لڑكيوں كا ختنہ كرنا، اور بعض ڈاكٹروں كا اسے تسليم نہ كرنا
ہم نے بہت سے ڈاكٹر حضرات سے سنا ہے كہ وہ لڑكيوں كا ختنہ كرنا تسليم نہيں كرتے، اور كہتے ہيں كہ ختنہ كرنا ان كے ليے جسمانى اور نفسى كمزورى كا باعث بنتا ہے، اور ختنہ كرنا ايك موروثى عادت ہے شريعت ميں اس كى كوئى اصل نہيں، اس كے متعلق آپ كى رائے كيا ہے ؟
Published Date: 2007-08-13
الحمد للہ:
اول:
ختنہ كرنا موروثي اور خاندانى عادت نہيں جيسا كہ بعض لوگوں دعوى كرتے ہيں، بلكہ يہ تو شريعت رباني ہے اور ختنہ كى مشروعيت پر علماء كرام متفق ہيں، ہمارے علم كے مطابق تو مسلمانوں ميں سے كوئى عالم دين بھى ايسا نہيں جو ختنہ كو غير مشروع قرار ديتا ہو.
ختنہ مشروع ہونے كى دليل رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح احاديث كا ثبوت ہے جن ميں سے چند ايك ذيل ميں بيان كى جاتى ہيں:
1 - امام بخارى اور امام مسلم رحمہ اللہ نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" پانچ اشياء فطرتى ہيں: ختنہ كرانا، اور زيرناف بال مونڈنا، اور بغلوں كے بال اكھيڑنا، اور ناخن تراشنا، اور مونچھيں كاٹنا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5889 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 257 ).
يہ حديث عورتوں اور مردوں كے ختنہ كو عام ہے.
2 - امام مسلم رحمہ اللہ نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب مرد عورت كى چار شاخوں كے مابين بيٹھ جائے اور ختنہ ختنے كے ساتھ لگ جائے تو غسل واجب ہو جاتا ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 349 ).
اس حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دو ختنوں كا ذكر كيا ہے؛ يعنى ايك ختنہ بيوى كا اور ايك ختنہ خاوند كا؛ جو اس كى دليل ہے كہ عورت بھى اسى طرح ختنہ كروائےگى جس طرح مرد ختنہ كرواتا ہے.
- ابو داود رحمہ اللہ نے انصار قبيلہ كى ام عطيہ رضى اللہ تعالى عنہا سے بيان كيا ہے كہ مدينہ شريف ميں ايك عورت ختنہ كيا كرتى تھى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے فرمايا:
" تم بالكل جڑ سے ہى نہ كاٹو، كيونكہ يہ عورت كے ليے زيادہ بہتر اور خاوند كو بہت محبوب ہے. "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 5271 ).
ليكن اس حديث كے متعلق علماء كرام كا اختلاف ہے بعض علماء اسے ضعيف قرار ديتے ہيں، اور بعض اسے صحيح مانتے ہيں، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے بھى صحيح سنن ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
مندرجہ بالا احاديث كى بنا پر عورتوں كا ختنہ كرنا مشروع ہے، نہ كہ اس مختلف فيہ حديث كى بنا پر.
ليكن اس كے حكم كے متعلق علماء كرام سے تين قسم كے قول منقول ہيں:
پہلا قول:
مرد اور عورت دونوں كے ليے ختنہ كرانا واجب ہے، شافعى اور حنبلى حضرات كا مسلك يہى ہے، اور قاضى ابو بكر بن عربى مالكى نے بھى يہى قول اختيار كيا ہے.
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
ہمارے نزديك مرد و عورت دونوں كے ليے ختنہ كرانا واجب ہے، اور بہت سے سلف كا بھى يہى قول ہے، خطابى رحمہ اللہ نے ايسے ہى بيان كيا ہے، اور ختنہ واجب كہنے والوں ميں امام احمد بھى شامل ہيں... اور مشہور اور صحيح مذہب جو امام شافعى نے بيان كيا اور جمہور علماء نے بھى اسے قطعى كہا ہے كہ مرد و عورت دونوں كے ليے واجب ہے " انتہى.
ديكھيں: المجموع للنووى ( 1 / 367 ).
مزيد تفصيل كے ليے ديكھيں: فتح البارى ( 10 / 340 ) اور كشاف القناع ( 1 / 80 ).
