اللہ نے آخر زمانہ میں دینداروں کے رہنے کے لئے شام کی سر زمین ہی کو پسند فرمایا ہے پھر اگر تم شام کو اختیار کرنا قبول نہ کرو تو اپنے یمن کو اختیار کرنا اور دیکھنا تم (جب شام میں جاؤ تو اپنے آپ کو بھی اور اپنے جانوروں کو بھی اپنے ہی حوضوں سے پانی پلانا ، حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض میری وجہ سے میری امت کے حق میں یہ ذمہ لیا ہے کہ وہ (کفار کے فتنہ و فساد اور ان کے غلبہ سے) شام اور اہل شام کو مامون ومحفوظ رکھے گا ۔ "
7- عن ابن حَوالة رضي اللَّه عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «سيصير الأمرُ إلى أن تكونوا جُنوداً مُجَندَةً: جندٌ بالشام، وجندٌ باليمن، وجندٌ بالعراق» قال ابن حَوَالة: "خِرْ لي يا رسول الله! إن أدركتُ ذلك؟" فقال: «عليك بالشام؛ فإنها خيرةُ الله مِنْ أرضه، يَجْتَبِي إليها خِيرتَهُ منعباده. فأما إن أبيتم؛ فعليكم بيمنكم، واسقوا من غُدُركم؛ فإن الله توكللي بالشام وأهله» (أخرجه أحمد [17005]، وأبو داود [2483]، وصحّحه الألباني في صحيح الجامع الصغير [3659]).
حضرت ابن حولہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: وہ زمانہ قریب ہے جب دین اور ملت کا یہ نظام ہوگا کہ تم مسلمانوں کے جدا جدا کئی لشکر ہوجائیں گے ایک لشکر شام میں ہوگا، ایک یمن میں اور ایک لشکر عراق میں، 
(یہ سن کر) ابن حولہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! (اگر اس زمانہ میں میں ہوا تو) فرمائیے کہ میں کون سا لشکر اختیار کروں؟ 
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تم شام کو اختیار کرنا کیونکہ شام کی سر زمین اللہ کی زمینوں میں سے برگزیدہ سر زمین ہے (یعنی اللہ نے آخر زمانہ میں دینداروں کے رہنے کے لئے شام کی سر زمین ہی کو پسند فرمایا ہے پھر اگر تم شام کو اختیار کرنا قبول نہ کرو تو اپنے یمن کو اختیار کرنا اور دیکھنا تم (جب شام میں جاؤ تو اپنے آپ کو بھی اور اپنے جانوروں کو بھی اپنے ہی حوضوں سے پانی پلانا، حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض میری وجہ سے میری امت کے حق میں یہ ذمہ لیا ہے کہ وہ (کفار کے فتنہ و فساد اور ان کے غلبہ سے) شام اور اہل شام کو مامون ومحفوظ رکھے گا۔"
8- عن ابن حَوالة رضي اللَّه عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يا ابن حوالة، إذا رأيتَ الخلافة قد نزلت أرض المقدَّسة فقد دنت الزلازل والبلابل والأمور العظام، والساعة يومئذٍ أقرب من الناس من يدي هذه من رأسك» (أخرجه أحمد [22487]، وأبو داود [2535]، وصحّحه الألباني في صحيح أبي داود [2286]).
ابن حوالہ کہتے ہیں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم  نے اور فرمایا: اے ابن حوالہ جب تو خلافت کو ارض مقدس (شام) میں اترتا دیکھے تو سمجھ لے کہ زلزلے مصائب اور حوادث قریب آ گئے اور اس دن قیامت لوگوں سے اس قدر قریب ہوگی جس قدر تیرے سر سے میرا ہاتھ ہے۔
9- - عن زيد بن ثابت رضي اللَّه عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «طوبى للشام» قلنا: "لأي ذلك يا رسول الله؟" قال: «لأن ملائكة الرحمن باسطة أجنحتها عليها» (أخرجه أحمد [21606]، والترمذي [3954]، والحاكم [2900] وصحّحه على شرط الشيخين ووافقه الذهبي، وصحّحه الألباني في سلسلة الأحاديث الصحيحة [503]).
شام کتنی مبارک جگہ ہے!
صحابہ رضوان اللہ اجمعین نے پوچھا: اے اللہ کے رسول، ایسا کیوں ہے؟
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے جواب دیا: میں اللہ کے فرشتوں کو دیکھتا ہوں کہ انھوں نے شام کے اوپر اپنے پَر پھیلائے ہوئے ہیں۔
10- عن أبي الدرداء رضي اللَّه عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إن فسطاط المسلمين يوم الملحمة بالغوطة إلى جانب مدينة يقال لها: دمشق، من خير مدائن الشام» (أخرجه أحمد [21725]، وأبو داود [4298]، وصحّحه الألباني في صحيح الترغيب والترهيب [3097]).
… رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قتل کرنے کے دن (یعنی جنگ میں) مسلمانوں کا خیمہ الغوطہ میں ہوگا، جو دمشق کے قریب واقع ہے۔
[وأخرجه أبو داود (4298) ، ويعقوب بن سفيان في "المعرفة والتاريخ" 2/290، والطبراني في "مسند الشاميين" (589) ، وابن عساكر في "تاريخ دمشق" 1/103 و104 من طرق عن يحيى بن حمزة، بهذا الإسناد.
وأخرجه ابن عساكر 1/104 من طريق صدقة بن خالد، عن عبد الرحمن ن يزيد بن جابر، به.
وأخرجه الطبراني في "الشاميين" (1313) ، والحاكم 4/486، وابن عساكر 1/103 من طريق خالد بن دهقان، عن زيد بن أرطاة، به.
وانظر ما سلف برقم (17470) من حديث أصحاب النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.]
11- عن أبي هريرة رضي الله عنه أنه سمع رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يقول: «إذا وقعت الملاحِمُ بعث الله من دمشقَ بعثًا من الموالي، أكرمَ العرب فرسًا، وأجودهم سلاحًا، يؤيدُ الله بهم الدين» (أخرجه ابن ماجة [4090]، والحاكم [8646]، واللفظ له وصحّحه ووافقه الذهبي وحسّنه الألباني في السلسلة الصحيحة [2777]).
