Wednesday, 31 January 2018

مغرب سے پہلے دعا کرنا اور سنت پڑھنا؟

مغرب سے پہلے دعا کرنا کہاں سے ثابت ہے؟
سوال (۱۳۹۱):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: بعض احباب مغرب کی نماز سے پہلے انفرادی طور پر دعائیں کرتے ہیں، بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ کہاں سے ثابت ہے؟ تو دریافت یہ کرنا ہے کہ اس وقت دعا کرنے میں کوئی حرج ہے یا نہیں؟ شرعی حکم سے مطلع فرمائیں۔
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
صحابی رسول سیدنا حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ: ’’ہمیں مغرب کی اذان کے قریب دعا کرنے کا حکم دیا جاتا تھا، اسی طرح کئی احادیث میں عصر سے لے کر سورج غروب ہونے تک ذکر میں مشغول ہونے کی فضیلت بیان کی گئی ہے، بریں بنا اس وقت انفرادی طور پر ذکر ودعاء میں کوئی حرج نہیں ہے۔
عن أبي أمامۃ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لأن أقعد أذکر اللّٰہ وأکبرہ وأحمدہ وأسبحہ وأہللہ حتی تطلع الشمس أحب إلی من أن أعتق رقبتین من ولد إسماعیل، ومن بعد العصر حتی تغرب الشمس أحب إليّ من أن أعتق أربع رقبات من ولد إسماعیل۔ (مجمع الزوائد ۱۰؍۱۰۴)
وعن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما أنہ قال: کنا نؤمر بالدعاء عند أذان المغرب۔ (مشکوٰۃ المصابیح ۶۶)
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۶؍۱؍۱۴۳۳ھ
الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ 

غروب آفتاب کے وقت دعا مانگنا؟
 
سوال (۱۳۹۲):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: سورج غروب ہوتے وقت بہت سے لوگوں کو دعاء مانگتے ہوئے دیکھا گیا ہے کہ جبکہ بعض لوگ کہتے ہیں اس وقت دعاء مانگنا مکروہ ہے، کیونکہ یہ سورج کی پوجا کا وقت ہے شرعاً اس کی کیا حیثیت ہے؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے کہ وہ مغرب کی اذان کے وقت دعا کرتے تھے نیز احادیث میں طلوع اورغروب کے وقت کچھ خاص دعائیں مروی ہیں اس لئے انفرادی طور پر اس وقت میں دعا مانگی جائے تو اس سے منع نہیں کیا جائیگا، لیکن اجتماعی ہیئت بناکر یا جہری طور پر اس وقت دعا کرنا ثابت نہیں ہے، اس سے اجتناب لازم ہے۔
وعنہ (ابن عمر) رضي اللّٰہ عنہما قال: کنا نؤمر بالدعاء عند أذان المغرب۔ رواہ البیقہي في الدعات الکبیر۔ (مشکوٰۃ المصابیح ۶۶)
باب ماجاء في الدعا إذا أصبح وإذا أمسیٰ… قال رسول اللّٰہ ا ما من عبد یقول في صباح کل یوم ومساء کل لیلۃ، بسم اللّٰہ الذي لا یضر مع اسمہ شئ في الأرض ولا في السماء وہو السمیع العلیم، فیضرہ شئ۔ (سنن الترمذي ۲؍۱۷۶)
عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ قال: کان رسول اللّٰہ ا یعلم أصحابہ یقول: إذا أصبح أحدکم فلیقل: اللّٰہم بک أصبحنا وبک أمسینا وبک نحیا وبک نموت وإلیک المصیر، و إذا أمسیٰ فلیقل: اللّٰہم بک أمسینا وبک أصبحنا وبک نحیا وبک نموت وإلیک النشور۔ (سنن الترمذي ۲؍۱۷۶)
قال أمسینا وأمسیٰ الملک للّٰہ، والحمد للّٰہ لا إلٰہ إلا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ أراہ، قال لہ الملک: ولہ الحمد وہو علی کل شيء قدیر، أسئلک خیر ما في ہٰذہ اللیلۃ وخیر ما بعدہا وأعوذ بک من شر ہٰذہ اللیلۃ وشر ما بعدہا، وأعوذ بک من الکسل وسوء الکبر وأعوذ بک من عذاب النار وعذاب القبر، وإذا أصبح قال ذٰلک أیضاً وأصبحنا وأصبح الملک للّٰہ والحمد للّٰہ۔ (سنن الترمذي ۲؍۱۷۶)
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
املاہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۸؍۸؍۱۴۳۳ھ
الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ

کیا غروبِ شمس سے ذرا پہلے دعا کی قبولیت کا وقت ہے؟

سوال (۱۳۹۳):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: بعض حضرات کو دیکھا گیا ہے کہ وہ غروب شمس سے ذرا پہلے دعا کرتے ہیں اور اس کو قبولیت کا وقت سمجھتے ہیں تو کیا کسی حدیث یافقہ کی کسی عبارت میں اس وقت میں دعا قبول ہونے کی بات کہی ہے نیز غروب شمس کے بعد دعا کرنا کیسا ہے؟ اگر اس بارے میں جمعہ کے دن میں کوئی فرق ہو تو اس کو تحریر فرما دیں؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
قرآن پاک کی آیت: 
{فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِہَا} 
(پس اپنے رب کی حمد و ثنا کیا کیجئے سورج نکلنے اور ڈوبنے سے پہلے) سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں اوقات عبادت اور ذکر خداوندی کے لیے خصوصیت رکھتے ہیں، نیز روزہ دار کے لئے افطار کے وقت دعاء کی قبولیت احادیث میں مذکور ہے، بعض صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مغرب کی اذان کے وقت دعاکرنا ثابت ہے؛ لہٰذا اگر کوئی شخص غروب سے پہلے انفرادی طور پربلا کسی التزام کے اور اجتماعی ہیئت بنائے بغیر دعا کرتا ہے تو اسے منع نہیں کیا جائے گا، شرعاً اس کی گنجائش ہے، اور اس میں جمعہ اور غیر جمعہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔
وقیل: ہٰذا یکریر لصلاتي الصبح والمغرب إیذانا باختصاصہما بمزید مزیۃ۔
(روح المعاني ۱۶؍۴۱۲ زکریا)
..................
نماز مغرب سے پہلے کوئی سنت ہے؟
نمازِ مغرب سے پہلے کوئی سنت نہیں ہے؛ البتہ بعض روایات میں اذانِ مغرب کے بعد دو رکعت پڑھنا ثابت ہے؛ لیکن دوسری طرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ مغرب میں تعجیل کا حکم فرمایا، ابوداوٴد کی روایت میں ہے:
”لا تزال أمتي بخیر أو قال علی الفطرة ما لم یوٴخروا المغرب إلی أن تشتبک النجوم“ (أبوداوٴد، رقم ۴۱۸، باب في وقت المغرب)
اگر لوگ اذان کے بعد دو رکعت نفل میں مشغول ہوجائیں تو مغرب میں تاخیر ہوسکتی ہے جو مذکورہ بالا حدیث کے منشأ کے خلاف ہے؛ اس لیے حنفیہ نے تعجیل مغرب کا لحاظ کرتے ہوئے نمازِ مغرب سے پہلے دو رکعت پڑھنے کو پسند نہیں کیا؛ لیکن چوں کہ فی نفسہ جواز ثابت ہے؛ اس لئے اگر کوئی پڑھ لیتا ہے تو گناہ بھی نہیں، گنجائش ہے۔ ”اعلاء السنن“ میں ہے:
”فرجحت الحنفیّة أحادیث التعجیل لقیام الإجماع علی کونہ سنّة وکرہوا التنفّل قبلہا ولا یخفی أنّ العامّة لو اعتادوا صلاة رکعتین قبل المغرب لیخلّون بالسنّة حَتْمًا، ویوٴخرون المغرب عن وقتہا قطعًا، وأمّا لو تنفّل أحد من الخصواص قبلہا ولم یخلّ بسنّة التعجیل فلا یلزم علیہ؛ لأنّہ قد رأی بأمر مباح في نفسہ أو مستحب عند بعضہم، فحاصل الجواب أن التنفّل قبل المغرب مباح في نفسہ وإنّما قلنا بکراہتہ نظرًا إلی العوارض․ (إعلاء السنن، ۲/۶۹، مبحث الرکعتین قبل المغرب)
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Salah-Prayer/61141