دوسرا قول:
مرد اور عورت دونوں كے ليے ختنہ كرانا سنت ہے، احناف، اور مالكيہ كا مسلك يہى ہے، اور امام احمد كى ايك روايت بھى يہى ہے.
ابن عابدين حنفى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور السراج الوھاج كى كتاب الطہارۃ ميں لكھا ہے كہ:
يہ علم ميں رہے كہ ہمارے ہاں ـ يعنى احناف كے ہاں ـ مردوں اور عورتوں كے ليے ختنہ كرانا سنت ہے " انتہى.
ديكھيں: حاشيۃ ابن عابدين ( 6 / 751 )، اور مواھب الجليل ( 3 / 259 ).
تيسرا قول:
مردوں كے ليے ختنہ كرانا واجب ہے، اور عورتوں كے ليے ختنہ كرانا مستحب اور ان كى عزت كا باعث ہے، يہ امام احمد كا تيسرا قول ہے، اور بعض مالكى حضرات مثلا سحنون كا بھى يہى قول ہے، اور موفق ابن قدامہ رحمہ اللہ نے المغنى ميں بھى اسے ہى اختيار كيا ہے.
ديكھيں: التمھيد ( 21 / 60 ) اور المغنى ( 1 / 63 ).
مستقل فتوى كميٹى كا فتوى ہے:
مرد اور عورت كے ليے ختنہ كرانا فطرتى سنت ميں سے ہے، ليكن مرد حضرات كے ليے ختنہ كرانا واجب ہے، اور عورتوں كے حق ميں ختنہ كرانا سنت اور باعث عزت ہے. اھـ
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 113 ).
اس سے يہ واضح ہوا كہ فقھاء اسلام مرد و عورت كے ليے ختنہ كرانے كى مشروعيت پر متفق ہيں، بلكہ ان ميں اكثر تو دونوں كے ليے ختنہ كرانا واجب قرار ديتے ہيں، كسى ايك فقيہ نے بھى ختنہ نہ كرانے يا مكروہ يا حرام نہيں كہا.
دوم:
رہا يہ كہ كچھ ڈاكٹر حضرات ختنہ كا انكار كرتے ہيں، اور ان كا يہ دعوى ہے كہ ختنہ كرانا جسم اور نفس كے ليے مضر ہے!!
ان كا يہ انكار صحيح نہيں، ہميں ـ مسلمانوں كو ـ كسى بھى چيز كے ثبوت كے ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہونا ہى كافى ہے تا كہ ہم اس پر عمل پيرا ہو سكيں، اور پھر ہمارا تو اس كے مفيد ہونے كا بھى يقين ہے، اور ہم يہ پختہ يقين ركھتے ہيں كہ اس ميں كوئى ضرر اور نقصان نہيں، كيونكہ اگر اس ميں كوئى نقصان اور ضرر ہوتا نہ تو اللہ تعالى اسے مشروع كرتا اور نہ ہى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس كا حكم ديتے.
[23:34, 29/4/2016] +91 98903 94434: سوال نمبر ( 45528 ) كے جواب ميں كچھ طبى فوائد بيان كيے گئے ہيں جو بعض ڈاكٹر حضرات كى طرف سے بيان ہوئے ہيں.
سوم:
ذيل كى سطور ميں ہم عورت كا ختنہ كرنا صحت كے ليے مضر اور نقصان دہ كہنے اور ختنہ كے خلاف محاذ كھولنے والوں كے خلاف معاصر علماء ميں سے كچھ علماء كے فتوى جات پيش كرتے ہيں جنہوں نے ختنہ كے خلاف جنگ كا دندان شكن جواب ديا ہے.
ازہر يونيورسٹى كے سابقہ شيخ الازھر جاد الحق على جاد الحق كہتے ہيں:
" يہاں سب مذاہب كے فقھاء كرام اس پر متفق ہيں كہ مرد و زن كے ليے ختنہ كرانا اسلامى فطرت اور دين اسلام كے شعائر ميں شامل ہوتا ہے، اور يہ عمل قابل ستائش و تعريف ہے، ہمارے سامنے جو بھى كتب موجود ہيں جن كا ہم مطالعہ كر چكے ہيں ان ميں يہ نہيں ہے كہ كسى بھى مسلمان فقيہ نے يہ كہا ہو كہ مردوں يا عورت كو ختنہ نہيں كرانا چاہيے، يا ختنہ كرانا ناجائز ہے، يا عورتوں كے ليے ختنہ كرانا نقصان دہ ہے، اور اس ميں ضرر پايا جاتا ہے.