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ: فتنوں اور لڑائیوں کے زمانے میں دمشق سے اللہ تعالی بہترین شہسوار اور شاندار ہتھیار بند شہسوراوں کو بھیجیں گے جن کے ذریعہ دین کو مستحکم فرمائیں گے۔
12- عن النواس بن السمعان الكلابيّ رضي اللَّه عنه قال: ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم الدجال، فقال: «إن يخرج وأنا فيكم فأنا حجيجه دونكم، وإن يخرج ولستُ فيكم، فامرؤ حجيج نفسه، والله خليفتي على كل مسلم، فمن أدركه منكم فليقرأ عليه فواتح سورة الكهف، فإنها جواركم من فتنته»، قلنا: "وما لبثه في الأرض؟" قال: «أربعون يوماً: يومٌ كسنة، ويومٌ كشهر، ويومٌ كجمعة، وسائر أيامه كأيامكم»، فقلنا: "يا رسول الله، هذا اليوم الذي كسنة، أتكفينا فيه صلاة يوم وليلة؟" قال: «لا، اقدروا له قدره، ثم ينزل عيسى ابن مريم عند المنارةالبيضاء شرقي دمشق، فيُدرِكه عند باب لد، فيقتله» (أخرجه مسلم [2937]).
حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ: اگر میرے رہتے ہوئے دجال نکل آیا تو میں اس سے تم لوگوں کی حفاظت کروں گا۔ اور اگر میرے بعد نکلا تو پہر ہر آدمی اپنی حفاظت آپ کرے۔ اللہ تعالی ہر مسلم کی طرف سے میرا نائب ہوگا۔ اگر دجال نکل آئے تو اس کے سامنے سورہ کہف کی چند آیتیں پڑھے۔ کیونکہ وہ اس کے فتنہ حفاظت کا ذریعہ بنیں گی۔
ہم نے کہا: وہ کتنا دن ٹھہرے گا؟  
فرمایا: چالیس دن ٹھہرے گا۔ایک دن ایک سال کے برابر ۔ایک دن ایک مہینہ کے برابر اور ایک دن ایک ہفتہ کے برابر ہوگا۔ باقی دن معمول کے مطابق ہونگے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا کہ: سال کے برابر  لمبے دن میں ہم نماز وغیرہ کیسے پڑھیں گے؟ کیا ایک دن رات کی نماز کافی ہوجائے گی پورے سال میں؟
حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایا: نہیں۔ بلکہ ہر دن کے حساب سے اندازہ لگا کے پانچ وقت کی نماز پڑھو۔ پھر عیسی علیہ وسلم دمشق کے شرقی جانب سفید مینار کے پاس اتریں گے۔ دجال کو تلاش کریں گے۔ باب لد کے پاس اسے پائیں گے پھر اسے قتل کردیں گے۔
13- عن أوس بن أوس الثقفي رضي الله عنه أنه سمع رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وعلى آله وسلم يقول: «ينزل عيسى بن مريم عليهما السلام عند المنارةِ البيضاء شرقي دمشق» (أخرجه الطبراني في المعجم الكبير [590]، وصحّحه الألباني في صحيح الجامع الصغير [8169]).
رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول دمشق کے مشرق میں سفید مینار پر ہوگا۔
14- عن معاوية رضي اللَّه عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا تزال طائفة من أُمّتي قائمة بأمر الله لا يضرهم من خذلهم أو خالفهم حتى يأتي أمر الله وهم ظاهرون على الناس» (أخرجه البخاري [3641]، ومسلم [1037]، وزاد البخاري في روايته وأحمد [16932]: فقام مالك بن يخامر السكسكي فقال: "سمعتُ معاذ بن جبل يقول: وهم بالشام").
…رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ اللہ کے احکام کی پابندی کرے گی، جس کو نیچا دکھانے والے اور مخالفت کرنے والے نقصان نہیں پہنچاسکتے۔ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ آنے تک وہ اللہ کے دین پر قائم رہیں گے… 
مالک بن یخامر نے کہا: اے امیر الموٴمنین! میں نے حضرت معاذ سے سنا ہے کہ یہ جماعت ملک شام میں ہوگی۔ (بخاری، مسلم، طبرانی)
15- عن جابر بن عبد الله رضي اللَّه عنهما قال: سمعتُ النبي صلى الله عليه وآله وسلم يقول: «لا تزال طائفة من أُمّتي يقاتلون على الحق ظاهرين إلى يوم القيامة»، قال: «فينزل عيسى بن مريم صلى الله عليه وسلم، فيقول أميرهم: "تعال صلّ لنا"، فيقول: "لا، إن بعضكم على بعض أمراء تكرمة الله هذه الأمة»» (أخرجه مسلم [156]).
حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی جماعت حق کے لئے برسر پیکار رہے گی۔ قیامت تک یہ جماعت اپنے مخالفین پر غالب رہے گی۔
پھر عیسی علیہ السلام کا نزول ہوگا۔ مسلمانوں کے امیر ان سے امامت کی درخواست کریں گے۔ وہ امت محمدیہ کے اکرام میں  یہ کہکر عذر خواہی فرمائیں گے کہ تمہارے میں سے ہی کوئی امامت وامارت کرے۔
16- عن أبي هريرة رضي اللَّه عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا تزال عصابة من أُمّتي قائمة على أمر الله، لا يضرّها من خالفها، تقاتل أعداءها، كلما ذهبت حرب نشبت حرب قوم آخرين، يرفع الله قومًا ويرزقهم منه حتى تأتيهم الساعة» ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «هم أهل الشام» (أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط [7948]، وحسّن إسناده الأرناؤوط في تحقيق المسند [14/26]).
نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
میری امت کا ایک گروہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حکم سے قتال کرتا رہے گا، ان کو ان کے مخالف نقصان نہ دےسکیں گے اور وہ اپنے دشمنوں سے لڑتے رہیں گے جب بھی جنگ جائے گی ایک اور لڑنے والی جنگ ان سے الجھ جائے گی اللہ ایک قوم کو بلند کر دے گا کہ ان کو رزق دے (کر آزمائش میں ڈالے گا) یہاں تک کہ قیامت  آئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: "وہ اہل شام ہونگے۔"
17- عن سلمة بن نفيل رضي اللَّه عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا تزال طائفة من أُمّتي ظاهرين على الناس يرفع الله قلوب أقوام يقاتلونهم، ويرزقهم الله منهم حتى يأتي أمر الله عز وجل وهم على ذلك، ألا إن عقر دار المؤمنين الشام، والخيل معقود في نواصيها الخير إلى يوم القيامة» (أخرجه أحمد [16965]، وحسّنه الألباني في السسلة الصحيحة [1961]).
