Saturday, 30 April 2016

How to maintain safe distance from income tax department?

How to Maintain Safe Distance from Income Tax Department ?

Do you want to keep an Arm’s Length Distance from the Income Tax Department?

Obviously the Answer is YES!!! But the question here is HOW???

Here are a list of expenses/ investments, which at any point of time performed by you may invite undue attention from the Income tax Personnel.

1) Depositing Cash aggregating to Rs.10 Lacs p.a. in your Savings Bank Account.

2) Making Credit Card Payments of more than Rs.2 Lacs p.a.

3) Investment in Mutual Fund Units worth more than Rs. 2 Lacs.

4) Investment in Debentures/ Bonds, amounting more than Rs. 5 Lacs

5) Investment in Shares worth more than Rs. 1 Lakh.

6) Investment in Gold ETF worth more than Rs. 1 Lakh.

7) Investment in RBI Bonds worth more than Rs. 5 Lacs.

8) Purchase / Sale of any Immovable Property exceeding Rs.30 Lacs.

9) Receipt of Cash Payment exceeding Rs.2 Lacs for sale of any goods/ services.

10) Cash deposits or withdrawals aggregating to Rs 50 lakh or more in a financial year in one or more Current Account.

The Next question which may strike us, is how does the Income tax Personnel get to know about all these activities.

To keep an eye on such high value transactions of the tax payers, the IT Department has developed a statement of financial transactions called Annual Information Report (AIR).
On the basis of this AIR, the department shortlists their targets and further sends them a notice.

What do you mean by a Annual Information Report.

Annual Information Return (AIR) of ‘high value financial transactions’ is required to be furnished under section 285 BA of the Income-tax Act, 1961 by ‘specified persons’ in respect of ‘specified transactions’ registered or recorded by them during the financial year.

Who provides the high value transaction information to prepare the AIR.

☆ Banks
☆ Mutual Fund Companies
☆ Companies Issuing Bonds/ Debentures
☆ Companies issuing shares
☆ Credit Card Companies
☆ Sub- registrar offices on real estate deals.
☆ Gold Ornament Sellers.

How can I trace my High Value Transactions reported under AIR.?

The assesse can trace his/ her high value transactions reported under AIR, in their 26AS Report under AIR section. Any transaction of the assesse which has been categorized as a High Value Transaction, will be reflected therein.

In the end, one last question which everyone might have. How to avoid receiving a notice from the IT department.

The most important step is to file your Income Tax returns on time and file them correctly.

Disclose all your Taxable as well as Exempt income under the right head.

جماعت اسلامی؛ ایک جدید فرقہ ضالہ

علامہ فضیل احمد ناصری ابن مولاناجمیل احمد ناصری
    
جماعتِ اسلامی؛ سننے میں ایک پرکشش نام، مگر اسلام کے لیے زہرِ ہلاہل جماعت ہے- یہ ایک مستقل فرقہ ہے، جس کا تانا بانا شیعہ دھرم سے تیار ہوا ہے-ہمارے بعض احباب اس 'جماعت' کو فرقہ تسلیم نہیں کرتے، بلکہ انہیں دین کا مخلص خادم گردانتے ہیں-حال ہی میں مشہور مصری عالم یوسف القرضاوی صاحب کا ایک مضمون گردش کرتا ہوا دکھائی دیا، جس میں القرضاوی نے یہ بتایا کہ مولانا مودودی کی تفہیم القرآن اچھی تفسیر ہے اور اس کے مشمولات اسلامی تعلیمات سے میل کھاتے ہیں، جب کہ بعض مقامات پر انہوں نے نقد و جرح سے بھی کام لیا ہے-القرضاوی کی اس تحریر کے بعد اچھے خاصے پڑھے لکھے بلکہ بعض فضلائے دارالعلوم بھی مودودی صاحب کے ہم نوا نظر آنے لگے ہیں، اسی لئے میں نے ضروری خیال کیا کہ مودودی صاحب اور ان کی جماعت اسلامی کے خدوخال قدرے تفصیل کے ساتھ پیش کردئے جائیں -

گمراہ ہیں مودودی :

اس سلسلے میں نے پانچ کتابوں کا انتخاب کیا ہے، جن کے نام حوالوں کے ضمن میں پیش کئے جائیں گے- میں سب سے پہلے اپنا موقف واضح کردوں- میرا موقف یہ ہے کہ مودودی صاحب گمراہ ہیں اور ان کی 'جماعت' فرقۂ محدثہ ہے- یہاں یہ خیال بھی رکھا جائے کہ دارالعلوم دیوبند میں جن فرقہ ہائے ضالہ پر باقاعدہ محاضرے پیش کئے جاتے ہیں، ان میں ردرضاخانیت، ردغیر مقلدیت، ردشیعیت، ردقادیانیت، رد عیسائیت، ہندو دھرم اور رد مودودیت شامل ہیں-
یہ محاضرے کتابی صورتوں میں چھپ بھی چکے ہیں-مکتبہ دارالعلوم دیوبند سے انہیں حاصل کیاجاسکتاہے-

میرادعویٰ....

جماعت اسلامی اور مودودی صاحب سے متعلق میراد عویٰ اپنے اکابر کی تحقیق کے مطابق یہ ہے کہ جماعت 'فرقۂ ضالہ' ہے اور مودودی صاحب گمراہ -اس سلسلے میں سب سے پہلے مفتی اعظم حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ ایک سوال کےجواب میں فرماتےہیں:
"مولوی ابوالاعلیٰ مودودی اور ان کی اسلامی جماعت کے متعلق میں نے گمراہ ہونے اور اسلام میں ایک  فتنہ ہونے کا بیان تو دیا ہے، کافر ہونے کابیان ابھی تک نہیں دیا ہے، تاہم فتنہ قوی اور بہت اندیشہ ناک ہے. (کفایت المفتی جلداول/ص/327) 
حتی کہ انہوں نے اسی کتاب کے صفحۂ مذکورہ پر یہ بھی لکھاہے،
"مسلمانوں کو اس تحریک سے علٰحدہ رہناچاہئے اور ان سے میل جول اور ربط واتحاد نہ رکھنا چاہئے- ان کےمضامین بظاہر دل کش اور اچھے معلوم ہوتےہیں، مگر ان میں ہی وہ باتیں دل میں بیٹھتی جاتی ہیں جو طبیعت کو آزاد کردیتی ہیں اور بزرگانِ اسلام سے بدظن بنادیتی ہیں-                            

اسلام سے منحرف کیوں؟

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مودودی صاحب اور ان کی جماعت اسلام سے منحرف کیوں ہے؟ تو جواب مع دلائل بھی سن لیجئے،

🌍جماعت اسلامی کے عقائد :

