مغرب سے پہلے دعا کرنا کہاں سے ثابت ہے؟
سوال (۱۳۹۱):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: بعض احباب مغرب کی نماز سے پہلے انفرادی طور پر دعائیں کرتے ہیں، بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ کہاں سے ثابت ہے؟ تو دریافت یہ کرنا ہے کہ اس وقت دعا کرنے میں کوئی حرج ہے یا نہیں؟ شرعی حکم سے مطلع فرمائیں۔
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
صحابی رسول سیدنا حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ: ’’ہمیں مغرب کی اذان کے قریب دعا کرنے کا حکم دیا جاتا تھا، اسی طرح کئی احادیث میں عصر سے لے کر سورج غروب ہونے تک ذکر میں مشغول ہونے کی فضیلت بیان کی گئی ہے، بریں بنا اس وقت انفرادی طور پر ذکر ودعاء میں کوئی حرج نہیں ہے۔
عن أبي أمامۃ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لأن أقعد أذکر اللّٰہ وأکبرہ وأحمدہ وأسبحہ وأہللہ حتی تطلع الشمس أحب إلی من أن أعتق رقبتین من ولد إسماعیل، ومن بعد العصر حتی تغرب الشمس أحب إليّ من أن أعتق أربع رقبات من ولد إسماعیل۔ (مجمع الزوائد ۱۰؍۱۰۴)
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
صحابی رسول سیدنا حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ: ’’ہمیں مغرب کی اذان کے قریب دعا کرنے کا حکم دیا جاتا تھا، اسی طرح کئی احادیث میں عصر سے لے کر سورج غروب ہونے تک ذکر میں مشغول ہونے کی فضیلت بیان کی گئی ہے، بریں بنا اس وقت انفرادی طور پر ذکر ودعاء میں کوئی حرج نہیں ہے۔
عن أبي أمامۃ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لأن أقعد أذکر اللّٰہ وأکبرہ وأحمدہ وأسبحہ وأہللہ حتی تطلع الشمس أحب إلی من أن أعتق رقبتین من ولد إسماعیل، ومن بعد العصر حتی تغرب الشمس أحب إليّ من أن أعتق أربع رقبات من ولد إسماعیل۔ (مجمع الزوائد ۱۰؍۱۰۴)
وعن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما أنہ قال: کنا نؤمر بالدعاء عند أذان المغرب۔ (مشکوٰۃ المصابیح ۶۶)
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۶؍۱؍۱۴۳۳ھ
الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۶؍۱؍۱۴۳۳ھ
الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ
غروب آفتاب کے وقت دعا مانگنا؟
سوال (۱۳۹۲):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: سورج غروب ہوتے وقت بہت سے لوگوں کو دعاء مانگتے ہوئے دیکھا گیا ہے کہ جبکہ بعض لوگ کہتے ہیں اس وقت دعاء مانگنا مکروہ ہے، کیونکہ یہ سورج کی پوجا کا وقت ہے شرعاً اس کی کیا حیثیت ہے؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے کہ وہ مغرب کی اذان کے وقت دعا کرتے تھے نیز احادیث میں طلوع اورغروب کے وقت کچھ خاص دعائیں مروی ہیں اس لئے انفرادی طور پر اس وقت میں دعا مانگی جائے تو اس سے منع نہیں کیا جائیگا، لیکن اجتماعی ہیئت بناکر یا جہری طور پر اس وقت دعا کرنا ثابت نہیں ہے، اس سے اجتناب لازم ہے۔
وعنہ (ابن عمر) رضي اللّٰہ عنہما قال: کنا نؤمر بالدعاء عند أذان المغرب۔ رواہ البیقہي في الدعات الکبیر۔ (مشکوٰۃ المصابیح ۶۶)
باب ماجاء في الدعا إذا أصبح وإذا أمسیٰ… قال رسول اللّٰہ ا ما من عبد یقول في صباح کل یوم ومساء کل لیلۃ، بسم اللّٰہ الذي لا یضر مع اسمہ شئ في الأرض ولا في السماء وہو السمیع العلیم، فیضرہ شئ۔ (سنن الترمذي ۲؍۱۷۶)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: کان رسول اللّٰہ ا یعلم أصحابہ یقول: إذا أصبح أحدکم فلیقل: اللّٰہم بک أصبحنا وبک أمسینا وبک نحیا وبک نموت وإلیک المصیر، و إذا أمسیٰ فلیقل: اللّٰہم بک أمسینا وبک أصبحنا وبک نحیا وبک نموت وإلیک النشور۔ (سنن الترمذي ۲؍۱۷۶)
قال أمسینا وأمسیٰ الملک للّٰہ، والحمد للّٰہ لا إلٰہ إلا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ أراہ، قال لہ الملک: ولہ الحمد وہو علی کل شيء قدیر، أسئلک خیر ما في ہٰذہ اللیلۃ وخیر ما بعدہا وأعوذ بک من شر ہٰذہ اللیلۃ وشر ما بعدہا، وأعوذ بک من الکسل وسوء الکبر وأعوذ بک من عذاب النار وعذاب القبر، وإذا أصبح قال ذٰلک أیضاً وأصبحنا وأصبح الملک للّٰہ والحمد للّٰہ۔ (سنن الترمذي ۲؍۱۷۶)
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
املاہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۸؍۸؍۱۴۳۳ھ
الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ
املاہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۸؍۸؍۱۴۳۳ھ
الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ
کیا غروبِ شمس سے ذرا پہلے دعا کی قبولیت کا وقت ہے؟
سوال (۱۳۹۳):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: بعض حضرات کو دیکھا گیا ہے کہ وہ غروب شمس سے ذرا پہلے دعا کرتے ہیں اور اس کو قبولیت کا وقت سمجھتے ہیں تو کیا کسی حدیث یافقہ کی کسی عبارت میں اس وقت میں دعا قبول ہونے کی بات کہی ہے نیز غروب شمس کے بعد دعا کرنا کیسا ہے؟ اگر اس بارے میں جمعہ کے دن میں کوئی فرق ہو تو اس کو تحریر فرما دیں؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
قرآن پاک کی آیت:
{فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِہَا}
(پس اپنے رب کی حمد و ثنا کیا کیجئے سورج نکلنے اور ڈوبنے سے پہلے) سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں اوقات عبادت اور ذکر خداوندی کے لیے خصوصیت رکھتے ہیں، نیز روزہ دار کے لئے افطار کے وقت دعاء کی قبولیت احادیث میں مذکور ہے، بعض صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مغرب کی اذان کے وقت دعاکرنا ثابت ہے؛ لہٰذا اگر کوئی شخص غروب سے پہلے انفرادی طور پربلا کسی التزام کے اور اجتماعی ہیئت بنائے بغیر دعا کرتا ہے تو اسے منع نہیں کیا جائے گا، شرعاً اس کی گنجائش ہے، اور اس میں جمعہ اور غیر جمعہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔
وقیل: ہٰذا یکریر لصلاتي الصبح والمغرب إیذانا باختصاصہما بمزید مزیۃ۔
(روح المعاني ۱۶؍۴۱۲ زکریا)
..................