سورج اور چاند گہن کی حقیقت اور اس کی نماز کا طریقہ

سورج اور چاند گہن کی حقیقت اور اس کی نماز کا طریقہ
گہن اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، زمانۂ جاہلیت میں لوگوں کا یہ عقیدہ تھا کہ ’’سورج گہن اور چاند گہن‘‘ کسی بڑی شخصیت کے انتقال کی وجہ سے ہوتے ہیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فاسد عقیدہ کی تردید فرمائی. 
بخاری شریف کی روایت ہے، 
إن الشمس والقمر لا یخسفان لموت أحد من الناس ولکنھما آیتان من آیات اللہ فإذا رأیتموھما فقُومُوا فصَلّٰوا 
ترجمہ: بلاشبہ سورج اور چاند کسی کے مرنے کی وجہ سے گرہن نہیں ہوتے ہیں، لیکن وہ دونوں اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، لہٰذا جب تم سورج چاند گرہن دیکھو تو کھڑے ہوجاوٴ اور نماز پڑھو۔ (بخاری: 142/1) 
اس روایت سے معلوم ہوا کہ سورج، چاند میں گہن کا لگنا قدرت الٰہی کی نشانیوں میں سے ہے، تاکہ لوگوں پر چاند اور سورج کا عاجز ہونا ظاہر ہوجائے، اور روایت بالا سے یہ بھی معلوم ہوا کہ" گہن" کے وقت ہمیں کیا کرنا چاہئے. 
کون سے اعمال کئے جائیں؟
گہن کے متعلق شریعت کا حکم یہ ہے کہ جب تک لگا رہے، نماز اور توبہ واستغفار میں مشغول رہنا چاہئے، حضوراکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے ان اوقات میں مخصوص نماز بھی منقول ہے. 
نماز کسوف: سورج گہن کی نماز بالاتفاق سنت ہے، اور جماعت سے ادا کرنا سنت کفایہ ہے، نماز کسوف کی دو رکعتیں ہیں، جو بلا اذان و اقامت غیر مکروہ وقت میں باجماعت ادا کی جائیں گی،  
راجح قول کے مطابق نماز کسوف میں سراً قرات کی جائے گی، صاحبین رحمھمااللہ کے نزدیک جہراً بھی پڑھی جاسکتی ہے، اور طویل قرأت کرنا افضل ہے. 
وهی سنة هکذا فی الذخيرة واجمعوا انها تؤدی بجماعة ۔ ۔ ۔ وَالْأَفْضَلُ أَنْ يُطَوِّلَ الْقِرَاءَةَ فِيهِمَا ۔ ۔ ۔  ۔
(فتاوی عالمگیری،کتاب الصلاۃ،الباب الثامن عشر فی صلاۃ الکسوف)
عن سمرۃ بن جندب رضي اللّٰہ عنہ قال: صلی بنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في کسوف لا نسمع لہ صوتًا۔ (سنن الترمذي ۱؍۱۲۶، سنن أبي داؤد رقم: ۱۱۸۴) 
عن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا أن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم صلی صلاۃ الکسوف وجہر بالقراءۃ۔ (سنن الترمذي ۱؍۱۲۶)
ویطیل القراء ة ویخفیہا لأنہا نہاریة وقالا یجہر وہو اختیار الطحاوي وقول أحمد (مجمع الأنہر: ۱/۲۰۵، بیروت)
نماز خسوف: چاند گرہن کی نماز دورکعت پڑھنا مسنون ہے، لیکن اس میں جماعت مسنون نہیں ہے، انفرادی طور پر اپنے اپنے گھروں میں ادا کی جائے گی، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے سے بھی چاند گہن کی نماز تنہا پڑھنا ہی ثابت ہے، کسی صحیح روایت سے نماز خسوف کی جماعت ثابت نہیں ہے. 
وليس في خسوف القمر جماعة وإنما يصلي كل واحد بنفسه (قدوری ج ١ ص ٤٣)
کتاب الصلوۃ: نمازِ کسوف اور خسوف 
امام ابو حنیفہ: کم ازکم دو رکعت اور چار یا اس سے زیادہ بھی جائز ہے، البتہ چار رکعت (ایک یا دو سلام کے ساتھ) پڑھنا افضل ہے۔ اور عام نمازوں کی طرح ہر رکعت میں ایک ہی رکوع کیا جائے گا۔
ائمہ ثلاثہ: نماز کسوف کی صرف دو رکعتیں مسنون ہیں، اور ہر رکعت میں دو رکوع، دو قیام، دو قرآت اور دو سجدے کئے جائیں گے۔ (الفقہ علی المذاھب: 1/330)
نمازِ خسوف:
احناف: کم از کم دو رکعت اور چار بھی درست ہے،جو عام نماز کے طریقے کے مطابق ایک رکعت میں ایک ہی رکوع کے ساتھ اداء کی جائے گی لیکن اِنفرادی طور پر گھروں میں پڑھیں گے، جماعت سے پڑھنا مشروع نہیں، البتہ اِمام ابوحنیفہ سراً تلاوت کے ساتھ پڑھنے کے قائل ہیں، جبکہ صاحبین جہراً قراءت کو مسنون قرار دیتے ہیں۔
اِمام مالک رحمہ اللہ: نماز خسوف کی دو رکعتیں مسنون ہیں، اور یہ عام نمازوں کی طرح پڑھی جائے گی، یعنی ہر رکعت میں ایک ہی رکوع اور دو سجدے کئے جائیں گے، اور اس میں جہرا قرأت کی جائے گی۔
شوافع و حنابلہ رحمہ اللہ: نمازِ خسوف کی دو رکعتیں مسنون ہیں، اور یہ نماز بھی نمازِ کسوف کی طرح ہی دو رکوع، دو قیام، دو قراتوں اور دو سجدوں کے ساتھ اداء کی جائے گی۔ البتہ اِمام شافعی نمازِ خسوف میں سراً تلاوت کے قائل ہیں جبکہ اِمام احمد بن حنبل رحمہ اللہ جہراًتلاوت کو مسنون قرار دیتے ہیں۔ (الفقہ الاِسلامی:2/1435) (الفقہ علی المذاھب: 1/330)
http://www.elmedeen.com/read-book-4258&page=659
ہمارے علماء نے صاحبین کے قول پر عمل کرنے کی اجازت دی ہے.
اس لئے جہرا بھی قرات کرسکتے ہیں.
.........
چاند گہن کی نماز:
اگر چاند گہن کا واقعہ پیش آئے تو سب لوگ تنہا تنہا چاند گہن کی نماز (نماز خسوف) پڑھیں گے، اس نماز کو باجماعت پڑھنا مسنون نہیں ہے۔ 
یصلون رکعتین فی خسوف القمر وحداناً، ہکذا فی محیط السرخسی۔ (ہندیہ ۱؍۱۵۳، شامی بیروت ۳؍۶۴، زکریا ۳؍۶۹)
...........
سوال: حضرت مفتی صاحب! مجھے یہ پوچھنا تھا کہ سورج اور چاند گہن کے متعلق لوگ کہتے ہیں کہ حاملہ عورتیں آگ سے دور رہیں اور گھر سے باہر نہ نکلیں اور چھری وغیرہ کا استعمال نہ کریں، تو اس کی کیا حقیقت ہے؟
Published on: Apr 13, 2017
جواب # 149165
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 747-670/sn=7/1438
اس طرح کی کوئی بات قرآن وحدیث سے ثابت نہیں ہے، یہ سب لوگوں کی اپنی بنائی ہوئی ہے، سورج گرہن یا چاند گہن کے وقت مرد وعورت ہرایک کے لئے عام نفل نماز کی طرح دو رکعت نماز پڑھنا اور دعا واستغفار کرنا مسنون ہے اور بہتر ہے کہ نماز میں قرأت لمبی (مثلاً سورہٴ بقرہ کی مقدار) کی جائے، اس کے بعد دعا کی جائے تا آنکہ ”گرہن“ ختم ہوجائے۔  
سن رکعتان کہیئة النفل الکسوف من غیر زیادة ․․․ وسن تطویلہا بنحو سورة البقرة․․․ ولو خففہا جاز ولا یکون مخالفًا للسنة؛ لأن المسنون استیعاب الوقت بالصلاة والدعاء الخ (مراقي الفلاح مع حاشیة للطحاطاوي: ۱/ ۵۳۳، ط: دار الکتاب)
--------------------------
جواب صحیح ہے البتہ ضرورت پر سورج گرہن یا چاند گہن کی نماز کے متعلق مزید تفصیلات کسی مقامی مفتی سے سمجھ لی جائیں۔ (ن)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
........................
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام چاند اور سورج گہن کے بارے میں۔ اگر کوئی عورت حاملہ ہو اورچاند یا سورج گہن ہوجائے تو اسے کن چیزوں کی رعایت کرنی چاہئے؟ شریعت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔
Published on: Jul 1, 2008
جواب # 5191
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 363=363/ م
بخاری شریف کی روایت ہے: 
إن الشمس والقمر لا یخسفان لموت أحد من الناس ولکنھما آیتان من آیات اللہ فإذا رأیتموھما فقُومُوا فصَلّٰوا 
(ترجمہ: بلاشبہ سورج اور چاند کسی کے مرنے کی وجہ سے گرہن نہیں ہوتے ہیں، لیکن وہ دونوں اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، لہٰذا جب تم سورج چاند گرہن دیکھو تو کھڑے ہوجاوٴ اور نماز پڑھو۔ (بخاری: 142/1) اس روایت سے معلوم ہوگیا کہ سورج، چاند کا گہن ہونا کسی کی موت و حیات کی بنا پر نہیں ہوتا، جیسا کہ جاہلیت کے زمانے میں لوگوں کا عقیدہ تھا، بلکہ ایسا ہونا قدرت الٰہی کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ آفتاب و ماہتاب کا مخلوق و عاجز ہونا لوگوں پر آشکارا ہوجائے۔ روایت بالا سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اس خاص (گہن) کے وقت میں لوگوں کا عمل کیا ہونا چاہئے، حاملہ عورت کے لئے بھی وہی حکم ہے جو دیگر لوگوں کے لیے ہے یعنی جب تک گرہن رہے نماز میں مشغول رہنی چاہیے۔ اللہ کی حمد وکبریائی اور پاکی بیان کرنی چاہئے۔ اور ذکر و اذکار، توبہ و استغفار کی کثرت کرنی چاہئے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
.................
حاملہ عورت پر سورج اور چاند گہن کے اثرات
س: کیا سورج اورچاند گہن حاملہ عورت اور اس کے بچہ پر اثرانداز ہوتے ہیں؟ کہا جاتا ہے کہ نومولود کے جسم پر پیدائشی نشان سورج اور چاند گرہن کی وجہ سے ہوتا ہے، کیا یہ بات درست ہے؟
ج: سورج اور چاند گہن اللہ رب العزت کی قدرت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہےجس سےاللہ پاک اپنے بندوں کو تنبیہ فرماتے ہیں، باقی انسانی جسم پر اس کے کسی قسم کے اثرات کا ظاہر ہونا محض وہمی باتیں ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
فقط واللہ اعلم
جامعہ بنوریہ کراچی
.............
Suraj aur chand Gahan ki haqeeqat aur us ki namaz ka tareeqah (eclipse)
Bismillah hirrahman nirrahim
Hadith : Suraj aur chand mein Gahan (eclipse) dekho to 
Namaz  Parha karo aur Dua kartey raho
Abu Bakra Radi Allahu Anhu se rivayat hai ki Rasoollallah Sallallahu Alaihi Wasallam  ne farmaya Suraj aur chand  dono Allah Subhanahu ki nishaniya hai aur Kisi ki wajah se inmein Grahan (eclipse) nahi lagta bulki Allah subhanahu uskey zariye apney bando ko darata hai (yani qayamat se darata hai ke qayamat ke din bhi chand aur suraj ko grahan lag jayega -woh be noor bagair rishni ke ho jayenge)
Sahih Bukhari, Vol2, 1048
Abu Bakra Radi Allahu Anhu se rivayat hai ki hum Rasoollallah Sallallahu Alaihi Wasallam  ki khidmat mein hazir they ki Suraj ko graham lagna shuru ho gaya Nabee Sallallahu Alaihi Wasallam maszid mein gaye saath mein hum bhi gaye Aapney aur humein Do rakaat namaz parhayee yahan tak ki suraj saaf ho gaya phir Rasoollallah Sallallahu Alaihi Wasallam ne farmaya Suraj aur chand mein Kisi ki maut ki wajah se grahan (eclipse) nahi lagta jab tum grahan  dekho to Namaz parho aur Dua kartey raho jab tak Grahan chala na jaye.
Sahih Bukhari, Vol2, 1040
CHAND GRAHAN KI NAMAZ KA TREEQA
Chand grahan aamtaur par raat me hota hai isliye is me jamat karna aur khutba padhna hanfiyah aur malikiyah ke nazdeek sabit nahi lihaza is namaz ki infiradi taur par ghar ya masjid me bila jamaat 
padhni chahiye

-----------------------------------------------------------------------
چاند گہن کی حقیقت اور اس کی نماز کا طریقہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سورج اور چاند دونوں اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں اور کسی کی موت و حیات سے ان میں گہن نہیں لگتا بلکہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے۔ (یعنی قیامت سے ڈراتا ہے کیوں قیامت کے دن بھی سورج اور چاند کو گہن لگ جائے گا) 
صحیح بخاری جلد ۲ ۱۰۴۸
چاند گہن کی نماز پڑھنے کا طریقہ:
جاند گہن عام طور پر رات میں ہوتا ہے اس لئے اس میں حنفی اور مالکیہ کے نزدیک جماعت اور  خطبہ مشروع نہیں لہذا چاند گہن کی نماز انفرادی طور پر گھر یا مسجد میں پڑھنی چاہئے۔
(عمدہ القاری 5/302)
ابو بکرہ  رضی اللہ عنہ نے کہ ہم نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ سورج کو گہن لگنا شروع ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (اٹھ کر جلدی میں) چادر گھسیٹتے ہوئے مسجد میں گئے۔ ساتھ ہی ہم بھی گئے. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی تاآنکہ سورج صاف ہوگیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سورج اور چاند میں گہن کسی کی موت و ہلاکت سے نہیں لگتا لیکن جب تم گہن دیکھو تو اس وقت نماز اور دعا کرتے رہو جب تک گہن کھل نہ جائے۔
صحیح بخاری جلد ۲ ۱۰۴۰

---------------------
Narrated Abu Bakra Radi Allahu Anhu Allah's Apostle Sallallahu Alaihi Wasallam said: "The sun and the moon are two signs amongst the signs of Allah and they do not eclipse because of the death of someone but  Allah frightens His devotees with them." 
Sahih Bukhari, Volume 2, Book 18, Number 158:
Narrated Abu Bakra Radi Allahu Anhu : We were with Allah's Apostle Sallallahu Alaihi Wasallam when the sun Eclipsed. Allah's Apostle stood up dragging his cloak till he entered the Mosque. He led us in a two-Rakat Prayer till the sun (Eclipse) had cleared. Then the Prophet Peace be upon him  said, "The sun and the moon do not Eclipse because of someone's death. So whenever you see theseEclipses pray and invoke (Allah) till the Eclipse is over." 
Sahih Bukhari,
Book #18, Hadith #150
Eclipse Prayer:
Narrated Asma' bint Abi Bakr Radi Allahu Anhu : The Prophet Sallallahu Alaihi Wasallam once offered theEclipse Prayer. He stood for a long time and then did a prolonged bowing. He stood up straight again and kept on standing for a long time, then bowed a long bowing and then stood up straight and then prostrated a prolonged prostration and then lifted his head and prostrated a prolonged prostration. And then he stood up for a long time and then did a prolonged bowing and then stood up straight again and kept on standing for a long time. Then he bowed a long bowing and then stood up straight and then prostrated a prolonged prostration and then lifted his head and went for a prolonged prostration. On completion o the Prayer, he said, "Paradise became s near to me that if I had dared, I would have plucked one of its bunches for you and Hell became so near to me that said, 'O my Lord will I be among those people?' Then suddenly I saw a woman and a cat was lacerating her with it claws. On inquiring, it was said that the woman had imprisoned the cat till it died of starvation and she neither fed it no freed it so that it could feed itself." 
Sahih Bukhari, Book #12, Hadith #712
®TASDEEQ WA IZAFA (MUFTI) IMRAN ISMAIL MEMON SURAT GUJRAT INDIA