میری امت کا ایک گروہ لوگوں پر ہمیشہ غالب رہے گا، اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کے دلوں کو اٹھائے گا، وہ ان سے قتال کریں گے اور اللہ انہیں وہاں سے رزق عطاء فرمائے گا، حتی کہ جب اللہ کا حکم آئے گا تو وہ اسی حال میں ہوں گے، یاد رکھو! مسلمانوں کا خون بہنے کی جگہ شام ہے اور گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت تک کے لئے خیروبرکت رکھ دی گئی ہے۔
18- عن بهز بن حكيم بن معاوية القشيري، عن أبيه، عن جده قَالَ: "قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أين تأمرني؟" فقال: «ها هنا»، وأومأ بيده نحو الشامِ، قال: «إنكم محشورون رجالًا وركبانًا، ومُجْرَون على وجوهِكم» (أخرجه أحمد [20050]، والحاكم [8686]، وصحّحه ووافقه الذهبي، وصحّحه الألباني في تخريج أحاديث فضائل الشام).
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو ملک شام کی طرف ہجرت کرنے کا اشارہ  فرمایا۔ نیز فرمایا کہ تم پیادہ پا اور سوار ہوکر اٹھائے جاؤگے۔ منہ کے بل ہنکائے جاؤگے۔
19- عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: «سَتَخْرُجُ نَارٌ فِي آخِرِ الزَّمَانِ من حَضْرَمَوْت تحشرُ الناس»، قلنا: "فماذا تأمرنا يا رسول الله؟" قال: «عليكم بالشام» (أخرجه أحمد [4536]، والترمذي [2217]، وصحّحه الألباني في تخريج أحاديث فضائل الشام).
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آخر زمانے میں حضر موت سے ایک آگ نکلے گی اور لوگوں کو جمع کرے گی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوچھا کہ: حضور!  پھر ایسے موقع سے ہمارے لئے کیا ہدایت ہے؟ 
آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایا کہ ایسے برے وقت میں شام کا رخ کرلینا۔
20- عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ عَنْ أبيه رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: «إِذَا فسدَ أهلُ الشامِ فَلا خيرَ فِيكُمْ، لا تزالُ طائفةٌ من أُمتي منصورين، لا يضرُّهم مَنْ خَذَلَهم حَتَّى تقومَ الساعةُ» (أخرجه أحمد [20361]، والترمذي [2192]  والحديث صححه الترمذي وابن حبان وكثير من المعاصرين كالشيخ الألباني  والارنؤوط وغيره.
[وأخرجه ابن أبى شيبة (6/409، رقم 32460) وأحمد (15596 + 15597 +20361  + 20367) ، والترمذى (4/485، رقم 2192) وقال: حسن صحيح، والطبرانى (19/27، رقم 55، 56) ، وابن حبان (16/292، رقم 7302) . وأخرجه أيضًا: الطيالسى (ص 145، رقم 1076) والرويانى (2/128، رقم 946) .]
ورواه أحمد في «مسنده» (3/436) برقم (15634)، و(5/34) برقم (20377) عن يزيد بن هارون، وفي (3/436) برقم (15635)، و(5/34) برقم (20383) عن يحيى بن سعيد، كلاهما عن شعبة، به.
ورواه البزار في «مسنده» (8/243) برقم (3303) عن عمرو بن عليّ، عن يحيى بن سعيد، عن شعبة، به.
ثمّ قال البزار: "وهذا الحديث بهذا اللفظ لا نعلم رواه عن النبيّ إلا قرة بن إياس!".
ورواه ابن ماجة في «سننه»(1/4) عن مُحَمَّد بن بَشَّارٍ، عن مُحَمَّد بن جَعْفَرٍ، عن شُعْبَة، به.
ورواه سعيد بن منصور في «سننه»(2/178) عن عَبْدالرَّحْمَنِ بن زِيَادٍ، عن شُعْبَة، به.
ورواهُ يعقوب بن سفيان في «المعرفة والتاريخ» (2/170) عن سليمان بن عبدالرحمن الدمشقيّ، عن عيسى بن يونس، قال: حدثنا شعبة، عن معاوية بن قرة، عن أبيه - وكانت له صحبة- قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، فذكره.
ثمّ رواه عن الرَّبيع بن يحيى قال: حدثنا شعبة، قال: سمعت معاوية بن قرة يُحدِّث عن أبيه - وقد رأى النبي ومسح النبي برأسه – فقال: إذا فسد أهل الشام فلا خير فيكم.
ورواه الطبراني في «المعجم الكبير» (19/27) من طريق أَسَد بن مُوسَى وعَاصِم بن عَلِيٍّ وعَلِيّ بن الْجَعْدِ، ثلاثتهم عن شُعْبَة، به.
وعقد ابن عساكر باباً في «تاريخه» (1/305): "باب نفي الخير عن أهل الإسلام عند وجود فساد أهل الشام"
… رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر اہل شام میں بگاڑ پیداہوجائے تو پھر تم میں کوئی خیر نہیں ہے۔ میری امت میں ہمیشہ ایک ایسی جماعت رہے گی جس کو اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوگی اور اس کو نیچا دکھانے والے کل قیامت تک اس جماعت کو نقصان نہیں پہنچاسکتے ہیں۔
آج کل اسی بیسویں نمبر کی حدیث کا ترجمہ لوگ کررہے ہیں کہ "جب شام مکمل تباہ وبرباد ہوجائے تو دنیا میں کہیں خیر نہیں."
