معروف تاریخ دان ابن خلدون نے اپنی کتاب المقدمہ میں لکھا ہے کہ عربوں کو اونٹ کا گوشت کھانے کی عادت ہے، اس لئے ان کی طبیعت میں نخوت، غيرت اور سختی کا عنصر بہت پایا جاتا ہے ... ترکوں کو گھوڑے کا گوشت کھانے کی عادت ہے اس لئے ان میں طاقت، جرأت اور اکڑپن کا عنصر زیادہ پایا جاتا ہے.... انگریزوں کو خنزیر کا گوشت کھانے کی عادت ہے، اس لئے ان میں فحاشی وغیرہ کا عنصر غالب ہوتا ہے .... حبشی افریقی بندر کھاتے ہیں، اس لئے ان میں ناچ گانے کی طرف میلان زیادہ پایا جاتا ہے.... ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
جس کو جس حیوان کے ساتھ انس ہوتا ہے اس کی طبیعت میں اس حیوان کی عادتیں غیر شعوری طور پر شامل ہوجاتی ہیں... اور جب وہ اس حیوان کا گوشت کھانے لگ جائے تو اس حیوان کے ساتھ مشابہت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے .... ہمارے زمانے میں فارمی مرغی کھانے کا رواج بن چکا ہے... چنانچہ ہم بھی مرغیوں کی طرح صبح و شام چوں چوں تو بہت کرتے ہیں لیکن ایک ایک کرکے ہمیں ﺫبح کردیا جاتا ہے ... فارمی مرغی کا گوشت کھانے کی وجہ سے ہم میں سستی کاہلی کی، ایک جگہ ٹک کر بیٹھنے کی، سر جھکاکر چلنے کی اور پستی میں رہنے کی عادتیں پیدا ہوچکی ہیں...
♦1 : موٹاپا، جسم پر چربی خاص طور پہ گردوں اور جگر پر۔
♦2: جوروں کا درد، خاص طور پہ ہڈیوں کا بھر بھرا ہوجانا۔
♦3: بچے بچیوں میں جلد بلوغت کے آثار۔
♦4 : اسٹیرائزڈ مرغیوں کا گوشت کھانے کی وجہ سے جسم کا مدافعتی نظام کا شدید کمزورپڑجانا جس کی وجہ سے آئے دن بیمار رہنا۔
♦5: مردوں میں کمزوری اور خواتین میں ایام کی بے قاعدگی کی شکایت۔
یہ چند چیدہ چیدہ نقصانات ہیں جو کسی میں جلد اور کسی میں کچھ عرصے بعد ظاہر ہوتے ہیں۔ زبان کا ذائقہ اور جلد پک جانے کی سہولت اس کے نقصانات کے مقابلے میں بہت ہی حقیر فائدے ہیں۔
جیسی غذا ہم کھاتے ہیں ویسی ہی صحت ہم پاتے ہیں۔ غذا میں دالوں سبزیوں کا استعمال بڑھائیں ۔
گوشت میں بلترتیب مچھلی ، بکرے یا دنبہ، اونٹ اور آخر میں بڑے کے گوشت کی افادیت ہے۔ کیا یہ ضروری نہیں ہے کہ اپنے لئے، اپنی آئندہ صحت مند نسلوں کے لئے ہم اپنی خوراک پہ نظر ثانی کریں؟
اگر آپ باہر والی عمارت کے پہلے دروازے میں داخل ہوں تو آپ اپنے آپ کو کنٹرول روم میں پائیں گے جہاں سی سی ٹی وی کیمرے سے منسلک ٹی وی اسکرینیں لگی ہوئی ہیں۔ آپ کو شیڈ کے اندر مرغیوں کا ایک ازدحام نظر آئے گا۔ وہاں اس وقت 33,426 مرغیاں ہیں۔ ایک دن پہلے وہاں 45,000 تھیں، باقیوں کو ذبح کردیا گیا ہے۔ ادھر موجود مرغیوں کی عمر 34 دن ہے۔ آپ ذرا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوں تو آپ اپنے آپ کو مرغیوں کے سفید سمندر میں پائیں گے۔ اندر حالات اتنے برے نہیں جتنے 2012 سے پہلے تھے۔ قدرتی روشنی کھڑکیوں سے اندر آ رہی ہے اور چکن تھوڑی بہت حرکت کرسکتے ہیں۔ لکڑی کے چورے اور مرغیوں کی بیٹ کی وجہ سے فرش نرم ہے۔ فرش کے نیچے ہیٹنگ سسٹم ہے۔ ہر سال مرغیوں کی سات کھیپیں یہاں تیار کی جاتی ہیں جو کہ تعداد میں تقریباً 310,000 بنتی ہیں۔ اس دوران تقریباً 3.3 فیصد پرندے قدرتی موت مرجاتے ہیں۔ ہر کھیپ کے بعد لکڑی کا چورا اور فضلہ اکٹھا کیا جاتا ہے اور پوری جگہ کو ڈس انفیکٹ کیا جاتا ہے۔ ابھی اندر آئے ہوئے دس منٹ ہی ہوئے ہیں لیکن بدبو برداشت سے باہر ہے۔ یہ مرغیوں کی بیٹوں سے پیدا ہونے والے امونیا کی بو ہے۔ شیڈ میں ہوا کے اخراج کا بندوبست ہے تاکہ اس گیس کو انتہائی حد تک نہ پہنچنے دیا جائے۔ شیڈ کے مالک ڈیوڈ سپیلر کہتے ہیں کہ انھیں اس بو کی عادت پڑ گئی ہے۔
http://www.bbc.com/urdu/world/2014/10/141023_chicken_meat_as
بشکریہ: شاہراہ ہدایت بخدمت گرامی قدر مفتی صاحب۔ امید ہے کہ مزاج گرامی بعافیت ہونگے؟ اوپر کا میسیج میرے عزیز دوست مولوی راشد اعظمی (ابن مولانا افضال الحق جوہر القاسمی) نے بھیجا ہے ۔اسے ملاحظہ فرمائیں اور بتائیں کہ برائلر چکن کے بارے میں جس تحقیق کا ذکر کیا گیا ہے، اس کے بارے میں ایک مسلمان کیا رخ اختیار کرے؟
یستفاد مما في الفتاوی الہندیة وغیرہ: فإن کان متولّدًا من الوحشي والإنسي فالعبرة للأمّ، فإن کانت أہلیة تجوز وإلا فلا، وقیل: إذا نزا ظبي علی شاة أہلیة فإن ولدت شاةً تجوز التضحیة وإن ولدت ظبیًا لا تجوز (فتاوی ہندیة ۵/ ۲۹۷، ط: زکریا) وفي الدر مع الرد․․․ لأن المعتبر في الحلّ والحرمة الأم فیما تولد من مأکول وغیر مأکول (درمختار مع الشامي ۹/ ۴۴۲، ط: زکریا) وفیہ (۹/ ۴۹۱) ․․․ حلّ أکل جدي غذي بلبن خنزیر؛ لأن لحمہ لا یتغیر وما غذي بہ یصیر مستہکلا لا تبقی لہ أثرً إلخ (درمختار مع الشامي ۹/ ۴۹۱، ۴۹۲، ط: زکریا)
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Food--Drinks/146490
........
فارمی مرغی کی اصل گدھ ہے، ہمیں اس کی تحقیق نہیں ہے، جہاں تک فارمی مرغی کے کھانے کا سوال ہے تو اس کا کھانا فی نفسہ جائز ہے اگرچہ بہ تحقیق یہ بات ثابت ہوجائے کہ اس کو پیدا کرنے میں گدھ یا کسی اور حرام جانور کا مادہ شامل کیا گیا ہے؛ کیونکہ یہ از قبیل مرغ ہے اور مرغی ہی کا سہارا اس کو پیدا کرنے میں لیا جاتا ہے، نیز اس کی ظاہری شکل وصورت بھی حلال پرندے کی ہے؛ باقی اگر کوئی شخص ذاتی طور پر کسی وجہ سے احتیاط کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے،
یستفاد مما في الفتاوی الہندیة: فإن کان متولدا من الوحشي والإنسي فالعبرة للأم، فإن کانت أہلیة تجوز وإلا فلا․․․․إذا نزا ظبی علی شاة أہلیة، فإن ولدت شاة تجوز التضحیة، وإن ولدت ظبیا لا تجوز(ہندیہ: ۵/۲۹۷، ط: زکریا) وعن ابن عباس قال: نہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن کل ذي ناب من السباع وعن کل ذي مخلب من الطیر (مسلم، رقم: ۱۹۳۴)
...........