اگر يہ ختنہ اس طرح كيا جائے جس طرح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اوپر كى سطور ميں بيان كردہ روايت ميں ام حبيبہ رضى اللہ تعالى عنہا كو سكھايا تھا " ....
پھر اس كے بعد شيخ جاد الحق كہتے ہيں:
" مندرجہ بالا سطور كى بنا پر جب يہ واضح ہو چكا ہے كہ لڑكيوں كا ختنہ كرانا ـ بحث كا موضوع ـ اسلام كى فطرت ميں شامل ہے، اور اس كا طريقہ بھى وہى ہے جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بيان فرمايا ہے، اس ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا طريقہ اور ان كى سنت اور راہنمائى كو كسى اور شخص كے قول كى بنا پر ترك نہيں كيا جائيگا، چاہے وہ شخص كتنا بڑا اور ماہر ڈاكٹر ہى كيوں نہ ہو، كيونكہ طب اور ميڈيكل ايك علم اور فن ہے، جس ميں تطور و ترقى ہوتى رہتى ہے، اور ہر وقت اس كے متعلق نظريات ميں بھى تبديلى اور تغير آتا رہتا ہے " انتہى. مختصرا.
اور ازھر يونيورسٹى كى فتوى كميٹى كے سابقہ چئرمين جناب شيخ عطيہ صقر كہتے ہيں:
" وبعد:
لڑكيوں كے ختنہ كے خلاف جو آوازيں اٹھائى جارہى ہيں وہ شريعت اسلاميہ كے مخالف ہيں؛ كيونكہ نہ تو قرآن و سنت ميں كوئى صريح نص پائى جاتى ہے جس سے لڑكيوں كے ختنہ كرنے كى حرمت ثابت ہوتى ہو، اور نہ ہى فقھاء كرام كا كوئى قول ہے، اس ليے لڑكيوں كا ختنہ كرنا وجوب اور مندوب كے مابين گردش كرتا ہے، اور پھر فقھى قاعدہ ہے كہ:
حكمران اختلاف كرنے كا حكم دے. اس ليے اس مسئلہ ميں حكمران كو چاہيے كہ وہ يا تو وجوب كا حكم دے يا پھر مندوب ہونے كا، ليكن اس كے ليے ناجائز اور حرمت كا حكم دينا صحيح نہيں، تا كہ وہ شريعت اسلاميہ كا مخالف نہ ہو، كيونكہ اسلامى ممالك ميں شريعت اسلاميہ ہى قوانين كا مصدر اور اس ملك كا دستور ہے.
اور يہ جائز ہے كہ واجب اور مندوب كو اچھى طرح ادا كرنے كے ليے قوانين و تحفظات رائج كيے جائيں، تا كہ وہ دينى قوانين اور فيصلوں كے ساتھ متصادم نہ ہوں.
اور پھر ڈاكٹر حضرات يا كسى اور كى كلام قطعى نہيں، اس ليے كہ علمى انكشافات كا دروازہ كھلا ہے، اور ہر روز كوئى نہ كوئى نئى ريسرچ سامنے آتى ہے، جو پہلے نظريہ كو كالعدم اور تبديل كرنے پر مجبور كر رہى ہے" انتہى بتصرف.
مصرى دار الافتاء كے فتاوى جات ميں درج ذيل فتوى مذكور ہے:
اس سے لڑكيوں كے ختنہ كى مشروعيت واضح ہوتى ہے، اور يہ ثابت ہوتا ہے كہ لڑكيوں كا ختنہ كرنا فطرتى محاسن ميں سے ہے، اور اس كا زندگى پر اچھا اثر پڑتا ہے اور اسے اعتدال كى راہ پر لے جاتا ہے.
رہا يہ مسئلہ كہ كچھ ڈاكٹروں كى رائے ميں لڑكى كا ختنہ كرنا صحت كے ليے مضر اور نقصان دہ ہے تو يہ فردى رائے تو ہو سكتى ہے جس كى كوئى متفق عليہ علمى اساس و بنياد نہيں، اور نہ ہى يہ ايك فيصلہ كن علمى نظريہ بن سكا ہے، حالانكہ ڈاكٹر حضرات اس بات كے معترف ہيں كہ ختنہ شدہ مرد حضرات ميں سرطان كى بيمارى بہت كم پائى جاتى ہے اس كے مقابلہ ميں جن كا ختنہ نہيں ہوا انہيں يہ بيمارى بہت زيادہ لگتى ہے.