ڈارک ویب؛ انٹرنیٹ کا مکروہ چہرہ

ایس اے ساگر
اپنے سیل فون، لیپ ٹاپ یا ڈیسک ٹاپ میں جو ورلڈ وائیڈ ویب کے ذریعہ آپ انٹرنیٹ کو دن رات استعمال کرتے ہیں، اس کے متعلق کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ یہ کیا ہے؟ اور کتنے حصوں پر مشتمل ہوتا ہے.... اس کے بارے میں آپ کو کتنی معلومات ہیں؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ جتنا انٹرنیٹ آپ روز استمعال کرتے ہیں وہ کل انٹرنیٹ کا صرف چار فیصد ہے؟ اور جسے آپ استعمال کررہے ہیں وہ محض ’سرفیس فیب‘ Surface Web یا’ لائٹ ویب Light Web ‘ سے موسوم ہے۔ ’سرفیس ویب‘ میں روز مرہ کے کام یعنی گوگل ،فیس بک، ویکیپیڈیا اور یوٹیوب وغیرہ تک رسائی حاصل کی جاتی ہے۔ یہ وہ ویب سائٹس ہوتی ہیں جو انڈیکسڈ ہوئیں ہوتیں ہیں۔جن کے لنکس کو گوگل کے اندر ایڈ کیا جاتا ہے۔ جنھیں ہم سرچ کرتے ہیں تو ا ن کے تک رسائی ممکن ہوجاتی ہے۔
لیکن اس کے پس پشت ’ڈارک ویب‘ Dark Web یا ’ڈیپ ویب‘ Deep Web بھی کارفرما ہوتی ہے جو صارف کے زیر استعمال ’سرفیس فیب‘ سے پانچ سو گنا بڑا اور وسیع ہے، اس میں ’سرفیس فیب‘ استعمال کرنے والے ہر شخض، ہر ادارے اور ہر حکومت کی ہر قسم کی معلومات مجتمع ہوتی ہیں....! لیکن کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی!
یہ ویب خفیہ ادارے، مافیا، ہٹ مین ،سیکرٹ سوسائٹیز استعمال کرتی ہیں۔ یہاں پر کاروبار ہوتا ہے ڈرگز کا، ویپنز کا، کنٹریکٹ کلنگز کا، چائیلڈز پورنو گرافی کا، پرائیویٹ لائیو فائٹس کا، ملکوں کے راز چرانے اور بیچنے کا، انسانی اعضا بیچنے اور خریدنے کا، لوگوں کے بنک اکاونٹس ہیک کرنے کا۔ یعنی ہرقسم کا غیر قانونی کام یہاں پر ہوتا ہے۔ ان کو پکڑنا بہت ہی مشکل ہے ایک طرح سے ناممکن ہے۔ کیونکہ ’ڈیپ ویب‘ کا ایک حصہ ہے جو تمام انٹرنیٹ کا تھل ہے، وہ ’ڈارک ویب‘ یا ’بلیک نیٹ‘ کہلاتا ہے....! کوئی نہیں جانتا کہ یہ کتنا حجم رکھتا ہے لیکن یہاں دنیا کا ہر غیر قانونی و غیر انسانی کام ہوتاہے....! منشیات، اسلحہ اوربردہ فروشی سے لے کر ایک انسان کو ذبح کر کے گوشت کھانے تک ’ڈیپ ویب‘ عام براو ¿ذر کے ذریعہ باآسابی کھل سکتا ہے۔ مگر اسے کوئی سرچ نہیں کر سکتا۔ اس کے کھلنے کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ جس نے ’ڈیپ ویب‘ کی وہ سائٹ بنائی ہے اس کا لنک جو چند الٹے سیدھے کوڈ نما الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے، اسے کسی بھی براﺅذر میں میں ڈال دیا کر انٹر کردیا جائے تو سائٹ کھل جاتی ہے۔ جب کہ ’ڈارک ویب‘ کسی بھی عام براؤزر سے کبھی بھی نہیں کھلتا ماسوائے ٹی او آر، ٹور Tor پروجیکٹ نامی براؤزر کے جس کی سائٹس کی ایکسٹینشنز onion ’اونین‘ ہوتی ہیں جو صرف’ٹور‘ براؤزر پر ہی کھلتی ہے۔ اس کا بھی سائٹ لنک عجیب الٹے سیدھے کوڈ نما نمبروں پر مشتمل ہوتا ہے اور اس کے سائٹ کوڈ کا علم ہو، تب ہی کھلتا ہے۔ مگر ’ٹور‘ کے کچھ اپنے سرچ انجن ہیں جن پر مطلوبہ سائٹ یا مطلوبہ ویڈیوز یا مطلوبہ مواد کو گوگل کی طرح سرچ کرکے باآسانی تلاش کیا جاسکتا ہے۔
اسی میں مزید ایک قدم آگے ’ریڈ رومس‘ Red Rooms  ہے۔ جہاں بند کمروں میں دنیا کا بدترین تشدد دکھایا جاتا ہے۔ جیسے زندہ انسانوں کی کھال کھینچنا، آنکھیں نکالنا، ناک اور کان میں، آلہ تناسل وغیرہ کاٹنا، اس میں سلاخیں گھسانا وغیرہ وغیرہ۔
اس سب کے بعد اس سب کا باپ ’میریا نس ویب ‘Mariana's Web ہے۔ جسے نہ کوئی جان سکا، نہ جانتا ہے اور نہ اس تک پہنچنا آسان ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہاں دنیا کی چند بڑی طاقتوں کے قیمتی راز دفن ہیں جیسے؛ اسرائیل، امریکہ وغیرہ نیز اس کے ٹاپ آپریٹرز iluminaties ہیں جہاں دنیا بھر کے الومناٹیز کا ڈاٹا بیس موجود ہے۔
ڈارک ورلڈ میں ایک خاص قسم کی ویب سائٹس کو 'ریڈ رومز' کہا جاتا ہے۔ وہاں تک عام صارف کی رسائی تقریبا ناممکن ہوتی ہے۔۔ ڈارک ویب ورلڈ میں یہ سب سے خفیہ رومز ہیں....وہاں تک رسائی بغیر پیسوں کے نہیں ہوتی....ان سائٹس پر جانور یا انسانوں پر لائیو تشدد پیش کیا جاتا ہے اور بولیاں لگائی جاتی ہیں....آپ’بٹ کوائن‘ Bitcoin کی شکل میں پیسے ادا کرکے فرمائش کرسکتے ہیں کہ اس جانور یا انسان کا فلاں عضو نکال دو ....حقیقی زندگی میں اگر آپ اعتراف کرتے ہیں کہ آپ ریڈ رومز تک گئے ہو....تو آپ کو محض اس اعتراف کے نتیجہ میں جیل کی ہوا کھانی پڑسکتی ہے ...
علاوہ ازیں سائبر کی دنیا میں ایک ایسی ویب سائٹ بھی موجود ہے جہاں پر یوروپ بھر میں کسی کے بھی قتل کی سپاری دے سکتے ہیں....عام شخص کا قتل بیس ہزار یورو....صحافی کا قتل ستر ہزار یورو اور سلیبرٹی کے قتل کا ریٹ ایک لاکھ یورو سے شروع ہوتا ہے۔
علاوہ ازیں ایک ویب سائٹس ایسی بھی ہیں جن کا دعوی ہے کہ وہ مردہ بچوں کی روحیں فروخت کرتی ہیں۔
٭پنک متھ ایک ویب سائٹ ہوتی تھی جو کہ دو ہزار چودہ میں ٹریس کرکے بین ban کردی گئی۔ وہاں لوگ اپنی سابقہ گرل فرینڈز، بیوی سے انتقام کی خاطر ان کی عریاں تصاویر فروخت کرتے تھے اور ویب سائٹس ان لڑکیوں کے نام، گھر کے پتے اور فون نمبر کے ساتھ یہ تصاویر شیئر کرتی تھی....اس ویب سائٹ کی وجہ سے چار سے زیادہ لڑکیاں خود کشی کر چکی تھیں۔ لیکن یہ ویب سائٹ باز نہیں آئی ایف بی آئی نے دو ہزار چودہ میں اس کے خلاف تحقیقات شروع کیں اور اس کے’ سرور‘ کو’ ٹریس‘ کر کے اسے بند کر دیا، یہ الگ بات ہے کہ اس کے مالکان آج تک فرار ہیں۔ چونکہ یہ ویب سائٹ اب آپریٹ نہیں ہوتی،ا س لئے نام ظاہر کردیا گیا ہے۔
٭ ڈارک ورلڈ یا ڈیپ ورلڈ میں کچھ ایسے گیمز بھی پائے جاتے ہیں جو عام دنیا میں شاید پابند ’بین‘ Ban کر دئے جائیں۔ایسے ہی ایک خوفناک گیم کا نام ’سیڈ ستان‘یاشیطان ہے۔اس گیم کے گرافکس اس قدر خوفناک ہیں کہ عام دنیا میں کوئی بھی گیم اسٹور اس گیم کی اجازت نہیں دے گا۔
٭انسانی اسمگلنگ کا سب سے بڑا گڑھ ’ڈارک ویب ورلڈ‘ کو کہا جاتا ہے۔ یہاں خواتین کوفروخت کرنے کا کام بھی کیا جاتا ہے۔ جوزف کاکس جو کہ ایک ریسرچر ہیں، وہ دو ہزار پندرہ میں ڈیپ ویب ورلڈ پر ریسرچ کر رہے تھے۔ اسی ورلڈ میں انھیں مذکورہ گروپ کا سامنا کرنا پڑا، جس کا نام ’بلیک ڈیتھ‘ تھا اور انھوں نے جوزف کو ایک عورت بیچنے کی پیش کش کی جس کا نام نکول بتایا اور وہ گروپ اس عورت کی قیمت ڈیڑھ لاکھ ڈالرزطلب کررہا تھا۔
٭ کینی بال یعنی آدم خوروں کا ایک فورم ہے جس کے اراکین ایک دوسرے کو اپنے جسم کے کسی حصے کا گوشت فروخت کرتے ہیں۔ جیساگزشتہ دنوں وہاں ایک پوسٹ لگی جس کے الفاظ یہ تھے:
”کیا کوئی میری ران کا آدھا پاونڈ گوشت کھانا چاہے گا؟ صرف پانچ ہزار ڈالرز میں....اسے خود کاٹنے کی اجازت ہوگی....“
٭جہاز تباہ ہونے کے بعد بلیک باکس یعنی جہاز کا ایک آلہ تلاش کیا جاتا ہے کیوں کہ وہ ایسے میٹریل پر مشتمل ہوتا ہے جوبرباد نہیں ہوتا....اس بلیک باکس میں پائلٹ اور کو پائلٹ کی آخری ریکاڈنگز ہوتی ہے۔ اس سے پتہ چل جاتا ہے کہ تباہ ہونے سے پہلے کیا ہو اتھا۔ ایک ویب سائٹ پر تباہ شدہ جہازوں کی آخری ریکاڈنگز موجود ہیں۔ وہاں نائن الیون کے جہاز کی آڈیو فائل بھی موجود ہے....
٭ایک ویب سائٹ جوتے، پرس، بیلٹ وغیرہ بیچتی ہے اور ان کا یہ دعوی ہے کہ یہ انسانی کھالوں سے تیار کئے گئے ہیں۔
لکھنے کو بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے....آپ اس بارے بزنس انسائیڈر، ریڈٹ، یا مختلف فورمز پر آرٹیکلز بھی پڑھ سکتے ہیں لیکن ڈارک ویب ورلڈ ایسی گھناونی دنیا ہے جس کے بارے بس اتنا سا ہی جاننا ضروری ہے۔
یہ دنیا ایسے لوگوں اور گروہوں کا مسکن ہوتی ہیں جو خود کو عام دنیا یا حکومتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بچا کر رکھنا چاہتے ہیں۔
بٹ کوائن کرنسی کی سائنس: کیا اس میں انویسٹمنٹ کرنی چاہئے؟
ایک تحقیق کے مطابق گوگل سرچ انجن کے ڈیٹا بیس میں صرف 16 فیصد ویب صفحات کا اندراج موجود ہے جبکہ باقی ویب سائٹس اب بھی گوگل کی پہنچ سے دور ہیں۔ اس لیے انہیں کسی کے لیے بھی تلاش کافی مشکل ہوتا ہے۔
ایسی صورتحال میں ڈارک ویب قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کام کو مشکل ضرور بنا دیتی ہیں مگر ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جب سیکیورٹی ایجنسیاں ایسی ویب سائٹس تک پہنچنے اور ان کو چلانے یا استعمال کرنے والوں تک پہنچنے میں کامیاب رہی ہیں۔
اس کی ایک مثال ڈارک ویب پر منشیات کا کاروبار کرنے والی بڑی مارکیٹ ’ سلک روڈ‘ کو چلانے والے شخص راس البرکٹ کی گرفتاری میں کامیابی ہے۔
اسی طرح امریکی ادارے ایف بی آئی نے حال ہی میں ڈاک ویب پر بچوں سے جنسی تشدد کی ویب سائٹ چلانے والے دو افراد کو بھی گرفتار کیا تھا۔
مختصر یہ کہ دنیا کے مختلف حصوں میں ہونے والے لگاتار بچوں کے اغوا، ا ±ن کے ساتھ جنسی تشدد اور ا ±ن کوقتل کر دینا، ان کی لائیو ویڈیو پیش کرنا دراصل ملٹی ٹریلین انڈسٹری ہے۔ دنیا کے کچھ امیر لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ کر ڈارک ویب پر جاتے جہاں وہ کسی مخصوص ویب سائٹ کے ممبر کے ذریعہ اس سے باقاعدہ ’لطف اندوز‘ ہوتے ہیں۔ یہ سب وہ باقاعدہ اپنی ڈیمانڈ پر بچے کے ساتھ یا عورت کے ساتھ جنسی تشدد کرواتے اور بولی لگاتے کہ اس کے ساتھ یہ کرو تو اتنے پیسے لے لو اور وہ کرو تو اتنے پیسے۔ پرائیویٹ فائٹس میں کسی ایک فائٹر کے مرنے تک یہ لوگ بولیاں لگاتے رہتے ہیں۔ بظاہر مہذب دنیا دراصل ایک ایسی شیطانی دنیاکا حصہ ہے جس کی خباثت پوری طرح سے انسانیت پر غالب آچکی ہے۔ یہاں کچھ ب رے لوگ اپنے تھوڑے سے فائدے کے لیے انسانی زندگیوں سے کھیل رہے ہوتے ہیں!

The dark web is the World Wide Web content that exists on darknets, overlay networks that use the Internet but require specific software, configurations or authorization to access. The dark web forms a small part of the deep web, the part of the Web not indexed by web search engines, although sometimes the term deep web is mistakenly used to refer specifically to the dark web.The darknets which constitute the dark web include small, friend-to-friend peer-to-peer networks, as well as large, popular networks like Tor, Freenet, and I2P, operated by public organizations and individuals. Users of the dark web refer to the regular web as Clearnet due to its unencrypted nature.[8] The Tor dark web may be referred to as onionland,[9] a reference to the network's top-level domain suffix .onion and the traffic anonymization technique of onion routing. 