# فقہیات #
کسی حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کرنے کی تین صورتیں ہیں جنکا مفصل ذکر سورة مائدہ کی (آیت) یا ایھا الذین امنوا لاتحرمو طیبت ما احل اللہ لکم، کے تحت معارف القران جلد سوم میں آچکا ہے جسکا خلاصہ یہ ہے کہ:
ایک، اگر کوئی شخص کسی حلال قطعی کو عقیدةً حرام قرار دے تو یہ کفر اور گناہ عظیم ہے۔
دوسرا، اگر عقیدةً حرام نہ سمجھے مگر بلا کسی ضرورت و مصلحت کے قسم کھا کر اپنے اوپر حرام کرلے تو یہ گناہ ہے اس قسم کو توڑنا اور کفارہ ادا کرنا اس پر واجب ہے جسکا ذکر آگے آتا ہے اور کوئی ضرورت و مصلحت ہو تو جائز، مگر خلاف اولیٰ ہے۔
تیسرا، یہ ہے کہ نہ عقیدةً حرام سمجھے، نہ قسم کھا کر اپنے اوپر حرام کرے مگر عملاً اس کو ہمیشہ ترک کرنے کا دل میں عزم کرلے، یہ عزم اگر اس نیت سے کرے کہ اس کا دائمی ترک باعث ثواب ہے، تب تو یہ بدعث اور رہبانیت ہے جو شرعاً گناہ اور مذموم ہے اور اگر ترک دائمی کو ثواب سمجھ کر نہیں بلکہ اپنے کسی جسمانی یا روحانی مرض کے علاج کے طور پر کرتا ہے تو بلا کراہت جائز ہے، بعض صوفیائے کرام سے جو ترکِ لذائذ کی حکایتیں منقول ہیں وہ اسی صورت پر محمول ہیں۔
(معارف القرآن سورہ تحریم)
”وَالظَّاہِرُ أنَّ مَذْہَبَنَا ثُبُوْتُ اِنْقِلاَبِ الْحَقَائِقِ بِدَلیلٍ مَا ذَکَرُوْہُ فِي انْقِلاَبِ عَیْنِ النِّجَاسَةِ کَاِنْقِلاَبِ الْخَمْرِ خَلًّا وَالدَّمِ مِسْکاً وَنَحْوِ ذٰلِکَ وَالله اعلم․ (رد المحتار: 239/1، رشیدیہ، بحر، فتح القدیر)
ترجمہ: اور ظاہر سی بات ہے کہ ہمارا مسلک انقلابِ ماہیات کے ثبوت کا ہے، اس دلیل کی وجہ سے جو فقہائے کرام نے عین نجاست کے بدلنے میں ذکر فرمائی ہے، جیسے شراب کا سرکہ بن جانا اور خون کا مشک بن جانا اور اس جیسی دوسری چیزیں (رد المحتار) تو ہم نے سمجھ لیا کہ عین کا بدلنا اس وصف کے ختم ہوجانے کے تابع ہے جو اس (عین) پر مرتب ہوتا ہے۔
انقلابِ حقیقت سے مراد کیا ہے؟ تو واضح ہوکہ انقلابِ حقیقت سے مرادیہ ہے کہ وہ شے فی نفسہ اپنی حقیقت چھوڑ کر کسی دوسری حقیقت میں متبدل ہوجائے، جیسے شراب سرکہ ہوجائے یا خون مشک بن جائے یا نطفہ گوشت کا لوتھڑا وغیرہ کہ ان صورتوں میں شراب نے فی نفسہ اپنی حقیقت خمریہ اور خون نے اپنی حقیقت دمویہ اور نطفہ نے اپنی حقیقت منویہ چھوڑدی اور دوسری حقیقتوں میں متبدل ہوگئے، حقیقت بدل جانے کا حکم اسی وقت دیا جاسکتا ہے کہ حقیقت اولیٰ منقلبہ کے آثار مختصہ اس میں باقی نہ رہیں۔(کفایت المفتی و فتاوی مظاہر علوم)