1/کعبۃ اللہ کے خدام بنارس اور ہریدوار کے پنڈت ہیں (خطبات مودودی /ص۳۰۲) .....
2/داڑھی جتنی بھی رکھ لی جائے، حدیث پر عمل ہوجائے گا، ایک مشت داڑھی واجب نہیں (رسائل ومسائل حصہ اول /ص/۱۸۵/۱۸۶)......
3 /زکوۃ، صدقۂ فطر اور چرم قربانی کی رقم ہمارے (جماعت اسلامی )کے قبضے میں آجانا کافی ہے، آگے خواہ ہم اس سے شفا خانے چلائیں، یا ڈاکٹروں کو تنخواہ دیں یا گاڑیاں خریدیں یا تعمیرات پرصرف کریں یاالیکشن لڑیں، ان کے برخلاف پوری امت کا اجماع ہے کہ فقیر کو مالک بنائے بغیر زکوۃ اور صدقات واجبہ ادا نہیں ہوں گے ......
4/دوحقیقی بہنوں کو بیک وقت ایک مرد کے نکاح میں دیا جاسکتا ہے، جب کہ قرآن اور اجماع مودودی صاحب کےخلاف ہے- (ترجمان القرآن نومبر 1954//ص /126).....5/بوقت ضرورت متعہ جائزہے (ترجمان القرآن /اگست 1955) جبکہ امت کا اس پراجماع ہے کہ قیامت تک کے لیے اسے حرام کردیا گیا.......
6......یہ کانا دجال وغیرہ افسانے ہیں، جن کی کوئی شرعی حیثیت نہیں (رسائل ومسائل ص/۵۳).7.....تقیہ کرنا، فرماتےہیں:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکمت عملی (تقیہ) کے تحت قرآنی مساوات کے خلاف
"الائمۃ من قریش "
کا فیصلہ فرمایا (ترجمان القرآن، دسمبر، ۱۹۵۶)....8......دین کا اصل مقصد حکومت اسلامی قائم کرنا ہے اور عبادات سب کی سب اس مقصد کے حصول کا ذریعہ ہیں (خطبات، ص، ۲۲۷).....
9........صحابہ (کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ) معیارحق نہیں:
دستور جماعت اسلامی پاکستان، 14/پر لکھتے ہیں: رسول خدا (صلی اللہ علیہ وسلم ) کےسوا کسی انسان کو معیار حق نہ بنائے، کسی کو تنقید سے بالاتر نہ سمجھے، کسی کی ذہنی غلامی میں مبتلا نہ ہو، ہرایک کو خدا کے بتائے ہوئے اسی معیار کامل پر جانچے اور پرکھے اور جو اس معیار کے لحاظ سے جس درجہ میں ہو اس کواسی درجہ میں رکھے. "-ترجمان القرآن، اگست ۱۹۷۶، شمارہ 40 /میں لکھتے ہیں:
"معیارحق تو صرف اللہ کا کلام اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سنت ہے، صحابہ (کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ) معیار حق نہیں ہیں، بلکہ اس معیار پر پورے اترتے ہیں، اس کی مثال یہ ہے کہ کسوٹی سونا نہیں ہے، لیکن سونے کا سونا ہونا کسوٹی پر کسنے سے ثابت ہوتاہے- .....
10.....انبیاء علیہم السلام معصوم عن الخطا نہیں: تفہیمات جلد دوم /ص۵۷/میں لکھتےہیں،
"عصمت انبیاء (کرام ) علیہم الصلوۃ والسلام کے لوازمِ ذات سے نہیں، اور ایک لطیف نکتہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بالارادہ ہر نبی (علیہ السلام ) سے کسی نہ کسی وقت اپنی حفاظت اٹھا کر ایک دو لغزشیں ہوجانے دی ہیں. ".....
11....احادیث رسول علم یقین کا فائدہ نہیں دیتیں: ترجمان القرآن جلد ۲۶/ص/۲۶۷/عدد/۳ میں لکھتے ہیں:
"احادیث چند انسانوں سے چند انسانوں تک پہنچتی ہوئی آئی ہیں، جن سے حد سے حد اگر کوئی چیز حاصل ہوتی ہے تو وہ گمانِ صحت ہے، نہ کہ علمِ یقین .اس عبارت میں "حد سے حد' کا لفظ بہت خطرناک ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اولاً تو حدیث سے کوئی خاص بات ثابت نہیں ہوتی، حدسےحد اگر کچھ ثابت ہوتاہے توگمانِ صحت ہوسکتا ہے، یعنی خیال کیاجاسکتا ہے کہ یہ حدیث شاید صحیح ہے-یقنی طور پر اسے صحیح کہنامشکل ہے-

احسن الفتاوی سے ماخوذ :

مذکورہ بالا سبھی تفصیلات احسن الفتاویٰ جلد اول سے ماخوذ ہیں، احسن الفتاویٰ میں 'مودودی صاحب اور تخریبِ اسلام' کےعنوان سے ۳۲/صفحات پر مفصل بحث موجود ہے.

🌍حضرت امیر معاویہ (رضی اللہ عنہ) نے رسمِ بد ایجاد کی :

ایک اور نہایت مکروہ بدعت حضرت معاویہ (رضی اللہ عنہ ) کےعہد میں یہ شروع ہوئی کہ وہ خود اور ان کے حکم سے تمام گورنر خطبوں میں برسرِ منبر حضرت علی (رضی اللہ عنہ) پر سب وشتم کی بوچھاڑ کرتے تھے ،حتی کہ مسجد نبوی میں منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم عین روضۂ نبوی کےسامنے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کےمحبوب ترین عزیز کو گالیاں دی جاتی تھیں اور حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کی اولاد اور ان کے قریب ترین رشتے دار اپنے کانوں سے یہ گالیاں سنتےتھے، کسی کےمرنے کے بعد اس کو گالیاں دینا شریعت تو درکنار ،انسانی اخلاق کے بھی خلاف تھا اور خاص طور پر جمعہ کے خطبے کو اس گندگی سے آلودہ کرنا دین واخلاق کے لحاظ سے سخت گھناؤنا فعل تھا(خلافت وملوکیت ،س/۱۶۲/بارسوم).

🌍حضرت یوسف علیہ السلام کا موازنہ مسولینی سے :

سیدنا یوسف علیہ السلام کے اس ارشاد
"اجعلنی علی خزائن الارض "
ــــــــ مجھے زمین مصر کے خزائن کا نگراں مقررکردیجئے ــــــــــ کےمتعلق مودودی صاحب نےلکھاہے :
یہ محض وزیر مالیات کے منصب کا مطالبہ نہیں تھا جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں ،بلکہ یہ ڈکٹیٹر شپ کا مطالبہ تھا اور اس کے نتیجے میں یوسف علیہ السلام کو جوپوزیشن حاصل ہوئی وہ قریب قریب وہی پوزیشن تھی جو اس وقت اٹلی میں مسولینی کو حاصل ہے (تفہیمات حصہ دوم ،ص /۱۲۸)....
واضح رہے کہ یہ تفصیلات فتاویٰ رحیمیہ جلد اول سے ماخوذ ہیں.

🌍جماعت اسلامی کےسوا باقی سب مکاتب فکر غلط ہیں:

خطبات مودودی میں ہے :
حنفی ،سنی، دیوبندی، اہل حدیث ،بریلوی، شیعہ وغیرہ جہالت کی پیداوار ہیں.

🌍مودودی اور شیعہ بھائی بھائی:

مندرجہ ذیل عقائد مذہب شیعہ کا شعار اور مابہ الامتیاز ہیں،
۱/تحریف قرآن
۲/بغض صحابہ
۳/سلف صالحین کو گمراہ قرار دینا اوران کو ہدف ملامت بنانا
۴/متعہ
۵/تقیہ........
مودودی صاحب ان پانچوں عقائد میں شیعہ سے متفق ہیں ( احسن الفتاوی جلداول )

🌍خلاصۂ کلام:

مودودی مذہب ایک الگ مذہب اور باطل مکتب فکرہے- جماعت اسلامی بھی باطل مکتب فکر ہے، یہ مکتب فکر شیعہ دھرم سے زیادہ میل کھاتاہے- اس سلسلے میں خیرالفتاویٰ جلداول ،احسن الفتاویٰ جلداول فتاوی رحیمیہ جلداول ،فتاوی محمودیہ جلددوم اور حضرت امیر معاویہ اور تاریخی حقائق میرے سامنے ہیں ،ان سب سے جماعت اسلامی اور اس کے بانی مودودی صاحب کا بطلان ثابت ہوتا ہے-اس موضوع پر ہمارے دارالعلوم اور اس کے غیور و جسور فرزندان نے کافی مواد فراہم کردئے ہیں، مطالعۂ مودودیت بھی اس سلسلے میں مفیدترین کتاب ہے-

Friday, 29 April 2016

امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ امت کے عظیم محسن

عالمی اتحاد اہل السنت والجماعت کے مرکزی امیر مولانا محمد الیاس گھمن نے لاریب میرج ہال I.8مرکز اسلام آباد میں پانچویں سالانہ امام اعظم ابو حنیفہ سیمینار  سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قرآن و سنت سے مسائل نکالنا فقیہ کا منصب ہے ۔ امام ابو حنیفہ نے صحابہ کی شاگردی میں فقہ حنفی کی تدوین کی ۔ احکام اسلام کی آسان تعبیرات سے امت کو واقف کرایا۔ فقہاء کی تعلیمات کو اپنانے سے اختلافات سمٹ جاتے ہیں ۔پوری دنیا  کے مسلمان چاروں ائمہ کی پیروی میں دین اسلام پر عمل کرتے ہیں ۔ دنیا بھر میں امام اعظم ابو حنیفہ کے پیروکاروں  کی تعداد 70 فی صد ہے ۔ امام صاحب نے سیاسیات میں بھی امت کی بھر پور رہنمائی فرمائی ہے ۔ اس امت کے پہلے چیف جسٹس  امام ابو حنیفہ کے مایہ ناز شاگردامام  قاضی ابو یوسف  ہیں ۔ دہشت گردی ، فرقہ واریت ،بدامنی اور جہالت سے نکلنے کے لیے ہمیں امام ابو حنیفہ کی رہنمائی کی ضرورت ہے ۔ ہم فقہائے احناف کے اصولوں پر کاربند رہنے کے ساتھ ساتھ دیگر ائمہ اجتہاد امام مالک ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کو برحق مانتے اور ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں خود بھی صراط مستقیم پر چلنا ہوگا اور کفار کو ایمان کی طرف لانے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اس کے لیے اکابر کا مسلک بھی سمجھنا ضروری ہے اور ان کا منہج بھی ۔ اس وقت پوری دنیا میں عموماً اور ہمارے  برصغیر پاک وہند میں  خصوصاً؛  فرقہ واریت ، دہشت گردی ، بدامنی ، جہالت ، اباحت پسندی ، آزاد خیالی ، فکری یورش ، مغربی افکار ، ذہنی کج روی ،لبرل ازم ، سیکولر ازم اور بے دینی کا زور ہے ۔ اس سے بچنے کے لیے ہمیں امام ابو حنیفہ کی رہنمائی کی ضرورت ہے ۔انہوں نے کہا کہ معاشرے میں پھیلے معاشرتی جرائم کی روک تھام کے لیے خوف خدا ، اطاعت رسول اور فکر آخرت پر توجہ دینی ہوگی ۔ بعض لادین لابیاں ماڈرن اسلام کا نعرہ لگا کر اسلام کی اساسیات کو کمزور کرنے مصروف  اورامت کے متفقہ مسائل میں اختلاف کرنے والے حقیقت میں ہمارے اجتماعی دھارے کو کمزور کرنے میں لگے ہوئے ہیں اس لیے علماء کو اسلام کی اصلیت اور حقیقت کو باقی رکھنے کے لیے اس کی صحیح ترجمانی کا حق ادا کریں ۔ انہوں نے  کہا کہ علماء سے اختلافی مسائل میں گفتگو کرتے ہوئے اعتدال کا خیال رکھیں۔قوت دلیل اورحکمت عملی اور  فراست وبصیرت کو اپنا کر اعتدال کے ساتھ عملی میدان میں آئیں دوسرے مکاتب فکر  کے بزرگوں کی پگڑیاں اچھالنا اہل علم وفضل کا شیوہ نہیں ہے ۔نظریاتی حوالے سے ہماری شناخت مذہب اسلام اور مسلک اہل السنت والجماعت ہے جبکہ جغرافیائی حوالے سے ہماری شناخت پاکستان سے ہے ۔ یہ ملک ہم نے قربانیاں دے کر بنایا تھا اب اس کو بچانا بھی ہم نے ہے ۔ اسلام کو چھوڑیں نہیں اور ملک کے آئین کو توڑیں نہیں ۔
مولانا محمد الیاس گھمن