How postmortems allowed in Islam for Muslim lady? خاتون میت کا پوسٹ مارٹم کیوں کروائیں لیڈی ڈاکٹر سے ؟

ایس اے ساگر
بے پردگی اور حیا سے عاری ماحول میں جب سعودی مفتی اعظم نے سعودی عرب کی وزارت صحت سے کہا کہ وہ اس امر کو یقینی بنائیں کہ مملکت میں مرد ڈاکٹر مردہ خواتین کا پوسٹ مارٹم نہ کریں تو امت مسلمہ چونکنے پر مجبور ہوگئی۔اپنی خواتین کے علاج معالجہ میںلیڈی ڈاکٹروں کو تلاش کرنے والوں اس وقت بڑی ڈھارس بندھی جب انھیں پتہ چلا کہ سعودی اخبار ’عکاظ‘ www.okaz.com.sa میں حکام نے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ الشیخ کے خط پر یہ حکم جاری کیا ہے کہ خواتین کی لاشوں کا بعد از مرگ معائنہ محض خواتین ڈاکٹر ہی کریں۔مفتی شیخ عبدالعزیز نے اپنے خط میں کہا کہ مسلمان کے جسم کی حرمت یکساں رہتی ہے‘چاہے وہ زندہ ہو یا مردہ‘ان کا کہنا ہے کہ جس طرح کسی خاتون کی میت کو خواتین ہی غسل دیتی ہیں اسی طرح کسی خاتون کی لاش کا پوسٹ مارٹم بھی محض خواتین کو ہی کرنا چاہئے۔ سعودی وزارت صحت کے نائب سیکریٹری ڈاکٹر عبدالعزیز محمد الحمیدی کا کہنا ہے کہ مفتی اعظم کا خط موصول ہونے کے بعد مملکت کے تمام علاقوں میں وزارتِ صحت کے دفاتر کو اس سلسلہ میں احکامات جاری کردئے گئے ہیں جبکہ اسپتالوں میں تعینات عملہ پر زور دیا گیا ہے کہ ہر ممکن حد تک کوشش کی جائے کہ خواتین کا پوسٹ مارٹم لیڈی ڈاکٹر ہی کریں۔ حرمین شریفین کی بدولت عالم اسلام میں سعودی عرب ہدایت کا مرکز شمارکی ہے، غنیمت یہ ہے کہ یہاں آج بھی خواتین کو مرد رشتہ دار کی اجازت کے بغیر ملازمت کرنے اور میڈیکل آپریشن کرنے کی اجازت نہیں ہے جبکہ اہل علم نے اس کے علاوہ بھی متعدد نکات کی جانب متوجہ کیا ہے۔
… کسی عورت کے ولی اس کے بیٹے یا بھائی ہیں، بہنوئی ولی نہیں، نہ وارث، اس لئے اس کو ولی مقرّر کرنا غلط ہے، البتہ اگر وہ نیک دین دار اور شرعی مسائل سے واقف ہے تو یہ وصیت کرنا کہ وہ کفن دفن کی نگرانی کرے، یہ درست ہے۔
....موت کے بعد بیوی کا چہرہ دیکھ سکتا ہے، ہاتھ نہیں لگاسکتا۔
بیوی کے انتقال سے نکاح ختم ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کی بہن سے نکاح کرسکتا ہے، اس لئے شوہر کا بیوی کے مرنے کے بعد اسے ہاتھ لگانا اور غسل دینا جائز نہیں، اور شوہر کے مرنے پر نکاح کے آثار عدّت تک باقی رہتے ہیں، اس لئے بیوی کا شوہر کے مرنے کے بعد اس کو ہاتھ لگانا اور غسل دینا صحیح ہے۔ پس حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ان کی زوجہ محترمہ کے غسل دینے پر تو کوئی اِشکال نہیں، البتہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا واقعہ محلِ اِشکال ہے، لیکن اوّل تو اس سلسلہ میں 3 روایتیں مروی ہیں، ایک یہ کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے غسل دیا تھا، دوم یہ کہ اسماء بن عمیس اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے غسل دیا تھا، سوم یہ کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے انتقال سے پہلے غسل فرمایا اور نئے کپڑے پہنے اور فرمایا کہ میں رخصت ہو رہی ہوں، میں نے غسل بھی کرلیا ہے، اور کفن بھی پہن لیا ہے، مرنے کے بعد میرے کپڑے نہ ہٹائے جائیں۔ یہ کہہ کر قبلہ رو لیٹ گئیں اور روح پرواز کرگئی، ان کی وصیت کے مطابق انہیں غسل نہیں دیا گیا۔ اگر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے غسل دینے کی روایت کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا و علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خصوصیت تھی، اس سے عام حکم ثابت نہیں ہوتا۔
… بیوی کے انتقال کے بعد شوہر اس کا منہ دیکھ سکتا ہے، ہاتھ نہیں لگاسکتا، جنازہ کو کندھا دے سکتا ہے، نمازجنازہ میں بھی شریک ہوسکتا ہے، عورت کو لحد میں اتارنے کیلئے اس کے محرَم رشتہ دار ہونے چاہئیں، اگر وہ نہ ہوں تو دوسرے لوگ اتاریں، ان میں شوہر بھی شریک ہوسکتا ہے۔
 ....بیوی کے مرتے ہی دنیوی احکام کے اعتبار سے میاں بیوی کا رشتہ ختم ہوجاتا ہے، اور شوہر کی حیثیت ایک لحاظ سے اجنبی کی ہوجاتی ہے۔
… میّت جس کمرے میں ہو اس کی بجائے دوسرے کمرہ میں تلاوت کی جائے، البتہ غسل کے بعد میّت کے پاس پڑھنے میں بھی مضائقہ نہیں۔
… مردہ جسم کو غسل دیتے وقت لوگ پانی میں بیری کے پتے ڈالنا سنت سے ثابت ہے۔
… غیرمردوں کو مردہ عورت کا منہ دکھانا جائز نہیں، اور گناہ منہ دکھانے والوں کو ہوگا، اور مردہ عورت بھی اس پر اپنی زندگی میں راضی تھی تو وہ بھی گناہگار ہوگی، ورنہ نہیں، عورتوں کو وصیت کردینی چاہئے کہ ان کے مرنے کے بعد نامحرموں کو ان کا منہ نہ دکھایا جائے۔
....میّت کو جلد سے جلد دفن کرنے کا حکم ہے، لواحقین کے انتظار میں رات بھر اٹکائے رکھنا بہت بری بات ہے۔
....غسل کیلئے مردہ کو تختہ پر رکھنے کی دو صورتیں ہیں، ایک تو قبلہ کی طرف پاوں کرکے لٹانا، دوسرے قبلہ کی طرف منہ کرنا جیسے قبر میں لٹاتے ہیں، دونوں میں سے جگہ کی سہولت کے مطابق جو صورت اختیار کرلی جائے جائز ہے لیکن زیادہ بہتر دوسری صورت ہے۔
.... ایک بار غسل دینے کے بعد غسل دینے کی ضرورت نہیں۔
....شوہر کا بیوی کے جنازے کو کندھا دینا جائز ہے۔
.... اگر عورت کے محرَم موجود ہوں تو لحد میں ان کو اتارنا چاہئے، اور اگر محرَم موجود نہ ہوں یا کافی نہ ہوں تو لحد میں اتارنے میں شوہر کے شریک ہونے میں کوئی حرج نہیں۔ عورت کو مرد، اور مردوں کو عورتیں غسل نہیں دے سکتیں، خدانخواستہ ایسی صورت پیش آجائے کہ عورت کو غسل دینے والی کوئی عورت نہ ہو، یا مرد کو غسل دینے والا کوئی مرد نہ ہو تو تیمم کرادیا جائے، اگر عورت کا کوئی محرَم مرد یا مرد کی کوئی محرَم عورت ہو تو وہ تیمم کرائے، اور اگر محرَم نہ ہو تو اجنبی اپنے ہاتھ پر کپڑا لپیٹ کر تیمم کروائے۔ پوری تفصیل کسی عالم سے سمجھ لی جائے۔
… مرد کیلئے مسنون کفن میں 
1… بڑی چادر، پونے تین گز لمبی، سوا گز سے ڈیڑھ گز تک چوڑی۔
2… چھوٹی چادر، اڑھائی گز لمبی، سوا گز سے ڈیڑھ گز تک چوڑی۔
3… کفنی یا کرتا، اڑھائی گز لمبا، ایک گز چوڑا شامل ہے جبکہ عورت کے کفن میں دو کپڑے … سینہ بند، دو گز لمبا، سوا گز چوڑا۔… اوڑھنی ڈیڑھ گز لمبی، قریباً ایک گز چوڑی زید ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں نہلانے کیلئے تہبند اور دستانے اس کے علاوہ ہوتے ہیں۔ کفن کیلئے نیا کپڑا خریدنا ضروری نہیں۔
… میّت کے جنازے کو کندھا دینا مسنون ہے، اور بعض احادیث میں جنازے کے چاروں طرف کندھا دینے کی فضیلت بھی آئی ہے۔
طبرانی کی معجمِ اوسط میں بہ سندِ ضعیف حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا کہ… جس شخص نے میّت کے جنازے کے چاروں پایوں کو کندھا دیا، اللہ تعالیٰ اسے اس کے چالیس بڑے گناہوں کا کفارہ بنادیں گے۔
امام سیوطی رحمة اللہ علیہ نے الجامع الصغیر کی جلد2 صفحہ 170 بروایت ابنِ عساکر، حضرت واثلہ رضی اللہ عنہ سے بھی یہ حدیث نقل کی ہے۔فقہائے امت نے جنازہ کو کندھادینے کا سنت طریقہ یہ لکھا ہے کہ پہلے دس قدم تک دائیں جانب کے اگلے پائے کو کندھا دے، پھر دس قدم تک اسی جانب کے پچھلے پائے کو، پھر دس قدم تک بائیں جانب کے اگلے پائے کو، پھر دس قدم تک بائیں جانب کے پچھلے پائے کو، پس اگر بغیر ایذادہی کے اس طریقہ پر عمل ہوسکے تو بہتر ہے‘جنازہ کیلئے کھڑے ہوجانا بہتر ہے۔
… جب ہمارے قریب سے جنازہ گزر رہا ہو اور لوگ بیٹھے ہوئے ہوں تو کھڑے ہوجانا بہتر ہے۔
....شوہر اپنی بیوی کے جنازہ میں شریک ہوسکتا ہے۔
....… ناپاک آدمی کا جنازے کو کندھا دینا مکروہ ہے، دل کیساتھ جسم اور کپڑوں کو بھی پاک کرنا چاہئے، جس شخص کو اپنے بدن اور کپڑوں کے پاک رکھنے کا اہتمام نہ ہو، وہ دِل کو پاک رکھنے کا کیا خاک اہتمام کرے گا؟
....عورت کی میّت کو ہر شخص کندھا دے سکتا ہے۔
… قبر میں تو صرف محرم مردوں کو ہی اتارنا چاہئے‘اگر محرَم نہ ہوں یا کافی نہ ہوں تو غیرمحرَم بھی شامل ہوسکتے ہیں‘ لیکن کندھا دینے کی سب کو اجازت ہے۔
....قبرستان میں جنازہ رکھنے سے پہلے بیٹھنا خلافِ ادب ہے۔
… قبر میں کوئی بھی چیز بچھانا درست نہیں۔
… قبر میں مردے کیساتھ قرآن مجید یا اس کا کچھ حصہ دفن کرنا ناجائز ہے، کیونکہ مردہ قبر میں پھول پھٹ جاتا ہے، قرآن مجید ایسی جگہ رکھنا بے ادبی ہے، یہی حکم دیگر مقدس کلمات کا ہے، سلف صالحین کے یہاں اس کا تعامل نہیں تھا۔
… میّت کو قبر میں قبلہ رخ لٹانا چاہئے، چت لٹاکر صرف منہ قبلہ کی طرف کردینا کافی نہیں، یہ مسئلہ صرف اہلِ حدیث کا نہیں، فقہِ حنفی کا بھی یہی مسئلہ ہے، لیکن میّت کے پیچھے پتھر رکھنے کی بجائے دیوار کیساتھ مٹی کا سہارا دے دیا جائے تاکہ میّت کا رخ قبلہ کی طرف ہوجائے۔
 قبر میں رکھ دینے کے بعد پھر منہ کھول کر دِکھانا اچھا نہیں، بعض اوقات چہرے پر برزخ کے آثار نمایاں ہوجاتے ہیں، ایسی صورت میں لوگوں کو مرحوم کے بارے میں بدگمانی کا موقع ملے گا۔
… مٹی کی تین مٹھیاں ڈالنا مستحب ہے، پہلی مٹھی ڈالتے وقت ’منھا خلقنٰکم‘ دوسری کے وقت ’وفیھا نعیدکم‘ جبکہ تیسری کے وقت ’ومنھا نخرجکم تارة اخریٰ‘ پڑھے، اگر یہ عمل نہ کیا جائے تو بھی کوئی گناہ نہیں ہے۔
… علامہ شامی نے باب الاذان اور کتاب الجنائز میں نقل کیا ہے کہ قبر پر اذان دینا بدعت ہے۔ سلف صالحین سے ثابت نہیں، البتہ دفن کے بعد کچھ دیر کیلئے قبر پر ٹھہرنا اور میّت کیلئے دعا و استغفار کرنا سنت سے ثابت ہے۔
....آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی اس قسم کے متعددواقعات پیش آئے کہ ایک مردہ کو کئی بار دفن کیا گیا، مگر زمین اس کو اگل دیتی تھی، نعوذ باللہ من ذالک، اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یوںفرمایا تھا کہ زمین تو اس سے بھی زیادہ گناہگار لوگوں کو قبول کرلیتی ہے، مگر اللہ تعالیٰ تمہیں عبرت دلانا چاہتے ہیں۔
… علامہ شامی رحمة اللہ علیہ حاشیہ درمختار میں لکھتے ہیں کہ اس پر اجماع ہے کہ اگر میّت کو دفن کرنا ممکن ہو تو دفن کرنا فرض ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر زمین پر میّت کو رکھ کر اوپر قبر کی شکل بنادی جائے تو کافی نہیں اور فرض ادا نہیں ہوگا۔
… کفایت المفتی میں لکھا ہے کہ اپنی زندگی میں قبر تیار کروالینا مباح ہے۔
....علامہ شامی رحمة اللہ علیہ نے تاتارخانیہ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ اپنے لئے قبر تیار رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں، اور اس پر اجر ملے گا، حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ، ربیع بن خشم، اور دیگر حضرات نے ایسا ہی کیا تھا۔ کسی کو شک ہوتو شامی‘ ج 2، ص 244، مطبوعہ مصر جدید سے رجوع کرسکتا ہے۔ فتاویٰ عالمگیری میں بھی تاتارخانیہ سے یہی نقل کیا ہے۔
… ترمذی، مشکوٰة ص 148حدیث میں پکی قبریں بنانے کی ممانعت آئی ہے، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو پختہ کرنے سے، ان پر لکھنے سے اور ان کو روندنے سے منع فرمایا۔ صحیح مسلم، مشکوٰة میں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس مہم پر بھیجا کہ میں جس مورتی کو دیکھوں اسے توڑ ڈالوں، اور جس اونچی قبر کو دیکھوں اس کو ہموار کردوں۔ بوداود، مشکوٰة ص149 میں قاسم بن محمد (جو امّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہاکے بھتیجے ہیں، فرماتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے درخواست کی کہ اماں جان! مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دونوں رفیقوں رضی اللہ عنہما کی قبور مبارکہ کی زیارت کروائیے، انھوں نے میری درخواست پر تین قبریں دکھائیں جو اونچی نہ تھی، نہ بالکل زمین کے برابر تھیں (کہ قبر کا نشان ہی نہ ہو) اور ان پر بطحا کی سرخ کنکریاں پڑی تھیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ و عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی قبور شریفہ بھی روضہ اقدس میں پختہ نہیں۔ فقہائے امت نے بوقت ضرورت کچی قبر کی لپائی کی اجازت دی ہے، اور ضرورت ہو تو نام کی تختی لگانے کی بھی اجازت ہے، جس سے قبر کی نشانی رہے، لیکن قبریں پختہ بنانے، ان پر قبے تعمیر کرنے اور قبروں پر قرآن مجید کی آیات یا میّت کی مدح میں اشعار لکھنے کی اجازت نہیں دی، قبریں زینت کی چیز نہیں، بلکہ عبرت کی چیز ہے۔ شرح صدور میں حافظ سیوطی رحمة اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ایک نبی علیہ السلام کا کسی قبرستان سے گزر ہوا تو انہیں کشف ہوا کہ قبرستان والوں کو عذاب ہو رہا ہے، ایک عرصہ کے بعد پھر اسی قبرستان سے گزر ہوا تو معلوم ہوا کہ عذاب ہٹالیا گیا، نبی علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے اس عذاب ہٹائے جانے کا سبب دریافت کیا تو ارشاد ہوا کہ پہلے ان کی قبریں تازہ تھیں، اب بوسیدہ ہوچکی ہیں، اور مجھے شرم آتی ہے کہ میں ایسے لوگوں کو عذاب دوں جن کی قبروں کا نشان تک مٹ چکا ہے۔
… قبر اندر اور باہر سے کچی ہونی چاہئے، یہ صورت کہ قبر چاروں طرف سے پکی کردی جائے اور اوپر کی سطح میں تھوڑا سا نشان کچا چھوڑ دیا جائے، یہ بھی صحیح نہیں۔
:… قبر کی چھت بھی کچی ہونی چاہئے، لیکن اگر زمین نرم ہو کہ سیمنٹ کے بلاک کے بغیر چھت ٹھہر ہی نہیں سکتی (جیسا کہ بعض مقامات پر یہ صورتحال ہے، تو باَمرِ مجبوری یہ صورت جائز ہے۔
… اگر قبر اس کے بغیر نہ ٹھہرتی ہو تو دیواروں کو پختہ کیا جاسکتا ہے، مگر قبر پکی بنانا گناہ ہے، تختی لگانا شناخت کیلئے جائز ہے، مگر شرط یہ ہے کہ آیات اور دیگر مقدس کلمات نہ لکھے جائیں، تاکہ ان کی بے حرمتی نہ ہو۔
… قبر کشادہ اور گہری کھودی جائے (کم از کم آدمی کے سینے تک ہو)۔
…قبر کو نہ زیادہ اونچا کیا جائے، نہ بالکل زمین کے برابر رہے، بلکہ قریباً ایک بالشت زمین سے اونچی ہونی چاہئے۔
…قبر کو پختہ نہ کیا جائے، نہ اس پر کوئی قبہ تعمیر کیا جائے، بلکہ قبر کچی ہونی چاہئے، خود روضہ............ اقدس کے اندر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضراتِ شیخین رضی اللہ عنہما کی قبورِ مبارکہ بھی کچی ہیں، البتہ کچھ مٹی سے لپائی کردینا جائز ہے۔
… قبر کی نہ تو ایسی تعظیم کی جائے کہ عبادت کا شبہ ہو، مثلاً: سجدہ کرنا، اس کی طرف نماز پڑھنا، اس کے گرد طواف کرنا، اس کی طرف ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونا، وغیرہ وغیرہ۔ اور نہ اس کی بے حرمتی کی جائے، مثلاً: اس کو روندنا، اس کیساتھ ٹیک لگانا، اس پر پیشاب پاخانہ کرنا، اس پر گندگی پھینکنا یا اس پر تھوکنا وغیرہ۔
… شناخت کیلئے پتھر لگانا درست ہے، مگر اس پر آیات وغیرہ نہ لکھی جائیں، شناخت کیلئے نام لکھ دیا جائے۔
… عالمگیری میں ہے کہ قبرستان میں جوتے پہن کر چلنا جائز ہے، تاہم ادب یہ ہے کہ جوتے اتاردے، اور یہ بھی لکھا ہے کہ میّت کے دفن ہونے کے بعد واپسی کیلئے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں، جو حضرات دفن کے وقت موجود ہوں وہ تدفین کے بعد کچھ دیر وہاں ٹھہر کر میّت کیلئے دعا و اِستغفار میں مشغول رہیں، اور میّت کیلئے منکر نکیر کے جواب میں ثابت قدمی کی دعا کریں۔
… بعض اوقات قبرستانوں میں اکثر قبریں ملی ملی ہوتی ہیں، اور کسی مخصوص قبر تک پہنچنے کیلئے قبروں پر چلنا… قبروں کو روندنا جائز نہیں، پس بچ بچاکر اس قبر تک جاسکتا ہے تو چلا جائے، ورنہ دور ہی سے فاتحہ پڑھ لے، قبروں کو روندنے سے پرہیز کرے۔
… حدیث میں قبروں کو روندنے، ان پر بیٹھنے اور ان سے تکیہ لگانے کی ممانعت آئی ہے، اس لئے یہ امور جائز نہیں۔
… دفن کے بعد میّت کو نکالنا درست نہیں۔ عالمگیریہ میں فتاویٰ قاضی خان سے نقل کیا ہے کہ اگر غلطی سے میّت کا رخ قبلہ سے دوسری طرف کردیا گیا، یا اس کو بائیں پہلو پر لٹادیا گیا، یا اس کا سر پائینتی کی طرف اور پاوں سرہانے کی طرف کردیا تو مٹی ڈالنے کے بعد اس کو دوبارہ کھولنا جائز نہیں، اور اگر ابھی تک مٹی نہیں ڈالی تھی صرف لحد پر اینٹیں لگائی تھیں تو اینٹیں ہٹاکر اس کو سنت کے مطابق بدل دیا جائے۔
.... مردے کو دوسری جگہ لے جانے کا حکم یہ ہے کہ بعض حضرات نے تو اس کو مطلقاً جائز رکھا ہے، اور بعض فرماتے ہیں کہ مسافت سفر 48 میل سے کم لے جانا تو صحیح ہے، اس سے زائد مسافت پر منتقل کرنا مکروہ ہے۔ یہ مسئلہ تو دفن کرنے سے پہلے منتقل کرنے کا ہے، لیکن ایک جگہ دفن کرنے کے بعد پھر مردے کو دوسری جگہ منتقل کرنا قطعاً جائز نہیں۔ درمختار وغیرہ میں لکھا ہے کہ اگر زمین نرم ہوتو تابوت میں دفن کرنا جائز ہے، ورنہ مکروہ ہے۔ تابوت کی اونچائی اتنی ہونی چاہئے کہ آدمی اس میں بیٹھ سکے، آج کل جو رواج ہے کہ میّت کو دور دراز ملکوں سے لایا جاتا ہے، اور کئی کئی دن تک لاش خراب ہوتی ہے، یہ رسم بہت سی وجوہ سے قبیح ہے۔
… میّت کی بیوہ کے علاوہ باقی گھر والوں کو تین دن تک سوگ کرنے کی اجازت ہے، اور بیوہ کو عدّت ختم ہونے تک سوگ کرنا واجب ہے۔ میّت والے گھر میں کھانا پکانے کی ممانعت نہیں، مگر چونکہ وہ لوگ غم کی وجہ سے کھانے کا اہتمام نہیں کریں گے، اس لئے میّت کے گھر والوں کو قریبی عزیزوں یا ہمسایوں کی طرف سے دو وقت کھانا بھیجنا مستحب ہے، برادری والوں کو کھانا تقسیم کرنا محض ریا و نمود کی رسم ہے، اور ناجائز ہے۔
… میّت کے گھر والوں کو ایک دن ایک رات کا کھانا دینا مستحب ہے۔
… جس گھر میں میّت ہوجائے وہاں چولہا جلانے کی کوئی ممانعت نہیں، چونکہ میّت کے گھر والے صدمے کی وجہ سے کھانا پکانے کا اہتمام نہیں کریں گے، اس لئے عزیز و اقارب اور ہمسایوں کو حکم ہے کہ ان کے گھر کھانا پہنچائیں اور ان کو کھلانے کی کوشش کریں۔ اپنے چچازاد حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی شہادت کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لوگوں کو یہ حکم فرمایا تھا، اور یہ حکم بطور استحباب کے ہے، اگر میّت کے گھر والے کھانا پکانے کا انتظام کرلیں تو کوئی گناہ نہیں، نہ کوئی عار یا عیب کی بات ہے۔
… تعزیت سنت ہے، جس کا مطلب ہے اہلِ میّت کو تسلی دینا، فاتحہ پڑھنے کیلئے میّت کے گھر جانے کی ضرورت نہیں، تعزیت کیلئے جانا چاہئے، فاتحہ اور ایصالِ ثواب اپنے گھر پر بھی کرسکتے ہیں، جو شخص ایک دفعہ تعزیت کرلے، اس کا دوبارہ تعزیت کیلئے جانا سنت نہیں، تین دن تک افسوس کا حکم ہے، دور کے لوگ اس کے بعد بھی اظہارِ افسوس کرسکتے ہیں، فاتحہ کی غرض سے بیٹھنا خلافِ سنت ہے۔
… اکابر و مشائخ کو مساجد یا مدارس کے احاطے میں دفن کرنے کو فقہائے کرام رحمة اللہ علیہم نے مکروہ لکھا ہے۔
بحوالہhttp://www.okaz.com.sa/new/Issues/20131201/Con20131201658442.htm"http://shaheedeislam.com/aap-k-masaul-or-un-ka-hal/ap-k-masail-or-unka-hal-jild-3/1300-miya