”قلبِ ماہیت یہ ہے کہ سابق حقیقت معدوم ہوکر نئی حقیقت ونئی ماہیت بن جائے، نہ پہلی حقیقت وماہیت باقی رہے، نہ اس کا نام باقی رہے، نہ اس کی صورت و کیفیت باقی رہے، نہ اس کے خواص وآثار و امتیازات باقی رہیں؛ بلکہ سب چیزیں نئی ہوجائیں، نام بھی دوسرا، صورت بھی دوسری، آثار وخواص بھی دوسرے، اثرات و علامات اور امتیازات بھی دوسرے پیدا ہوجائیں، جیسے: شراب سے سرکہ بنالیا جائے۔ (منتخبات نظام الفتاویٰ: ۱/۲۶، ۲۷، اسلامک فقہ اکیڈمی دہلی)
صورت اور اوصاف سہ گانہ (رنگ، بو، مزہ) کی تبدیلی سے تحویلِ حقیقت ہو جاتی ہے، گو کسی شئی کا قوام اور مادہ باقی رہے، جیسے شراب سرکہ بن جائے تو اصل مادہ باقی رہتا ہے، اوصاف اور اثرات میں تبدیلی آتی ہے۔(قاموس الفقہ 94/2)
● آج کل تقریباً ہر ملک میں مشینی سفید مرغی کا کاروبار عام ہے اور مرغیوں کی پرورش کے لئے ایسی خوراک دی جاتی ہے جس میں خون کی آمیزش کی جاتی ہے، جس سے مرغی جلد جوان ہوتی ہے اور اس غذا کی وجہ سے مرغی کے اندر خود بخود انڈے دینے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے تو ایسی صورت میں اس قسم کی مرغی کا حکم یہ ہے کہ اگر مرغی کی غذا کا غالب حصہ اگر حرام ہو تو اس کا کھانا مکروہ ہے، اس کو تین دن بند رکھا جائے اور حلال غذا دی جائے، اس کے بعد کھایا جائے، اور ان کی خوراک میں حلال غالب ہو تو کھانا جائز ہے۔(فتاوی یوسفی جلد ١٠)
{حل أکل جدي غذی بلبن خنزیر لأن لحمه لا یتغیر وما غذي به یصیر مستہلکا لا یبقی له أثر } (جواب: 46011 دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند)
لما قال العلامۃ ظفراحمد العثمانی رحمہ اللہ:
یہ بیوپار جائز ہے...... ان اقوال کا مقتضاء یہ ہے کہ اگر کسی وقت خون کی قیمت بھی عرفاً ہوجائے تو اس کی بیع وشراء صحیح ہے اور خون کی راکھ تو پاک ہے، اس کی بیع صحیح ہونے میں کوئی شک نہیں۔
(امدادالاحکام :٣٥٤،٣٥٥/٣ کتاب البیوع)
(فتاویٰ حقانیہ : ٥٦/٦)
کسی بھی جانور کے حلال و حرام ہونے میں اس کی ماں کا اعتبار ہوتا ہے اور یہی حکم اس کے انڈے کا ہے، اگر اس کی ماں حلال ہے تو وہ بھی حلال ہے اور اگر اس کی ماں حرام ہے تو وہ بھی حرام ہے، جب یہ بات واضح ہوگئی کہ فارمی مرغی حلال ہے تو اس کے انڈے بھی حلال ہونگے۔
● حضرت مفتی اعظم ہند مفتی محمود الحسن گنگوہی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