"فساد أهل الشام" کا ترجمہ مکمل تباہی وبربادی سے کرنا بالکل ہی غلط ہے۔
زیر نظر مضمون میں اسی کا علمی جائزہ لیا گیا ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہےکہ یہ ترجمہ کرنا نصوص کے بالکل خلاف ہے۔
فَسَدَ (ن ض) وفَسُدَ (ش) فَسَادًا و فُسوُدًا۔ خراب ہونا ۔ بگڑ جانا ۔ یہ صلح کی ضد ہے ۔ صفت فَسِیدٌ۔ ج۔ فُسدٰی و اَفَاسِدُ
اَفسَدَہٗ و فَسَّدَہٗ۔ کسی کو خراب کرنا۔ بگاڑنا
فسد اللحم او اللبن او نحوهما فساداخراب ہونا بگڑنا سڑنا، ناقابل استعمال ہونا۔
فسد العقد ونحوهمعاہدہ وغیرہ کا لعدم ہوجانا، باطل ہونا۔
فسد الرجلآدمی کا بگڑجانا، حدود عقل وحکمت سے تجاوز کرجانا۔
فسد الامورمعاملات بگڑ جانا، افرا تفری پیدا ہونا ، نظام میں خلل پڑنا۔ قرآن حکیم میں ہے: لوکان فیھما الھۃ الا اللہ لفسدتا۔ اگر ان (زمین وآسمان) میں متعدد خدا ہوتے تو ان کا نظام بگڑ جاتا۔ ھو فاسد وفسید۔
'افسد الرجل' آدمی کا بگڑنا، خراب ہونا حدود عقل وحکمت سے باہر ہوجانا۔
افسد الشئبگاڑنا، خراب کرنا (2) بے نفع اور بئ نتیجہ بنانا، ناکام بنانا، باطل کرنا، صحیح بنیاد سے ہٹا دینا، غلط کرنا۔
افسد في الارض زمین میں خرابی اور بگاڑ پھیلانا، فساد مچانا۔
لسان العرب میں ہے:
قال ابن منظور: «الفساد نقيض الصلاح... وتفاسد القوم: تدابروا وقطعوا الأرحام... واستفسد السلطان قائده إذا أساء إليه حتى استعصى عليه، والمفسدة خلاف المصلحة، والاستفساد خلاف الاستصلاح"  (لسان العرب 3:335. ..
وعن الراغب: «الفساد خروج الشيء عن الاعتدال ، قليلاً كان الخروج عنه أو كثيراً» (معاني القرآن: 379)
، ويضاده الصلاح، ويستعمل ذلك في النفس والبدن والأشياء الخارجة عن الاستفادة.
یعنی دین ،عقل ،نسل، عقیدہ اور عمل وغیرہ میں بگاڑ، فساد اور ناہمواری کو قرآن وحدیث میں "فساد" سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس لفظ کے مفہوم میں کافی وسعت ہے۔ اسے صرف قتل وغارت گری کے معنی میں ہی استعمال کرنا  ناواقفیت پر مبنی ہے۔
امام راغب اصفہانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ میانہ روی اور حد اعتدال سے نکل جانے والی ہر چیز کو "فساد" کہتے ہیں۔ خواہ تھوڑا نکلے یا زیادہ۔ اس کا تعلق جیسے نفس اور بدن سے ایسے ہی ہر چیز سے۔ یعنی افراط وتفریط سے دوچار ہوجانے والی ہر چیز کو شرعی اصطلاح میں فساد کہتے ہیں۔
والفساد في الاصطلاح: خروج الشيء عن الاعتدال، قليلًا كان الخروج أو كثيراً، ويستعمل ذلك في النفس، والبدن، والأشياء الخارجة عن الاستقامة
المفردات للراغب 2: 192، بصائر ذوي التمييز 4: 192، التوقيف للمناوي ص556.

علامہ ابن الجوزی کا کہنا ہے کہ ہر اچھی حالت کا برائی کی طرف میلان وانحطاط خواہ اقوال میں ہو یا افعال میں۔ کفر وشرک کے ذریعہ ہو یا عصیان ونافرمانی کے ذریعہ، ہر ایک کو فساد کہتے ہیں ۔یہ ذات میں بھی ہوتا ہے اور دین میں بھی۔
«الفساد: تغيُّر عمَّا كان عليه من الصَّلاح، وقد يقال في الشيء مع قيام ذاته، ويقال فيه مع انتقاضها، ويقال فيه إذا بطل وزال، ويُذكر الفساد في الدِّين كما يذكر في الذَّات، فتارةً يكون بالعِصيان، وتارة بالكفر، ويُقال في الأقوال إذا كانت غير منتظمة، وفي الأفعال إذا لم يعتدَّ بها»{نزهة الأعين النواظر ص469.}
"فساد" "ظلم" سے زیادہ عام ہے۔
ظلم تو خامی اور کمی کو کہتے ہیں جبکہ فساد کے مفہوم میں مزید وسعت ہے۔ خامی اور کمی کے ساتھ لہو ولعب میں انہماک اور شریعت سے غیر ثابت شدہ ہر چیز (بدعت) پر فساد کا اطلاق ہوتا ہے۔
والفساد أعمُّ منَ الظلم؛ لأنَّ الظلم نقص، أما الفساد فيقع عليه وعلى الابتداع واللهو واللعب۔
الكليات لأبي البقاء ص{ 1097}
قرآن کریم میں لفظ "فساد":
قریب پچاس سے زیادہ جگہوں میں استعمال ہوا ہے۔ ہر جگہ اگرچہ مختلف معنی مراد لئے گئے ہیں! لیکن حد اعتدال سے تجاوز ، خواہشات نفسانی کی پیروی، فرائض ومحارم شرعیہ کی بے توقیری اور حدود اللہ کی پامالی وغیرہ قریب ہر جگہ مشترک ہے۔
قرآن کریم میں لفظ فساد کا استعمال:
لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ ﴿٢٠٥ البقرة﴾
فَلَوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِنْ قَبْلِكُمْ أُولُو بَقِيَّةٍ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْأَرْضِ ﴿١١٦ هود﴾
وَأَحْسِنْ كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ ﴿٧٧ القصص﴾
وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ ﴿٧٧ القصص﴾
ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ ﴿٤١ الروم﴾
إِنِّي أَخَافُ أَنْ يُبَدِّلَ دِينَكُمْ أَوْ أَنْ يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسَادَ ﴿٢٦ غافر﴾
فَأَكْثَرُوا فِيهَا الْفَسَادَ ﴿١٢ الفجر﴾
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ ﴿١١ البقرة﴾
أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَٰكِنْ لَا يَشْعُرُونَ ﴿١٢ البقرة﴾
وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ أُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ ﴿٢٧ البقرة﴾
قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ ﴿٣٠ البقرة﴾
وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ ﴿٦٠ البقرة﴾
وَإِذَا تَوَلَّىٰ سَعَىٰ فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا ﴿٢٠٥ البقرة﴾
وَإِنْ تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ ﴿٢٢٠ البقرة﴾
وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَفَسَدَتِ الْأَرْضُ ﴿٢٥١ البقرة﴾
فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ ﴿٦٣ آل عمران﴾
مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا ﴿٣٢ المائدة﴾
إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَنْ يُقَتَّلُوا ﴿٣٣ المائدة﴾
وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ ﴿٦٤ المائدة﴾
وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ ﴿٦٤ المائدة﴾
وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا ﴿٥٦ الأعراف﴾
فَاذْكُرُوا آلَاءَ اللَّهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ ﴿٧٤ الأعراف﴾
وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا ﴿٨٥ الأعراف﴾
وَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ ﴿٨٦ الأعراف﴾
فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ ﴿١٠٣ الأعراف﴾
أَتَذَرُ مُوسَىٰ وَقَوْمَهُ لِيُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ ﴿127 الأعراف﴾
اخْلُفْنِي فِي قَوْمِي وَأَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ ﴿142 الأعراف﴾
إِلَّا تَفْعَلُوهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ ﴿73 الأنفال﴾
وَمِنْهُمْ مَنْ لَا يُؤْمِنُ بِهِ وَرَبُّكَ أَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِينَ ﴿40 يونس﴾
إِنَّ اللَّهَ سَيُبْطِلُهُ إِنَّ اللَّهَ لَا يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِينَ ﴿81 يونس﴾
آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ ﴿91 يونس﴾
وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ ﴿85 هود﴾
قَالُوا تَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتُمْ مَا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِي الْأَرْضِ ﴿73 يوسف﴾
وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ أُولَٰئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ ﴿25 الرعد﴾
زِدْنَاهُمْ عَذَابًا فَوْقَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوا يُفْسِدُونَ ﴿88 النحل﴾
لَتُفْسِدُنَّ فِي الْأَرْضِ مَرَّتَيْنِ ﴿4 الإسراء﴾
إِنَّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ ﴿94 الكهف﴾
لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا ﴿22 الأنبياء﴾
وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ ﴿71 المؤمنون﴾
الَّذِينَ يُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ وَلَا يُصْلِحُونَ ﴿152 الشعراء﴾
وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ ﴿183 الشعراء﴾
فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ ﴿14 النمل﴾
قَالَتْ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا ﴿34 النمل﴾
وَكَانَ فِي الْمَدِينَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ يُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ وَلَا يُصْلِحُونَ ﴿48 النمل﴾
يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ ﴿4 القصص﴾
نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا ﴿83 القصص﴾
قَالَ رَبِّ انْصُرْنِي عَلَى الْقَوْمِ الْمُفْسِدِينَ ﴿30 العنكبوت﴾
وَارْجُوا الْيَوْمَ الْآخِرَ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ ﴿36 العنكبوت﴾
أَمْ نَجْعَلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ كَالْمُفْسِدِينَ فِي الْأَرْضِ ﴿28 ص﴾
فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ ﴿22 محمد﴾
مذکورہ بالا مقامات میں فساد کے ساتھ کہیں اشارتا اور کہیں صراحتا "ارض" کا استعمال ہوا ہے۔ لیکن جہاں مفسدین کے انجام کو بتانا یا اس سے عبرت دلانا مقصود تھا وہاں "ارض" کے اضافہ کی ضرورت نہ سمجھی گئی۔ اور ایسے کل گیارہ مقامات ہیں۔ جو مذکوربالا ہیں۔
قرآن کریم میں ان مقامات پہ فساد درج ذیل معنی میں استعمال ہوا ہے۔
1۔۔۔۔۔ کفر کے معنی میں
قوله تعالى: ﴿ الَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ أُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ ﴾ [البقرة: ٢٧] [   تفسير إبن عطية 1:99،تفسير القرطبي 1: 247،تفسير البيضاوي 1:267، تفسير أبي حيان 1:274،تفسير إبن عجيبة 1: 66 ].
و قوله تعالى:  ﴿وَمِنْهُمْ مَنْ يُؤْمِنُ بِهِ وَمِنْهُمْ مَنْ لَا يُؤْمِنُ بِهِ وَرَبُّكَ أَعْلَمُ بِالْمُفْسِدِينَ﴾ [يونس: ٤٠] [ تفسير الطبري 15: 94، تفسير القرطبي 8: 345، تفسير إبن كثير 4: 270.].
وقولہ تعالى:  ﴿ وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا إِنَّ رَحْمَةَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ ﴾ [الأعراف: ٨٥]
2۔۔۔ نفاق کے معنی میں:
قوله تعالى: ﴿وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَكِنْ لَا يَشْعُرُونَ ﴾ [البقرة: ١١ - ١٢] [البحر المديد لابن عجيبة 1:51 ].
3۔۔۔۔ معاصی اور گناہ کے معنی میں:
قوله تعالى: ﴿ وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا إِنَّ رَحْمَةَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ ﴾ [الأعراف: ٥٦] [   تفسير البغوي 3 : 238 ، ابن عطية 2: 277،  القرطبي 7: 226،  أبي حيان 4: 313،  إبن عجيبة 2:  499 ].
و قوله تعالى: ﴿ وَالَّذِينَ يَنْقُضُونَ عَهْدَ اللَّهِ مِنْ بَعْدِ مِيثَاقِهِ وَيَقْطَعُونَ مَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ أَنْ يُوصَلَ وَيُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ أُولَئِكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوءُ الدَّارِ ﴾ [الرعد: ٢٥] 
وقوله تعالى: ﴿ تِلْكَ الدَّارُ الْآَخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ ﴾ [القصص: ٨٣] 
4۔۔۔۔۔ عالمی نظام کی خرابی کے معنی میں:
و قوله تعالى: ﴿ لَوْ كَانَ فِيهِمَا آَلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا فَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ ﴾ [الأنبياء: ٢٢] [   الجامع لأحكام القرآن 11: 279، المحرر الوجيز 4 : 95 ، روح المعاني 17: 25 ،التحرير والتنوير 17: 39].
و قوله تعالى: ﴿ قَالَتْ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا أَذِلَّةً وَكَذَلِكَ يَفْعَلُونَ ﴾ [النمل: ٣٤] 
5۔ ۔۔منکر اور برائی کے معنی میں:
قوله تعالى: ﴿ فَلَوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِنْ قَبْلِكُمْ أُولُو بَقِيَّةٍ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْأَرْضِ إِلَّا قَلِيلًا مِمَّنْ أَنْجَيْنَا مِنْهُمْ ﴾  [هود: ١١٦] [الطبري 15: 527،  القرطبي 9: 113 ، تفسير إبن عجيبة 3: 344 ].
6۔۔۔ غارت گری کے معنی میں:
قوله تعالى: ﴿ إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا.... ﴾ [المائدة: ٣٣]   [ تفسير إبن عطية 2: 215].