How postmortems allowed in Islam for Muslim lady?
By: S. A. Sagar
A very important and fundamental principle should be remembered with regards to the human body in that the human body, whether dead or alive, is considered sacred according to Islam. Thus cutting it, mutilating it and tampering with it in any way is considered blameworthy and unlawful.
Allah Most High says:
............And verily we have honoured the children of Adam............. (Surah al-Isra, V.70)
A human body is sacred even after death. The Messenger of Allah (Allah bless him & give him peace) said: ............Breaking the bone of a dead person is similar (in sin) to breaking the bone of a living person............. (Sunan Abu Dawud, Sunan Ibn Majah & Musnad Ahmad)
Imam, Abu Ja............far al-Tahawi (Allah have mercy on him) states in the explanation of this Hadith:
............The Hadith shows that the bone of a dead person has the same sanctity and honour as the bone of living person............. (Mushkil al-Athar)
Allama Ibn Abidin (Allah have mercy on him) states:
............A human being is honoured according to Shariah even if one is a non-believer (kafir), and the meaning is that one............s body and organs are sacred. Hence, it will not be permissible to even break the bone of a dead non-believer............s body............. (Radd al-Muhtar)
Thus the human body, dead or alive, has great significance. It is honoured and sacred, and because of the sanctity that is attached to it, it will be unlawful to tamper with it, cut parts of it or dishonour it in any way.
Based on this very important principle, many scholars have declared that carrying out post-mortems is unlawful, because it violates the sanctity of the human body. Cutting and dissecting the human body cannot be considered permissible regardless of what beneficial results may stem out from carrying out a post-mortem.
Moreover, in carrying out a post-mortem, the body of the deceased person will be stripped naked. This, in itself, is also not permitted without a genuine and valid reason, they say.
Also, the body will be denied the many injunctions and rituals prescribed by Shariah, such as promptly burying it, not transferring it from one place to another, ritual bath (ghusl), shrouding (kafn), etc.
Due to the above reasons, these contemporary scholars have declared that post-mortems are unlawful unless when there is a genuine need, such as for criminal identifications and when one is forced by law.
They state that Muslims, living in places where post-mortems become necessary by law, should struggle in order to avoid post-mortems, because the benefits can be obtained from other sources also. However, if one is compelled by law, it would be permitted due to need and necessity.
On the other hand, some contemporary scholars are somewhat relaxed with the issue of post-mortems. They put forth examples of Islamic jurisprudence (fiqh) where permission is given to cut open the dead body due to need. For example:
If a pregnant woman dies with her baby alive in her stomach, it will be necessary to cut open her body and remove the baby. However, if the baby was also dead, it will not be permitted to cut open her body. (See: al-Fatawa al-Hindiyya and Fath al-Qadir)
Imam al-Kasani (Allah have mercy on him) states:
............If a pregnant woman died with her child trapped in her stomach, then if it is thought the child will be alive, her stomach will be cut open, because we have been faced with two evils and we are choosing the lesser of the two. Cutting open the dead mother............s stomach is lesser of an evil than killing the living baby.............
Another example is that of a person who unjustifiably and unlawfully swallowed a precious item, like a gemstone, of another person and then died. In such a case, if the one whose precious item he swallowed was to demand compensation, then if the deceased person left some money behind, it will be paid from his leftover wealth. However, if he left nothing behind, his body will be cut open and the precious stone or item will be removed from him and returned to its owner. (See: Fath al-Qadir and al-Fatawa al-Hindiyya)
Thus, in light of the above two examples, this group of scholars give permission for carrying out post-mortems. They state that, based on the rule of ............choosing the lesser of two evils............ post-mortems would be justified even for medical research and scientific purposes.
The reason being-they say- is that in carrying out medical research on few dead bodies, we are saving the lives of many others. By compromising one aspect (of dishonouring the human body) there is larger benefit at stake. By carrying out post-mortems, medical students will benefit, justice will prevail and also contagious diseases will be controlled.
In my personal view, I think post-mortems should only be restricted to cases of need, such as when one is compelled by law for the purpose of criminal identification. However, carrying out post-mortems for medical research should be avoided, especially when the objective can be obtained by operating on animals and plastic bodies.
As far as the work of the doctor is concerned, if post-mortem is a legal requirement, then it would be permitted for him/her to perform the post-mortem. However, if that is not the case, one should avoid it.
And Allah knows best
Muhammad ibn Adam al-Kawthari
Darul Iftaa, Leicester, UK, http://spa.qibla.com/issue_view.asp?HD=1&ID=3579&CATE=168