رَدیف ، قافیہ ، بندِش ، خیال ، لفظ گری








رَدیف ، قافیہ ، بندِش ، خیال ، لفظ گری
وُہ حُور ، زینہ اُترتے ہُوئے سکھانے لگی

کتاب ، باب ، غزل ، شعر ، بیت ، لفظ ، حُروف
خفیف رَقص سے دِل پر اُبھارے مست پری

کلام ، عَرُوض ، تغزل ، خیال ، ذوق ، جمال
بدن کے جام نے اَلفاظ کی صراحی بھری

سلیس ، شستہ ، مُرصع ، نفیس ، نرم ، رَواں
دَبا کے دانتوں میں آنچل ، غزل اُٹھائی گئی

قصیدہ ، شعر ، مسدس ، رُباعی ، نظم ، غزل
مہکتے ہونٹوں کی تفسیر ہے بھلی سے بھلی

مجاز ، قید ، معمہ ، شبیہ ، اِستقبال
کسی سے آنکھ ملانے میں اَدبیات پڑھی

قرینہ ، سَرقہ ، اِشارہ ، کِنایہ ، رَمز ، سوال
حیا سے جھکتی نگاہوں میں جھانکتے تھے سبھی

بیان ، علمِ معانی ، فصاحت ، علمِ بلاغ
بیان کر نہیں سکتے کسی کی ایک ہنسی

قیاس ، قید ، تناسب ، شبیہ ، سَجع ، نظیر
کلی کو چوما تو جیسے کلی ، کلی سے ملی

ترنم ، عرض ، مکرر ، سنائیے ، اِرشاد
کسی نے ’’سنیے‘‘ کہا ، بزم جھوم جھوم گئی

حُضُور ، قبلہ ، جناب ، آپ ، دیکھیے ، صاحب
کسی کی شان میں گویا لغت بنائی گئی

حریر ، اَطلس و کمخواب ، پنکھڑی ، ریشم
کسی کے پھول سے تلووں سے شاہ مات سبھی

گلاب ، عنبر و ریحان ، موتیا ، لوبان
کسی کی زُلفِ معطر میں سب کی خوشبو ملی

٭٭٭

کسی کے مرمریں آئینے میں نمایاں ہیں
گھٹا ، بہار ، دَھنک ، چاند ، پھول ، دیپ ، کلی

کسی کا غمزہ شرابوں سے چُور قوسِ قُزح
اَدا ، غُرُور ، جوانی ، سُرُور ، عِشوَہ گری

کسی کے شیریں لبوں سے اُدھار لیتے ہیں
مٹھاس ، شَہد ، رُطَب ، چینی ، قند ، مصری ڈَلی

کسی کے نور کو چندھیا کے دیکھیں حیرت سے
چراغ ، جگنو ، شرر ، آفتاب ، ’’پھول جھڑی‘‘

کسی کو چلتا ہُوا دیکھ لیں تو چلتے بنیں
غزال ، مورنی ، موجیں ، نُجُوم ، اَبر ، گھڑی

کسی کی مدھ بھری آنکھوں کے آگے کچھ بھی نہیں
تھکن ، شراب ، دَوا ، غم ، خُمارِ نیم شبی

کسی کے ساتھ نہاتے ہیں تیز بارِش میں
لباس ، گجرے ، اُفق ، آنکھ ، زُلف ، ہونٹ ، ہنسی

کسی کا بھیگا بدن ، گُل کھلاتا ہے اَکثر
گلاب ، رانی ، کنول ، یاسمین ، چمپا کلی

بشرطِ ’’فال‘‘ کسی خال پر میں واروں گا
چمن ، پہاڑ ، دَمن ، دَشت ، جھیل ، خشکی ، تری

یہ جام چھلکا کہ آنچل بہار کا ڈَھلکا
شریر ، شوشہ ، شرارہ ، شباب ، شر ، شوخی

کسی کی تُرش رُوئی کا سبب یہی تو نہیں؟
اَچار ، لیموں ، اَنار ، آم ، ٹاٹری ، اِملی

کسی کے حُسن کو بن مانگے باج دیتے ہیں
وَزیر ، میر ، سپاہی ، فقیہہ ، ذوقِ شہی

نگاہیں چار ہُوئیں ، وَقت ہوش کھو بیٹھا
صدی ، دَہائی ، برس ، ماہ ، روز ، آج ، اَبھی

وُہ غنچہ یکجا ہے چونکہ وَرائے فکر و خیال!
پلک نہ جھپکیں تو دِکھلاؤں پتّی پتّی اَبھی؟

٭٭٭

سیاہ زُلف: گھٹا ، جال ، جادُو ، جنگ ، جلال
فُسُوں ، شباب ، شکارَن ، شراب ، رات گھنی

جبیں: چراغ ، مقدر ، کشادہ ، دُھوپ ، سَحَر
غُرُور ، قہر ، تعجب ، کمال ، نُور بھری

ظریف اَبرُو: غضب ، غمزہ ، غصہ ، غور ، غزل
گھمنڈ ، قوس ، قضا ، عشق ، طنز ، نیم سخی

پَلک: فسانہ ، شرارت ، حجاب ، تیر ، دُعا
تمنا ، نیند ، اِشارہ ، خمار ، سخت تھکی

نظر: غزال ، محبت ، نقاب ، جھیل ، اَجل
سُرُور ، عشق ، تقدس ، فریبِ اَمر و نہی

نفیس ناک: نزاکت ، صراط ، عدل ، بہار
جمیل ، سُتواں ، معطر ، لطیف ، خوشبو رَچی

گلابی گال: شَفَق ، سیب ، سرخی ، غازہ ، کنول 
طلسم ، چاہ ، بھنور ، ناز ، شرم ، نرم گِری

دو لب: عقیق ، گُہر ، پنکھڑی ، شرابِ کُہن
لذیذ ، نرم ، ملائم ، شریر ، بھیگی کلی

نشیلی ٹھوڑی: تبسم ، ترازُو ، چاہِ ذَقن
خمیدہ ، خنداں ، خجستہ ، خمار ، پتلی گلی

گلا: صراحی ، نوا ، گیت ، سوز ، آہ ، اَثر
ترنگ ، چیخ ، ترنم ، ترانہ ، سُر کی لڑی

ہتھیلی: ریشمی ، نازُک ، مَلائی ، نرم ، لطیف
حسین ، مرمریں ، صندل ، سفید ، دُودھ دُھلی

کمر: خیال ، مٹکتی کلی ، لچکتا شباب
کمان ، ٹوٹتی اَنگڑائی ، حشر ، جان کنی

پری کے پاؤں: گلابی ، گداز ، رَقص پرست
تڑپتی مچھلیاں ، محرابِ لب ، تھرکتی کلی

https://vimeo.com/152557662

لڑكيوں كا ختنہ


لڑكيوں كا ختنہ كرنا، اور بعض ڈاكٹروں كا اسے تسليم نہ كرنا
ہم نے بہت سے ڈاكٹر حضرات سے سنا ہے كہ وہ لڑكيوں كا ختنہ كرنا تسليم نہيں كرتے، اور كہتے ہيں كہ ختنہ كرنا ان كے ليے جسمانى اور نفسى كمزورى كا باعث بنتا ہے، اور ختنہ كرنا ايك موروثى عادت ہے شريعت ميں اس كى كوئى اصل نہيں، اس كے متعلق آپ كى رائے كيا ہے ؟
Published Date: 2007-08-13
الحمد للہ:

اول:

ختنہ كرنا موروثي اور خاندانى عادت نہيں جيسا كہ بعض لوگوں دعوى كرتے ہيں، بلكہ يہ تو شريعت رباني ہے اور ختنہ كى مشروعيت پر علماء كرام متفق ہيں، ہمارے علم كے مطابق تو مسلمانوں ميں سے كوئى عالم دين بھى ايسا نہيں جو ختنہ كو غير مشروع قرار ديتا ہو.
ختنہ مشروع ہونے كى دليل رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح احاديث كا ثبوت ہے جن ميں سے چند ايك ذيل ميں بيان كى جاتى ہيں:
1 - امام بخارى اور امام مسلم رحمہ اللہ نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" پانچ اشياء فطرتى ہيں: ختنہ كرانا، اور زيرناف بال مونڈنا، اور بغلوں كے بال اكھيڑنا، اور ناخن تراشنا، اور مونچھيں كاٹنا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 5889 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 257 ).
يہ حديث عورتوں اور مردوں كے ختنہ كو عام ہے.
2 - امام مسلم رحمہ اللہ نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب مرد عورت كى چار شاخوں كے مابين بيٹھ جائے اور ختنہ ختنے كے ساتھ لگ جائے تو غسل واجب ہو جاتا ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 349 ).
اس حديث ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دو ختنوں كا ذكر كيا ہے؛ يعنى ايك ختنہ بيوى كا اور ايك ختنہ خاوند كا؛ جو اس كى دليل ہے كہ عورت بھى اسى طرح ختنہ كروائےگى جس طرح مرد ختنہ كرواتا ہے.
- ابو داود رحمہ اللہ نے انصار قبيلہ كى ام عطيہ رضى اللہ تعالى عنہا سے بيان كيا ہے كہ مدينہ شريف ميں ايك عورت ختنہ كيا كرتى تھى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے فرمايا:
" تم بالكل جڑ سے ہى نہ كاٹو، كيونكہ يہ عورت كے ليے زيادہ بہتر اور خاوند كو بہت محبوب ہے. "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 5271 ).
ليكن اس حديث كے متعلق علماء كرام كا اختلاف ہے بعض علماء اسے ضعيف قرار ديتے ہيں، اور بعض اسے صحيح مانتے ہيں، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے بھى صحيح سنن ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
مندرجہ بالا احاديث كى بنا پر عورتوں كا ختنہ كرنا مشروع ہے، نہ كہ اس مختلف فيہ حديث كى بنا پر.
ليكن اس كے حكم كے متعلق علماء كرام سے تين قسم كے قول منقول ہيں:

پہلا قول:

مرد اور عورت دونوں كے ليے ختنہ كرانا واجب ہے، شافعى اور حنبلى حضرات كا مسلك يہى ہے، اور قاضى ابو بكر بن عربى مالكى نے بھى يہى قول اختيار كيا ہے.
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
ہمارے نزديك مرد و عورت دونوں كے ليے ختنہ كرانا واجب ہے، اور بہت سے سلف كا بھى يہى قول ہے، خطابى رحمہ اللہ نے ايسے ہى بيان كيا ہے، اور ختنہ واجب كہنے والوں ميں امام احمد بھى شامل ہيں... اور مشہور اور صحيح مذہب جو امام شافعى نے بيان كيا اور جمہور علماء نے بھى اسے قطعى كہا ہے كہ مرد و عورت دونوں كے ليے واجب ہے " انتہى.
ديكھيں: المجموع للنووى ( 1 / 367 ).
مزيد تفصيل كے ليے ديكھيں: فتح البارى ( 10 / 340 ) اور كشاف القناع ( 1 / 80 ).

دوسرا قول:

مرد اور عورت دونوں كے ليے ختنہ كرانا سنت ہے، احناف، اور مالكيہ كا مسلك يہى ہے، اور امام احمد كى ايك روايت بھى يہى ہے.
ابن عابدين حنفى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور السراج الوھاج كى كتاب الطہارۃ ميں لكھا ہے كہ:
يہ علم ميں رہے كہ ہمارے ہاں ـ يعنى احناف كے ہاں ـ مردوں اور عورتوں كے ليے ختنہ كرانا سنت ہے " انتہى.
ديكھيں: حاشيۃ ابن عابدين ( 6 / 751 )، اور مواھب الجليل ( 3 / 259 ).

تيسرا قول:

مردوں كے ليے ختنہ كرانا واجب ہے، اور عورتوں كے ليے ختنہ كرانا مستحب اور ان كى عزت كا باعث ہے، يہ امام احمد كا تيسرا قول ہے، اور بعض مالكى حضرات مثلا سحنون كا بھى يہى قول ہے، اور موفق ابن قدامہ رحمہ اللہ نے المغنى ميں بھى اسے ہى اختيار كيا ہے.
ديكھيں: التمھيد ( 21 / 60 ) اور المغنى ( 1 / 63 ).
مستقل فتوى كميٹى كا فتوى ہے:
مرد اور عورت كے ليے ختنہ كرانا فطرتى سنت ميں سے ہے، ليكن مرد حضرات كے ليے ختنہ كرانا واجب ہے، اور عورتوں كے حق ميں ختنہ كرانا سنت اور باعث عزت ہے. اھـ
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 113 ).
اس سے يہ واضح ہوا كہ فقھاء اسلام مرد و عورت كے ليے ختنہ كرانے كى مشروعيت پر متفق ہيں، بلكہ ان ميں اكثر تو دونوں كے ليے ختنہ كرانا واجب قرار ديتے ہيں، كسى ايك فقيہ نے بھى ختنہ نہ كرانے يا مكروہ يا حرام نہيں كہا.

دوم:

رہا يہ كہ كچھ ڈاكٹر حضرات ختنہ كا انكار كرتے ہيں، اور ان كا يہ دعوى ہے كہ ختنہ كرانا جسم اور نفس كے ليے مضر ہے!!
ان كا يہ انكار صحيح نہيں، ہميں ـ مسلمانوں كو ـ كسى بھى چيز كے ثبوت كے ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہونا ہى كافى ہے تا كہ ہم اس پر عمل پيرا ہو سكيں، اور پھر ہمارا تو اس كے مفيد ہونے كا بھى يقين ہے، اور ہم يہ پختہ يقين ركھتے ہيں كہ اس ميں كوئى ضرر اور نقصان نہيں، كيونكہ اگر اس ميں كوئى نقصان اور ضرر ہوتا نہ تو اللہ تعالى اسے مشروع كرتا اور نہ ہى رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس كا حكم ديتے.
[23:34, 29/4/2016] +91 98903 94434: سوال نمبر ( 45528 ) كے جواب ميں كچھ طبى فوائد بيان كيے گئے ہيں جو بعض ڈاكٹر حضرات كى طرف سے بيان ہوئے ہيں.

سوم:

ذيل كى سطور ميں ہم عورت كا ختنہ كرنا صحت كے ليے مضر اور نقصان دہ كہنے اور ختنہ كے خلاف محاذ كھولنے والوں كے خلاف معاصر علماء ميں سے كچھ علماء كے فتوى جات پيش كرتے ہيں جنہوں نے ختنہ كے خلاف جنگ كا دندان شكن جواب ديا ہے.
ازہر يونيورسٹى كے سابقہ شيخ الازھر جاد الحق على جاد الحق كہتے ہيں:
" يہاں سب مذاہب كے فقھاء كرام اس پر متفق ہيں كہ مرد و زن كے ليے ختنہ كرانا اسلامى فطرت اور دين اسلام كے شعائر ميں شامل ہوتا ہے، اور يہ عمل قابل ستائش و تعريف ہے، ہمارے سامنے جو بھى كتب موجود ہيں جن كا ہم مطالعہ كر چكے ہيں ان ميں يہ نہيں ہے كہ كسى بھى مسلمان فقيہ نے يہ كہا ہو كہ مردوں يا عورت كو ختنہ نہيں كرانا چاہيے، يا ختنہ كرانا ناجائز ہے، يا عورتوں كے ليے ختنہ كرانا نقصان دہ ہے، اور اس ميں ضرر پايا جاتا ہے.
اگر يہ ختنہ اس طرح كيا جائے جس طرح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اوپر كى سطور ميں بيان كردہ روايت ميں ام حبيبہ رضى اللہ تعالى عنہا كو سكھايا تھا " ....
پھر اس كے بعد شيخ جاد الحق كہتے ہيں:
" مندرجہ بالا سطور كى بنا پر جب يہ واضح ہو چكا ہے كہ لڑكيوں كا ختنہ كرانا ـ بحث كا موضوع ـ اسلام كى فطرت ميں شامل ہے، اور اس كا طريقہ بھى وہى ہے جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بيان فرمايا ہے، اس ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا طريقہ اور ان كى سنت اور راہنمائى كو كسى اور شخص كے قول كى بنا پر ترك نہيں كيا جائيگا، چاہے وہ شخص كتنا بڑا اور ماہر ڈاكٹر ہى كيوں نہ ہو، كيونكہ طب اور ميڈيكل ايك علم اور فن ہے، جس ميں تطور و ترقى ہوتى رہتى ہے، اور ہر وقت اس كے متعلق نظريات ميں بھى تبديلى اور تغير آتا رہتا ہے " انتہى. مختصرا.
اور ازھر يونيورسٹى كى فتوى كميٹى كے سابقہ چئرمين جناب شيخ عطيہ صقر كہتے ہيں:
" وبعد:
لڑكيوں كے ختنہ كے خلاف جو آوازيں اٹھائى جارہى ہيں وہ شريعت اسلاميہ كے مخالف ہيں؛ كيونكہ نہ تو قرآن و سنت ميں كوئى صريح نص پائى جاتى ہے جس سے لڑكيوں كے ختنہ كرنے كى حرمت ثابت ہوتى ہو، اور نہ ہى فقھاء كرام كا كوئى قول ہے، اس ليے لڑكيوں كا ختنہ كرنا وجوب اور مندوب كے مابين گردش كرتا ہے، اور پھر فقھى قاعدہ ہے كہ:
حكمران اختلاف كرنے كا حكم دے. اس ليے اس مسئلہ ميں حكمران كو چاہيے كہ وہ يا تو وجوب كا حكم دے يا پھر مندوب ہونے كا، ليكن اس كے ليے ناجائز اور حرمت كا حكم دينا صحيح نہيں، تا كہ وہ شريعت اسلاميہ كا مخالف نہ ہو، كيونكہ اسلامى ممالك ميں شريعت اسلاميہ ہى قوانين كا مصدر اور اس ملك كا دستور ہے.
اور يہ جائز ہے كہ واجب اور مندوب كو اچھى طرح ادا كرنے كے ليے قوانين و تحفظات رائج كيے جائيں، تا كہ وہ دينى قوانين اور فيصلوں كے ساتھ متصادم نہ ہوں.
اور پھر ڈاكٹر حضرات يا كسى اور كى كلام قطعى نہيں، اس ليے كہ علمى انكشافات كا دروازہ كھلا ہے، اور ہر روز كوئى نہ كوئى نئى ريسرچ سامنے آتى ہے، جو پہلے نظريہ كو كالعدم اور تبديل كرنے پر مجبور كر رہى ہے" انتہى بتصرف.
مصرى دار الافتاء كے فتاوى جات ميں درج ذيل فتوى مذكور ہے:
اس سے لڑكيوں كے ختنہ كى مشروعيت واضح ہوتى ہے، اور يہ ثابت ہوتا ہے كہ لڑكيوں كا ختنہ كرنا فطرتى محاسن ميں سے ہے، اور اس كا زندگى پر اچھا اثر پڑتا ہے اور اسے اعتدال كى راہ پر لے جاتا ہے.
رہا يہ مسئلہ كہ كچھ ڈاكٹروں كى رائے ميں لڑكى كا ختنہ كرنا صحت كے ليے مضر اور نقصان دہ ہے تو يہ فردى رائے تو ہو سكتى ہے جس كى كوئى متفق عليہ علمى اساس و بنياد نہيں، اور نہ ہى يہ ايك فيصلہ كن علمى نظريہ بن سكا ہے، حالانكہ ڈاكٹر حضرات اس بات كے معترف ہيں كہ ختنہ شدہ مرد حضرات ميں سرطان كى بيمارى بہت كم پائى جاتى ہے اس كے مقابلہ ميں جن كا ختنہ نہيں ہوا انہيں يہ بيمارى بہت زيادہ لگتى ہے.
اور بعض ڈاكٹر حضرات تو صراحتا يہ كہتے ہيں كہ صرف مرد ڈاكٹروں سے ہى ختنہ كرايا جائے، نہ كہ ليڈى ڈاكٹر سے كيونكہ وہ اس سے جاہل ہيں، تا كہ ختنہ اچھى اور صحيح طرح ہو اور صحت پر اس كا كوئى نقصان نہ ہو.
اور پھر بيماريوں كے متعلق ميڈيكل نظريات اور بيماريوں كے علاج كا كوئى مستقل اور ايك ہى طريقہ نہيں، بلكہ وقت اور حالات اور ريسرچ كے ساتھ ساتھ اس ميں تبديلى ہوتى رہتى ہے، اس ليے ختنہ كے انكار كى رائے پر اعتماد نہيں كرنا چاہيے، اس ليے كہ شارع جو كہ حكيم و عليم بھى ہے اور اس نے وہى چيز مشروع كى ہے جو فطرت انسانى كے ليے صحيح اور سليم اور بہتر ہے.
اور پھر ہميں تجربات نے يہ سكھا ديا ہے كہ لمبا وقت اور زمانہ گزرنے كے ساتھ ساتھ حادثات ہمارے سامنے وہ حكمتيں واضح كر ديتا ہے جس كى بنا پر شارع نے ہمارے ليے وہ احكام مشروع كيے تھے اور ہمارے ليے وہ حكمت مخفى رہى اور اس كا علم نہ ہوا، اور سنن ميں سے ہمارى اس كى جانب راہنمائى فرمائى.
اللہ تعالى ہم سب كو رشد و ہدايت كى توفيق نصيب فرمائے.
ديكھيں: فتاوى دار الافتاء المصريۃ ( 6 / 1986 ).
واللہ اعلم .


45528: لڑكيوں كا ختنہ كرنے كے طبى فائدے


ميرى گزارش ہے كہ لڑكيوں كے ختنہ كرنے كے طبى فائدہ بيان كريں ؟
Published Date: 2007-04-21