اور بعض ڈاكٹر حضرات تو صراحتا يہ كہتے ہيں كہ صرف مرد ڈاكٹروں سے ہى ختنہ كرايا جائے، نہ كہ ليڈى ڈاكٹر سے كيونكہ وہ اس سے جاہل ہيں، تا كہ ختنہ اچھى اور صحيح طرح ہو اور صحت پر اس كا كوئى نقصان نہ ہو.
اور پھر بيماريوں كے متعلق ميڈيكل نظريات اور بيماريوں كے علاج كا كوئى مستقل اور ايك ہى طريقہ نہيں، بلكہ وقت اور حالات اور ريسرچ كے ساتھ ساتھ اس ميں تبديلى ہوتى رہتى ہے، اس ليے ختنہ كے انكار كى رائے پر اعتماد نہيں كرنا چاہيے، اس ليے كہ شارع جو كہ حكيم و عليم بھى ہے اور اس نے وہى چيز مشروع كى ہے جو فطرت انسانى كے ليے صحيح اور سليم اور بہتر ہے.
اور پھر ہميں تجربات نے يہ سكھا ديا ہے كہ لمبا وقت اور زمانہ گزرنے كے ساتھ ساتھ حادثات ہمارے سامنے وہ حكمتيں واضح كر ديتا ہے جس كى بنا پر شارع نے ہمارے ليے وہ احكام مشروع كيے تھے اور ہمارے ليے وہ حكمت مخفى رہى اور اس كا علم نہ ہوا، اور سنن ميں سے ہمارى اس كى جانب راہنمائى فرمائى.
اللہ تعالى ہم سب كو رشد و ہدايت كى توفيق نصيب فرمائے.
ديكھيں: فتاوى دار الافتاء المصريۃ ( 6 / 1986 ).
واللہ اعلم .
45528: لڑكيوں كا ختنہ كرنے كے طبى فائدے
ميرى گزارش ہے كہ لڑكيوں كے ختنہ كرنے كے طبى فائدہ بيان كريں ؟
Published Date: 2007-04-21
الحمد للہ:
اللہ سبحانہ وتعالى نے جيسے مخلوق كو پيدا فرمايا ہے تو ان كے ليے دينى و دنياوى امور ميں سے جو ان كے ليے بہتر ہے اور جس ميں ان كى اصلاح ہے وہ بھى اپنے ذمہ لے ركھے ہيں، اسى ليے اللہ تعالى نے رسول مبعوث كيے اور كتابيں نازل فرمائيں تا كہ انسانوں كو خير و بھلائى كى طرف راہنمائى كى جائے، اور انہيں خير و بھلائى كرنے پر ابھارا جائے، اور انہيں شر و برائى كا بھى علم ہو تا كہ وہ اس سے اجتناب كر سكيں.
اور بعض اوقات ايسا بھى ہو سكتا ہے كہ شريعت مطہرہ انہيں كسى چيز كا حكم دے، يا پھر كسى كام سے اجتناب كرنے كا كہے، ليكن لوگوں كے ليے يا پھر اكثر افراد كے ليے اس حكم اور ممانعت كى حكمت ظاہر نہ ہو تو اس وقت ہميں اللہ تعالى كے حكم كے سامنے سرخم تسليم كرتے ہوئے اس پر علم كرينگے، اور جس چيز سے اجتناب كرنے كا كہا گيا ہے اس سے رك جائينگے، اور ہميں يہ يقين ركھنا ہوگا كہ اللہ تعالى كى شريعت ميں ہى ہر قسم كى خير ہے، چاہے اس كى حكمت ہمارے ليےظاہر نہ بھى ہو.