011213 khatoon maiyyat ka postmortum kiyo karwaye lady doctor sey by s a sagar

جماعت چھوٹ جائے تو نماز مسجد میں ادا کرے یا گھر میں

جماعت چھوٹ جائے تو نماز مسجد میں ادا کرے یا گھر میں
سوال: ایک آدمی  کہتا ہے میں نے  کسی عالم  سے سنا ہے۔ اگر نماز جماعت سے چھوٹ جائے تو نماز گھر میں ادا کی جائے نہ کہ مسجد میں اور مسجد  میں جانے سے گویا لوگوں کو گواہ  بنایا جارہا ہے کہ میری جماعت چھوٹ گئی تو یہ جائز ہے یا نہیں؟
جواب: جو باتیں گناہ  کے دائرے میں آتی  ہیں۔ ان کا مسجد  میں کرنا گناہ ہے۔ چونکہ  نماز باجماعت ادا کرنا واجب  ہے یا سنت  مؤکدہ ہے۔ اس لئے نماز جماعت سے چھوڑکر مسجد میں پڑھنا گناہ ہوا۔ لہذا اسے گھر  پر ہیں ادا کریں جیسا کہ  ”کتاب الفتاویٰ” میں ہے:
”جو باتیں گناہ کے دائرے میں آتی ہیں ان کا مسجد میں ادا کرنا گناہ بالائے گناہ ہے۔ ایسی باتیں جو دین میں مطلوب ہوں جیسے ذکر، علمی، مذاکرہ، درس، دعوتی بیانات اور تلاوت وغیرہ ان کو مسجد  میں کرنا مستحب ہے.” ۔
(کتاب الفتاویٰ چوتھا حصہ صفحہ 242 مولانا خالد سیف اللہ الرحمانی)
http://www.suffahpk.com/jamat-chot-jay-to-namaz-masjid-mai-ada-kary-ya-ghar-mai
/

................
اگر اتفاق سے جماعت چھوٹ جائے تو سنت طریقہ یہی ہےکہ مسجد کی بجائے گھر میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کی جائے،
http://www.banuri.edu.pk/readquestion/masjid-may-dosri-jamat-ka-hukum/-0001-11-30

...................
ترک جماعت اور نماز توڑنے کے اعذار
کن اعذار کی بنا پر جماعت ساقط ہوجاتی ہے اور کن اعذار کی بناء پر نماز توڑ سکتے ہیں؟؟
بحوالہ مدلل بحث فرمائیں…..
الجواب وبا اللہ التوفیق.
اسلام ایک اجتماعی مذہب ہے. اسی لئے اسکی بہت سی عبادات اجتماعی طور پر ادا کی جاتی ہیں. انہی میں سے نماز با جماعت بھی ہے جو امت کے مردوں پر سنت
مؤکدہ (واجب کے قریب)  ہے. احادث شریفہ میں نماز با جماعت کی نہایت تاکید اور فضیلتیں وارد ہوئی ہیں. ایک حدیث میں ہے کہ با جماعت نماز اکیلے نماز کے مقابلہ میں ستائیس گنا زیادہ فضیلت رکھتی ہے.
(بخاری  شریف)
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ جوشخص اچھی طرح وضو کرکے فرض نماز کی با جماعت ادائیگی کے لئے گیا اور امام کے ساتھ نماز پڑھی تو اسکے سب گناہ معاف کردئے جاتے ہیں. وغیرہ وغیرہ
(کتاب المسائل)
البتہ بعض صورتوں میں شریعت نے جماعت چھوڑنیکی اجازت دی ہے.
جو مندرجہ ذیل ہیں
★ بارش کا ہونا. یعنی بارش اتنی زور سے ہو رھی ہے کہ مسجد تک جانا مشکل ہے تو گھر پر نماز پڑھنا جائز ہے.اور اگر مسجد جانے میں کوئی خاص دشواری نہ ہو تو پھر جماعت کے ساتھ نماز پڑھنی ضروری ہے.
★ ٹھنڈی کا ہونا یعنی سخت سردی ہو اور جانا نقسان دہ ہو تو ترک جماعت کی گنجائش ہے. لیکن افضل یہی ہے کہ جماعت کے ساتھ نماز ادا کرے.
★ خوف کا ہونا. یعنی کسی دشمن کا کوف ہے یا ظالم یا درندہ کا خوف ہے یا مال پر چور ڈاکو کا خوف ہے کہ اگر جماعت سے نماز پڑھنے گیا تو مال چوری ہو جائے
گا تو جماعت کی تاکید ختم ہو جائے گی. یہی حکم کرفیو میں ترک جماعت کا ہے.
★  اندھیرا کا ہونا یعنی ایسا سخت اندھیرا ہو کہ مسجد کا راستہ دکھائی نہ دے رہا ہو تو ایسی صورت میں جماعت کی حاضری لازم نہیں.
★ روک دیا جانا. یعنی حکومت کی طرف  سے یا کسی اور کی طرف سے ایسا مجبور ہو گیا کہ نماز میں نہیں جا سکتا تو جماعت کی تاکید جاتی رہے گی.
★  اندھا ہونا یعنی جو شخص اندھا ہے اسے مسجد تک جانا دشوار ہے تو اس پر جماعت کی حاضری لازم نہیں ہے.
★ فالج پڑ جانا ( بدن کا ڈھیلا یا سن پڑ جانا) یعنی اگر کوئی شخص فالج زدہ ہے تو اس پر جماعت کی حاضری لازم نہیں ہے.
★ ہاتھ یا پیر کا کٹا ہوا ہونا یعنی اگر کسی شخص کے ہاتھ پیر کٹے ہوئے ہو تو اس سے جماعت کی حاضری ساقط ہو جاتی ہے.
★ بیمار ہونا. یعنی اگر کوئی شخص سخت بیماری میں مبتلا ہو تو اسے بھی جماعت کی نماز ترک کرنے کی گنجائش ہے.
★ چلنے پھر نے سے معذور ہونا یعنی اگر کوئی شخص چلنے پھرنے سے عاجزہو تو اس سے بھی جماعت کی حاضری ساقط ہو جاتی
ہے.
★ کیچڑ کا ہونا. یعنی اگر راستے میں کیچڑ ہو تو بھی جماعت کی حاضری ساقط ہو جاتی ہے. لیکن بھتر یہی ہے کہ جماعت میں شرکت کی جائے.
★ اپاہج ہونا. یعنی جو شخص اپاہج ہو اس سے بھی جماعت کی حاضری ساقط ہوجاتی ہے.
★ بھت بورھا ہونا یعنی اگر کوئی شخص بوڑھاپے کی وجہ سے چلنے پھر نے سے عاجز ہو تو اس سے بھی جماعت ساقط ہے.
★ فقہ کا تکرار کرنا  یعنی اگر فقہ کا تکرار ہو رہا ہے اور اس کو چھوڑ کر جانے میں یہ اندیشہ ہے کہ آئندہ یہ فوت ہو جائے گا یعنی اگر با جماعت نماز میں شریک ہوا تو تکرار وغیرہ فوت ہو جائے گا تو ایسی صورت میں ترک جماعت جائز ہے. لیکن اس کی عادت بنالینا اور جماعت کے وقت تکرار کرتے رہنا ممنوع ہے.
★  کھانے کا آجانا کہ دل اس کی طرف متوجہ ہو یعنی شدید بھوک لگی ہے اور کھانا سامنے آ گیا تو ایسی صورت میں جماعت ساقط ہوجاتی ہے. لھذا پہلے کھانے سے فارغ ہو جائے پھرنماز پڑھے.
★ سفر کا ارادہ کرنا یعنی اگر باجماعت نماز پڑھے گا تو قافلہ چلاجائے گا یا گاڑی چھوٹ جائے گی تو ایسی صورت مین بھی جماعت ساقط ہوجاتی ہے.
★  مریض کے پاس ٹہرنا یعنی اگر کسی مریض کی تیمار داری میں ہے اب اگر جماعت سے نماز پڑھنے جائے گا تو اس مریض کو نقصان لاحق ہوگا یا اس کو تنہائی میں وحشت ہوگی تو ایسی صورت میں بھی جماعت ساقط ہو جاتی ہے.
★ رات میں سخت آندھی کا ہونا یعنی اگر رات میں ہوا تیز ہے آندھی چل رہی ہے اور جانا دشوار ہے تو ایسی صورت میں بھی جماعت ساقط ھو جاتی ہے.ابتہ دن
میں اس کو عذر شمار نہیں کیا ہے. کیونکہ رات میں مشقت زیادہ ہے.
نوٹ +  جو شخص با جماعت نماز پڑھنے کا عادی ہے ایسی شخص کو مذکورہ بالا اعذار میں سے کوئی عذر پیش آگیا جس کی وجہ سی تنہاء نماز پڑھلی. مگر جماعت
میں شریک ہونے کی نیت تھی تو اس کو جماعت ہی کا ثواب ملے گا.
( انوار الایضاح  ۲۶۷)
۲ ★ نماز اللہ تعالی کی بھت عظیم عبادت ہے.اس کی اہمیت کے لئے بس اتنا ہی کافی ہے کہ کسی بھی انبیاء کی شریعت اس سے کھالی نہیں ہے. حدیث شریف میں ہے کہ اپنے اعمال کو باطل مت کرو.( درس ترمذی) اور نماز کو توڑنے سے بھی اپنے عمل کو باطل کرنا لازم آتا ہے. اس لئے بغیر عذر کے نماز کو توڑنا جائز نہیں ہے. البتہ بعض صورتوں میں شریعت نے نماز توڑ نے کی اجازت دی ہے. جو
مندرجہ ذیل ہیں.
★ نماز پڑھنے میں ریل چلدے اور اس پر اپنا اسباب رکھا ہو یا بال بچے سوار ہو  تو نماز توڑکے بیٹھ جانا درست ہے.
★ سامنے سانپ آ گیا تو اس کے ڈر سے نماز کا توڑ دینا درست ہے.
★ رات کو مرغی کھلی رہ گئی اور بلی اسکے پاس آ گئی تو اس کے خوف سے نماز توڑنا دینا درست ہے.
★  نماز میں کسی نے جوتی اٹھالی اور ڈر ہے کہ اگرنماز نہ توڑیگی تو کوئی لیکر بھاگ جائے گا تو اس کے لئے نیت توٍڑ دینا درست ہے.
★ کوئی نماز میں ہے اور ہانڈی ابلنے لگے جس کی قیمت تین چار آنہ ہے تو نماز توڑ کر درست کردینا جائز ہے. غرضکہ جب ایسی چیز کے ضائع ہو جانے یا خراب ہوجانے کا ڈر ہو جسکی قیمت تین چار آنے ہو تو اس کی حفاطت کے لئے نماز کا توڑ دینا درست ہے.
★ اگر نماز میں پیشاب پاخانہ زور کرے تو نماز توڑ دے اور فارغ ہوکر پھر پڑھے.
★ اگر آندھی عورت یا مرد جا رہا ہے اور آگے کنواں ہے اور اس میں گرجانے کا ڈر ہے تو اسکے بچانے کے لئے نماز توڑنا فرض ہے. اگر نماز نہیں توڑی اور وہ گرکر مر گیا تو گنہگار ہوگا.
★ کسی بچہ وغیرہ کے کپڑوں میں آگ لگ گئی اور وہ جلنے لگا تو اس کے لئے بھی نماز توڑ دینا فرض ہے.
★ ماں باپ – دادا- دادی- نانا- نانی کسی مصیبت کی وجہ سے پکارے تو فرض نماز کو توڑدینا فرض ہے. جیسے کسی کے ماں باپ وغیرہ بیمار ہے اور پاخانہ
وغیرہ کسی ضرورت کی وجہ سے گئے اور آنے میں یا جانے میں پیر پھسل گیا اور گر پڑے تو نماز توڑکر انہیں اٹھالے.لیکن اگر کوئی اور اٹھانے والا ہو تو بلا ضرورت نماز نہ توڑے.
★ اور اگر ابھی گرا نہیں ہے لیکن گرنے کا ڈر ہے اور اس نے اس کو پکارا تب بھی نماز توڑ دے.
★ اور اگر کسی ایسی ضرورت کے لئے نہیں پکارا یوں ہی پکارا ہے تو فرض نماز کا توڑنا درست نہیں ہے.
★ اور اگر نفل یا سنت پڑھتے ہو اس وقت ماں باپ نانا نانی دادا دادی پکاریں. لیکن ان کو یہ معلوم نہ ہو کہ فلاں نماز پڑھتا ہے یا پڑھتی ہے تو ایسے وقت بھی نماز کو توڑ کر ان کی بات کا جواب دینا واجب ہے. چاہے کسی مصیبت کی وجہ سے پکاریں اور چاہے بے ضرورت پکاریں دونوں کا ایک ہی حکم ہے. اگر نماز
توڑ کر بات نہ کرے تو گناہ ہوگا. اور اگر وہ جانتے ہوں کہ  نماز پڑھتے ہیں پھر بھی پکاریں تو نماز نہ توڑے. لیکن اگر کسی ضرورت سے پکاریں اور ان کو
تکلیف ہونے کا ڈر ہو تو نماز توڑدے.
اختری بھشتی زیور۲۷.
واللہ اعلم
https://hamzadiwan1.wordpress.com/2016/07/12/%D8%AA%D8%B1%DA%A9-%D8%AC%D9%85%D8%A7%D8%B9%D8%AA-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%86%D9%85%D8%A7%D8%B2-%D8%AA%D9%88%DA%91%D9%86%DB%92-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D8%B9%D8%B0%D8%A7%D8%B1/