الحمد للہ:
اللہ سبحانہ وتعالى نے جيسے مخلوق كو پيدا فرمايا ہے تو ان كے ليے دينى و دنياوى امور ميں سے جو ان كے ليے بہتر ہے اور جس ميں ان كى اصلاح ہے وہ بھى اپنے ذمہ لے ركھے ہيں، اسى ليے اللہ تعالى نے رسول مبعوث كيے اور كتابيں نازل فرمائيں تا كہ انسانوں كو خير و بھلائى كى طرف راہنمائى كى جائے، اور انہيں خير و بھلائى كرنے پر ابھارا جائے، اور انہيں شر و برائى كا بھى علم ہو تا كہ وہ اس سے اجتناب كر سكيں.
اور بعض اوقات ايسا بھى ہو سكتا ہے كہ شريعت مطہرہ انہيں كسى چيز كا حكم دے، يا پھر كسى كام سے اجتناب كرنے كا كہے، ليكن لوگوں كے ليے يا پھر اكثر افراد كے ليے اس حكم اور ممانعت كى حكمت ظاہر نہ ہو تو اس وقت ہميں اللہ تعالى كے حكم كے سامنے سرخم تسليم كرتے ہوئے اس پر علم كرينگے، اور جس چيز سے اجتناب كرنے كا كہا گيا ہے اس سے رك جائينگے، اور ہميں يہ يقين ركھنا ہوگا كہ اللہ تعالى كى شريعت ميں ہى ہر قسم كى خير ہے، چاہے اس كى حكمت ہمارے ليےظاہر نہ بھى ہو.
ختنہ كرنا فطرتى سنت ميں شامل ہوتا ہے، جيسا كہ اس كى دليل رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے درج ذيل فرمان ميں بھى ہے:
" پانچ چيزيں فطرتى ہيں، يا پانچ اشياء فطرت ميں شامل ہيں: ختنہ كرنا، زيرناف بال مونڈنا، بغلوں كے بال اكھيڑنا، اور ناخن تراشنا، اور مونچھيں كاٹنا "
صحيح بخارى حديث نمبر( 5550 )صحيح مسلم حديث نمبر ( 257)
بلاشك و شبہ فطرتى سنتوں ميں شامل سب امور ايسے ہيں جن كى مشروعيت كى بعض حكمتيں ظاہر ہو چكى ہيں، اور ختنہ بھى انہيں امور ميں شامل ہے اس كے كچھ اہم فوائد ظاہر ہو چكے ہيں جو قابل انتباہ ہيں اور ان سے شريعت كى حكمت بھى معلوم ہوتى ہے.
سوال نمبر ( 9412 ) كے جواب ميں ہم ختنہ اور اس كى كيفيت اور ختنہ كے احكام كے متعلق بيان كر چكے ہيں، اور سوال نمبر ( 7073 ) كے جواب ميں ختنہ كرنے كے شرعى اور طبى فوائد بيان ہوئے ہيں آپ ان دونوں سوالات كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
مرد اور عورت دونوں كے حق ميں ختنہ كرنا مشروع ہے، اور صحيح يہى ہے كہ مرد كا ختنہ كرنا واجب اور دين اسلام كے شعار ميں شامل ہوتا ہے، اور عورتوں كا ختنہ كرنا مستحب ہے واجب نہيں.
سنت نبويہ ميں ايسے دلائل ملتے ہيں جو عورتوں كے ختنہ پر دلالت كرتے ہيں، چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں مدينہ ميں ايك عورت ختنہ كيا كرتى تھى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے فرمايا:
" تم بالكل ہى جڑ سے نہ كاٹنا، كيونكہ يہ عورت كے ليے زيادہ مفيد اور خاوند كو زيادہ پسنديدہ ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 5271 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور پھر عورتوں كے ليے ختنہ كى مشروعيت كوئى بيكار اور عبث كام نہيں، بلكہ اس كى كئى ايك حكمتيں اور بہت عظيم فوائد ہيں.
ڈاكٹر حامد غزالى ان ميں سے بعض فوائد بيان كرتے ہوئے كہتے ہيں:
.... " ان چمڑے كى پتلى دو جھليوں ميں كئى قسم كى گندگى اكٹھى ہو كر جم جاتى ہے اور اس سے كريہہ اور گندى قسم كى بدبو آنے لگتى ہے اور بعض اوقات تو يہ رحم يا پيشاب كى نالى ميں جلن كا باعث بنتى ہے، ميں نے بہت سے مرضى حالات ديكھے ہيں جن كا سبب ختنہ نہ كروانا ہے.
ـ بعض اوقات ختنہ والى جگہ ( كلغى ) بہت زيادہ بڑھ جاتى ہے جس كى لمبائى تقريبا تين سينٹى ميٹر تك جا پہنچتى ہے، جو كہ خاوند كے ليے جماع كرتے وقت بہت تشويش پيدا كرتى ہے، اس ليے عورت كا ختنہ كرنے سے اس كى حساسيت بہت تك كم ہو جاتى ہے.
ختنہ كرنے كا فائدہ يہ بھى ہے كہ: ختنہ كرنے سے ختنہ كے بڑھاؤ كو روكا جا سكتا ہے، جو كہ عورت كے ليے تكليف دہ ہوتا ہے، اور بعض اوقات تو وہاں درد بھى ہوتى رہتى ہے.
عورت كا ختنہ كرنے سے عورت كو نسائى مرض لگنے كا خطرہ كم ہوتا ہے.
ـ ختنہ كرنے سے عورت كو شديد قسم كى شہوت ميں كمي كرتا ہے جو كہ ختنہ والى جگہ ميں ہيجان پيدا ہونے كى شكل ميں پيدا ہوتا ہے، اور حركت كرنے سے ہى ہيجان كى شكل پيدا ہو جاتى ہے، جس كا علاج بہت مشكل ہے.
بعض لوگ كہتے ہيں كہ: عورتوں كا ختنہ كرنا عورت سے جنسى ميلان ختم اور اسے ٹھنڈا كرنے كا باعث بنتا ہے؟
اس كے رد ميں ڈاكٹر الغوابى كہتے ہيں:
" جنسى ميلان اور خواہش كا ٹھنڈا پڑنے كے بہت سے اسباب ہيں، اور يہ دعوى ختنہ اور غير ختنہ والى عورتوں كے مابين كسى صحيح سرچ پر مشتمل نہيں ہے، الا يہ كہ ختنہ فرعونى طريقہ سے كيا جائے يعنى اسے جڑ سے ہى كاٹ ديا جائے تو ايسا كرنے سے حقيقتا جنسى خواہش ٹھنڈى پڑ جاتى ہے.
ليكن يہ كام اس ختنہ كے بالكل الٹ اور مخالف ہے جس كا نبى رحمت رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حكم ديتے ہوئے فرمايا تھا:
" تم اسے بالكل ہى ختم نہ كر دينا " يعنى اسے جڑ سے ہى مت كاٹ دو، اكيلى يہى نشانى خود ہى بول رہى ہے كہ ايسا نہيں، چنانچہ طب نے اس حساس عضو ( كلغى ) سے بارہ ميں طب نے كچھ بھى ظاہر نہيں كيا، اور نہ ہى اس ميں پائے جانے والے اعصاب كے متعلق شرح واضح ہوئى ہے.
ماخوذ از: ميگزين: لواء الاسلام عدد نمبر ( 7 ) اور ( 10 ) مضمون بعنوان ( لڑكيوں كا ختنہ ).
ليڈى ڈاكٹر ست البنات خالد اپنے مضمون " ختان البنات رؤيۃ صحيحۃ " لڑكيوں كا ختنہ ايك حقيقت ميں كہتى ہے:
ہمارے عالم اسلامى ميں ہم عورتوں كا ختنہ كرنا ہر چيز سے قبل تو شريعت مطہرہ كے سامنے سرخم تسليم كرنا اور اس پر عمل ہے، كيونكہ اس ميں ہى فطرت اور سنت نبويہ پر عمل پيرا ہونا ہے جس نے ايسا كرنے كى ترغيب دى اور ابھارا ہے.
اور ہم سب اپنى شريعت حنيفہ كى دور بينى كو جانتے ہيں، اور جو كام بھى ضرورى ہے اس ميں ہر ناحيہ اور اعتبار سے خير و بھلائى ہى ہے، جس ميں صحت كے اعتبار سے بھى فائدہ ہے، چاہے اس كا فائدہ فى الحال نظر نہيں آتا ليكن آئندہ مستقبل اور آنے والے ايام ميں اس كے فوائد ضرور ظاہر ہونگے، جيسا كہ مردوں كے ختنہ كرنے كے متعلق كئى ايك فوائد ظاہر ہو چكے ہيں، اور دنيا كو اس كے فوائد كا علم ہو چكا ہے، جس كى بنا پر مردوں كا ختنہ كرنا سارى دنيا اور سارى امتوں ميں منتشر اور پھيل چكا ہے حالانكہ بعض گروپ اس كى مخالفت بھى كرتے ہيں، ليكن پھر بھى ان كے ہاں ختنہ كيا جاتا ہے.
پھر ڈاكٹر صاحبہ عورتوں كے ختنہ كرنے كے كچھ صحت كے فائدے بيان كرتى ہوئى كہتى ہيں:
ـ عورتوں ميں اس كى بنا پر شہوت كى شدت اور اس ميں زيادتى ختم ہو جاتى ہے.
ـ قلفہ ( كلغى ) كے نيچے مختلف قسم كا گندہ مادہ جمع ہونے كى بنا پر پيدا ہونے والى كريہہ اور گندى قسم كى بدبو كا خاتمہ ہو جاتا ہے.
ـ پيشاب كى ناليوں ميں جلن بہت حد تك كمى واقع ہو جاتى ہے.
ـ تناسلى ناليوں ميں جلن كى كافى حد تك كمى ہوجاتى ہے.
ماخوذ از: كتاب الختان تاليف ڈاكٹر محمد على البار.
اور كتاب " عورتوں اور بچوں پر اثرانداز ہونے والى عادات " جسے عالمى صحت كميٹى نے ( 1979 ) ميں جارى كيا تھا ميں درج ذيل بيان ہے:
" عورتوں كى زندگى ميں اصل آسودگى اور فراخى تو قلفہ ( كلغى ) كے كاٹنے سے ہوتى ہے، اور يہ مردوں كے ختنہ كرنے كے مشابہ ہے.... يہ ايسى قسم ہے جس كے صحت پر كوئى مضر اثرات بيان نہيں كيے جاتے "
واللہ اعلم .