ختنہ كرنا فطرتى سنت ميں شامل ہوتا ہے، جيسا كہ اس كى دليل رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے درج ذيل فرمان ميں بھى ہے:
" پانچ چيزيں فطرتى ہيں، يا پانچ اشياء فطرت ميں شامل ہيں: ختنہ كرنا، زيرناف بال مونڈنا، بغلوں كے بال اكھيڑنا، اور ناخن تراشنا، اور مونچھيں كاٹنا "
صحيح بخارى حديث نمبر( 5550 )صحيح مسلم حديث نمبر ( 257)
بلاشك و شبہ فطرتى سنتوں ميں شامل سب امور ايسے ہيں جن كى مشروعيت كى بعض حكمتيں ظاہر ہو چكى ہيں، اور ختنہ بھى انہيں امور ميں شامل ہے اس كے كچھ اہم فوائد ظاہر ہو چكے ہيں جو قابل انتباہ ہيں اور ان سے شريعت كى حكمت بھى معلوم ہوتى ہے.
سوال نمبر (
9412 ) كے جواب ميں ہم ختنہ اور اس كى كيفيت اور ختنہ كے احكام كے متعلق بيان كر چكے ہيں، اور سوال نمبر (
7073 ) كے جواب ميں ختنہ كرنے كے شرعى اور طبى فوائد بيان ہوئے ہيں آپ ان دونوں سوالات كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
مرد اور عورت دونوں كے حق ميں ختنہ كرنا مشروع ہے، اور صحيح يہى ہے كہ مرد كا ختنہ كرنا واجب اور دين اسلام كے شعار ميں شامل ہوتا ہے، اور عورتوں كا ختنہ كرنا مستحب ہے واجب نہيں.
سنت نبويہ ميں ايسے دلائل ملتے ہيں جو عورتوں كے ختنہ پر دلالت كرتے ہيں، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں مدينہ ميں ايك عورت ختنہ كيا كرتى تھى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے فرمايا:
" تم بالكل ہى جڑ سے نہ كاٹنا، كيونكہ يہ عورت كے ليے زيادہ مفيد اور خاوند كو زيادہ پسنديدہ ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 5271 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور پھر عورتوں كے ليے ختنہ كى مشروعيت كوئى بيكار اور عبث كام نہيں، بلكہ اس كى كئى ايك حكمتيں اور بہت عظيم فوائد ہيں.
ڈاكٹر حامد غزالى ان ميں سے بعض فوائد بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں:
.... " ان چمڑے كى پتلى دو جھليوں ميں كئى قسم كى گندگى اكٹھى ہو كر جم جاتى ہے اور اس سے كريہہ اور گندى قسم كى بدبو آنے لگتى ہے اور بعض اوقات تو يہ رحم يا پيشاب كى نالى ميں جلن كا باعث بنتى ہے، ميں نے بہت سے مرضى حالات ديكھے ہيں جن كا سبب ختنہ نہ كروانا ہے.
ـ بعض اوقات ختنہ والى جگہ ( كلغى ) بہت زيادہ بڑھ جاتى ہے جس كى لمبائى تقريبا تين سينٹى ميٹر تك جا پہنچتى ہے، جو كہ خاوند كے ليے جماع كرتے وقت بہت تشويش پيدا كرتى ہے، اس ليے عورت كا ختنہ كرنے سے اس كى حساسيت بہت تك كم ہو جاتى ہے.
ختنہ كرنے كا فائدہ يہ بھى ہے كہ: ختنہ كرنے سے ختنہ كے بڑھاؤ كو روكا جا سكتا ہے، جو كہ عورت كے ليے تكليف دہ ہوتا ہے، اور بعض اوقات تو وہاں درد بھى ہوتى رہتى ہے.
عورت كا ختنہ كرنے سے عورت كو نسائى مرض لگنے كا خطرہ كم ہوتا ہے.
ـ ختنہ كرنے سے عورت كو شديد قسم كى شہوت ميں كمي كرتا ہے جو كہ ختنہ والى جگہ ميں ہيجان پيدا ہونے كى شكل ميں پيدا ہوتا ہے، اور حركت كرنے سے ہى ہيجان كى شكل پيدا ہو جاتى ہے، جس كا علاج بہت مشكل ہے.
بعض لوگ كہتے ہيں كہ: عورتوں كا ختنہ كرنا عورت سے جنسى ميلان ختم اور اسے ٹھنڈا كرنے كا باعث بنتا ہے؟
اس كے رد ميں ڈاكٹر الغوابى كہتے ہيں:
" جنسى ميلان اور خواہش كا ٹھنڈا پڑنے كے بہت سے اسباب ہيں، اور يہ دعوى ختنہ اور غير ختنہ والى عورتوں كے مابين كسى صحيح سرچ پر مشتمل نہيں ہے، الا يہ كہ ختنہ فرعونى طريقہ سے كيا جائے يعنى اسے جڑ سے ہى كاٹ ديا جائے تو ايسا كرنے سے حقيقتا جنسى خواہش ٹھنڈى پڑ جاتى ہے.