Tuesday, 30 January 2018

برا کون ہے؛ زمانہ یا انسان؟

ایس اے ساگر
کتنی عجیب بات ہے کہ انسان کے ساتھ جب بھی کچھ بُرا ہوتا ہے تو وہ زمانے کو مورد الزام ٹھہرانے لگتا ہے کہ زمانہ ہی خراب ہے۔ اسی طرح جب بُرے حالات کو دیکھتا ہے تو کہتا ہے کہ آج کا زمانہ کتنا بُرا ہے، پچھلا زمانہ ایسا نہ تھا یا پچھلا زمانہ بُرا نہ تھا۔حقیقت بات یہ ہے کہ انسان کو آج تک زمانے کا مطلب سمجھ میں‌ہی نہیں‌آیا ہے کہ زمانہ ہے کیا اور زمانہ کہتے کس کو ہیں۔ بس ایک عادت بس چکی ہے کہ کچھ بھی غلط ہو جائے تو بِنا سوچے سمجھے الزام زمانے کو دے دو۔ ہمیں‌ تو سب سے پہلے یہ پتہ ہونا چاہیے کہ زمانہ ہے کیا؟
کاش ایسے لوگوں نے قرآن مجید کی سورہ  العصر، آیت نمبر 1، وَ الۡعَصۡرِ ۙ
ترجمہ: زمانے کی قسم ساجد تاج سے رجوع کیا ہوتا جس کی تفسیر میں مفتی محمد تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں کہ زمانے کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جو لوگ ایمان اور نیک عمل سے محروم ہوتے ہیں، وہ بڑے گھاٹے میں ہیں اس لئے کہ ایسی بہت سی قوموں کو دنیا ہی میں آسمانی عذاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور ہر زمانے میں اللہ کی نازل کی ہوئی کتابیں اور اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے پیغمبر خبر دار کرتے رہے ہیں کہ اگر ایمان اور نیک عمل کی رَوِش اختیار نہ کی گئی تو آخرت میں بڑا سخت عذاب انسان کا منتظر ہے۔
ساجد تاج رقمطراز ہیں کہ زمانہ کوئی اچھے بُرے لوگوں کا گروپ نہیں جو آج کچھ ہے تو کل کچھ اور ہو گا۔ زمانہ انسان سے نہیں ‌ہے بلکہ انسان زمانے سے ہے۔ انسان بُرا ہوتا ہے زمانہ نہیں، انسان خراب ہوتا ہے زمانہ نہیں، انسان ظالم ہوتا ہے زمانہ نہیں، بیوفائی اور دھوکہ انسان کرتا ہے زمانہ نہیں۔ زمانہ تو اللہ تعالی سے ہے یہ سورج، چاند و ستارے، زمین و آسمان، درخت، پہاڑ ، ہوا، پانی، سمندر، دریا، دن و رات وغیرہ یہ سب زمانے کا حصہ ہیں۔ زمانہ انسان کے کہنے پر نہیں چلتا بلکہ یہ تو اللہ تعالی کے تابع ہیں جو اُس کے حکم سے اپنے اپنے کام سر انجام دے رہیں ہیں۔ زمانہ انسان کا محتاج نہیں بلکہ انسان زمانے کا محتاج ہے۔ زمانے کو بُرا کہنے کا مطلب نعوذ باللہ نعوذ باللہ نعوذ باللہ اللہ تعالی کو بُرا کہنے کے برابر ہے۔ جو اللہ تعالی کو تکلیف دینے کے برابر ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
قال النبی صلی اللہ علیھ وسلم قال اللہ تعالی یوذینی ابن آدم، یسب الدھر بیدی الامر اقلب اللیل والنھار۔
ترجمعہ: “نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ابن آدم مجھے تکلیف پہنچاتا ہے، زمانے کو بُرا بھلا کہتا ہے۔ حالانکہ میں ہی زمانہ کا پیدا کرنے والا ہوں۔ میرے ہی ہاتھ میں تمام کام ہیں، میں جس طرح چاہتا ہوں رات اور دن کو پھیرتا رہتا ہوں۔“
(صحیح بخاری (مترجم) جلد 8 صفحہ 596 کتاب التوحید جلد نمبر 6 کتاب التفسیر باب وما یھلکنا الا الدھر۔ صفحہ نمبر 386)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول صلی اللہ علیھ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیھ وسلم نے فرمایا:
یقول اللہ استقرضت عبدی فلم یقرضنی وشتمنی عبدی وھو لایدری مایقول وادھراہ وادھراہ وانالدھر
ترجمعہ: اللہ تعالی فرماتا ہیں کہ میں‌ نے اپنے بندے سے قرض مانگا اس نے مجھے قرض نہ دیا اور میرے بندے میں لاعلمی میں مجھے گالی دی اور وہ کہتا ہے ہائے زمانہ ہائے زمانہ۔ حالانکہ زمانہ درحقیقت میں ہوں۔
مستدرک الحاکم کتاب الزکاتہ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 418 صھیح الترغیب والترھیب، کتاب الادب باب الترھیب من السباب جلد نمبر 3 صفھہ نمبر 66 سلستھ الاحادیث الصحیحتھ جلد نمبر 7 جز نمبر 3 صفحہ نمبر 1395 حدیث نمبر 3477
ہم زمانے کو جھوٹا، مکار، دغاباز، فریبی، بُرا، خراب، ذلیل کہتے رہتے ہیں لیکن درحقیقت ان تمام چیزوں کی جڑ واحد انسان ہی ہے۔ جو جھوٹ بھی بولتا ہے، دھوکا بھی دیتا ہے، ظلم بھی کرتا ہے، بیوفائی بھی کرتا ہے، خرابیاں بھی پیدا کرتا ہے، جبکہ اللہ تعالی نہ جھوٹ بولتا ہے، نہ وعدہ خلافی کرتا ہے، نہ ظلم کرتا ہے اور نہ ہی بیوفائی کرتا ہے۔
زمین میں فساد کون کرتا ہے؟ “انسان“
قتل و غارت کون کرتا ہے؟ “انسان “
جھوٹ کون بولتا ہے؟ “انسان“
ظلم کون کرتا ہے؟ “انسان“
چوریاں کون کرتا ہے؟ “انسان“
غیبت کون کرتا ہے؟ “انسان“
زانی کون ہے؟ “انسان“
بیوفائی کون کرتا ہے؟ “انسان“
شراب کون پیتا ہے؟ “انسان“
ناپ تول میں کمی کون کرتا ہے؟ “انسان“
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ سارے کام انسان کرتا ہے تو زمانہ کیسے بُرا ہو گیا؟ زمانہ کیسے خراب ہو گیا ؟ زمانہ کیسے جھوٹا ہو گیا؟ زمانہ کیسے ظالم ہو گیا؟ انسان اپنے لئے بُرے حالات خود پیدا کرتا اور الزام زمانے کے سر منڈھ دیتا ہے۔ عام روش ہے کہ انسان سے جب کچھ نہیں ہوتا یا وہ بے بس ہو جاتا ہے تو وہ دوسروں پر ٹھیکرے پھوڑنے لگتا ہے۔ انسان جب پریشان یا بیمار ہوتا ہے تو یہ جملہ سننے کا ملتا ہے کہ وقت بُرا آگیا ہے اب وہ بُرا زمانہ نہیں رہا بُرا زمانہ آگیا ہے تو یہ سراسر اللہ تعالی کو تکلیف دینے کے برابر ہے۔ لوگوں کے بُرے حالات، پریشانیاں یا بیماریوں کی وجہ زمانہ نہیں بلکہ انسان خود ہے۔
آپ صلی اللہ علیھ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لاتسبوا الدھر قال اللہ رزوجل انا لدھر، الایام واللیالی (1) جددھا وابلیھا، وآتی بملوک بعد ملوک (2)
ترجمعہ: زمانے کو گالی مت دو، اللہ عزوجل فرماتے ہیں زمانہ میں ہوں، دن اور رات کو نیا اور پرانا میں کرتا ہوں اور ایک بادشاہ کے بعد دوسرے بادشاہ کو بادشاہی دیتا ہوں۔
1۔ کتاب الدعر، اللطبرانی صفحہ نمبر 568 ، مجمع الزوائد 8/71
2۔ صحیح الترغیب والترھیب جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 66 کتاب الادب باب الترھیب من السیاب