(روح المعاني ۱۶؍۴۱۲ زکریا)
..................
نماز مغرب سے پہلے کوئی سنت ہے؟
نمازِ مغرب سے پہلے کوئی سنت نہیں ہے؛ البتہ بعض روایات میں اذانِ مغرب کے بعد دو رکعت پڑھنا ثابت ہے؛ لیکن دوسری طرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ مغرب میں تعجیل کا حکم فرمایا، ابوداوٴد کی روایت میں ہے:
”لا تزال أمتي بخیر أو قال علی الفطرة ما لم یوٴخروا المغرب إلی أن تشتبک النجوم“ (أبوداوٴد، رقم ۴۱۸، باب في وقت المغرب)
اگر لوگ اذان کے بعد دو رکعت نفل میں مشغول ہوجائیں تو مغرب میں تاخیر ہوسکتی ہے جو مذکورہ بالا حدیث کے منشأ کے خلاف ہے؛ اس لیے حنفیہ نے تعجیل مغرب کا لحاظ کرتے ہوئے نمازِ مغرب سے پہلے دو رکعت پڑھنے کو پسند نہیں کیا؛ لیکن چوں کہ فی نفسہ جواز ثابت ہے؛ اس لئے اگر کوئی پڑھ لیتا ہے تو گناہ بھی نہیں، گنجائش ہے۔ ”اعلاء السنن“ میں ہے:
”فرجحت الحنفیّة أحادیث التعجیل لقیام الإجماع علی کونہ سنّة وکرہوا التنفّل قبلہا ولا یخفی أنّ العامّة لو اعتادوا صلاة رکعتین قبل المغرب لیخلّون بالسنّة حَتْمًا، ویوٴخرون المغرب عن وقتہا قطعًا، وأمّا لو تنفّل أحد من الخصواص قبلہا ولم یخلّ بسنّة التعجیل فلا یلزم علیہ؛ لأنّہ قد رأی بأمر مباح في نفسہ أو مستحب عند بعضہم، فحاصل الجواب أن التنفّل قبل المغرب مباح في نفسہ وإنّما قلنا بکراہتہ نظرًا إلی العوارض․ (إعلاء السنن، ۲/۶۹، مبحث الرکعتین قبل المغرب)
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Salah-Prayer/61141
”لا تزال أمتي بخیر أو قال علی الفطرة ما لم یوٴخروا المغرب إلی أن تشتبک النجوم“ (أبوداوٴد، رقم ۴۱۸، باب في وقت المغرب)
اگر لوگ اذان کے بعد دو رکعت نفل میں مشغول ہوجائیں تو مغرب میں تاخیر ہوسکتی ہے جو مذکورہ بالا حدیث کے منشأ کے خلاف ہے؛ اس لیے حنفیہ نے تعجیل مغرب کا لحاظ کرتے ہوئے نمازِ مغرب سے پہلے دو رکعت پڑھنے کو پسند نہیں کیا؛ لیکن چوں کہ فی نفسہ جواز ثابت ہے؛ اس لئے اگر کوئی پڑھ لیتا ہے تو گناہ بھی نہیں، گنجائش ہے۔ ”اعلاء السنن“ میں ہے:
”فرجحت الحنفیّة أحادیث التعجیل لقیام الإجماع علی کونہ سنّة وکرہوا التنفّل قبلہا ولا یخفی أنّ العامّة لو اعتادوا صلاة رکعتین قبل المغرب لیخلّون بالسنّة حَتْمًا، ویوٴخرون المغرب عن وقتہا قطعًا، وأمّا لو تنفّل أحد من الخصواص قبلہا ولم یخلّ بسنّة التعجیل فلا یلزم علیہ؛ لأنّہ قد رأی بأمر مباح في نفسہ أو مستحب عند بعضہم، فحاصل الجواب أن التنفّل قبل المغرب مباح في نفسہ وإنّما قلنا بکراہتہ نظرًا إلی العوارض․ (إعلاء السنن، ۲/۶۹، مبحث الرکعتین قبل المغرب)
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Salah-Prayer/61141