 7۔۔ ۔فتنہ  انگیزی اور جنگ بھڑکانے کے معنی میں:
قوله تعالى في اليهود: ﴿ ...كُلَّمَا أَوْقَدُوا نَارًا لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ ﴾ [المائدة: ٦٤] 
8۔ ۔حکومت وسلطنت کے معنی میں:
قوله تعالى:  ﴿ فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ تَوَلَّيْتُمْ أَنْ تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ ﴾ [محمد: ٢٢] الرازي 12: 39 ، القرطبي 6: 241 ، البضاوي 2: 347،  أبي حيان 3: 537].
9۔۔۔ جادو کے معنی میں:
قوله تعالى:  ﴿ قَالَ مُوسَى مَا جِئْتُمْ بِهِ السِّحْرُ إِنَّ اللَّهَ سَيُبْطِلُهُ إِنَّ اللَّهَ لَا يُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِينَ﴾ [يونس: ٨١] [تفسير القرطبي 8: 368، البيضاوي 3: 211 ، تفسير إبن العاشور 11: 256 ].
10۔۔۔ یتیم کا مال نا حق کھانے کے معنی میں:
قوله تعالى: ﴿ وَاللَّهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ ﴾ [البقرة: ٢٢٠][ تفسير الطبري 4: 357،  تفسير الزمخشري 1: 291 ، تفسير القرطبي 3: 66 ،تفسير البضاوي 1 : 506].
11۔۔ لواطت کے معنی میں:
قوله تعالى: ﴿ قَالَ رَبِّ انْصُرْنِي عَلَى الْقَوْمِ الْمُفْسِدِينَ ﴾ [العنكبوت: ٣٠] [   تفسير إبن كثير 6: 276، تفسير الشوكاني 5 : 371 ].
12۔۔۔ جبر وظلم اور حقوق کی پامالی کے معنی میں:
قوله تعالى: ﴿ الَّذِينَ طَغَوْا فِي الْبِلَادِ فَأَكْثَرُوا فِيهَا الْفَسَادَ ﴾ [الفجر: ١١ – ١٢] ﴿ طَغَوْا ﴾ ﴿ فَأَكْثَرُوا فِيهَا الْفَسَادَ ﴾[   القرطبي 20: 49 ].
13۔۔ ۔ مسلمانوں پر غلبہ کفار کے معنی میں: 
قوله تعالى: ﴿ وَالَّذِينَ كَفَرُوا بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ إِلَّا تَفْعَلُوهُ  تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ ﴾ [الأنفال: ٧٣] [   الجامع لأحكام القرآن 8: 58 ].
14۔۔۔ چوری کے معنی میں:
قوله تعالى: ﴿ قَالُوا تَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتُمْ مَا جِئْنَا لِنُفْسِدَ فِي الْأَرْضِ وَمَا كُنَّا سَارِقِينَ ﴾ [يوسف: ٧٣]  [ التحرير والتنوير 13: 29 ].
15۔۔۔ فضاء وماحول کے بگاڑ کے معنی میں: 
قوله تعالى: ﴿ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ﴾ [الروم: ٤١] [  درج الدرر 2 : 438،  الجامع لأحكام القرآن 14: 41].
16۔ ۔۔دنیا کے نظام کی خرابی کے معنی میں:
قوله تعالى: ﴿ وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَوَاتُ وَالْأَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ بَلْ أَتَيْنَاهُمْ بِذِكْرِهِمْ فَهُمْ عَنْ ذِكْرِهِمْ مُعْرِضُونَ ﴾ [المؤمنون: ٧١]   [ تفسير الطبري 19: 57 ].
17۔۔ ۔ ہر قسم کی تعدی سے ممانعت کے معنی میں:
قوله تعالى: ﴿ وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا إِنَّ رَحْمَةَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ ﴾ [الأعراف: ٥٦][  التحرير والتنوير 8: 173 ].
و قوله تعالى: ﴿ قَالُوا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِنَّ يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ مُفْسِدُونَ فِي الْأَرْضِ فَهَلْ نَجْعَلُ لَكَ خَرْجًا عَلَى أَنْ تَجْعَلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ سَدًّا ﴾ [الكهف: ٩٤]  [  البحر المحيط لأبي حيان 4: 313 ].
و قوله تعالى:  ﴿ وَكَانَ فِي الْمَدِينَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ يُفْسِدُونَ فِي  الْأَرْضِ وَلَا يُصْلِحُونَ ﴾ [النمل: ٤٨] [   القرطبي 13: 215 ].
 

حدیث رسول میں لفظ فساد کا استعمال:
1۔۔۔ ۔۔دوران جنگ قتل وتخریب کے معنی میں:
فعَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضي الله عنه عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قَالَ: «الْغَزْوُ غَزْوَانِ، فَأَمَّا مَن ابْتَغَى وَجْهَ اللَّهِ وَأَطَاعَ الْإِمَامَ وَأَنْفَقَ الْكَرِيمَةَ وَيَاسَرَ الشَّرِيكَ وَاجْتَنَبَ الْفَسَادَ، فَإِنَّ نَوْمَهُ وَنُبْهَهُ أَجْرٌ كُلُّهُ، وَأَمَّا مَنْ غَزَا فَخْرًا وَرِيَاءً وَسُمْعَةً وَعَصَى الْإِمَامَ وَأَفْسَدَ فِي الْأَرْضِ، فَإِنَّهُ لَمْ يَرْجِعْ بِالْكَفَافِ»[أخرجه مالك في الموطأ برقم 998، وأبو داود في الجهاد برقم 2515، والنسائي في الجهاد برقم 3188، والدارمي في الجهاد برقم 2417، والطبراني في الكبير برقم 16933، والحاكم في المستدرك 2: 94 برقم 2435 وقال: صحيح على شرط مسلم، ووافقه الذهبي.]
اس میں اجتناب فساد کی مراد یہ ہے کہ قتل کرنے، مال لوٹنے اور قیدی بنانے میں شرعی اصولوں کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔ [شرح المشكاة للطيبي 8: 2657، فيض القدير للمناوي 4: 411. قوله «ياسر الشريك» أي: ساهل الرفيق، واستعمل اليسر معه نفعًا بالمعونة وكفاية للمؤنة. وقوله: «لم يرجع بالكفاف» أي: لم يعد من الغزو رأسًا برأس، بحيث لا يكون له أجر ولا عليه وزر، بل وزره أكثر؛ لأنه لم يغز لله، وأفسد في الأرض.]