ایصال ثواب

السلام علیکم ورحمہ اللہ ۔۔۔
غیر مقلدین ایصال ثواب کا انکار کرتے ہیں 
ہماری طرف کیا کیا دلائل دیے جاسکتے ہیں ؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب حامداً و مصلیاً
ایصالِ ثواب فی نفسہ جائز اور باعثِ اجر و ثواب ہے،لیکن اس کے لئے کوئی خاص طریقہ یا دن یا وقت یا اجتماعی کیفیت شرعاًمقررنہیں،بلکہ ہرشخص انفرادی طورپرکوئی بھی نفل عبادت کرکےایصالِ ثواب کرسکتاہے، مثلاًنفل نمازیں،نفل روزے،نفل حج و عمرہ،قرآنِ کریم کی تلاوت،تسبیحات،کلمۂ طیبہ پڑھ کریا حسبِ توفیق نقدرقم یاکھاناوغیرہ صدقہ خیرات کرکے یا تعمیر ِ مساجد ،دینی مدارس یا دینی و مذہبی کتابوں کی فی سبیل اللہ اشاعت کرکے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے کہ اے اللہ میرے اس عمل کاجو کچھ ثواب آپ نے مجھے عطا فرمایا ہے وہ ثواب فلاں شخص کوپہنچادیجئے،بس اس سےمرحوم کو ثواب پہنچ جائے گا،ایصالِ ثواب کی حقیقت شریعت میں فقط اتنی ہی ہے ۔

آجکل ایصالِ ثواب کے لئے جو مختلف رسمیں اور صورتیں مثلاً تیجہ ( سوئم ) ، دسواں ، چالیسواں ، سالانہ عُرس، جمعرات کو جمع ہونا وغیرہ کی شکل میں یا اجتماعی قرآن خوانی کی صورت میں یا مروّجہ ختم کی صورت میں رائج ہو گئی ہیں، یہ سب بدعت اور ناجائز ہیں، ان رواجی طریقوں میں شرکت کرنےاورکھاناکھانے سے اجتناب کیاجائےبالخصوص اگر میت کے ترکہ میں سے خیرات کی گئی ہواورورثاء میں بعض نابالغ ہوں یا ورثاء عاقل بالغ ہوں لیکن ان کی دلی رضامندی کے بغیر یہ خیرات کی گئی ہوتواس کا کھاناہرگزجائز نہیں۔

=========================================
حاشية ابن عابدين - (6 / 56)
فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا يجوز لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال فإذا لم يكن للقارىء ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان بل جعلوا القرآن العظيم مكسبا ووسيلة إلى جمع الدنيا . إنا لله وإنا إليه راجعون
=========================================
عمدة الرعاية بتحشية شرح الوقاية-لإمام عبد الحي اللكنوي - (9 / 108)
فالحاصل أنَّ ما شاعَ في زماننا من قراءةِ الأجزاءِ بالأجرةِ لا يجوز؛ لأنَّ فيه الأمرَ بالقراءة، وإعطاءُ الثواب للآمر، والقراءةُ لأجلِ المال، فإذا لم يمكن للقارئ ثوابٌ لعدمِ النيّة الصحيحةِ فأين يصلُ الثوابُ إلى المستأجر، ولولا الأجرةَ ما قرأ أحدٌ لأحدٍ في هذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظيم مكسباً ووسيلةً إلى جمع الدنيا، إنّا لله وإنّا إليه راجعون. انتهى.
=========================================
 عمدة الرعاية بتحشية شرح الوقاية-لإمام عبد الحي اللكنوي - (9 / 108)
وقال الشيخ خيرُ الدين الرمليُّ في ((حاشية البحر)) في (كتاب الوقف): 
أقول: المفتي به جوازُ الأخذِ استحساناً على تعليمِ القرآن لا على القراءةِ المجرَّدة. كما صرَّح به في ((التاتارخانية)) حيث قال: لا معنى لهذه الوصيّة، ولصلة القارئ بقراءته؛ لأنَّ هذا بمنْزلةِ الأجرة، والإجارةُ في ذلك باطلة، وهي بدعة، ولم يفعلها أحدٌ من الخلفاء
=========================================
حاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (2 / 240)
وَيُكْرَهُ اتِّخَاذُ الطَّعَامِ فِي الْيَوْمِ الْأَوَّلِ وَالثَّالِثِ وَبَعْدَ الْأُسْبُوعِ وَنَقْلُ الطَّعَامِ إلَى الْقَبْرِ فِي الْمَوَاسِمِ، وَاِتِّخَاذُ الدَّعْوَةِ لِقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ وَجَمْعُ الصُّلَحَاءِ وَالْقُرَّاءِ لِلْخَتْمِ أَوْ لِقِرَاءَةِ سُورَةِ الْأَنْعَامِ أَوْ الْإِخْلَاصِ. وَالْحَاصِلُ أَنَّ اتِّخَاذَ الطَّعَامِ عِنْدَ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ لِأَجْلِ الْأَكْلِ يُكْرَهُ
=========================================
تلبيس إبليس (1 / 283 دار الفكر)
المسنون أن يتخذ لأهل الميت طعاما لاشتغالهم بالمصيبة عن إعداد الطعام لأنفسهم وليس من السنة أن يتخذه أهل الميت ويطعمونه إلى غيرهم .
=========================================
مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (2 / 755)
قال الطيبي: وفيه أن من أصر على أمر مندوب، وجعله عزما، ولم يعمل بالرخصة فقد أصاب منه الشيطان من الإضلال فكيف من أصر على بدعة أو منكر؟
=========================================
كتاب الاعتصام للشاطبي - (1 / 22)
ومنها : التزام الكيفيات والهيئات المعينة ، كالذكر بهيئة الاجتماع على صوت واحد واتخاذ يوم ولادة النبي صلى الله عليه وسلم عيداً، وما أشبه ذلك .
ومنها : التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة ، كالتزام صيام يرم النصف من شعبان وقيام ليلته
=========================================
الفتاوى الهندية - (1 / 136)
وأما إذا سجد بغير سبب فليس بقربة ولا مكروه وما يفعل عقيب الصلوات مكروه؛ لأن الجهال يعتقدونها سنة أو واجبة وكل مباح يؤدي إليه فمكروه، هكذا في الزاهدي.
=========================================
تنقيح الفتاوى الحامدية - (2/367)
كل مباح يؤدي إلى زعم الجهال سنية أمر أو وجوبه فهو مكروه.
=========================================
السعاية - (2/265)
الاصرار علی المندوب یبلغه الی حد الکراهة.
=========================================
کتبہ محمد مصروف

مرحومین کو ایصالِ ثواب کے مسئلے میں چند اُمور پیشِ خدمت ہیں، آپ ان کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ 
۱:… مرحومین کے لئے، جو اس دُنیا سے رُخصت ہوچکے ہیں، زندوں کا بس یہی ایک تحفہ ہے کہ ان کو ایصالِ ثواب کیا جائے۔ حدیث میں ہے کہ ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض پیرا ہوا: یا رسول اللہ! میرے والدین کی وفات کے بعد بھی ان کے ساتھ حسنِ سلوک کی کوئی صورت ہے، جس کو میں اختیار کروں؟ فرمایا: ہاں! ان کے لئے دُعا و اِستغفار کرنا، ان کے بعد ان کی وصیت کو نافذ کرنا، ان کے متعلقین سے صلہ رحمی کرنا، اور ان کے دوستوں سے عزّت کے ساتھ پیش آنا۔ (ابوداوٴد، ابنِ ماجہ، مشکوٰة ص:۴۲۰) 
ایک اور حدیث میں ہے کہ: کسی شخص کے والدین کا انتقال ہوجاتا ہے، یہ ان کی زندگی میں ان کا نافرمان تھا، مگر ان کے مرنے کے بعد ان کے لئے دُعا، اِستغفار کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنے ماں باپ کا فرماں بردار لکھ دیتے ہیں۔ (بیہقی شعب الایمان، مشکوٰة ص:۴۲۱) 
ایک اور حدیث میں ہے کہ: ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میری والدہ کا انتقال ہوگیا ہے، کیا اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو اس کے لئے مفید ہوگا؟ فرمایا: ضرور! اس نے عرض کیا کہ: میرے پاس باغ ہے، میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے وہ باغ اپنی والدہ کی طرف سے صدقہ کردیا۔ (ترمذی ص:۱۴۵) 


۲:… ایصالِ ثواب کی حقیقت یہ ہے کہ جو نیک عمل آپ کریں اس کے کرنے سے پہلے نیت کرلیں کہ اس کا ثواب جو حاصل ہو وہ اللہ تعالیٰ میّت کو عطا کرے، اسی طرح کسی نیک عمل کرنے کے بعد بھی یہ نیت کی جاسکتی ہے اور اگر زبان سے بھی دُعا کرلی جائے تو اچھا ہے۔ 
الغرض کسی نیک عمل کا جو ثواب آپ کو ملنا تھا، آپ وہ ثواب میّت کو ہبہ کردیتے ہیں، یہ ایصالِ ثواب کی حقیقت ہے۔ 


