سوال: محترم حضرت مفتی صاحب!
ایک مسئلہ میں دینی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کیا جب بیوی فوت ہوجائے تو اس کا خاوند اسے غسل دے سکتا ہے یا نہیں ؟
سائل: عبدالنافع، دمام سعودی عرب
جواب: اللہ تعالیٰ آپ کو دنیا و آخرت کی ساری خوشیاں نصیب فرمائے۔ آج کل یہ سوال بہت گردش کر رہا ہے اور بہت سے احباب نے اس بارے شرعی آگاہی کا اظہار کیا ہے۔ خاوند اور بیوی جب تک زندہ رہتے ہیں ان کے لیے ایک دوسرے کے بدن کو چھونا جائز ہوتا ہے لیکن جب ان میں سے کسی ایک کی وفات ہو جائے تو دوسرے کے لیے اس کے بدن کو چھونا اور غسل دینا جائز ہے یا نہیں؟ اس بارے میں تفصیل یہ ہے:
1: اگر خاوند فوت ہو جائے تو بیوی اسے غسل دے سکتی ہے۔
2: اگر بیوی فوت ہو جائے تو خاوند اسے غسل نہیں دے سکتا۔
پہلےجزء کی دلیل:
اس موقف کی دلیل جو اصول کے درجے میں ہے وہ یہ ہے کہ جب بیوی فوت ہو جاتی ہے تو خاوند سے اس کا نکاح بھی ٹوٹ جاتا ہے اور نکاح کے اثرات بھی نہیں ہوتے (نکاح کا اثر وفات کے بعد عدت کا لازم ہونا ہے اور بیوی کے فوت ہونے کی صورت میں خاوند پر عدت لازم نہیں آتی) اب خاوند کی حیثیت بیوی کے لیے ایک اجنبی کی سی ہے۔ جس طرح اجنبی آدمی اس عورت کو نہ چھو سکتا ہے اور نہ ہی غسل دے سکتا ہے اسی طرح یہ خاوند بھی نہ اس عورت کو چھو سکتا ہے اور نہ ہی غسل دے سکتا ہے۔
بیوی کے فوت ہونے پر نکاح ٹوٹ جانے کی دلیل یہ ہے کہ بیوی جب تک نکاح میں ہے اس کی بہن سے نکاح نہیں ہو سکتا۔ لیکن اگر بیوی فوت ہو جائے تو وفات کے فوراً بعد اس کی بہن سے نکاح ہو سکتا ہے۔ چنانچہ امام عبد الرزاق الصنعانی رحمہ اللہ (ت211ھ) امام سفیان ثوری رحمہ اللہ (ت161ھ) سے نقل کرتے ہیں کہ امام سفیان ثوری فرماتےہیں:
ونقول نحن لا يغسل الرجل امرأته لأنها لو شاء تزوج أختها حين ماتت ونقول تغسل المرأة زوجها لأنها في عدة منه.
(مصنف عبد الرزاق: ج3 ص256 حدیث نمبر6145)
ترجمہ: ہمارا موقف یہ ہے کہ خاوند اپنی بیوی کو غسل نہیں دے سکتا کیونکہ بیوی کے مرنے کے بعد (نکاح ٹوٹ جاتا ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ) یہ جس وقت چاہے اس کی بہن سے نکاح کرسکتا ہے اور ہمارا موقف یہ بھی ہے کہ عورت اپنے خاوند کو غسل دے سکتی ہے کیونکہ یہ اس کی عدت میں ہے (جو کہ نکاح کے آثار کا نتیجہ ہے)
دوسرے جزء کی دلیل:
اگر خاوند فوت ہو جائے تو بیوی پر نکاح کے اثرات عدت گزرنے تک باقی رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خاوند کے مرنے کے بعد عدت کے اندر ہوتے ہوئے عورت دوسری جگہ نکاح نہیں کر سکتی۔ جب نکاح کے اثرات عورت کے حق میں باقی ہیں تو اس کے لیے خاوند کو ہاتھ لگانا اور غسل دینا صحیح ہو گا۔ چنانچہ تین روایتیں پیشِ خدمت ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس اصول کے پیشِ نظر بیوی اپنے میت خاوند کو غسل دے سکتی ہے:
روایت نمبر1:
عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: "لَوْ كُنْتُ اسْتَقْبَلْتُ مِنَ الأَمْرِ، مَا اسْتَدْبَرْتُ مَا غَسَّلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ نِسَائِهِ".(سنن ابن ماجہ : حدیث: 1464)
ترجمہ: ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اگر مجھے اپنی اس بات کا علم پہلے ہی ہو گیا ہوتا جو بعد میں ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی بیویاں ہی غسل دیتیں۔
روایت نمبر2، 3:
علامہ ابن عبد البر (م463ھ) لکھتے ہیں:وغسلت أسماء بنت عميس زوجها أبا بكر بمحضر جلة من الصحابة وكذلك غسلت أبا موسى امرأته.