جانوروں میں بچہ ماں کے تابع ہوتا ہے، یعنی اگر ماں حلال ہے تو بچہ بھی حلال ہے، اگر ماں حرام ہے تو بچہ بھی حرام ہے، اگر گدھی کے ساتھ گھوڑا وطی کرے اس سے خچر پیدا ہو تو وہ ماں کے تابع ہو کر حرام ہوگا، اگر گائے کے ساتھ گدھا وطی کرے تو اس سے بچھڑا پیدا ہوا ہو تو وہ ماں کے تابع ہو کر حلال ہوگا، اب امید ہے کہ امریکن گائے کا سوال اور اس پر اشکال بھی حل ہوجائے گا۔ فقط واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم
(دارالعلوم دیوبند ١٤٠١/٦/١٠)
مرغی اور اس کے انڈے کا حلال ہونا حدیث سے ثابت ہے (الجامع للترمذي ، حدیث نمبر : ۱۸۲٤ ۔ محشی) اور اس پر امت کا اجماع اور اتفاق ہے (المغنی :١٠١/١ محشی) اس میں کوئی تفریق نہیں کہ نر کے اختلاط کے بعد انڈے ہوئے ہوں، یا اس کے بغیر، اگر تنہا مرغی سے بھی انڈا حاصل ہو تو ظاہر ہے کہ یہ انڈا مرغی کا جزو ہے، پھر اس انڈے سے بچہ ہو تو وہ بچہ بھی اس مرغی کا جزو قرار پایا، اور جب مرغی خود پاک اور حلال ہے تو اس سے حاصل ہونے والے اجزاء سوائے پیشاب، پائخانہ اور خون کے وہ بھی پاک ہونگے، اس لئے جیسے فطری نظام کے تحت ہونے والے انڈے اور بچے حلال ہیں، اسی طرح یہ بھی حلال ہیں۔
(کتاب الفتاوی جلد ٤)
جس شبہ کا سائل نے اظہار کیا ہے کہ *باہر ممالک میں مرغیوں کی خوراک میں خنزیر کی چربی و فضلہ کا استعمال ہوتاہے* تو یہ کئی وجوہ سے حرمت کی وجہ نہیں ہوسکتی :
{تحبس الجلالة حتی یذھب نتن لحمہا وقدر بثلاثة ایام لدجاجة.... ولو أکلت النجاسة وغیرها بحیث لم ینتن لحمها حلت کما حل اکل جدی غذی بلبن خنزیر لان لحمہ لایتغیر وما غذی به یصیر مستہلکا لایبقی له اثر}
(قولہ:حلت) وعن هذا قالوا: لابأس باکل الدجاج لانه یخلط ولا یتغیر لحمه
(الدر المختارمع رد المحتار، کتاب الحظر و الاباحة:٣٤٠،٣٤٢/٦)
(الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطهارۃ ،باب الانجاس:۱؍۳۲۵،۳۲۷۔ط: ایچ ایم سعید کراچی)
مرغی کو ذبح کرنے کے بعد اگر اس کی آلائش اور گندگی نکالنے سے پہلے کھولتے ہوئے گرم پانی میں اتنی دیر ڈال دیا جائے کہ جس سے اس کی نجاست گوشت میں سرایت کرجائے تو ایسی صورت میں مرغی کا گوشت ناپاک ہوجائے گا اور اس کا کھانا جائز نہیں ہوگا، گویا گوشت کا ناپاک ہونا دو شرطوں کے ساتھ مقید ہے :
1- پانی کا غلیان (جوش) کی حد تک گرم ہونا۔
2- مرغی کو اتنی دیر پانی میں رکھنا کہ نجاست کا اثر گوشت میں سرایت کرجائے، لہٰذا صورت مسئولہ میں اگر مرغی بیچنے والے اس طرح سے مرغیاں ذبح کرتے ہیں کہ جس میں مذکورہ دونوں چیزیں پائی جاتی ہیں، تو ان کا یہ عمل غیر شرعی ہوگا اور اس طریقے پر جو مرغیاں ذبح کی جائیں گی، ان کا گوشت کھانا جائز نہیں ہوگا۔
(دارالافتاء دارالعلوم دیوبند)
ناشر: دارالریان کراتشی
.........