 2۔۔ مال برباد کرنے کے معنی میں:
فعَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: «إِذَا أَنْفَقَت الْمَرْأَةُ مِنْ طَعَامِ بَيْتِهَا غَيْرَ مُفْسِدَةٍ كَانَ لَهَا أَجْرُهَا بِمَا أَنْفَقَتْ وَلِزَوْجِهَا أَجْرُهُ بِمَا كَسَبَ وَلِلْخَازِنِ مِثْلُ ذَلِكَ لَا يَنْقُصُ بَعْضُهُمْ أَجْرَ بَعْضٍ شَيْئًا»[
أخرجه البخاري في الزكاة برقم 1359، ومسلم في الزكاة برقم 1024. شرح المشكاة للطيبي 5: 1568، شرح مسلم للنووي 7: 113.]
ومن ذلك ما رواه جابر بن عبد الله رضي الله عنهما عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنَّه قال: «أمسِكُوا عَلَيْكُم أَمْوَالَكُم ولا تُفْسِدُوْهَا..»[أخرجه مسلم برقم 1625. إكمال المعلم 5: 358.]
 3۔۔ لڑکی کا بغیر شوہر کے رہنے کے معنی میں (قلت عفت وعصمت):
فعَنْ أَبِي حَاتِمٍ الْمُزَنِيِّ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: «إِذَا جَاءَكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ، فَأَنْكِحُوهُ، إِلَّا تَفْعَلُوهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ»، وَفِي رِوَايَةٍ: «عَرِيضٌ»، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ وَإِنْ كَانَ فِيهِ؟ قَالَ: «إِذَا جَاءَكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَأَنْكِحُوهُ» قَالَهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ[ أخرجه الترمذي برقم 1085 وقال: حديث حسن غريب، وابن ماجه برقم 1967، والطبراني في الكبير 22: 299 برقم 81614، والبيهقي في السنن الكبرى 7: 132 برقم 13481.]
4۔۔۔ دلوں کے بگاڑکے معنی میں:
فعن النعمان بن بشيرٍ رضي الله عنهما قَالَ: سَمِعْتُ رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «..ألاَ وَإنَّ فِي الجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَت صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، ألاَ وَهِيَ القَلْبُ»[ أخرجه البخاري في الإيمان برقم 52؛ ومسلم في المساقاة برقم 1599، واللفظ له. عن النعمان بن بشيررضي الله عنه.]
5۔۔۔ اجتماعی تعلقات کے بگاڑ کے معنی میں:
فعَنْ أبِي الدَّرْدَاءِ رضي الله عنه عَنْ رسول الله صلى الله عليه وسلم قَالَ: «ألا أخْبِرُكُمْ بِأفْضَلَ مِنْ دَرَجَةِ الصِّيَامَ وَالصلاة والصدقة؟»، قَالُوا: بَلَى يَا رسول الله، قَالَ: «إِصْلاحُ ذَاتِ الْبَيْنِ، وَفًسَادُ ذَاتِ الْبَيْنِ هِيَ الْحَالِقَةُ»  [ أخرجه البخاري في الأدب المفرد ص142 برقم 391، وأحمد في مسنده 6: 444 برقم 27548، وأبو داود برقم 4919، والترمذي برقم 2509 وقال: حديث صحيح، وابن حبان في صحيحه 11: 489 برقم 5092.
شرح المشكاة للطيبي 10: 3213 - 3214.]
6۔۔۔ لوگوں کے احوال کی تبدیلی کے معنی میں:
فعنْ إبْرَاهِيمَ بْنِ الْمُغِيرَةِ، أَوِ ابْن أَبِي الْمُغِيرَةِ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِصلى الله عليه وسلم: «طُوبَى لِلْغُرَبَاءِ»، قِيلَ: وَمَنِ الْغُرَبَاءُ؟ قَالَ: «قَوْمٌ يُصْلِحُونَ حِينَ يُفْسِدُ النَّاس»  
[أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف 13: 237 برقم 235.]
امام بیضاوی نے فساد فی الارض کی تعریف میں لکھا ہے "الاخلال بالشرائع الالھیۃ" یعنی اللہ کی نازل کردہ شریعت میں خلل ڈالنا اور اس کی خلاف ورزی کرنا "فساد فی الارض" ہے۔
امام شاہ ولی اللہ رحمةاللہ علیہ کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے زمین میں اصلاح ہوتی ہے اور شریعت کے خلاف کرنے سے فساد پیدا ہوتا ہے۔ شاہ صاحب رحمةاللہ علیہ فرماتے ہیں پاکیزہ عقیدے، پاکیزہ عمل، خدا کے سامنے عاجزی اور عدل و انصاف کے قیام سے انسان کا مزاج درست رہتا ہے اور وہ فرشتوں کے مزاج کے ساتھ مل جاتا ہے مگر جب انسان میں عقیدے کی نجاست آجاتی ہے اخلاق اور عمل کی نجاست پیدا ہوجاتی ہے۔ عاجزی کی بجائے غرور، احسان کی بجائے لوٹ کھسوٹ اور عدل کی جگہ ظلم لے لیتا ہے تو پھر انسان کا مزاج بگڑ جاتا ہے۔ اس کی مثال حلال جانوروں کی ہے جن کا ہم دودھ پیتے اور گوشت کھاتے ہیں۔ جب تک یہ جانور اونٹ گائے، بھینس، بھیڑ، بکری وغیرہ گھاس کھاتی رہیں گی ان کا مزاج درست رہے گا اور اگر ان میں سے کوئی جانور چارے کی بجائے گوشت کھانا شروع کر دے تو اس کا مزاج بگڑ جائے گا، پھر اس کا دودھ قابل استعمال رہے گا اور نہ گوشت، اس لئے شریعت میں گندگی کی کھانے والے جانور کا گوشت مکروہ تحریمی میں آتا ہے کیونکہ گندی چیزیں کھانے سے اس کا مزاج بگڑ جاتا ہے اور اس کا دودھ اور گوشت قابل استعمال نہیں رہتا۔ شریعت کا حکم یہ ہے کہ ایسے جانور کو کم از کم دس دن تک باندھ کر رکھو تاکہ وہ گندگی نہ کھائے اس دوران اسے پاک چارہ کھلائو ، تب اس کا دودھ اور گوشت کھانے کے قابل ہوگا."  