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:
عن النبی صلی اللہ علیھ وسلم قال لا تسموا العنب الکرم، ولا تقولوا: خیبتھ الدھر فان اللہ ھو الدھر
ترجمعہ: نبی صلی اللہ علیھ وسلم نے فرمایا “انگور“ عنب کو “کرم“ نہ کہو اور یہ نہ کہو کہ ہائے زمانہ کی نامردای، کیونکہ زمانہ تواللہ ہی کے اختیار میں ہے۔
صحیح بخاری (مترجم) جلد 7 صفحہ 536 کتاب الادب باب لاتسبوا الدھر
بات ہے سمجھنے کی پر سمجھے کون؟
زمانے کو بُرا کہنے والے ذرا اپنا گریبان جھانک کر تو دیکھ
اللہ سے گلہ کرتا ہے اپنی غلطیوں پہ نظر ڈال کر تو دیکھ
کہتا ہے کہ زمانے کا پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے ساجد
سچے دل سے اپنی اس بات کو مان کر تو دیکھ
سمجھے جو اگرانسان تو بات ہے سیدھی سی
یہ دنیا ہے فانی یہ دنیا ہے عام سی
کھو رہے ہیں ہم جہالت کی اندھیر نگری میں ساجد
سوچتا ہوں کہ رکھتے ہیں خواہشیں ہم کتنی عجیب سی
حالانکہ بعض نے آپس کے معاملات سدھارنے کے لئے قران حكيم كى نو باتوں پر عمل کرنے کی ترغیب دی ہے:
1- فتبينوا:
کوئی بھی بات سن کر  پھیلانے سے پہلے تحقیق کرلیا کرو. کہیں ایسا نہ ہو کہ بات سچ نہ ہو اور کسی کوانجانے میں نقصان پہنچ جائے۔
2 - فأصلحوا:
دو بھائیوں کے درمیان صلح کروادیا کرو. تمام ایمان والے آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
3- وأقسطوا:
ہر جھگڑے کو حل کرنے کی کوشش کرو اور دو گروہوں کے درمیان انصاف کرو. الله کریم انصاف کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔
4 - لا يسخر:
کسی کا مذاق مت اڑاؤ. ہو سکتا ہے کہ وہ الله کے نزدیک تم سے بہتر ہو۔
5 - ولا تلمزوا:
کسی کو بے عزّت مت کرو۔
6- ولا تنابزوا:
لوگوں کو برے القابات
(الٹے ناموں) سے مت پکارو.
7- اجتنبوا كثيرا من الظن:
برا گمان کرنے سے بچو کہ کُچھ گمان گناہ کے زمرے میں آتے ہیں۔
8 - ولا تجسَّسُوا:
ایک دوسرے کی ٹوہ میں نہ رہو۔
9- ولا يغتب بعضكم بعضا:
تُم میں سےکوئی ایک کسی دوسرے کی غیبت نہ کرے کہ یہ گناہ کبیرہ ہے اور اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف ہے۔
(سورہ الحجرات)
اللہ تعالٰی امت کو اخلاص کیساتھ عمل کرنے کی تو فیق عطا فرمائے! 

خلجی کے ساتھ ناانصافی


دہلی پر 20 سال حکومت کرنے والا عوامی مفاد کا زبردست تحفظ کرنے والا علاءالدین خلجی آج مفاد پرستوں کے نشانہ پر ہے. فلم 'پدماوتی' میں علاء الدین خلجی کا کرادار بالی ووڈ اداکار رنویر سنگھ ادا کر رہے ہیں. میڈیا رپورٹس شاہد ہیں کہ ترک نژاد علاء الدین خلجی سنہ 1296 میں دہلی کے سلطان بنے تھے اور ان کے 721 سال بعد ایک فلم 'پدماوتی' بنی ہے جس میں بالی وڈ اداکار رنویر سنگھ ان کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
ہیرو کو بنادیا ویلن:
کسی بھی فلم میں تین کردار ہیرو، ہیروئن اور ولن اہم ہوتے ہیں۔ اس فلم کے ولن خلجی ہیں۔ لیکن کیا 20 سال تک دہلی کے سلطان رہنے والے علاءالدین خلجی واقعی ولن تھے یا تاریخ ان کے بارے میں کچھ اور کہتی ہے؟ معروف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبۂ تاریخ کے سربراہ اور ہندوستان کی عہدِ وسطیٰ کی تاریخ کے ماہر پروفیسر سید علی ندیم رضوی کہتے ہیں:
'فلم پدماوتی میں افسانوی کردار مہارانی پدمنی کو کس طرح سے دکھایا گیا ہے اس پر تو سب مخالفت کر رہے ہیں، لیکن بھنسالی (فلمساز) نے اصل ناانصافی علاء الدین خلجی کے ساتھ کی ہے۔'
تاریخی کردار:
پروفیسر سید علی ندیم رضوی کے مطابق: 'اس فلم میں علاء الدین خلجی کو اس طرح پیش کیا گیا ہے جیسے وہ کوئی وحشی، سفاک، جنگلی اور ظالم حکمراں ہو، نوچ نوچ کر کھاتا ہو، عجیب و غریب کپڑے پہنتا ہو۔ لیکن درحقیقت وہ اپنے دور کے بہت مہذب شخص تھے جنھوں نے کئی ایسے اقدامات کیے جن کے اثرات آج تک نظر آتے ہیں۔'
پروفیسر رضوی کہتے ہیں: علاء الدین خلجي ایک تاریخی کردار ہے، ان کی زندگی کا مکمل ریکارڈ موجود ہے، ان کا شمار ہندوستان کے سب سے روشن خیال حکمرانوں میں ہوتا ہے۔' دہلی پر ترک سلطنت کے آغاز کے بعد خلجی نے ہندوستانیوں کو بھی حکومت میں شامل کیا تھا۔ پروفیسر رضوی کہتے ہیں: 'خلجی سلطنت سے پہلے دہلی پر حکومت کرنے والے سلاطین التمش، غیاث الدین بلبن اور رضیہ سلطان نے حکومت میں مقامی لوگوں کو شامل نہیں کیا تھا۔ صرف ترکوں کو ہی اہم عہدے دیے جاتے تھے اس لیے اسے ترک حکومت بھی کہا جاتا تھا۔'
قیمت پر کنٹرول کی پالیسی:
پروفیسر رضوی کا کہنا ہے کہ 'جلال الدين خلجی کے دہلی کا سلطان بننے کے ساتھ ہی ہندوستانی لوگوں کو حکومت میں شامل کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اسے خلجی انقلاب بھی کہا جاتا ہے۔ علاء الدین خلجی نے اس کام کو آگے بڑھایا اور مقامی لوگوں کے حکومت میں شمولیت کے پیش نظر یہ صرف ترکوں کی حکومت ہی نہیں رہ گئی تھی بلکہ ہندستانیوں کی حکومت بھی تھی۔'
پروفیسر رضوی کہتے ہیں کہ 'جس گنگا جمنی تہذیب کے لئے ہندوستان مشہور ہے اور جسے بعد میں اکبر نے آگے بڑھایا اس کی ابتدا علاء الدین خلجی نے ہی کی تھی۔' علاء الدین خلجی کی اشیا اور چیزوں کی قیمت پر کنٹرول کرنے کی پالیسی اس دور کا انقلابی قدم تھا اور کسی کرشمے سے کم نہیں۔ علاء الدین خلجی نے بازار میں فروخت ہونے والی ہر شے کی قیمت طے کردی تھی۔
جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر نجف حیدر کہتے ہیں کہ 'بازار سے متعلق علاء الدین خلجی کی پالیسیاں بہت مشہور ہیں۔ انھوں نے نہ صرف بازار کو کنٹرول کیا تھا بلکہ چیزوں کے دام بھی مقرر کر دیے تھے۔‘
ہر چیز کے لئے قیمت مقرر:
بین الاقوامی جرنل آف اپلائیڈ سائنسز میں شائع تاریخ داں روچی سولنکی اور بزنس ایڈمنسٹریشن کے لیکچرر ڈاکٹر منوج کمار شرما کے ایک مضمون کے مطابق علاء الدین خلجی نے اپنے دور میں ہر چیز کے دام طے کر دیے تھے۔ ایک اعلیٰ نسل کے گھوڑے کی قیمت 120 ٹکا تھی، جب کہ دودھ دینے والی بھینس کی چھ ٹکے اور دودھ دینے والی گائے کی قیمت چار ٹکے طے تھی۔ اس کے علاوہ سارے اناج گندم، چاول، جو، باجرہ وغیرہ کی قیمتیں بھی مقرر کی گئیں۔ مقررہ قیمت سے زیادہ فروخت کرنے پر سخت کارروائی کی جاتی تھی۔ اس زمانے کے مورخ ضیاء الدین برنی (1285-1357) کے مطابق خلجی نے دہلی میں ایسا نظام قائم کیا تھا جس میں مختلف چیزوں کے لئے مختلف بازار تھے۔ فلم میں مبینہ طور پر علاء الدین خلجی کو عجیب طبیعت کے مالک کے طور پر پیش کیا گيا ہے
مثال کے طور پر، کھانے کی اشیا کے لئے ایک علیحدہ بازار تھا، مہنگی اشیا جیسے کپڑے، تیل گھی اور مویشیوں کے لیے الگ الگ بازار تھا۔
پروفیسر حیدر یہ بھی کہتے ہیں کہ علاء الدین خلجی کے بازار میں قیمت پر کنٹرول کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کے پاس ایک بڑی فوج تھی جسے اشیا مہیا کروانے کے لئے انھوں نے قیمت کا تعین کیا تھا۔
ذخیرہ اندوزی پر شکنجہ:
ذخیرہ اندوزی روکنے کے لئے خلجی نے شاہی گودام بنوائے تھے جن میں بڑی مقدار میں اشیائے خوردنی رکھی جاتی تھی اور یہیں سے آڑھتیوں کو مہیا کرائی جاتی تھی تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ بازار میں کسی چیز کی کمی نہ ہو اور ذخیرہ اندوزی نہ کی جاسکے۔ کسی بھی کسان، کاروباری یا آڑھتی کو مقررہ حد سے زیادہ خوراک رکھنے کی اجازت نہیں تھی اور نہ ہی مقررہ قیمت سے زیادہ پر فروخت کرنے کی اجازت تھی۔ خلجی نے زمینوں میں بھی اصلاح کی تھی۔
زرعی اصلاحات:
پروفیسر رضوی کا کہنا ہے کہ خلجی کے سب سے بڑے کاموں میں سے ایک زرعی اصلاحات تھیں۔ ان کے مطابق 'یہ گورننس میں مقامی لوگوں کو جگہ دینے کا نتیجہ تھا اور مقامی لوگوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے بھی کئی فیصلے کئے گئے۔ ’خلجی نے دہلی سلطنت کے علاقے میں زمین کا سروے کروایا اور زمین کی اقسام طے کی گئی۔ خالصہ میں پیداوار کا 50 فی صد ٹیکس میں لیا جاتا تھا اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا ٹیکس نہیں لیا جاتا تھا۔‘ 
علاءالدین خلجی نے شاہی گودام تعمیر کروائے تھے تاکہ ذخیرہ اندوزی کو روکا جاسکے
خلجی نے کسانوں اور حکومت کے درمیان سے ثالث کو ہٹا دیا تھا۔ زرعی نظام میں بہتری کے ساتھ، خلجی نے ایماندار انتظامیہ کو یقینی بنایا۔
علاء الدین خلجی کا بڑا کارنامہ منگولوں سے ہندوستان کی حفاظت کرنا بھی تھا۔ انھوں نے دہلی سلطنت کی حدود کو محفوظ رکھا اور منگولوں کے حملوں کو پسپا کیا۔ پروفیسر حیدر کہتے ہیں: 'ہندوستان پر باہر سے سب سے بڑے حملے منگولوں کے تھے۔ منگولوں نے وسطی ایشیا اور ایران پر قبضہ کرلیا تھا اور ہندوستان پر وہ بار بار حملے کر رہے تھے۔ علاء الدین خلجی کا ایک اہم کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے کامیابی کے ساتھ ان کے ساتھ جنگ کی۔' پروفیسر حیدر کہتے ہیں: 'خلجی طاقتور سلطان تھے۔ ہر بڑے حکمران کے سامنے دو چیلنج ہوتے ہیں۔ پہلا اپنی سلطنت کو بیرونی حملے سے تحفظ فراہم کرنا اور دوسرا اندرونی استحکام فراہم کرنا اور اسے بڑھانا یعنی نئی نئی ریاستوں کو اپنے زیر نگيں لانا اور اقتدار کو قائم رکھنا اور اس کے فوائد نچلی سطح تک پہنچانا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ علاء الدین خلجی ان دونوں محاذوں پر کامیاب رہے۔ انھوں نے نہ صرف اپنی سلطنت کی حفاظت کی بلکہ اس کی بڑے پیمانے پر توسیع بھی کی۔ پروفیسر رضوی کہتے ہیں کہ 'جنگ میں لوگ ہلاک ہوتے ہیں، خلجی کی جنگ میں بھی بڑی تعداد میں لوگ مرے۔'
پروفیسر حیدر کہتے ہیں: 'خلجی نے کئی منگول حملے ناکام کیے تاہم انھوں نے بہت سے منگول فوجیوں کو دہلی میں رہنے کی اجازت بھی دی اور بہت سے منگول فوجی یہیں کے باشندے ہو گئے تھے۔' پروفیسر حیدر کہتے ہیں، 'جب یہیں رہنے والے منگول فوجیوں نے بغاوت کر دی تو خلجی نے شکست خوردہ منگول فوج کے فوجیوں کے کٹے ہوئے سر کی 'وار ٹرافی' کے طور پر نمائش کی اور منگولوں میں خوف پیدا کرنے کے لئے انھوں نے کٹے ہوئے سر دیواروں چنوا دیے۔' تاہم علاءالدین خلجی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنے چچا اور دہلی کے سلطان جلال الدین خلجی کو قتل کرواکے دہلی کا تاج حاصل کیا تھا!
بشکریہ: دلنواز پاشا
بی بی سی ہندی