جزاھم اللہ خیرا
ذیل میں ان کی ارسال کردہ معلومات من وعن درج کی جاتی ہیں.
جس شخص سے میں نے معلومات حاصل کیں، اس نے بتایا کہ برائلر کی غذا تیار کرنے میں ان چیزوں کا استعمال ہوتا ہے.
مکئی
باجرہ
گیہوں
چاول
سویا
اور اس میں فیٹ fat بڑھانے کے لئے ہڈی کا چورا یا پاوڈر
بڑے کی چربی
اور سردی کی دوا
مہاراشٹر میں بہت ساری کمپنیاں ہیں جو یہ تیار کرتی ہیں اور جو زیادہ مشہور ہیں وہ یہ ہیں اور انھیں کا مال مالیگاؤں میں زیادہ آتا ہے
Baramati
suguna
CP
avee
vanky
anand negro
simran
khadkeshwra
jhapa
ان میں سے صرفbaramati (شرد پوار کی) ایک ایسی کمپنی ہے جو ویج veg ہے، لیکن اس میں بھی "الانا" کمپنی جو بڑے کی بہت بڑی کمپنی ہے، اس سے ہڈی کا چورا یا پاوڈر لے کر اس میں ڈالتی ہے، باقی سب کمپنیاں خنزیر کی ہڈی اور چربی استعمال کرتی ہیں. ان میں سب سے زیادہ ان کا استعمال suguna (جئے للیتا کی کمپنی) اور سی پی CP کمپنی کرتی ہے. اور ہمارے یہاں کی عوام suguna کا مال ڈھونڈکر کھاتے ہیں. یہ معلومات میں نے ایک ایسے آدمی سے لی ہے جو سی پی CP میں کام کرتا ہے لیکن اس نے بھی بہت زیادہ کھل کر نہیں بتایا بلکہ ڈھکے چھپے انداز میں بتایا، لیکن اس معلومات کے باوجود مجھے ایک چیز جو کھٹک رہی ہے وہ یہ کہ خنزیر کی چربی بہت مہنگی ہوتی ہے اور اتنی مقدار میں ملنا ذرا مشکل لگ رہا ہے اور اگر مل بھی جائے تو اتنی مہنگی چربی کمپنی استعمال کیوں کرے گی جبکہ بڑے کی چربی سستی مل جاتی ہو. مذکورہ بالا معلومات کی روشنی میں جواب لکھا جارہا ہے.
.......................................................
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق:
ایسی مرغیاں جن کی صرف نجس غذا ہی سے پرورش کی جاتی ہے اور کوئی حلال چیز اُن کی غذا میں شامل نہیں ہوتی، تو ایسی مرغیاں 'جلّالہ' کے درجہ میں ہیں، ان کا حکم یہ ہے اُن کا کھانا مکروہِ تحریمی ہے، البتہ اگر تین روز اُنہیں صرف حلال غذا کھلاکر ذبح کیا جائے، تو اسے کھانے میں کوئی کراہت نہ ہوگی. اور اگر مرغیوں کی غذا میں حرام اجزاء کے ساتھ حلال اشیاء بھی شامل ہوں، اور حلال اشیاء کی مقدار زیادہ ہو تو اُن کا کھانا بلاکراہت جائز ہے، پھر بھی اولیٰ یہ ہے کہ اُنہیں کچھ دن حلال غذا پر رکھ کر ذبح کریں. مذکورہ بالا معلومات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہمارے یہاں دوسری قسم کی برائلر مرغیاں دوکانوں پر ملتی ہیں، لہٰذا اسے کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے.