ليكن يہ كام اس ختنہ كے بالكل الٹ اور مخالف ہے جس كا نبى رحمت رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حكم ديتے ہوئے فرمايا تھا:
" تم اسے بالكل ہى ختم نہ كر دينا " يعنى اسے جڑ سے ہى مت كاٹ دو، اكيلى يہى نشانى خود ہى بول رہى ہے كہ ايسا نہيں، چنانچہ طب نے اس حساس عضو ( كلغى ) سے بارہ ميں طب نے كچھ بھى ظاہر نہيں كيا، اور نہ ہى اس ميں پائے جانے والے اعصاب كے متعلق شرح واضح ہوئى ہے.
ماخوذ از: ميگزين: لواء الاسلام عدد نمبر ( 7 ) اور ( 10 ) مضمون بعنوان ( لڑكيوں كا ختنہ ).
ليڈى ڈاكٹر ست البنات خالد اپنے مضمون " ختان البنات رؤيۃ صحيحۃ " لڑكيوں كا ختنہ ايك حقيقت ميں كہتى ہے:
ہمارے عالم اسلامى ميں ہم عورتوں كا ختنہ كرنا ہر چيز سے قبل تو شريعت مطہرہ كے سامنے سرخم تسليم كرنا اور اس پر عمل ہے، كيونكہ اس ميں ہى فطرت اور سنت نبويہ پر عمل پيرا ہونا ہے جس نے ايسا كرنے كى ترغيب دى اور ابھارا ہے.
اور ہم سب اپنى شريعت حنيفہ كى دور بينى كو جانتے ہيں، اور جو كام بھى ضرورى ہے اس ميں ہر ناحيہ اور اعتبار سے خير و بھلائى ہى ہے، جس ميں صحت كے اعتبار سے بھى فائدہ ہے، چاہے اس كا فائدہ فى الحال نظر نہيں آتا ليكن آئندہ مستقبل اور آنے والے ايام ميں اس كے فوائد ضرور ظاہر ہونگے، جيسا كہ مردوں كے ختنہ كرنے كے متعلق كئى ايك فوائد ظاہر ہو چكے ہيں، اور دنيا كو اس كے فوائد كا علم ہو چكا ہے، جس كى بنا پر مردوں كا ختنہ كرنا سارى دنيا اور سارى امتوں ميں منتشر اور پھيل چكا ہے حالانكہ بعض گروپ اس كى مخالفت بھى كرتے ہيں، ليكن پھر بھى ان كے ہاں ختنہ كيا جاتا ہے.
پھر ڈاكٹر صاحبہ عورتوں كے ختنہ كرنے كے كچھ صحت كے فائدے بيان كرتى ہوئى كہتى ہيں:
ـ عورتوں ميں اس كى بنا پر شہوت كى شدت اور اس ميں زيادتى ختم ہو جاتى ہے.
ـ قلفہ ( كلغى ) كے نيچے مختلف قسم كا گندہ مادہ جمع ہونے كى بنا پر پيدا ہونے والى كريہہ اور گندى قسم كى بدبو كا خاتمہ ہو جاتا ہے.
ـ پيشاب كى ناليوں ميں جلن بہت حد تك كمى واقع ہو جاتى ہے.
ـ تناسلى ناليوں ميں جلن كى كافى حد تك كمى ہوجاتى ہے.
ماخوذ از: كتاب الختان تاليف ڈاكٹر محمد على البار.
اور كتاب " عورتوں اور بچوں پر اثرانداز ہونے والى عادات " جسے عالمى صحت كميٹى نے ( 1979 ) ميں جارى كيا تھا ميں درج ذيل بيان ہے:
" عورتوں كى زندگى ميں اصل آسودگى اور فراخى تو قلفہ ( كلغى ) كے كاٹنے سے ہوتى ہے، اور يہ مردوں كے ختنہ كرنے كے مشابہ ہے.... يہ ايسى قسم ہے جس كے صحت پر كوئى مضر اثرات بيان نہيں كيے جاتے "
واللہ اعلم .