(التمہید لابن عبد البر: ج1 ص380)
ترجمہ: حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے اپنے خاوند حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بڑے بڑے صحابہ کی موجوودگی میں غسل دیا تھا، اسی طرح حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو ان کی بیوی نے غسل دیا تھا۔
ایک اہم تنبیہہ:
بعض لوگ دو روایتیں پیش کر کے یہ کہتے ہیں کہ خاوند بھی بیوی کو غسل دے سکتا ہے۔ ذیل میں ہم دونوں روایات پیش کر کے ان کا صحیح معنی و مفہوم پیش کرتے ہیں۔
روایت نمبر1:
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ رَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْبَقِيعِ فَوَجَدَنِي وَأَنَا أَجِدُ صُدَاعًا فِي رَأْسِي وَأَنَا أَقُولُ وَا رَأْسَاهُ فَقَالَ بَلْ أَنَا يَا عَائِشَةُ وَا رَأْسَاهُ ثُمَّ قَالَ مَا ضَرَّكِ لَوْ مِتِّ قَبْلِي فَقُمْتُ عَلَيْكِ فَغَسَّلْتُكِ وَكَفَّنْتُكِ وَصَلَّيْتُ عَلَيْكِ وَدَفَنْتُكِ۔
(سنن ابن ماجۃ: حدیث نمبر1465)
ترجمہ: عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع سے واپس آئے، تو مجھے درد ِ سر میں مبتلا پایا، میں شدت درد سے کہہ رہی تھی: ”ہائے میرا سر!!“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں عائشہ ! میں کہتا ہوں: میرا سر!! [مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت ناساز تھی، اور یہ واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے انتہائی آخری ایام میں ہوا تھا، اور اس کے فوراً بعد آپ کو مرض الموت لاحق ہوگیا تھا۔] پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اگر تم مجھ سے پہلے فوت ہوجاؤ تو تمہیں کوئی نقصان نہیں ہوگا، میں ہی تمہیں غسل دوں گا، کفن پہناؤں گا اور جنازہ پڑھ کر دفن کروں گا۔
صحیح مفہوم:
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ کے نکاح میں آنے کے بعد امہات المؤمنین دنیا و آخرت میں آپ کی زوجات ہیں حتی کہ آپ علیہ السلام کی وفات کے بعد بھی وہ آپ کی بیویاں رہی ہیں۔ چنانچہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ (ت279ھ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک روایت لائے ہیں:
عن عائشة : أن جبريل جاء بصورتها في خرقة حرير خضراء إلى النبي صلى الله عليه و سلم فقال إن هذه زوجتك في الدنيا والآخرة.
(جامع الترمذی: حدیث نمبر3880)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام ایک ریشمی سبز کپڑے میں میری تصویر لپیٹ کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس لائے اور کہا: یہ دنیا و آخرت میں آپ کی بیوی ہے۔
دنیا و آخرت میں آپ کی بیوی ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ علیہ السلام کی وفات کے باوجود آپ کا ان سے نکاح باقی ہے۔ تو جب آپ کا نکاح باقی ہے تو آپ کا غسل کی بات کرنا صحیح و درست ہوا۔
مفتی اعظم ہند مفتی عزیز الرحمٰن رحمۃ اللہ علیہ (ت1347ھ) فرماتے ہیں: ”آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمانا (کہ میں تمہیں غسل دوں گا) آپ کی خصوصیات میں سے ہے۔“
(فتاویٰ دار العلوم دیوبند: ج5 ص178)
روایت نمبر2:
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بعد از انتقال خود غسل دیا تھا۔
(السنن الکبریٰ للبیہقی: حدیث نمبر6905 وغیرہ)
صحیح مفہوم:
اولاً۔۔۔ اس سلسلے میں تین روایتیں مروی ہیں:
اول : حضرت علی رضی اللہ عنہ نے غسل دیا تھا۔
(معرفۃ السنن و الآثار للبیہقی: ج5 ص232)
دوم: یہ کہ اسماء بن عمیس رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ دونوں نے مل کر غسل دیا تھا۔
(السنن الکبریٰ للبیہقی: حدیث نمبر 6905)
سوم : حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نے انتقال سے پہلے غسل فرمایا اور نئے کپڑے پہنے اور فرمایا کہ: ”میں رُخصت ہو رہی ہوں، میں نے غسل بھی کرلیا ہے، اور کفن بھی پہن لیا ہے، مرنے کے بعد میرے کپڑے نہ ہٹائے جائیں۔“ یہ کہہ کر قبلہ رُو لیٹ گئیں اور رُوح پرواز کرگئی، ان کی وصیت کے مطابق انہیں غسل نہیں دیا گیا۔
(مصنف عبد الرزاق: ج3 ص257 حدیث نمبر6151 وغیرہ)
جب روایات اس سلسلے میں متعارض ہیں تو اس واقعے پر کسی شرعی مسئلے کی بنیاد رکھنا صحیح نہیں ہوگا۔
ثانیاً..... بعض محققین نے یہ تسلیم کرنے کی صورت میں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے غسل دیا ہے، اس روایت کا معنی یہ بیان کیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے غسل دینے سے مراد غسل کے سامان کا انتظام کرنا تھا، اس لیے غسل کی نسبت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف مجازاً ہے، حقیقتاً غسل حضرت ام ایمن ہی نے دیا تھا۔ چنانچہ رد المحتار میں ہے:
فَاطِمَةُ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهَا غَسَّلَتْهَا أُمُّ أَيْمَنَ حَاضِنَتُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَضِيَ عَنْهَا فَتُحْمَلُ رِوَايَةُ الْغُسْلِ لِعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ عَلَى مَعْنَى التَّهْيِئَةِ وَالْقِيَامِ التَّامِّ بِأَسْبَابِهِ۔
(رد المحتار: ج6 ص243)
ترجمہ: حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو غسل حضرت ام ایمن نے دیا تھا، لہذا جس روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے غسل دیا تھا اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے غسل دینے میں ام ایمن کا تعاون کیا تھا مثلاً سامان غسل کا انتظام وغیرہ انہوں نے کیا تھا۔
ثالثاً.... اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے غسل دینے کی روایت کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا و حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خصوصیت تھی اور اس خصوصیت پر دلیل یہ روایت ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو غسل دیا تو حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس پر اشکال کیا، اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دیا:
أَمَا عَلِمْت أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : إنَّ فَاطِمَةَ زَوْجَتُك فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ.
(رد المحتار: ج6 ص243)
کیا آپ کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے فرمایا تھا: (اے علی!) فاطمہ دنیا میں بھی تمہاری بیوی ہے اور آخرت میں بھی تمہاری بیوی ہے۔
یہ بعینہ ویسی دلیل ہے جیسی دلیل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ماقبل میں گزری ہے جس میں نکاح کا باقی رہنا ثابت ہو رہا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت علی کا یہ ارشاد فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کا اپنی بیوی کو غسل دینا یہ آپ کی خصوصیت ہے، عام رواج اس وقت یہ نہیں تھا۔ مشہور فقیہ و محقق علامہ ابن عابدین شامی (ت1252ھ) لکھتے ہیں:
فَادِّعَاؤُهُ الْخُصُوصِيَّةَ دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ الْمَذْهَبَ عِنْدَهُمْ عَدَمُ الْجَوَازِ ـ.
(رد المحتار: ج6 ص243)
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اپنی خصوصیت کا دعویٰ پیش کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس وقت صحابہ کے ہاں بیوی کو غسل دینا ناجائز شمار ہوتا تھا۔ (اسی لیے تو حضرت ابن مسعود نے اشکال کیا اور حضرت علی نے جواباً اپنی خصوصیت کا ذکر فرمایا) معلوم ہوا کہ اس دور میں خاوند اپنی بیویوں کو غسل نہیں دیتے تھے۔
مشہور عالم علامہ ابن عبد البر (ت463ھ) بھی اسی حقیقت کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
لأن بنات رسول الله اللواتي توفين في حياته زينب ورقية وأم كلثوم ولم يبلغنا أن إحداهن غسلها زوجها.
(التمہید: ج1 ص380)
ترجمہ: اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صاحبزادیاں؛ حضرت زینب، حضرت رقیہ اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہن جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات ہی میں فوت ہوئیں، ان میں سے کسی کے بارے میں ہمیں یہ بات نہیں پہنچی کہ ان کو ان کے خاندوں نے غسل دیا ہو۔
ثابت ہوا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خصوصیت تھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ) بشرط ثبوت (خصوصیت تھی، عام رواج ہرگز نہیں تھا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
الجواب الصحیح کتبہ
(مولانا) محمد الیاس گھمن
(مفتی) شبیر احمد حنفی
دارالافتاء
فقہ حنفی
وفات کے بعد خاوندکا اپنی بیوی کو غسل دینا؟
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن کی زیر نگرانی مرکز اھل السنۃ والجماعۃ کے”آن لائن دارالافتاء“ سے پوچھے گئے سوالات و جوابات کا سلسلہ
نوٹ: سائل کو جواب میل کرنے کے بعد افادہ عام کے لیےادارے کی آفیشل ویب سائٹ www.ahnafmedia.com/darulifta پر اپ لوڈ کر دیا جاتا ہے۔
ای میل ایڈریس : mufti@ahnafmedia.com