عن ابن عمر أنہ کان یحبس الدجاجۃ الجلالۃ ثلاثًا۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ ۵؍۱۴۸ رقم: ۲۴۶۰۸، )
و في التجنیس: إذا کان علیہا نجاسۃ تحبس الدجاجۃ ثلاثۃ أیام۔ (شامي، کراچي۶/۳۰۶، زکریا۹/۴۴۴)
إذا خلط بین أکل العذرۃ وغیرہا لیست بجلالۃ یحل أکلہ۔ أما الدجاجۃ المخلاۃ فلا بأس بأکلہا؛ لأنہا تخلط بین العذرۃ وغیرہا۔ (الولوالجیۃ، دارالإیمان سہارن پور۳/۵۶)
لا بأس بأکل الدجاجۃ؛ لأنہا تخلط ولا یتغیر لحمہ۔ (البحر الرائق، کتاب الکراہیۃ، فصل في الأکل والشرب، زکریا ۸/۳۳۵، کوئٹہ ۸/۱۸۳)
لایکرہ أکل الدجاجۃ المخلي، وإن کان یتناول النجاسۃ؛ لأنہ لایغلب علیہ أکل النجاسۃ؛ بل یخلطہا بغیرہا، وہوالحب (بدائع الصنائع، کتاب الذبائح والصیود، زکریا۴/۱۵۴، کراچي۵/۴۰)
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی
.................
Chickens in India dosed with antibiotics which is 'last hope' for critically ill
The Bureau of Investigative Journalism study said that hundreds of tonnes of colistin, described as an antibiotic of last resort, have been shipped to India for the routine treatment of animals, mainly chickens, on farms.
"The medicines are antibiotics, given to the birds to protect them against diseases or to make them gain weight faster so more can be grown each year at greater profit. One drug typically given this way is colistin. Doctors call it the “last hope” antibiotic because it is used to treat patients who are critically ill with infections which have become resistant to nearly all other drugs.
"The World Health Organisation has called for the use of such antibiotics, which it calls “critically important to human medicine”, to be restricted in animals and banned as growth promoters. Their continued use in farming increases the chance bacteria will develop resistance to them, leaving them useless when treating patients", the study said.
"At least five animal pharmaceutical companies are openly advertising products containing colistin as growth promoters in India.
"One of these companies, Venky’s, is also a major poultry producer. Apart from selling animal medicines and creating its own chicken meals, it also supplies meat directly and indirectly to fast food chains in India such as KFC, McDonald’s, Pizza Hut and Dominos", the study said.
Timothy Walsh, a global expert on antibiotic resistance, called the Bureau’s findings about the ready availability of colistin in India “deeply worrying” and described the use of colistin in poultry farming as “complete and utter madness”.
Walsh, who is Professor of Medical Microbiology at Cardiff University, and his Chinese colleagues discovered a colistin-resistant gene in Chinese pigs in 2015. The gene, mcr-1, could be transferred within and between species of bacteria. That meant that microbes did not have to develop resistance themselves, they could become resistant just by acquiring the mcr-1 gene.
The discovery was met with worldwide panic in the medical community as it meant the resistance could be passed to bugs which are already multi-drug resistant, leading to untreatable infections. Rampant use of the drug in livestock farming has been cited as the most likely way mcr-1 was spread.
It has been detected in bacteria from animals and humans in more than 30 countries, spanning four continents. Another four colistin resistant genes (mcr-2 to mcr-5) have been discovered since. Colistin-resistant bacteria, once rare, are now widespread.
“Colistin is the last line of defence”, said Professor Walsh, who is also an adviser to the UN on antimicrobial resistance. “It is the only drug we have left to treat critically ill patients with a carbapenem-resistant infection. Giving it to chickens as feed is crazy.”
“Colistin-resistant bacteria will spread on the chicken farms, in the air surrounding them, contaminate the meat, spread to the farm workers, and through their faeces flies will spread it over large distances”, he continued.
He added: “Colistin should only be used on very sick patients. Under any other circumstances it should be thought of and treated as an environmental toxin. It should be labelled as such. It should not be exported all over the world to be used in chicken feed.”
Professor Dame Sally Davies, England’s chief medical officer, also called for a worldwide ban on the use of not just colistin but all antibiotics as growth promoters. “If we have not banned growth promotion within five years we will have failed the global community”, she told the Bureau.
#.Wnc6PqR47Gg.whatsapp