شریعت الٰہیہ کو قائم رکھنے سے انسان کا مزاج درست رہتا ہے اور جب وہ شرائع کی پابندی چھوڑ دیتا ہے تو مزاج بگڑ جاتے ہیں اور پھر تباہی و برباد کی کی قریب ہوجاتا ہے۔
ان نصوص کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قتل وخون ریزی کے ذریعہ نفس انسانی میں بگاڑ، محرمات کے ارتکاب سے بدن انسانی میں بگاڑ،  لوٹ کھسوٹ چوری، ڈاکہ زنی، سودی کاروبار، رشوت وکرپشن کے ذریعہ اموال انسانی میں بگاڑ، کفر وشرک ،بدعات وخرافات، یہودی عیسائی اور صہیونی طاقتوں سے ولاء ودوستی اور انہیں مسلم زمین کی فراہمی کے ذریعہ دین ومذہب  میں  بگاڑ، زناء کاری و فحاشی کی ترویج، رقص وسرود کی محفلوں اور نائٹ کلبوں کے ذریعہ نسل انسانی میں بگاڑ،  شراب اور دیگر تمام مخدرات ومنشیات کی ارزانی وفراوانی کے ذریعہ عقل انسانی میں بگاڑ جب پیدا ہوجائے تو پھر انسانی معاشرہ بالکل فاسد ہوجاتا ہے۔ امن وامان ختم ہوجاتا ہے۔
انتہائی قابل افسوس پہلو ہے کہ گزشتہ دسیوں سال سے سرزمین انبیاء غیر منقسم شام میں بدقسمتی سے فساد کی یہ ساری قسمیں بدرجہ اتم موجود ہیں۔
حالانکہ ملک شام کے اسی بابرکت خطے سے دنیا کا امن وامان بھی وابستہ تھا ۔یہاں کے لوگوں کی اعتقادی اور عملی زندگی کی پوری عمارت دینی فرائض اور شرعی آحکام پہ استوار ہونی چاہئے۔ کتاب وسنت کی حفاظت واشاعت، جہاد فی سبیل اللہ، خلق خدا کی نفع رسانی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے احساس ذمہ داری کے ساتھ اعلاء کلمة  اللہ اور دعوت الی اللہزندگی کا نصب العین ہونا چاہئے۔
لیکن نفس ،نسب، مال ،عقل دین وعقیدہ میں حد درجہ فساد کی وجہ سے نبوی پیشین گوئی حرف بحرف صادق آئی۔
اور پورے خطے پہ یہودی اور صہیونیوں کا راج ہوگیا۔
بشار الاسد جیسا درندہ صفت بھیڑیا ڈھائی لاکھ سے زیادہ بے گناہوں کے قتل سے اپنا ہاتھ رنگین کرچکا ہے۔
اذا فسد اھل الشام 
سے دینی واخلاقی فساد مراد ہے۔۔۔۔ شام مکمل طور پر کبھی بھی تباہ نہیں ہوسکتا۔اس کے حفاظت کے لئے نگراں فرشتے پر بچھائےتیار ہیں۔
حدیث کا دوسرا ٹکڑا "ولاتزال طائفة من أمتي منصورين. لايضرهم من خذلهم حتي تقوم الساعة" خود اس مفہوم کی تکذیب کررہا ہے کہ شام میں موجود اس طائفہ کو دنیا کی کوئی طاقت ختم کردے!
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
بیگوسرائے
١٤\٦\١٤٣٩ ہجری
--------------------
مضمون ہذا پہ مفتی شاہنواز قاسمی بیگوسرائیوی حال مقیم کویت کا تاثر
لم تتيسر لي مطالعة هذا المقال الماتع النفيس اليوم إلا بعد صلاة العصر حسب التوقيت المحلي في دولة الكويت ، فاستفدتُ منه فوائد غالية ودعوت لمؤلفه باطراد التوفيق وازدياد التحليق لرد الشاذين عن مهيع الطريق، بإرشاد المخطئين من المثقفين في الترجمة للحديث النبوي الشريف إذا فسد أهل الشام إلى دلالات قويمة ومعاني لطيفة.
وقد أعجبتني غزارة المادة وماتدل عليه سعة اطلاع كاتبه وعمق فهمه وحسن تنسيقه حتى اجتمع له في المقال على لطف حجمه ما يندر أن يجده الباحث في الكتب الكثيرة. وأستطيع أن أقول: إنه مقالٌ مفَقِّهٌ لقارئه في حديث:إذا فسد أهل الشام ودلالاته.
والكاتب غني عن التعريف في المجتمع العلمي، بما يسَّره الله للفقه والحديث والتفسير واللغة والأدب،  ويسَّر هذه العلومَ العواليَ له ، فأجاد وأفاد وأتى بما يستطاب ويستفاد، ونفع العبادَ والبلادَ ، كما آتاه الله قلما سيالا وذهنًا حاضرًا وقادًا وعلمًا حيًّا وافرًا وإخلاصًا مشهودًا ، وحكمةً في شأن الأمر والنهي ، فصحَّحَ ورَدَّ عاجلًا بهذه المواهب على طلبٍ بسيطٍ مني الشواذَ والأخطاءَ الجسيمة التي تعرض لها بعضُ أهل العلم والثقافة المتساهلين أو المسايرين، وقوَّم الأوَد وبيَّن الرُّشد، فيما انحرفتْ به بعضُ الأقلام في ترجمة الحديث الشريف المذكور أعلاه. وذلك بأدبِ العالمِ المتمكنِ الأديبِ، وعلمِ المحدث الواعي الأريب.
وهذا العالم المحقق الجليل يمثل الشخصيّة النقيّة الصافية التي تتضمن القدوةَ الصالحةَ العالمةَ الواعيةَ، بما حباه الله من كريم الصفات ورفيع المزايا، فمن خالطه معرفةً أحبه؛ ومن سمع حديثه أصغى إليه وانتفع به. ومن قرأ له استهدى بما يقول، وحل كلامه منه محل الرضا والإعجاب. والشيخ يستأهل بحق أن يلقب عالمًا جِهْبذًا محدثًا أصوليًّا فقيهًا لغويًّا بصيرًا. فجزاه الله عن علمه ودينه خيرا وهو سبحانه وتعالى ولي الإنعام والجزاء ونسأله جل وعلا السدادَ والرشادَ إلى أقوم طريق والبركةَ في عمره الشريف وعافيته الغالية، والإدامةَ عليه إمدادَه وإسعادَه ، والإمامة ويكرمه بالقبول وا والإحسان.  آمین
(أبوعمار محمد شاهنواز القاسمي  ۔بیغوسرائیوی ،نزيل دولة الكويت)