۳:… امام شافعی کے نزدیک میّت کو صرف دُعا اور صدقات کا ثواب پہنچتا ہے، تلاوتِ قرآن اور دیگر بدنی عبادت کا ثواب نہیں پہنچتا، لیکن جمہور کا مذہب یہ ہے کہ ہر نفلی عبادت کا ثواب میّت کو بخشا جاسکتا ہے۔ مثلاً: نفلی نماز، روزہ، صدقہ، حج، قربانی، دُعا و اِستغفار، ذکر، تسبیح، دُرود شریف، تلاوتِ قرآن وغیرہ۔ حافظ سیوطی لکھتے ہیں کہ شافعی مذہب کے محققین نے بھی اسی مسلک کو اختیار کیا ہے۔ اس لئے کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہر قسم کی عبادت کا ثواب مرحومین کو پہنچایا جاتا رہے، مثلاً: قربانی کے دنوں میں اگر آپ کے پاس گنجائش ہو تو مرحوم والدین یا اپنے دُوسرے بزرگوں کی طرف سے بھی قربانی کریں، بہت سے اکابر کا معمول ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہوسلم کی طرف سے بھی قربانی کرتے ہیں۔ اسی طرح نفل نماز، روزے کا ثواب بھی پہنچانا چاہئے، گنجائش ہو تو والدین اور دیگر بزرگوں کیطرف سے نفلی حج و عمرہ بھی کیا جائے۔ ہم لوگ چند روز مُردوں کو روپیٹ کر ان کو بہت جلد بھول جاتے ہیں، یہ بڑی بے مروّتی کی بات ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ قبر میں میّت کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص دریا میں ڈُوب رہا ہو، وہ چاروں طرف دیکھتا ہے کہ کیا کوئی اس کی دستگیری کے لئے آتا ہے؟ اسی طرح قبر میں میّت بھی زندوں کی طرف سے ایصالِ ثواب کی منتظر رہتی ہے، اور جب اسے صدقہ و خیرات وغیرہ کا ثواب پہنچتا ہے تو اسے اتنی خوشی ہوتی ہے گویا اسے دُنیا بھر کی دولت مل گئی۔ 


۴:… صدقات میں سب سے افضل صدقہ جس کا ثواب میّت کو بخشا جائے، صدقہٴ جاریہ ہے، مثلاً: میّتکے ایصالِ ثواب کے لئے کسی ضرورت کی جگہ کنواں کھدوادیا، کوئی مسجد بنوادی، کسی دینی مدرسہ میں تفسیر، حدیث یا فقہ کی کتابیں وقف کردیں، قرآنِ کریم کے نسخے خرید کر وقف کردئیے، جب تک ان چیزوں سے استفادہ ہوتا رہے گا، میّت کو اس کا برابر ثواب ملتا رہے گا۔ حدیث میں ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میری والدہ کا انتقال ہوگیا ہے، وہ مرنے سے پہلے وصیت نہیں کرسکیں، میرا خیال ہے کہ اگر انہیں موقع ملتا تو ضرور وصیت کرتیں، کیا اگر ان کی طرف سے صدقہکردوں تو ان کو پہنچے گا؟ فرمایا: ضرور! عرض کیا: کیا صدقہ کردوں؟ فرمایا: پانی بہتر ہے! حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ایک کنواں کھدوایا اور کہا کہ: یہ سعد کی والدہ کے لئے ہے۔ (صحیح بخاری) 

۵:… ایصالِ ثواب کے سلسلے میں یہ بات بھی یادرکھنے کی ہے کہ میّت کو اسی چیز کا ثواب پہنچے گا جو خالصتاً لوجہ اللہ دی گئی ہے، اس میں نمود و نمائش مقصود نہ ہو، نہ اس کی اُجرت اور معاوضہ لیا گیا ہو۔ ہمارے یہاں بہت سے لوگ ایصالِ ثواب کرتے ہیں، مگر اس میں نمود و نمائش کی ملاوٹ کردیتے ہیں، مثلاً: مرحومین کے ایصالِ ثواب کے لئے دیگ اُتارتے ہیں، اگر ان سے یہ کہا جائے کہ جتنا خرچ تم اس پر کر رہے ہو، اسی قدر رقم یا غلہ کسی یتیم، مسکین کو دے دو، تو اس پر ان کا دِل راضی نہیں ہوگا۔ اس لئے کہ چپکے سے کسییتیم، مسکین کو دینے میں وہ نمائش نہیں ہوتی جو دیگ اُتارنے میں ہوتی ہے۔ اس عرض کرنے کا یہ مقصدنہیں کہ کھانا کھلاکر ایصالِ ثواب نہیں ہوسکتا، 
بلکہ مقصد یہ ہے کہ جو حضرات ایصالِ ثواب کے لئے کھانا کھلائیں وہ نمود و نمائش سے احتیاط کریں، ورنہ ایصالِ ثواب کا مقصد انہیں حاصل نہیں ہوگا۔ 
اس سلسلے میں ایک بات یہ بھی یاد رکھنی چاہئے کہ ثواب اسی کھانے کا ملے گا جو کسی غریب مسکین نے کھایا ہو، ہمارے یہاں یہ ہوتا ہے کہ میّت کے ایصالِ ثواب کے لئے جو کھانا پکایا جاتا ہے اس کو برادری کے لوگ کھاپی کر چلتے بنتے ہیں، فقراء و مساکین کا حصہ اس میں بہت ہیکم لگتا ہے، کھاتے پیتے لوگوں کو ایصالِ ثواب کے لئے دیا گیا کھانا نہیں کھانا چاہئے۔ بعضعلماء نے لکھا ہے کہ جو شخص ایسے کھانے کامنتظر رہتا ہے اس کا دِل سیاہ ہوجاتا ہے۔ الغرض جو کھانا خود گھر میں کھالیا گیا، یا دوست احباب اور برادری کے لوگوں نے کھالیا اس سے ایصالِ ثواب نہیں ہوتا، مُردوں کو ثواب اسی کھانے کا پہنچے گا جو فقراء و مساکین نے کھایا ہو، اور جسپر خیرات کرنے والے نے کوئی معاوضہ وصول نہ کیا ہو، نہ اس سے نمود و نمائش مطلوب ہو۔ 

یہ ہیں صحیح طور پر ایصال ثواب کرنے کا طریقہ 
                                       
ایصال ثواب بدنی و مالی ہر دو عبادت کا کیا جاسکتا ہے؟

اھل سنت والجماعت کے نزدیک ہر قسم کی نفلی عبادت کا ثواب چاہے بدنی ہو یا مالی دوسرے کو پہنچایا  جا سکتا ہے .
صحیح بخاری & صحیح مسلم ودیگر کتب حدیث اور کتب فقہ میں یہ مسئلہ صاف اور واضح ہے...
حدیث شریف میں ہے
حضرت سعد بن عبادہ رض کی والدہ کا انتقال ایسے وقت میں ہوا کہ حضرت سعد رض وجود نہیں تھے (جب غزوہ سے واپس آئے) تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ یا رسول اللہ میری عدم موجودگی میں میری والدہ کا انتقال ہوا اگر میں انکی طرف سے صدقہ کردوں تو کیا وہ ان کے لئے فائدہ مند ھوگا .(اور ان کو ثواب پہونچے گا؟)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں پہونچےگا ....(صحیح بخاری, معارف الحدیث از احکام میت)

البتہ فرض کا ایصال ثواب کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ اس میں  اختلاف ہے 

احسن الفتاوی میں ہے 
والراجح الجواز نقل فی الشامیہ عن البحر لا فرق بین الفرض والنفل و عن جامع الفتاوی قیل لا یجوز فی الفرائض 

میت کو پہنچتا ہے؟

ہاں ضرور پہنچتا ہے کما مر.......
اور جو انکار کرتے ہیں جیسے معتزلہ ان کو پہونچانا بھی نہیں..... 

(کسی کو نظر نہ آئے تو اس کا اور اس کی آنکھ کا قصور ہے.چمگادر کو سورج سے گلہ نہیں کرنا چاہئے)


متعدد میتوں کو پہنچایا جائے تو سب کو یکساں برابر پہنچتا ہے یا  ایسا تقسیم ہوکر جیسا ۸ کو دو میں تقسیم کیا جاتا ہے؟

اس میں بھی دو قول ہے 
1) ہر ایک کو تقسیم ہوکر پہنچتا ہے....
2) ہر ایک کو پورا پورا پہنچتا ہے وسعت رحمت کا یہی تقاضہ ہے.اور بعض شوافع اسی کے قائل ہیں...

علامہ رشید احمد گنگوہی رح فرماتے ہیں 
میرے استاذوں کا قول ہے صحیح یہ ہے کہ ثواب تقسیم ہو کر پہنچتا ہے..نہ سب کو پورا پورا اور اس باب میں کوئ روایت حدیث کی صحیح نہیں ( فتاوی رشیدیہ)




کیا ثواب ایصال کرنے سے موصِل کو ثواب ملتا ہے؟ ملتا ہے تو کونسی نیکی کا؟

جی ہاں ملتا ہے 
اس کے ثواب میں سے کوئ کمی نہیں کی جاتی 

کیا زندہ کو ایصال ثواب کیا جاسکتا ہے؟

جی ہاں  زندوں کو بھی ایصال ثواب کیا جا سکتا ہے ........
کما فی کتاب الفتاوی وغیرہ...


واللہ تعالی اعلم وعلمہ اتم واحکم